Faiz Ullah Khattak Official

Faiz Ullah Khattak Official I'm entrepreneur, Real_Estate Consultant, social worker and writer.

12/07/2025
11/07/2025

Beautiful Pakistan❤️🇵🇰
Enjoy the natural beauty of Pakistan.
سفر چھوٹا تھا لیکن یادیں بے حد حسین بن گئیں۔

‏ایمزون کا جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے ایمزون ایک یونانی لفظ ہے جسکا مطلب لڑاکو عورت ہے یہ جنگل دنیا کے 9 ممالک تک...
04/08/2024

‏ایمزون کا جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے ایمزون ایک یونانی لفظ ہے جسکا مطلب لڑاکو عورت ہے یہ جنگل دنیا کے 9 ممالک تک پھیلا ہوا ہے، جس میں سرفہرست برازیل ہے۔اس کا کل رقبہ 55 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے، جبکہ پاکستان کا رقبہ 7 لاکھ 95 ہزار مربع کلومیٹر ہے.اگر آپ ایمزون کے گھنے جنگلات میں ہوں اور موسلا دھار بارش شرع ہوجائے تو تقریبا 12 منٹ تک آپ تک بارش کا پانی نہیں پہنچے گآ۔زمین کی 20 فیصد آکسیجن صرف ایمزون کے درخت اور پودے پیدا کرتے ہیں
‏دنیا کے 40 فیصد جانور ، چرند، پرند، حشرات الارض ایمزون میں پائے جاتے ہیں
‏یہاں 400 سے زائد جنگلی قبائل آباد ہیں، انکی آبادی کا تخمینہ 45 لاکھ کے قریب بتایا گیا ہے۔ یہ لوگ اکیسیوں صدی میں بھی جنگلی سٹائل میں زندگی گذاررہے ہیں
‏اسکے کچھ علاقے اتنے گھنے ہیں کہ وہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی اور دن میں بھی رات کا سماں ہوتا ہے
‏یہاں ایسے زیریلے حشرات الارض بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر کسی انسان کو کاٹ لیں تو وہ چند سیکنڈ میں مرجائے
‏ایمزون کا دریا پانی کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے, اسکی لمبائی 7ہزار کلومیٹر ہے،
‏دریائے ایمزون میں مچھلیوں کی 30 ہزار اقسام پائی جاتی ہیں
‏ایمزون کے جنگلات میں 60 فیصد جاندار ایسے ہیں جو ابھی تک بے نام ہیں
‏یہاں کی مکڑیاں اتنی بڑی اور طاقتور ہوتی ہیں کہ پرندوں تک کو دبوچ لیتی ہیں
‏یہاں پھلوں کی 30 ہزار اقسام پائی جاتی ہیں
‏مہم جو اور ماہر حیاتیات ابھی تک اس جنگل کے محض 10 فیصد حصے تک ہی جاسکے ہیں

زیر نظر تصویر میں آپ کو ایک مردہ جسم نظر آرہا ہوگا تو سنییں ہوا کچھ یوں کہ اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے گھر والے اور رشتہ ...
17/07/2024

زیر نظر تصویر میں آپ کو ایک مردہ جسم نظر آرہا ہوگا تو سنییں ہوا کچھ یوں کہ اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے گھر والے اور رشتہ دار وغیرہ اس مردہ جسم (میت) کو پلاسٹک میں ڈھانپ لیتے ہیں اور تمام لوگ کمروں وغیرہ میں پناہ لے لیتے ہیں ۔۔۔

یہ میری اور آپ کی کہانی ہے ہمارے ہونے نہ ہونے سے اتنا فرق پڑھتا ہے آپ سوچیں کہ مرنے کے بعد کوئی آپ کے لیے بارش کے پانی میں بھیگنا بھی نہیں چاہتا کوئی اس بارش میں اپنی قیمتی چیزوں کو خراب نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔

سوچنے کی بات ہے کہ ہم دنیا داری اور ان رشتوں کے لیے اپنے رب کو ساری عمر ناراض کرتے پھرتے ہیں اور آخر میں ہماری یہ حیثیت ؟

*بچپن کے دریچوں سے (خوبصورت یادیں)*تحریر: فیض اللہ خٹکانسانی زندگی کا سب سے اہم, سنہرا اور شاندار دور بچپن کا ہے۔ اس کی ...
26/05/2024

*بچپن کے دریچوں سے (خوبصورت یادیں)*
تحریر: فیض اللہ خٹک
انسانی زندگی کا سب سے اہم, سنہرا اور شاندار دور بچپن کا ہے۔ اس کی خوبصورت اور دلکش یادیں ہمارے دل و دماغ کے خفیہ خانوں میں روشن ستاروں کی مانند جگمگاتی رہتی ہے۔ جب کبھی میں اپنے بچپن کو یاد کرتا ہوں، تو میرا دل فورا خوشی سے جھوم اٹھتا ہے، کہ شاید واقعی میں دوبارہ بچہ بن گیا ہوں، کیونکہ دل تو بچہ ہے۔ لیکن حقیقت اس سے بالکل برعکس ہے۔ کاش وقت کی چکی دوبارہ الٹ سائیڈ پر گھوم جائے اور ہم ایک دفعہ پھر بچے بن جائیں۔

اگر یوں کہہ لیا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ کسی گھر کی ساری خوبصورتی، رونق اور زینت، اس گھر میں موجود بچوں اور بزرگوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جب انسان بڑھاپے کی عمر کو پہنچتا ہے۔ تو اس میں ساری عادتیں بچوں سی اجاتی ہے۔ معمولی سی بات پر ناراض/خفا ہو جانا اور تھوڑی سی اچھی بات پر خوش ہونا، یہ ساری عادتیں/ خصلتیں تو بچوں میں ہی پائی جاتی ہے، اور وہ دل میں کچھ نہیں رکھتے۔ یوں بڑھاپے میں انسان ایک دفعہ پھر بچہ بن جاتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے اج کل کے معاشرے میں بزرگوں کو وہ عزت و تکریم نہیں ملتی، جن کے وہ حقدار ہیں۔ اکثر بچوں پر اپنے والدین، اس عمر میں بوجھ بن جاتے ہیں یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
اس لیے میں دوبارہ اصلی یعنی چھوٹی عمر والا بچہ بننا پسند کروں گا،کہ جس سے گھر کے سارے افراد پیار محبت کرتے اور ان کے تمام ناز و نخروں کو اٹھاتے ہیں۔اپ یقین کریں بچپن کی یادیں اس قدر حسین اور خوبصورت ہوا کرتی ہیں۔ انہیں یاد کر کے مجھے ایک شاعر کا شعر یاد اتا ہے۔
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

میرے نزدیک بچپن کی خوبصورتی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس عمر میں ہر بچہ بے تاج بادشاہ ہوا کرتا ہیے۔ یعنی دنیا کے سارے غموں سے ازاد پنجی۔ سوائے ایک فکر اور غم کے۔۔۔ لیکن ہمارے دور وہ بھی پانچ سال کی عمر کے بعد شروع ہوتا تھا۔
بہرحال اج کل کے بدنصیب بچے اس نعمت سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کو ساڑھے تین سال کی عمر میں سکول میں جو داخل کروانا پڑتا ہے. یہ بھی بہت بڑی لمبی ڈیبیٹ ہے لیکن اس موضوع پر ابھی میں بات نہیں کرنا چاہتا، ایسا نہ ہو کہ کہیں اپنے خوبصورت موضوع سے دور نہ نکل جاؤں۔

ایک تھا ہمارا دور۔۔۔ جسمیں ہم نےپانچ سال کی عمر تک خوب مستی اور شرارتیں کی ہیں۔ اور دوسرے معنی میں پانچ سال تک ہم نے گھر والوں کو خوب ذلیل اور ناک میں دم کرتے رہے ہیں۔ کبھی ایک شرارت کبھی دوسری شرارت، یعنی ہمارے ہاتھ کبھی شرارت اور شیطانی سے خالی نہیں ہوتے تھے۔ جب گھر والے ایک شرارت سے منع کرتے تو ہم فورا دوسری شرارت کی طرف لپک پڑتے اور اس زمرے میں گھر والوں سے خوب مار بھی کھاتے رہیے ہیں۔
اگر اس عمر میں میں اپنے پسندیدہ شرارتوں کی لسٹ اپ کے سامنے رکھوں.
پہلے نمبر پر جو شرارت ہمارے دل کو خوب لگتی تھی، وہ تھی۔ گرمیوں کے دنوں میں، گھر والے درخت کے نیچے ٹھنڈے پانی کیلئے یعنی مٹی کے گھڑے رکھتے تھے ہم دوپہر میں اکثر ان میں مٹی یا ٹھنڈے پانی کے گڑھوں کو الٹا لٹا دیتے تھے۔ کیونکہ گرمیوں میں اکثر لوگ دوپہر کو ارام فرماتے تھے اور ہمیں خوب شرارت کرنے کا موقع اور وقت ملتا تھا۔ ٹھنڈے پانی سے اپنے اپ کو نہلا لینا ہمارا محبوب مشغلہ تھا۔ جس کی وجہ سے اکثر اوقات ماں سےخوب مار پڑتی تھی، لیکن پھر بھی اس شرارت سے باز نہیں اتے تھے۔

دوسرا اہم اور پسندیدہ مشغلہ یہ تھا کہ ماں صبح صاف کپڑے پہنا کر اور خوب تیار شیار کرکے اور پھر ہم ادھے گھنٹے بعد میلے کچیلے کپڑوں میں ان کے سامنے نمودار ہوتے، کہ ماں جی بڑی سخت بھوک لگی ہے۔ جوں ہی ماں کی نظر میلے کچیلے کپڑوں پر پڑتی تو پہلے تو گالیوں سے خوب تواضع کی جاتی تھی اور پھر بات مارکٹائی تک پہنچ جاتی۔ اور اس کے بعد ہاتھ میں رات کی سوکھی روٹی پکڑا کر پھر اپنے گلے سے لگا کر چھپ کرانے کی کوشش کرتی۔ کیا ہم بھی خوب ڈیٹ ہوا کرتے تھے تھوڑا سا رونے دھونے کے بعد اپنی سوکھی روٹی کو تیز دانتوں سے توڑتے اور جلدی جلدی اپنی بھوک کو مٹاتے تاکہ دوبارہ کسی اور شیطانی میں مشغول ہو جائیں۔ کیا خوب دن تھے۔ کاش وہ دن پھر ا جاتے۔

یہاں پر میں اپ کو ایک اور مزے کی بات بتانا پسند کروں گا. شاید اج کل کے ماڈرن دور کے بچے اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے لیکن 80 اور نویں کے دہائی کے لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے۔ کہ چار اور پانچ سال تک کی عمر میں اکثر بچے شلوار نہیں پہنتے تھے اگر والدہ پہنا بھی دیتی، تو ماں کی انکھوں سے اوجل ہوکر شلوار اتار دیتے تھے۔ تاکہ ٹھنڈی ہوا سے صحیح معنوں میں لطف اٹھایا سکے۔ جس کی وجہ سے گھر کی ساری چار دیواری ہمارے لیے واش روم کا کام سرانجام دیتی تھی۔ بس جہاں پررفع حاجت پیش اتی۔ پھر نہ اؤ دیکھتے تھے نہ تاؤ، جٹ سے اپنی حاجت پوری کر ڈالتے۔ یعنی گھر کی ساری چار دیواری کی سیرابی ہمارے ذمے پر تھی۔ ہم اس کام کو بخوبی سر انجام دیتے تھے۔ اکثر اس ذمہ داری کو نبھانے کی وجہ سے ہمیں گھر کے سارے لوگوں سے مار بھی پڑتی تھی لیکن پھر بھی ہم اس کام سے باز نہیں اتے تھے۔
جوں ہی ہماری عمر پانچ سال کو پہنچ جاتی تھی۔ تو گھر والے فورا سکول کے حوالے کر دیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری رہے گا)۔
از قلم:- فیض اللہ خٹک
#بچپن

03/12/2023

حدیث میں اتا ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا اللہ تعالی انسانوں کو کس دوبارہ زندہ پیدا فرمائے گا۔ اس کی کوئی نشانی مخلوق میں سے بیان فرمائیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تمہارا گزر ایسے وادی سے ہوا جو خشک اور بنجر ہو پھر دوبارہ اس سے لہذا ہو، پھر دوبارہ اس سے لہلہاتا ہوا دیکھا ہو؟ اس نے کہا ہاں، اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بس اسی طرح انسانوں کا جی اٹھنا ہوگا"۔ (مسند احمد جلد چار ص 11، ابن ماجہ المقدمہ حدیث نمبر 108 )

*ہجرت مدنیہ* "فوجی مہمات کا اغاز کب ہوا*ربیع الاول سے لے کر رمضان ایک ہجری کی طرح دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ...
01/12/2023

*ہجرت مدنیہ*
"فوجی مہمات کا اغاز کب ہوا*

ربیع الاول سے لے کر رمضان ایک ہجری کی طرح دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مہم مدینہ منورہ سے باہر نہیں بھیجی۔یہ چھ مہینے اپ نے مدینے میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے اور ہجرت کی وجہ سے اسلامی انقلابی جماعت کے جو دو عناصر وجود میں اگئے تھے یعنی مہاجرین و انصار ، ان کو باہم شیر و شکر کرنے اور بنیان مرصوص بنانے میں صرف فرمائے۔اس کے بعد راست اقدام کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ مرحلہ کیا ہے؟ اس کو صرف تریخی اعتبار سے سمجھنے کے بجائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مونہج انقلاب کے نقطہ نظر سے سمجھنا چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھ فوجی مہمات مکہ کی طرف روانہ فرمائیں جن میں سے چار میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم بنفس نفیس شریک ہوئے، لہذا انہیں غزوات کہا جاتا ہے لیکن واضح رہے کہ یہ وہ غزوات ہیں جو غزوہ و بدر سے پہلے کے ہیں۔ عام طور پر ہمارا تصور اور تاثر یہ ہے کہ پہلا غزوہ غزوہ بدر ہے۔ پہلی باقاعدہ جنگ یقینا غزوہ بدر ہے ۔ غزوہ یغزو عربی میں اللہ کی راہ میں نکلنے کو کہتے ہیں اور ا اصطلاحا غزوہ خاص ہو گیا اس مہم کے لیے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس نکلے ہوں۔ تو ابتدائی چھ ماہ کے بعد چار فوجی مہمات وہی ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود مدینہ سے باہر نکلے، جبکہ چار سرا یہ ہیں سریا اس فوجی مہم کو کہا جاتا ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مہم بھیجی یا کوئی لشکر روانہ فرمایا اور کسی صحابی کو اس کا سربراہ یا سپہ سالار مقرر فرما دیا۔ اپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں شامل نہیں ہوئے۔ان اٹھ مہموں کے حالات واقعات کو ہمارے اکثر سیرت نگار مورخین نے بمشکل تمام دو یا تین صفحات میں سمیٹ لیا اور اس میں بھی نہایت ایجاز و اجمال سے کام لیا۔حالانکہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ وہ اہم اور نازک مرحلہ ہے جس میں اقدام اور پیش قدمی اب حضور ولم کی طرف سے ہو رہی ہے۔یا با الفاظ دیگر صبر محض(Passive Resistance) اب راست اقدام (Active Resistance )میں تبدیل ہو رہا ہے۔
To be continued....
اقتباس (ڈاکٹر اسرار احمد کی کتاب سیرت النبی سے)



کچھ عرصہ قبل چیچہ وطنی کا ایک آدمی اپنے بیگ میں ایک بُوٹی (دھماسہ) اپنے ساتھ بیرون ملک لیجا رہا تھا۔میں دوران ڈیوٹی اس ک...
30/11/2023

کچھ عرصہ قبل چیچہ وطنی کا ایک آدمی اپنے بیگ میں ایک بُوٹی (دھماسہ) اپنے ساتھ بیرون ملک لیجا رہا تھا۔میں دوران ڈیوٹی اس کے سامان کی تلاشی لے رہا تھا۔ تو ایک بوٹی، خشک حالت میں جوکہ میرے لئے نئی تھی اس کے بیگ سے برآمد ہوئی۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ کینسر کا #مریض ہے اور اس کے کینسر کے #آپریشن بھی ہوۓ ہے۔ اور ابھی مزید آپریشن کا #ڈاکٹرز نے مشورہ دیا تھا۔ پھر ایک دن کہیں سے اسے اس دھماسہ بوُٹی کا علم ہوا۔ تب سے وہ اس بوُٹی کو استعمال کررہا ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے ناصرف آپریشن کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے بلکہ #کینسر کا مرض بھی ختم ہوگیا ہے۔
اگر اللہ نہ کرے کوئی کینسر کا مریض ہو۔ تو انہیں اس بوٹی کا استعمال معالج کے مشورہ سے ضرور کروائیں۔
انشااللہ #شفایاب ہوگا۔
(پنسار سے خشک حالت میں خرید کر پیس لیں۔ ایک چمچ صبح ایک شام پانی کیساتھ کھالیں۔ ذائقہ اسکا انتہائی کڑوا ہوتا ہے )

نوٹ۔ اسے اردو میں #دھماسہ، پشتو میں #ازغکے ، پنجابی میں #دھماں، ہندی میں دھماسہ، پوٹھوہاری میں #دھمیاں ، سندھی میں #ڈراماؤ، اور انگریزی نام #فیگونیا ھے

‏مفیدتھریڈ"" سنت نبوی ﷺ  ""سونے سے پہلے 3 مرتبہ بستر جھاڑنے ، دائیں کروٹ سونے ، اور سونے سے پہلے وضو کا حکم کیوں دیا گیا...
10/11/2023

‏مفیدتھریڈ

"" سنت نبوی ﷺ ""

سونے سے پہلے 3 مرتبہ بستر جھاڑنے ، دائیں کروٹ سونے ، اور سونے سے پہلے وضو کا حکم کیوں دیا گیا ؟

سائنسدانوں نے تحقیق کی تو نتائج نے سب کو دنگ کر دیا،
ایسی بات کہہ دی کہ آپ بھی بے اختیار
سبحان الله کہہ اٹھیں گے

ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 14 سو سال قبل جو سنت اختیار کی تھی اور ان پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا تھا
آج سائنس بھی ان احکامات کو مسلم تسلیم کر رہی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور سنت سے یہ ثابت ہے کہ سونے سے قبل اپنے بستر کو تین بار جھاڑ لینا چاہئے
۔
بظاہر تو ایسا نظر آتا ہے کہ اس حکم کا مقصد بستر پر کیڑے مکوڑوں یا کسی اور نقصان دہ چیز سے صاف کرنا ہے ۔

لیکن سائنسی تحقیق میں ایسا ہوش ربا انکشاف ہوا ہے کہ آپ بھی دنگ رہ جائیں گے ۔

سائنس کے مطابق انسانی جسم میں میٹابولزم کا عمل 24 گھنٹے جاری رہتا ہے جس کے باعث ہر پل سینکڑوں نئے سیل بنتے اور پرانے ٹوٹتے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ سونے کے دوران جسم میں ٹوٹنے والے سیل بستر ہی پر گر جاتے ہیں جو انتہائی چھوٹے ہونے کے سبب نظر نہیں آتے۔

اگر بستر کو بغیر جھاڑے اس پرسونے کیلئے لیٹ جائیں تو یہ مردہ سیل جسم میں داخل ہو کر کئی مہلک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں

اور سائنس نے بھی یہ ہی ثابت کیا ہے کہ ان مردہ سیلوں کو صاف کرنے کیلئے بستر کو کم از کم تین بار جھاڑنا لازمی ہوتا ہے اور ایسا کرنے سے خطرہ ٹل جاتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوتے ہوئے دائیں کروٹ پر لیٹنے کا حکم بھی دیا ہے۔اور اس ضمن میں سائنس کا کہنا ہے
کہ ایسا کرنے سے دل پر دباﺅ بہت کم ہوتا ہے
جس کے باعث دل صحیح بہتر طریقے سے کام کرتا ہے
اور سونے کے دوران بھی پورے جسم کو خون کی سپلائی بہترین انداز میں ہوتی ہے
جبکہ دل کے دورے کے خطرات بھی کم ہو جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ دائیں کروٹ پر سونے سے معدہ بھی اوپر کی جانب ہوتا ہے اور اسے رات میں کھائی جانے والی غذا کو ہضم کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
رات سونے کے دوران معدے میں موجود غذا اچھی طرح ہضم ہوتی ہے
جس کے باعث انسان بیدار ہونے پر خود کو تروتازہ محسوس کرتا ہے اور تیزابیت بھی نہیں ہوتی۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کے مطابق سونے سے قبل باوضو ہو کر سونے کا حکم دیا گیا ہے ۔

عشاء کی نماز سے قبل دانتوں کو مسواک کرنے یا برش کرنے اور پھر باوضو حالت ہی میں سونے کا حکم موجود ہے۔

اس کی سائنسی توجیح آج کے سائنسدان یہ پیش کرتے ہیں کہ رات میں دانت صاف کرنے کے سبب انسان دانتوں کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ دل کی مہلک بیماریوں سے اور معدے کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔

منہ میں موجود کھانے کے ذرات کو اگر سونے سے پہلے صاف نہ کیا جاۓ تو وہ جراثیموں کا سبب بنتے ہیں ۔رات میں وضو کے بعد کچھ نہ کھانے پینے کا بھی حکم ہے
۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سونے سے قبل جب انسان وضو کرتا ہے تو اپنا مثانہ یورین سے خالی کر لیتا ہے جس کے سبب انسان گردوں کی بھی کئی بیماریوں سے محفوظ رہتا.

اللّه پاک سنت کے مطابق ہمیں سونے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین ۔

26/08/2023

امکان کبھی ختم نہیں ہوتا :
مغرب کی طرف پھیلی ہوئی پہاڑیوں کے اوپر سورج ڈوب رہا تھا- افتابی گولے کا ادھا حصہ پہاڑ کی چھوٹی کی نیچے جا چکا تھا اور ادھا حصہ اوپر دکھائی دیتا تھا تھوڑی دیر کے بعد پورا سورج ابھری ہوئی پہاڑوں کے پیچھے ڈوب گیا-
اب چاروں طرف اندھیرا چھانے لگا۔سورج دھیرے دھیرے اپنا اجالا سمیٹتا جا رہا تھا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارا ماحول گہری تاریکی میں ڈوب جائے گا، مگر عین اس وقت جب کہ یہ عمل ہو رہا تھا اسمان پر دوسری طرف ایک روشنی ظاہر ہونا شروع ہوئی۔ یہ بارویں کا چاند تھا جو سورج کے چھپنے کے بعد اس کی مخالف سمت سے چمکنے لگا اور کچھ دیر کے بعد پوری طرح روشن ہو گیا۔سورج کی روشنی کے جانے پر زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک نئی روشنی نے ماحول پر قبضہ کر لیا۔
"یہ قدرت کا اشارہ ہے" میں نے اپنے دل میں سوچا کہ "ایک امکان جب ختم ہوتا ہے تو اس اسی وقت دوسرے امکان کا اغاز ہو جاتا ہے سورج غروب ہوا تو دنیا نے چاند سے اپنی بزم روشن کر لی۔"
اسی طرح افراد اور قوموں کے لیے بھی ابھرنے سے امکانات کا بھی ختم نہیں ہوتے۔زمانہ اگر ایک بار کسی کو گرا دے تو رب کائنات کی اس دنیا میں اس کے لیے مایوس ہونے کا کوئی سوال نہیں۔ وہ نئے مواقع کو استعمال کر کے دوبارہ اپنے ابھرنے کا سامان کر سکتا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ ادمی دانشمندی کا ثبوت دے اور مسلسل جدوجہد سے کبھی نہ اکتائے۔
یہ دنیا خدا نے عجیب امکانات کے ساتھ بنائی ہے۔ یہاں مادہ فنا ہوتا ہے تو وہ توانائی بن جاتا ہے تاریکی اتی ہے تو اس کے بطن سے ایک نئی روشنی برامد ہوتی ہے۔ ایک مکان گرتا ہے تو دوسرے مکان کی تعمیر کے لیے زمین خالی کر دیتا ہے۔ یہی معاملہ انسانی زندگی کے واقعات کا ہے۔یہاں ہر ناکامی کے اندر ایک نئی کامیابی کا امکان ابھر اتا ہے۔ اگر قوموں کے مقابلے میں ایک قوم اگے بڑھ جاتا ہے اور دوسرا قوم پیچھے رہ جائے تو بات یہی ختم نہیں ہو جاتی۔بلکہ اس کے بعد ایک اور عمل شروع ہوتا ہے بڑھی ہوئی قوم کے اندر عیش پرستی اور سہولت پسندی ا جاتی ہے دوسری طرف پچھڑی ہوئی قوم میں محنت اور جدوجہد کا نیا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی اس دنیا میں کسی کے لیے پست ہمت یا مایوس ہونے کا سوال نہیں۔ حالات خواہ بظاہر کتنی ہی نا موافق دکھائی دیتے ہوں۔ اس کے آس پاس ادمی کے لیے ایک نئی کامیابی کام امکان موجود ہوگا۔ ادمی کوچائیے کہ اس نئے امکان کو جاننے اور استعمال کر کے اپنی کھوئی ہوئی بازی کو دوبارہ جیت لے۔(اقتباس مولانا وحیدالدین کی کتاب راز حیات سے )

شہد کی مکھی:-شہد کی مکھیاں پھولوں کا جو رس جمع کرتی ہے وہ سب کا سب شہد نہیں ہوتا۔ اس کا صرف ایک تہائی حصہ شہد بنتا ہے۔ ش...
23/08/2023

شہد کی مکھی:-
شہد کی مکھیاں پھولوں کا جو رس جمع کرتی ہے وہ سب کا سب شہد نہیں ہوتا۔ اس کا صرف ایک تہائی حصہ شہد بنتا ہے۔ شہد کی مکھیوں کو ایک پونڈ شہد کے لیے 20 لاکھ پولوں کا رس حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے مکھیاں تقریبا 30 لاکھ اڑانے بھرتی ہیں اور اس دوران میں وہ مجموعی طور پر 50 ہزار میل تک کی مسافت طے کرتی ہیں۔پس رس جب مطلوبہ مقدار میں جمع ہو جاتا ہے تو اس کے بعد شہد سازی کا عمل شروع ہوتا ہے۔

شہد اپنی ابتدائی مرحلے میں پانی کی طرح رقیق ہوتا ہے۔ شہد تیار کرنے والی مکھیاں اپنے پروں کو پنکھے کی طرح استعمال کر کے فاضل فانی کو بھاپ کی مانند اڑا دیتی ہیں۔ جب یہ پانی اڑ جاتا ہے تو اس کے بعد ایک میٹھا سیال مادہ باقی رہ جاتا ہے جس کو مکھیا چوس لیتی ہیں۔مکیوں کے منہ میں ایسے غدود ہوتے ہیے جو اپنے عمل سے اس میٹھے سیال مادہ کو شہد میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ اب مکھیاں اس تیار شہد کو چھتے کے مخصوص طور پر بنے ہوئے سوراخوں میں بھر دیتی ہیں۔ یہ سوراخ دوسرے مکھیاں موم کے ذریعے حد درجہ کاریگری کے ساتھ بناتی ہیں۔ مکھیاں شہد کو اس سوراخوں میں بھر کر اس کو "ڈبہ بند" غذا کی طرح اہتمام کے ساتھ محفوظ کردیتی ہیے۔ تاکہ ائندہ وہ انسان کے کام آسکے۔
اس طرح کی بے شمار اہتمام ہیں جو شہد کی تیاری میں کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی ایسا کر سکتا تھا کہ تلسماتی طور پر اچانک شہد پیدا کر دے یا پانی کی طرح شہد کا چشمہ بہا دے۔مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اللہ تعالی ہر قسم کی قدرت کے باوجود شہد کو اسباب کے ایک حد درجہ کامل نظام کے تحت تیار کرتا ہے تاکہ انسان کو سبق حاصل ہو اور وہ جانے کہ خدا نے دنیا کا نظام کس ڈنگ پر بنایا اور کن قانون و اداب کی پیروی کر خدا کی اس دنیا میں کوئی شخص کامیاب ہو سکتا ہے۔

شہد کی مکھی جس طرح یہ عمل کرتی ہے اس کو ایک لفظ میں منصوبہ بند عمل کہہ سکتے ہیں. یہی اصول انسان کے لیے بھی ہے. انسان بھی صرف اس وقت کوئی بھی بامعنی کامیابی حاصل کر سکتا ہے جبکہ وہ منصوبہ بند عمل کے ذریعے اپنے مقصد تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ منظم اور منصوبہ بند عمل ہی اس دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کا واحد یقینی طریقہ ہیے۔ شہد کی مکھی کے لیے بھی اور انسان کے لیے بھی۔
(اقتباس مولانا وحید الدین کی کتاب راز حیات سے)

دنیا کا قانون گاۓ دودھ دیتی ہے ۔ہر ادمی جانتا ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو یہ سوچتے ہوں کہ کیسے دودھ دیتی ہے گاۓ دودھ جیسی چ...
22/08/2023

دنیا کا قانون
گاۓ دودھ دیتی ہے ۔ہر ادمی جانتا ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو یہ سوچتے ہوں کہ کیسے دودھ دیتی ہے گاۓ دودھ جیسی چیز دینے کے قابل صرف اس وقت بنتی ہے جبکہ وہ گاس کو دودھ میں تبدیل کر سکے گئے جب اس انوکھی صلاحیت کا ثبوت دیتی ہے کہ وہ کم تر چیز کو اعلی چیز میں تبدیل کر سکتی ہے، اس وقت یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ خدا کی دنیا میں دودھ جیسے قیمتی چیز فراہم کرنے والے بنے۔
یہی حال درخت کا ہے درخت سے ادمی کو دانہ سبزی اور پھل ملتا ہے، مگر ایسا کب ہوتا ہے یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب درخت اس صلاحیت کا ثبوت دے کہ اس کے اندر مٹی اور پانی ڈالا جائے اور اس کو وہ تبدیل کر کے دانہ، سبزی اور پھل کی صورت میں ظاہر کرے۔درخت کے اندر ایک کم تر چیز داخل ہوتی ہے اور اس کو اپنے اندرونی میکینزم کے ذریعے تبدیل کر دیتا ہے اور اس کو برتر چیز کی صورت میں باہر لاتا ہے۔
یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ زندگی بھی اسی قسم کا امتحان ہے موجود دنیا میں انسان کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کو محرومیوں سے سابقہ پڑتا ہے اس کو ناخوشگوار حالات میں پیش اتے ہیں۔ یہاں دوبارہ انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے ناموافق حالات کو موافق حالات میں تبدیل کر سکے۔ وہ اپنی ناکامیوں کے اندر سے کامیابی کا راستہ نکال لیں۔
یہی دنیا کا قانون ہے انسان کے لیے بھی اور غیر انسان کے لیے بھی۔ جو کوئی اس خاص صلاحیت کا ثبوت دے، وہی اس دنیا میں کامیاب ہے اور جو اس صلاحیت کا ثبوت دینے میں ناکام رہے، وہ خدا کی اس دنیا میں اپنے اپ کو ناکامی سے بھی نہیں بچا سکتا۔
خدا کی مخلوق گاۓ گویا خدا کی مرضی کا اعلان ہے وہ بتاتی ہے کہ اس دنیا میں خدا کو ہم سے کیا مطلوب ہے خدا کو ہم سے یہ مطلوب ہے کہ ہمارے اندر گھاس داخل ہو اور وہ دودھ بند کر باہر نکلے لوگ ہمارے ساتھ برائی کریں تب بھی ہم ان کے ساتھ بھلائی کریں۔ ہمارے ساتھ ناموافق حالات پیش ائیں تب بھی ہم ان کو موافق حالات میں تبدیل کر سکیں۔
(اقتباس مولانا وحیدالدین کی کتاب راز حیات سے)

Address

Islamabad
44000

Telephone

+923335514186

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Faiz Ullah Khattak Official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Faiz Ullah Khattak Official:

Share