علمی بیٹھک-ilmi Bethak

علمی بیٹھک-ilmi Bethak Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from علمی بیٹھک-ilmi Bethak, Digital creator, Islamabad.

ہمارا مقصد نوجوانوں کو مکالمے، علم، اور تخلیقی و تنقیدی سوچ کے فروغ کے ذریعے رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ ہم یہاں کتابوں کے تجزیے، مکالمات، ماہرین کی آراء اور عالمی تبدیلیوں کی بصیرت پر مبنی مواد پیش کرتے ہیں، تاکہ آپ کے افکار کو وسعت اور شعور کو تقویت ملے۔

08/07/2025

پنڈی کی ادبی محافل

"ترجمہ اور تعلیم میں مصنوعی ذہانت کا کردار" صرف ایک علمی کاوش نہیں بلکہ میری فکری و جذباتی مسافت کا آئینہ ہے۔ ادب کی لطا...
08/07/2025

"ترجمہ اور تعلیم میں مصنوعی ذہانت کا کردار" صرف ایک علمی کاوش نہیں بلکہ میری فکری و جذباتی مسافت کا آئینہ ہے۔ ادب کی لطافت اور سائنس کی بصیرت سے مزین یہ کتاب کسی مصنوعی گفتگو کا پرتو نہیں، بلکہ یہ میری روح کی زبان میں لکھی گئی وہ صدا ہے جو ہر اس دل تک پہنچنے کی آرزو رکھتی ہے جو سچائی، جذبے اور غیر حل شدہ سوالات کے خاموش کرب کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ کتاب محض نظریات یا تحقیقاتی بیانات کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ایک فکری سفر کی داستان ہے — جو انسانی شعور کی ارتقائی منازل، سائنسی دریافتوں کی تیز رفتار روانی، اور انقلابی ٹیکنالوجی کے ابھرتے ہوئے افق کو آشکار کرتی ہے۔

انسان ہمیشہ سے آسانی، کارکردگی اور ارتقاء کا متلاشی رہا ہے۔ ابتدا میں اختراعات نے جسمانی قوت کو وسعت دی — کرینیں، جہاز، اور گاڑیاں وہ مثالیں ہیں جنہوں نے فاصلے سمیٹے اور مشقت کو کم کیا۔ مگر جلد ہی یہ جدت دماغ کے دائرے میں داخل ہوئی — جہاں کیلکولیٹر، کمپیوٹر اور اب مصنوعی ذہانت (AI) نہ صرف علمی بوجھ کم کر رہے ہیں بلکہ ہمارے تخلیقی، فکری اور جمالیاتی مناظر کو بھی نئی جہت عطا کر رہے ہیں۔

یہ کتاب متعدد اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ہے، جیسے کہ:

مصنوعی ذہانت کی تاریخ اور اس کا ارتقائی سفر

ذہین مشینوں کا خواب: کیا یہ ایک ادھورا فسانہ ہے یا روشن مستقبل کی دستک؟

مصنوعی اعصابی نیٹ ورکس: کیا یہ انسانی دماغ کی نقل ہیں یا ذہانت کی ایک نئی صورت؟

اسلام، مسلمان اور مصنوعی ذہانت: اخلاقی، فکری اور روحانی سوالات کے آئینے میں

ترجمہ و زبان کے AI ٹولز کا تنقیدی جائزہ — جیسے Google Translate, SONIX, LIONBRIDGE, AudioPaLM, Trados, Taia وغیرہ — ان کی صلاحیتوں، حدود اور عملی اثرات کا مفصل مطالعہ

یہ کتاب جہاں ایک سخت بین الضابطہ تحقیق پر مبنی ہے، وہیں یہ ایک کھلا دعوت نامہ بھی ہے — ان تمام ذہنوں کے لیے جو انسانی ترقی، سائنسی امکانات اور فلسفیانہ سوالات کی گہرائیوں کو دریافت کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک با شعور مستقبل کی تعمیر ممکن ہو سکے۔

کیا مصنوعی ذہانت انسانیت کی تقدیر ہے — یا صرف ایک دل فریب سراب؟

یہ تصنیف میری وسیع تر تحقیقی وابستگی کا تسلسل بھی ہے، جس میں اٹھارہ کتابوں کے تراجم شامل ہیں — جو زبان، ادب، اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کے درمیان میری دائمی وابستگی کی گواہی دیتے ہیں۔
ڈاکٹر لبنیٰ فرح

وُہ  تو خُوشبُو  ہے  ہَواؤں  میں بِکھر  جائے گامسئلہ   پُھول   کا   ہے   پُھول  کِدھر  جائے گاہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم...
08/07/2025

وُہ تو خُوشبُو ہے ہَواؤں میں بِکھر جائے گا
مسئلہ پُھول کا ہے پُھول کِدھر جائے گا

ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے بَھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اُتر جائے گا

وُہ ہَواؤں کی طرح خانہ بجاں پِھرتا ہے
ایک جھونکا ہے، جو آئے گا، گُزر جائے گا

وُہ جب آئے گا تو پِھر اُس کی رفاقت کے لئے
موسمِ گُل مِرے آنگن میں ٹھہر جائے گا

آخرش وُہ بھی کہِیں ریت پہ بیٹھی ہو گی
تیرا یہ پیار بھی دَریا ہے ، اُتر جائے گا

مُجھکو تہذیب کے بَرزخ کا بنایا وارث
جُرم یہ بھی مِرے اجداد کے سَر جائے گا
پروین شاکر

غبار خاطر ایک کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے، میری پسندیدہ کتابوں میں سے سرفہرست۔ جب بھی اسے پڑھوں کچھ نیا ضرور سیکھتی ہوں۔ ابو...
08/07/2025

غبار خاطر ایک کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے، میری پسندیدہ کتابوں میں سے سرفہرست۔ جب بھی اسے پڑھوں کچھ نیا ضرور سیکھتی ہوں۔
ابوالکلام آزاد کا طرزِ نگارش اس قدر رچائو، لطافت اور کیف سے بھرپور ہے کہ نثر پڑھنے کا لطف آ جاتا ہے۔ یہ ان کتابوں میں سے ایک ہے جسے میں اکثر پڑھتی ہوں۔

کل ایک ریفرنس دیکھنے کے لیے دوبارہ سے ابوالکلام آزاد کی اس کلاسیک کتاب کو اٹھایا تو حسب معمول اس کی نثر نے مجھے پھر جکڑ لیا

زندگی کے۔اندھیروں میں روشنی بانٹتی ،اور ہمدرد دوست کی طرح گرے ہوئے حوصلوں کو مہمیز دیتی تحریروں میں مجھے دلچسپی رہی ہے۔

ابوالکلام آزاد کی غبارِ خاطر ایک حیرت انگیز موٹی ویشنل کتاب ہے۔
اگر کوئی مایوس ہے، زندگی میں مشکل وقت چل رہا ہے، ناکامی کا سامنا ہے تو
اس کتاب کو پڑھیے آپ کو حیرت ہو گی کہ کیسے کوئی شخص قید تنہائی اور بیماری کی حالت میں بھی فطرت کی خوبصورتیوں سے امید اور انبساط کشید کر سکتا ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے قلعہ احمد نگر میں اسیری کے دوران اپنے دیرینہ دوست نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن کے نام خطوط لکھے۔
قید تنہائی تھی اور پہرہ اس قدر سخت کہ اندر کی چیز باہر نہیں جا سکتی تھی۔
آس پاس کوئی ایسا نہ تھا جس سے بات چیت کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا جاتا۔ مولانا نے ابوالکلام آزاد نے اس کڑے وقت میں اپنے دیرینہ دوست کے نام خطوط تحریر کرنا شروع کر دیئے۔

وہ جانتے تھے کہ ایام اسیری کے دوران مخاطب علیہ تک یہ خط پہنچنا ناممکن ہے لیکن انہوں نے یہ خطوط لکھنے کا راستہ اس لیے اپنایا کہ اپنے دل کی بھڑاس نکالی جا سکے۔

میں تو اسے نفسیات کی زبان میں جرنل رائٹنگ تھیراپی کہوں گی۔ یہ باقاعدہ ایک تکنیک ہے۔جس میں ذہنی دبائو اور ایگزائٹی کے شکار مریض سے کہا جاتا ہے کہ کاغذ اور قلم اٹھا کر جو کچھ اس کے دل میں ہے اسے لکھنا شروع کر دیں اپنی پریشان خیالی کو کاغذ پر منتقل کرنے سے ذہنی دبائو اور ایگزائٹی میں باقاعدہ کمی آتی ہے اور یہ عمل ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ اپنے مسائل کو کسی تھیراپسٹ کے سامنے بیان کر کے ہلکا پھلکا محسوس کریں۔

مولانا نے غیر ارادی طور پر اس تکنیک کو استعمال کیا۔

ایک طرف اردو پڑھنے والوں کو غبارِ خاطر کی صورت شاہکار نثر پڑھنے کو ملی۔ دوسری طرف قید تنہائی میں بھی وہ حد درجہ پرامید رہے۔ ایام اسیری میں وہ صبح اٹھ کر خط اپنے دوست کے نام تحریر کرتے تھے۔

ان خطوط میں وہ اپنے دلی احساسات بیان کرتے جیل کے حالات، صبح دم چائے پینے کی سرخوشی، تنہائی کی آزمائش، غرض، دل کی ہر بات خطوط میں لکھتے ہوئے غیر ارادی طور پر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے چلے جاتے ہیں۔

غبار خاطر پژمردہ دلوں اور زندگی کے مصائب سے گھبرانے والوں کو امید کا پیغام دیتی ہے۔
تاریکی کے عالم میں دیئے کی جلی ننھی لو سے ہونے والی روشنی کی طرح قاری میں ایک مثبت سوچ کی جوت جگا دیتی ہے۔ ہر حال میں سوچ کو مثبت رکھنے اور کانٹوں میں بھی بہار کی خو تلاش کرنا مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کا متاثر کن پہلو ہے۔


مفکر، فلسفی، مصنف، مدبر، سیاسی میدان کے شہ سوار، دینی علوم کا ذوق، ادیب اور مقرر۔ غبار خاطر اسیری کے جن ایام میں لکھی گئی ہے وہ مولانا کی زندگی کا کوئی پہلا قید و بند کا تجربہ نہ تھا۔ ایک خط میں وہ لکھتے ہیں کہ یہ چھٹی بار ہے کہ میں اسیری کے دن گزار رہا ہوں۔

وہ لکھتے ہیں کہ وہ جب بھی قید و بند سے گزرتے ہیں تو اپنی آزاد زندگی کے شب و روز فراموش کر دیتے ہیں۔ بس پھر قید کے اسی ماحول میں اپنی خوشی تلاش کرتے ہیں۔
اس سے ان کی مائنڈ پاور کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ اپنے داغ پر کسی قسم کی منفی سوچ کو غالب نہیں آنے دیتے۔

9اگست 1962ء کی صبح ان کے گھر سے انہیں گرفتار کر کے قلعہ احمد نگر لایا جاتا ہے۔ وہ اس حادثہ کے چوبیس گھنٹوں کے بعد اپنا کاغذ قلم سنبھال کر خام فرسائی شروع کر دیتے ہیں اور تو اور پہلے خط میں اپنی گرفتاری کا سارہ منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’کار باہر نکلی تو صبح مسکرا رہی تھی نیم صبح کے جھونکے احاطہ کی روشی میں پھرتے ہوئے ملے‘‘

27اگست 1962ء کو اپنے وقت کا یہ شہ دماغ جو خط مکتوب اپنے دیرینہ دوست کے نام لکھتا ہے، وہ امید و حوصلہ، اور مثبت سوچ کا ایک عظیم شاہکار ہے۔
اس طویل خط کے چند اقتباسات نقل کر رہی ہوں دیکھئے کہ کیسی حیرت انگیز مائنڈپاور کے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد قید تنہائی میں بھی شادمانی اور سرخوشی تلاش کر رہے ہیں۔

’’عیش و مسرت کی جن گل شگفتگیوں کو ہم چاروں طرف ڈھونڈتے ہیں اور نہیں پاتے وہ ہمارے نہاں خانہ دل کے چمن زاروں میں ہمیشہ کھلتے مرجھاتے رہتے ہیں۔
جنگل کے مور کو کبھی باغ و چمن کی جستجو نہیں ہوئی اس کا چمن خود اس کی بغل میں موجود رہتا ہے۔ جہاں اس نے پرکھول دیئے ایک چمنستانِ بو قلموں کھل جائے گا۔‘‘
’’جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو، جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں، جہاں دوپہر ہر روز چمکے، شفق سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے۔ مصیبت ساری یہ ہے کہ خود ہمارا دل و دماغ ہی گم ہو جاتا ہے۔

ہم اپنے باہر ساری چیزیں ڈھونڈتے رہتے ہیں کھوئے ہوئے دل کو ڈھونڈ نکالیں تو عیش و مسرت کا سارا سامان قید کی اسی کوٹھڑی میں سمٹا ہوا ہے۔ اسی طویل خط میں مزید لکھتے ہیں۔
’’میں آپ کو بتلائوں اس راہ میں میری کامرانیوں کا راز کیا ہے؟ میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا۔ کوئی حالت ہو، کوئی جگہ ہو اس کی تڑپ دھیمی نہیں پڑے گی۔
باہر کے سارے سازوسامانِ عشرت مجھ سے چھن جائیں لیکن جب تک یہ نہیں چھنتا، میرے عیش و طرب کی سرمستیاں کون چھین سکتا ہے۔‘
‘ (Count your blessing)کائونٹ یور بلیسنگ، اور مثبت
سوچ کا کیا کمال نمونہ ہیں یہ خط!
چند مزید روشن اقتباسات
"لوگ ھمیشہ اسی کھوج میں لگے رھتے ھیں زندگی کو کاموں کے لیے کام مین لائیں لیکن نہیں جانتے کہ سب سے بڑا کام خود زندگئ کو ھنسی خوشی کاٹ دینا ھے"

ہر حال میں خوش رھنے کا ھنر سیکھ لیا ھے تو یقین کیجئے کہ زندگی کا سب سے بڑا کام سیکھ لیا ہے ۔
خوش رھنا محض ایک طبعی احتیاج ھی نہیں۔ بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری ھے

زندگی کی تحریک دیتا اور مولانا کی مثبت سوچ آشکار کرتا ایک اور اقتباس پڑھئےجو قید تنہائی میں لکھا گیا۔


"میرا دوسرا پر کیف وقت دوپہر کا ھوتا ھے جب لکھتے لکھتے تھک جاتا ھوں تو کچھ آرام کے بعد غسل کرتا ھوں پھر تازہ دم ھوکر اپنی مشغو لتیوں میں گم ھو جاتا ھوں
اس وقت آسماں کی بے داغ نیلگونی اور سورج کی بے نقاب درخشندگی کا جی بھر کر نطارہ کروں گا اوراق دل کا ایک ایک دریچہ کھول کر دیکھوں گا
گوشہ ھائے خاطر افسردگیوں اور گرفتگیوں سے کتنے ھی غبار آلود ہوں لیکن آسمان کی چمکتی ھوئی خندہ روئی دیکھ کر ممکن نہیں کہ اچانک سے روشن نہ ھوجائیں۔

غبار خاطر ھمیشہ سے میری پسندیدہ تھی لیکن اس کو نئے زاویے سے پڑھ کر اس بار ایسا لگا کہ یہ بار دگر محبت میں مبتلا ھوجانے والی بات ھے۔

قیدو بند بیماری تنہائی کے عالم میں بھی مولانا اپنی حیران کن مائنڈ پاور سے خود کو منفی سوچوں سے آزاد کر لیتے ھیں اور کبھی چائے کی تازہ پیالی ان کے دل کو مسرت سے ھمکنار کردتی ھے
اور کبھی فطرت کے حسین مظاھر ان کی روح کو سر شاری سے بھر دیتے ھیں۔

08/07/2025

فراز

07/07/2025

آئین سے دلچسپی اور اسکا ادراک نوجوانوں کیلئے کیوں ضروری ہے؟

جب آصف زرداری نے بھارتی صحافی کو انٹرویو دیافرحت اللہ بابر کی کتاب *The Zardari Presidency (2008–2013): Now it Must Be T...
07/07/2025

جب آصف زرداری نے بھارتی صحافی کو انٹرویو دیا

فرحت اللہ بابر کی کتاب *The Zardari Presidency (2008–2013): Now it Must Be Told* زیرِ مطالعہ ہے۔
2008 تا 2013، جب آصف زرداری صدرِ پاکستان تھے، تو فرحت اللہ بابر ان کے ترجمان تھے۔

ایک باب میں وہ لکھتے ہیں کہ صدارت سنبھالنے کے کچھ ہی ہفتوں بعد ایک دن زرداری صاحب نے انہیں بلایا اور کہا کہ وہ بھارتی اینکر کرن تھاپر کو انٹرویو دینا چاہتے ہیں — اور ہدایت دی کہ انٹرویو سے متعلق تمام انتظامات دیکھ لیے جائیں۔

یہ فیصلہ نہایت غیر معمولی تھا۔

کیوں کہ جب کوئی سربراہِ مملکت کسی بین الاقوامی صحافی کو انٹرویو دیتا ہے، تو اس سے پہلے باقاعدہ تیاری کروائی جاتی ہے۔ جب بات صدرِ پاکستان کی ہو، اور انٹرویو لینے والا صحافی بھارت سے ہو، تو یہ تیاری اور بھی زیادہ احتیاط اور سنجیدگی سے کی جاتی ہے۔

ایسے مواقع پر وزارتِ خارجہ اور وزارتِ اطلاعات سے مشورہ لیا جاتا ہے (ہو سکتا ہے وزارت دفاع سے بھی مشورہ/اجازت/منظوری لی جاتی ہو)۔ کیا سوالات پوچھے جا سکتے ہیں — اس پر غور و فکر (brainstorming) ہوتا ہے۔ کون سے معاملات حساس ہیں؟ کس سوال کا کیا جواب دینا ہے؟ کس مؤقف کو کیسے پیش کرنا ہے؟ اس سب پر مشاورت ہوتی ہے۔

لیکن آصف زرداری نے نہ وزارتِ خارجہ سے پوچھا، نہ وزارتِ اطلاعات سے۔ نہ کسی ادارے سے رائے لی، نہ کوئی تیاری کی۔ یہاں تک کہ کرن تھاپر سے یہ بھی نہیں کہا گیا کہ وہ پہلے سے سوالات یا موضوعات بتا دیں۔

اور پھر 22 نومبر 2008 کو، کرن تھاپر کے ساتھ سیٹلائٹ انٹرویو میں صدر زرداری نے اعلان کیا:

Pakistan is ready to talk about no first use of nuclear weapons with India

یعنی پاکستان اس پر بات کے لیے تیار ہے کہ وہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے میں پہل نہیں کرے گا۔

آصف زرداری کا یہ بیان عالمی میڈیا کی سرخی بن گیا۔ یہ بیان بھارت اور پاکستان میں امن کا ایک نیا راستہ بنا سکتا تھا۔ لیکن اس انٹرویو کے چار دن بعد، 26 نومبر 2008 کو، ممبئی حملے ہو گئے۔

"بدعنوان اشرافیہ" (Corrupt Elite) سے مراد وہ بااثر افراد یا گروہ ہیں جو اپنے اختیار، عہدے، دولت یا سماجی حیثیت کا ناجائز...
07/07/2025

"بدعنوان اشرافیہ" (Corrupt Elite) سے مراد وہ بااثر افراد یا گروہ ہیں جو اپنے اختیار، عہدے، دولت یا سماجی حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں، جس سے وسیع تر عوام اور ملک کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو طاقت اور وسائل پر قابض ہوتے ہیں اور انہیں بدعنوانی (corruption) کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اہم خصوصیات
بدعنوان اشرافیہ کی چند اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:
* اختیارات کا ناجائز استعمال: یہ افراد اپنے سرکاری، سیاسی، یا کاروباری عہدوں کا غلط استعمال کرتے ہیں تاکہ غیر قانونی طریقے سے فائدہ اٹھا سکیں، جیسے رشوت لینا، اقربا پروری کرنا، یا عوامی فنڈز کو ذاتی استعمال میں لانا۔
* مالیاتی بدعنوانی: ان میں مالی بے ضابطگیاں جیسے منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، اور سرکاری منصوبوں میں گھپلوں کے ذریعے دولت اکٹھی کرنا شامل ہے۔
* سیاسی اثر و رسوخ: یہ اشرافیہ اکثر سیاسی نظام پر گہرا اثر رکھتی ہے، قوانین کو اپنے فائدے کے لیے تبدیل کرواتی ہے، اور ایسے فیصلے کرتی ہے جو عام شہریوں کے بجائے صرف ان کے یا ان کے قریبی حلقوں کے مفادات کو پورا کریں۔
* احتساب سے بچنا: بدعنوان اشرافیہ اکثر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے عدالتی نظام، تحقیقاتی اداروں اور میڈیا کو دباتی ہے تاکہ ان کا احتساب نہ ہو سکے۔
* معاشرتی اور اقتصادی نقصان: ان کی بدعنوانی سے ملک کی معیشت کمزور ہوتی ہے، ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں، اور عام لوگوں کے لیے انصاف اور مساوی مواقع ختم ہو جاتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں عدم مساوات اور ناانصافی بڑھتی ہے۔
* خفیہ نیٹ ورکس: یہ اشرافیہ اکثر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نیٹ ورکس پر مشتمل ہوتی ہے، جہاں یہ باہم مل کر بدعنوانی کے طریقوں کو فروغ دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
مثالیں
بدعنوان اشرافیہ مختلف شعبوں میں پائی جا سکتی ہے، جیسے:
* سیاسی اشرافیہ: وہ سیاستدان جو عوامی وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں یا اپنے عہدوں کا فائدہ اٹھا کر رشوت لیتے ہیں۔
* بیوروکریٹک اشرافیہ: سرکاری افسران جو اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کرتے ہوئے ناجائز فوائد حاصل کرتے ہیں۔
* کاروباری اشرافیہ: وہ صنعت کار یا تاجر جو ناجائز طریقوں سے دولت جمع کرتے ہیں، جیسے ٹیکس چوری کرنا، سرکاری ٹھیکوں میں گھپلے کرنا، یا مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمتیں بڑھانا۔
* جاگیردار اشرافیہ: وہ وڈیرے اور جاگیردار جو اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے قانونی اور اخلاقی حدود کو پامال کرتے ہیں۔
مختصراً، بدعنوان اشرافیہ کسی بھی معاشرے کے لیے ایک ناسور کی حیثیت رکھتی ہے جو اس کی ترقی اور انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔

گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں سِتارہ ہو​کوئی وجودِ محبّت کا استعارہ ہو​​میں گہرے پانی کی اُس رو کے ساتھ بہتی رہُوں​جزیرہ ہ...
07/07/2025

گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں سِتارہ ہو​
کوئی وجودِ محبّت کا استعارہ ہو​

میں گہرے پانی کی اُس رو کے ساتھ بہتی رہُوں​
جزیرہ ہو کہ مُقابِل کوئی کنارہ ہو​

کبھی کبھار اُسے دیکھ لیں، کہیں مِل لیں​
یہ کب کہا تھا، کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو​

قصور ہو تو ہمارے حساب لکھ جائے​
محبتوں میں جو احسان ہو، تمھارا ہو​

یہ اِتنی رات گئے کون دستکیں دے گا !​
کہیں ہَوا کا ہی اُس نے نہ رُوپ دھارا ہو​

اُفق تو کیا ہے، درِ کہکشاں بھی چھُو آئیں​
مُسافروں کو اگر چاند کا اِشارہ ہو​

میں اپنے حِصّے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں​
کوئی تو ہو، جو مجھے اِس طرح کا پیارا ہو​

اگر وجود میں آہنگ ہے، تو وصْل بھی ہو!​
میں چاہے نظم کا ٹکڑا، وہ نثر پارہ ہو ​

پروین شاکر

07/07/2025

پروین شاکر

05/07/2025

جناح کے آخری ایام کا مطالعہ

بیسویں صدی کا مشہور مؤرخ ٹائن بی پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا۔ یہ تاریخ کے بارے میں کوئی سیمینار تھا۔ تقریب کے اختتام ...
05/07/2025

بیسویں صدی کا مشہور مؤرخ ٹائن بی پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا۔ یہ تاریخ کے بارے میں کوئی سیمینار تھا۔ تقریب کے اختتام پر پاکستان کے ایک نامور مصنف اور سرکاری ملازم ڈائری لے کر آگے بڑھے اور آٹوگراف کی درخواست كی۔ ٹائن بی نے قلم پکڑا، دستخط کیے، نظریں اٹھائیں اور بیوروکریٹ كی طرف دیکھ کر بولے:

"میں ہجری تاریخ لکھنا چاہتا ہوں، کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آج ہجری تاریخ کیا ہے؟"

سرکاری ملازم نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں۔

ٹائن بی نے ہجری تاریخ لکھی، تھوڑا سا مسکرایا اور اس كی طرف دیکھ کر کہا:

"تھوڑی دیر پہلے یہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بڑے زور شور سے تقریریں ہو رہی تھیں۔ وہ لوگ تاریخ کیسے بنا سکتے ہیں جنہیں اپنی تاریخ بھی یاد نہ ہو۔ تاریخ باتیں کرنے سے نہیں، عمل سے بنتی ہے۔"

سرکاری ملازم اور مصنف نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔

(مُختار مسعُود کی "آوازِ دوست" سے اقتباس)

Address

Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when علمی بیٹھک-ilmi Bethak posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to علمی بیٹھک-ilmi Bethak:

Share