United States of Islam

United States of Islam Powerful statements are always a great choice.

31/07/2025

ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ کے اہلکار وارڈر اویس علی ولد وارث علی، انتہائی افسوس کے ساتھ، دورانِ ڈیوٹی واچ ٹاور سے گر کر شدید زخمی ہونے کی وجہ سے وفات پا گئے۔
ان کی وفات محض ایک اتفاقی حادثہ نہیں، بلکہ یہ پنجاب کی جیلوں میں موجود فرسودہ ڈھانچوں، انتظامی غفلت اور بجٹ کے غیر دانشمندانہ استعمال کا نتیجہ ہے۔

پنجاب بھر کی جیلوں، خصوصاً پرانی جیلوں میں، ٹاورز، بیرکس، حفاظتی دیواریں اور سہولتی ڈھانچے مکمل طور پر زبوں حالی کا شکار ہیں۔ پنجاب کی جیلوں میں 90٪ ٹاورز کی چھتیں پرانی، غیر محفوظ اور موسم کی شدت کے مقابلے میں ناکام ہیں۔ گرمیوں میں نہ سایہ ہے، نہ پانی، نہ پنکھا، نہ ہی کوئی اے سی — اور سردیوں میں نہ ہی کوئی ہیٹنگ کا انتظام۔ سیکیورٹی کے حوالے سے بھی غیر معیاری ہیں۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں — اس سے پہلے بھی واچ ٹاور سے گر کر اہلکاروں کی اموات اور زخمی ہونے کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، لیکن بدقسمتی سے جیل حکام اور حکومت کی ترجیحات میں اصلاحات شامل ہی نہیں ہیں۔

حیران کن حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کی جیلوں کو ہر سال اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے، لیکن وہ یا تو استعمال ہی نہیں ہوتا، یا اسے دیگر منصوبوں، خصوصاً اورنج لائن ٹرین، میٹرو بس، اور دیگر میگا پراجیکٹس کو منتقل کر دیا جاتا ہے — جس کے شواہد ریکارڈ پر موجود ہیں۔

2017 اور 2018 کے مالی سالوں میں جیل خانہ جات پنجاب کو مختص فنڈز کا ایک بڑا حصہ واپس خزانے میں چلا گیا کیونکہ وہ استعمال نہیں ہوا۔

*⭕ایک محتاط تخمینے کے مطابق، پچھلے 10 سالوں میں جیل اصلاحات کے لیے مختص 30 ارب سے زائد روپے یا تو غیر استعمال شدہ رہے یا ان کا رخ تبدیل کر دیا گیا۔*

پنجاب کی 40 سے زائد جیلیں، جن میں ہزاروں قیدی اور سیکڑوں ملازمین کام کرتے ہیں، آج بھی 19ویں صدی کی طرز پر چل رہی ہیں۔

یہ المیہ صرف اویس علی کا نہیں، بلکہ ہر اس سپاہی، قیدی اور افسر کا ہے جو جیل کے اس بوسیدہ نظام میں سانس لے رہا ہے۔ یہ معاملہ محض سہولیات کا نہیں — یہ انسانی جانوں، عزت اور وقار کا معاملہ ہے۔

حکومتِ پنجاب، محکمہ داخلہ، اور جیل خانہ جات کو فوری طور پر شفاف تحقیق، ٹاورز کی بحالی، سیکیورٹی ڈھانچے کی بہتری، اور ملازمین کے تحفظ کے لیے ہنگامی اصلاحاتی پروگرام کا اعلان کرنا چاہیے۔

ورنہ یاد رکھیں:
"ہر ظلم، ہر غفلت، ہر لاپروائی — ایک دن ضرور میزانِ عدل میں تولی جائے گی!"
Govt of Punjab Maryam Nawaz Sharif Rana Sikandar Hayat Rana Mashhood Ahmad Khan Punjab Prisons Staff Association Kot Lakhpat LHR. Punjab Prisons




31/07/2025

آج پوری دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکزی اور صوبائی قیادت کے پاس سوائے "عمران خان کی رہائی" کے کوئی واضح بیانیہ موجود نہیں۔ خیبرپختونخوا میں ان کی اپنی حکومت قائم ہے، مگر عملاً ان کے پاس نہ معاملات کی الف ب کا علم ہے، نہ مؤثر حکمت عملی، اور نہ ہی سنجیدہ طرزِ قیادت کی جھلک۔

مشران، جرگوں اور علما کے ساتھ سنجیدہ مکالمہ کرنے کی صلاحیت ان میں موجود نہیں۔ نہ کوئی مشاورتی عمل ہے، نہ ہی عوامی مطالبات کو اکٹھا کر کے وفاق یا اداروں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش۔ قبائلی علاقوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی، بالخصوص باجوڑ، کرم اور ٹانک جیسے حساس اضلاع میں جاری صورتحال، صوبائی حکومت کی مکمل لاتعلقی اور نااہلی کو عیاں کر رہی ہے۔

ایک ایسی جماعت جو پچھلے پندرہ برسوں سے خیبرپختونخوا میں اقتدار میں ہے، اس کی عملی کارکردگی اور زمینی حقائق سے لاعلمی افسوسناک حد تک نمایاں ہے۔ ان کے نمائندے نہ صرف عوامی مسائل سے نابلد ہیں بلکہ ان کی ترجیحات میں عوامی فلاح و بہبود شامل ہی نہیں۔ ذاتی مفادات، اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش اور بیانیے کا فقدان ان کے فیصلوں کو کمزور اور غیر مؤثر بنا رہا ہے۔

باجوڑ میں امن و امان کی خراب صورتحال ہو یا مجوزہ فوجی آپریشن، صوبائی حکومت کی مکمل غیر موجودگی اور خاموشی اس حقیقت کو مزید اجاگر کرتی ہے کہ ان کے پاس نہ حالات کو سنبھالنے کی صلاحیت ہے، نہ ہی عوامی ترجمانی کا ظرف۔ کرم کے بحران کے دوران بھی یہی نااہلی سامنے آئی، اور اب یہی طرز عمل دیگر علاقوں میں بھی دہرایا جا رہا ہے۔

محض بیانات دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ قیادت وہی مؤثر ہوتی ہے جو زمینی حقائق سے باخبر ہو، مقامی حساسیت کو سمجھے، اور علمی و حکمت عملی کی بنیاد پر فیصلے کرے۔ بدقسمتی سے موجودہ خیبرپختونخوا حکومت ایسی کسی بھی صلاحیت سے محروم دکھائی دیتی ہے۔

#شعیبـبھٹی

11/07/2025

بلاسفیمی "بزنس": ایف آئی اے کا موقف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکتوبر 2023ء میں ہایئر ایجوکیشن کمیشن نے تمام یونیورسٹیوں کےلیے ایک پروگرام کا انعقاد کیا۔ اس میں ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے تفصیلی گفتگو کی۔ یہ گفتگو ضرور سنیے کیونکہ یہ "فیکٹ فوکس" وغیرہ کی رپورٹیں آنے سے پہلے کی ہے، اس میں درمیان میں سوال و جواب نہیں ہیں، مکمل گفتگو ہے، پوری کہانی ہے۔ انھوں نے کچھ اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں، جیسے 2018ء سے 2023ء تک 4 ہزار شکایتیں ایف آئی اے کے پاس آئیں، یا 245 ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی ہوئی وغیرہ۔ وہ بیچ میں بار بار راؤ صاحب کا (یعنی راؤ عبد الرحیم کا) ذکر بھی کرتے ہیں جو اس پروگرام میں موجود تھے اور جنھوں نے ڈپٹی ڈائریکٹر سے پہلے گفتگو کی۔
میں بھی اس پروگرام میں تھا اور میں نے آخر میں گفتگو کی۔ ایف آئی اے کے اعداد و شمار پر میں نے تبصرہ بھی کیا، وہ بعد میں دیکھ لیجیے۔
اگرچہ اس گفتگو میں ڈپٹی ڈائریکٹر صاحب نے بہت زیادہ وعظ و نصیحت کی ہے، لیکن میری گزارش یہ ہے کہ یہ گفتگو پوری سن لیجیے۔ شاید موجودہ مقدمے میں فریقین کے موقف کے متعلق صحیح پوزیشن لینے میں مدد ملے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: یہ گفتگو پبلک تھی جسے ملک بھر کی جامعات نے وڈیو لنک پر دیکھا اور یہ اب بھی ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔

آئین کی شِق 199 کے مطابق کمیشن صرف اس وقت بن سکتا ہے جب متاثرہ فریق پٹیشنر بنے۔  جو احباب پوچھتے ہیں کہ آخر کمیشن بن جائ...
10/07/2025

آئین کی شِق 199 کے مطابق کمیشن صرف اس وقت بن سکتا ہے جب متاثرہ فریق پٹیشنر بنے۔ جو احباب پوچھتے ہیں کہ آخر کمیشن بن جائے تو حرج ہی کیا ہے، ان سے سوال ہے کہ آخر اسی ایک غیر قانونی کی ضد کیوں ہے جس سے ملزم فرار ہوسکیں؟

آخر کیا قانونی رکاوٹ ہے کہ ملزمان خود پٹیشنر نہیں بن سکتے؟

10/07/2025

اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت درخواست
نور فاطمہ بنام ریاست پاکستان آخر ہے کیا ؟؟؟

⚖️ ایمان مزاری (کی قیادت میں)
⚖️ ہادی علی چھٹہ (شوہر)
⚖️ آصف تنمبولی
⚖️ عبدالحمید رانا
⚖️ عثمان وڑائچ
⚖️ طاہر چوہدری
⚖️ قادیانی وکیل عثمان کریم الدین
📰 منزے جہانگیر
… اور کئی دیگر اسلام بیزار عناصر
آخر یہ سونیا کا اور قندیل کا آپس میں تعلق کیاہے ؟اورکیا یہ بھی بھینسا اور موچی گروپ سے ہیں؟۔
❝ بلاسفیمی پروٹیکشن گروپ کی بنیاد کیا ہے ؟
احمد نورانی، وقاص گورائیہ، سونیا خان خٹک، قندیل وغیرہ جیسے لوگ اس کیس میں آخر کیوں
دلچسپی رکھتے ہیں ؟ ⚖️ سچ کیا ہے؟
🔥 کون سچ پر ہے؟
🔍 تحقیق اور جائزہ
سنئے ، سمجھیں اور باخبر رہیں اس👇🏻
حقائق پر مبنی ویڈیو کلپ میں ۔۔۔!

10/07/2025

آپ سے گزارش ہے خدارا جاگیے !!! پاکستان میں ملحدین ایک بار پھر منظم ہو چکے ہیں گستاخوں کو بے گناہ معصوم بنا کر بچانے کے ساتھ ساتھ ناموسِ رسالت کے قانون کو ختم کروانے کے لیے بڑی خطرناک سازش کر رہے ہیں

آپ قیصر راجہ کا یہ ویڈیو بیانیہ سنیں اور غفلت کی چادر تان کر سونے کے بجائے اپنی آواز ناموسِ رسالت کے پہرے داروں کے لیے اٹھائیں۔

10/07/2025

یہ شام کے دیرالزور علاقے کے "شیخ حمیدی السلوم" ہیں، علاقے کے ممتاز عالمِ دین شمار ہوتے ہیں۔ بچپن سے ہی نظر کمزور ہے، اس کے باوجود حافظِ قرآن ہیں اور علم سے محبت کا یہ عالم ہے کہ... جب انہیں اپنے گاؤں پر نصیریوں (روافض) کے حملے کا خوف لاحق ہوا تو اپنی پوری لائبریری زمین میں دفن کر دی اور ہجرت کر گئے۔ برسوں بعد جب اب گاؤں واپس آئے ہیں تو زمین میں دفن کتابیں نکلوارہے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے اہلِ شام کے ایمان کی گواہی دی ہے، کچھ تو وجہ رہی ہوگی!!

10/07/2025

بلاسفمی کیسز پر بہت زیادہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ بلاسفمی پروٹیکشن گینگ کی طرف سے پھیلایا جانے والا منظوم پراپیگنڈہ ہے۔

آج کی لائیو نشریات میں آپ اپنی غلط فہمیاں دور کر سکتے ہیں، ان شا اللہ 🙂

https://www.facebook.com/share/v/197Br8n7st/

توہینِ رسالت کا منظم نیٹ ورک: ایک بھیانک واردات کی داستان   پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں عشقِ رسول ﷺ، دینِ اسلام کی اساس...
10/07/2025

توہینِ رسالت کا منظم نیٹ ورک: ایک بھیانک واردات کی داستان

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں عشقِ رسول ﷺ، دینِ اسلام کی اساس میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی توہینِ رسالت کا واقعہ پیش آتا ہے، تو پوری قوم فطری جذباتی ردعمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے ملک میں ایک منظم اور فعال نیٹ ورک سرگرم عمل ہے، جس کا ہدف یہی ہے کہ "مسلمانوں کے دلوں سے توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کے خلاف حساسیت ختم کر دی جائے"۔ یہ حرکات محض کچھ افراد کی انفرادی خباثت نہیں بلکہ ایک منظم اور منصوبہ بند اسکیم کا حصہ ہیں۔

یہ مذموم سرگرمیاں سوشل میڈیا کے عروج کے ساتھ ہی شروع ہو گئیں تھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں شدت آتی گئی۔ یہ چیز لائم لائٹ میں اُس وقت آئی جب 2012 میں پیغمبرِ اسلام ﷺ کے حوالے سے بنائی گئی قابلِ اعتراض فلم "انوسنس آف مسلمز" کے کلپس بڑی تعداد میں یوٹیوب پر ,منظم مہم کی صورت میں شیئر کیے جانے لگے تھے، جس پر پاکستان میں ویڈیو اسٹریمنگ ویب سائٹ "یوٹیوب پر پابندی عائد کر دی گئی"۔

تقریباً 40 ماہ کی بندش کے بعد، جنوری 2016 میں اس وقت بحال کیا گیا جب اس نے پاکستان کا مقامی ورژن لانچ کیا، جس میں گستاخانہ مواد کو مکمل بلاک کر دیا گیا تھا اور کسی بھی شکایت پر گستاخانہ مواد فوری طور پر ہٹانے کی یقین دھانی کرائی تھی۔

یوٹیوب پر پابندی لگنے کے بعد ۔۔۔۔۔ فیس بک پر "بھینسا" جیسے پیجز کے ذریعے توہین آمیز مواد کی کثرت سے اشاعت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اُس وقت متعدد شکایات پر اس "منظم سرگرمی" میں ملوث12 افراد کی نشاندہی کی گئی تھی، تاہم اس وقت "حکومتی اداروں" کی مبینہ "نااہلی یا ملی بھگت" کے نتیجے میں انہیں گرفتار کرنے کے بجائے "جبری لاپتہ" کیا گیا۔ معروف قانون دان "عاصمہ جہانگیر" نے پکڑے جانے والے گستاخوں کو "بلاگرز" قرار دے کر ان کی رہائی کی مہم چلائی۔ عاصمہ جہانگیر )جن کے شوہر نے ان کی وفات کے بعد قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام قبول کیا ہے( اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے گستاخوں کو بغیر قانونی کارروائی کے رہائی مل گئی، اور تقریباً وہ تمام ہی "ملک سے فرار ہو گئے"۔ جس کے بعد کچھ عرصہ کے لیے یہ سلسلہ تھم سا گیا۔

لیکن چند سال کے وقفے کے بعد گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر پھیلانے کا سلسلہ دوبارہ منظم انداز سے شروع ہو گیا۔ مارچ 2017 میں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مقدس ہستیوں کے بارے میں توہین آمیز مواد کی سوشل میڈیا پر موجودگی سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران حکام کو "سوشل میڈیا پر موجود تمام مذہب مخالف اور توہین آمیز مواد کو فوری طور پر بلاک کرنے" کا حکم دیا۔

اس کے فوری بعد سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے اُس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ہدایت کی کہ "وہ فوری طور پر گستاخانہ مواد کی بندش کے حوالے سے تمام ضروری اقدامات کریں اور اس کے ذمہ داروں کو بلا تاخیر کیفرِ کردار تک پہنچائیں اور اس انتہائی قابلِ مذمت اقدام کی مکمل بیخ کنی کریں"۔

حکومت کی اعلیٰ سطح سے ہدایات کے بعد، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) متحرک ہو گئی اور گستاخانہ مواد پر مبنی ویب سائٹس اور لنکس کو بلاک کرنا شروع کیا۔ PTA کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک "200,000 سے زائد" توہین آمیز لنکس اور ویب سائٹس کو بلاک کیا جا چکا ہے۔

جب یہ طریقہ بھی ناکام ہو گیا تو گستاخی نیٹورک نے ایک نیا طریقہ واردات اختیار کیا۔ گینگ کے افراد نے واٹس ایپ اور دیگر میسنجرز کے ذریعے لوگوں کو توہین آمیز مواد بھیجنا شروع کر دیا۔ اس مواد میں "قرآن مجید کی بے حرمتی کی ویڈیوز اور تصاویر"، "پیغمبر اسلام ﷺ، ازواجِ مطہرات، اہلِ بیت خصوصاً حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، اور صحابہ کرام کے ناموں کو توہین آمیز انداز میں استعمال کرنے کی ویڈیوز"، اور **"فحش مواد اور بدکاری کی ویڈیوز میں مقدس ہستیوں کے ناموں کا استعمال پر مبنی ویڈیوز" شامل ہیں۔

ان سرگرمیوں کے خلاف متعدد افراد نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA) سے رجوع کیا۔ ایف آئی اے کے افسران اور اہلکاروں نے "دینی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے بہترین کام کیا"۔ اب تک گستاخانہ مواد شیئر کرنے والے افراد کے خلاف "115 مقدمات درج کیے گئے ہیں، 370 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اب تک کل 36 مقدمات کا فیصلہ ہوا ہے، جن میں تمام 36 گستاخوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے"۔ ایک بھی ملزم بری نہیں ہوا، نہ ہی کسی ایک کو شک کے فائدے کی بنیاد پر ہلکی سزا ملی ہے، جو مقدموں کے ٹھوس شواہد کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

باقی ملزمان کے 90 فیصد سے زائد مقدمات میں استغاثہ نے "ثبوت اور گواہ" پیش کر دیے ہیں۔ یہاں قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ زیادہ تر مقدمات میں ملزمان کے وکلاء گواہوں سے "جرح تک نہیں کرتے"۔

ٹرائل کی سطح پر بھی گستاخی کے ملزمان کو کوئی خاص ریلیف نہیں ملا۔ راولپنڈی، اسلام آباد، اور لاہور کی ٹرائل کورٹس سے انکی "200 سے زائد ضمانتیں مسترد ہوئی ہیں"، جبکہ مختلف ہائی کورٹس نے "قریباً 100 ملزمان کی ضمانتیں رد کی ہیں"۔ "10 ملزمان کی ضمانتیں سپریم کورٹ سے بھی خارج ہو چکی ہیں"۔

اس صورتحال سے گھبرا کر توہین گینگ نے ایک نئی مہم کا آغاز کیا۔ ان کی جانب سے یہ پروپیگنڈا پھیلایا جا رہا ہے کہ توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کے کیسز کی مفت پیروی کرنے والے وکلاء دراصل "بلاسفیمی بزنس" چلا رہے ہیں۔ وہ "ہنی ٹریپ" کے ذریعے لوگوں سے "توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت" کراتے ہیں، پھر اُنہیں بلیک میل کر کے رقم بٹورتے ہیں، اور پیسے نہ دینے والوں کے خلاف کیسز درج کراتے ہیں۔

یہ پروپیگنڈا بہت منظم اور فعال انداز سے کیا گیا کہ "حقیقت سے عدم واقفیت" کی بنیاد پر بہت سے لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب، اس کی اصل حقیقت بیان کرنے والوں کو کئی طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے، ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو منظم رپورٹنگ کے ذریعے ختم کرایا جاتا ہے یا ان کی سوشل میڈیا پر رسائی محدود کرا دی جاتی ہے۔

استغاثہ کے وکلاء کے مطابق، اس منظم پروپیگنڈا مہم کے بعد حیرت انگیز طور پر ملزمان کو عدالتوں سے ریلیف بھی ملنا شروع ہو گیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس اقبال کلوڑو نے "تقریباً 15 ملزمان کو ضمانت دی"۔ جس کے بعد کچھ ملزمان کو "رول آف کنسسٹنسی" کے تحت ماتحت عدالتوں نے ضمانت دے دی، یوں سندھ میں کل "32 ملزمان کو ضمانت مل گئی"۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے "پانچ ملزمان کو ضمانتیں گرانٹ کیں"۔ اس کے علاوہ، ایک ملزمہ کی ضمانت خاتون ہونے کی وجہ سے ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ سے ہوئی، اور دو ضمانتیں ملزمان کا جیل میں "عرصہ زیادہ ہونے" اور "ٹرائل مکمل نہ ہونے" کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ ملتان اور لاہور بینچ نے دی ہیں۔

میری معلومات کے مطابق ٹرائل کورٹس میں دیے گئے 164 کے تحت بیانات میں کسی ایک ملزم نے بھی ہنی ٹریپ یا کسی بلاسفیمی بزنس گینگ کا ذکر نہیں کیا تھا۔

مہتاب عزیز

10/07/2025

‏ایمان مزاری اور ان کے ساتھی وکلاء کے آرگومنٹس پورے ہوگئے ہیں۔ اب respondents کی باری ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عدالت اسی دھیمے مزاج اور بغیر روک ٹوک کے ان کو سنے گی جیسے ایمان مزاری ٹیم کو سنا گیا۔
ویسے بہت مشکل ہے کیونکہ
جج بالکل جانبدار ہے اور ضرورت پڑنے پر مزاری کمپنی کے لئے دلائل گھڑنے اور انکی باتوں کے من پسند مطلب نکالنے میں ماہر ہے

10/07/2025

بلاسفیمی کے مسئلہ میں گستاخ ملزمان کے وکلا کمیشن کیوں بنوانا چاہتے ہیں؟

تمام سیکولر لبرل طبقہ گستاخی کے ملزمان کی پشت پناہی کیوں کر رہا ہے؟

کیا ان مقدمات کو لٹکانا اور ملزمان کو فرار کروانا چاہتے ہیں؟
ان تمام حقائق کو سنیں

10/07/2025

جج صاحب‏ اگر آپ جذباتی نہیں ہیں تو۔۔۔۔
سیکریٹ ڈاکیومنٹس گستاخوں کے سہولت کاروں کے پاس کہاں سے پہنچ رہے ہیں ؟
ان کو کیا پتہ ہو کہ ضمنی کیا ہے یہ جناب کو ضمنی اٹھا اٹھا کر پیش کررہے ہیں
جج کا یہ کام نہیں کہ دوسری طرف کی بات سرجھکاکے سنے۔۔۔۔

لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان کے وکیل کا زبردست مکالمہ

Address

Islamabad
04403

Telephone

+923135001339

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when United States of Islam posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to United States of Islam:

Share