Qaiser Ikram Ullah Khan.

Qaiser Ikram Ullah Khan. Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Qaiser Ikram Ullah Khan., Media/News Company, St No 14, Tariq Market F-10/2, Islamabad.

07/05/2023

Special Attention..

*پاکستان میں لاکھوں ایسے مالکان جائیداد موجود ہیں* جو اپنی رہائشی و کمرشل جائیدادوں سے اکثریتی مالکان ماہانہ نقد رقم کی شکل میں اربوں روپے کرایہ وصول کر رہئے ہیں ۔ اور
ان مالکان کی جائیدادوں کے یوٹیلیٹی بل ( مثلاً پانی بجلی گیس ٹیلیفون) کرائے دار ادا کرتے ہیں ۔
اکثریت مالکان اپنا کرایہ مہینے کے اختتام پر ، مہینے کے شروع میں یا پھر چھے ماہ اور بعض اوقات سال تک کا ایڈوانس بھی وصول کرتے ہیں ۔
پھر ہر سال کے اختتام پر سالانہ دس فیصد اضافے کی مد میں بھی کرائے میں اضافہ کیا جاتا ہئے ۔ مگر یہ لوگ غیر دستاویزی لین دین کے اس طریقے سے ریاست پاکستان کو کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

اکثریت انتہائی ایماندار مالکان جائیداد درمیانی عرصے میں کوئی خودساختہ کہانیاں اور بہانے تراش کر ، تمام تر اخلاقی و قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کرایوں میں حیرت انگیز اضافے کر دیتے ہیں کیونکہ ان بیچاروں کو اچانک کوئی پراپرٹی ڈیلر فون کر کے بتاتا ہئے کہ جناب آپ کی پراپرٹی تو بہت کم کرائے پر لگی ہوئی ہئے ، آپ اگر اپنے موجودہ کرائے دار سے خالی کروائیں تو میں آپ کو موجودہ کرائے دار کی نسبت، نسبتاً زیادہ کرائے پر چڑھا کر دے سکتا ہوں۔
تو ایسی خوبصورت پیشکش کو ٹھکرانے کی ہمت بھلا کون کر سکتا ہئے۔
اس کے بعد صلاح مشورے شروع ہو جاتے ہیں، سب سے بہترین مشورے ہمارے وکیل حضرات دیتے ہیں کہ آپ اپنے کرائے دار کو بتائیں کہ میں نے یہ جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کر دی ہئے ، اب میرا اس جائیداد سے تعلق صرف اتنا ہئے کہ میں بزرگ ہوں ، ریٹائر آدمی ہوں ، فارع رہتا ہوں ، بس دیکھ بھال اور کرائے کی وصولی کروں گا ، لیکن اب بچوں کے خرچے بڑھ گئے ہیں ان کا اس کرائے میں گزارہ نہیں ہوتا ، آپ اگر رہنا چاہتے ہیں تو کرائے میں اضافہ ضروری ہئے ، نہیں تو پھر آپ کوئی جگہ دیکھ لیں اور خالی کر دیں ۔ کرائے دار لاکھ اپنی مجبوریاں بیان کرتے رہیں مگر ایماندار اور جدی پشتی خاندانی رئیس مالکان پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، کیونکہ ان کے سامنے صرف اور صرف ، صرف اور صرف، زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی پٹی بندھی ہوتی ہئے۔ آگے یہ جواز پیش کیا جاتا ہئے کہ پاکستان میں مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہئے اور گزارہ کرنا مشکل ہئے۔ لیکن ان مالکان سے کوئی یہ پوچھے کہ جناب عالی ، آپ مارکیٹ کے مطابق کرایہ وصول کر رہئے ہیں ، مفت میں تو کوئی نہیں رہتا ، اب آپ کی اپنی خواہشات اور ضروریات ہیں ، آپ کرایہ بھی لے رہئے ہیں اور پھر آپ کی جائیدادوں کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں ۔ مگر مالکان جائیداد کی اپنی اپنی سوچ، اور اپنی اپنی مرضی کا من پسند سچ ہوتا ہئے۔ وہ اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
دوسری طرف ایک اور بیانیہ بھی کافی مقبولیت حاصل کر چکا ہئے کہ،
1- ہم اس جائیداد کو فروخت کر رہئے ہیں.
2- میری بیوی بیمار ہو گئی ہئے اور ہمیں ذاتی استعمال کی خاطر اس کی ضرورت ہئے ۔
3- ہم اپنے داماد کو یہاں پر شفٹ کرنا چاہتے ہیں ، وہ یہاں پر اپنا کاروبار شروع کریں گے ۔
4- ہماری بیٹی کے پاس گھر نہیں ہئے اور ہم اس کو یہاں شفٹ کرنا چاہتے ہیں ۔
5- ہمیں بچوں کی شادی کے لیئے اس کی ضرورت ہئے ۔
6- ہماری یہ جائیداد ہمارے فلاں بیٹے یا بیٹی کے حصے میں چلی گئی ہئے ۔
نوٹ--
پلازہ مالکان جب دوکاندار حضرات کی دن رات محنت کے بعد ان کی دکان کامیاب ہوتے دیکھتے ہیں تو ان مالکان کی نیت خراب ہونے لگتی ہئے کہ اب کرائے داروں کے کرائے بڑھا کر ان کے کاروبار سے باقاعدہ حصہ وصول کیا جائے ۔

الغرض ، یہ سب بہانے پہلے کرائے دار کو کسی بہتر انداز میں نکال باہر کرنے کے لیئے اختیار کیئے جاتے ہیں تاکہ کسی ممکنہ سخت ردعمل یا قانونی کاروائی سے بچا جا سکے ۔
پس پردہ ایک ہی مقصد ہوتا ہئے کہ پراپرٹی ڈیلر کے پاس پہلے سے تیار کردہ نئے کرائے دار کو یہاں پر شفٹ کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جائے ۔
باقی رہئے اشٹام یا سابقہ اچھائیوں اور کسی سفید پوش کرائے دار کی سفید پوشی کو آج کل کے ایماندار مالکان ( جو ہر سال عمرے اور حج کرنے بھی جاتے ہیں، نمائشی لنگر خانے اور دکھاوے کی سخاوت بھی کرتے ہیں، محافل نعت خوانی کا اہتمام بھی کرتے ہیں) کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔
حالتِ حال یہ ہئے کہ پاکستان میں جائیدادوں کے مالکان کی اکثریت لاکھوں کروڑوں روپے کمانے کے باوجود پراپرٹی ڈیلر کو اس کی محنت یعنی کمیشن Commission دینے کے وقت کھلم کھلا بے ایمان ہو جاتے ہیں اور انہیں اپنی دیگر جائیدادوں کو کرائے پر چڑھانے یعنی Rent Out کرنے کا وقتی لالچ دے کر رفو چکر ہو جاتے ہیں اور پھر ان ڈیلرز کا فون تک نہیں سنتے۔

*مقام شکر ہئے کہ پاکستان میں شفا انٹرنیشنل ہسپتال کلثوم انٹرنیشنل آغا خان ہسپتال قائد اعظم انٹرنیشنل ہسپتال شوکت خانم کینسر ہسپتال* ، اور اس طرح کے دیگر مہنگے ترین ہسپتال بھی بنے تھے جہاں عوام کو غیر اعلانیہ طور پر لوٹنے والوں اور سفید پوش لوگوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدے اٹھانے والوں کے لیئے *اللہ تعالیٰ نے اپنے سے بہت بڑے پیدا کر دیئے ہیں* جہاں پر یہ نام نہاد معزز لٹیرے مختلف بیماریوں سے مجبور، ذلیل اور خوار ہو کر کئی کئی دن، مہینے اور سالوں ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں۔
ایف بی آر FBR والوں کو چاہئیے کہ وہ ان سے باقاعدہ ٹیکس وصول کریں ، دراصل یہی لوگ ملک میں خود ساختہ مہنگائی کی وجہ بھی بنتے ہیں جب یہ لوگ اپنی اپنی مرضی سے کرایوں میں اضافے کرتے رہیں گے تو پھر دکاندار اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیئے اور اپنی اولادوں کا پیٹ پالنے کے لیئے چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔
درحقیقت مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں خود ساختہ اور من پسند غیر فطری کرائے بھی شامل ہیں ۔
مہنگائی میں ہوشربا اضافے اس ملک میں جائیدادوں کے کسی بھی قانون قاعدے سے مبرّا کرائے ہیں ۔ اس حوالے سے اگر حکومت نے کوئی پالیسی ترتیب نہ دی تو کوئی بھی حکومت مہنگائی کو کنٹرول نہیں کر سکے گی اور دولت جائیداد مالکان کی جیبوں میں جاتی رہئے گی، اور بدنامی حکومتوں کے گلے کا پھندہ بنی رہئے گی ۔

07/05/2023

اسلام علیکم تمام دوستوں کو ۔۔

گھر کے مقابلے میں دروازہ چھوٹا ہوتا ہے، دروازے کے مقابلے میں تالا چھوٹا ہوتا ہے، اور تالے کے مقابلے میں چابی چھوٹی ہوتی ہے۔ لیکن وہ چھوٹی سی چابی پورے گھر کو کھول سکتی ہے اسی طرح ایک پائیدار اور اچھی سوچ بڑے بڑے مسائل کو حل کر سکتی ھے

اﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ اچھی سوچ اور ﺩﺭﺩ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺩﻝ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﻗﺴﻤﺖ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﯿﮟ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ الله ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺣﺴﺎﺳﺎﺕ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨﮯـ ہم میں سے زندہ وہی رہیں گے جو دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔۔۔ اور دلوں میں زندہ وہی رہتے ہیں جو خیر بانٹتے ہیں محبتیں آسانیاں بانٹتے ہیں

رب سے سنجیدگی سے محبت کرنے والے دُنیا میں اپنوں کی محبت کو بھی سنجیدگی سے نبھاتے ہیں ۔۔ خود بھی خوش رہیں اور اپنے عزیزوں کی خوشیوں پر خاص توجہ دیں اور زندگی کو آسان بنائیں اور اللّٰہ سے اپنے لئے رحمت کی چابی پا کر جنت کا دروازہ کھلوائیں۔۔

ماضی میں کی گئی غلطیوں کی پرواہ نہ کریں۔۔ غلطیاں سبھی سے ہوتی ہیں کوئی بھی دودھ کا دُھلا نہیں ہے بس زندگی کو رب کی اطاعت میں گزاریں ۔۔۔اپنے آپ پر سختی نہ کریں قبول کریں کہ یہ انسانی حالت کا ایک حصّہ ہے توبہ استغفار کرتے رہیں ۔جو کسی کا بُرا نہیں چاہتے اُن کے ساتھ کوئی بُرا نہیں کر سکتا یہ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے۔۔۔

اے اللّٰہ تو بہت مہربان اور نہایت رحم فرمانے والا ہے. تو رحیم ہے تو کریم ہے اپنی رحمت کی چابی سے ہمارے لئے اپنا در کھول دے۔۔ گناہوں کو بخش دے اور ہمیں جہنم سے آزادی اور جنت کا راستہ ہمارے لئے ہموار فرما , اور ہمیں ایسا بنا دے کے پھر ہم سے کوئی گناہ سرﺫد نہ ہو ۔۔اور ہم سب نماز کی پابندی کریں. اور قرآن کی تعلیمات پر عمل کریں- اے اللّٰہ ہماری تمام بیماریوں اور پریشانیوں کو دور فرما.
اور صحت و تندرستی والی لمبی ذندگی عطا فرما۔۔ ہمارے روزی, رزق, مال و دولت عزت اور اولاد میں برکتیں پیدا فرما۔۔۔
آمین ثم آمیــــن یارب العالمین۔۔۔

31/03/2023




دستیاب تاریخ یہ بتاتی ھے کہ یہ گاؤں اٹھارویں صدی کے اوائل تک ایک بے نام سی بستی تھی۔جسے ایک صوفی بزرگ سید نور حسن غزنی اور ان کے ایک مصاحب شیخ جیون نارو راجپوت نے شرف قیام بخشا اور ایک کنواں بھی کھدوایا ۔ جس کے آ ثار اب معدوم ھو چکے ھیں ۔ اس کنویں کے قریب ھی ایک بہت خوب صورت مسجد بھی تعمیر کروائی جو " منشیاں والی مسجد" کے نام سے آ ج بھی موجود ھے۔ رفتہ رفتہ کنویں کے آ س پاس آ بادی بڑھتی چلی گئی ۔ اور یہ بستی انھیں بزرگ کی نسبت سے نورپور کے نام سے جانی جانے لگی۔
ایک اور روایت کے مطابق نورپور کا نام 1745ء میں ملک شیر محمد ٹوانہ والی مٹھہ ٹوانہ نے رکھا تھا اور سرکاری کاغذات میں یہ ابھی تک نورپور ٹوانہ ھی لکھا جاتا ھے۔
احباب ، نورپور کا تاریخی گاؤں قیام پاکستان سے پہلے مختلف تاریخی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز رھا ھے۔ اور یہاں کی پرانی عمارتوں پر کندہ کی گئی جا بجا مورتیاں اور تصاویر اس گاؤں کے قدیم ورثہ کی عکاس ھیں۔
بھائی جگتا جی کا ٹھکانہ۔۔۔۔۔۔
نورپور تھل میں ھندو اور سکھ مذھب کی بے شمار عبادت گاہیں تھیں جہاں دوردراز سے لوگ پوجا پاٹ کے لئے آ یا کرتے تھے۔
1688ء میں نورپورتھل میں ایک بڈے دھرم شالہ کا قیام عمل میں آیا جو بعد میں بھائی جگتاجی کے ٹھکانہ کے نام سے مشہور ھوا۔ تقسیم ھند کے وقت اس ٹھکانہ کا انتظام و انصرام سنت سنگھ کے ذمہ تھا ۔
انڈیا جانے کے بعد سنت سنگھ نے گونیانہ منڈی ضلع بھٹنڈہ میں اسی بھائی جگتا جی کے ٹھکانہ کی بنیاد رکھی ۔ جس کی تعمیر میں نور پور تھل سے ھندوستان گئے ھوئے ھندوؤں نے بڑھ چڑھ کر گرم جوشی کے ساتھ حصہ لیا۔
تقسیم ھند سے قبل یہاں کی آ بادی تقریباً چھ ھزار تھی۔
مکڑ ، دھریجہ دھون سٹھار گاھی ، پہوڑ، لودھرے، بگہ اعوان ، چندرام ، چھینے ، گوجر چوھان ، نارو۔ کارلو، چوکی ، چنڈی بھڈوال ، پڑیہار، سگو کلو وینس جمالی بلوچ اور سید قبیلہ کے لوگ کافی زیادہ تعداد میں آ باد تھے۔ بنیادی طور پر یہ ھنرمندوں کا گاؤں تھا ۔ درکھان ،لوھار موچی دھوبی چوڑوھے اور جولاھے یا پاولی بہت بڑی تعداد میں رھائش پزیر تھے ۔ صرف ترکھان اور لوھار برادری کے 1400 ووٹ نورپور تھل میں اندراج تھے۔
ذیلدار اور نمبر دار سکھ مذھب سے تھے۔ ذیلدار کا نام جوار سنگھ تھا ۔ جو نورپور کی پنچایت کا بھی سرپنچ تھا اور اسکے بولے بنا تھانہ نورپور کسی کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتا تھا۔
سب سے زیادہ امیر فیملی سترامیہ فیملی تھی وہ ھندو راجپوت تھے اور چوھدری کہلاتے تھے ۔ ان گنت زرعی اراضی کے مالک تھے اور بہت سی دولت جمع کی ھوئی تھی۔ انھوں نے تربیت یافتہ گھوڑوں اور اونٹوں کا اصطبل بھی بنایا ھوا تھا۔ اس فیملی کا ایک فرد کانگریسی ھندو رھنما نہرو کا پرسنل سیکرٹری بھی تھا۔
مسلم اقوام میں پہوڑ، راجے، گجر، بگہ اعوان اور سید زیادہ تھے۔
برج لال دھریجہ
ھندوستان میں بے شمار کتابوں کے مصنف برج لال دھاریجہ اسی گاؤں میں 1929ء میں پیدا ھوئے۔ انکے والد کا نام دھاری لال دھریجہ اور انکی والدہ کا نام بوندی بائی تھا۔ تقسیم ھند سے قبل انکے والد کی نور پور تھل میں مٹھائی کی دکان تھی۔ جسے یہ خاندان مل کر چلاتا رھا ۔ ابتدائی تعلیم نورپور میں حاصل کرنے کے بعد برج لال اعلیٰ تعلیم کے لیے لاھور چلے گئے ۔ ان کا خاندان نورپور تھل میں ھیں رھائش پزیر رھا۔ تقسیم ھند کے ھندو مسلم فسادات میں برج لال دھاریجہ کے خاندان نے نورپور سے باھر موجود گوردوارہ میں پناہ لی جس میں اس وقت قرب وجوار سے 5000 ھندو سکھ لوگوں نے پناہ لی ۔
اس گوردوارہ سے ھی فائرنگ ھوئی جس کی زد میں آ کر لوھار فیملی کا ایک مسلمان شہید ھوا۔
یہ گوردوارہ بعد ازاں پرائمری اسکول میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔ برج لال کا خاندان امبالہ میں جا بسا۔ برج لال نے اپنی گریجویشن ھوشیار پور سے مکمل کی۔ اور اسکے بعد دھلی میں گورنمنٹ سروس کے دوران بے شمار کتابیں لکھیں جو آ ج بھی پورے ھندوستان کے طول وعرض میں کالجز میں پڑھائی جاتی ہیں۔
مشہور شاعر امر سنگھ ملک نورپوری
اردو اور پنجابی ،سرائیکی کے مشہور شاعر امر سنگھ بھی 1906ء میں نور پور تھل میں پیدا ھوئے۔ انکے والد سیوا سنگھ اس وقت تحصیلدار تھے۔ ابتدائی تعلیم نورپور تھل میں حاصل کرنے کے بعد امر سنگھ نے اعلیٰ تعلیم لاھور سے حاصل کی ۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد شاہ پور میں شعبہء درس و تدریس سے وابستہ ھو گئے۔ اور شاعری بھی لکھنا شروع کی جو بعد ازاں ھندوستان میں ایک صاحب دیوان شاعر دانشور مانے گئے۔

مسلم شعرا ء میں قابل ذکر نام ملک حاجی احمد سٹھار کا ملتا ھے جنھوں نے اوائل عمری میں ھی اپنا سرائیکی شعری مجموعہ " فگار دا بستہ" اور منظوم سرائیکی قصہ " سسی پنوں " مکمل کئے ۔
1854ء تک نورپور تھل کا قصبہ انتظامی طور پر ضلع لیہ کے زیر انتظام رھا ۔ اور لیہ کے لعل عیسن کروڑ کی گدی نے اس علاقہ میں اسلام پھیلانے میں اھم کردار ادا کیا ۔
1865ء میں یہ قصبہ ضلع شاہ پور کے زیر انتظام رھا ۔ بعد ازاں 1982ء تک ضلع سرگودھا کے زیر انتظام رھا اور اس کے بعد اب تک ضلع خوشاب کے ماتحت ھے۔
1866ء میں اس وقت کے انگریز ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈیوس نے تھانہ نورپور تھل کی بنیاد رکھی ۔ اور 1920 ء میں گورنمنٹ ھائی سکول نورپور تھل کی بنیاد رکھی گئی ۔

دوستو! ساڑھے تین سو ایکڑ رقبہ پر محیط یہ گاؤں تقریباً 50000 نفوس کی جائے مسکن ھے۔ جن کا عمومی پیشہ سپاہ گری اور کاشت کاری ھے۔ 1976 ء میں ٹاؤن کمیٹی کا درجہ پایا ۔1982ء میں تحصیل کا درجہ ملا۔ 2001 ء میں میونسپل کمیٹی کا مقام ملا۔
صوبہ پنجاب کی سب سے پسماندہ تحصیل ھیڈ کوارٹر نورپور تھل میں شرح خواندگی تقریباً 35 ٪ ھے۔ تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لڑکوں اور لڑکیوں کے ڈگری کالجز ، کامرس کالج، سپیشل بچوں کا اسکول اور متعدد نجی تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں ۔
اس قدیم آ بادی کا شہر خموشاں 40 ایکڑ پر محیط ھے۔
جوھر آ باد سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع یہ گاؤں پاکستان سب سے زیادہ چنے کی کاشت والا گاؤں ھے۔ اور گزشتہ کئی سالوں سے درجہء حرارت کے اعتبار سے ملک کا گرم ترین علاقہ مانا جاتا ھے۔
قدیم روایات کے حامل اس گاؤں کی بنی ھوئی لکڑی کی کنگھی جس میں چھوٹا سا بور کر کے سرسوں کا تیل بھرا جا سکتا تھا۔ اور دندانوں کے بیچ میں موجود خالی جگہوں پر کئے گئے چھوٹے سوراخوں کے ذریعے کنگھی کرتے ھوئے تیل خود بخود بالوں میں لگ جایا کرتا تھا۔ یہ کنگھی آ جکل نہیں ملتی جو تھاری والے ترکھان بنایا کرتے تھے ۔ تلے والی کھیڑی جتی اور اونی شال ( ڈلا) کی وجہ سے بھی یہ گاؤں مشہور تھا۔ کرم علی ولد غوث علی قصائی کا مشہور تندوری گوشت اور ھر جمعرات کو دستیاب اونٹ کا گوشت لذت کام و دہن کا شغف رکھنے والے افراد کے لئے باعث کشش تھا اور ھے۔
گاؤں میں بہت سے صوفی بزرگوں کے مزارات واقع ھیں جن میں میاں مانجھا کا دربار اور بابا سیدن شاہ کا دربار مشہور ھے اور یہاں پر ھر سال ساون کی یکم تاریخ کو وسط جولائی میں انکے نام کا روایتی میلہ لگتا ھے جو تین دن تک جاری رھتا ھے ۔ جو آ س پاس کی 22 جھوکوں کے علاوہ دوردراز کے علاقوں کے لئے بھی تفریح اور تجارت کا ذریعہ ھے۔ جس میں روایتی کھیل نیزہ بازی ، کبڈی اور پڑ کوڈی اور بہت سے رویتی پروگرامز دلچسپی کا باعث ھوتے ھیں ۔
طبیہ کالج دلی سے فارغ التحصیل اور بین الاقوامی شہرت کے حامل 128 سالہ یونانی حکیم ملک نور محمدگاھی بھی نورپور تھل کے ھی رھائشی ھیں ۔
مکہ مکرمہ میں واقع طباش ھوٹل کے مالک سیٹھ عبدالرحمان کا تعلق بھی نورپور تھل کی قصائی برادری سے ھے۔
پڑ کوڈی لمبی کھیڈ کے مشہور کھلاڑی امیر لوھار مرحوم بھی یہیں کے باسی تھے ۔
نورپور تھل سے ملحقہ 22 مشہور جھوکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ( دیہات)
1. بلند2. پیلو وینس3. جمالی بلوچاں 4. عینوں تھل5. ڈھمک اعواناں6. ٹاھلہ کھاٹواں7. محمود شہید8. سدھا9. بمبول10. جھرکل11. جاڑا12. نواں سگو13. کاتی مار14. نکڑو شہید15. میکن 16. شاہ والا جنوبی 17. راھداری18.پلوآں 19. شاہ حسین 20. بوڑانہ والہ21. دادو والا22. ستھ شھانی
۔
The End.

Address

St No 14, Tariq Market F-10/2
Islamabad
44000

Telephone

+923008550567

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Qaiser Ikram Ullah Khan. posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Qaiser Ikram Ullah Khan.:

Share