
16/05/2025
کرم کی صدا روڈ بند کیوں؟ محافظ یا راہ زن
کرم کے زخم پر مرہم رکھنے کی بجائے، ریاست نے بار بار نمک چھڑکا۔
3 جنوری 2025 کو کوہاٹ میں ایک تاریخی معاہدہ طے پایا، جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ پاراچنار روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے کھولا جائے گا۔
یہ وعدہ عوام کی امید کی آخری کرن تھا—لیکن افسوس، یہ بھی ایک اور جھوٹا دعویٰ ثابت ہوا۔
معاہدے کے صرف کچھ روز بعد، جب راہ ہموار ہونی تھی، ایک اور دھرنے کا ناٹک رچایا گیا۔
یوں ایک دھرنے کے مقابلے میں دوسرا دھرنا کھڑا کیا گیا، اور عوام کو پھر انتظار کی سولی پر لٹکا دیا گیا۔
پھر وہ دل دہلا دینے والے لمحات آئے جب کانوائے کو ریاستی اہلکاروں اور فضائی نگرانی کے باوجود بےدردی سے لوٹا گیا۔
فروری میں ڈرائیوروں اور بےگناہوں کو شہید کیا گیا، اور مارچ میں یہ خونی سلسلہ پھر سے دہرایا گیا۔
پھر بھی چشمِ ریاست نہ کھلی، اور زبانِ انصاف نہ بولی۔
نہتے عوام نے بارہا اعتماد کا ہاتھ بڑھایا۔ بینکر توڑ دیے، اسلحہ حکومتی تحویل میں دے دیا۔
مگر جواب میں انہیں صرف تذلیل، تاخیر اور دھوکہ ملا۔
آج نہ سڑک کھلی ہے، نہ عوام محفوظ ہیں، نہ اشیائے ضروریہ دستیاب۔
ہم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں:
آخر یہ روڈ بند کیوں ہے؟
کیا اہلسنت کی طرف سے کوئی رکاوٹ ہے؟ ہرگز نہیں!
تو پھر کون ہے جو اس بندش کو زندہ رکھنا چاہتا ہے؟
کیا یہ رشوت خوری کی دکان کو جاری رکھنے کا بہانہ ہے؟
یا اہلِ کرم کو بےدخل کرنے کا منصوبہ؟دونوں صورتوں کے علاوہ تیسری کوئی صورت نہیں۔۔
بدقسمتی سے بعض مشران کا کردار بھی مشکوک نظر آتا ہے۔
جب حق کی بات ہوتی ہے، تو وہی چہرے سامنے آ جاتے ہیں جو ظالم کی زبان بولتے ہیں۔
یقیناً ہماری کمزوریوں سے ریاست نے فائدہ اٹھایا ہے، اور ہم خود اپنے زخموں کے مجرم بنے ہوئے ہیں۔
امام علی علیہ السلام کا قول ہے:
"جب حق نہ دیا جائے، تو وہ چھینا جاتا ہے۔"
اور آج وہی وقت آ چکا ہے۔
ہم نے اپنے محسنوں کو یاد نہ رکھا۔
مزمل حسین فصیح، آغا شفیق، سرتاج ملک—یہ وہ لوگ تھے جو عوام کے حق میں آواز بلند کر رہے تھے، مگر انہیں دہشتگردی اور قتل جیسے سنگین اورجھوٹےالزامات کے تحت جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
اور افسوس، ہم خاموش رہے۔
اے اہلِ کرم!
یاد رکھو، خاموشی ظلم کی سب سے بڑی ہمنوا ہے۔
اگر ہم آج بھی ساکت رہے، تو کل دیگر ماوں بہنون اور بھائیوں کی طرح ہمارے جنازے بھئ ہنگو، کوہاٹ یا راولپنڈی کی مٹی میں دفن ہوں گے، ہمارے بچے علم و علاج کو ترسیں گے، اور ہماری غیرت تاریخ میں دفن ہو جائے گی۔
اب وقت ہے کہ ہم صرف اور صرف اپنی دھرتی سے وفاداری نبھائیں۔
اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں۔
اور ریاستِ پاکستان کو یاد دلائیں کہ ہم رعایا نہیں، شہری ہیں۔
ہم سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں،
اور جب سوالوں کا جواب نہ ملے تو جدوجہد ہمارا فرض بن جاتی ہے۔
پاراچنار روڈ کھولو — قبل اس کے کہ صبر کا بندھن ٹوٹ جائے۔
ارشاد حسین بنگش