10/07/2025
توہینِ رسالت کا منظم نیٹ ورک: ایک بھیانک واردات کی داستان
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں عشقِ رسول ﷺ، دینِ اسلام کی اساس میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی توہینِ رسالت کا واقعہ پیش آتا ہے، تو پوری قوم فطری جذباتی ردعمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے ملک میں ایک منظم اور فعال نیٹ ورک سرگرم عمل ہے، جس کا ہدف یہی ہے کہ "مسلمانوں کے دلوں سے توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کے خلاف حساسیت ختم کر دی جائے"۔ یہ حرکات محض کچھ افراد کی انفرادی خباثت نہیں بلکہ ایک منظم اور منصوبہ بند اسکیم کا حصہ ہیں۔
یہ مذموم سرگرمیاں سوشل میڈیا کے عروج کے ساتھ ہی شروع ہو گئیں تھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں شدت آتی گئی۔ یہ چیز لائم لائٹ میں اُس وقت آئی جب 2012 میں پیغمبرِ اسلام ﷺ کے حوالے سے بنائی گئی قابلِ اعتراض فلم "انوسنس آف مسلمز" کے کلپس بڑی تعداد میں یوٹیوب پر ,منظم مہم کی صورت میں شیئر کیے جانے لگے تھے، جس پر پاکستان میں ویڈیو اسٹریمنگ ویب سائٹ "یوٹیوب پر پابندی عائد کر دی گئی"۔
تقریباً 40 ماہ کی بندش کے بعد، جنوری 2016 میں اس وقت بحال کیا گیا جب اس نے پاکستان کا مقامی ورژن لانچ کیا، جس میں گستاخانہ مواد کو مکمل بلاک کر دیا گیا تھا اور کسی بھی شکایت پر گستاخانہ مواد فوری طور پر ہٹانے کی یقین دھانی کرائی تھی۔
یوٹیوب پر پابندی لگنے کے بعد ۔۔۔۔۔ فیس بک پر "بھینسا" جیسے پیجز کے ذریعے توہین آمیز مواد کی کثرت سے اشاعت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اُس وقت متعدد شکایات پر اس "منظم سرگرمی" میں ملوث12 افراد کی نشاندہی کی گئی تھی، تاہم اس وقت "حکومتی اداروں" کی مبینہ "نااہلی یا ملی بھگت" کے نتیجے میں انہیں گرفتار کرنے کے بجائے "جبری لاپتہ" کیا گیا۔ معروف قانون دان "عاصمہ جہانگیر" نے پکڑے جانے والے گستاخوں کو "بلاگرز" قرار دے کر ان کی رہائی کی مہم چلائی۔ عاصمہ جہانگیر )جن کے شوہر نے ان کی وفات کے بعد قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام قبول کیا ہے( اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے گستاخوں کو بغیر قانونی کارروائی کے رہائی مل گئی، اور تقریباً وہ تمام ہی "ملک سے فرار ہو گئے"۔ جس کے بعد کچھ عرصہ کے لیے یہ سلسلہ تھم سا گیا۔
لیکن چند سال کے وقفے کے بعد گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر پھیلانے کا سلسلہ دوبارہ منظم انداز سے شروع ہو گیا۔ مارچ 2017 میں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مقدس ہستیوں کے بارے میں توہین آمیز مواد کی سوشل میڈیا پر موجودگی سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران حکام کو "سوشل میڈیا پر موجود تمام مذہب مخالف اور توہین آمیز مواد کو فوری طور پر بلاک کرنے" کا حکم دیا۔
اس کے فوری بعد سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے اُس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ہدایت کی کہ "وہ فوری طور پر گستاخانہ مواد کی بندش کے حوالے سے تمام ضروری اقدامات کریں اور اس کے ذمہ داروں کو بلا تاخیر کیفرِ کردار تک پہنچائیں اور اس انتہائی قابلِ مذمت اقدام کی مکمل بیخ کنی کریں"۔
حکومت کی اعلیٰ سطح سے ہدایات کے بعد، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) متحرک ہو گئی اور گستاخانہ مواد پر مبنی ویب سائٹس اور لنکس کو بلاک کرنا شروع کیا۔ PTA کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک "200,000 سے زائد" توہین آمیز لنکس اور ویب سائٹس کو بلاک کیا جا چکا ہے۔
جب یہ طریقہ بھی ناکام ہو گیا تو گستاخی نیٹورک نے ایک نیا طریقہ واردات اختیار کیا۔ گینگ کے افراد نے واٹس ایپ اور دیگر میسنجرز کے ذریعے لوگوں کو توہین آمیز مواد بھیجنا شروع کر دیا۔ اس مواد میں "قرآن مجید کی بے حرمتی کی ویڈیوز اور تصاویر"، "پیغمبر اسلام ﷺ، ازواجِ مطہرات، اہلِ بیت خصوصاً حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، اور صحابہ کرام کے ناموں کو توہین آمیز انداز میں استعمال کرنے کی ویڈیوز"، اور **"فحش مواد اور بدکاری کی ویڈیوز میں مقدس ہستیوں کے ناموں کا استعمال پر مبنی ویڈیوز" شامل ہیں۔
ان سرگرمیوں کے خلاف متعدد افراد نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA) سے رجوع کیا۔ ایف آئی اے کے افسران اور اہلکاروں نے "دینی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے بہترین کام کیا"۔ اب تک گستاخانہ مواد شیئر کرنے والے افراد کے خلاف "115 مقدمات درج کیے گئے ہیں، 370 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اب تک کل 36 مقدمات کا فیصلہ ہوا ہے، جن میں تمام 36 گستاخوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے"۔ ایک بھی ملزم بری نہیں ہوا، نہ ہی کسی ایک کو شک کے فائدے کی بنیاد پر ہلکی سزا ملی ہے، جو مقدموں کے ٹھوس شواہد کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
باقی ملزمان کے 90 فیصد سے زائد مقدمات میں استغاثہ نے "ثبوت اور گواہ" پیش کر دیے ہیں۔ یہاں قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ زیادہ تر مقدمات میں ملزمان کے وکلاء گواہوں سے "جرح تک نہیں کرتے"۔
ٹرائل کی سطح پر بھی گستاخی کے ملزمان کو کوئی خاص ریلیف نہیں ملا۔ راولپنڈی، اسلام آباد، اور لاہور کی ٹرائل کورٹس سے انکی "200 سے زائد ضمانتیں مسترد ہوئی ہیں"، جبکہ مختلف ہائی کورٹس نے "قریباً 100 ملزمان کی ضمانتیں رد کی ہیں"۔ "10 ملزمان کی ضمانتیں سپریم کورٹ سے بھی خارج ہو چکی ہیں"۔
اس صورتحال سے گھبرا کر توہین گینگ نے ایک نئی مہم کا آغاز کیا۔ ان کی جانب سے یہ پروپیگنڈا پھیلایا جا رہا ہے کہ توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کے کیسز کی مفت پیروی کرنے والے وکلاء دراصل "بلاسفیمی بزنس" چلا رہے ہیں۔ وہ "ہنی ٹریپ" کے ذریعے لوگوں سے "توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت" کراتے ہیں، پھر اُنہیں بلیک میل کر کے رقم بٹورتے ہیں، اور پیسے نہ دینے والوں کے خلاف کیسز درج کراتے ہیں۔
یہ پروپیگنڈا بہت منظم اور فعال انداز سے کیا گیا کہ "حقیقت سے عدم واقفیت" کی بنیاد پر بہت سے لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب، اس کی اصل حقیقت بیان کرنے والوں کو کئی طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے، ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو منظم رپورٹنگ کے ذریعے ختم کرایا جاتا ہے یا ان کی سوشل میڈیا پر رسائی محدود کرا دی جاتی ہے۔
استغاثہ کے وکلاء کے مطابق، اس منظم پروپیگنڈا مہم کے بعد حیرت انگیز طور پر ملزمان کو عدالتوں سے ریلیف بھی ملنا شروع ہو گیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس اقبال کلوڑو نے "تقریباً 15 ملزمان کو ضمانت دی"۔ جس کے بعد کچھ ملزمان کو "رول آف کنسسٹنسی" کے تحت ماتحت عدالتوں نے ضمانت دے دی، یوں سندھ میں کل "32 ملزمان کو ضمانت مل گئی"۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے "پانچ ملزمان کو ضمانتیں گرانٹ کیں"۔ اس کے علاوہ، ایک ملزمہ کی ضمانت خاتون ہونے کی وجہ سے ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ سے ہوئی، اور دو ضمانتیں ملزمان کا جیل میں "عرصہ زیادہ ہونے" اور "ٹرائل مکمل نہ ہونے" کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ ملتان اور لاہور بینچ نے دی ہیں۔
میری معلومات کے مطابق ٹرائل کورٹس میں دیے گئے 164 کے تحت بیانات میں کسی ایک ملزم نے بھی ہنی ٹریپ یا کسی بلاسفیمی بزنس گینگ کا ذکر نہیں کیا تھا۔
مہتاب عزیز