29/05/2025
یہ تصویر چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ دہشتگرد اور مجاہد بنانے والی فیکٹری ایک ہی ہے، نوجوانو! ہم کوئی ذہنی مریض نہیں جو آپکو پُرامن سیاسی جدوجہد پر آمادہ کرتے ہیں، ہمیں آپکے لاشے نہیں چاہیے بلکہ ہم آپکی محفوظ زندگی کے خواہاں ہیں،اور ہماری لڑائی آپکے محفوظ مستقبل اور بقاء کیلئے ہے۔
راولاکوٹ میں ریاستی سرپرستی میں جہاد کانفرنس کے انعقاد اور سرِعام اسلحہ کی نمائش پر ہم نے آزادی پسند وطن دوست اتحاد کے پلیٹ فارم سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسے عناصر اور اِنکے ہینڈلرز کیخلاف قانونی کاروائی اور گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔
اُسکو پسِ پُشت ڈال کر اِس گھناؤنی سازش کا سرغنہ انوار الحق اپنے ہمنوا پیر مظہر کیساتھ الجہاد کے نعرے بلند کرتا رہا اور نوجوانو کو جہاد کی دعوت دیتا رہا اور ریاست کے اس حصے میں جہادی کلچر واپس لانے کا اعلان کرتا رہا۔
جہاد کے نام پر پراکسی کے خواہشمند اور اُنکے آقا آزادی پسندوں کے “پُرامن سیاسی جدوجہد” کے بیانیے کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور یہ چورن بِک نہ پایا، مقصد چونکہ افراتفری پیدا کر کے اپنے مضموم مقاصد حاصل کرنا تھا لہذا پلان “بی” کا آغاز ہوا۔
سرِفہرست یہ کہ افراتفری کا ماحول بنا کر خطے میں جاری عوامی حقوق تحریک کو لچلنا، آزادی پسندوں کو ٹھکانے لگانا، روائیتی سیاستدانوں کیلئے ماحول سازگار کرنا اور پُرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے خطے کی بدلتی صورتحال کو اپنے حق میں کرنا شامل ہیں۔
زرنوش اس فیکٹری کا تیار کردہ ایک مجاہد تھا لیکن چونکہ وہ پڑھا لکھا تھا لہذا اُس نے اندورنِ ریاست ٹارگٹ لینے سے انکار کر دیا (جسکا اعتراف وہ اپنے ویڈیو بیان میں کر چکا)جسکے بعد اسکو جبراً اغواء کیا گیا بعدازاں اُسکے حق میں بلند ہونے والی آوازوں سے خائف ہو کر اسےمنظرِعام پر تو لایا گیا مگر بدلے کی آگ ٹھنڈی نہ ہو سکی اور مالکوں نے فیصلہ کر لیا کہ یہ مجاہد نہیں بلکہ دہشتگرد ہے، بس پھر وہ دہشتگرد بن گیا اور آج اس کی کہانی ختم کر لی گئی۔
ساتھیو! پُرامن سیاسی جدوجہد ہی ریاست جموں کشمیر کی آزادی کا واحد اور آخری حل ہے، آپکو سرکاری ملاؤں، نام نہاد جہادیوں اور کمپنی سے دوری احتیاطی تدابیر کے طور پر اختیار کرتے ہوئے اپنی پُرامن سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
Sardar Khizar Abbas