21/10/2025
کلاس چل رہی تھی. خدا نے جو چیزیں حرام قرار دی ہیں سر ان کی تفسیر بتا رہے تھے اور ساتھ ساتھ ان کے کچھ دنیاوی نقصانات بھی. تیزی سے لکھتے ہوئے اچانک قلم وہاں رکا تھا جہاں ایک سٹوڈنٹ نے سوال کرنے کی اجازت مانگی تھی. اور اجازت ملنے پر کہا تھا کہ : اگر خدا کو یہ چیزیں حرام ہی کرنی تھیں تو ان ميں لذت کیوں رکھی؟ لذت نہ ہوتی تو ہمارے لیے انہیں چھوڑنا کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا. یہ کسی نوجوان کا ناراض ناراض سا شکوہ تھا.
سر کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری تھی. انہوں نے گفتگو کا موضوع بدلتے ہوئے اس سے پوچھا کونسا کھانا ہے جو تمہیں بے تحاشا پسند ہے؟ اور کونسی ایسی چیز ہے جو تمہیں بالکل نہیں پسند. جواب میں اس نے بتایا تھا کہ میں فاسٹ فوڈ بالکل نہیں کھاتا. البتہ مجھے دیسی گھی میں بھنی ہوئی مٹن چانپ کی ڈش بہت پسند ہے. وہ میں ساری زندگی کھا سکتا ہوں.
سر دوبارہ گویا ہوئے تھے : اب فرض کرو ایک پلیٹ میں کوئی مہنگا ترین برگر ہے. اور ایک پلیٹ میں تمہاری پسندیدہ چانپیں ہیں. تو تم کیا کھانا پسند کرو گے؟ ظاہر ہے چانپیں. سٹوڈنٹ کا بلاتوقف جواب آیا تھا. لیکن وہ فاسٹ فوڈ برگر بہت مشہور فوڈ چین کا ہے اور اسے ہر کوئی افورڈ بھی نہیں کر سکتا. تمہیں مفت میں مل رہا ہے. سر نے شوق بڑھاتے ہوئے کہا تھا. لیکن جب وہ مجھے پسند ہی نہیں تو جیسا مرضی ہو. کیا فرق پڑتا ہے. میں نہیں کھاؤں گا. نوجوان کے انداز میں بے نیازی تھی.
ٹھیک ہے. لیکن ،اب یوں ہے کہ مٹن چانپ کی ڈش تمہارے سامنے پڑی ہے. لیکن تمہارے والد صاحب نے تمہیں کہا ہے کہ جب تک وہ نہ آئیں تب تک یہ کھانی نہیں ہیں. چاہے کچھ بھی ہو جائے. پھر کیا کرو گے؟
میں ان کا انتظار کر لوں گا. اس نے کچھ سوچتے ہوئے
کہا تھا.
لیکن وہ بالکل سامنے پڑی ہے. تمہارا شدید دل چاہ رہا ہے. منہ میں پانی آ رہا ہے. بھوک بھی لگی ہوئی ہے. تم تھوڑی سی چکھ لو تو انہیں پتا بھی نہیں چلے گا. آس پاس کوئی ہے بھی نہیں جو انہیں بتائے تو پھر بھی اسے نہ کھانے کی کیا وجہ ہو گی؟
مجھے لگتا ہے، میرا اپنے والد صاحب سے بڑا پیار ہے. میں ان کا انتظار کر لوں گا. چاہے جتنا بھی دل چاہے. اور دوسرا یہ کہ، اگر انہیں پتا نہ بھی چلے تو مجھے تو پتا ہوگا نا. میں اپنی نظروں میں گر جاؤں گا. اور اگر انہیں پتا چل جائے تو ان کی نظر میں میرا تاثر خراب ہوگا. جو میں خراب نہیں کرنا چاہتا. اس لئے میں ان کی بات مان کر ان کا انتظار کروں گا.
سر نے ایک گہرا سانس لیا تھا جیسے اسی نکتے پر اسے لانا چاہ رہے ہوں. اور ہم سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا :
خدا نے جس چیز کو حرام کیا ہے. اس میں آپ کے لیے لذت رکھی ہے. کیونکہ اسے آپ سب کا امتحان لینا مقصود ہے کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں یا نہیں اور اس کی غیر موجودگی میں اس سے وفادار رہتے ہیں یا نہیں.
ہر کسی کی لذت الگ الگ قسم کی چیزوں میں ہوتی ہے. اگر لذت نہ رکھی ہوتی تو کونسا نفس پر جبر، کہاں کا امتحان اور کیسا صبر. حرام چیز ہمیشہ انسان کو آزمائش میں ڈالتی ہے اور ڈالتی رہے گی. لیکن، لذت اور ترغیب کا سامنے موجود ہوتے ہوئے اور ان پر قدرت رکھتے ہوئے بھی اس سے بچنا اصل امتحان ہے.
اور اس امتحان میں بس وہی کامیاب ہوتے ہیں جن کی خود اپنی نظر میں بہت عزت ہوتی ہے. اس کے علاوہ انہیں خدا سے محبت بھی ہوتی ہے. اور خدا کی نظر میں اپنا تاثر خراب ہونے کا خوف بھی ہوتا ہے.
عربی میں اس محبت بھرے خوف کو خشیّت کہتے ہیں. اور خشیّت ہی انسان کو کسی کی بندگی کرنے اور اس کی بات ماننے پر مجبور کر سکتی ہے. نہ خالی محبت کسی سے بندگی کروا سکتی ہے اور نہ اکیلا خوف انسان کو غلامی پر مجبور کر سکتا ہے.
جن کے دلوں میں خشیّت ہوتی ہے، ان کے دل لذتوں میں نہیں الجھتے. دنیاوی لذت صرف اسے بہکاتی ہے جس کے دل نے کبھی خشیّت کی لذت نہیں چکھی ہوتی. خدا سے بس محبت نہیں کیا کرو، نہ ہی صرف اس کا خوف دل میں رکھو. اس کی نظر میں اپنا تاثر خراب ہونے سے ڈرو. اس سے محبت بھرے خوف کے ساتھ تعلق رکھو گے تو تمہارا دل، دنیا کی محبتوں اور لذتوں سے بے پروا ہو جائے گا.
فِلافطین #