Ansar Abbasi

Ansar Abbasi Official page of Ansar Abbasi, Editor Investigation, The News.

میرا گاؤں علیوٹ مری
16/07/2025

میرا گاؤں علیوٹ مری

16/07/2025

علیوٹ، مری

16/07/2025

Aliot, Murree

14/07/2025

شوبز کا فریب اور ٹوٹتے رشتے

انصار عباسی


دو شوبز خواتین کی حالیہ افسوس ناک موت نے ہمیں اجتماعی طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعات نہ صرف دل دہلا دینے والے ہیں بلکہ معاشرے کے کئی تلخ حقائق کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔ ایک طرف خاندانی نظام کو کمزور کرنے کے نتائج تو دوسری طرف شوبز کی چمکتی دمکتی دنیا کے پیچھے چھپا دھوکہ، تنہائی اور مصنوعی تعلقات کی تلخ سچائی سامنے آئی۔ پہلا واقعہ ایک سینئر اور پرانی اداکارہ عائشہ خان کے حوالے سے ہے، جنہیں ان کے فلیٹ سے ایک ہفتہ پرانی لاش کی حالت میں مردہ پایا گیا۔ یہ حقیقت ہی ہمارے سماجی رویوں پر سوالیہ نشان ہے کہ وہ ایک ہفتے تک وہ گھر میں مردہ پڑی رہیں لیکن نہ ان کے بیٹوں کو خبر ہوئی، نہ رشتہ داروں کو اور نہ ہی شوبز کے کسی دوست یا مداح نے ان کی کوئی خبر لی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ ایک وقت میں ملک کے مشہور چہروں میں سے تھیں، جنہیں لاکھوں افراد جانتے اور پسند کرتے تھے مگر موت کے بعد ان کی تنہائی کا عالم یہ تھا کہ اُن کے وجود کی خبر پڑوسیوں کو وہاں پھیلی بدبو کی شکایت پر ملی۔ دوسرا واقعہ تو اور بھی زیادہ دل دہلا دینے والا ہے۔ نوجوان اداکارہ حمیرا اصغر، جنکی لاش ان کے کرائے کے فلیٹ سےان کی موت کے 8 سے 10 ماہ بعد برآمد ہوئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق لاش بڑی حد تک گل سڑ چکی تھی۔ نہ کوئی ہڈی ٹوٹی، نہ کوئی تشدد کے نشانات، گویا وہ خاموشی سے مر گئیں اور دنیا کو خبر تک نہ ہوئی۔ افسوس کہ نہ گھر والوں نے تلاش کیا، نہ کسی دوستوں نے پوچھا۔ یہاں تک کہ جب لاش ملی تو پہلے والد نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حمیرا کی فیملی اُنکے شوبز میں آنے سے خوش نہ تھی اور اسی لیے ایک عرصہ سے آپس میں رابطہ بھی نہ تھا۔ کئی دن میڈیا کی خبروں کے بعد بھائی لاہور سے میت وصول کرنے کراچی پہنچا اور واپسی پرگھر کی بجائے سیدھا قبرستان لے جا کر آخری رسومات ادا کیں۔

یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ شوبز کی دنیا کتنی کھوکھلی اورجعلی ہے۔ جس شوبز کی چکاچوند دنیا میں یہ خواتین داخل ہوئیں، وہ ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہو سکی۔ جن لاکھوں مداحوں کی تالیوں کی گونج میں انہوں نے شہرت حاصل کی، ان میں سے کوئی ایک بھی یہ نہ جان سکا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مر چکی ہیں۔ جس صنعت نے انہیں وقتی شہرت دی، اسی نے انہیں تنہا مرنے کیلئے بھی چھوڑ دیا۔ اس تنہائی کی ایک اور بڑی وجہ ہمارا کمزور ہوتا خاندانی نظام ہے۔ جو بچے ماں باپ سے الگ ہو جاتے ہیں، جو والدین بچوں کو’’اپنے فیصلے خود کرنے‘‘ کی چھوٹ دے دیتے ہیں، وہ کبھی کبھار ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں نہ خون کے رشتے کام آتے ہیں، نہ دوستی کے دعوے دار۔ شوبز کی چمک دمک میں چھپے فریب کو ہم اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ واقعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اس دنیا میں سب کچھ دکھاوا ہے، حقیقت کچھ اور ہے۔ میڈیا جب کسی اداکارہ یا اداکارکو ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے، تو ہمارے نوجوان متاثر ہوتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ شوبز کا راستہ کامیابی، دولت اور عزت کا واحد راستہ ہے۔ اس خواب کو حقیقت سمجھ کر کتنے ہی نوجوان اپنے گھر والوں سے، اپنے خاندان سے، اور اپنے اصل سے دور ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب ان خوابوں کی چمک ختم ہوتی ہے یا شوبز کا جھوٹ اور فریب اُن کے سامنے آ شکار ہوتاہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آئے دن میڈیا کے ذریعے اپنے وقت کے نامور اداکاروں کی قابل ترس زندگی کی کہانیاں سنتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان واقعات سے سبق سیکھیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے خاندان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کریں، اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ شہرت سے بڑھ کر زندگی کی اصل قدر محبت، عزت اور رشتوں کی ہے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ شوبز کی چمک دمک دکھانے سے پہلے اس کے سائے میں چھپے اندھیروں کو بھی سامنے لائے تاکہ ہمارے نوجوان حقیقت کو جان سکیں ہمیں ان دونوں مرحومہ خواتین کی مغفر ت کیلئے دعا کرنی چاہیے اور خود سے یہ عہد بھی کہ اس معاشرتی بے حسی اور شوبز کے فریب کو پہچانیں گے اور اس سے خود کو، اپنے خاندان کو اور اپنے معاشرے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے۔

23/06/2025

ٹرمپ کی دولتی!

انصار عباسی
ا

امریکہ نے ایک بار پھر دنیا بھر کو دغا دے دیا۔ امریکہ نے ایک بار پھر اسرائیل کیلئے دنیا کے امن کو خطرہ میں ڈال دیا۔ امریکہ نے ایک بار پر دنیا کو ایک بڑی جنگ کے سنگین خطرات میں جھونک دیا۔ امریکہ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ اسرائیل کی اسلام دشمنی اور دہشت گردی میں اُس کے ساتھ ہے۔ ایک حقیقت پھر ثابت ہو گئی کہ امریکہ خود ایک دہشت گرد ریاست ہے جس کو نہ کسی قانون کا پاس ہے نہ کسی اخلاقیات کا۔ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ یقیناً یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں۔ اتوار کو صبح سویرے امریکہ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ ایران کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس خبر نے پاکستان سمیت پوری دنیا میںہل چل مچا دی۔ٹرمپ نے پاکستان اور کچھ یورپین ممالک سمیت سب کو دھوکہ دے دیا۔ کہا تو گیاتھا کہ ٹرمپ دو ہفتوں تک انتظار کریں گے اور اگر بات چیت سے کوئی راستہ نکلتا ہے تو اُس کو ترجیح دی جائیگی۔ کچھ یورپین ممالک ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ کو روکنےکیلئے بات چیت کر رہےتھے۔ پاکستان کو بھی امریکہ نے یہی لارا لگایا کہ آپ بھی پر امن طریقہ سے اس جنگ کو روکنے کی کوشش کریں۔ لیکن پھراچانک ہی امریکہ نے ایران پر حملہ کر دیا جسکے جواب میں ایران نے اسرائیل پر مزید میزائل داغ دیے اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ اُس کے ایٹمی پروگرام کو نقصان نہیں پہنچا کیوں کہ حملے سے پہلے ہی ایٹمی مواد کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جا چکا تھا۔ متعلقہ عالمی اداروں نے بھی یہ کنفرم کیا ہے کہ امریکی حملوں سے تابکاری کے کوئی اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔ گویایہ تو ابھی کنفرم ہونا باقی ہے کہ کیا امریکہ اس حملے میں اپنا مقصد حا صل کرنے میں کامیاب ہوا یا ناکام لیکن اس حملے نے پوری دنیا کیلئےنئے خطرات پیدا کر دیےہیں۔ اس حملے کے فوری بعد پاکستان میں سب بڑا سوال یہ پیدا ہوا کہ اب ہم ایران پر اس امریکی حملہ پر کیا موقف اپنائیں گے۔ حال ہی میں ٹرمپ پاکستان کی محبت میں بہت آگے تک جاتا ہوا نظر آیا اور دونوں ممالک کے تعلقات میں بہت بڑی تبدیلی کے اشارے ملنے لگے۔ ایک طرف پاک بھارت جنگ کے بعد ٹرمپ پاکستان کے حق میں بار بار بولتا ہوا نظر آیا، بھارت کو چڑاتا دکھائی دیا، آئی لو پاکستان (I love Pakistan)بھی کہہ دیا اور ہمارے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہائوس میں کھانے پر بھی بلا لیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے وزیراعظم پاکستان کو بھی فون کیا اور پاکستان کی ایران اسرائیل جنگ کے پرامن حل کی کوششوں کو سراہا اور اسکی حوصلہ افزائی کی۔ اس ماحول میں حکومت پاکستان نے اچانک صدر ٹرمپ کو امن کے نوبل پرائزکیلئے نامزد کر دیا جسے کسی نے ماسٹر اسٹروک گردانا اور کسی نےاس پرتنقید کی۔ اس پر سب سے بہترین تجزیہ خواجہ سعد رفیق صاحب کی طرف سے آیا۔ اُنہوں نے سوشل میڈیا میں بیان دیا’’جسے چارہ ڈال رہے ہیں، وہ کھائے گا بھی اور دولتی بھی مارے گاـ‘‘۔ اور یقیناً ٹرمپ نے ایسا ہی کیا۔ اُنہوں نے امن کے نوبل پرائز کیلئے نامزدگی کا چارہ کھا بھی لیا اور پھر دولتی بھی مار دی۔ یہ صورتحال پاکستان کیلئے بڑی مشکل ہو گی۔ پاکستان کی کوشش تھی کہ ٹرمپ کو امن کے نوبل پرائز کے نام پراستعمال کرکے ایران اسرائیل جنگ کو رکوانے کا رستہ نکال لیا جائے لیکن ٹرمپ نے تو اس کے برعکس ہی کر دیا۔ یہ اچھا ہوا کہ دفتر خارجہ کی طرف سے ایران پر امریکی حملے کی بھرپور مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ ایران پر امریکی حملہ اسرائیلی حملوں کا تسلسل ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ایران کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ معاملہ اب رہ گیا ٹرمپ کیلئے پاکستان کی طرف سے امن کے نوبل پرائز کی نامزدگی کا۔ یہ نامزدگی اگر پہلے متنازعہ تھی تو اب ناقابل قبول ہو چکی۔ اس بارے میں حکومت پاکستان کیا کرتی ہے یہ دیکھنا اہم ہو گا۔ باقی جہاں تک ایران کا معاملہ ہے ہمیں بحیثیت مسلمان اور پاکستانی اُس کے ساتھ کھڑے رہنا ہے کیونکہ یہ جنگ اسلام اور کفر کے درمیان ہے۔

31/05/2025

29/05/2025
18/11/2024

میں نے جو کالم روکا!

انصار عباسی

آج کا اخبار ادارتی صفحہ 18 نومبر ، 2024

یہ کالم میں نے جنگ کے گزشتہ سوموار کے شمارے کیلئے ایک دن قبل لکھ کر جنگ کے ادارتی ڈسک کو بھیج دیا تھا لیکن اُسی دن جب مجھے کسی نے ایک یوٹیوبر کا یہ دعویٰ بھیجا کہ مریم نواز صاحبہ کو گلے کا کینسر ہے جس کے علاج کیلئے وہ جنیوا گئی ہیں تو میں نے اس کالم کو شائع ہونے سے روک دیا۔ اب چونکہ مریم صاحبہ نے اس خبر کی تردید کر دی اور شکر ہے کہ وہ کسی موذی بیماری کا شکار نہیں تو میرا کالم جسے میں نے شائع ہونے سے روک دیا تھا اپنے قارئین کیلئے حاضر ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ اپنے صوبے کی ترقی اور اپنے اور اپنے والد میاں نواز شریف اور چچا میاں شہباز شریف کی حکومتوں کے دوران ترقیاتی کاموں کا اکثر ذ کرکرتی رہتی ہیں اور اس پر فخر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کسی دوسری سیاسی جماعت نے اتنے کام نہیں کیے جتنے ن لیگ نے اپنے مختلف ادوار میں کیے۔ وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے متعلق ن لیگ کی سابقہ حکومتوں اور اپنی موجودہ حکومت کے حوالے سے بھی بہت بلند بانگ دعوے کرتی رہتی ہیں۔ آج کل مریم صاحبہ جنیوا گئی ہوئی ہیں اور وہاں سے وہ لندن کا سفر کر کے پھر پاکستان واپس لوٹیں گی۔ میاںنواز شریف بھی آجکل لندن، امریکا اور یورپ کے سفر پر ہیں۔ مریم نواز کا جنیوا جانے کا مقصد اپنے گلے کا علاج کرانا ہے۔ میاں نواز شریف کے بیرون ملک جانے کا بنیادی مقصد بھی اپنا علاج اور چیک اپ ہے۔ میاں شہباز شریف بھی اپنی کمر کے چیک اپ کیلئے ضرورت پڑنے پر لندن ہی جاتے ہیں۔ سب کی صحت کیلئے دعا کرنی چاہیے اور ہر ایک کو بہتر سے بہتر علاج کرانے کا حق بھی حاصل ہے۔ لیکن یہاں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جس ن لیگ نے پاکستان اور پنجاب میں کئی بار حکومت کی، بڑے بڑے پروجیکٹس مکمل کرنے کے دعوے کیے، علاج معالجے اور صحت کے شعبے میں کھربوں خرچ بھی کیے اور یہ بھی کہا کہ بہترین ہسپتال بنائے، اُس سیاسی جماعت کے اعلیٰ ترین رہنما اپنے علاج اور چیک اپ کیلئے بیرون ملک کیوں جاتے ہیں؟ کیا اُن کواپنے علاج کیلئے پاکستان کے کسی ہسپتال اور یہاں کے ڈاکٹروں پر اعتبار نہیں؟ بار بار حکومتوں میں رہنے کے باوجود ایسے ہسپتال کیوں نہیں بنائے گئے کہ پاکستان کی اشرافیہ اور شریف فیملی کے افراد اپنے ملک میں اپنا علاج کروائیں۔ یا تو یہ دعوے کرنا چھوڑ دیں کہ آپ نے پاکستان یا پنجاب میں صحت کے شعبہ میں بہت اچھا کام کیا۔ میرا تعلق مری سے ہے جو پنجاب میں آتا ہے ۔ مری میں علاج معالجہ کی حالت اتنی خراب ہے کہ جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ بڑی تعداد میں مریض مری سے راولپنڈی اسلام آباد علاج کیلئے آتے آتے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ یہاں تو راولپنڈی اور اسلام آباد کے اکثر سرکاری ہسپتالوںکا حال دیکھ کر بھی افسوس ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدان، ہمارے حکمران اگر واقعی پاکستان میں صحت کے شعبہ کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو پہلے فیصلہ کر لیں کہ وہ اپنا اور اپنے خاندان کے افراد کا علاج پاکستان میں ہی کروائیں گے۔ اگر بار بار اقتدار میں آنے کے باوجود کوئی ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں بنایا جا سکا جہاں حکمران اپنا اور اپنے خاندان کے افراد کا علاج کروا سکیں تو پھر اتنے بڑے بڑے دعوئوں کی کوئی حیثیت نہیں، پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ بار بار حکومتوں میں آنے کے باوجود کوئی کام نہیں کیا، صرف دعوے اور نعرے ہی عوام کو دیے۔ سال 2015 میں نواز شریف ،جب وہ وزیراعظم تھے،نے اعلان کیا کہ وہ مری میں ایک بہترین ہسپتال بنائیں گے۔ اس سلسلے میں سرکاری فائلیں بھی چل پڑیں لیکن معاملہ فائلوں سے آگے نہ بڑھ سکا اور آج بھی تقریباً دس سال گزرنے کے باوجود معاملات وعدوں اور اعلانوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اب پھر اعلانات کیے جا رہے ہیں لیکن جو پہلے کہا گیا تھا اور جو وعدے پہلے کیے گئے تھے اُن کے برعکس ایک ایسے پرانے ہسپتال پر توجہ مرکوز ہے جو مری کے رہنے والوں کی اکثریت کی پہنچ سے ہی دور ہے۔ مری جس کو شریف خاندان بہت پسند کرتا ہے اُس کی اگر یہ حالت ہے تو پھر باقی پنجاب کے علاقوں کا کیا حال ہو گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی بھی پاکستان کے بہترین ہسپتال کراچی اور سندھ میں بنانے کے دعوے کرتے ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ آصف علی زرداری صاحب اپنے علاج معالجہ اور چیک اپ کیلئے اکثر دبئی ہی جاتے ہیں۔

04/11/2024

مری ہسپتال کے سلسلے میں میری وزیراعظم شہباز شریف، چیف سیکریٹری پنجاب اور مریم اورنگزیب صاحبہ سے بات ہوئی۔ ہسپتال ایسی جگہ بنایا جائے کہ مری کی بڑی آبادی اُس سے فائدہ اُٹھا سکے۔ ایسا نہ ہو کہ عوام کا پیسہ بھی لگ جائے اور عوام کی اکثریت کو فائدہ بھی نہ پہنچے۔

Address

Islamabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ansar Abbasi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Ansar Abbasi:

Share

Category