Virtual Quran Institute

Virtual Quran Institute Virtual Quran Institute have experienced Qualified Teacher having 4 year experience ....
(1)

21/10/2025

کلاس چل رہی تھی. خدا نے جو چیزیں حرام قرار دی ہیں سر ان کی تفسیر بتا رہے تھے اور ساتھ ساتھ ان کے کچھ دنیاوی نقصانات بھی. تیزی سے لکھتے ہوئے اچانک قلم وہا‌ں رکا تھا جہاں ایک سٹوڈنٹ نے سوال کرنے کی اجازت مانگی تھی. اور اجازت ملنے پر کہا تھا کہ : اگر خدا کو یہ چیزیں حرام ہی کرنی تھیں تو ان ميں لذت کیوں رکھی؟ لذت نہ ہوتی تو ہمارے لیے انہیں چھوڑنا کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا. یہ کسی نوجوان کا ناراض ناراض سا شکوہ تھا.

سر کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری تھی. انہوں نے گفتگو کا موضوع بدلتے ہوئے اس سے پوچھا کونسا کھانا ہے جو تمہیں بے تحاشا پسند ہے؟ اور کونسی ایسی چیز ہے جو تمہیں بالکل نہیں پسند. جواب میں اس نے بتایا تھا کہ میں فاسٹ فوڈ بالکل نہیں کھاتا. البتہ مجھے دیسی گھی میں بھنی ہوئی مٹن چانپ کی ڈش بہت پسند ہے. وہ میں ساری زندگی کھا سکتا ہوں.

سر دوبارہ گویا ہوئے تھے : اب فرض کرو ایک پلیٹ میں کوئی مہنگا ترین برگر ہے. اور ایک پلیٹ میں تمہاری پسندیدہ چانپیں ہیں. تو تم کیا کھانا پسند کرو گے؟ ظاہر ہے چانپیں. سٹوڈنٹ کا بلاتوقف جواب آیا تھا. لیکن وہ فاسٹ فوڈ برگر بہت مشہور فوڈ چین کا ہے اور اسے ہر کوئی افورڈ بھی نہیں کر سکتا. تمہیں مفت میں مل رہا ہے. سر نے شوق بڑھاتے ہوئے کہا تھا. لیکن جب وہ مجھے پسند ہی نہیں تو جیسا مرضی ہو. کیا فرق پڑتا ہے. میں نہیں کھاؤں گا. نوجوان کے انداز میں بے نیازی تھی.

ٹھیک ہے. لیکن ،اب یوں ہے کہ مٹن چانپ کی ڈش تمہارے سامنے پڑی ہے. لیکن تمہارے والد صاحب نے تمہیں کہا ہے کہ جب تک وہ نہ آئیں تب تک یہ کھانی نہیں ہیں. چاہے کچھ بھی ہو جائے. پھر کیا کرو گے؟
میں ان کا انتظار کر لوں گا. اس نے کچھ سوچتے ہوئے
کہا تھا.

لیکن وہ بالکل سامنے پڑی ہے. تمہارا شدید دل چاہ رہا ہے. منہ میں پانی آ رہا ہے. بھوک بھی لگی ہوئی ہے. تم تھوڑی سی چکھ لو تو انہیں پتا بھی نہیں چلے گا. آس پاس کوئی ہے بھی نہیں جو انہیں بتائے تو پھر بھی اسے نہ کھانے کی کیا وجہ ہو گی؟

مجھے لگتا ہے، میرا اپنے والد صاحب سے بڑا پیار ہے. میں ان کا انتظار کر لوں گا. چاہے جتنا بھی دل چاہے. اور دوسرا یہ کہ، اگر انہیں پتا نہ بھی چلے تو مجھے تو پتا ہوگا نا. میں اپنی نظروں میں گر جاؤں گا. اور اگر انہیں پتا چل جائے تو ان کی نظر میں میرا تاثر خراب ہوگا. جو میں خراب نہیں کرنا چاہتا. اس لئے میں ان کی بات مان کر ان کا انتظار کروں گا.

سر نے ایک گہرا سانس لیا تھا جیسے اسی نکتے پر اسے لانا چاہ رہے ہوں. اور ہم سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا :

خدا نے جس چیز کو حرام کیا ہے. اس میں آپ کے لیے لذت رکھی ہے. کیونکہ اسے آپ سب کا امتحان لینا مقصود ہے کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں یا نہیں اور اس کی غیر موجودگی میں اس سے وفادار رہتے ہیں یا نہیں.

ہر کسی کی لذت الگ الگ قسم کی چیزوں میں ہوتی ہے. اگر لذت نہ رکھی ہوتی تو کونسا نفس پر جبر، کہاں کا امتحان اور کیسا صبر. حرام چیز ہمیشہ انسان کو آزمائش میں ڈالتی ہے اور ڈالتی رہے گی. لیکن، لذت اور ترغیب کا سامنے موجود ہوتے ہوئے اور ان پر قدرت رکھتے ہوئے بھی اس سے بچنا اصل امتحان ہے.

اور اس امتحان میں بس وہی کامیاب ہوتے ہیں جن کی خود اپنی نظر میں بہت عزت ہوتی ہے. اس کے علاوہ انہیں خدا سے محبت بھی ہوتی ہے. اور خدا کی نظر میں اپنا تاثر خراب ہونے کا خوف بھی ہوتا ہے.

عربی میں اس محبت بھرے خوف کو خشیّت کہتے ہیں. اور خشیّت ہی انسان کو کسی کی بندگی کرنے اور اس کی بات ماننے پر مجبور کر سکتی ہے. نہ خالی محبت کسی سے بندگی کروا سکتی ہے اور نہ اکیلا خوف انسان کو غلامی پر مجبور کر سکتا ہے.

جن کے دلوں میں خشیّت ہوتی ہے، ان کے دل لذتوں میں نہیں الجھتے. دنیاوی لذت صرف اسے بہکاتی ہے جس کے دل نے کبھی خشیّت کی لذت نہیں چکھی ہوتی. خدا سے بس محبت نہیں کیا کرو، نہ ہی صرف اس کا خوف دل میں رکھو. اس کی نظر میں اپنا تاثر خراب ہونے سے ڈرو. اس سے محبت بھرے خوف کے ساتھ تعلق رکھو گے تو تمہارا دل، دنیا کی محبتوں اور لذتوں سے بے پروا ہو جائے گا.

فِلافطین #

20/10/2025

کالج میں ایک اسٹوڈنٹ نے انگریزی کےپروفیسر سے پوچھا ۔ سر " نٹورے " کا کیا مطلب ہوا؟ " نٹورے " ؟؟؟ پروفیسر نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
" ٹھیک ہے میں تجھے بعد میں بتاتا ہوں ، میرے آفس میں آ جانا۔ " پروفیسر نے اسے ٹالنے کے لیئے کہا۔
یہ وہاں بھی پہونچ گیا، بتائیے سر، " نٹورے " یعنی کیا؟ پروفیسر نے کہا میں تجھے کل بتاتا ہوں ۔ پروفیسر صاحب رات بھر پریشان رہے، ڈکشنری میں ڈھونڈا، انٹرنیٹ پر ڈھونڈا ۔

دوسرے دن پھر وہی سر، " نٹورے" یعنی کیا؟
اب پروفیسر صاحب اس سے دوری بنانے لگے اور اسے دیکھتے ہی اس سے کترا کے نکلنے لگے ۔ لیکن یہ پٹھا ان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ۔
ایک دن پروفیسر صاحب نے اس سے پوچھا جس "نٹورے" لفظ کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو، یہ کونسی زبان کا لفظ ہے؟ اس نے جواب دیا - انگلش۔ پروفیسر صاحب نے کہا اسسپیلنگ بولو ۔ اس نے کہا :
N-A-T-U-R-E. 😉😉😉😉
یہ سنتے ہی پروفیسر صاحب کے غصے کی آگ 🔥 ان کے دماغ تک پہونچ گئی ۔ کہنے لگے " حرامخور! ہفتے بھر سے میرے جی کو جنجال میں ڈال رکھا ہے ۔ اس ٹینشن میں میں بھوکا پیاسا رہا، رات رات بھر جاگا اور تو " نیچر " کو " نٹورے، نٹورے " بول بول کر مجھے پریشان کر رکھا ہے ۔ ٹھہر تجھے کالج سے ہی ابھی نکلواتا ہوں ۔
کہنے لگا، نہیں سر، میں آپ کے پاؤں پڑتا ہوں، اب میں دوبارہ ایسا کچھ نہیں پوچھوں گا۔ پلیز مجھے کالج سے نہ نکالیں
، میرا "فٹورے"
F-U-T-U-R-E.
برباد ہو جائے گا...😀😀😀😀

17/10/2025

مڈل کلاس۔

پاکستان میں دو لوگ بڑے اطمینان سے ہیں‘ غریب اور امیر……

یہ جو درمیان والے ”مڈل کلاسیئے“ ہیں صحیح بیڑا ان کا غرق ہوتاہے

یہ رکھ رکھاؤسے لگ بھگ امیر لگتے ہیں لیکن حالت یہ ہوتی ہے کہ گھر میں آئے روز اس وجہ سے لڑائیاں ہوتی ہے کہ گھی اتنی جلدی کیسے ختم ہوگیا

ہمارے ہاں قابل رحم اور قابل نفرت بھی دو ہی طبقات ہیں‘ امیر اور غریب۔امیر قابل نفرت ہے کیونکہ اس کے پاس پیسہ ہے اور غریب قابل رحم ہے کیونکہ اس کے پاس پیسہ نہیں۔

پاکستان کا بجٹ بھی انہی دو طبقات کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتاہے‘ گورنمنٹ بھی انہی دو طبقات پر نظر رکھتی ہے۔درمیان میں جو سینڈوچ بنتا ہے وہ بیچارا مڈل کلاس ہے۔امیر لوگ اسے غریب سمجھتے ہیں اور غریب لوگ امیر۔

یہ مڈل کلاسیاکون ہوتاہے؟

یہ وہ ہوتا ہے جس کے پاس بظاہر امیروں والی ہر چیز ہوتی ہے لیکن سیکنڈ ہینڈ۔

اس کے پاس نسبتاً بہترگھر ہوتاہے لیکن کرائے کا۔

گاڑی ہوتی ہے لیکن بیس سال پرانی۔

گھر میں اے سی ہوتاہے لیکن عموماً چلتا ائیر کولر ہی ہے۔

کپڑے صاف ہوتے ہیں لیکن چلتے کئی کئی سال ہیں۔

گھرمیں یو پی ایس ہوتاہے لیکن اس کی بیٹری عموماً آدھا گھنٹہ ہی نکالتی ہے۔

اس کے پاس اچھا موبائل بھی ہوتاہے لیکن استعمال شدہ۔

اس کے گھر میں ہر ہفتے پتلے شوربے والی مُرغی بنتی ہے۔

یہ اپنے بچوں کو پارک میں سیرو تفریح کے لیے لے کر جائے تو عموماً گھر سے اچھی طرح کھانا کھا کر نکلتاہے۔

اس کے پاس اے ٹی ایم کارڈ تو ہوتا ہے لیکن کبھی پانچ سو سے زیادہ نکلوانے کی نہ ضرورت پڑتی ہے نہ ہمت۔

یہ دن رات کوئی ایسا بزنس کرنے کے منصوبے بناتا ہے جس میں کوئی خرچہ نہ کرنا پڑے۔

اِس کی گاڑی صرف سردیوں میں بڑے کمال کی کولنگ کرتی ہے۔

یہ جب بھی اپنے بیوی بچوں کو لے کر کسی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ جاتا ہے چھ افراد کی ساری فیملی دو برگرز میں ہی بھگت جاتی ہے۔

یہ اگرظاہرکرے کہ میرے پاس بہت پیسہ ہے تو رشتے دار ادھار مانگنے آجاتے ہیں‘ نہ بتائے تو کوئی منہ نہیں لگاتا۔

یہ اپنی اوقات سے صرف 20فیصد اونچی زندگی گذارنے کی کوشش میں پستا رہتا ہے۔

اصل میں یہ غریبوں سے بھی بدتر زندگی گذار رہا ہوتا ہے۔

اس کی ساری زندگی کمیٹیاں ڈالنے اور بھگتانے میں گذر جاتی ہے۔

پاکستان میں امیروں اور غریبوں سے کہیں زیادہ تعدادمڈل کلاسیوں کی ہے لیکن یہ کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے۔

ہمارے ہاں ہر وہ بندہ مزے میں ہے جس کے پاس بہت سارا پیسہ ہے یا بالکل نہیں ہے۔

جس کے پاس پیسہ ہے وہ اے سی میں سوجاتاہے۔ جس کے پاس نہیں وہ کسی فٹ پاتھ پر نیند پوری کرلیتاہے۔ پیسے والا کسی سے کچھ نہیں مانگتااور غریب ہر کسی کے آگے ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہوجاتاہے۔رگڑا اُس کو لگتاہے جس کے پاس پیسہ تو ہے لیکن صرف گذارے لائق۔

غریبوں کی اکثریت کو یہ مڈل کلاسیے ہی پال رہے ہیں۔

کبھی کبھی تو مجھے لگتاہے کہ سب سے زیادہ خوف خدا بھی اِس مڈل کلاس میں ہی پایا جاتاہے۔ یہی کلاس سب سے زیادہ خیرات کرتی ہے۔ بعض اوقات تو ان کی اپنی زندگی غریب سے بھی بدتر گذر رہی ہوتی ہے لیکن انا کے مارے یہ بیچارے کسی کو بتاتے نہیں۔

آپ نے کبھی لوئر ایلیٹ کلاس یا اپر ایلیٹ کلاس کی ٹرم نہیں سنی ہوگی۔لوئر غریب یا اپر غریب بھی نہیں ہوتا صرف لوئر مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس کے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔

لوئر اور اپر میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا‘ لوئر والے کے پاس موٹر سائیکل ہوتی ہے اور اپر والے کے پاس پرانے ماڈل کی کار۔نیندیں دونوں کی اڑی رہتی ہیں۔

یہ عیدالاضحی پر قربانی کی استطاعت نہ رکھنے کے باوجود کسی اونٹ یا گائے میں حصہ ڈال لیتے ہیں۔

ان کی ساری زندگی گھر کی فالتو لائٹس آف کرنے اور بل کم کرنے کے منصوبے بناتے گذر جاتی ہے۔

یہ موبائل میں سو روپے والا کارڈ بھی پوری احتیاط سے استعمال کرتے ہیں اور گھر والوں کو آگاہ کیا ہوتاہے کہ ایک مسڈ کال دوں تو اس کا مطلب ہے میں آرہا ہوں۔ دو مسڈ کال دوں تو مطلب ہے میں ذرا لیٹ ہوں۔

یہ ایک دن کے استری کیے ہوئے کپڑے دو دن چلاتے ہیں۔

یہ ہر دو گھنٹے بعد شک دور کرنے کے لیے بجلی کے میٹرکی ریڈنگ چیک کرتے رہتے ہیں۔

یہ کبھی بھی اس قابل نہیں ہوپاتے کہ ایک ہی مہینے میں بجلی، گیس اور پانی کے سارے بل اکٹھے ادا کرسکیں لہذا بجلی کا بل ادا کردیں تو گیس کا بل اگلے مہینے پر ڈال دیتے ہیں۔

ان کی اکثریت چونکہ پڑھی لکھی بھی ہوتی ہے لہذا کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔

ان کے پاس بیٹیوں کی شادی کرنے کے پیسے نہیں ہوتے‘اولاد کے لیے اچھی نوکری کی سفارش نہیں ہوتی اس کے باوجود یہ کسی کو دکھ میں دیکھتے ہیں تو خود بھی آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔

ان کی گھر کام کرنے والی غریب ماسی چونکہ دیگرمختلف گھروں میں کام کرتی ہے اس لیے رمضان میں ہر گھر سے راشن کے نام پر لگ بھگ پچاس کلو آٹے سمیت چار پانچ ماہ کا راشن اکٹھا کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ لیکن مڈل کلاسئے پریشان رہتے ہیں کہ اپنے گھر کے لیے جو پندرہ دن کا راشن لائے تھے وہ ختم ہونے کے قریب ہے اور تنخواہ ملنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔

لیکن مڈل کلاسیا کیا کرے؟

یہ نہ زکوٰۃ مانگتا ہے‘ نہ فطرہ نہ بھیک۔یہ صرف کڑھتا ہے، سسکتا ہے اورمرتا ہے-

15/10/2025

A student of Virtual Quran Institute

10/10/2025

01/10/2025

A student from Virtual Quran Institute memorized Azaan kalimaat...

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول سلسلہ نمبر: 13أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:أم المؤمنین سیّدہ زینب بنت جحش رضی ا...
26/09/2025

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول

سلسلہ نمبر: 13

أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:

أم المؤمنین سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا

- والد کا نام: جحش
- حیثیت بوقتِ نکاح: مطلقہ
- عمر بوقتِ نکاح: 36 سال
- حضور کی عمر: 57 سال
- عمر بوقتِ وفات: 52 سال
- مدت رفاقت: 05 سال

فضیلت:
- سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ازواجِ مطہرات سے اکثر یہ کہا کرتی تھیں کہ مجھ کو خدا تعالٰی نے ایک ایسی فضیلت عطاء فرمائی ہے، جو ازواجِ مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی، کیونکہ تمام ازواجِ مطہرات کا نکاح تو ان کے باپ داداؤں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا، لیکن میرا نکاح حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے ساتھ خود اللہ رب العزت نے آسمانوں پر کیا۔
- ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ میری وفات کے بعد تم تمام ازواجِ مطہرات میں سے سب سے پہلے وفات پاکر مجھ سے آں ملو گی۔

اس کو خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں۔

✍🏻: اسامہ صدیقی

23/09/2025

‏ہمارے ملک کے ایک نامور سیاست دان کو آصف علی زرداری نے
‏ کھانے کی دعوت دی‘ یہ دعوت پر پہنچے تو ٹیبل پر درجنوں قسم قسم کے کھانے لگے تھے‘ان کے بقول میں نے اپنی پلیٹ اٹھائی اور مختلف قسم کے کھانے اپنی پلیٹ میں ڈالنے لگا۔ اتنی دیر میں زرداری صاحب کا سیکرٹری آیا اور ان کا کھانا ان کے سامنے رکھ دیا‘ چھوٹی چھوٹی کولیوں میں تھوڑی سی بھنڈی‘ دال‘ ابلے ہوئے چاول اور آدھی چپاتی تھی‘ زرداری صاحب نے چند لقمے لیے اورخانساماں ٹرے اٹھا کر لے گیا‘

‏ میں نے ان سے ان کی سادہ خوراک کے بارے میں پوچھا تو وہ ہنس کر بولے ’’میری خوراک بس بھنڈی اور سادہ چاول تک محدود ہے‘ میں ان کے علاوہ کچھ نہیں کھا سکتا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیاآپ گوشت نہیں کھاتے‘‘ وہ مسکرائے اور بولے ’’میں گوشت کھا ہی نہیں سکتا‘‘
‏میں کھانا کھا کر واپس آگیا لیکن آپ یقین کریں میں اس کے بعد جب بھی کھانا کھانے لگتا ہوں تو مجھے زرداری صاحب کی ٹرے یاد آ جاتی ہے اور میں کھانا بھول جاتا ہوں۔

‏ ارشاد احمد حقانی پاکستان کےسینئر صحافی اور کالم نگارتھے‘ روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے تھے‘میں نے ان سے لکھنا سیکھا‘ شاہ صاحب نے بتایا میں 1998ء میں ایران جا رہا تھا‘ ارشاد احمد حقانی سے ملاقات ہوئی‘ انہوں نے پوچھا‘ کیا آپ مشہد بھی جائیں گے؟

‏ میں نے عرض کیا ’’جی جاؤں گا‘‘ انہوں نے فرمایا ’’آپ میرے لیے وہاں خصوصی دعا کیجیے گا‘‘میں نے وعدہ کر لیا لیکن اٹھتے ہوئے پوچھا ’’آپ خیریت سے تو ہیں؟‘‘ حقانی صاحب دکھی ہو کر بولے ’’میری بڑی آنت کی موومنٹ رک گئی ہے‘ پاخانہ خارج نہیں ہوتا‘ میں روز ہسپتال جاتا ہوں اور ڈاکٹر مجھے بیڈ پر لٹا کر مشین کے ذریعے میری بڑی آنت سے پاخانہ نکالتے ہیں اور یہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے‘‘

‏ شاہ صاحب نے اس کے بعد کانوں کو ہاتھ لگایا‘ توبہ کی اور کہا ’’ہمیں روز اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے‘ ہم اپنے منہ سے کھا بھی سکتے ہیں اور ہمارا کھایا ہوا ہمارے پیٹ سے نکل بھی جاتا ہےورنہ دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ اپنی مرضی سے کھا سکتے ہیں اور نہ نکال سکتے ہیں‘‘

‏ یہ بات سن کر مجھے بے اختیار چودھری شجاعت حسین یاد آگئے‘ چودھری صاحب خاندانی اور شان دار انسان ہیں‘ میرے ایک دوست چند دن قبل ان کی عیادت کے لیے گئے‘ چودھری صاحب خوش تھے اور بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے‘

‏میرے دوست نے صحت کے بارے میں پوچھا تو چودھری صاحب نے جواب دیا ’’میں بہت امپروو کر رہا ہوں‘ میں اب اپنے منہ سے کھا بھی لیتا ہوں اور اپنےپائوں پر کھڑا بھی ہو جاتا ہوں‘‘ دوست نے پوچھا ’’ آپ کی حالت اس سے پہلے کیسی تھی؟‘‘ چودھری صاحب بولے ’’میری ٹانگیں میرا بوجھ نہیں اٹھاتی تھیں اور میرے پیٹ میں ٹیوب لگی ہوئی تھی‘ ڈاکٹر مجھے اس کے ذریعے کھلاتے تھے‘ میں منہ کے ذائقے کو ترس گیا تھا‘ الحمد للہ میں اب تھوڑا تھوڑا کر کے کھا بھی لیتا ہوں اور چل پھر بھی سکتا ہوں‘‘

‏ میں بینک کے ایک مالک کو جانتا ہوں‘ یہ صبح جاگتا ہے تو چار بندے ایک گھنٹہ لگا کر اسے بیڈ سے اٹھنے کے قابل بناتے ہیں‘ یہ اس کے پٹھوں کا مساج کر کے انہیں اس قابل بناتے ہیں کہ یہ اس کے جسم کو حرکت دے سکیں‘ اس کی گاڑی کی سیٹ بھی مساج چیئر ہے‘ یہ سفر کے دوران اسےہلکا ہلکا دباتی رہتی ہے اوران کے دفتر اور گھر دونوں جگہوں پر ایمبولینس ہر وقت تیار کھڑی رہتی ہے‘ آپ دولت اور اثرورسوخ دیکھیں تو آپ رشک پر مجبور ہوجائیں گے اور آپ اگر اس کی حالت دیکھیں تو آپ دو دوگھنٹے توبہ کرتے رہیں‘

‏اسی طرح پاکستان میں ہوٹلز اور موٹلز کے ایک ٹائی کون ہیں‘ صدرالدین ہاشوانی‘ یہ پانچ چھ برسوں سے شدید علیل ہیں‘ ڈاکٹر اورفزیو تھراپسٹ دونوں ہر وقت ان کے ساتھ رہتے ہیں‘ ان کے پرائیویٹ جہاز میں ان کے ساتھ سفر کرتے ہیں‘ فزیو تھراپسٹ دنیا جہاں سے ان کے لیے فزیو تھراپی کی مشینیں تلاش کرتے رہتے ہیں‘ مجھے جرمنی کے شہر باڈن جانے کا اتفاق ہوا‘ یہ مساج اوردیسی غسل کا ٹاؤن ہے‘ شہر میں مساج کے دو دو سو سال پرانے سنٹرہیں اور دنیاجہاں سے امیر لوگ مالش کرانے کے لیے وہاں جاتے ہیں‘ چھ چھ ماہ بکنگ نہیں ملتی ‘ آپ وہاں لوگوں کی حالت دیکھیں تو آپ کی نیند اڑ جائے گی‘

‏مریض کے پروفائل میں دس دس بلین ڈالر کی کمپنی ہوتی ہے لیکن حالت دیکھیں گے تو وہ سیدھا کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں ہوتا‘ہم انسان ایک نس کھچ جانے کے بعد اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہتے‘ ہم چمچ تک نہیں اٹھا پاتے اور نگلنے کے قابل نہیں رہتے‘ یہ ہماری اصل اوقات ہے۔

‏تو پھر کس بات کا غرور اور فخر
‏توبہ کرتے رہیں معافی مانگتے رہیں
‏اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے رہیں
‏اور اس کے سامنے اپنا سر جھکاتے رہیں

‏*فبای آلا ربکما تکذبان*

23/09/2025

آپ کا ایک روپیہ ۔۔۔ معیشت کو تباہ کررہا ہے..

ہم روزانہ اپنے ہاتھ سے معیشت کے چیتھڑے اڑا رہے ہیں اور ہمیں اس کا اندازہ بھی نہیں ۔
کسی بھکاری ، فقیر ، ملنگ سے متعلق ہمارے ہاں دو قسم کی اپروچ ہوتی ہے :
✓ یا تو فراخ دلی سے اسے دس ، پچاس ، سو کا نوٹ دے دیا جاتا ہے ۔ اور کم ہی لوگ ایسا کرتے ہیں ۔
✓ یا پھر " جان چھڑوانے کے لیے " محض اسے ایک ، دو کا سکہ دے دیا جاتا ہے ۔۔۔ دکانداروں نے بھی الگ سے کچھ سکے رکھے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ پورا دن جو فقیر آتے ہیں انہیں ایک دو روپیہ دے کر جان چھڑوائیں ۔
لیکن ۔۔۔۔
آپ کی یہ فراخ دلی یا رسمِ جان چھڑاوئی ملکی معیشت کے لیے سخت ضرر رساں ثابت ہورہے ہیں۔
∆ بھکاری چاہے گروہ کی صورت میں کام کررہے ہوں۔
∆ خاندان کی صورت میں ، کہ پورا خاندان مانگنے نکلا ۔
∆ یا انفرادی طور پر۔
بہرصورت ۔۔۔ روزانہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپیہ ان بھکاریوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔
ایک بھکاری مارکیٹ کے ایک کونے سے شروع کرے اگر اس مارکیٹ میں 100 دکانیں ہیں ، سب اسے محض 2 روپیہ بھی دیں تو بن جائے گا 200 روپیہ ۔۔۔۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ۔۔۔ کوئی 1 روپیہ دیتا ہے کوئی 2 کوئی 5 کوئی 10 تو اس دوران دکانداروں کے علاؤہ جو گاہک یا راہگیر وغیرہ دے دیں وہ الگ ۔۔۔ پھر یہ ایک مارکیٹ کی بات ہے ۔۔۔ اس نے صبح تا شام کئی مارکیٹیں ، کئی محلے گھوم جانے ہیں ۔۔۔ کئی فقیروں کی دھیاڑی ہزار ، پندرہ سو سے لے کر ، پندرہ بیس ہزار تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔۔۔۔ اور یہ میں بات کررہا ہوں ایک واحد فقیر کی ۔۔۔ پھر اس کا پورا بھک منگتا ٹبر ۔۔۔ ایسے دیگر ہزاروں ٹبر ۔۔۔ اور دسیوں لاکھ فقیر ۔۔۔
جو ہسپتالوں کے باہر بیٹھ کر مانگتے ہیں ان کی ماہانہ کمائی لاکھوں تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔۔۔ جو درباروں ، خانقاہوں ، مساجد، منادر کے باہر بیٹھ کر مانگتے ہیں ان کی کمائی کسی سرکاری ملازم سے زیادہ ہوتی ہے ۔۔۔
آپ کو معلوم ہو یا نہ ہو ۔ بھکاریوں کی نشستوں کی بولیاں لگتی ہیں باقاعدہ ۔۔۔ مثلاً ۔۔۔ ایک بھکاری جو ایک ہسپتال کے باہر بیٹھ کر مانگتا ہے وہ اپنی جگہ کسی بھکاری کو چار پانچ لاکھ میں فروخت کر سکتا ہے ۔۔۔ بولیاں لگتی ہیں کہ کون زیادہ رقم دے گا وہی سیٹ خرید لے ۔۔۔
پھر ان کے گروہ ہوتے ہیں جن میں باضابطہ سینکڑوں لوگ شامل ہوتے ہیں ۔۔۔۔ ایک باقاعدہ میک اپ ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے جس میں بھکاریوں کے چہرے پر جلنے جیسا میک اپ یا دیگر بگاڑ ظاہر کیے جاتے ہیں ۔۔۔ن باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے کہ آنکھوں کو اس طرح گھنا کر خود کو بھینگا یا نابینا ظاہر کرنا ہے ۔۔۔ اور ۔۔۔ اس سے بھی بھیانک ۔۔۔ بچوں کو باقاعدہ معذور کرنے مثلاً ایک پاؤں کاٹ دینے والا بھی سیٹ اپ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بھیک ملے ۔۔۔ مصنوعی بینڈیج اور خون جس سے ظاہر ہو کہ بندہ زخمی ہے ۔۔۔ جسم پر برص جیسے مصنوعی نشانات ڈالنے سے لے کر مصنوعی لنگڑے پن کی تربیت تک بہت کچھ ۔
اور۔۔۔۔
آپ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں رقم دے کر " صدقہ " نکل رہا ہے جس سے " بلائیں" ٹل جائیں گی ۔۔۔ بھئی آپ خود بلاؤں کو اپنی کمائی دے کر مزید بلائیں پیدا کررہے ہیں ۔۔۔
آپ ایک روپیہ دے کر اپنی جان نہیں چھڑوا رہے اپنے ملک کی معیشت کی جان عذاب میں ڈال رہے ہیں !!
۔۔۔۔۔۔
اب 2 باتیں ذہن نشین کریں :
اول-
ماہانہ کروڑوں یا اربوں روپیہ کو فقیروں ، مجذوبوں ، ملنگوں کے کھاتے جاتا ہے یہ مکمل طور پر ایک Non productive expense ہے جس کا ملک یا معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔ مثلاً ۔۔۔ آپ 10 روپیہ کا بال پین بھی خریدتے ہیں تو یہ ایک پروڈکٹو صرفہ ہے ۔۔۔ اس میں سے 1 روپیہ حکومت کو سیلز ٹیکس جائے گا ۔۔۔ 3 روپیہ دکاندار کا منافع ۔۔۔ 4 روپیہ کمپنی کو ۔۔۔ اور 1 روپیہ پیکنگ ، 1 روپیہ مارکیٹنگ سے متعلقہ اداروں کو ۔۔۔ یعنی یہ رقم سرکولیٹ کررہی ہے ۔ اور ایک ملک کی معیشت میں پیسہ کی حیثیت خون کی مانند ہے جو گردش میں رہے گا تو معیشت چلتی رہے گی ۔۔۔ اور معیشت شکن سرگرمیوں میں مقید ہو جائے گا تو معیشت جکڑی جائے گی ۔

اب آپ کا ایک روپیہ ملک کو کیسے تباہ کررہا ہے ۔۔۔۔؟
ایک تو اس سے آپ بےروزگاری کو بڑھاوا دے رہے ہیں ۔ جسے صرف مانگ کر ہی مہینے کے پچاس سے اسی ہزار مل جائیں کیا وہ پاگل کا بچہ ہے کہ پہلے 20 سال پڑھے لکھے پھر 5 سال نوکری کے پیچھے دھکے کھائے پھر 2,3 سال خود کو نوکری میں مستحکم کرنے میں اور پھر عمر بھر پورا مہینہ کام کر کے بیس پچیس ہزار کمائے ۔۔۔؟
ساتھ ہی اربوں روپیہ ہر ماہ ایک اندھے کنویں کی نظر ہورہا ہے جس کا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں!!
دوسری بات ، اس سے فقیروں کی تعداد مزید سے مزید بڑھے گی ۔۔ جس فقیر کے تین بچے خوب " کمائی " کررہے ہیں اس نے مزید چار پانچ پیدا کر لینے ۔۔۔۔ ان کی کمائی پر نہ کوئی انکم ٹیکس جاتا ہے نہ ہی کوئی اور معاشی فائدہ ۔
اور۔۔۔ یہ لوگ منشیات سے لے کر چوری چکاری تک ان گنت جرائم میں ملوث ہوتے ہیں ۔
یہ تو ہوگئی پہلی بات ۔۔۔

اب دوسری بات جناب یہ ہے کہ آپ کی خیرات " بےمقصد " ہے ۔۔۔۔ مثلاً آپ کسی غریب سٹوڈنٹ کی فیس ادا کرتے ہیں تو یہ ایک باضابطہ مقصد ہے ۔
ایک سفید پوش مسکین کے گھر راشن پہنچاتے ہیں تو یہ ایک باضابطہ مقصد ہے ۔
ایک غریب مریض کو ادویات بہم پہنچاتے ہیں تو یہ ایک باضابطہ مقصد ہے ۔

لیکن ایک فقیر کو دس پندرہ بیس ، سو روپیہ دینے کے پیچھے سرے سے کوئی متعین مقصد نہیں آپ یا تو جان چھڑوا رہے ہیں یا پھر " بلا ٹالنے " کی کوشش فرماتے ہوئے ملکی معیشت کو ایک بلا کے جبڑوں میں گھسیڑ رہے ہیں ۔

چنانچہ یاد رکھیں ۔۔۔۔

کبھی ، کسی صورت ، کسی حالت ، کسی قیمت پر ، کہیں بھی ایک بھکاری کو 1 روپیہ بھی نہ دیں ورنہ ملکی معیشت کی تباہی کے زمہ دار "آپ " بھی اتنے ہی ہیں کہ جتنے سیاستدان وغیرہ !!!

اس کے بجائے ۔۔۔
✓ جو مزدور کام پر لگایا ہو اسے سو روپیہ زیادہ اجرت دے دیں ۔
✓ ہوٹل کے ویٹر کو تھوڑی ٹپ دے دیں ۔
✓ رکشے ، ٹیکسی والے کو کرایہ سے تھوڑا زیادہ رقم دے دیں۔
✓ محلے کے سفید پوش گھرانوں کو ایک آٹے کا تھیلا ہی لے دیں زیادہ نہیں تو ۔
✓ کسی غریب بچے کی تعلیم میں تھوڑی مدد کردیں ۔
✓ کسی بوٹ پالش کرنے والے کو پالش کے بعد کچھ زیادہ رقم دے دیں ۔
✓ ایدھی ، چھیپا، الخدمت فاؤنڈیشن ، ہلال احمر کو کچھ عطیات کر دیں ۔
یہ صدقہ ہے بھائی ۔۔۔ یہ بلا ٹالے گا آپ پر سے بھی اور ملک کی معیشت سے بھی !!

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول سلسلہ نمبر: 12أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:أم المؤمنین سیّدہ أم سلمہ رضی اللہ ع...
21/09/2025

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول

سلسلہ نمبر: 12

أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:

أم المؤمنین سیّدہ أم سلمہ رضی اللہ عنہا

- والد کا نام: أبی أمیہ
- حیثیت بوقتِ نکاح: بیوہ
- عمر بوقتِ نکاح: 24 سال
- حضور کی عمر: 56 سال
- عمر بوقتِ وفات: 84 سال
- مدت رفاقت: 07 سال

فضیلت:
- سیّدہ أم سلمہ رضی اللہ عنہا حسن و جمال کے ساتھ ساتھ عقل و فہم کے کمال کا بھی ایک بے مثال نمونہ تھیں۔
- سیدہ أم سلمہ رضی اللہ عنہا مدینہ منورہ میں 84 برس کی عمر میں وفات پائی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ جنت البقیع کے قبرستان میں دیگر ازواجِ مطہرات کے ساتھ مدفون ہوئیں۔

اس کو خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں۔

✍🏻: اسامہ صدیقی

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول سلسلہ نمبر: 11أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:أم المؤمنین سیّدہ زینبؓ رضی اللہ عنہ...
18/09/2025

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول

سلسلہ نمبر: 11

أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:

أم المؤمنین سیّدہ زینبؓ رضی اللہ عنہا

- والد کا نام: خزیمہ
- حیثیت بوقتِ نکاح: بیوہ
- عمر بوقتِ نکاح: 30 سال
- حضور کی عمر: 55 سال
- عمر بوقتِ وفات: 30 سال
- مدت رفاقت: 2 یا 3 ماہ

فضیلت:
- سیّدہ زینبؓ غرباء اور مساکین کو بکثرت کھانا کھلایا کرتی تھیں، اس لئے ان کا لقب ’’ام المساکین‘‘ (مسکینوں کی ماں ) ہے۔
- سیدہ زینبؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد صرف دو یا تین مہینے زندہ رہیں اور تیس برس کی عمر میں وفات پا گئیں اور جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات کے ساتھ دفن ہوئیں۔

اس کو خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں۔

✍🏻: اسامہ صدیقی

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول سلسلہ نمبر: 10أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:أم المؤمنین سیّدہ حفصہؓ رضی اللہ عنہ...
17/09/2025

مختصر سیرت النبیﷺ بسلسلہ ماہ ربیع الاول

سلسلہ نمبر: 10

أمہات المؤمنین کا مختصر تعارف:

أم المؤمنین سیّدہ حفصہؓ رضی اللہ عنہا

- والد کا نام: عمر فاروق رضی اللہ عنہ
- حیثیت بوقتِ نکاح: بیوہ
- عمر بوقتِ نکاح: 23 سال
- حضور کی عمر: 55 سال
- عمر بوقتِ وفات: 60 سال
- مدت رفاقت: 08 سال

فضیلت:
- سیدہ حفصہؓ اکثر روزہ دار رہا کرتی تھیں، تلاوت قرآن مجید اور دیگر عبادتوں میں مصروف رہا کرتی تھیں۔
- سیدہ حفصہؓ عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ایک ممتاز درجہ رکھتی تھیں۔
- سیدہ حفصہؓ حق گوئی، حاضر جوابی اور فہم و فراست میں اپنے والد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مزاج پایا ہے۔

اس کو خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی یاد کروائیں۔

اسامہ صدیقی

Address

Main
Islamabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Virtual Quran Institute posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share