علمی بیٹھک-ilmi Bethak

علمی بیٹھک-ilmi Bethak Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from علمی بیٹھک-ilmi Bethak, Digital creator, I 9, Islamabad.

ہمارا مقصد نوجوانوں کو مکالمے، علم، اور تخلیقی و تنقیدی سوچ کے فروغ کے ذریعے رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ ہم یہاں کتابوں کے تجزیے، مکالمات، ماہرین کی آراء اور عالمی تبدیلیوں کی بصیرت پر مبنی مواد پیش کرتے ہیں، تاکہ آپ کے افکار کو وسعت اور شعور کو تقویت ملے۔

25/09/2025

کتاب کا خلاصہ

کارل مارکس
25/09/2025

کارل مارکس

"آب گم" مشتاق احمد یوسفی کا مزاحیہ شاہکار ہے۔ 1989 میں یہ کتاب پہلی بار منظر عام پر آئی۔ اس کے موضوعات بہت زبردست ہیں۔ ا...
25/09/2025

"آب گم" مشتاق احمد یوسفی کا مزاحیہ شاہکار ہے۔ 1989 میں یہ کتاب پہلی بار منظر عام پر آئی۔ اس کے موضوعات بہت زبردست ہیں۔ اس مجموعے کے بیشتر کردار ماضی پرست، ماضی زدہ اور مردم گزیدہ ہیں، ان کا اصل مرض ناسٹلجیا ہے۔ بس ان کرداروں کی نفسیات اور ان کی ماضی پرستی کو سامنے رکھ کر طرح طرح سے مزاح پیدا کیا گیا ہے، کچھ اس طرح کہ یہ کتاب نہ صرف مشتاق احمد یوسفی کا شاہکار ثابت ہوئی بلکہ اردو طنز و مزاح کی مکمل تاریخ کی سب سے اچھی کتابوں میں شمار کی گئی۔ یوسفی صاحب بہت نرالے اسلوب کے مالک ہیں، ڈاکٹر نورالحسن نقوی لکھتے ہیں، "یوسفی کی تحریروں کا مطالعہ کرنے والا پڑھتے پڑھتے سوچنے لگتا ہے اور ہنستے ہنستے اچانک چُپ ہو جاتا ہے۔ اکثر اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔" اس کتاب میں موجود گدگداتے جملے اور ان کا منفرد لب و لہجہ والا طنز و مزاح کچھ ایسی باتیں ہیں جو اس کتاب کو بار بار پڑھنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ یوسفی صاحب ادنی سے ادنی بات کے کسی پہلو یا زاویے پر ہلکی سی روشنی ڈال کر اس کی طرف قاری کو متوجہ کر چونکا دینا اور پھر خود معصومانہ انداز میں آگے بڑھ جانا یوسفی کے فن کی وہ نزاکت ہے جو صرف انہی کے حصے میں آئی ہے۔

اِس رعونت سے وُہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیںتخت پر بیٹھے ہیں یُوں ، جیسے اُترنا ہی نہیں(شاعرِ انقلاب)حبیب جالبؔ ¹⁹⁹³-¹⁹²⁸جِ...
25/09/2025

اِس رعونت سے وُہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں
تخت پر بیٹھے ہیں یُوں ، جیسے اُترنا ہی نہیں

(شاعرِ انقلاب)
حبیب جالبؔ ¹⁹⁹³-¹⁹²⁸

جِس عہد میں لُٹ جائے ، فقِیروں کی کمائی !
اُس عہد کے سُلطان سے کُچھ بُھول ہُوئی ہے

(درویش شاعر)
ساغرؔ صدیقی ¹⁹⁷⁴-¹⁹²⁸

خوش آئے تُجھے شہرِ مُنافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی

(خوشبوؤں کی شاعرہ)

😱تلخ حقیقت😱مشہور بات ہے کہ ایران میں جاڑے کے موسم میں جب بھیڑیوں کو شکار نہیں ملتا اور برف کی وجہ سے خوراک کی قِلّت پیدا...
25/09/2025

😱تلخ حقیقت😱
مشہور بات ہے کہ ایران میں جاڑے کے موسم میں جب بھیڑیوں کو شکار نہیں ملتا اور برف کی وجہ سے خوراک کی قِلّت پیدا ہو جاتی ہے تو بھیڑیے ایک دائرے میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو گُھورنا شروع کردیتے ہیں۔۔
جیسے ہی کوئی بھیڑیا بُھوک سے نِڈھال ہو کر گِرتا ہے تو باقی سب مِل کر اُس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اُس کو کھا جاتے ہیں، اِ⁶س عمل کو فارسی میں ’’گُرگِ آشتی‘‘ کہتے ہیں۔۔۔۔
اِس عمل کا گہرائی سے تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ رُجحان بھیڑیوں کے ساتھ ساتھ کافی حد تک ہو بہو انسانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔۔۔۔
ہم انسان بھی ان بھیڑیوں کی طرح ہیں، جو کمزور نظر آۓ اسی پر اپنی دھاک بٹھاتے ہیں۔۔۔ جو جتنا حالات کا ستایا ہوتا ہے اتنا ہی مزید اس کے ساتھ شدت پسندانہ رویہ اپناتے ہیں۔۔۔
جو مالی طور پر کمزور ہوتا ہے اسی کے ساتھ فراڈ اور دھوکہ دہی کرکے اس کی رہی سہی زندگی کو بھی جہنم بنا دیتے ہیں۔۔۔
ہم کمزور کا سہارا بننے کے بجاۓ، الٹا مزید اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔۔۔ جو جتنا کمزور ہوتا ہے اتنا ہی اس کے لئے زندگی دشوار بنا دیتے ہیں۔۔ ایسا ہے یا نہیں

24/09/2025

شاعر محبوب ظفر کی احمد فراز پر گفتگو

جھوٹے رُوپ کے درشنپاکستان نیشنل سینٹر میں ایک معروف طالبِ علم رہنما راجہ انور کی ایک تازہ تصنیف ”جھوٹے رُوپ کے درشن“ کی ...
24/09/2025

جھوٹے رُوپ کے درشن

پاکستان نیشنل سینٹر میں ایک معروف طالبِ علم رہنما راجہ انور کی ایک تازہ تصنیف ”جھوٹے رُوپ کے درشن“ کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ صدارت صوبائی وزیر ملک مختار اعوان نے کی۔ راجہ انور کے مختلف احباب نے ان کی شخصیت کے بارے میں بہت دلچسپ اور شگفتہ تقریریں کیں۔ میں نے اس کتاب کا تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش کی۔ جو کچھ میں نے عرض کیا اس کا خلاصہ یہ ہے:

راجہ انور کے بارے میں مجھے صرف اتنا علم تھا کہ وہ طالب علموں کا ایک باشعور رہنما ہے اور آتش بیان مقرر ہے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد میں نے اس کی کتاب ”بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک“ پڑھی تو مجھے معلوم ہوا کہ اسے تحریری اظہار پر بھی قدرت حاصل ہے جس سے بیشتر اربابِ سیاست محروم ہوتے ہیں۔ اب اس کی دوسری اور تازہ تصنیف ”جھوٹے روپ کے درشن“ میرے سامنے ہے۔ اس کتاب کا مجموعی تاثّر المیے کا ہے مگر میں اس کی کرب انگیزی کا شکار ہونے کے باوجود خوش بھی ہوں اور میری اس خوشی کا ایک ٹھوس سبب ہے۔ ترقّی پسند ادب کی تحریک کے ابتدائی دنوں میں روایتی شعر و ادب کو رد کر دینے کے شوق میں نقّادوں اور رہنمائوں کے ایک طبقے کی طرف سے معاملاتِ حُسن و عشق کے اظہار کی مذمت کی گئی تھی اور یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ یہ صرف دولت اور وقت کی فراوانی کی کرشمہ سازی ہے اور اس عہد میں جب انسان کے لیے اپنے آپ کو عزت سے زندہ رکھنا ہی ایک مسئلہ ہے، حُسن سے متاثّر ہونا اور عشق میں مصروف رہنا رجعت پسندی اور زوال آمادگی ہے۔ شکر ہے کہ ترقّی پسندی کا یہ معیار جلد باطل ثابت ہو گیا اور ثقہ بند ترقّی پسندوں نے محبّت کو انسانی شخصیت کی تکمیل کا لازمہ قرار دیا۔ ترقّی پسندانہ نظریۂ حیات میں یہ اصلاح بحیثیت ادیب تو میرے لیے نہایت خوش آئند تھی مگر مجھے شبہ ہوتا تھا کہ ہمارے بعض انقلابی رہنما محبّت کے جذبے سے محروم ہیں اور اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ انھوں نے کبھی محبّت نہیں کی یا انھیں کرنے کی مہلت ہی نہیں ملی۔ چنانچہ چند برس پہلے جیل میں پنجاب کے ایک بزرگ اور محترم انقلابی رہنما سے میں نے عرض کیا کہ آپ نے جب انقلابی سرگرمیوں میں اتنی مصروف زندگی گزاری ہے تو ظاہر ہے کہ آپ کو جوانی میں بھی کسی سے محبّت کرنے کا وقت کہاں ملا ہو گا۔ انھوں نے پلٹ کر مجھے اس طرح دیکھا جیسے میں نے ان کے ساتھ کوئی بدسلوکی کی ہے۔ پھر ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آ گئی جو صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب روکے ہوئے آنسو پتلیوں پر پھیل جاتے ہیں۔ تب انھوں نے مجھے اپنی محبّت کا ایک دل گداز واقعہ سنایا اور میرے دل میں اس انقلابی رہنما کی عزت اور بڑھ گئی۔ میں نے سوچا کہ یہ شخص نظریاتی مشین نہیں ہے، محسوساتی مخلوق ہے۔ میرا یقین ہے کہ جو لوگ انسانوں کے جبلّی اور بنیادی جذبات کی قدر کرنا نہیں جانتے، وہ ادھورے لوگ ہوتے ہیں۔ چاہے وہ بہت بڑے مصلح ہوں، چاہے بہت بڑے انقلابی۔

راجہ انور کی تازہ تصنیف پڑھ کر مجھے اسی لیے خوشی ہوئی ہے نہ جانے مستقبل کے لیے اس نوجوان کے کیا ارادے ہیں لیکن اگر اس نےسیاسی لیڈر بننا پسند کیا تو یہ ایک ایسا لیڈر ہو گا جسے دیکھ کر نہ ہنسی آئے گی، نہ اس سے ڈر لگے گا بلکہ اس پر پیار آئے گا۔ کیونکہ اس نے پیار کی تمام پرتوں اور مرحلوں کو اپنے خون میں کھپا کر اپنی شخصیت کا ایک ناگزیر حصہ بنا لیا ہے۔

راجہ انور کی اس تصنیف کا مرکزی کردار خود راجہ انور ہے۔ یہ راجہ انور اپنی محبوبہ کی طرف سے سپردگی کی معراج سے لذت یاب ہونے کے فوراً بعد رد کر دیا گیا ہے۔ محبّت کی تاریخ میں اس تضاد کا نتیجہ تین صورتوں میں ظاہر ہوتا رہا ہے۔ خود کشی کی صورت میں، دماغی توازن کھو بیٹھنے کی صورت میں یا بھری کائنات سے کلیتاً مایوس ہو کر پوری زندگی ایک کلبی، ایک cynic کی طرح گزار دینے کی صورت میں۔ راجہ انور کی شخصیت نے ان تینوں صورتوں میں سے کوئی صورت قبول نہیں کی۔ اس نے ایک چوتھی صورت قبول کی ہے اور یہ نفی کی نہیں اثبات کی صورت ہے۔ یہ شکستہ ریزوں کو چننے اور جوڑنے کی صورت ہے اور یہ وہ صورت ہے جو ایک ایسا نوجوان قبول کر سکتا ہے جسے انسان کی عظمت اور اس کی آخری فتح پر یقینِ کامل ہو۔ مجھے یوں ہی شبہ سا ہوا کہ کتاب کے آخری باب، یعنی 19 اکتوبر 1973ء کے خط میں راجہ انور اس حد تک تلخ ہو گیا ہے جو اس کی شخصیت کی حد سے کچھ آگے کی حد ہے۔ اس کی شخصیت جو اس کتاب کے بیشتر حصے میں نمایاں ہوتی ہے، اُبھرتی اور محبّت روایتی معیاروں پر چھا جاتی ہے اس شخصیت میں محبّت کے کرب نے گداز اور نرمی اور فراخ دلی پیدا کر دی ہے۔ یہ شخصیت اپنے رقیب کو بھی دکھ پہنچانے کی روادار نہیں رہی مگر اس آخری باب میں مصنف اپنی بے بس محبوبہ پر ٹوٹ ٹوٹ کر برسا ہے۔ حالانکہ اس بےبسی کے جواز میں ’کنول‘ کے خط کی یہ سطور پیش کی جا سکتی ہیں جو اس کتاب کا ایک حصہ ہیں کہ ”محسوس کرتی ہوں جیسے میں کسی غلط جگہ پیدا ہو گئی ہوں۔ اپنے ناموس کی خاطر اپنی اولاد کو ذبح کر دینا یہاں کا دستور ہے۔ میں ایک ناتواں عورت! ان سے کیسے لڑوں گی اور کب تک؟ میں تو یہی سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتی ہوں۔ میرےپاس دُعا اور انتظار کے سوا رکھا ہی کیا ہے۔“

خود راجہ انور کو بھی شروع سے آخر تک اس سماجی تفاوت کی آگاہی حاصل رہی ہے۔ چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ اس سارے المیے کا اصلی مجرم وہ غیر ہموار اور غیر فطری معاشرہ ہے جس کے اصول محبّت کرنے والوں کے درمیان ایک دھماکے کی طرح پھٹتے ہیں اور یکایک وہ آہنی فصیل اُبھر آتی ہے جس کے دونوں طرف تنہائیوں کا سناٹا مسلط ہو جاتا ہے۔ راجہ انور کو بھی اس حقیقت کا علم ہے کہ اس کی محبّت کو طبقاتی امتیاز کی تلوار کی دھار پر رکھ دیا گیا ہے، مگر اس کی مخاطب ’کنول‘ ہے۔ اس لیے وہ اسی کو زر پرست طبقے کی علامت قرار دے کر دھن ڈالتا ہے۔ شاید اس لیے کہ میں پُرانی نسل سے تعلّق رکھتا ہوں، مجھے راجہ انور کے اس آخری خط کا لہجہ اس کی پوری تصنیف کے لہجے سے مختلف اور اُکھڑا اُکھڑا محسوس ہوا ہے۔ اس کے بین السطور ”انتقام! انتقام!“ کی گونج سنائی دیتی ہے اور کتاب کا نام بھی اسی ردّعمل کی کارروائی معلوم ہوتا ہے حالانکہ ہم پُرانے لوگ توان حالات میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کر لیا کرتے تھے کہ؎

ہم نے ہر غم سے نکھاری ہیں تمھاری یادیں
ہم کوئی تم تھے کہ وابستۂ غم ہو جاتے

مگر میں جانتا ہوں کہ راجہ انور کی نوکِ قلم کا حقیقی ہدف وہ معاشی اور معاشرتی نظام ہے جو محبّت کی بےساختگی اور سچائی کا کٹّر دُشمن ہے۔ اسی لیے تو راجہ انور نے کتاب کا انتساب نئی نسل کے نام کیا ہے جو ہمارے دُکھوں کا حساب چکائے گی اور کتاب کی آخری سطر بھی یہ ہے کہ ”باقی حساب ہماری نسلیں آپس میں طے کر لیں گی۔“ مگر میرا سوال پھر وہی ہے کہ جب یوم الحساب کا انعقاد نئی نسل کے سپرد کر دیا گیا ہے تو اس ’کنول‘ پر اتنی شدید طعنہ زنی کیوں، جو اس طبقے سے تعلّق رکھتی ہے جس کا حساب چکنا ابھی باقی ہے۔

مصنّف کے اس طرزِ عمل کا جواز صرف اس حقیقت سے مل سکتا ہے کہ نوجوانی کا عالم ہے اور صدمہ مبالغے کی حد تک شدید ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ یہی شدید محبّت کرنے والا نوجوان پوری کتاب میں نہایت متوازن انداز اختیار کیے رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے انسانی مسائل پر غور و فکر کیا ہے اور انھیں اپنے اس دور کے تناظر میں سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر اس کے نظریۂ اخلاص ہی کو لے لیجیے۔ کتاب کے آخر میں جب ایک طوائف اسے اپنا جسم پیش کرتی ہے تو وہ کہتا ہے ”نہیں۔ میں انسان کا گوشت نہیں کھا سکتا!“ ایک اور جگہ وہ اعلان کرتا ہے کہ ”میں محبّت سے لے کر نفرت تک، کسی مقام پر بھی کسی کو دھوکا دینا جائز نہیں سمجھتا۔“ وہ منفی قسم کی آزادیاں جو آج کل کے بعض نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں، راجہ انور کےلیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔ وہ کہتا ہے: ”ٹھیک ہے میں آزادی کا قائل ہوں، مگر چرس پینا بھی کوئی آزادی ہے؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی زہر کھائے اور کہے میں بغاوت کر رہا ہوں۔ چرس کے دھوئیں سے کیا سماج کے جابرانہ رشتے ٹوٹ جائیں گے! جب بڑے لوگوں کے بچے اسے حشیش کہہ کر پیتے ہیں تو مجھے ان سے نفرت آتی ہے۔ یہ لوگ چرس اس لیے پیتے ہیں کہ مغرب میں آج کا دستور یہی ہے۔ صاحب لوگ ہیں برائی بھی ’ولایت پلٹ‘ کرتے ہیں۔ چرس پینا ہی اپنے لوگوں سے سیکھ لیتے تو کوئی بات بھی تھی....“ یہ درست ہے کہ مصنف بھی کبھی کبھار دوربین کی مدد سے لڑکیوں کو نہاتے دھوتے اور کپڑے بدلتے دیکھ لیتا ہے، مگر خود اسی کے لفظوں میں ”وہ ایک غیر روایتی کردار ہے۔“ اس کے اپنے اخلاقی معیار ہیں اور یہ نہایت صاف ستھرے، منطقی اور خالصتاً انسانی معیار ہیں۔

جو کچھ ماضی میں ہو چکا ہے اور جو کچھ حال میں ہو رہا ہے، اس سے وہ برگشتہ ہے اور اس نظامِ حیات کو منقلب کر دینا چاہتا ہے، جس میں نوجوان کے جذبات بھی محکوم بنا لیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بعض مسلمہ حقائق کو بھی مغالطے قرار دے ڈالتا ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ ”موسیقی بھی کتنا خوب صورت دھوکا ہے“ اور ”حُسن ایک اضافی اور بےمعنی شے ہے۔“ اور انسانی رشتوں کی ایک مروّجہ اصطلاح ’بےوفائی‘ کے بارے میں اس کاکہنا ہے کہ ”بھائی یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ انسان کسی کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں جاتا بلکہ وہ ایک صورتِ حال سے دوسری میں چلا جاتا ہے....“ اس آخری مغالطے کو ختم کرنے کی کوشش میں مصنف خود اس کی لپیٹ میں آ گیا ہے اور اس نے کنول کی بے وفائی کا جواز مہیا کر دیا ہے۔ مگر یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب ان کی محبّت عروج پر تھی۔ کتاب کا آخری باب لکھنے کے بعد راجہ انور کو اپنے اس نقطۂ نظر پر نظرِثانی کر لینی چاہیے۔

بہرحال یہ طے ہے کہ مصنف کی محبّت بھرپور ہے، جو کسی سے جھوٹ بولنا گوارا نہیں کرتی۔ کہتے ہیں کہ جنگ اور عشق میں سب جائز ہوتا ہے، مگر راجہ انور کم سے کم عشق کے معاملے میں اس مفروضے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور اس کے معیاروں کو عظمت اور پاکیزگی بخشتا ہے۔ عظمت اور پاکیزگی کے الفاظ میں نے بہت جھجک سے استعمال کیے ہیں، کیونکہ راجہ انور کو لفظوں سے بہت شکایت ہے۔ وہ تہذیب، شرم اور حیا کے لفظوں کو ’بانجھ الفاظ‘ کہتا ہے۔ پھر ایک جگہ لکھتا ہے کہ ”لوگ بنجر الفاظ کے آہنگ سے یوں بہل جاتے ہیں جیسے بھوکا بچہ انگوٹھے سے۔“ اس نے بعض دانشوروں کو ’مردہ الفاظ کے قبرستان میں بسنے والے گورکن‘ قرار دیا ہے۔ ایک جگہ لکھا ہے: ”میں الفاظ کی دُنیا سے بہت دور بہت پرے پہنچ چکا ہوں۔“ میں لفظ کے روایتی استعمال کے خلاف راجہ انور کی اس کُھلی بغاوت کی قدر کرتا ہوں۔ اس نے معیارِ محبّت کے ساتھ جو عظمت اور پاکیزگی منسوب کی ہے وہ اتنی روایتی نہیں ہے،
خود راجہ انور کی محبّت کی طرح توانا اور بامعنی ہے۔
احمد ندیم قاسمی
🗓️ 13 مارچ 1974ء

▪ _دنیا کا سب سے سچا اور حقیقت پسند ادب روسی ادب کے اقتباسات!:1- "چاہے میں نے ہر چیز کو جو مجھے تکلیف دیتی ہے، پیچھے چھو...
24/09/2025

▪ _دنیا کا سب سے سچا اور حقیقت پسند ادب روسی ادب کے اقتباسات!:

1- "چاہے میں نے ہر چیز کو جو مجھے تکلیف دیتی ہے، پیچھے چھوڑ دیا ہو... میں وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔"
- دوستویفسکی

2- "وہ لوگ جو مشترکہ المیے سے جڑے ہوتے ہیں، جب اکٹھے ہوتے ہیں تو ایک قسم کا سکون محسوس کرتے ہیں۔"
- انطون چیخوف

3- "یادداشت میں صرف وہی چیزیں باقی رہتی ہیں جنہیں ہم بھولنا چاہتے ہیں۔"
- دوستویفسکی

4- "جب کوئی آپ کو دھوکہ دیتا ہے تو یہ ایسے ہوتا ہے جیسے انہوں نے آپ کے بازو کاٹ دیے ہوں، آپ انہیں معاف کر سکتے ہیں لیکن آپ انہیں گلے نہیں لگا سکتے!"
- ٹالسٹائی

5- "کسی شخص کی اصلاح میں کچھ بھی اتنا فائدہ مند نہیں ہوتا جتنا کہ اس کے ماضی کی ندامت بھری یادیں۔"
- دوستویفسکی

6- "سردیوں کا موسم ان لوگوں کے لیے سرد ہوتا ہے جن کے پاس گرم یادیں نہیں ہوتیں، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے زیادہ سرد ہوتا ہے جن کے پاس وہ یادیں تو ہوتی ہیں مگر ان کے ساتھی نہیں ہوتے۔"
- دوستویفسکی

7- "میرے خیال میں تعارف کے بہترین لمحات وہ ہوتے ہیں... جو جدائی سے پہلے ہوتے ہیں۔"
- دوستویفسکی

8- "شاید میرے پاس شاندار فتوحات نہ ہوں؛ لیکن میں تمہیں اپنی شکستوں سے حیران کر سکتا ہوں جن میں سے میں زندہ بچا ہوں!"
- چیخوف

9- "وہ لوگ جو کھڑکی کے قریب بیٹھنے پر اصرار کرتے ہیں، اگر آپ ان سے راستے کی تفصیلات کے بارے میں پوچھیں تو انہیں علم نہیں ہوتا۔"
- لیرمنٹوف

10- "بوڑھے شخص سے زیادہ برا کچھ نہیں جو اپنی خوابوں کا بوجھ اپنے بیٹے پر ڈال دیتا ہے اور پھر اولڈ ایج ہوم میں جاگتا ہے۔"
- دوستویفسکی

رنجش ہی سہی دل ہی دُکھانے کے لئے آآ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آکچھ تو مرے پندارِ محبت کا بھرم رکھتُو بھی تَو کبھی ...
24/09/2025

رنجش ہی سہی دل ہی دُکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ

کچھ تو مرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
تُو بھی تَو کبھی مجھ کو منانے کے لئے آ

پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تَو
رسم و رہِ دنیا ہی نبھانے کیلئے آ

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ہے تَو زمانے کے لئے آ

اک عمر سے ہوں لذتِ گریہ سے بھی محروم
اے راحتِ جاں مجھ کو رلانے کے لئے آ

اب تک دلِ خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لئے آ

مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت
چپکے سے کسی روز جتانے کے لیے آ

جیسے تمہیں آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی کسی روز نہ جانے کے لیے آ

احمد فراز

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوںاک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوںنیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوںآنکھ کھل جا...
24/09/2025

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں

شام بھی ہو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھولنے والے میں کب تک ترا رستا دیکھوں

ایک اک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں

کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں

تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکنا دیکھوں

بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں

سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں

مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں

پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایا دیکھوں

میں نے جس لمحے کو پوجا ہے اسے بس اک بار
خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں

تو مری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں

ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں

پروین شاکر

24/09/2025

ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا

Address

I 9
Islamabad
44000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when علمی بیٹھک-ilmi Bethak posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to علمی بیٹھک-ilmi Bethak:

Share