Virtual Quran Institute

Virtual Quran Institute Virtual Quran Institute have experienced Qualified Teacher having 4 year experience ....
(1)

23/09/2025

‏ہمارے ملک کے ایک نامور سیاست دان کو آصف علی زرداری نے
‏ کھانے کی دعوت دی‘ یہ دعوت پر پہنچے تو ٹیبل پر درجنوں قسم قسم کے کھانے لگے تھے‘ان کے بقول میں نے اپنی پلیٹ اٹھائی اور مختلف قسم کے کھانے اپنی پلیٹ میں ڈالنے لگا۔ اتنی دیر میں زرداری صاحب کا سیکرٹری آیا اور ان کا کھانا ان کے سامنے رکھ دیا‘ چھوٹی چھوٹی کولیوں میں تھوڑی سی بھنڈی‘ دال‘ ابلے ہوئے چاول اور آدھی چپاتی تھی‘ زرداری صاحب نے چند لقمے لیے اورخانساماں ٹرے اٹھا کر لے گیا‘

‏ میں نے ان سے ان کی سادہ خوراک کے بارے میں پوچھا تو وہ ہنس کر بولے ’’میری خوراک بس بھنڈی اور سادہ چاول تک محدود ہے‘ میں ان کے علاوہ کچھ نہیں کھا سکتا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیاآپ گوشت نہیں کھاتے‘‘ وہ مسکرائے اور بولے ’’میں گوشت کھا ہی نہیں سکتا‘‘
‏میں کھانا کھا کر واپس آگیا لیکن آپ یقین کریں میں اس کے بعد جب بھی کھانا کھانے لگتا ہوں تو مجھے زرداری صاحب کی ٹرے یاد آ جاتی ہے اور میں کھانا بھول جاتا ہوں۔

‏ ارشاد احمد حقانی پاکستان کےسینئر صحافی اور کالم نگارتھے‘ روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے تھے‘میں نے ان سے لکھنا سیکھا‘ شاہ صاحب نے بتایا میں 1998ء میں ایران جا رہا تھا‘ ارشاد احمد حقانی سے ملاقات ہوئی‘ انہوں نے پوچھا‘ کیا آپ مشہد بھی جائیں گے؟

‏ میں نے عرض کیا ’’جی جاؤں گا‘‘ انہوں نے فرمایا ’’آپ میرے لیے وہاں خصوصی دعا کیجیے گا‘‘میں نے وعدہ کر لیا لیکن اٹھتے ہوئے پوچھا ’’آپ خیریت سے تو ہیں؟‘‘ حقانی صاحب دکھی ہو کر بولے ’’میری بڑی آنت کی موومنٹ رک گئی ہے‘ پاخانہ خارج نہیں ہوتا‘ میں روز ہسپتال جاتا ہوں اور ڈاکٹر مجھے بیڈ پر لٹا کر مشین کے ذریعے میری بڑی آنت سے پاخانہ نکالتے ہیں اور یہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے‘‘

‏ شاہ صاحب نے اس کے بعد کانوں کو ہاتھ لگایا‘ توبہ کی اور کہا ’’ہمیں روز اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے‘ ہم اپنے منہ سے کھا بھی سکتے ہیں اور ہمارا کھایا ہوا ہمارے پیٹ سے نکل بھی جاتا ہےورنہ دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ اپنی مرضی سے کھا سکتے ہیں اور نہ نکال سکتے ہیں‘‘

‏ یہ بات سن کر مجھے بے اختیار چودھری شجاعت حسین یاد آگئے‘ چودھری صاحب خاندانی اور شان دار انسان ہیں‘ میرے ایک دوست چند دن قبل ان کی عیادت کے لیے گئے‘ چودھری صاحب خوش تھے اور بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے‘

‏میرے دوست نے صحت کے بارے میں پوچھا تو چودھری صاحب نے جواب دیا ’’میں بہت امپروو کر رہا ہوں‘ میں اب اپنے منہ سے کھا بھی لیتا ہوں اور اپنےپائوں پر کھڑا بھی ہو جاتا ہوں‘‘ دوست نے پوچھا ’’ آپ کی حالت اس سے پہلے کیسی تھی؟‘‘ چودھری صاحب بولے ’’میری ٹانگیں میرا بوجھ نہیں اٹھاتی تھیں اور میرے پیٹ میں ٹیوب لگی ہوئی تھی‘ ڈاکٹر مجھے اس کے ذریعے کھلاتے تھے‘ میں منہ کے ذائقے کو ترس گیا تھا‘ الحمد للہ میں اب تھوڑا تھوڑا کر کے کھا بھی لیتا ہوں اور چل پھر بھی سکتا ہوں‘‘

‏ میں بینک کے ایک مالک کو جانتا ہوں‘ یہ صبح جاگتا ہے تو چار بندے ایک گھنٹہ لگا کر اسے بیڈ سے اٹھنے کے قابل بناتے ہیں‘ یہ اس کے پٹھوں کا مساج کر کے انہیں اس قابل بناتے ہیں کہ یہ اس کے جسم کو حرکت دے سکیں‘ اس کی گاڑی کی سیٹ بھی مساج چیئر ہے‘ یہ سفر کے دوران اسےہلکا ہلکا دباتی رہتی ہے اوران کے دفتر اور گھر دونوں جگہوں پر ایمبولینس ہر وقت تیار کھڑی رہتی ہے‘ آپ دولت اور اثرورسوخ دیکھیں تو آپ رشک پر مجبور ہوجائیں گے اور آپ اگر اس کی حالت دیکھیں تو آپ دو دوگھنٹے توبہ کرتے رہیں‘

‏اسی طرح پاکستان میں ہوٹلز اور موٹلز کے ایک ٹائی کون ہیں‘ صدرالدین ہاشوانی‘ یہ پانچ چھ برسوں سے شدید علیل ہیں‘ ڈاکٹر اورفزیو تھراپسٹ دونوں ہر وقت ان کے ساتھ رہتے ہیں‘ ان کے پرائیویٹ جہاز میں ان کے ساتھ سفر کرتے ہیں‘ فزیو تھراپسٹ دنیا جہاں سے ان کے لیے فزیو تھراپی کی مشینیں تلاش کرتے رہتے ہیں‘ مجھے جرمنی کے شہر باڈن جانے کا اتفاق ہوا‘ یہ مساج اوردیسی غسل کا ٹاؤن ہے‘ شہر میں مساج کے دو دو سو سال پرانے سنٹرہیں اور دنیاجہاں سے امیر لوگ مالش کرانے کے لیے وہاں جاتے ہیں‘ چھ چھ ماہ بکنگ نہیں ملتی ‘ آپ وہاں لوگوں کی حالت دیکھیں تو آپ کی نیند اڑ جائے گی‘

‏مریض کے پروفائل میں دس دس بلین ڈالر کی کمپنی ہوتی ہے لیکن حالت دیکھیں گے تو وہ سیدھا کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں ہوتا‘ہم انسان ایک نس کھچ جانے کے بعد اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہتے‘ ہم چمچ تک نہیں اٹھا پاتے اور نگلنے کے قابل نہیں رہتے‘ یہ ہماری اصل اوقات ہے۔

‏تو پھر کس بات کا غرور اور فخر
‏توبہ کرتے رہیں معافی مانگتے رہیں
‏اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے رہیں
‏اور اس کے سامنے اپنا سر جھکاتے رہیں

‏*فبای آلا ربکما تکذبان*

23/09/2025

آپ کا ایک روپیہ ۔۔۔ معیشت کو تباہ کررہا ہے..

ہم روزانہ اپنے ہاتھ سے معیشت کے چیتھڑے اڑا رہے ہیں اور ہمیں اس کا اندازہ بھی نہیں ۔
کسی بھکاری ، فقیر ، ملنگ سے متعلق ہمارے ہاں دو قسم کی اپروچ ہوتی ہے :
✓ یا تو فراخ دلی سے اسے دس ، پچاس ، سو کا نوٹ دے دیا جاتا ہے ۔ اور کم ہی لوگ ایسا کرتے ہیں ۔
✓ یا پھر " جان چھڑوانے کے لیے " محض اسے ایک ، دو کا سکہ دے دیا جاتا ہے ۔۔۔ دکانداروں نے بھی الگ سے کچھ سکے رکھے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ پورا دن جو فقیر آتے ہیں انہیں ایک دو روپیہ دے کر جان چھڑوائیں ۔
لیکن ۔۔۔۔
آپ کی یہ فراخ دلی یا رسمِ جان چھڑاوئی ملکی معیشت کے لیے سخت ضرر رساں ثابت ہورہے ہیں۔
∆ بھکاری چاہے گروہ کی صورت میں کام کررہے ہوں۔
∆ خاندان کی صورت میں ، کہ پورا خاندان مانگنے نکلا ۔
∆ یا انفرادی طور پر۔
بہرصورت ۔۔۔ روزانہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپیہ ان بھکاریوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔
ایک بھکاری مارکیٹ کے ایک کونے سے شروع کرے اگر اس مارکیٹ میں 100 دکانیں ہیں ، سب اسے محض 2 روپیہ بھی دیں تو بن جائے گا 200 روپیہ ۔۔۔۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ۔۔۔ کوئی 1 روپیہ دیتا ہے کوئی 2 کوئی 5 کوئی 10 تو اس دوران دکانداروں کے علاؤہ جو گاہک یا راہگیر وغیرہ دے دیں وہ الگ ۔۔۔ پھر یہ ایک مارکیٹ کی بات ہے ۔۔۔ اس نے صبح تا شام کئی مارکیٹیں ، کئی محلے گھوم جانے ہیں ۔۔۔ کئی فقیروں کی دھیاڑی ہزار ، پندرہ سو سے لے کر ، پندرہ بیس ہزار تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔۔۔۔ اور یہ میں بات کررہا ہوں ایک واحد فقیر کی ۔۔۔ پھر اس کا پورا بھک منگتا ٹبر ۔۔۔ ایسے دیگر ہزاروں ٹبر ۔۔۔ اور دسیوں لاکھ فقیر ۔۔۔
جو ہسپتالوں کے باہر بیٹھ کر مانگتے ہیں ان کی ماہانہ کمائی لاکھوں تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔۔۔ جو درباروں ، خانقاہوں ، مساجد، منادر کے باہر بیٹھ کر مانگتے ہیں ان کی کمائی کسی سرکاری ملازم سے زیادہ ہوتی ہے ۔۔۔
آپ کو معلوم ہو یا نہ ہو ۔ بھکاریوں کی نشستوں کی بولیاں لگتی ہیں باقاعدہ ۔۔۔ مثلاً ۔۔۔ ایک بھکاری جو ایک ہسپتال کے باہر بیٹھ کر مانگتا ہے وہ اپنی جگہ کسی بھکاری کو چار پانچ لاکھ میں فروخت کر سکتا ہے ۔۔۔ بولیاں لگتی ہیں کہ کون زیادہ رقم دے گا وہی سیٹ خرید لے ۔۔۔
پھر ان کے گروہ ہوتے ہیں جن میں باضابطہ سینکڑوں لوگ شامل ہوتے ہیں ۔۔۔۔ ایک باقاعدہ میک اپ ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے جس میں بھکاریوں کے چہرے پر جلنے جیسا میک اپ یا دیگر بگاڑ ظاہر کیے جاتے ہیں ۔۔۔ن باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے کہ آنکھوں کو اس طرح گھنا کر خود کو بھینگا یا نابینا ظاہر کرنا ہے ۔۔۔ اور ۔۔۔ اس سے بھی بھیانک ۔۔۔ بچوں کو باقاعدہ معذور کرنے مثلاً ایک پاؤں کاٹ دینے والا بھی سیٹ اپ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بھیک ملے ۔۔۔ مصنوعی بینڈیج اور خون جس سے ظاہر ہو کہ بندہ زخمی ہے ۔۔۔ جسم پر برص جیسے مصنوعی نشانات ڈالنے سے لے کر مصنوعی لنگڑے پن کی تربیت تک بہت کچھ ۔
اور۔۔۔۔
آپ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں رقم دے کر " صدقہ " نکل رہا ہے جس سے " بلائیں" ٹل جائیں گی ۔۔۔ بھئی آپ خود بلاؤں کو اپنی کمائی دے کر مزید بلائیں پیدا کررہے ہیں ۔۔۔
آپ ایک روپیہ دے کر اپنی جان نہیں چھڑوا رہے اپنے ملک کی معیشت کی جان عذاب میں ڈال رہے ہیں !!
۔۔۔۔۔۔
اب 2 باتیں ذہن نشین کریں :
اول-
ماہانہ کروڑوں یا اربوں روپیہ کو فقیروں ، مجذوبوں ، ملنگوں کے کھاتے جاتا ہے یہ مکمل طور پر ایک Non productive expense ہے جس کا ملک یا معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔ مثلاً ۔۔۔ آپ 10 روپیہ کا بال پین بھی خریدتے ہیں تو یہ ایک پروڈکٹو صرفہ ہے ۔۔۔ اس میں سے 1 روپیہ حکومت کو سیلز ٹیکس جائے گا ۔۔۔ 3 روپیہ دکاندار کا منافع ۔۔۔ 4 روپیہ کمپنی کو ۔۔۔ اور 1 روپیہ پیکنگ ، 1 روپیہ مارکیٹنگ سے متعلقہ اداروں کو ۔۔۔ یعنی یہ رقم سرکولیٹ کررہی ہے ۔ اور ایک ملک کی معیشت میں پیسہ کی حیثیت خون کی مانند ہے جو گردش میں رہے گا تو معیشت چلتی رہے گی ۔۔۔ اور معیشت شکن سرگرمیوں میں مقید ہو جائے گا تو معیشت جکڑی جائے گی ۔

اب آپ کا ایک روپیہ ملک کو کیسے تباہ کررہا ہے ۔۔۔۔؟
ایک تو اس سے آپ بےروزگاری کو بڑھاوا دے رہے ہیں ۔ جسے صرف مانگ کر ہی مہینے کے پچاس سے اسی ہزار مل جائیں کیا وہ پاگل کا بچہ ہے کہ پہلے 20 سال پڑھے لکھے پھر 5 سال نوکری کے پیچھے دھکے کھائے پھر 2,3 سال خود کو نوکری میں مستحکم کرنے میں اور پھر عمر بھر پورا مہینہ کام کر کے بیس پچیس ہزار کمائے ۔۔۔؟
ساتھ ہی اربوں روپیہ ہر ماہ ایک اندھے کنویں کی نظر ہورہا ہے جس کا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں!!
دوسری بات ، اس سے فقیروں کی تعداد مزید سے مزید بڑھے گی ۔۔ جس فقیر کے تین بچے خوب " کمائی " کررہے ہیں اس نے مزید چار پانچ پیدا کر لینے ۔۔۔۔ ان کی کمائی پر نہ کوئی انکم ٹیکس جاتا ہے نہ ہی کوئی اور معاشی فائدہ ۔
اور۔۔۔ یہ لوگ منشیات سے لے کر چوری چکاری تک ان گنت جرائم میں ملوث ہوتے ہیں ۔
یہ تو ہوگئی پہلی بات ۔۔۔

اب دوسری بات جناب یہ ہے کہ آپ کی خیرات " بےمقصد " ہے ۔۔۔۔ مثلاً آپ کسی غریب سٹوڈنٹ کی فیس ادا کرتے ہیں تو یہ ایک باضابطہ مقصد ہے ۔
ایک سفید پوش مسکین کے گھر راشن پہنچاتے ہیں تو یہ ایک باضابطہ مقصد ہے ۔
ایک غریب مریض کو ادویات بہم پہنچاتے ہیں تو یہ ایک باضابطہ مقصد ہے ۔

لیکن ایک فقیر کو دس پندرہ بیس ، سو روپیہ دینے کے پیچھے سرے سے کوئی متعین مقصد نہیں آپ یا تو جان چھڑوا رہے ہیں یا پھر " بلا ٹالنے " کی کوشش فرماتے ہوئے ملکی معیشت کو ایک بلا کے جبڑوں میں گھسیڑ رہے ہیں ۔

چنانچہ یاد رکھیں ۔۔۔۔

کبھی ، کسی صورت ، کسی حالت ، کسی قیمت پر ، کہیں بھی ایک بھکاری کو 1 روپیہ بھی نہ دیں ورنہ ملکی معیشت کی تباہی کے زمہ دار "آپ " بھی اتنے ہی ہیں کہ جتنے سیاستدان وغیرہ !!!

اس کے بجائے ۔۔۔
✓ جو مزدور کام پر لگایا ہو اسے سو روپیہ زیادہ اجرت دے دیں ۔
✓ ہوٹل کے ویٹر کو تھوڑی ٹپ دے دیں ۔
✓ رکشے ، ٹیکسی والے کو کرایہ سے تھوڑا زیادہ رقم دے دیں۔
✓ محلے کے سفید پوش گھرانوں کو ایک آٹے کا تھیلا ہی لے دیں زیادہ نہیں تو ۔
✓ کسی غریب بچے کی تعلیم میں تھوڑی مدد کردیں ۔
✓ کسی بوٹ پالش کرنے والے کو پالش کے بعد کچھ زیادہ رقم دے دیں ۔
✓ ایدھی ، چھیپا، الخدمت فاؤنڈیشن ، ہلال احمر کو کچھ عطیات کر دیں ۔
یہ صدقہ ہے بھائی ۔۔۔ یہ بلا ٹالے گا آپ پر سے بھی اور ملک کی معیشت سے بھی !!

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول سلسلہ نمبر: 12أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:أم المؤمنین سیّدہ أم سلمہ رضی اللہ ع...
21/09/2025

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول

سلسلہ نمبر: 12

أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:

أم المؤمنین سیّدہ أم سلمہ رضی اللہ عنہا

- والد کا نام: أبی أمیہ
- حیثیت بوقتِ نکاح: بیوہ
- عمر بوقتِ نکاح: 24 سال
- حضور کی عمر: 56 سال
- عمر بوقتِ وفات: 84 سال
- مدت رفاقت: 07 سال

فضیلت:
- سیّدہ أم سلمہ رضی اللہ عنہا حسن و جمال کے ساتھ ساتھ عقل و فہم کے کمال کا بھی ایک بے مثال نمونہ تھیں۔
- سیدہ أم سلمہ رضی اللہ عنہا مدینہ منورہ میں 84 برس کی عمر میں وفات پائی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ جنت البقیع کے قبرستان میں دیگر ازواجِ مطہرات کے ساتھ مدفون ہوئیں۔

اس کو خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں۔

✍🏻: اسامہ صدیقی

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول سلسلہ نمبر: 11أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:أم المؤمنین سیّدہ زینبؓ رضی اللہ عنہ...
18/09/2025

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول

سلسلہ نمبر: 11

أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:

أم المؤمنین سیّدہ زینبؓ رضی اللہ عنہا

- والد کا نام: خزیمہ
- حیثیت بوقتِ نکاح: بیوہ
- عمر بوقتِ نکاح: 30 سال
- حضور کی عمر: 55 سال
- عمر بوقتِ وفات: 30 سال
- مدت رفاقت: 2 یا 3 ماہ

فضیلت:
- سیّدہ زینبؓ غرباء اور مساکین کو بکثرت کھانا کھلایا کرتی تھیں، اس لئے ان کا لقب ’’ام المساکین‘‘ (مسکینوں کی ماں ) ہے۔
- سیدہ زینبؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد صرف دو یا تین مہینے زندہ رہیں اور تیس برس کی عمر میں وفات پا گئیں اور جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات کے ساتھ دفن ہوئیں۔

اس کو خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں۔

✍🏻: اسامہ صدیقی

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول سلسلہ نمبر: 10أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:أم المؤمنین سیّدہ حفصہؓ رضی اللہ عنہ...
17/09/2025

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول

سلسلہ نمبر: 10

أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:

أم المؤمنین سیّدہ حفصہؓ رضی اللہ عنہا

- والد کا نام: عمر فاروق رضی اللہ عنہ
- حیثیت بوقتِ نکاح: بیوہ
- عمر بوقتِ نکاح: 23 سال
- حضور کی عمر: 55 سال
- عمر بوقتِ وفات: 60 سال
- مدت رفاقت: 08 سال

فضیلت:
- سیدہ حفصہؓ اکثر روزہ دار رہا کرتی تھیں، تلاوت قرآن مجید اور دیگر عبادتوں میں مصروف رہا کرتی تھیں۔
- سیدہ حفصہؓ عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ایک ممتاز درجہ رکھتی تھیں۔
- سیدہ حفصہؓ حق گوئی، حاضر جوابی اور فہم و فراست میں اپنے والد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مزاج پایا ہے۔

اس کو خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں۔

اسامہ صدیقی

16/09/2025

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول

سلسلہ نمبر: 09

أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:

سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

- والد کا نام: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
- حیثیت بوقتِ نکاح: کنواری
- عمر بوقتِ نکاح: 06 سال
- عمر بوقتِ رخصتی: 09 سال
- حضور کی عمر: 54 سال
- عمر بوقتِ وفات: 63 سال
- مدت رفاقت: 09 سال

فضیلت:
- عائشہ صدیقہؓ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے محبوبہ اور چہیتی زوجہ ہیں۔
- مسائل فقہ میں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مسائل پوچھا کرتے تھے۔
- سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی احادیث کی کل تعداد 2210 ہے۔
- سیدہ عائشہ صدیقہؓ وہ عظیم ہستی ہے کہ جن کی پاک دامنی کی گواہی خود اللہ پاک نے قرآن پاک میں بیان کی۔

اس کو خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں۔

اسامہ صدیقی

16/09/2025

💥 *اپنے بیٹوں کی پرورش میں یہ چند غلطیاں کبھی مت کیجیے گا:*

اولاد چاہے بیٹا ہو یا بیٹی اللہ کی دَین ہوتی ہے اور دونوں کی ہی تربیت میں کسی بھی قسم کی کوتاہی ایک خاندان کی نہیں بلکہ معاشرے کے نقصان کا سبب بنتی ہے۔۔۔لیکن ہمارے معاشرے میں تربیت کا حقدار صرف بیٹیوں کو ہی مانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی تو گھر سنبھالنا ہے۔۔۔انہوں نے ہی تو اگلے گھر جانا ہے۔۔۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس بھرم اور اس کوشش میں ہم اپنے بیٹوں کی تربیت میں کچھ ایسی بنیادی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جس کا خمیازہ آنے والی کئی نسلیں بھی پورا نہیں کر پاتیں۔۔۔

*بیٹوں کے جذبات پر پابندی نا* *لگائیں*
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں رونے والی آنکھیں صرف بیٹیوں کی بنا دی گئی ہیں۔۔۔غم اور دکھ یا تکلیف کے اظہار کا حق صرف بیٹیوں کو دے دیا گیا ہے۔۔۔۔لیکن آپ کا بچہ چاہے کسی بھی عمر کا ہے اسے ہر جذبے کے اظہار کا بھرپور حق دیں۔۔۔اکثر مائیں یا گھر کے بڑے بوڑھے بیٹوں کو چوٹ لگنے پر یہ کہتے ہیں۔۔۔مرد بن مرد۔۔۔لڑکیوں کی طرح کیوں رو رہے ہو۔۔۔اتنی سی تکلیف پر رو رہے ہو۔۔۔رونا مت کیونکہ مرد روتے نہیں۔۔۔یاد رکھیے! بیٹوں کو اگر اپنے ہی درد کی شدت محسوس نہیں ہوگی تو وہ کسی اور کی تکلیف کا اندازہ کیسے لگا پائیں گے۔۔۔ان کے دل کو سخت مت کیجیے۔۔۔کیونکہ کل کو وہ اپنی بہن ، بیوی اور بیٹی کے آنسوؤں کی تڑپ سے بھی نا واقف ہی رہیں گے۔۔۔

*گھر کے کاموں میں ان کی مدد* *لیں*
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیٹیاں چھوٹی بھی ہوتی ہیں تو ان سے دسترخوان اٹھوانا، پانی پلوانا، برتن لگوانا جیسے کام کروائے جاتے ہیں تاکہ کل کو انہیں سارے کام کرنے کی عادت ہو۔۔۔لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ لڑکوں سے یہ کام نہیں کروانے چاہییں۔۔۔اپنے بیٹوں کو چھوٹی عمر سے عادت ڈالیں کہ وہ اپنی چیز واپس جگہ پر رکھیں، کمرے کو اگر پھیلائیں تو واپس سمیٹیں بھی، برتن کھانے کے بعد کم سے کم کچن یا سنک تک پہنچائیں، ڈسٹنگ، جھاڑو جیسے کام کروائیں تھوڑے تھوڑا کرکے۔۔۔اور جب ٹین ایج میں پہنچے تو کپڑے خود استری کروائیں اور ان سے کچن کے کام بھی کروائیں۔۔۔انہیں بچپن سے یہ احساس دلائیں کہ گھر کی ذمہ داری لڑکے اور لڑکی کی تفریق سے بے نیاز ہے ۔۔ساتھ ہی ان میں یہ احساس بھی پیدا ہوگا کہ کوئی کام کرنے میں شرم محسوس نا کریں۔۔۔

*دوسروں کے لئے مدد کا جذبہ* *پیدا کریں*
اپنے بیٹوں کو بار بار یہ احساس دلائیں کہ انہوں نے کبھی بھی کسی کی مدد کرنے میں پیچھے نہیں ہٹنا۔۔۔اور یہ کرنے کے لئے آپ کو عملی مثال بننا پڑے گا۔۔۔ماں اور باپ دونوں کو ہمیشہ لوگوں کی مدد کے لئے خود تیار رہنا ہوگا اور یہ جذبہ انہیں دیکھ کر بے اختیار بچوں میں منتقل ہوگا۔۔۔اس کی بنیاد میں سب سے پہلے یہ احساس ڈالیں کہ جب کوئی بڑا کھڑا ہو تو اس کے سامنے بیٹھنا نہیں ہے بلکہ اسے جگہ دینی ہے۔۔۔کسی کے ہاتھ میں سامان دیکھے تو انہیں پوچھے کہ کیا میں آپ کا ہاتھ بٹا سکتا ہوں۔۔۔اس سے پودے لگوائیں۔۔۔نا صرف اپنے گھر کے باہر کا کچرا بلکہ کچھ کچھ پڑوسیوں کے گھر کے باہر کا کچرا بھی صاف کروائیں۔۔۔جب ٹین ایج میں آئیں تو ان سے خون بھی دلوائیں اور انہیں مختلف فلاحی اداروں میں لے جاکر ان کے ہاتھ سے دوسروں کی مدد کروائیں۔۔۔

*رشتوں کا احترام*
بظاہر بہت معمولی لگے گا لیکن حقیقت میں یہ سب سے اہم نکتہ ہے بیٹوں کی تربیت کا۔۔۔گھر اور باہر کے ہر چھوٹے بڑے رشتے کا احترام سکھائیں۔۔۔خاص طور پر لڑکیوں کی عزت کرنے کا درس دیں اور انہیں دینی مثالیں دیں تاکہ ان میں نا صرف اپنے گھر کی بلکہ دوسروں کی بہنوں اور بیٹیوں کی حفاظت اور عزت کا احساس زندہ رہے۔۔۔باپ کو چاہیے کہ بیٹے کے سامنے ہمیشہ اپنی بیوی یعنی اس کی ماں کو احترام اور عزت سے پکاریں۔۔۔تاکہ اسے یہ پتہ چلے کہ اس کا بھی یہی رویہ ہو خواتین کے ساتھ-

*ایک بیٹے کی ماں در حقیقت کسی اور کی بیٹی کے شوہر اور آنے والی ایک نسل کے باپ کی* *پرورش کر رہی ہوتی* ہے۔۔۔ایک ایسے انسان کی تربیت کر رہی ہوتی ہے جس سے معاشرے کی باقی لڑکیوں کو احساس تحفظ حاصل ہو ۔۔۔اس لئے یاد رکھیے کہ آپ کی ذمہ داری سب سے بھاری ہے۔

*تحریر کو صدقہ جاریہ اور اللہ کی رضا کی نیت سے اپنے عزیز و اقارب اور مقامی گروپس میں شیئر کیجئے ہو سکتا ہے آپ کی تھوڑی سی محنت یا کوشش کسی کی زندگی بدلنے کا ذریعہ بن جائے*

15/09/2025
مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول سلسلہ نمبر: 08أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:سیّدہ سودہ رضی اللہ عنہا - والد کا ن...
13/09/2025

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول

سلسلہ نمبر: 08

أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:

سیّدہ سودہ رضی اللہ عنہا

- والد کا نام: زمعہ بن قیس
- حیثیت بوقتِ نکاح: بیوہ
- عمر بوقتِ نکاح: 50 سال
- حضور کی عمر: 50 سال
- عمر بوقتِ وفات: 72 سال
- مدت رفاقت: 14 سال

فضیلت:
- حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے کے لیے اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایثار کردیا۔
- سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: سودہ کے علاوہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال نہیں ہوا کہ اس کے قالب میں میری روح ہوتی۔

اس کو خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں۔

اسامہ صدیقی

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول سلسلہ نمبر: 07أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا - و...
10/09/2025

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول

سلسلہ نمبر: 07

أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:

سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

- والد کا نام: خویلد
- حیثیت بوقتِ نکاح: بیوہ
- عمر بوقتِ نکاح: 40 سال
- حضور کی عمر: 25 سال
- عمر بوقتِ وفات: 65 سال
- مدت رفاقت: 25 سال

نوٹ:
- حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی اور محبوب زوجہ ہیں۔
- آپ نے عورتوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کیا۔

اس کو خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں۔

اسامہ صدیقی

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول سلسلہ نمبر: 06حضورﷺ کی ازواج مطہرات حضورﷺ کے گیارہ ازواج ہیں: - حضرت خدیجہ بنت خ...
07/09/2025

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول

سلسلہ نمبر: 06

حضورﷺ کی ازواج مطہرات

حضورﷺ کے گیارہ ازواج ہیں:
- حضرت خدیجہ بنت خویلد ؓ
- حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ
- حضرت عائشہ بنت ابوبکر ؓ
- حضرت حفصہ بنت عمر ؓ
- حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ
- حضرت أم سلمہ بنت أبی أمیہؓ
- حضرت زینب بنت جحش ؓ
- حضرت جویریہ بنت حارث ؓ
- حضرت أم حبیبہ بنت ابو سفیان ؓ
- حضرت صفیہ بنت حي ؓ
- حضرت میمونہ بنت حارث ؓ

نوٹ:
- حضرت خدیجہؓ اور زینب بنت خزیمہؓ آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں انتقال کر گئیں، جبکہ باقی ازواج مطہرات آپﷺ کی وفات کے وقت حیات تھیں۔

اس کو خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں۔

اسامہ صدیقی

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول سلسلہ نمبر: 05حضورﷺ کے چچا حضورﷺ کے گیارہ چچا ہیں: - حضرت حمزہ- حضرت عباس - ابو ...
06/09/2025

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول

سلسلہ نمبر: 05

حضورﷺ کے چچا

حضورﷺ کے گیارہ چچا ہیں:
- حضرت حمزہ
- حضرت عباس
- ابو طالب
- ابو لہب
- زبیر
- مقوم
- ضرار
- حجل
- قثم
- عبدالکعبہ
- غیداق
نوٹ:
- حضور کے چچاؤں کی تعداد میں اصحاب سیت کا اختلاف ہے۔
- حضور کے تمام چچاؤں میں سے صرف حضرت حمزہ اور حضرت عباس نے اسلام قبول کیا تھا۔

اس کو خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں۔

اسامہ صدیقی

Address

Main
Islamabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Virtual Quran Institute posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share