Vigilant Pakistan

Vigilant Pakistan Digital Media Empire

😢 تعلیم کا غروب ہوتا سورجتحریر ساجدہ تاجک                                                           ✍🏻ملک اس وقت تاریخ ک...
30/09/2025

😢 تعلیم کا غروب ہوتا سورج
تحریر ساجدہ تاجک
✍🏻ملک اس وقت تاریخ کے بدترین تعلیمی بحران سے گزر رہا ہے. تمام تر یونیورسٹیوں کالجوں اور سکولوں کے ایڈمشن ڈیسک سنسان ہو رہے ہیں🫧
*وہ مضامین جن کی کبھی معاشرتی توقیر تھی، اب ان کے نام بھی زنگ آلود بورڈز پر اداس لٹک رہے ہیں اردو فارسی ریاضی اسلامیات فزکس فلسفہ تاریخ، سوشیالوجی شماریات معاشیات نفسیات، کیمسٹری، باٹنی زوالوجی، لینگویجز.. یہ سب گویا خاموشی سے اپنے جنازے کے منتظر ہیں*
*جب ایک ٹک ٹاک ویڈیو کی کمائی، ایک ایم فل یا پی ایچ ڈی کی برسوں کی محنت سے زیادہ ہو جائے تو پھر کون بے جو اپنا جوانی کا سرمایہ کسی کلاس روم کی چاک دھول میں جھونکے*
*ایچ ای سی کی حالت اس بوڑھے بزرگ کی سی ہے جو گھر کے کونے میں کھانسی کے دورے لیتا ہے مگر پرانے خوابوں اور یادوں کے سہارے زندہ رہتا ہے*
*والدین کے پاس فیس نہیں جامعات کے پاس فنڈز نہیں کئی اداروں کو شاید اپنی زمین یا درخت بیچ کر کلاسیں چلانی پڑیں*
*یہ بحران آ چکا ہے اور یہ محض تعلیم کا بحران نہیں یہ معاشرے کی سانس رکنے کا لمحہ ہے*
*سوال یہ ہے کہ ہم نے اس شام میں اس ڈوبتے سورج کی آخری کرن میں، کچھ بچانا ہے تو کیسے بچائیں؟*
*سوچیے گا ضرور



Vigilant Pakistan

27/09/2025

Meet Mr. Shahbaz Jadoon – Professional Gym Trainer & Fitness Expert

Mr. Shahbaz Jadoon is a highly skilled fitness trainer, well-recognized across Hazara Division for his exceptional expertise in gym training, cardio workouts, sauna therapy, and steam bath techniques. With years of dedication and passion for fitness, he has successfully guided hundreds of individuals towards healthier lifestyles.

What truly sets Mr. Shahbaz apart is not only his mastery in physical training but also his remarkable ability to support people struggling with depression, anxiety, and negative thinking. Through structured gym sessions, motivational guidance, and positive activities, he has helped countless individuals regain confidence, energy, and mental well-being.

His work has earned him great respect and recognition throughout Hazara Division, especially in Abbottabad, where many of his students credit him for transforming their lives. To further benefit the community, his sessions and activities will be shared with the public, encouraging more people to engage in positive, healthy routines.

Mr. Shahbaz Jadoon currently provides training at Fitness First Gym, located at Rawaj Shadi Hall, Supply, Abbottabad. This is a valuable opportunity for all fitness enthusiasts and those seeking personal transformation to learn under his guidance.

📞 Contact: 0310-5594865
👤 Trainer: Mr. Shahbaz Jadoon

Vigilant Pakistan

دنیا میں مستقبل قریب میں ہونے والی کچھ تبدیلیاں:* جیسے ویڈیو فلموں کی دکانیں غائب ہو گئیں، ویسے ہی پٹرول اسٹیشن بھی ختم ...
01/09/2025

دنیا میں مستقبل قریب میں ہونے والی کچھ تبدیلیاں:

* جیسے ویڈیو فلموں کی دکانیں غائب ہو گئیں، ویسے ہی پٹرول اسٹیشن بھی ختم ہو جائیں گے۔

1. کاروں کی مرمت کی دکانیں، اور آئل، ایکزاسٹ، اور ریڈی ایٹرز کی دکانیں ختم ہو جائیں گی۔

2. پٹرول/ڈیزل کے انجن میں 20,000 پرزے ہوتے ہیں جبکہ الیکٹرک کار کے انجن میں صرف 20 پرزے ہوتے ہیں۔ ان کو زندگی بھر کی ضمانت کے ساتھ بیچا جاتا ہے اور یہ وارنٹی کے تحت ڈیلر کے پاس ٹھیک ہوتے ہیں۔ ان کا انجن اتار کر تبدیل کرنا صرف 10 منٹ کا کام ہوتا ہے۔

3. الیکٹرک کار کے خراب انجن کو ایک ریجنل ورکشاپ میں روبوٹکس کی مدد سے ٹھیک کیا جائے گا۔

4. جب آپ کی الیکٹرک کار کا انجن خراب ہو جائے گا، آپ ایک کار واش اسٹیشن کی طرح کی جگہ جائیں گے، اپنی کار دے کر کافی پئیں گے اور کار نئے انجن کے ساتھ واپس ملے گی۔

5. پٹرول پمپ ختم ہو جائیں گے۔

6. سڑکوں پر بجلی کی تقسیم کے میٹر اور الیکٹرک چارجنگ اسٹیشن نصب کیے جائیں گے (پہلے دنیا کے پہلے درجے کے ممالک میں شروع ہو چکے ہیں)۔

7. بڑی بڑی سمارٹ کار کمپنیوں نے صرف الیکٹرک کاریں بنانے کے لئے فیکٹریاں بنانے کے لئے فنڈ مختص کیے ہیں۔

8. کوئلے کی صنعتیں ختم ہو جائیں گی۔ پٹرول/آئل کمپنیاں بند ہو جائیں گی۔ آئل کی تلاش اور کھدائی رک جائے گی۔

9. گھروں میں دن کے وقت بجلی پیدا کر کے ذخیرہ کی جائے گی تاکہ رات کو استعمال اور نیٹ ورک کو فروخت کی جا سکے۔ نیٹ ورک اسے ذخیرہ کر کے زیادہ بجلی استعمال کرنے والی صنعتوں کو فراہم کرے گا۔ کیا کسی نے Tesla کا چھت دیکھا ہے؟

10. آج کے بچے موجودہ کاریں میوزیم میں دیکھیں گے۔ مستقبل ہماری توقعات سے زیادہ تیزی سے آ رہا ہے۔

11. 1998 میں، کوڈاک کے 170000 ملازمین تھے اور یہ دنیا بھر میں 85٪ فوٹو پیپر فروخت کرتا تھا۔ دو سالوں میں ان کا بزنس ماڈل ختم ہو گیا اور وہ دیوالیہ ہو گئے۔ کس نے سوچا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے؟

12. جو کچھ کوڈاک اور پولاروئڈ کے ساتھ ہوا، ویسا ہی اگلے 5-10 سالوں میں کئی صنعتوں کے ساتھ ہوگا۔

13. کیا آپ نے 1998 میں سوچا تھا کہ تین سالوں کے بعد، کوئی بھی فلم پر تصاویر نہیں لے گا؟ اسمارٹ فونز کی وجہ سے، آج کل کون کیمرہ رکھتا ہے؟

14. 1975 میں ڈیجیٹل کیمرے ایجاد ہوئے۔ پہلے کیمرے میں 10000 پکسلز تھے، لیکن انہوں نے مور کے قانون کی پیروی کی۔ جیسے ہر ٹیکنالوجی کے ساتھ ہوتا ہے، پہلے تو توقعات پر پورے نہیں اترے، لیکن پھر بہت بہتر ہو گئے اور غالب آ گئے۔

15. یہ دوبارہ ہوگا (تیزی سے) مصنوعی ذہانت، صحت، خود کار گاڑیاں، الیکٹرک کاریں، تعلیم، تھری ڈی پرنٹنگ، زراعت، اور نوکریوں کے ساتھ۔

16. کتاب "Future Shock" کے مصنف نے کہا: "خوش آمدید چوتھی صنعتی انقلاب میں"۔

17. سافٹ ویئر نے اور کرے گا اگلے 5-10 سالوں میں زیادہ تر روایتی صنعتوں کو متاثر۔

18. اوبر سافٹ ویئر کے پاس کوئی گاڑی نہیں، اور یہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی ہے! کس نے سوچا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے؟

19. اب ایئربی این بی دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل کمپنی ہے، جبکہ اس کے پاس کوئی جائداد نہیں۔ کیا آپ نے کبھی ہلٹن ہوٹلز کو ایسا سوچا؟

20. مصنوعی ذہانت: کمپیوٹر دنیا کو بہتر طور پر سمجھنے لگے ہیں۔ اس سال ایک کمپیوٹر نے دنیا کے بہترین کھلاڑی کو شکست دی (متوقع سے 10 سال پہلے)۔

21. امریکہ کے نوجوان وکلاء کو نوکریاں نہیں مل رہیں کیونکہ IBM کا واٹسن، جو آپ کو سیکنڈز میں قانونی مشورے دیتا ہے 90٪ کی درستگی کے ساتھ، جبکہ انسانوں کی درستگی 70٪ ہوتی ہے۔ لہذا اگر آپ قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو فوراً رک جائیں۔ مستقبل میں وکلاء کی تعداد 90٪ کم ہو جائے گی اور صرف ماہرین رہیں گے۔

22. واٹسن ڈاکٹروں کی مدد کر رہا ہے کینسر کی تشخیص میں (ڈاکٹروں کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ درست)۔

23. فیس بک کے پاس اب چہرے کی شناخت کا پروگرام ہے (انسانوں سے بہتر)۔ 2030 تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گے۔

24. خودکار گاڑیاں: پہلی خودکار گاڑی سامنے آ چکی ہے۔ دو سال میں پوری صنعت بدل جائے گی۔ آپ کار کی مالکیت نہیں چاہیں گے کیونکہ آپ ایک کار کو فون کریں گے اور وہ آ کر آپ کو آپ کی منزل تک لے جائے گی۔

25. آپ اپنی کار پارک نہیں کریں گے بلکہ سفر کی مسافت کے حساب سے ادائیگی کریں گے۔ آپ سفر کے دوران بھی کام کریں گے۔ آج کے بچے ڈرائیونگ لائسنس نہیں لیں گے اور نہ ہی کبھی گاڑی کے مالک ہوں گے۔

26. اس سے ہمارے شہر بدل جائیں گے۔ ہمیں 90-95٪ کم گاڑیاں چاہئیں ہوں گی۔ پارکنگ کے پرانے مقامات سبز باغات میں تبدیل ہو جائیں گے۔

27. ہر سال 1.2 ملین لوگ گاڑی حادثات میں مر جاتے ہیں، جس میں شرابی ڈرائیونگ اور تیز رفتاری شامل ہے۔ اب ہر 60,000 میل میں ایک حادثہ ہوتا ہے۔ خودکار گاڑیوں کے ساتھ، یہ حادثات ہر 6 ملین میل پر ایک تک کم ہو جائیں گے۔ اس سے سالانہ ایک ملین لوگوں کی جان بچائی جائے گی۔

28. روایتی کار کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔ وہ انقلابی انداز میں ایک بہتر کار بنانے کی کوشش کریں گی، جبکہ ٹیکنالوجی کمپنیاں (Tesla، Apple، Google) ایک انقلابی انداز میں پہیے پر کمپیوٹر بنائیں گی (ذہین الیکٹرک گاڑیاں)۔

29. Volvo نے اب اپنے گاڑیوں میں انٹرنل کمبسشن انجن کو ختم کر کے، صرف الیکٹرک اور ہائبرڈ انجنوں سے تبدیل کر دیا ہے۔

30. Volkswagen اور Audi کے انجینئرز (Tesla) سے پوری طرح خوفزدہ ہیں اور انہیں ہونا چاہیے۔ الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی تمام کمپنیوں کو دیکھیں۔ کچھ سال پہلے یہ معلوم نہیں تھا۔

31. انشورنس کمپنیاں بڑے مسائل کا سامنا کریں گی کیونکہ بغیر حادثات کے اخراجات سستے ہو جائیں گے۔ کار انشورنس کا کاروباری ماڈل ختم ہو جائے گا۔

32. جائداد میں تبدیلی آئے گی۔ کیونکہ سفر کے دوران کام کرنے کی وجہ سے، لوگ اپنی اونچی عمارتیں چھوڑ دیں گے اور زیادہ خوبصورت اور سستے علاقوں میں منتقل ہو جائیں گے۔

33. 2030 تک الیکٹرک گاڑیاں عام ہو جائیں گی۔ شہر کم شور والے اور ہوا زیادہ صاف ہو جائے گی۔

34. بجلی بے حد سستی اور ناقابل یقین حد تک صاف ہو جائے گی۔ سولر پاور کی پیداوار بڑھتی جا رہی ہے۔

35. فوسل فیول انرجی کمپنیاں (آئل) گھریلو سولر پاور انسٹالیشنز کو نیٹ ورک تک رسائی محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ مقابلے کو روکا جا سکے، لیکن یہ ممکن نہیں - ٹیکنالوجی آ رہی ہے۔
سبز توانائی، چاہے وہ سبز ہائیڈروجن سے ہو یا ماحول دوست ذرائع سے، اور سبز شہر آئیں گے، اور زیادہ تر ممالک میں نیوکلیئر ری ایکٹرز ختم ہو جائیں گے۔

36. صحت: Tricorder X کی قیمت کا اعلان اس سال کیا جائے گا۔ کچھ کمپنیاں ایک طبی آلہ بنائیں گی (جس کا نام "Tricorder" ہے Star Trek سے لیا گیا)، جو آپ کے فون کے ساتھ کام کرتا ہے، جو آپ کی آنکھ کی ریٹینا کا معائنہ کرے گا، آپ کے خون کا نمونہ لے گا، اور آپ کی سانس کی جانچ کرے گا۔ اور 54 بائیولوجیکل مارکرز کی تشخیص کرے گا جو تقریباً کسی بھی بیماری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ فی الحال مختلف مقاصد کے لئے درجنوں فون ایپلی کیشنز دستیاب ہیں۔
#قراةالعین زینب ایڈووکیٹ
Quratulain Zainab Advocate


Vigilant Pakistan

افغانی تو عاجز لوگ تھےہماری جوتی ہمارے پاؤں سے اتار کر اپنے ہاتھوں میں لیکر اسے اچھے سے پالش کر کے دوبارہ ہمارے پاؤں کے ...
01/09/2025

افغانی تو عاجز لوگ تھے
ہماری جوتی ہمارے پاؤں سے اتار کر اپنے ہاتھوں میں لیکر اسے اچھے سے پالش کر کے دوبارہ ہمارے پاؤں کے سامنے ترتیب سے رکھنے والے

‏ہمارے گلی محلے میں سے کچرہ اٹھا کر ٹھکانے لگانے والے

‏ہمارے بچوں کو چھلیاں ابال کر نمک مصالحہ ڈال کر کھلانے والے

‏ہمارے بازاروں میں پھلوں کے ٹھیلے لگا کر روزی کمانے والے

‏سادی کپڑے جوتی کی دکان بنا کر کم خرچ کر ہزار کی جوتی ہزار کا جوڑا پانچ سو سات سو میں آوازیں لگا کر بلا کر ہماری من مرضی کے ریٹ پر ہمیں دینے والے

‏ہماری مسجدوں کے پہلی صف کے نمازی۔❤

‏ہمارے ماحول معاشرے میں ٹوپی اور برقعے کا کلچر عام رکھنے والے

‏ہمارے بازاروں میں ہاتھوں میں شاپر مسواک دانداسہ لیے کھڑے

‏ہمارے مکانوں کی بنیادیں کھودنے والے

‏ہمارے کھیتوں سے گُررررررر گُررررررر کٹر چلا کر لکڑیاں کاٹ کر دینے والے

‏گینتی بیلچہ اٹھاۓ چوک چوراہوں پر مزدوری کے انتظار میں بیٹھے

‏پلاسٹک کے برتن موٹر سائیکل پر لاد کر پھیری کر کے ہمارے دیہاتوں میں بیچنے والے

‏سوکھی روٹی لوہا لین کے صدائیں لگا کر اپنے بچوں کی روزی کمانے والے

‏ہمیں لچھے دار پراٹھے اور نشیلی چاۓ بنا کر کھلانے پلانے والے

‏مچھلی سٹائل تکون سٹائل شہد مکھن چاکلیٹ پیزا آلو قیمہ والے پراٹھے متعارف کروانے والے ہمیں کھلانے والے

‏منڈیوں میں ہاتھ ریڑھی چلا کر سبزی فروٹ پک اینڈ ڈراپ کرنے والے

‏واللہ آپ نے ہماری جتنی خدمت کی اتنی کوئی قوم آج تک نہ کر سکی ہے نہ آئندہ تاریخ میں ہماری خدمت کرے گی

‏تم ہمارے دلوں کے شہزادے تھے ہو اور تاقیامت رہو گے تم سے ہمارے گلی محلوں کی ہماری بستیوں کی رونق تھی تم ہمارے بھائی تھے ہو اور رہو گے ۔

لیکن یار ہمیں معاف کردینا ،

پھر نئی ہجرت کوئی درپیش ہے
خواب میں گھر دیکھنا اچھا نہیں
کچھ شرپسند عناصر کی وجہ سے ہم پوری کمیونٹی کو غلط نہیں کہہ سکتے
Ayesha Rafique Tanoli

Vigilant Pakistan

    Vigilant Pakistan
28/08/2025

Vigilant Pakistan

یہ بات کئی بار تحقیق سے ثابت کی جاچکی ہے کہ دماغ کو جتنا زیادہ فعال رکھا جائے اتنا ہی زیادہ اس کی کارکردگی میں اضافہ ہوت...
27/08/2025

یہ بات کئی بار تحقیق سے ثابت کی جاچکی ہے کہ دماغ کو جتنا زیادہ فعال رکھا جائے اتنا ہی زیادہ اس کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر دماغ کو کم استعمال کیا جائے تو آہستہ آہستہ اس کی کارکردگی کم ہونے لگتی ہے اور ہماری ذہانت میں فرق آنے لگتا ہے۔

بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ کئی دماغی بیماریوں جیسے ڈیمینشیا، الزائمر اور خرابی یادداشت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اوائل عمری ہی سے دماغی مشقیں اپنا کر ان بیماریوں سے کسی حد تک حفاظت ممکن ہے۔

دراصل دماغ ایک ہی چیزوں اور ایک ہی معمول سے ’بور‘ ہوجاتا ہے لہٰذا اس کی ’کام میں دلچسپی‘ بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے نئی نئی چیزوں سے روشناس کروایا جائے۔

ماہرین دماغ کو فعال اور سرگرم رکھنے کے لیے کچھ ورزشیں بتاتے ہیں جو آپ بغیر کسی محنت کے دن کے کسی بھی حصہ میں کر سکتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں وہ ورزشیں کیا ہیں۔

*دماغی حساب*
جب بھی پیسوں یا اعداد و شمار کا حساب کرنا ہو تو کاغذ قلم یا کیلکولیٹر کے بجائے زبانی حل کریں۔ اس سے آپ کا دماغ فعال ہوگا۔

*نئی زبان سیکھیں*
نئی زبان سیکھنا دماغ کے لیے بہترین ورزش ہے۔ نئے نئے الفاظ، ان کے مطلب اور تلفظ سننا، بولنا اور سمجھنا آپ کے دماغ کی سستی کو دور کردے گا اور آپ اپنی ذہانت میں اضافہ محسوس کریں گے۔

*غیر بالادست ہاتھ کا استعمال*
اگر آپ سیدھا ہاتھ استعمال کرنے کے عادی تو اپنے الٹے، اور الٹا ہاتھ استعمال کرنے کے عادی ہیں تو دن میں کچھ کام سیدھے ہاتھ سے ضرور نمٹائیں۔ یہ جسمانی طور پر مشکل کام ہوسکتا ہے مگر دماغ کے لیے یہ ایک بہترین مشق ہے۔

ہم جو ہاتھ استعمال کرتے ہیں ہمارے دماغ کا وہی حصہ زیادہ فعال ہوتا ہے۔ دوسری طرف کے حصہ کو فعال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس طرف کے ہاتھ کو حرکت دی جائے۔ ماہرین اس کے لیے بہترین ورزش غیر بالا دست ہاتھ سے دانت برش کرنا بتاتے ہیں۔

*مختلف طریقہ سے مطالعہ*
جب بھی مطالعہ کریں مختلف طریقے اپنائیں۔ کبھی باآواز بلند، کبھی ہلکی آواز میں پڑھیں۔ کبھی صرف دل میں پڑھیں۔ کبھی کسی دوست سے کہیں کہ وہ آپ کو پڑھ کر سنائے۔

*خوشبویات سونگھیں*
خوشبو سونگھنا بھی دماغی خلیات کو فعال کرتا ہے۔ اپنے بستر کے قریب کوئی خوشبو رکھیں اور صبح اٹھنے کے بعد اسے سونگھیں۔ اسی طرح اپنے بیگ میں، آفس کی ڈیسک پر بھی خوشبویات رکھیں اور دن بھر مختلف کاموں کے دوران اسے سونگھتے رہیں۔

*صبح کی روٹین بدلیں*
صبح کی ایک ہی روٹین کو لمبے عرصہ تک چلانے کے بجائے تھوڑ ے تھوڑے دن بعد اس میں کچھ تبدیلی لائیں۔

مثلاً کسی دن ناشتہ کرنے کے بعد تیار ہوں، کسی دن چائے کی جگہ کافی کا استعمال کریں، کسی دن صبح خبریں دیکھنے کے بجائے کوئی ٹی وی شو (سرسری سا) دیکھ لیں۔ یہ سارے کام آپ کے دماغ کو سرگرم کرکے اسے فعال کریں گے۔

*کھانے کے لیے جگہ کی تبدیلی*
ہر روز ایک ہی جگہ بیٹھ کر کھانے کے بجائے جگہ تبدیل کریں۔ ڈائننگ ٹیبل پر کرسی بھی تبدیل کریں۔

کسی دن اگر آپ کھانے کے قریب بیٹھے ہیں اور ہر چیز آپ کی دسترس میں ہے تو کسی دن کھانے سے دور بیٹھیں۔ کھانے کی اشیا، نمک، چینی وغیرہ لینے میں دقت آپ کے دماغ کو چست کردے گی۔

*نئی چیزیں دیکھیں*
سفر کے دوران گاڑی کے شیشہ بند رکھنے کے بجائے کھلے رکھیں اور باہر ہونے والے کاموں، آوازوں اور خوشبوؤں کا تجربہ کریں۔

*سپر مارکیٹ میں جائیں*
سپر مارکیٹ میں بے شمار ورائٹی موجود ہوتی ہے۔ جب بھی سپر مارکیٹ جائیں کسی شیلف کے قریب رک کر اوپر سے نیچے تک دیکھیں۔ آپ ایک ہی شے کو مختلف ڈبوں اور پیکنگ میں بند دیکھیں گے۔ اس میں جو چیز آپ کے لیے اجنبی ہو اسے اٹھائیں اور اس کے اجزا پڑھیں۔

یہ کچھ نیا سیکھنے جیسا ہوگا اور آپ کی دماغی صلاحیت میں اضافہ کرے گا۔

*کچھ نیا کھائیں*
اپنی ذائقہ کی حس کو فعال کریں اور نئی نئی چیزیں کھانے یا چکھنے کی عادت ڈالیں۔ ہمیشہ روٹین کے کھانے کھانا دماغ کو سست کردیتا ہے




Vigilant Pakistan
Quratulain Zainab Advocate

21/08/2025

"Even the sky is not the same every day, so how can you expect people to be?"
"آسمان بھی روز ایک جیسا نہیں ہوتا، تو لوگوں سے ایک جیسے ہونے کی توقع کیوں؟"
Vigilant Pakistan

A Call to  On 19 August, we mark World Humanitarian Day — a time to honor those who step into crises to help others, and...
19/08/2025

A Call to

On 19 August, we mark World Humanitarian
Day — a time to honor those who step into crises to help others, and to stand with the millions of people whose lives hang in the balance.

This year the message is clear: the humanitarian system is stretched to its limits; underfunded, overwhelmed and under attack.

Where bombs fall and disasters strike, humanitarian workers are the ones holding the line keeping people alive, often at great personal risk. But more and more those who help are becoming targets themselves.

In 2024 alone over 380 humanitarian workers were killed. Some in the line of duty, others in their homes. Hundreds more have been injured, kidnapped or detained, and there is reason to fear 2025 could be worse.

Too often the world looks away, even when these attacks violate international law. The laws meant to protect aid workers are ignored. Those responsible walk free. This silence and lack of accountability cannot continue.

The system is failing not just humanitarian workers, but the people they serve. We’re not at a crossroads anymore. We’re standing at the edge. Needs are rising. Funding is falling. Attacks on aid workers are breaking records.

To pull us back from that edge, this World Humanitarian Day we’re relaunching with sharper urgency demanding protection, accountability and action.

It’s time to turn global outrage into real pressure on those in power, asking them to:

Protect humanitarian workers and the civilians they serve
Uphold international humanitarian law
Fund the lifelines we claim to support
If we can’t protect the people who save lives, what does that say about us? If we let this continue, we risk losing not just a system but our sense of humanity.

Leaders ignored last year’s call. This year, we relaunch . Let's rally public pressure on those in power to uphold the laws that safeguard humanity, and to protect civilians and humanitarian workers in conflict zones.

Share the video to demand governments, parties to conflict and world leaders uphold international law, end impunity, and .

CALL TO ACTION: JOIN THE CAMPAIGN!

When protection is denied and accountability is absent, our voices and actions must fill the void. Aid workers keep going into danger, through checkpoints, under fire. They show up. So must we.

Use your voice: Every post, tag and conversation build pressure for protection. Share, speak out and demand action using .
Fund the lifeline: Humanitarians can’t deliver without safety or support. Help keep aid flowing and protect aid workers – especially local responders.
Mobilize: Across cities, campuses and communities; people are taking a stand. Show leaders the world is watching.
Create with purpose: Artists, storytellers, influencers – use your art, platforms and brands to stir emotion and inspire action. Make this message impossible to ignore.

Background
On 19 August 2003, a bomb attack on the Canal Hotel in Baghdad, Iraq, killed 22 humanitarian aid workers, including the UN Special Representative of the Secretary-General for Iraq, Sergio Vieira de Mello. Five years later, the United Nations General Assembly adopted a resolution designating 19 August as World Humanitarian Day (WHD).

Each year, WHD focuses on a theme, bringing together partners from across the humanitarian system to advocate for the survival, well-being and dignity of people affected by crises, and for the safety and security of aid workers.

WHD is a campaign by the United Nations Office for the Coordination of Humanitarian Affairs (OCHA).

Related websites
Office for the Coordination of Humanitarian Affairs (OCHA)
Delivering Humanitarian Aid
Inter-Agency Standing Committee (IASC)
UN World Food Programme (WFP)
UN Refugee Agency (UNHCR)
UN Children's Agency (UNICEF)
World Health Organization (WHO)
Remember the Fallen
News related to Humanitarian Aid
I have been seeing posts on this topic since morning but it was not clear how this day started and what is its importance. I did some research in this regard and the results that came out are in front of you. The purpose of the post is to inform the public about this day. Thank you.
Ayesha Rafique Tanoli

Vigilant Pakistan

موسمیاتی تغیر کے منڈلاتے ،، خدشات اور خطرات......!!!سرکار اب نہیں جاگی تو کب جاگے گی۔؟؟؟ خطرے کی گھنٹی بج اٹھی ہےپس منظر...
19/08/2025

موسمیاتی تغیر کے منڈلاتے ،، خدشات اور خطرات......!!!

سرکار اب نہیں جاگی تو کب جاگے گی۔؟؟؟
خطرے کی گھنٹی بج اٹھی ہے

پس منظر ۔۔۔۔۔!! محرکات ۔۔۔۔۔۔!!! خطرات ۔۔۔۔!!! تحفظات ۔۔۔۔!!! اثرات ۔۔۔۔!!!!

جامع رپورٹ :
By Lap Of Nature Ayesha Rafique Tanoli
پانچ سے سات ہزار سال پہلے دریائے سندھ کی تہذیب، آٹھ سے 10 ہزار سال پہلے ہاکڑہ دریا کے ارد گرد کی آبادیاں اور لاکھوں سال پہلے دریائے سواں کے ارد گرد موجود انسانی آباد کاری جسے سوانین کلچر کا نام دیا جاتا ہے، وہ کیسے معدوم ہوئیں؟

اس بارے میں کئی ایک نظریات بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی ہے۔

اگر حالیہ 12 سال میں پاکستان میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جائے تو کیا یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے لیے وہی تاریخ دہرائی جانے والی ہے اور ہمارے لیے 25واں گھنٹہ شروع ہو چکا ہے۔

سوات میں کیا ہوا؟

مدین کے بیچوں بیچ گزرنے والے نالے بشی گرام کے کنارے پر کھڑے ہو کر میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ وہی جگہ ہے جہاں دو سال پہلے میں نہایا تھا اور پھر ساتھ ٹراؤٹ فش فارم پر مچھلی کھائی تھی کیونکہ دو سال پہلے یہ ایک تنگ سا نالہ تھا جس کے دونوں جانب آبادیاں اور ہوٹل تھے۔ وہ نالہ اب دریا بن چکا ہے۔

آبادیاں اور ان کے بیچ کی سڑکیں صفحہ ہستی سے ایسی مٹ چکی ہیں جیسے کہ وہ تھیں ہی نہیں۔

بشی گرام نالے کی تباہی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نالے کے مرکز سے 400 میٹر دور بچ جانے والے گھروں کی ایک پوری منزل ریت میں دب چکی ہے۔

اس نالے کے تھوڑی دور بحرین بازار سے منسلک ایک دوسرا نالہ درال ہے۔ کبھی اس کے دونوں جانب موجود ہوٹلوں کی تصاویر کیلنڈروں کی زینت بنتی تھیں۔

اب وہاں تباہی اور بربادی کی بھیانک داستان ہے

بحرین کے ایک امیر ہندو گنگا کشن کا گھر جو تقسیم کے بعد سے آبادی کے بیچ میں تھا اور اس سے پہلے آبادی پھر سڑک پھر آبادی تھی وہ بھی 75 سال بعد آدھے سے زیادہ بہہ گیا۔

درال بھی اب نالہ نہیں رہا بلکہ دریا جتنی چوڑائی اختیار کر چکا ہے اور اس میں موجود کمرے جتنے بڑے اور بھاری پتھر بتا رہے ہیں کہ جو ان کے راستے میں آئے گا اس کا حشر کیا ہو گا۔ بحرین کا تاریخی بازار اب صرف ایک تاریخ بن کر رہ گیا ہے۔

پانی اترنے کے دسویں روز بعد بھی لوگ دوسری منزلوں سے ریت نکال رہے تھے جبکہ گراؤنڈ فلور مکمل طور پر ریت اور پتھروں سے اٹے ہوئے تھے۔

یہی صورتحال دریائے سوات میں گرنے والے تمام نالوں کی ہے۔

یہ نالے اور دریا جو ملبہ پہاڑوں سے اتار کر لائے ہیں اس کے بعد دریا کی سطح 20 سے 40 فٹ اوپر ہو چکی ہے، یعنی اگلا سیلاب اب اور زیادہ تباہی لائے گا۔

دریائے سوات سے سینکڑوں میل دور منچھر جھیل اور حمل جھیل جن کے درمیان تقریباً سو کلو میٹر کا فاصلہ تھا اب وہ ایک ہی جھیل بن چکی ہیں۔

بشی گرام نالہ جو کہ مدین کے مقام پر دریائے سوات میں گرتا ہے۔ اس سے چار سے پانچ سو میٹر دور گھر مکمل طور پر یا تو نیست و نابود ہو چکے ہیں یا پھر ریت کے نیچے ایسے دفن ہیں کہ جیسے یہاں کبھی گھر تھے ہی نہیں۔

میں نے ایسے ہی ایک رہائشی سے جو ریت سے اپنا گھر نکال رہا تھا اس سے پوچھا کہ جب آپ کو پتہ ہے کہ یہاں پانی آجاتا ہے تو یہاں گھر کیوں بناتے ہیں؟

اس نے جواب دیا ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ہم پہاڑی لوگ ہیں ہم اپنی ہزاروں سالہ اساطیری کہانیاں نسل در نسل سینوں میں لیے چلتے ہیں۔

ہمیں ان میں کہیں بھی ایسے سیلابوں کا تذکرہ نہیں ملتا۔

’پہلی بار ہم 2010 میں تباہ ہوئے اور اس کے بعد سے چوتھی بار اجڑ ے ہیں۔ لیکن اب ہم یہاں گھر نہیں بنائیں گے بلکہ پہاڑوں پر چڑھ جائیں گے۔‘

زبیر تور ولی بحرین سوات میں رہائش پذیر محقق اور مصنف ہیں

أن کا کہنا تھا کہ :
کہ سوات میں پہلی صدی میں ایسا سیلاب آیا تھا جس کے نتیجے میں دریا کے کناروں پر آباد شہر تباہ ہو گئے تھے۔ بدھ مت کی خانقاہیں ویران ہو گئی تھیں۔

لوگ ڈر کر پہاڑوں کے اوپر چڑھ گئے اور آج پہاڑوں کے وسط میں ہمیں بدھ دور کے کئی آثار جو پانچویں صدی تک جاتے ہیں ملتے ہیں۔

’لیکن پھر پہاڑوں پر بھی یہ لوگ زیادہ عرصے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ نہیں کر سکے۔‘

زبیر کہتے ہیں عموماً سوات میں مون سون کی بارشیں نہیں ہوتیں لیکن اس بار کیا ہوا کہ مئی، جون تک پہاڑوں کے اوپر جہاں گلیشئرز ہیں وہاں برف باری ہوتی رہی۔

جولائی اگست آیا تو پہاڑوں کی چوٹیوں پر طوفانی بارشیں شروع ہو گئیں، جن کی وجہ سے بارش اور گلیشئرز کے پانی نے مل کر ایسا سیلاب پیدا کیا جس نے پہاڑوں کے اوپر سے مٹی اور بھاری پتھر سرکائے جس سے نہ صرف بھیانک تباہی ہوئی بلکہ نیچے دریا کی سطح بھی ملبے کی وجہ سے تیس فٹ سے زیادہ بلندہو چکی۔

اس لیے حالیہ سیلاب کے بعد جو آبادیاں بچ بھی گئی ہیں اگلے سیلاب میں پانی ان تک بھی پہنچ جائے گا۔

کیا مون سون کا طریقہ بدل رہا ہے؟

عالمی ماہرین موسمیات کہتے ہیں کہ تباہ کن مون سون کی ایک بڑی وجہ ’لا نینا‘ ہے۔

جب بحر الکاہل میں خط استوا کے نزدیک ٹھنڈے پانی سے گرم ہوائیں ٹکراتی ہیں تو سطح سمندر کے درجہ حرارت میں معمولی اضافہ ہوتا ہے۔ یہ اضافہ فیصلہ کرتا ہے کہ مون سون کی بارشیں کتنی ہوں گی۔

عالمی سطح پر درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے بعد موسموں کی شدت نوشتہ دیوار بن چکی ہے۔

اس سال اپریل میں بھارت میں جو گرمی پڑی اس نے 122 سالہ اور پاکستان میں 62 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یورپ میں بھی اس سال جولائی کو تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار دیا گیا ہے۔

زمین کے درجہ حرارت میں 2026 تک 1.7 سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ہو سکتا ہے اور پاکستان کا درجہ حرارت بھی اگلے 20 سالوں میں اڑھائی درجے تک بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی جیکب آباد ضلع کے درجہ حرارت نے 52 سینٹی گریڈ کو چھو لیا ہے۔

ماہرین کے مطابق جیکب آباد اب انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں رہی اور اس کی آبادی کو کہیں اور منتقل کرنا پڑے گا۔

اس کا واضح مطلب ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں سب سے بری طرح پاکستان کو متاثر کر رہی ہیں اور ان کا اثر اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ ایک گنجان آباد ملک ہے۔

مون سون کی بارشوں کے بدلتے انداز نے اس کا دائرہ پاکستان میں دو سو کلومیٹر دور تک پھیلا دیا ہے، یعنی پہلے ان بارشوں کی حد دریائے سندھ تک تھی اور اب یہ پاک افغان بارڈر کو کراس کر کے جلال آباد، قندھار اور ایرانی بلوچستان تک بھی پہنچ چکی ہے۔

نیشنل فلڈ کنٹرول میں ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر اعجاز تنویر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس موسم میں صرف کراچی میں معمول سے چار سو گنا زیادہ بارش ہو چکی ہے۔ بلوچستان میں یہ شرح پانچ سو اور سندھ میں آٹھ سو فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ جتنی بارشیں صدیوں میں ہوتی ہیں وہ ایک ڈیڑھ مہینے میں برس گئی ہیں۔ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔

جو ہوائیں بارشیں برساتی ہیں وہ اپنے ساتھ تو نمی لے کر آتی ہیں لیکن انہیں مقامی طور پر کئی گنا زیادہ نمی مل جاتی ہے۔

مشرقی اور مغربی ہواؤں کے ملاپ سے یہ بارشیں معمول سے بہت زیادہ ہوئی ہیں۔ اب اگر ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوتی تو یہ پانی اگلے کئی سال تک ہم استعمال میں لا سکتے تھے لیکن یہ سارا پانی تباہی مچاتا ہوا سمندر میں جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معمول سے زیادہ بارشوں کا یہ سلسلہ اگلے دس سال تک چلے گا اور پھر یہ سلسلہ نہ صرف رک جائے گا بلکہ خشکی کا دورانیہ شروع ہو گا اور قحط کی صورتحال بن سکتی ہے۔

اس سال ان بارشوں کا رخ سندھ اور بلوچستان کی طرف تھا اگلے سال یہ کشمیر، خیبر پختونخوا اور پوٹھوہار کو بھی نشانہ بنا سکتی ہیں

پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلیاں کتنا بڑا خطرہ ہیں؟

آٹھ سے دس ہزار سال پہلے ہاکڑہ دریا کیسے خشک ہوا، سربز و شاداب جنگل اور کھیت، کیسے صحرائے تھر اور چولستان میں بدلے، سات ہزار سال پہلے کا مہر گڑھ کیسے اجڑا؟

پانچ ہزار سال پہلے کی وادی سندھ کی تہذیب کے بڑے شہر موہنجو داڑو اور ہڑپا کیسے صفحہ ہستی سے مٹ گئے؟

اور دو سے اڑھائی ہزار سال پہلے گندھارا کی تہذیب کیوں زیر زمین چلی گئی؟ کیا اس کی وجہ بھی مون سون کی تبدیلی تھی؟

اس سوال کا جواب ہمیں چارلس چوئی کے کرسچئین سائنس مانیٹر کے لیے لکھے گئے مضمون میں ملتا ہے جس میں لکھتے ہیں کہ ’تحقیق کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سندھ کی تہذیب کی تباہی کی وجہ موسمیاتی تبدلیاں تھیں۔‘

’محقیقین نے دریائے سندھ کے آس پاس کا تجزیہ سیٹلائٹ ڈیٹا سے کیا ہے، سمندر سے ملنے والے نمونوں کا تقابل جب پنجاب اور تھر کی وادی کے نمونوں سے کیا گیا تو ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ تہذیب موسمیاتی تبدیلیوں سے تباہ ہوئی ہے۔‘

’ہڑپہ کی زمینیں سرساوتی دریا سے سیراب ہوتی تھیں جو ہمالیہ سے گلیشئرز کا پانی لاتا تھا اور کبھی اس کے ارد گرد وسیع آبادیاں پھیلی ہوئی تھیں۔

’پھر مون سون کے بدلنے سے یہاں بڑے پیمانے پر سیلاب آئے۔ پھر خشک سالی آئی اور یہ آبادیاں مٹ گئیں، دریا نے اپنے راستے بدل لیے ہرے بھرے کھیت دریا کی لائی گئی ریت کی وجہ سے صحرا بن گئے۔‘

دریائے سندھ کی موجودہ تہذیب جو اب پاکستان کہلاتی ہے کیا ایک بار پھر وہ اپنے 25ویں گھنٹے میں داخل ہو چکی ہے؟

آج سے ہزاروں سال پہلے تو صنعتی ترقی نہیں تھی پھر اس وقت درجہ حرارت کیوں بڑھ گیا تھا؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے عالمی بنک سے منسلک نامور ماہر موسمیات ڈاکٹر محمد حنیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ درجہ حرارت میں اضافہ سولر سائیکل سے بھی منسلک ہے۔ جس کے لیے ہم خلائی موسم کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں۔

اس وجہ سے صدیوں اور ہزاریوں سے موسم بدلتے آئے ہیں اور وہ اپنے وقت کی تہذیبوں کو تباہ و برباد کرتے آئے ہیں۔

پہلے بارشیں اپر سندھ ویلی میں منگلا اور تربیلا کے کیچ منٹ ایریاز میں ہوتی تھیں اب یہ لوئر سندھ ویلی میں ہو رہی ہیں

مشرف دور میں جب منگلا ڈیم اپ ریزنگ پراجیکٹ شروع کیا گیا تو اس وقت ڈاکٹر قمر الزمان نے اختلافی نوٹ لکھا تھا کہ مستقبل میں مون سون بارشوں کا سلسلہ بدلے گا اور یہ بالائی سے وسطی علاقوں میں منتقل ہو جائے گا۔ وہی آج ہو رہا ہے۔

اس لیے اب آپ کو کوہ سلیمان کے ارد گرد پانی کو ذخیرہ کرنا ہو گا وگرنہ سندھ اور پنجاب کے 20 سے زائد اضلاع میں ہر سال یہی صورتحال ہو گی۔ حالیہ سیلاب ’الارمنگ بیل‘ ہے جس کی طرف توجہ نہ دی گئی تو پاکستان ایک بڑے خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔ پالیسی ساز اگر اپنی روش اب نہیں بدلیں گے تو پھر کب بدلیں گے!

پاکستان کو کرنا کیا چاہیے؟

سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے، یہ نقصانات 2010 کے سیلاب سے تین گنا ہو سکتے ہیں۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے نقصانات کا مجموعی حجم 30 ارب ڈالر تک بتایا ہے۔ پاکستان کے دگر گوں معاشی حالات میں یہ ایک بہت بڑا معاشی جھٹکا ہے

معروف تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی سے وابستہ موسمی تبدیلیوں کے ماہر ڈاکٹر شفقت منیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فضائی آلودگی جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور موسموں کی شدت بڑھ رہی ہے۔

اس میں پاکستان کو کردار ایک فیصد بھی نہیں۔ اس میں بڑا کردار دنیا کے دس امیر ملکوں کا ہے، جنہوں نے 2015 میں ایک معاہدہ کیا تھا کہ وہ 2050 تک فضا میں زہریلی گیسوں کی مقدار نیوٹرل کر دیں گے۔

غریب ممالک جو موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار بن رہے ہیں انہیں فنڈز دیں گے، اور اس مقصد کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا۔ اب اس وعدے کو سات سال ہونے کو آئے ہیں انہوں نے شاید ان فنڈز کا نصف ہی دیا ہے۔

اس سال نومبر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی عالمی کانفرنس مصر میں ہونے جا رہی ہے۔ پاکستان اگر اپنا کیس بلڈ کر سکے اور یہ ثابت کر دے کہ اس کی معیشت کو جو نقصان ہو رہا ہے اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں تو اسے سالانہ اربوں ڈالر مل سکتے ہیں۔

اس سے وہ اپنا ایسا تعمیراتی و انتظامی ڈھانچہ بنا سکتا ہے جو پاکستان میں موسموں کی شدت کا مقابلہ کرنے کی سکت بڑھا دے گا

حکومت کتنی سنجیدہ لگتی ہے؟

وزیراعظم شہباز شریف نے مئی کے وسط میں موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے 40 اراکین سے زائد افراد پر مشتمل خصوصی ٹاسک فورس بنائی ہے جس میں متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹری، صوبوں کے چیف سیکرٹری، این ڈی ایم اے کے چیئرمین، اور دیگر محکموں کی اعلیٰ بیورو کریسی شامل ہے۔

حیرت ہے کہ اس ٹاسک فورس میں موسمیاتی تبدیلیوں کا ایک ماہر بھی شامل نہیں ہے۔ جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کتنا سنجیدہ ہے۔

ابھی اس خطرے کا صحیح ادراک حکومت کو نہیں ہے لیکن جتنا بڑا یہ خطرہ ہے اس کے بعد پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کا پیراڈائم اب تزویراتی خطرات سے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات میں شفٹ ہو چکا ہے۔ سرکار اب نہیں جاگی تو کب جاگے گی ؟؟



Vigilant Pakistan Ayesha Rafique Tanoli

World Humanitarian Day!"We honor those who serve humanity with courage, compassion, & commitment."       Vigilant Pakist...
19/08/2025

World Humanitarian Day!

"We honor those who serve humanity with courage, compassion, & commitment."

Vigilant Pakistan

*Understanding Cloudbursts: A Devastating Weather Phenomenon*By Sajida Tajik Dir lower (LLM scholar ) A cloudburst is a ...
18/08/2025

*Understanding Cloudbursts: A Devastating Weather Phenomenon*
By Sajida Tajik Dir lower (LLM scholar )

A cloudburst is a type of extreme weather event characterized by a sudden and intense release of rain, often accompanied by strong winds and thunderstorms. These events can have catastrophic consequences, including flash floods, landslides, and widespread destruction. In recent years, cloudbursts have wreaked havoc in various parts of the world, highlighting the need for better understanding and preparedness.

Cloudbursts are often associated with climate change, rising temperatures, and environmental imbalance. Climate change is leading to more frequent and intense weather events, including cloudbursts. As the atmosphere warms, it can hold more moisture, which can result in heavier rainfall. Mountainous regions are more prone to cloudbursts due to the way warm, humid air interacts with cooler air. This can result in intense rainfall and flash flooding.

The rapid accumulation of water can lead to flash floods, which can be deadly and destructive. Heavy rainfall can trigger landslides, which can block rivers and cause further flooding. Cloudbursts can damage buildings, bridges, and other infrastructure, leading to significant economic losses.

Despite advanced technology, predicting cloudbursts remains challenging due to their short duration and localized nature. However, researchers are working to improve forecasting models and warning systems to help mitigate the impact of these events.

Human activities such as settlement in natural floodplains, construction of buildings and infrastructure, and environmental degradation can exacerbate the impact of cloudbursts. It is essential to adopt sustainable practices and develop strategies to mitigate the effects of these events.

*Conclusion*

Cloudbursts are a powerful reminder of nature's fury. Understanding the causes and consequences of these events is crucial for developing effective strategies to mitigate their impact. By working together, we can reduce the risk of disasters and build more resilient communities.

Vigilant Pakistan

Address

Islamabad
44000

Opening Hours

Monday 11:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 11:00 - 17:00
Thursday 11:00 - 17:00
Friday 11:00 - 17:00
Saturday 11:00 - 17:00

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Vigilant Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share