Pakistan Today

Pakistan Today Aim of This Page Convay Athentic and Reliable News and Articals to our Audience.....

26/12/2018

After spending 197 days in space it is hard for this astronaut to walk again on planet earth.

11/05/2018

Family chased by group of cheetahs after getting out of car in Dutch safari park

رات 3 بجے ڈنمارک کے ایک چھوٹے سے پرانے قصبے میں فائر فائٹر ایرک کو ایک کال موصول ھوتی ھے جو نائٹ ڈیوٹی پر ھے۔فون اٹھاتے ...
11/05/2018

رات 3 بجے ڈنمارک کے ایک چھوٹے سے پرانے قصبے میں فائر فائٹر ایرک کو ایک کال موصول ھوتی ھے جو نائٹ ڈیوٹی پر ھے۔
فون اٹھاتے ایک عورت کی چیخ سنائی دی
" میری مدد کرو میں اٹھ نہیں سکتی "
گھبرائیں مت میڈم ' ایرک بولا ' ہم ابھی پہنچ رھے ہیں آپ کہاں ہیں ؟
مجھے نہیں معلوم ، عورت نے لرزتی ھوئی آواز میں بتایا
آپ کا ایڈریس کیا ھے ؟ ایرک نے پوچھا
"مجھے نہیں معلوم میں چکرا رہی ھوں "
ایرک :کیا آپ مجھے اپنا نام بتا سکتی ہیں
نہیں میں کچھ یاد نہیں کر پا رہی ، میں کیوں یاد نہیں کر پا رہی لگتا ھے میرے سر پر کچھ مارا گیا ھے "

اس کے فورا بعد ایرک فون کمپنی کو کال کرتا ھے اور آنے والی کال کی شناخت اور لوکیشن دریافت کرنے کا کہتا ھے
"ہم معزرت خواہ ہیں ہم یہ لوکیشن شناخت نہیں کر پا رھے"۔ دوسری طرف سے فون آپریٹر جواب دیتا ھے۔
ایرک واپس خاتون سے بات کرتا ھے " کیا آپ اپنا فون نمبر بتا سکتی ہیں ، ہو سکتا ھے کہیں لکھا ھو ڈائری میں ۔
" نہیں میرے پاس نمبر کہیں نہیں لکھا اب میں کیا کروں ، پلیز جلدی کریں، خاتون کی آواز مدہم اور کمزور پڑ رہی تھی
ایرک جلد سوچتے ہوئے ، اچھا اپنے اردگر دیکھیں اور منظر بتانے کی کوشش کریں
خاتون "میرے گھر میں ایک کھڑکی روشن ھے گلی کی طرف اور گلی میں اسٹریٹ لائٹ ہیں ۔
ایرک :کھڑکی کس شکل کی ھے؟
"مستطیل نما ھے "

ایک پرانے ٹاون میں ایرک اس لوکیشن کے تک پہنچنے کی کوشش میں سوچتا ھے
"آپ اپنی جگہ پر رہیں زیادہ موومنٹ مت کریں ہم آپکو تلاش کرنے آ رہے ہیں"
ایرک کو کوئی جواب نا ملا سوائے زخمی خاتون کی لمبی سانسوں کے۔
ایک لمحہ سوچے بغیر ایرک نے اپنے کیپٹن کو کال کی، صورتحال بتا کر زیادہ سے زیادہ فائر ٹرک بھیجنے کے مطالبہ کیا ،
"یہ بہت بڑا چلینج اور مشکل ٹارگٹ ھے لیکن کسی کی جان بچانا ہمارے لیئے اولین ترجیع ھے " کیپٹن نے جواب دیا
کچھ ہی دیر میں 15 فائر ٹرک ٹاون میں گلی کے ہر کونے پر پہنچ گئے
ایرک نے دوبارہ خاتون کو متوجہ کیا لیکن اب وہ جواب نہیں دے پا رہی تھئ ، ایرک ابھی ابھی اس کی سانسوں کی اواز سن سکتا تھا،
فون پر ایرک کو فائر ٹرک کا سائرن سنائی دینا شروع ھوا۔ اس نے وائرلیس پر ٹرک کو ایک ایک کر کے اپنا سائرن بند کرنے کا بولا ، فائر ٹرک نے باری باری اپنا سائرن بند کرنا شروع کیا۔

ٹرک نمبر 12 پر پہنچ کر ایرک کو سائرن کی آواز آنا بند ھوئی ، اس نے دوبارہ ٹرک 12 کو سائرن چلانے کا بولا یہ اس گھر کے بہت قریب ھے "ایرک چلایا "
وہ خاتون کی رہائشی بلڈنگ کی گلی میں کامیابی سے پہنچ گیا لیکن ابھی گھر تلاش کرنا باقی تھا ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ گھر کیسے تلاش کرے ، اچانک اس کے زہن میں خیال آیا اس نے لاوڈ اسپیکر اٹھایا اور اس اسٹریٹ والوں سے مخاطب ھوا " ہمیں ایک خاتون کی تلاش ھے جو مصیبت میں ھے اسے ہماری ضرورت ھے مجھے معلوم ھے وہ یہاں قریب ہی ھے اس کے کمرے کی لائٹ آن ھے پلیز آپ لوگ اپنے گھر کی لائٹس آف کر دیں۔ کچھ ہی سکینڈ میں تمام لائٹ آف ھو گئیں سوائے ایک گھر کے ،ناقابل یقین ، ایرک نے کر دیکھایا

فائرمین نے دروازہ توڑا اور دم توڑتی سانس لیتی زخمی خاتون کو اٹھا کر فوری وقت پر ہسپتال پہنچا دیا
دو ہفتے میں وہ مکمل صحتیاب ھو گئی اور اسکی یاداشت واپس آ گئی۔ ایرک نے اپنا فرض بغیر ہچکچاہت کے نبھانے کی مکمل کوشش کی اور کامیاب ھوا۔
اگر آپ کسی کام ٹھان لیں اور ہمت نا ہاریں تو آپ اپنی مہارت اور جذبے سے پہاڑوں کو ہلا سکتے ہیں اگر ہم ایک ٹیم ورک معاشرے طور پر اکھٹے ہیں تو ایک ناممکن سی صورتحال میں بھی کسی کی مدد کر سکتے ہیں ہم ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں
ایک انگلش انسپائرشن اسٹوری سے ماخوز
ترجمہ :مہر عبدالرحمن طارق

  سینٹ کا اجلاس ہو رہا تھا صدارت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نورجہان پانیزئی کررھی تھیں۔ (یہ ان دنوں کی بات ھے جب حکومت ...
09/03/2018


سینٹ کا اجلاس ہو رہا تھا صدارت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نورجہان پانیزئی کررھی تھیں۔ (یہ ان دنوں کی بات ھے جب حکومت کی جانب سے پہلی بار بجلی کے بلوں پر سرچارج کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے کافی سخت ردعمل آیاتھا ) حافظ حسین احمد اٹھے اور کہا وزیر خزانہ جناب سرچارج عزیز صاحب بتانا پسند فرمائیں گے ؟ابھی سوال نامکمل تھا کہ سرتاج عزیز اٹھے اور کہا ''جی !انہیں سمجھائیں، میرا نام درست لیں ۔''
حافظ صاحب سے درست نام لینے کو کہا گیا تو حافظ صاحب کہنے لگے:
''آج اخبار میں سرچار ج کا تذکرہ بہت پڑھا، ممکن ھے، وہی اٹک گیا ھو۔مگر وزیر صاحب اپنا درست نام بتادیں تاکہ انہیں اسی نام سے پکارا جائے ''
سرتاج عزیز اپنے سرخ چہرے کے ساتھ انتہائی غصے میں اٹھے اور کہنے لگے:'' میرا نام سرتاج ہے
سرتاج!! !!!

یہ کہنے کی دیر تھی کہ حافظ حسین احمد نے کہا :
محترمہ چیئرپرسن صاحبہ! آپ انہیں سرتاج (شوہر مراد ہے)کہہ سکتی ھیں؟
ڈاکٹرنورجہاں پانیزی کے ہونٹوں پر چند لمحے قفل رہا …پھر بولیں:'' نہیں میں نہیں کہہ سکتی''
حافظ حسین احمد نے کھڑے کھڑے کہا:
جب آپ ان کا درست نام لینے سے گریز کرتی ھیں اور درست نام نہیں لے سکتیں تو ھم کیسے لے سکتے ہیں؟

٭ …وسیم سجاد سینٹ کے اجلاس کی صدارت کررھے تھے اقبال حیدر(مرحوم) کی یہ عادت تھی کہ وہ اجلاس سے اٹھ کرھال کے ساتھ والے کمرے میں بیٹھ کر سگریٹ پیتے تھے ۔چیئرمین صاحب نے پوچھا :…اقبال حیدر کہاں ھیں؟
حافظ حسین احمد نے کہا'' پینے گئے ھیں''
پورے ھال میں قہقہے برسنا شروع ھوئے تو اقبال حیدر فوراً داخل ھوئے ،کہنے لگے :''جناب چیئرمین !انہو ں نے مجھ پر بہتان لگایا ھے''
اقبال حیدر غصے سے لال پیلے ھو چکے تھے ،حافظ حسین احمد اٹھے اور کہنے لگے:'' جناب چیئرمین! آپ ان سے پوچھیں یہ سگریٹ پی کر نہیں آئے ؟میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ پینے گئے ھیں''۔

٭ …ڈاکٹر اشرف عباسی قومی اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر تھیں، سپیکر معراج خالد بیرونی دورے پر چلے گئے۔ اب قائم مقام سپیکر کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت اشرف عباسی ھی کو کرنا تھی ۔مسئلہ صرف حافظ حسین احمد کا تھا کہ کسی طرح انہیں کنٹرول کیا جائے۔ ڈاکٹر اشرف عباسی نے سوچ وبچار کے بعد فیصلہ کیا کہ حافظ حسین احمد سے میٹنگ کرلی جائے ۔وہ یہ سوچ کر رات ساڑھے دس بجے ایم این اے ھوسٹل چلی آئیں ۔کمرے میں کراچی کے ایک عالم دین سے کہنے لگیں کہ ''حافظ صاحب بہت تنگ کرتے ھیں، انہیں سمجھائیں، اجلاس کو پر سکون رھنے دیا کریں۔ تیسرے فریق کی موجودگی میں حافظ حسین احمد اور ڈاکٹر اشرف عباسی کا معاھدہ ہوگیا کہ حافظ حسین احمد تنگ نہیں کریں گے ۔اگلے دن اجلاس شروع ھوا تو حافظ حسین احمد اٹھے اور بولنا چاھا تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے موصوف کو غصے سے کہا بیٹھ جاؤ۔ چند منٹوں کے توقف کے بعد وہ پھر اٹھے تو ڈاکٹر صاحبہ نے اپنا پہلے والا جملہ دھرادیا۔ ایک مرتبہ پھر ایسا ھوا ۔جب چوتھی مرتبہ حافظ حسین احمد اٹھے تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے جھاڑ پلادی ۔حافظ صاحب نے کہا:
'' میں رات والے معاھدے کو توڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔''

یہ کہنے کی دیر تھی کہ ڈاکٹر اشرف عباسی نے سپیکر کی کرسی سے مخاطب ھوتے ھوئے کہنا شروع کردیا :نہیں، نہیں حافظ صاحب! معاہدہ برقرار رھے گا۔
تمام ممبران رات والے معاھدے پر حیرت زدہ تھے ،یہ معاھدہ ممبران کیلئے معمہ بن کے رہ گیا تھا
٭… ملک معراج خالد قومی اسمبلی کے سپیکر تھے، اعتزاز احسن وزیر پارلیمانی امور تھے، انہیں جواب دینا تھے۔ مگر اعتزاز احسن نے ایک دن آتے ھی سپیکر سے کہا کہ: آج مجھے جلدی ھے، حافظ حسین احمد صاحب سے کہیں کہ وہ سوال پوچھ لیں۔
حافظ حسین احمد نے کہا کہ: وزیر صاحب بتانا پسند کریں گے کہ کس بات کی جلدی ہے؟
اعتزازاحسن: محترمہ بے نظیر بھٹو (وزیر اعظم ) مری جارہی ہیں۔
حافظ حسین احمد:کس پر؟

بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ شور شرابہ شروع ہوگیا ۔حکومتی پارٹی کے اراکین کہنے لگے کہ یہ جملے قابل اعتراض ہیں، ھم واک آؤٹ کریں گے ،نہیں تو حافظ صاحب اپنے الفاظ واپس لیں۔
حافظ حسین احمد: کونسے الفاظ قابل اعتراض ہیں، میں نے بڑی لمبی تقریر کی ھے ،مجھے کیا پتہ کہ کونسے قابل اعتراض بن گئے ھیں۔
معراج خالد : وہ جو قابل اعتراض ھیں ۔
حافظ حسین احمد:مجھے کیسے پتہ چلے گا؟
اعتزاز احسن :وہ جو انہوں نے کہا کہ کس پر…؟

حافظ حسین احمد:جناب سپیکر !میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر محترمہ ھیلی کاپٹر پر جارھی ھیں تو پھر تویہ جائیں اور اگر وہ بائی روڈ جارھی ھیں تو وزیر صاحب بعد میں اپنی گاڑی پر جاسکتے ھیں۔ میں نے یہ پوچھا کہ :وہ کس پر مری جارھی ھیں؟ گاڑی پر یا ہیلی کاپٹر پر؟''
پیپلز پارٹی کے اراکین پھر کھڑے ھوگئے کہنے لگے:'' نہیں! حافظ صاحب کی نیت ٹھیک نہیں ھے۔'' بڑھ چڑھ کر بولنے والوں میں جہانگیر بدر بھی تھے۔

حافظ حسین احمد:جناب سپیکر !مجھے اپنی نیت کا پتہ ھے ،انہیں میری نیت کا کیسے پتہ چل گیا؟یہ پکوڑے بیچنے والے جس عظیم خاتون کے توسط سے ممبر بن کے آئے ھیں ان کی اپنی لیڈر کے بارے میں کیسی سوچ ھے؟

04/03/2018
لولی پاپ ♡♡ اور مولوی ختم شریف ♨ ....ظفرجیمولوی♨ " ارے ... ارے .... ٹھہرو ٹھہرو .... ادھر آؤ بیٹا ... یہ پھول کاہے کو لی...
13/02/2018

لولی پاپ ♡♡ اور مولوی ختم شریف ♨ ....ظفرجی

مولوی♨ " ارے ... ارے .... ٹھہرو ٹھہرو .... ادھر آؤ بیٹا ... یہ پھول کاہے کو لیے جاتے ہو ... نصیب دشمناں کوئ عزیز فوت ہو گیا ہے کیا ؟؟

لولی پاپ ♡ ارے مولانا ختم شریف ..... آپ بھی ہمیشہ قُل اور جُمعراتے کے چکر میں رہتے ہو .... .مریں ہمارے دشمن .... یہ تو ویلنٹائن ڈے کے پھول ہیں...

مولوی ♨ بیٹا ... ڈائن تو سنی تھی .... یہ ویلنٹائن کیا ہے ، جن ، بھوٹ یا چُڑیل ؟؟ مطلب کوئ تعویز ... دھاگہ....چاھیے تو .... وہ بھی کر دیتے ہیں-

لولی پاپ♡ ارے مولانا...پھر وہی دکانداری .... حضرت میں نے ویلنٹائن کہا ہے .... ویلنٹائن ڈے .... پیار کرنے والوں کا دن-

مولوی♡ بیٹا پیار کا کون سا دن ہوتا ہے .... پیار تو چوبیس گھنٹے کی چیز ہے .... ماں باپ سے پیار .... بہن بھائیوں سے پیار وغیرہ وغیرہ ....

لولی پاپ ♡ ارے .... مولوی صاحب.... کبھی اپنی دنیا سے باہر بھی آیا کریں .... میں اس پیار کی بات نہیں کر رہا....دوسرے والا پیار .... لڑکے لڑکی والا پیار ... مطلب عشق معشوقی والا پیار ....

مولوی ♨ لاحول ولاقوہ الا باللہ .... اسغفراللّہ ... بے شرم آدمی ... بے حیائ پھیلاتے ہو .... ؟؟

لولی پاپ ♡ کون سی بے حیائ مولوی صاحب .... محبت تو پھول ہے .... خوشبو ہے .... کائنات کا حسن ہے .... ایک پاکیزہ جزبہ ہے-

مولوی ♨ بیٹا .... بے شک محبت بڑی خوبصورت ہے .... پر اسے پاکیزہ کرنے کےلیے ایک مولوی اور چار گواہوں کی ضرورت ہے....کہیے تو آجاؤں-

لولی پاپ ♡ .... اجی کھیلنے کودنے کی عمر ہے .... دل لگی کے دن ہیں ... محبت کے دشمن مت بنیں -

مولوی ♨ بدخوردار ... واللہ مولوی محبت کا دشمن نہیں .... پر یہی پھول کوئ تیری بجیا کےلیے بھیجے تو برا لگے گا ناں .... نکاح کے بغیر ایک غیر محرم سے رشتہ بنانا گناہ ہے بیٹے .... اس سے فساد پیدا ہوتا ہے .... لاوارث نسلیں پیدا ہوتی ہیں ... ایدھی والوں کی فٹیک بڑھتی ہے بیٹا-

لولی پاپ ♡ اف توبہ توبہ .... ہمیشہ منفی سوچتے ہو مولوی صاب .... پاک محبت بھی تو ہے نہ ..... جیسے ھیر رانجھا.... سسّی پُنّوں ....

مولوی ♨ ارے بیٹا .... کون سی پاک محبت .... تیری میری پاک محبت .... بنا ہوس کے خاک محبت .... !!!

لولی پاپ ♡ چھوڑیں مولوی صاب .... پوری دنیا منا رہی ہے ویلنٹائن ڈے ... امریکہ ، چین جاپان سب منارہے ہیں .... ہم کیسی سڑی ہوئ قوم ہیں .... دوپل خوشیوں کے منانے لگیں تو مولوی کا واویلہ شروع .... توبہ توبہ !!!

مولوی ♨ ارے ناک کے ڈھکن .... جن ملکوں کی تو مثال دیتا ہے .... لاکھوں لاوارث بچے بھی تو ہیں وہاں .... پندرہ لاکھ پچانوے ہزار آٹھ سو تہتر ..... بن بیاہی مائیں ہیں صرف امریکہ میں .... وہ تو سنبھال لیتے ہیں کہ پیسے والے ہیں .... ہم سے تو اپنے حلالی نہیں سنبھالے جاتے .... حرامیوں کو کیسے سنبھالیں گے بھائ....

لولی پاپ ♡ واہ مولوی صاحب ... آپ نے تو میری آنکھیں کھول دیں ... لیکن اب ان پھولوں کا کیا کروں....دکان والا واپس بھی نہیں لے گا.....

مولوی♨ لا بیٹا مجھے دے دے .... تیری چاچی کو دے دوں گا .... خش ہو جائے گی- میاں بیوی کی محبت سے تو رب راضی ہوتا ہے بیٹا .... اور میں ویلنٹائن ڈے کی نیّت سے تھوڑی دوں گا .... محبّت کی نیت سے دوں گا بیٹا واہ کیا خوشبو ہے...

لولی پاپ♡ تو مجھے کیا ملے گا....

مولوی♨ بیٹا نکاح پر فیس نصف کر دوں گا ... اور فی الحال میری جیب میں ... یہ لولی پاپ ہے .... اسے چوستے ہوئے سیدھے گھر جانا بیٹا .....

ﺍﯾﮏ ﺟﺞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ :" ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺳﯿﺸﻦ ﺟﺞ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﯾﮏ ﮐﯿﺲ ﺁﯾﺎ ،ﺍﯾﮏ ﻣﻠﺰﻡ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻗﺘﻞ ﮐ...
02/02/2018

ﺍﯾﮏ ﺟﺞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ :

" ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺳﯿﺸﻦ ﺟﺞ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﯾﮏ ﮐﯿﺲ ﺁﯾﺎ ،ﺍﯾﮏ ﻣﻠﺰﻡ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻗﺘﻞ ﮐﺎ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﺗﮭﺎ۔‘ﺳﺎﺭﮮ ﺛﺒﻮﺕ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺗﮭﮯ ۔
ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺗﮭﺎ ﺑﮩﺖ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺷﮑﻞ ،ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺨﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻗﺘﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﭘﺘﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺘﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺛﺒﻮﺕ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﺗﮭﺎ ،ﻣﯿﺮﮮ ﺗﺠﺮﺑﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﯾﮧ ﺑﺘﺎ ﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺘﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻮﺷﺶ ﯾﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ
ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻟﻮﮞ۔۔۔

ﺍﺳﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺗﯿﻦ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﻮ ﻟﻤﺒﺎ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻮﺷﺶ
ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺭﮨﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﯾﮧ ﻋﺠﯿﺐ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﻟﮑﮫ ﺩﯼ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﺰﺍﺋﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﻮﻧﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺳﭻ ﺳﭻ ﺑﺘﺎﺅ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻗﺘﻞﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟

ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ،ﺟﺞ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﭻ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﻗﺘﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ،ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺟﺮﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﺰﺍ ﻣﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ؟ ﮐﭽھ ﺩﯾﺮ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ،ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ، ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﯾﮧﮐ ﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺘﯿﺎ ﮐﻮ ﺑﮍﯼ ﺑﮯ ﺩﺭﺩﯼ ﺳﮯ
ﻣﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ۔۔ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﺮﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ، ﺑﺲ ﻭﮦ ﻗﺘﻞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻓﻮﺭﺍً ﭼﻮﻧﮏ ﭘﮍﺍ، ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺎ، ﺗﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺟﺐ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮐﯿﺲ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ، ﺁﺝ ﺗﯿﻦ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ، ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﮐﺘﯿﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺎﺅﮞ
ﭼﯿﺎﺅﮞ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﺎ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ۔ "

ﺟﺞ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﺒﻖ ﻣﻼ ،ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﮨﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺣﻘﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﻧﺠﺲ ﮨﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﻭﮦ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﺘﻨﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﮨﮯ۔

ڈارک ویب کیا ھے؟کیا دنیا جھنم بن چکی ہے!آپ جو انٹرنیٹ دن رات چلاتے ہیں، اس کے متعلق کتنی معلومات ہیں آپ کو؟؟؟ کیا آپ جان...
26/01/2018

ڈارک ویب کیا ھے؟

کیا دنیا جھنم بن چکی ہے!

آپ جو انٹرنیٹ دن رات چلاتے ہیں، اس کے متعلق کتنی معلومات ہیں آپ کو؟؟؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ جتنا انٹرنیٹ آپ روز استمعال کرتے ہیں وہ کل انٹرنیٹ کا صرف چار فیصد ھے---؟ جی ہاں! اور اسے Surface web یا lightweb کہتے ہیں---!

اس کے بعد نمبر آتا ھے deeb web کا، جو کل انٹرنیٹ کا باقی 96% ھے----! اور یہ آپکے استعمال میں موجود Surface web سے 5000 ہزار گنا بڑا اور وسیع ھے، اس میں Surface web استعمال کرنے والے ہر شخض، ہر ادارے اور ہر حکومت کی ہر قسم کی معلومات جمع ہیں---! لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی!
کیونکہ Deep web کا ایک حصہ ھے جو تمام انٹرنیٹ کا تھل ھے، وہ Dark web یا Black net کہلاتا ہے---! کوئی نہیں جانتا کہ یہ کتنا حجم رکھتا ھے مگر، یہاں دنیا کا ہر غیر قانونی و غیر انسانی کام ہوتا ھے----!

منشیات، اسلحہ اور عورت کی خرید و فروخت سے لے کر ایک انسان کو ذبح کر کے گوشت کھانے تک Deep web عام براؤذر کے ذریعہ باآسابی کھل سکتی ہے۔ مگر اسے کوئی سرچ نہیں کر سکتا۔ اسکے کھلنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ جس نے ڈیپ ویب کی وہ سائٹ بنائی ہے اسکا لنک جو چند الٹے سیدھے کوڈ نما الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے اسے کسی بھی برائوذر میں میں ڈال دیا کر انٹر کردیا جائے تو سائٹ کھل جاتی ہے۔ جب کہ dark web کسی بھی عام برائوذر سے کبھی بھی نہیں کھلتی ماسوائے ٹور پراجیکٹ نامی برائوذر کے جسکی سائٹس کی ایکسٹینشنز onion ہوتی ہیں جو صرف ٹور برائوزر پر ہی کھلتی ہے. اسکا بھی سائٹ لنک عجیب الٹے سیدھے کوڈ نما نمبرز پر مشتمل ہوتا ہے اور اسکا سائٹ کوڈ معلوم ہو تب ہی کھلتی ہے. مگر tor کے کچھ اپنے سرچ انجن ہیں جن پر مطلوبہ سائٹ یا مطلوبہ ویڈیوز یا مطلوبہ مواد کو گوگل کی طرح سرچ کرکے باآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے ۔

اسی میں مزید ایک قدم آگے red rooms ہے۔ جہاں بند کمروں میں دنیا کا بدترین تشدد دکھایا جاتا ہے۔جیسے زندہ انسانوں کی کھال اتارنا ۔آنکھیں نکالنا۔ناک کان آلئہ تناسل وغیرہ کاٹنا اسمیں سلاخیں گھسانا وغیرہ وغیرہ۔
اس سب کے بعد اس سب کا باپ Marianas web ہے ۔ جسے نہ کوئی جان سکا نہ جانتا ہے اور نہ اس تک پہنچنا آسان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں دنیا کی چند بڑی طاقتوں کے قیمتی راز دفن ہیں جیسے اسرائیل امریکہ وغیرہ نیز اسکے ٹاپ آپریٹرز iluminaties ہیں جہاں دنیا بھر کے الومناٹیز کا ڈیٹا بیس موجود ہے.۔۔

۔ڈارک ورلٖڈ میں ایک خاص قسم کی ویب سائٹس کو ریڈ رومز کہا جاتا ہے۔وہاں تک رسائی تقریبا ناممکن ہے۔۔ڈارک ویب ورلڈ میں یہ سب سے خفیہ رومز ہیں۔۔۔وہاں تک رسائی بنا پیسوں کے نہیں ہوتی۔۔ان سائٹس پر جانور یہ انسانوں پر لائیو تشدد کیا جاتا ہے اور بولیاں لگائی جاتی ہیں۔۔آپ بٹ کوئن کی شکل میں پیسے ادا کر کے فرمائش کر سکتے ہو کہ اس جانور یا انسان کا فلاں اعضا نکال دو۔۔حقیقی زندگی میں اگر آپ اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ریڈ رومز تک گئے ہو۔۔۔آپ کو صرف وہاں جانے کے اعتراف پر بھی جیل جانا پڑے گا۔۔

۔
۔ایسی ایک ویب سائٹ بھی موجود ہے جہاں پر یورپ بھر میں کسی کے بھی قتل کی سپاری دے سکتے ہیں۔۔عام شخص کا قتل بیس ہزار یورو۔۔صحافی کا قتل ستر ہزار یورو اور سلیبرٹی کے قتل کا ریٹ ایک لاکھ یورو سے شروع ہوتا ہے۔
۔
۔ ایک ویب سائٹ کا کلیم ہے کہ وہ مردہ بچوں کی روحیں فروخت کرتے ہیں۔

۔
۔پنک متھ ایک ویب سائٹ ہوتی تھی جو کہ دو ہزار چودہ میں ٹریس کر کے بین کر دی گئی۔۔وہاں لوگ اپنی سابقہ گرل فرینڈز، بیوی سے انتقام کی خاطر ان کی عریاں تصاویر بیچتے تھے اور ویب سائٹس ان لڑکیوں کے نام ، ہوم ایڈریس اور فون نمبر کے ساتھ یہ تصاویر شیئر کرتی تھی۔۔۔اس ویب سائٹ کی وجہ سے چار سے زیادہ لڑکیاں خود کشی کر چکی تھیں۔ لیکن یہ ویب سائٹ باز نہیں آئی۔۔ایف بی آئی نے دو ہزار چودہ میں اس کے خلاف تحقیات شروع کیں اور اس کا سرور ٹریس کر کے بند کر دیا۔۔مالکان آج تک فرار ہیں۔۔۔(ویب سائٹ چونکہ اب آپریٹ نہیں کرتی ا سلیے نام بتا دیا)۔
۔
۔ ڈارک ورلڈ یا ڈیپ ورلڈ میں کچھ ایسی گیمز بھی پائی جاتی ہیں جو عام دنیا میں شاید بین کر دی جائیں۔ایسی ہی ایک خوفناک گیم کا نام " سیڈ ستان(شیطان ) " ہے۔۔اس گیم کے گرافکس اس قدر خوفناک ہیں کہ عام دنیا میں کوئی بھی گیم اسٹور اس گیم کی اجازت نہیں دے گا۔۔
۔
۔انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا گڑھ ڈارک ویب ورلڈ کو کہا جاتا ہے۔۔یہاں خواتین کو بیچنے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔۔جوزف کاکس جو کہ ایک ریسرچر ہیں وہ دو ہزار پندرہ میں ڈیپ ویب ورلڈ پر ریسرچ کر رہے تھے۔۔ایسے میں اسی ورلڈ میں انھیں گروپ ٹکرایا جس کا نام "بلیک ڈیتھ " تھا اور انھوں نے جوزف کو ایک عورت بیچنے کی آفر کی جس کا نام نکول بتایا اور وہ گروپ اس عورت کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالرز مانگ رہا تھا۔۔
۔
۔کینی بال یعنی آدم خوروں کا ایک فورم ہے جہاں کے اراکین ایک دوسرے کو اپنے جسم کے کسی حصے کا گوشت فروخت کرتے ہیں۔۔جیسا پچھلے دنوں وہاں ایک پوسٹ لگی جس کے الفاظ یہ تھے

" کیا کوئی میری ران کا آدھا پاونڈ گوشت کھانا چاہے گا؟ صرف پانچ ہزار ڈالرز میں۔۔۔اسے خود کاٹنے کی اجازت ہو گی۔۔"
۔
۔جہاز تباہ ہونے کے بعد بلیک باکس (جہاز کا ایک آلہ) تلاش کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ ایسے میٹریل سے بنا ہوتا ہے جو تباہ نہیں ہوتا۔۔۔اس بلیک باکس میں پائلٹ اور کو پائلٹ کی آخری ریکاڈنگز ہوتی ہے۔۔اس سے پتا چل جاتا ہے کہ تباہ ہونے سے پہلے کیا ہو اتھا ۔۔ایک ویب سائٹ پر تباہ شدہ جہازوں کی آخری ریکاڈنگز موجود ہیں۔۔وہاں نائن الیون کے جہاز کی آڈیو فائل بھی موجود ہے۔۔
۔

۔ایک ویب سائٹ جوتے، پرس، بیلٹ وغیرہ بیچتی ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ یہ انسانی کھالوں سے بنے ہیں۔۔
لکھنے کو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔۔۔آپ اس بارے بزنس انسائیڈر، ریڈٹ، یا مختلف فورمز پر آرٹیکلز بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن ڈارک ویب ورلڈ ایسی گھناونی دنیا ہے جس کے بارے بس اتنا سا ہی جاننا ضروری ہے۔۔

دنیا میں تین قسم کے ویب ہیں۔
۱۔ سرفیس ویب
۲۔ڈیپ ویپ
۳۔مریانہ ویب یا ڈارک ویب

سرفیس ویب وہ ویب ہے جو ہم میں سے ہر کوئی استعمال کرتا ہے جس میں روز مرہ کے کام یعنی گوگل فیس بک ویکیپیڈیا یوٹیوب وغیرہ تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ ویب سائٹس ہوتیں جو انڈیکسڈ ہوئیں ہوتیں ہیں۔جن کے لنکس کو گوگل کے اندر ایڈ کیا جاتا ہے۔جنھیں ہم سرچ کرتے ہیں تو اُن کے تک رسائی ممکن ہے۔

۲۔ڈیپ ویب
یہ وہ ویب سائٹس ہوتیں ہیں جو انڈیکسڈ نہیں ہوئی ہوتیں۔
یہ بنک ریکارڈز، میڈیکل ریکارڈز، سائنٹیفک رپورٹز، اکیڈیمک انفارمیشن، یعنی تمام ایسی سائٹز ہیں۔ جن تک رسائی تب ہی حاصل کی جا سکتی ہے جب اُن کا ایڈریس ہمارے پاس ہو۔یعنی اُن کے ایمپلائی یا کسٹمر یا سٹوڈنٹس ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جن کے پاس پاسورڈ اور یوزر آئی ۔ڈی ہو

مریانہ ویب یا ڈارک ویب
اسے مریانہ ٹرنچ کی نسبت سے مریانہ ویب کا نام دیا گیا ہے جو سمندر کا سب سے گہرا حصہ ہوتا جہاں پہنچنا مُشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا۔ ان ویب سائٹس تک پہنچنے کے لیے مخصوص براوزر یوزر آئی ۔ڈی اور پاسورڈ کی ضرورت ہوتی۔
یہ وہ وہ جگہ ہے جہاں ایک عجیب ہی دنیا شیطانیت میں ڈوبی ہوتی ہے۔یہ وہ ویب ہے جہاں تک پہنچا نہیں جا سکتا اور پہنچنا چاہیں تو غیر قانونی ہونے کے ساتھ انتہائی خطرناک بھی ہے۔یہاں جو لوگ کام کرتے ہیں اُن کے سرورز بھی پرائیویٹ ہوتے ہیں۔یہاں پر کسی بھی ریگولر براوزر سے رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔

ایک مخصوص براوزر ہے ٹی۔او۔آر۔یعنیTOR اسی کے ذریعے ہم یہاں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس ویب تک رسائی حاصل کرنے سے ہماری انفارمیشن اِن تک جا سکتی ہے جس کو یہ اپنے کسی بھی گندے مقصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور ہمیں پھنسا سکتے ہیں۔ یہاں پیسوں کی ادائیگی کے لیے بِٹ کوئین کرنسی متعارف کروائی گئی ہے جو ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے۔

یہ ویب خفیہ ادارے، مافیا، ہٹ مین ،سیکرٹ سوسائٹیز استعمال کرتیں۔یہاں پر کاروبار ہوتا ڈرگز کا،ویپنز کا،کنٹریکٹ کلنگز کا،چائیلڈز پورنو گرافی کا، پرائیویٹ لائیو فائٹس کا، ملکوں کے راز چُرانے اور بیچنے کا، انسانی اعضاء بیچنے اور خریدنے کا، لوگوں کے بنک اکاونٹس ہیک کرنے کا۔ یعنی ہر دو نمبر کام یہاں پر ہوتا ہے۔ان کو پکڑنا بہت ہی مُشکل ہے ایک طرح سے ناممکن ہے۔

ہمارا اصل مُدعا یہ نہیں اصل مُدعا ہے پاکستان میں ہونے والے لگاتار بچوں کے اغوا اُن کے ساتھ جنسی تشدد اور اُن کو مار دینا۔ بچوں کا قتل پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پاکستان میں سچ کو ہمیشہ مسخ کیا جاتا رہا۔اور پاکستان میں ہی کیوں دنیا کے بیشتر ممالک میں یہی سب ہو رہا ہے۔آج سے بائیس برس پہلے کا ایک کیس کچھ دوستوں کو یاد ہوگا جاوید اقبال مغل سو بچوں کو قتل کرنے والا درندہ جو بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتا تھا اُن کو قتل کرتا تھا اور اُن کی لاشوں کو تیزاب میں جلا دیتا تھا۔ جاوید اقبال مغل جسے جسٹس اللہ بخش رانجھا نے سو دفعہ پھانسی پر چڑھانے کا حُکم دیا تھا۔اُسے ایک نفسیاتی مریض کہا گیا تھا۔روزنامہ ڈان کی دو ہزار ایک میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطاق جاوید اقبال مغل نے ایک ویڈیو گیم سینٹر بنایا ہوا تھا جہاں وہ بچوں کو ٹریپ کرتا تھا اُن کے ساتھ جنسی تشدد کرتا تھا اُنھیں پیسے دیتا تھا اور ڈرا دھمکا کر چپ کروا دیتا تھا۔قتل کرنے کے لیے وہ گھر سے بھاگے بچوں اور فُٹ پاتھ پر رہنے والے غریب بچوں کا انتخاب کرتا تھا۔تین دسمبر اُنیس سو ننانوے کو ایک اردو اخبار کے دفتر پہنچ کر اُس نے اعتراف کیا تھا۔ کہ میں جاوید اقبال ہوں سو بچوں کا قاتل میں نے سو بچوں کا قتل کیا ہے اور مجھے نفرت ہے اس دنیا سے مجھے بچوں کو قتل کرنے پر کوئی ندامت نہیں ہے۔

جاوید اقبال مغل اور اُس کی اعانت کرنے والوں کو موت کی سزا سنائی گئی اور بعد میں جاوید اقبال اور اُسکے ساتھی نے جیل میں زہر کھا کر خود کشی کر لی تھی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کسی خفیہ ہاتھ نے اُن کو ختم کروا دیا تھا اور یہ کیس تھا ہیومین آرگنز کی اسمگلنگ کا۔یعنی بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی ویڈیوز اور بعد میں اُن کو قتل کرکے اُن کے جسمانی اعضاء بیچے گئے تھے اور جاوید اقبال مغل کو خاموش کروا دیا گیا۔خفیہ ہاتھوں کے لیے کئی جاوید اقبال کام کرتے ہیں۔

دو ہزار پندرہ کا ایک بڑا اسکینڈل جس میں دو ہزار چھ سے لیکر دو ہزار پندرہ تک تین سو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے اُن کی ویڈیوز بنائی گئیں اور اُس سارے معاملے میں پولیس اور ایم۔پی۔اے ملک احمد سعید کو ملوث بتایا گیا۔ہم جس طرح سے ہر کیس کو جہالت اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو وجہ بنا کر چُپ ہو جاتے ہیں ایسا نہیں ہے۔یہ ایک ملٹی ٹریلین انڈسٹری ہے۔ابھی حال ہی میں قصور میں زینب بھی اسی جنسی تشدد کا شکار ہوئی اور بعد میں اُس کی لاش کچرے میں پائی گئی۔اور پورے پاکستان میں ہی یہ ہو رہا مذہبی کمیونٹی لبرلز کو اسکی وجہ مانتے ہیں اور لبرلز اس کو مولویوں پر تھوپ رہے بھائی لوگ یہ اتنا سادہ کام نہیں ہے یہ کسی محرومی کی وجہ سے یا نفسیاتی پیچیدگیوں کی وجہ سے نہیں ہو رہا یہ کاروبار ہے۔بہت بڑا کاروبار ہے مثال کے طور دنیا کے کچھ امیر لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈارک ویب پر جاتے جہاں وہ کسی مخصوص ویب سائیٹ کے ممبر ہوتے وہاں باقاعدہ لائیو دیکھایا جاتا یہ سب وہ باقاعدہ اپنی ڈیمانڈ پر بچے کے ساتھ یا عورت کے ساتھ جنسی تشدد کرواتے اور بولی لگاتے کہ اس کے ساتھ یہ کرو تو اتنے پیسے لے لو اور وہ کرو تو اتنے پیسے۔

پرائیویٹ فائٹس میں کسی ایک فائٹر کے مرنے تک یہ لوگ بولیاں لگاتے رہتے ہم لوگ ایک ایسی شیطانی دنیا میں رہ رہے ہیں جس کی شیطانیت پوری طرح سے انسانیت پر غالب آچُکی ہے جس کی وجہ ہے اچھے لوگوں کی خاموشی۔نکلو جاگو اُٹھو ورنہ دنیا سے اُٹھ جاو گے۔یہاں کچھ بُرے لوگ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ہمارے ملک کی کیا حالت ہے۔ کرپشن ،بے ایمانی، رشوت خوری ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔ ہم چُپ ہیں یوں جیسے مر چُکے ہیں۔میری مُلک کے اہم اداروں سے درخواست ہے کہ قصور میں بھارتی دخل اندازی کو بھی چیک کیا جائے۔مجھے پورا یقین ہے ان آرگنائزڈ کرائم کے پیچھے سرحد پار سے بھی کچھ سرکاری اور غیر سرکاری لوگ ضرور شامل ہوں گے۔ ہمیں اُٹھنا پڑیگا ورنہ ایک عام انسان کی پہلے سے جہنم زندگی اور بھی جہنم بن جائے گی.

اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ میرے ایک دوست تھے ،سلطان راہی ان کا نام تھا، آپ نے ان کی فلمیں دیکھی ہوں گی، ایک روز مجھے ان کا...
19/01/2018

اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ میرے ایک دوست تھے ،سلطان راہی ان کا نام تھا، آپ نے ان کی فلمیں دیکھی ہوں گی، ایک روز مجھے ان کا پیغام ملا کہ آپ آئیں، ایک چھوٹی سی محفل ہے، اس میں آپ کی شمولیت ضروری ہے اور آپ اسے پسند کریں گے، میں نے کہا بسم اللہ!

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سلطان راہی کو قرات کا بہت شوق تھا اور اس کا اپنا ایک انداز اپنا لہجہ تھا جب ہم اس کے گھر پہنچے تو اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا جو حلیے سے پکا پینڈو لگ رہا تھا اس نے دھوتی باندھی ہوئی تھی،کندھے پر کھیس تھا، سلطان راہی نے اپنی آواز میں سورہ مزمل کی تلاوت شروع کی، بہت ہی اعلیٰ درجے کی قرات کی جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وہ پڑھتے رہے ہم دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر سنتے رہے اور جب ختم ہو گئی تو سب کے دل میں آرزو تھی کہ کاش راہی صاحب ایک مرتبہ پھر سورہ مزمل کی تلاوت کریں مگر انہوں نے بند کر دی۔
پھر انہوں نے بھا رفیق کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ جی آپ بھی فرمائیں، بھا رفیق نے کہا جی میری آرزو بھی سورہ مزمل سنانے کی تھی لیکن چونکہ انہوں نے سنا دی ہے تو میں قرآن کی کسی اور سورت کی تلاوت کردیتا ہوں ہم نے کہا نہیں نہیں آپ بھی ہم کو یہی سنائیں۔ ہم تو دوبارہ سننے کی آرزو کر رہے تھے۔ بھا رفیق نے کھیس کندھے سے اتار کر اس انداز میں گود میں رکھ لیا کہ اس کے اوپر کہنیاں رکھ کر بیٹھ گئے اور سورہ مزمل سنانی شروع کی۔

آپ نے بیشمار قاریوں کو سنا ہو گا لیکن جو انداز بھا رفیق کا تھا وہ بہت منفرد اور دل کو موہ لینے والا تھا۔ جوں جوں وہ سناتے چلے جا رہے تھے ہم سارے سامعین یہ محسوس کررہے تھے کہ اس بیٹھک میں تاریخ کا کوئی اور وقت آ گیا ہے یہ وہ وقت نہیں جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہم لوگوں کو ایسا لگا کہ ہم قرونِ اولیٰ کے مدینے شریف کی زندگی میں ہیں اور یہ وہی عہد ہے وہی زمانہ ہے اور ہم ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جو اس عہد کی آواز کو ویسے ہی کسی آدمی کے منہ سے سن رہے ہیں، یہ سب کا تجربہ تھا،عجیب و غریب تجربہ تھا، ہم نے یوں محسوس کیا جیسے اس کمرے میں، بیٹھک میں عجیب طرح کی روشنی تھی ہو سکتا ہے یہ ہمارا خیال ہو لیکن اس کی کیفیت ایسی تھی کہ اس نے سب کے اوپر سحر کر دیا تھا،

تلاوت ختم ہوئی تو ہم نے بھا رفیق کا زبانی شکریہ ادا کیا کیونکہ ہم سارے اتنے جذب ہو گئے تھے کہ بولا نہیں جا رہا تھا۔ البتہ ہماری نگاہوں میں، جھکے ہوئے سروں میں اور ہماری کیفیت سے یہ صاف واضح ہوتا تھا کہ یہ جو کیفیت تھی جوہم پر گزر رہی تھی یہ کچھ اور ہے۔کوشش کر کے ہمت کر کے میں نے کہا، راہی صاحب ہم آپ کے بہت شکرگزار ہیں، پہلے آپ نے سورہ مزمل سنا کر پھر آپ نے اپنے دوست کو لا کر تعارف کروایا اور قرآن سنوایا، یہ کیفیت ہمارے اوپر کبھی پہلے طاری نہیں ہوئی تھی، راہی صاحب کہنے لگے، بھاجی! بات یہ ہے کہ میں سورہ مزمل کو جانتا ہوں اور بہت اچھی طرح جانتا ہوں لیکن یہ شخص مزمل والے کو جانتا ہے، اس لئے بہت واضح فرق پڑا۔
یہی بات ہے جب آپ ولی کو جانتے ہیں اور جاننے لگتے ہیں تو خوش قسمتی سے اللہ سے ایسا رابطہ پیدا ہو جاتا ہے جیسا بھا رفیق کا تھا تو پھر ایسی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں

جنسی معاملات اور سماجی ممنوعات ڈاکیے نے گھر کی بیل دی۔ ایک دس سال کے بچے نے دروازہ کھولا ۔ ڈاکیے نے بچے سے کہا۔ اپنے امی...
12/01/2018

جنسی معاملات اور سماجی ممنوعات
ڈاکیے نے گھر کی بیل دی۔ ایک دس سال کے بچے نے دروازہ کھولا ۔ ڈاکیے نے بچے سے کہا۔ اپنے امی ابو میں سے کسی کو بلواو ڈاک دے کر دستخط کروانے ھیں۔ بچے نے کہا۔ وہ گھر میں اکیلا ھے۔ ڈاکیے نے فون کرکے پولیس بلوا لی۔ والدین پر مقدمہ درج ھو گیا۔ اور بچے کو سوشل ڈیپارٹمنٹ والے لے گئے۔ کیونکہ والدین نے بچے کو گھر میں اکیلا چھوڑ کر اس کی حفاظت اور زندگی کو غیر یقینی بنا دیا تھا۔ برطانیہ میں بارہ سال سے کم عمر بچوں کو اکیلا چھوڑنا غیر قانونی ھے۔ چودہ سال سے کم عمر بچوں کو تا دیر تنہا چھوڑنا قابل گرفت جرم ھے۔ اور سولا سال تک کے بچوں کو رات میں اکیلا چھوڑنا غیر قانونی ھے...

ایک گھر میں چولہے کو آگ لگ گئ۔ پھر ایک بوائلر بھڑک اٹھا۔ فائر بریگیڈ والوں نے رپورٹ لکھی۔ اس گھر میں ایک چھوٹا بچہ ھے۔ ایسے واقعات سے اس کی زندگی کو خطرہ ھے۔ اور یہ واقعات والدین کی غیر ذمہ دارای کا ثبوت ھیں۔ چار سال تک وہ بچہ اپنے والدین سے دور کر دیا گیا۔ اس دوران اگر دوسرا بچہ بھی جنم لیتا۔ تو اسے بھی لے جاتے۔

ایک بچے نے پولیس کو فون کیا۔ اس کے والدین آپس میں لڑ رھے ھیں۔ اور حسب توفیق ایک دوسرے کو پھینٹی لگا رھے ھیں۔ پولیس والدین کو پکڑ کر لے گئ ۔ ان پر مقدمہ درج ھو گیا۔ بعد میں والدین نے صلح کر لی۔ لیکن ان کے چار بچے سوشل ڈیپارٹمنٹ والے لے گئے۔ وجہ یہ کہ جھگڑالو والدین کی وجہ سے بچوں کی مناسب تربیت ممکن نہیں ۔

یہاں بچے ریاست کی ذمہ داری ھیں۔ یہاں کی ریاست ماں جیسی ھے۔ یہ ریاست بچوں کو مفت تعلیم دیتی ھے۔ کھانا دیتی ھے۔ جیب خرچ دیتی ھے۔ مفت کتابیں دیتی ھے۔ مفت علاج کرواتی ھے۔ اور ان کی حفاظت اور ویلفیئر کی ذمہ دار ھے۔

ایک پیاری سی بچی ھے۔ اس کے والدین ھمارے فیملی فرینڈز ھیں۔ یہ بچی نرسری میں داخل ھو گئ ۔ ایک بار ھمارے گھر آئ تو بڑوں کی طرح باتیں کر رھی تھی۔ ھمیں اچھی لگی۔ پاس بلا کر پیار کرنا چاہا تو کہنے لگی۔ میں فی میل ھوں ۔ یعنی لڑکی ھوں ۔ یہ مناسب نہیں ۔ ھم سب ھنسنے لگے۔ اس کی ماں نے کہا۔ جب سے یہ نرسری میں داخل ھوئ ھے۔ روز ایک نہ ایک ایسا سبق لے کر آ جاتی ھے۔ اسے اسکول میں باقاعدہ یہ ٹریننگ دی جاتی ھے۔ تمہارے حساس جسمانی مقامات کونسے ھیں۔ اور تم نے کسی کو انہیں چھونے کی اجازت نہیں دینی۔ اگر کوئی چھوتا ھے۔ تو اپنی ٹیچر کو بتاو ۔ اندازہ کریں ۔ یہاں کی سوسائٹی نے پہلے یہ تسلیم کیا۔ کچھ لوگوں میں پیڈوفیلیا کی بیماری ھے۔ یعنی وہ بچوں کی طرف جنسی رحجان رکھتے ھیں۔ اسی طرح یہاں کی سوسائٹی نے تسلیم کیا۔ قریبی رشتوں میں انسیسٹ یعنی جنسی رحجانات کا مسئلہ ھے۔

جس میں بچے اپنے قریبی رشتہ داروں کی جنسیت کا شکار ھوتے ھیں۔ اور پھر اس سوسائٹی نے ان مسائل کا فکری ، تعلیمی اور عدالتی حل تلاش کیا۔ بچوں کی نرسری سے تربیت شروع کر دی۔ اور ایک ھم ھیں۔ ھماری زبان میں پیڈوفیلیا اور انسیسٹ کے لیے کوئی لفظ ھی نہیں ۔ گویا ھماری سوسائٹی یہ ماننے سے ھی انکار کرتی ھے۔ کہ ھمارے لوگ ان جنسی جرائم کا شکار ھیں۔ یہ ھپوکریسی یعنی منافقت کی انتہا ھے۔ کوئی ایسا شخص ھو گا۔ جس کو بچپن میں کسی نے ھاتھ نہ پھیرا ھو۔ بد فعلی کے واقعات عام ھیں۔ ھم اس تاثر کے ساتھ بڑے ھوتے ھیں۔ کہ مدرسوں میں اور اسکولوں میں چھوٹے بچوں کو جنسی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ھے۔ ھمارے پیشتر لطائف انہی جنسی واقعات کے گرد گھومتے ھیں۔ وہ لطیفہ سب نے سن رکھا ھو گا۔ کہ تمام مسلکی مدرسے کم از کم اس ایک معاملے میں متفق ھیں ۔

ھمارےتحت الشعور اور ھماری سوسائٹی میں یہ سب تلخ حقیقتیں اور احساسات موجود ھیں۔ لیکن ھم ان پر سنجیدہ بات نہیں کرتے۔ گفتگو نہیں کرتے۔ یہ سوشل ممنوعات یعنی taboos ھیں۔ جنہیں لطیفوں کی شکل میں انجوائے کیا جاتا ھے۔ معاشرے کے تاریک کونے کھدروں میں ان پر عمل کیا جاتا ھے۔ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ھے۔ لیکن ھمارا مذھبی مائنڈ سیٹ اور ھماری نام نہاد اخلاقیات ھمیں ان مسائل پر گفتگو کرنے سے روکتی ھیں۔ ایف ایس سی میں بیالوجی میں موجود ری پروڈکشن کا چیپٹر ھم دوستوں نے اندر سے کمرہ لاک کرکے پڑھا تھا۔ کوئی ھمیں سن نہ لے۔ جبکہ ھمارے اپنے چھوٹے بیٹے نے یہاں چھٹی کلاس میں جب سیکس ایجوکیشن پڑھنی شروع کی۔ تو وہ روز کھانے کی میز پر ھم سے سیکس ایجوکیشن پر سوال کرتا اور میں اور اس کی ماں اور اس کے بڑے بھائی اس کو جواب دیتے۔ جنسی معاملات کے ساتھ احساس جرم اور احساس گناہ جوڑ دیا گیا ھے۔ یہاں تک کہ میاں بیوی میں جسمانی تعلق کی بنیاد بھی اس سوچ پر رکھی گئی ھے۔ کہ یہ تعلق صرف بچے پیدا کرنے کی حد تک ھے۔ کئ میاں بیوی رات کو لائٹ جلانے نہیں دیتے ۔ اگر اس تعلق میں لطف اور گرم جوشی کا پہلو شامل ھو جائے تو قباحت پیدا ھوتی ھے اور اگر نہ ھو۔ تو تب بھی مسائل جنم لیتے ہیں ۔ ھم عجب منافقت کی غضب کہانی بن چکے ھیں ۔ شادیاں لیٹ ھوتی ھیں۔ خیر سے دنیا میں فحش ویب سائٹس دیکھنے والی نمبر ون قوم ھیں۔ عام محاورہ ھے۔ ھماری سوسائٹی میں ننانوے فیصد لوگ مشت ذنی کرتےھیں جو ایک فیصد نہیں کرتے۔

وہ جھوٹ بولتے ھیں۔ لیکن ان مسائل پر بات کرنا ان کا حل نکالنا ھماری اخلاقیات اور ھمارے مزھبی مائنڈ سیٹ کو منظور نہیں ۔ ھم نے کبوتروں کی مانند آنکھیں بند کر رکھی ھیں۔ اور پھر ایک دن کوئی بیمار جنسی بلا آتا ھے۔ اور ھمارے کسی معصوم کبوتر کو چیر پھاڑ دیتا ھے۔ تب ھمارے تحت الشعور میں چھپا اور پرورش پاتا ھمارا گلٹ ھمارا احساس گناہ تصویروں، نوحوں، شعروں اور احتجاجوں اور توڑ پھوڑ کی شکل میں باھر بہہ نکلتا ھے۔ ھم سوشل میڈیا پر سیاپا ڈال کر اپنے اپنے گلٹ کا کتھارسس کرتےھیں ۔ سیاست کرتے ھیں۔ اپنا تاریخی گناہ دوسروں کے کھاتے میں ڈالتے ھیں۔ اور پھر ھلکے پھلکے ھو کر اگلے کسی واقعہ کا انتظار کرنے لگتے ہیں لیکن اس کا مستقل حل اور تدارک نہیں کرتے۔ ھم کیسے مان لیں۔ ھم تو مسلمان ھیں۔ راسخ العقیدہ مذھبی ھیں۔ ھمارے موبائل فونز پر دن رات نعتیں اور سورتیں چلتی ھیں۔ ھم نے خود کو اپنے طے کردہ اونچے آدرشوں پر بٹھا رکھا ھے۔ ھم کیسے مان لیں۔ ھمارے اسلامی معاشرے میں ایسے جرائم ھو سکتے ھیں۔ یہ سوشل ممنوعات یعنی taboos ھیں ۔ ان پر بات کرنا گناہ ھے۔ اور اس پابندی نے ھمارے معاشرے کی صورت بگاڑ دی ھے۔
طارق احمد

31/12/2017

New Technology Allows Us To See The World Magnified 1000X

مکہ معظمہ میں ایک کافر ولید نامی رہتا تھا ، اس کا ایک سونے کا بت تھا جسے وہ پوجا کرتا تھا ، ایک دن اس بت میں حرکت پیدا ہ...
28/08/2017

مکہ معظمہ میں ایک کافر ولید نامی رہتا تھا ، اس کا ایک سونے کا بت تھا جسے وہ پوجا کرتا تھا ، ایک دن اس بت میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ کہنے لگا لوگو محمد اللہ کا رسول نہیں ہے اس کی تصدیق نہ کرنا۔ (معاذ اللہ )

ولید بڑا خوش ہوا اور باہر نکل کر اپنے دوستوں سے کہا مبارکباد! آج میرا معبود بولا ہے اور صاف صاف اس نے کہا ہے کہ محمد اللہ کا رسول نہیں ہے، یہ سن کر لوگ اس کے گھر آئے تو دیکھا کہ واقعی اس کا بت یہ جملے دہرا رہا ہے، وہ لوگ بھی بہت خوش ہوئے اور دوسرے دن ایک عام اعلان کے ذریعے ولید کے گھر میں ایک بہت بڑا اجتماع ہو گیا تا کہ اس دن بھی وہ لوگ بت کے منہ سے وہی جملہ سنیں۔ جب بڑا اجتماع ہو گیا تو ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دعوت دی تا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی خود تشریف لا کر بت کے منہ سے وہی بکواس سن جائیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو بت بول اٹھا:
'اے مکہ والو! خوب جان لو کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں ان کا ہر ارشاد سچا ہے اور ان کا دین برحق ہے تم اور تمھارے بت جھوٹے ہیں، گمراہ اور گمراہ کرنے والے ہیں اگر تم اس سچے رسول پر ایمان نہ لاؤ گے تو جہنم میں جاؤ گے، پس عقلمندی سے کام لو اور اس سچے رسول کی غلامی اختیار کر لو۔'
بت کا یہ وعظ سن کر ولید بڑا گھبرایا اور اپنے معبود کو پکڑ کر زمین پر دے مارا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فاتحانہ طور پر واپس ہوئے تو راستے میں ایک گھوڑے کا سوار جو سبز پوش تھا حضور سے ملا اس کے ہاتھ میں تلوار تھی جس سے خون بہہ رہا تھا ، حضور نے فرمایا تم کون ہو؟ وہ بولا حضور! میں جن ہوں اور آپ کا غلام اور مسلمان ہوں، جبل طور میں رہتا ہوں، میرا نام مہین بن العبر ہے، میں کچھ دنوں کے لئے کہیں باہر گیا ہوا تھا آج گھر واپس آیا تو میرے گھر والے رو رہے تھے ،

میں نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا ایک کافر جن جس کا نام مسفر تھا وہ مکہ میں آ کر ولید کے بت میں گھس کر حضور کے خلاف بکواس کر گیا ہے اور آج پھر گیا ہے تا کہ بت میں گھس کر آپ کے متعلق بکواس کرے ۔ یا رسول اللہ! مجھے سخت غصہ آیا میں تلوار لے کر اس کے پیچھے دوڑا اور اسے راستے میں قتل کر دیا اور پھر میں خود ولید کے بت میں گھس گیا اور جو کچھ کہا میں نے ہی بولا ہے یا رسول اللہ۔
حضور نے یہ قصہ سنا تو بڑی مسرت کا اظہار کیا اور اس اپنے غلام جن کے لئے دعا فرمائی ۔
(جامع المعجزات ص ۷)

Address

CCTI Islamabad
Islamabad
46000

Telephone

+923325284895

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pakistan Today posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pakistan Today:

Share