Kal Tak NEws bulletin

Kal Tak NEws  bulletin Newspaper.

اسموگ: تاریخ و سیاست!اسموگ فی الحال وہ واحد موضوع ہے جس پر ابھی تک یہ سیاست نہیں ہوئی کہ اس کا ذمہ دار نواز شریف ہے یا ع...
17/11/2024

اسموگ: تاریخ و سیاست!
اسموگ فی الحال وہ واحد موضوع ہے جس پر ابھی تک یہ سیاست نہیں ہوئی کہ اس کا ذمہ دار نواز شریف ہے یا عمران خان؟ اس کی وجہ پیپلز پارٹی ہے یا پھر تحریک انصاف؟ سچ تو یہ ہے کہ ہم سب اسموگ کے ذمہ دار ہیں۔

ہم سب کے چولہے، ہماری موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں، فصلوں کی آگ کا دھواں، صنعت اور بھٹوں کا فضلہ اور خوفناک دھواں اور پھر سب سے بڑھ کر ہماری دہائیوں کی لاپرواہی اصل وجوہات ہیں۔ جن سے آہستہ آہستہ اس عفریت نے آ کر ہم سب کو دبوچ لیا ہے۔

ہندوستان کا سب سے بڑا بادشاہ مغلِ اعظم جلال الدین اکبر تھا جس کی سلطنت کی سرحدیں نیپال سے لے کر سینٹرل ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں، اس وقت دارالحکومت فتح پور سیکری تھا لیکن اکبر اپنے حرم سمیت تقریباً 16سال (1582ء تا 1598ء) لاہور میں مقیم رہا۔ فتح پور سیکری میں پانی کم اور خراب تھا، لاہور میں پانی کی فراوانی تھی اور یہ صاف اور میٹھا تھا، آب و ہوا بھی صاف تھی۔ شہر میں باغات تھے لاہور کے ارد گرد جنگل تھے۔

اکبر کا بیٹا شہزادہ سلیم جو بعد میں جہانگیر کے نام سے تخت نشین ہوا اسے شیخوپورہ کے جنگل ہی کے ہرن ’’منس راج‘‘ سے بہت پیار تھا اور آج بھی شیخو کی یہ محبت ہرن مینار کی شکل میں زندہ و پائندہ ہے گویا اس وقت لاہور کے ارد گرد جنگل تھے جن میں ہرن اور دیگر جانور پائے جاتے تھے، تاریخی اذکار میں شیروں کے شکار کا بھی ذکر ہے۔ مغل دور میں شاہی قلعہ لاہور میں حرم کی ایک رنگا رنگ تقریب کے دوران آگ لگ گئی جس کی زد میں وہاں موجود سونے کاذخیرہ بھی آگیا، سونا پگھلا تو لاہور کی گلیوں میں پانی کی نالیوں میں اس کے ذرات بہنے لگے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ لاہور کے لوگوں نے نالیوں سے سونے کے ذرات اکٹھے کر لئے گویا نکاسی کا نظام اس قدر عمدہ تھا کہ ذرات دور تک بہتے چلےگئے تھے۔

یہ سولہویں صدی کا ذکر ہے اور آج 21ویں صدی کا جدید پنجاب اور لاہور اسموگ، دھند، ماحولیاتی آلودگی اور ڈینگی کی لپیٹ میں ہے جنگل کاٹے گئے، باغ ہاؤسنگ سوسائٹیز کی نذر ہوگئے، بادامی باغ اور باغ منشی لدھا کے صرف نام باقی ہیں، یہاں تو اب بُچہ باغ بھی ختم ہو چکا۔ ہماری کوتاہیوں او ر غلطیوں کا نتیجہ کبھی نہ کبھی تو نکلنا ہی تھا اور اب سامنے آ چکا۔

برطانیہ کے شہر لندن میں بھی 1952ء میں خوفناک اسموگ کا حملہ ہوا سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں پھر 1956ء میں کلین ایئر قانون سازی کی گئی اور اب لندن میں دور دور تک سموگ کا خطرہ تک نہیں ہے، لندن جیسے شہر میں جگہ جگہ باغ اور پارکس ہیں۔ برطانیہ کی قانون سازی کے بعد امریکہ، آسٹریلیا اور دوسرےبہت سے ممالک میں بھی صاف فضا اور شفاف ماحول کے بارے میں سخت قوانین بنائے گئے اور اس سے ماحول میں بہت بہتری آئی۔ ہمیں بھی فوری طور پر اسی طرز کی قانون سازی کرکے اس پر عملدرآمد شروع کر دینا چاہیے۔

اسموگ ایک دو سال میں ٹلنے والی بلا نہیں اسے ختم کرنے میں دیر لگے گی اور بہت محنت بھی کرنا ہوگی۔ ابھی یونیورسٹی کے نوجوان مالک ابراہیم مراد نے تجویز دی ہے کہ تہران کی طرح گاڑیوں کیلئے Even اور Odd دن مقرر کئے جائیں۔ الیکٹرک گاڑیوں کیلئے خصوصی سہولتیں دی جائیں صنعتیں اور بھٹے شہر سے دور منتقل کئے جائیں اور ان سے خارج ہونیوالے دھویں کو صاف کرنے کی مشینری لگانا لازم قرار دیا جائے، درخت اور پارکس دوگنا کئے جائیں فصل کی باقیات جلانے پر سزائیں عائد کی جائیں اور کسانوں کو فصل کی باقیات کے اتلاف کے متبادل طریقے سکھائے جائیں۔

نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے دور میں اسکول بند کئے گئے، اینٹوں کے بھٹوں اور فصلوں کی باقیات کی تلفی کے حوالے سے سخت اقدامات کئے گئے، دو تین روز کیلئے گاڑیاں بھی بند کی گئیں، مصنوعی بارش تک برسائی گئی مگر بالآخر نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات والا نکلا۔ حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ ماحولیات کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے اس وقت تک کی تحقیق نہ مکمل ہے اور نہ درست۔ اگر کسی کو اسموگ کی اصل وجہ کا ہی علم نہیں تو اس کا تدارک کیا ہوگا؟تاریخ کے ورق گردانی کریں تو کئی صدیوں پہلے بھی غیر ملکی سیاحوں اور حملہ آوروں نے جو سردیوں کے اسی موسم میں اس خطے میں آئے، یہ لکھا ہے کہ ملتان سے دہلی تک دن میں بھی اندھیرا ہوتا تھا، دھند کی ایک دبیز تہہ اس وقت بھی چھائی ہوتی تھی جب کوئی POLLUTIONنہیں تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے ماہرین بلا کر پہلے مکمل تحقیق کی جائے پھر قانون سازی اور اس کےبعد موثر عملدرآمد۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز ماحول اور ثقافت کے حوالے سے اچھا خاصا شعور رکھتی ہیں، سینئر وزیر مریم اورنگ زیب نے ماحولیات کی تعلیم بیروں ملک سے حاصل کر رکھی ہے اور وہ عرصہ دراز تک ماحولیات اور جنگلی حیات سے متعلق این جی اوز میں بھی کام کرتی رہی ہیں، اب یہ ان دونوں کا امتحان ہے کہ اسموگ کے بحران کو سنہری موقع جان کر اس کا حل نکالیں، ہو سکتا ہے کہ یہی وہ کام ہو جس سے انہیں سیاست میں بڑا نام مل جائے۔

اکثر لیڈر بحرانوں میں ہی پرورش پاتے ہیں، بحران سے نکالنے والے ہمیشہ کیلئے محبوب لیڈر بن جاتے ہیں۔ ماحولیات کے حوالے سے جو بھی قوانین بنائے جائیں ان میں اپوزیشن کو بہر صورت شامل کیا جائے۔ سول سوسائٹی کے ماہرین سے مشورہ لیا جائے، قانون سازی میں سب جماعتوں کی حمایت حاصل کرکے اسے غیر متنازع بنایا جائے۔کسی بھی حکمران کے طرز حکمرانی کی اصل آزمائش بحران اور جنگ میں ہوتی ہے۔ شہباز شریف وفاق جا کر تو پتھر کی طرح جامد ہوگئے ہیں۔

’’زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق وہ بڑے فیصلے نہیں کر رہے اس لئے یہ حقیر کالم نگار ان کی خبر بھی لیتا ہے لیکن جب ڈینگی بحران آیا تو شہباز شریف نے بطورِ وزیر اعلیٰ دن رات وقف کر دیا، منہ اندھیرے اٹھ کر اجلاس بلا لیتے، ہر گھر میں ٹیم چیک کرتی پانی کی ٹونٹی تو نہیں بہہ رہی، سری لنکا سے ٹیم منگوا کر ڈینگی کو روکنے کا منصوبہ بنایا۔ اس معاملے میں وہ مرد بحران ثابت ہوئے اور انہوں نے بالآخر ڈینگی کے دانت کھٹے کردیئے۔ ان کے اقدامات اس قدر مؤثر اور دیر پا ہیں کہ اب بھی کبھی کبھار ڈینگی کی ٹیم گھر گھر چیکنگ کر رہی ہوتی ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو پاکستان واپس آتے ہی اپنی ترجیحی فہرست میں اسموگ کو شامل کرنا چاہیے، دن رات اس پر فوکس کرنا چاہیے اگر کل کو لندن کی طرح پنجاب میں بھی اسموگ سے اموات شروع ہو گئیں تو ان کا طرز حکمرانی چیلنج ہو جائے گا۔ اگرچہ انہوں نے اسموگ کے خاتمے کیلئے بہت سے اقدامات کئے ہیں لیکن یہ ناکافی ہیں اور ان اقدامات سے فی الحال سموگ میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔

صرف بیانات سے یہ خون آشام بلا ٹلنے والی نہیں ،اسے دو بدو لڑائی سے شکست دینا ہو گی۔ اگر مریم نواز اس جنگ کی سالار بن گئیں تو نہ صرف وہ اسموگ کو شکست دے دیں گی بلکہ ہوسکتا ہے ان کے سیاسی مخالفوں کو نیچا دکھانے کا یہی واحد حل ہو۔

پی ٹی آئی کے ایک اور نائب صدر عہدے سے مستعفیپی ٹی آئی کے ایک اور نائب صدر عہدے سے مستعفینائب صدر پی ٹی آئی ایسٹ عباس خان...
17/11/2024

پی ٹی آئی کے ایک اور نائب صدر عہدے سے مستعفی
پی ٹی آئی کے ایک اور نائب صدر عہدے سے مستعفی
نائب صدر پی ٹی آئی ایسٹ عباس خان نے استعفیٰ ضلعی صدر کو ارسال کر دیا۔ فوٹو فائل
پشاور: پاکستان تحریک انصاف ایسٹ کے نائب صدر عباس خان نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

نائب صدر پی ٹی آئی ایسٹ عباس خان نے استعفیٰ ضلعی صدر کو ارسال کر دیا ہے۔

انہوں نے اپنا استعفیٰ دینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ذاتی وجوہات کے باعث عہدے سے مستعفی ہوتا ہوں۔

24 نومبر احتجاج سے قبل پی ٹی آئی پشاور میں اختلافات، نائب صدر و جنرل سیکرٹری عہدے سے مستعفی

واضح رہے کہ پشاور سٹی کے سینئر نائب صدر ملک اسلم اور جنرل سیکرٹری تقدیر علی نے بھی اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے، تقدیر علی نے اپنا استعفے کا باضابطہ اعلان ویڈیو پیغام کے ذریعے کیا۔

ادھر سینئر نائب صدر ملک اسلم نے بھی ہاتھ سے لکھا اپنا استعفیٰ پارٹی قیادت کو پیش کردیا۔

ذرائع کے مطابق ڈسٹرکٹ پشاور سے مزید عہدیداروں کے استعفے آنے کا امکان ہے اور اختلافات عہدوں کے تقسیم پر سامنے آئے ہیں، مستعفی ہونے والے عہدیداروں کو منانے میں ضلعی قیادت مصروف ہے

بس وکٹ نہیں چھوڑنیاولیاء کرام کی روایات ہیں اللہ کے کرم کا نزول صبح صادق کے وقت ہوتا ہےجاوید چوہدریNovember 17, 2024face...
17/11/2024

بس وکٹ نہیں چھوڑنی
اولیاء کرام کی روایات ہیں اللہ کے کرم کا نزول صبح صادق کے وقت ہوتا ہے

جاوید چوہدری
November 17, 2024
facebook
twitter
whatsapp
mail
www facebook com javed chaudhry
www.facebook.com/javed.chaudhry
ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو سالہ تاریخ کا پہلا کھلاڑی تھا جس نے چھ گیندوں پر چھ چھکے لگائے تھے‘ گار فیلڈ سرجیری کہلاتا تھا‘ یہ 1936میں باربا ڈوس میں پیدا ہوا اور اس نے 1954سے 1974تک ورلڈ کلاس کرکٹ کھیلی‘ اسے ’’گریٹیسٹ کرکٹر آف آل ٹائمز‘‘ کا خطاب بھی مل چکا ہے۔

اس نے 31 اگست 1968 کو چھ گیندوں پر چھ چھکے مار کر ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا‘ جیری کے بعد یہ ریکارڈ مزید آٹھ کرکٹرز نے قائم کیا‘ ان میں بھارت کے کھلاڑی روی شاستری‘ جنوبی افریقہ کے ہرشل گبز‘ بھارت کے یووراج سنگھ‘ انگلینڈ کے روز وائیٹلے‘ افغانستان کے حضرت اللہ زازی‘ نیوزی لینڈ کے لیوکارٹر‘ ویسٹ انڈیز کے کیرن پولارڈ اور سری لنکا کے تھیسرا پریرا شامل ہیں۔

کرکٹ نے چار سو سالوں میں صرف یہ نو بیٹس مین پیدا کیے جنھوں نے ایک اوور میں چھ چھکے لگا کر تاریخ رقم کر دی جب کہ چھ گیندوں پر چھ وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز آسٹریلین کھلاڑی ایلڈ کیری کو حاصل ہوا‘ اس نے 21 جنوری 2017 کوگولڈن پوائنٹ کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلتے ہوئے ایک اوور میں چھ وکٹیں حاصل کیں‘ اس کی اس کام یابی پر کرکٹ میں ’’پرفیکٹ اوور‘‘ کی اصطلاح ایجاد ہوئی۔

ہم اگر چھ گیندوں پر چھ چھکے اور ایک اوور میں چھ وکٹیں حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کے پروفائلز کا مطالعہ کریں تو ہمیں ان سب میں ایک خوبی کامن ملے گی اور وہ خوبی ہے وکٹ پر موجود ہونا‘ یہ تمام کھلاڑی اگر کرکٹر نہ ہوتے‘ گراؤنڈ میں نہ ہوتے اور وکٹ پر موجود نہ ہوتے تو یہ کبھی یہ اعزاز حاصل نہیں کر سکتے تھے۔

آپ فرض کریں دنیا کے ایک اوور میں چھ چھکے لگانے والے پہلے کھلاڑی سرجیری بے احتیاطی سے کھیلتے ہوئے آؤٹ ہو جاتے یا جب انھیں کھیلنے کے لیے میدان میں بھجوایاجا رہا تھا تو یہ انکار کر دیتے یا یہ کپتان کے ساتھ لڑ پڑتے یا یہ اس دن بیمار پڑ جاتے یا 90 فیصد لوگوں کی طرح نخرے شروع کر دیتے تو کیا ہوتا؟

کیا دنیا انھیں ’’گریٹیسٹ کرکٹر آف آل ٹائم‘‘ کا ٹائٹل دیتی اور کیا یہ اسپورٹس کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہتے؟ شاید کبھی نہیں‘ دنیا بھر کے ریکارڈ ہولڈرز اور کام یاب لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ لوگ صحیح وقت پر صحیح جگہ ہوتے ہیں اور یہ ان کی بڑی خوبی ہوتی ہے‘ پنجابی زبان کا محاورا ہے ’’جاگنے والوں کی بھینس ہمیشہ کٹی دیتی ہے‘‘

اولیاء کرام کی روایات ہیں اللہ کے کرم کا نزول صبح صادق کے وقت ہوتا ہے جو اس وقت جاگ رہا ہوتا ہے وہ منزل پا جاتا ہے‘ اسی طرح بادشاہوں کی روایت تھی جب کسی بادشاہ کے بچنے کی امید نہیں رہتی تھی تو تمام شہزادے ہر وقت بادشاہ کے سرہانے بیٹھے رہتے تھے‘ بادشاہ ان میں سے کسی ایک کو اگلا بادشاہ منتخب کر دیتا تھا جب کہ اس رائیٹ ٹائم پر رائیٹ جگہ نہ ہونے والے شہزادے محروم رہ جاتے اور وہ بعدازاں نئے بادشاہ کے ہاتھوں مارے جاتے تھے یا پھر انھیں اشوک اعظم یا اورنگزیب عالمگیر کی طرح اپنے بھائیوں سے جنگ لڑنا پڑتی تھی اور انھیں قتل کرنا پڑتا تھا۔

ولایت کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے جب کوئی ولی یہ نعمت کسی کو سونپنا چاہتا ہے تو وہ دائیں بائیں دیکھتا ہے اور اسے اس وقت جو بھی نظر آجاتا ہے وہ اسے ولایت سونپ کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے یعنی رائیٹ ٹائم پر ایٹ رائیٹ پلیس‘ صحیح وقت پر صحیح جگہ اور آپ کو وہ مقام مل گیاجس کے لیے لاکھوں کروڑوں لوگ دہائیوں تک کوشش کرتے رہتے ہیں۔

میں 2001 میں ’’سیلف ہیلپ‘‘ کے بزنس میں آیا اور 2010 میں ’’میڈیم بزنس مینوں‘‘ کو اپنی ڈومین بنا لیا‘ اس کی دو وجوہات تھیں‘ بڑے بزنس مینوں کے پاس مشورے کے لیے پوری دنیا کھلی پڑی ہے‘ یہ یورپ اور امریکا سے ایکسپرٹس بلا کر اپنے منیجرز کو ٹرینڈ کرا لیتے ہیں‘دوسری طرف چھوٹے بزنس مینوں کے پاس اسٹرکچر ہوتا ہے اور نہ ہی اسٹاف لہٰذا انھیں ٹریننگ اور مشورے دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی جب کہ میڈیم بزنس مین بری طرح پھنس جاتے ہیں‘ ان کے پاس فارن کنسلٹنٹس کے لیے سرمایہ اور جرأت نہیں ہوتی چناں چہ یہ ایک لیول کے بعد پھنس جاتے ہیں۔

پاکستان ایسے بزنس مینوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے‘ ہم نے اسے فوکس کر لیااور ہر ماہ مری اور ملک کے بڑے شہروں میں بزنس سیشن کرنے لگے‘ میں اب تک ان سیشنز کی وجہ سے ہزاروں بزنس مینوں اور ان کے خاندانوں سے مل چکا ہوں‘ ہمارے بے شمار مستقل کلائنٹس بھی ہیں‘ اسی طرح ہفتے میں پانچ دن پرسنل سیشنز بھی چلتے رہتے ہیں۔

ہم نے ان سیشنز میں محسوس کیا ہم میں سے زیادہ تر لوگ جلد بازی کا شکار ہیں‘ ہم زور لگاتے ہیں لیکن جب رزلٹ نہیں آتا تو ہم مایوس ہو کر فیلڈ چھوڑ دیتے ہیں‘یہ غلطی ہماری تباہی کی اصل بنیاد ہے۔

میں اپنے سیشن فیلوز کو صرف ایک مشورہ دیتا ہوں ’’آپ بس وکٹ پر کھڑے رہیں‘ ورلڈ ریکارڈ خود چل کر آپ کے پاس آئے گا‘‘ اور آپ یقین کریں میری سیلف ہیلپ کی زندگی میں آج تک ایک بھی ایسا شخص نہیں گزرا جس نے یہ مشورہ مانا ہو اور اسے فائدہ نہ ہوا ہو اور اس نے آ کر میرا شکریہ ادا نہ کیا ہو۔

ہمارے پاس ناکامی کے خوف میں مبتلا اسٹوڈنٹس آتے ہیں‘ ہم انھیں صرف دو مشورے دیتے ہیں‘ آپ نے پڑھائی نہیں چھوڑنی خواہ آپ پوری زندگی بیک بینچ پر بیٹھتے رہیں ‘ آپ روز اسکول‘ کالج یا یونیورسٹی جائیں گے اور آپ فیل ہونے کے بعد دوبارہ امتحان دیں گے‘آپ زیاہ سے زیادہ فیل ہو جائیں گے‘ فیل ہونے کے خوف سے پیپرزنہیں چھوڑنے چاہییں‘ آپ یقین کریں صرف ان دو مشوروں پر عمل کرنے سے بے شمار اسٹوڈنٹس کی زندگیاں بدل گئیں‘ ان کے دل سے ناکامی کا خوف ختم ہو گیا۔

دنیا میں ناکامی اور کام یابی کے درمیان صرف خوف کی دیوار ہوتی ہے‘ آپ جس دن یہ گرا دیتے ہیں اس دن کام یابی کا تاج آپ کے سامنے پڑا ہوتا ہے‘ ہمارے پاس ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی ایسا بزنس مین آتا ہے جو اپنی دکان یا فیکٹری کو تالہ لگانے کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے‘ میں اس سے عرض کرتا ہوں وکٹ نہ چھوڑیں بس کریز پر کھڑے رہیں‘ کام یابی آپ سے زیادہ دور نہیں ہے‘ چند دن رک جاؤ اللہ ضرور کرم کرے گا۔

ان میں سے جو یہ مشورہ نہیں مانتے ‘ ان کا نقصان بڑھتا چلا جاتا ہے اور جو مان لیتے ہیں وہ سرجیری کی طرح چھ گیندوں پر چھ چھکے لگا دیتے ہیں بالکل اسی طرح جو لوگ تعلق توڑنا چاہتے ہیں‘ بیویوں یا خاوندوں کو چھوڑنا چاہتے ہیں‘ بچوں اور والدین سے کنارہ کرنا چاہتے ہیں یا بہن بھائیوں اور دوستوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں میں انھیں بھی مشورہ دیتا ہوں آپ وکٹ نہ چھوڑیں۔

عین ممکن ہے آپ کی کام یابی کی ٹرافی اسی شخص کے ہاتھ میں ہو اور اگر یہ چلا گیا تو آپ کی ٹرافی چلی جائے چناں چہ وکٹ پر ڈٹے رہیں‘ آپ کو عن قریب وہ مل جائے گا جس کی تلاش میں آپ پوری زندگی مارے مارے پھرتے رہے۔

میرے پاس ایک صاحب تشریف لائے‘ وہ بہت کام یاب بزنس مین تھے اور اپنے والد کا بے انتہا احترام کرتے تھے‘ دنیا میں جہاں بھی جاتے تھے والد کو ساتھ لے کر جاتے تھے‘ والد زیادہ بوڑھے ہو گئے تو یہ ان کے دو ذاتی ملازموں کو بھی ساتھ لے جاتے تھے۔

انھوں نے والد کے لیے لگژری وین امپورٹ کی تھی‘ اس وین میں چار بزنس کلاس سیٹیں لگی تھیں‘ وہ والد کے ساتھ اس وین میں سفر کرتے تھے‘ میرے پاس بھی آتے تھے‘ میں نے ان سے والد سے اس عقیدت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا ہماری والدہ بہت سخت مزاج اور ان پڑھ تھیں‘والد پوری زندگی والدہ کے ہاتھوں تنگ رہے لیکن انھوں نے صرف میری خاطر والدہ کو برداشت کیا۔

یہ کسی بھی وقت یہ رشتہ توڑ کر نئی شادی کر سکتے تھے مگر یہ میرے لیے وکٹ پر کھڑے رہے یہاں تک کہ والدہ کا انتقال ہو گیا لیکن اس کے باوجود انھوں نے میری وجہ سے دوسری شادی نہیں کی‘ میرے والد نے تیس سال میرا ہاتھ نہیں چھوڑا اوراب میں ان کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا ہوں‘ میں ان کا ہاتھ نہیں چھوڑوں گا۔

اسی طرح پاکستان کی ایک بڑی انشورنس کمپنی کے چیئرمین نے مجھے اپنا واقعہ سنایا‘ ان کے بقول ’’میں ایک بار بزنس میں بری طرح پھنس گیا اور میں نے بزنس بند کر کے ملک سے باہر جانے کا فیصلہ کر لیا‘ میں بزنس بند کرنے کے لیے لاہور سے کراچی جا رہا تھا‘ جہاز میں میرے ساتھ ایک بزرگ بیٹھے تھے‘ وہ خاموشی سے اخبار پڑھ رہے تھے‘ میں بے چینی سے بار بار سیٹ پر کروٹیں بدل رہا تھا‘ بزرگ نے اخبار تہہ کیا اور میری طرف دیکھ کر پوچھا ’’بیٹا آپ مجھے پریشان دکھائی دے رہے ہیں خیریت ہے؟‘‘

میں اندر سے بھرا پڑا تھا‘ میں نے اپنی ساری پریشانی ان کے سامنے اگل دی‘ وہ سنتے رہے‘ میں جب اپنی سنا چکا تو انھوں نے مسکرا کر کہا‘ بیٹا یہ بات پلے باندھ لو بزنس مین کبھی نقصان میں نہیں رہتا‘ ہمارا نقصان بھی سرمایہ کاری ہوتا ہے‘ یہ ہمیں کئی گنا ہو کر واپس ملتا ہے بس دکان کھلی رکھو‘ گاہک بھی آئے گا اور فائدہ بھی ضرور ہو گا‘‘

مجھے ان کی بات اچھی لگی‘ میں نے ان سے ان کا نام پوچھا تو انھوں نے بتایا ’’میرا نام یوسف شیرازی ہے‘ میں ہونڈا اٹلس کا مالک ہوں‘ مجھ پر بھی ایسے درجنوں وقت آئے تھے لیکن میں نے وکٹ نہیں چھوڑی لہٰذا آج ملک کے تمام کام یاب اور بااثر لوگ میری گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں چناں چہ وکٹ نہیں چھوڑنی خواہ کچھ بھی ہو جائے‘‘

اسلام آباد: تھانہ مارگلہ کی حدود میں چینی باشندے کی گاڑی کو حادثہ پیش آنے سے نوجوان جاں بحق ہوگیا۔تفصیلات کے مطابق چین...
19/08/2024

اسلام آباد: تھانہ مارگلہ کی حدود میں چینی باشندے کی گاڑی کو حادثہ پیش آنے سے نوجوان جاں بحق ہوگیا۔

تفصیلات کے مطابق چینی شہری کی گاڑی ٹائر برسٹ ہونے کے باعث نوجوان پر چڑھ دوڑی جس کے زد میں آکر نوجوان جاں بحق جبکہ چینی شہری زخمی ہوگیا۔

حادثہ نیو بلیو ایریا جناح ایونیو ایف نائن پارک مہران گیٹ کے سامنے سڑک پر پیش آیا۔

جاں بحق ہونے والے نوجوان کی شناخت ولی اللہ کے نام سے ہوئی۔ ولی اللہ والد بخت منیر سکنہ اَپر دیر خیبر پختونخوا کا رہائشی ہے جس کی عمر تقریباً 22/23 سال ہے۔

بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کی بھارت کو مداخلت نہ کرنے وارننگڈھاکا: بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی نے بھارت کو بنگلادیش کے معاملات ...
19/08/2024

بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کی بھارت کو مداخلت نہ کرنے وارننگ
ڈھاکا: بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی نے بھارت کو بنگلادیش کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی وارننگ دے دی۔

بنگالی میڈیا کے مطابق بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی اور طلبہ تحریک کے رہنماؤں نے بی جے پی کو بنگلا دیش میں مداخلت نہ کرنے کی وارننگ جاری کی۔ بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور بنگلا دیش میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنا چاہتا ہے۔ بی جے پی بنگلہ دیشی سیاست میں بڑے پیمانے پر مداخلت کر رہی ہے جس پہ خطے میں تشویش کی لہر ہے۔ مودی سرکار اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے خطے کاامن تباہ کرنا چاہتی ہے۔

شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش میں بھارتی کٹھ پتلی وزیرِاعظم کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں۔ بنگلا دیش کو سیاسی بحران کے بعد اس وقت بھارت کی طرف سے مداخلت کا سامنا ہے۔آخر کب تک مودی سرکار انتہا پسندی کی سیاست کو فروغ دیتی رہے گی؟

خیبرپختونخوا میں بجلی کی قیمت کم نہ کی گئی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے: ایمل ولیصدر عوامی نیشنل پارٹی ایمل ولی خان کا کہ...
19/08/2024

خیبرپختونخوا میں بجلی کی قیمت کم نہ کی گئی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے: ایمل ولی
صدر عوامی نیشنل پارٹی ایمل ولی خان کا کہنا ہے کہ سستی بجلی خیبر پختونخوا پیدا کر رہا ہے لیکن 14 روپے فی یونٹ ریلیف پنجاب میں دیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پختونخوا میں بجلی کے نرخوں میں کمی نہ کی گئی تو ہم ایک ماہ بعد اسلام آباد کا رخ کریں گے اور دھرنا دیں گے۔

ایمل ولی نے کہا کہ جس صوبے میں آئی پی پیز کی بھرمار ہے وہاں ووٹ بینک کی خاطر بلوں میں کمی کی جارہی ہے، خیبرپختونخوا میں آئی پی پیز سے ایک میگا واٹ بجلی بھی پیدا نہیں ہو رہی تو یہاں عوام ان کا بوجھ کیوں برداشت کریں؟

انہوں نے کہا کہ پیداواری لاگت کے حساب سے پختونخوا میں بجلی کے نرخوں کا تعین صوبے کا حق ہے، بجلی اور گیس کی مد میں پختونخوا کے بقایاجات کی ادائیگی کیلئے وفاقی حکومت ہنگامی اقدامات کرے۔

نواز کا پنجاب حکومت کیجانب سے 500 یونٹ تک بجلی استعمال والوں کیلئے فی یونٹ 14 روپے کمی کا اعلان

واضح رہے کہ تین روز قبل مسلم لیگ نون کے صدر نواز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبے میں 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو 2 ماہ کیلئے 14 روپے فی یونٹ تک ریلیف دینے کا اعلان کیا تھا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے بھی وزیراعلیٰ پنجاب کے بجلی کی قیمتوں میں ریلیف کے اقدامات کو سراہا تھا جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کا کہنا تھا نواز شریف کو عوام کے درد کا احساس ہے اور وہ ہمیشہ عوام کی فلاح کیلئے کام کرتے ہیں۔

بانی پی ٹی آئی اور فیض حمید کا گٹھ جوڑ، مشرقی بارڈر کے پار پاکستان مخالف جذبات رکھنے والے صحافیوں سے پی ٹی آئی کے روابط ...
19/08/2024

بانی پی ٹی آئی اور فیض حمید کا گٹھ جوڑ، مشرقی بارڈر کے پار پاکستان مخالف جذبات رکھنے والے صحافیوں سے پی ٹی آئی کے روابط اور مغربی بارڈر کے ذریعہ فتنہ الخوارج کو واپس لانے کے فیصلے ملک دشمنی کی بدترین مثال ہیں، عطاءاللہ تارڑ
اے پی پی۔ 18 اگست2024ء) وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاءاللہ تارڑ نے بانی پی ٹی آئی اور فیض حمید کے گٹھ جوڑ کے معاملات، مشرقی بارڈر کے پار پاکستان مخالف جذبات رکھنے والے صحافیوں سے پی ٹی آئی کے روابط اور مغربی بارڈر کے ذریعے فتنہ الخوارج کو واپس لانے کے فیصلے کو ملک دشمنی کی بدترین مثال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی رہنما ر رئوف حسن کے بھارتی صحافی کے ساتھ اشتعال انگیز اور خوفناک پیغامات پر مبنی روابط سے پی ٹی آئی کا ملک دشمنی پر مبنی ایجنڈا ایک بار پھر بے نقاب ہو چکا ہے۔
اتوار کو پی ٹی آئی رہنما کے غیر ملکی دشمنوں سے روابط پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ملک دشمن ایجنڈے پر کاربند فارن فنڈڈ جماعت نے پہلے سائفر کے ذریعے ملک کی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچایا اور اب ملک کی سالمیت اور بقاءکو نقصان پہنچانے کے لئے اپنے غیر ملکی آقائوں کا سہارا لے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ بھارتی صحافی پاکستان مخالف جذبات رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رئوف حسن نے بھارتی صحافی کے ساتھ تحریک انصاف کی سوچ کی ترجمانی کی جو پاکستان کی سالمیت اور بقاءکے خلاف سازشوں کو فروغ دے رہے ہیں، اب سمجھ آ رہی ہے کہ 9 مئی کے حملے کیوں کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں سوشل میڈیا سیل ملک دشمنوں سے روابط کا بڑا ذریعہ تھا، اس سیل کے ذریعے پاک فوج اور سپہ سالار کے خلاف بھی مہم چلائی جا رہی تھی جس کے تانے بانے آج بھارت کے ساتھ مل رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں خونی انقلاب کی باتیں کرنے کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی بھارت کا سپانسرڈ ایجنڈا لے کر چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو بھارتیوں نے بیرون ملک سے فارن فنڈنگ کی، جو تحقیقات میں سامنے آ چکی ہیں، اب بھارتی صحافی سے پی ٹی آئی رہنما کے رابطے ثابت کرتے ہیں کہ وہ ملک دشمن قوتوں کے کہنے پر پاکستان مخالف مہم چلا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ فارن فنڈڈ ٹولے نے ملک دشمنی کی ہر حد عبور کرلی ہے، کوئی شک نہیں رہا کہ ان کا اصل ہدف پاکستان کے قومی مفادات اور فوج کو نقصان پہنچانا تھا۔ یہ لوگ پاکستان میں بیٹھ کر بھارتی ایجنڈا پورا کر رہے ہیں، پاکستان پر وار کرنے والے دہشت گردوں کو بھی اسی لئے واپس لائے تاکہ بھارتی ایجنڈا پورا ہو سکے۔ عطاءاللہ تارڑ نے کہا کہ فیض حمید بھی بانی پی ٹی آئی کا اہم مہرہ بنا رہا اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے پی ٹی آئی کا سیاسی مہرا ثابت ہوا، قوم کو یہ اصلیت بھی معلوم ہو گئی کہ مرشد کا موکل فیض تھا، ”فیض“ مرشد کا نہیں بلکہ ”فیض حمید“ کا تھا۔
انہوں نے کہا کہ فیض نیازی گٹھ جوڑ کے تانے بانے نیازی کے گھر بشریٰ سے بھی ملتے ہیں جو اِس گٹھ جوڑ میں ایک مرکزی کردار تھی۔ انہوں نے کہا کہ فیض، نیازی اور بشریٰ گٹھ جوڑ نے اپنے اپنے مذموم مقاصد کے لئے ملک کو نقصان پہنچایا، فیض نیازی گٹھ جوڑ نے پاک فوج مخالف بیانیے بھی ملکر چلائے تاکہ ریٹائرڈ اور سرونگ آفیسرز کو بھڑکایا جا سکے اور لیڈرشپ کے خلاف اکسایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فیض نیازی گٹھ جوڑ نے یہ تاثر بھی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ پاک فوج میں کسی قسم کی کنفیوژن یا تقسیم ہے۔

وئی ہم پر اعتبار نہیں کر رہا، معیشت کے ساتھ ملک بھی تباہ کردیا، مولانا فضل الرحمانحکمرانو تم بھی سن لو، اسٹیبلشمنٹ بھی س...
19/08/2024

وئی ہم پر اعتبار نہیں کر رہا، معیشت کے ساتھ ملک بھی تباہ کردیا، مولانا فضل الرحمان
حکمرانو تم بھی سن لو، اسٹیبلشمنٹ بھی سن لے، بیوروکریسی بھی سن لے کہ قوم تمہارے کردار سے مطمئن نہیں، وسائل پر عوام کے حقوق دینے ہوں گے۔ لکی مروت میں جلسہ عام سے خطاب
لکی مروت ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 18 اگست 2024ء ) جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ حکمرانو تم بھی سن لو، اسٹیبلشمنٹ بھی سن لے، بیوروکریسی بھی سن لے کہ قوم تمہارے کردار سے مطمئن نہیں۔ تفصیلات کے مطابق لکی مروت میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اپنے وسائل پر قبضہ کسی صورت قبول نہیں کریں گے، ہم نے اسکولوں اور کالجوں کا تحفظ کیا تھا لیکن یہ مدرسوں کا تحفظ نہیں کرسکتے، ہم اپنے بچوں کے وسائل پر کسی کو قابض ہونے نہیں دیں گے، میرے حقوق پر کسی کو قابض ہونے کی اجازت نہیں، آج عالمی قوتیں میرے ملک کی مذہبی شناخت ختم کرنا چاہتی ہیں، مدارس پر چڑھائی کیوں کی جاتی ہے، مدارس کی رجسٹریشن ترک کی ہوئی ہے اور کہہ رہے ہیں کہ وہاں سے دہشت گردی ہو رہی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ آج چین اور سعودی عرب جیسا دوست ہم پر اعتبار نہیں کر رہا ہے، یہ بداعتمادی کیوں پیدا ہوئی، ہندوستان کے قومی ذخائر آج 500 ارب ڈالر ہیں اور ہمارے پاس 10 ارب بھی نہیں ہیں، آج ہندوستان کیوں ترقی کر رہا ہے؟، کیا کسی نے سوچا ہے آج افغانستان کی کرنسی ہم سے بہتر کیوں ہے؟ آج ہم اپنا ملک بچا رہے ہیں، افغانستان آج ویران ہے مگر اس کے باوجود ہم سے آگے ہیں، آج لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہے، میری معیشت بھی تباہ کر دی اور ملک کو بھی تباہ کردیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں تمام اقلیتیں محفوظ ہیں، جمعیت علمائے اسلام ان کی محافظ ہے، ہم نے اسکولوں اور کالجوں کو تحفظ دیا تھا، یہ لوگ مدرسوں کی حفاظت کیوں نہیں کر سکتے، ہم ان مدرسوں کی حفاظت کریں گے، تم مر جاؤ گے مگر ان دینی مدارس کو ختم نہیں کر سکتے، ہم نے ملک میں تحریکیں چلائی ہیں، آئین میں ترامیم کی ہیں، ہم بلوچ کے وسائل کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم پختونوں کے وسائل کی ساتھ بھی کھڑے ہیں، میں قرارداد پیش کرتا ہوں کہ ہم امن چاہتے ہیں اور زبردستی چاہتے ہیں، ہم اپنی زمین کے وسائل کا حق چاہتے ہیں، وسائل پر عوام کے حقوق دینے ہوں گے۔

رغی کے گوشت کی قیمت کو پر لگ گئےملک میں چکن کی قیمت 800 روپے فی کلو تک پہنچ گئیملک بھر میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ،سبزی...
19/08/2024

رغی کے گوشت کی قیمت کو پر لگ گئے
ملک میں چکن کی قیمت 800 روپے فی کلو تک پہنچ گئی
ملک بھر میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ،سبزیوں اور پھلوں سمیت برائلر مرغی کے ریٹ کم نہ ہوسکے۔ تفصیلات کے مطابق مہنگائی کے باعث ہر شخص پریشان ہے، اس دوران مرغی کے گوشت سمیت سبزیوں کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، کراچی میں بڑھتی مرغی کے گوشت کی قیمتوں کو روکنے والا کوئی نہیں، شہر قائد میں صرف ایک ہفتے میں 150 روپے اضافے سے قیمت 800 روپے فی کلو تک پہنچ گئی جہاں کمشنر کراچی کی ریٹ لسٹ پر مرغی کے گوشت کی قیمت 620 روپے درج ہے، تاہم دکانداروں کا کہنا ہے کہ کمشنرکراچی کی ریٹ لسٹ پر گوشت بیچنا ممکن نہیں، فارمرز کی جانب سے قیمت میں اضافہ کیا جارہا ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ لاہور میں پرچون سطح پر فی کلو برائلر گوشت کی قیمت2روپے اضافے سے593روپے، زندہ برائلر مرغی کی قیمت1روپے اضافے سے409روپے فی کلو جب کہ فارمی انڈوں کی قیمت2روپے اضافے سسے295روپے فی درجن کی سطح پر پہنچ چکی ہے، اسلام آباد میں برائلر گوشت کا ریٹ 650 روپے کلو ہو گیا ہے فارمی انڈے کے نرخ 295 روپے فی درجن مقرر ہے۔

علاوہ ازیں وفاقی دارلحکومت سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں سبزیوں اور پھلوں سمیت اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے،ٹماٹر،الو،پیاز سمیت دیگر سبزیوں کے نرخ بڑھا دئیے گئے ہیں، مارکیٹ کی جانب سے جاری ہونے والے نرخ نامے پر منڈی کے اندر بھی عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے اور موقع پر موجود مجسٹریٹ کی جانب سے جرمانوں کے باوجود مقررہ نرخوں پر اشیاء دستیاب نہیں ہوتی ہیں ۔

اسلام آباد کی مارکیٹ کمیٹی کی رپورٹ میں پیاز کا سرکاری نرخ 130 روپے فی کلو مقرر ہے جب کہ مارکیٹ میں پیاز 150 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے، ٹماٹر کا سرکاری نرخ 125 روپے فی کلو،مارکیٹ میں ٹماٹر 150 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے، آلو کا سرکاری نرخ دو روپے اضافے سے 90 روپے فی کلو ہے، مارکیٹ میں آلو 110 روپے کلو تک بیچا جارہا ہے ، لہسن 415 روپے فی کلو کی بجائے 600 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے، ادرک 615 روپے کی بجائے 800 روپے فی کلو بیچا جا رہا ہے، بند گوبھی کا سرکاری نرخ 190 روپے فی کلو ہے مارکیٹ میں بند گوبھی کی قیمت 250 روپے کلو ہے، پھول گوبھی 160 کی بجائے 200 روپے فی کلو ہے۔

صارفین کو 14 روپے فی یونٹ ریلیف کیلئے بجلی کمپنیوں کو خطوط ارسالٹارگٹڈ ریلیف کا اطلاق ماہانہ 201 سے 500 یونٹ بجلی استعما...
19/08/2024

صارفین کو 14 روپے فی یونٹ ریلیف کیلئے بجلی کمپنیوں کو خطوط ارسال
ٹارگٹڈ ریلیف کا اطلاق ماہانہ 201 سے 500 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین پر 2 ماہ کے لیے ہوگا
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 18 اگست 2024ء ) پنجاب اور اسلام آباد کے صارفین کو 14 روپے فی یونٹ ریلیف کےلئے بجلی کمپنیوں کو باضابطہ خطوط بجھوا دیئے گئے۔تفصیلات کے مطابق وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر 5 بجلی کمپنیوں کو خطوط بھجوائے گئے، سیکرٹری توانائی پنجاب ڈاکٹر نعیم رؤف نے اسلام آباد، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان کی ڈسکوز کو خطوط بھجوائے۔
پنجاب حکومت کے خط میں کہا گیا کہ 14 روپے فی یونٹ کمی کے حکومتی پیکج کی رقم سے آگاہ کیا جائے، آئیسکو، میپکو, گیپکو، فیسکو ، لیسکو 201 سے 500 یونٹ استعمال کرنے والے شہریوں کے بجلی بلوں میں کمی کریں گی، بجلی کی اصل لاگت اور ریلیف کے درمیان رقم پنجاب حکومت ادا کرے گی، بجلی کمپنیوں کی جانب سے تقاضے پر پنجاب حکومت مطلوبہ رقم ڈسکوز کو منتقل کر دے گی۔
بتایا جارہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے وزیراعلی مریم نواز شریف کے ہمراہ 16 اگست کو 14 روپے فی یونٹ بجلی میں کمی کا اعلان کیا تھا، پنجاب اور اسلام آباد کے عوام کو ریلیف دینے کے لیے پنجاب حکومت 45 ارب روپے اپنے وسائل سے فراہم کرے گی، ریلیف پیکج کے تحت اگست اور ستمبر کے دو ماہ میں 201 سے 500 یونٹ استعمال کرنے والوں کےلئے بجلی کی قیمت کم کی گئی ہے ذرائع نے بتایا ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت نے 5 ڈسکوز سے 19 اگست تک فی یونٹ پر 14 روپے ریلیف کے لیے درکار مالی ضروریات کا تخمینہ مانگا ہے، فی یونٹ 14 روپے ٹارگٹڈ ریلیف کا اطلاق ماہانہ 201 سے 500 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین پر ہوگا تاہم ماہانہ 200 سو یونٹ والوں کو ریلیف نہیں ملے گا، بجلی کے ٹیرف میں ریلیف کا اطلاق اگست اور ستمبر 2024 کے بلوں میں ہوگا، ٹیکسز و ڈیوٹیز کے ساتھ حکومت پنجاب بجلی کے فی یونٹ پر 14 روپے ریلیف دے گی

سکھر ملتان موٹروے پر گھوٹکی کے قریب حادثے میں 8 افراد جاں بحق، 4 زخمیسکھر ملتان موٹروے پر گھوٹکی میں ڈرنگ ملوک والی کے ق...
19/08/2024

سکھر ملتان موٹروے پر گھوٹکی کے قریب حادثے میں 8 افراد جاں بحق، 4 زخمی
سکھر ملتان موٹروے پر گھوٹکی میں ڈرنگ ملوک والی کے قریب مسافر بس، ٹریلر سے ٹکرا گئی، حادثے میں 8 افراد جاں بحق اور 4 زخمی ہو گئے۔

موٹروے پولیس کے مطابق جاں بحق افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جبکہ حادثے میں تمام زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔

موٹروے پولیس کا کہنا تھا کہ لاشوں اور زخمیوں کو تحصیل اسپتال گھوٹکی منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ مسافر بس کے ملبے اور ٹریلر کو ریسٹ ایریا منتقل کیا جا رہا ہے۔

انجمن متاثرینِ فیض16جون 2019ء کو اتوار کا دن تھا۔ چھٹی کے دن سرکاری دفاتر بند ہوتے ہیں۔ صرف کسی ایمرجنسی کی صورت میں کوئ...
19/08/2024

انجمن متاثرینِ فیض
16جون 2019ء کو اتوار کا دن تھا۔ چھٹی کے دن سرکاری دفاتر بند ہوتے ہیں۔ صرف کسی ایمرجنسی کی صورت میں کوئی سرکاری ادارہ حرکت میں آتا ہے۔ اس دن بھی کوئی ایسی ہی ایمرجنسی تھی۔ اتوار کے دن آئی ایس پی آر نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں بتایا گیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو ہٹا کر ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ادارے کا نیا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔

عاصم منیر صاحب نے اس عہدے پر صرف آٹھ ماہ کام کیا تھا اس لئے ان کے اچانک ٹرانسفر نے بہت سے سوالات پیدا کردیئے تھے۔ ایک خبر تو یہ تھی کہ عاصم منیر نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بارے میں خبر دار کیا تھا کہ ان کے ارد گرد موجود لوگ وزیر اعظم کے نام پر کرپشن کر رہے ہیں لیکن سفارتی حلقوں کا خیال تھا کہ اتوار کے دن آئی ایس آئی کے سربراہ کی تبدیلی کا تعلق پاک بھارت تعلقات سے ہے۔ مئی 2019ء میں بھارت کے عام انتخابات منعقد ہوئے تھے جن میں نریندر مودی دوبارہ وزیر اعظم بن چکے تھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مودی کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول کے ساتھ 2017ء میں ایک بیک چینل کھولا تھا جس میں اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تائید شامل تھی۔

باجوہ اس چینل کو دوبارہ متحرک کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے خیال میں عاصم منیر اس کام کیلئے مناسب نہیں تھے لہٰذا انہوں نے کسی نہ کسی طریقے سے عمران خان کے ذریعہ اتوار کے دن عاصم منیر کو ہٹا کر فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنوا دیا۔ فیض حمید کا آئی ایس آئی کا سربراہ بننا میرےلئے تشویش کا باعث تھا۔2017ء میں جب وہ ڈی جی سی تھے توانہوں نے کرنل لیاقت کے ذریعہ ملاقات کیلئے بلایا۔ یہ وہ دن تھے جب فیض آباد معاہدے کی دستاویز پر ان کے دستخطوں پر تنازع کھڑا ہو چکا تھا۔ مجھے خدشہ تھا کہ موصوف کوئی روک ٹوک لگائیں گے لہٰذا ملاقات سے معذرت کرلی۔ کچھ دیگر ذرائع سے ان کی ناراضی مجھ تک پہنچتی رہی۔ایک دن کسی ڈنر میں انہوں نے میرے ساتھ اتفاقیہ ملاقات کا بندوبست کیا اور مسکرا کر کہا کہ آپ اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ جاری رکھیں لیکن ہمارے ساتھ دوستی میں حرج نہیں۔ اس جملے نے مجھے مزید محتاط کردیا۔

میں کسی شوق یا فیشن کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید نہیں کرتا بلکہ کچھ وجوہات کے باعث تنقید کرتا ہوں۔ چند ہی دن گزرے تھے کہ میں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں آصف علی زرداری کا انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویو نشر ہونا شروع ہوا تھا کہ دبائو ڈال کر بند کرا دیا گیا۔ بی بی سی اور الجزیرہ سمیت کئی غیر ملکی ذرائع ابلاغ مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ کیا ہوا ہے؟ وفاقی وزارتِ اطلاعات اور پیمرا نے کہہ دیا کہ انہیں کچھ معلوم نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے بھی اعلانِ لاتعلقی کر دیا۔ پتہ چلا یہ کام فیض حمید صاحب کا ہے اور وہ تردید کرنے کی بجائے کہتے کہ جو بھی ہوا وزیراعظم عمران خان کے حکم سے ہوا۔

ڈی جی آئی ایس آئی بننے کےبعد فیض حمید نے پاکستانی میڈیا کو مارشل لا ادوار کی یاد دلا دی۔ بظاہر وہ سب کچھ عمران خان کیلئے کر رہے ہوتے تھے لیکن حقیقت میں باجوہ اور فیض اپنے ایجنڈے کے تحت میڈیا کے ذریعے عمران خان سے اپنی مرضی کےفیصلے کرانے کی کوشش کرتے۔ جنرل فیض کے ڈی جی آئی ایس آئی بننے کے فوراً بعد 5 اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ اس واقعے کے بعد عمران خان نے بھارت کی شدید مذمت شروع کردی اور باجوہ نے فیض کے ذریعے اجیت ڈوول کے ساتھ میل ملاقاتیں شروع کر دیں۔

پاکستان میں موجود سید علی گیلانی کے ایک نمائندے کو ان میل ملاقاتوں کی خبر ہوگئی۔ اس نے سوالات اٹھانے شروع کئے تو اس کے ساتھ غنڈہ گردی کی گئی۔ سینئر قانون دان اکرم شیخ ایک کتاب لکھ رہے تھے جس میں جنرل ظہیر اور جنرل فیض کا بھی ذکر تھا۔ ان کے گھر ڈکیتی کرائی گئی اور ڈاکو ان کی کتاب کا مسودہ لے گئے۔ بعد میں جنرل باجوہ نے شیخ صاحب سے معذرت کی۔ جولائی 2020ء میں صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا۔ اپریل 2021ء میں ابصار عالم پر گولی چلائی گئی۔ مئی 2021ء میں صحافی اسد طور کے گھر میں گھس کر ان پر تشدد کیا گیا۔ ان سب نے آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسد طور پر حملے کے بعد میں نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر ایک سخت تقریر کردی تو مجھ پر پابندی لگوا دی گئی۔

پابندی کے بعد میں نے واشنگٹن پوسٹ اور ڈی ڈبلیو اردو میں کالم لکھنا شروع کیا تو فیض حمید نے تین مختلف ذرائع سے پیغامات بھیجے کہ اسد طور پر حملے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ میں نے جواب بھیجا کہ آپ ملزمان کو پکڑ لیں کیونکہ وہ سی سی ٹی وی کیمروں میں نظر آ رہے ہیں معاملہ ختم ہو جائے گا۔ ایک دن کچھ صحافی دوست میرے پاس آئے اور کہا کہ اسد طور پر حملہ کرنے والے ملزمان پکڑے گئے ہیں۔ اب آپ فیض صاحب کے ساتھ معاملہ طے کریں تاکہ آپ پر پابندی ختم ہو جائے۔ صحافی دوستوں نے جنرل فیض سے ملاقات پر اصرار کیا۔ میں نے کہا کہ میری تو کسی سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں۔ اگر اسد طور پر حملہ کرنے والوں کی گرفتاری کا اعلان کردیا جائے تو میں فیض سے معذرت کرلوں گا۔ مجھے کہا گیا کہ ملزمان کی گرفتاری کا کل اعلان ہوجائے گا۔

یہ دوست مجھے فیض صاحب کے پاس لے گئے۔ جب میں نے پوچھا کہ اسد طور پر حملہ کرنے والے ملزمان کہاں ہیں تو آئی ایس آئی کے سربراہ آئیں، بائیں، شائیں کرنے لگے۔ان کا خیال تھا کہ ہم معافی تلافی کے لئے آئے ہیں جب ہم نے ملزمان مانگنے شروع کئے تو کہا گیا شام تک پریس کانفرنس ہوجائے گی۔ وہ پریس کانفرنس کبھی نہ ہوئی۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں سمجھتا ہوں کہ فیض صاحب کی سب سے بڑی خوبی بھی جھوٹ بولنا تھی اور سب سے بڑی خامی بھی جھوٹ بولنا تھی۔ انہوں نے بلوچستان کے ایک سینیٹر کے کپڑوں میں خفیہ کیمرہ چھپا کر اسے بشریٰ بی بی کے ساتھ ملاقات کیلئے بنی گالہ بھیجا اور ساتھ میں بھاری رقم دی تاکہ بشریٰ بی بی کو رقم دینے کی ویڈیو بن جائے۔ سینیٹر صاحب بشریٰ بی بی کے پاس نہ پہنچ سکے۔

لہٰذا خاتون اول کو قابو کرنے کیلئے فیض نے اپنے ایک ماتحت رحمت کو جعلی پیر بنایا۔ پھر پیر صاحب بشریٰ بی بی تک پہنچ گئے۔ آج کل خبریں گرم ہیں کہ فیض کا بشریٰ بی بی پر بہت اثر تھا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ فیض کے خلاف کارروائی فوج کا اندرونی معاملہ ہے۔ معاملہ اندرونی ضرور ہے لیکن بڑا گھمبیر ہے۔ خان صاحب فیض کا دفاع نہ ہی کریں تو بہتر ہے کیونکہ فیض کے متاثرین کی ایک بڑی تعداد ان کے اردگرد موجود ہے۔ جب فیض کے پاس طاقت و اختیار تھا تو ’’انجمن محبانِ فیض‘‘ میں چاروں صوبوں کے سیاستدان شامل تھے۔ ایک بلوچ سیاستدان کو اسلام آباد میں عالیشان گھر کا فیض بھی ملا۔ اب محبان ِفیض کی جگہ ’’انجمن متاثرین فیض‘‘ نے لے لی ہے جس میں ملک کے صدر اور وزیر اعظم سے لے کر چیف جسٹس اور آرمی چیف بھی شامل ہیں۔

فیض نے ان سب کے خلاف جھوٹ بولا۔ فیض کے احتساب کا مقصد صرف انہیں سزا دلوانا نہیں بلکہ پاکستان میں جھوٹ کے راج کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ جو کچھ فیض کرتے رہے کیا ان کی گرفتاری کے بعد وہ سب بند ہوگیا ہے؟’’انجمن متاثرین فیض‘‘کو چاہیے کہ وہ سب کچھ بند کردیں جس کے ذریعے فیض نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔

Address

Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Kal Tak NEws bulletin posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share