TechnoVerse

TechnoVerse Welcome to our page dedicated to AI images and graphics design.

28/11/2023

🌹برصغیر میں عروج و زوال کی داستان🌹
ہندوستان(برصغیر) ایک وسیع ملک تھا۔ اتنا بڑا کہ اسے چھوٹا براعظم کہا جاتا ۔ اس کا ساحل پانچ ہزارمیل تھا ۔ خشکی کی سر حد کو ئی چھ ہزار میل ہوں گی۔ شمال میں ہمالیہ پندرہ سو میل تک پھیلا ہوا تھا۔بند ھیاچل نے ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ہندوستان اپنی زرخیزی کی وجہ سے غیر قوموں کو اپنی طرف مائل کرتا رہا۔ صدیوں تک جنوبی قوموں کا تمدن شمالی ہندوستان کو متاثر کرتا رہا ۔ حملہ آور قوموں کی نسلیں آج بھی بندھیا چل کے اس پار شمالی ہندوستان کی نسبت بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ مختلف قوموں کے
یہاں آنے سے ہندوستان میں مختلف تمدنوں کا ایک مجموعہ تیار ہو گیا۔ ہر تمدن ہندوستان کو متاثر کرنے کے بعد خودکسی دوسرے تمدن سے متاثر ہوتا رہا۔ نوحجری عہد میں ہندوستان میں دو قومیں بستی تھیں جس کی یاد گار آج تک نیل گری کی پہاڑیوں میں باقی ہے۔ اس کے بعد کول اور بھیل اقوام نے ہندوستان کو اپنا گھر بنایا۔ صدیوں بعددراوڑوں نے ان قوموں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا۔ کول دراوڑ کے قد چھوٹے رنگ کالے پیلے اور ناک چپٹی تھی ۔دراوڑ ابتدا میں شمالی ہندوستان میں آباد ہوئے لیکن آریاؤں نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو دراوڑ کولوں اور بھیلوں سے کر چکے تھے۔ آریاؤں نے دراوڑوں کو شمالی ہندوستان سے نکال دیا۔ وہ جنوبی ہندوستان میں چلے گئے۔ آج جنوبی ہندوستان میں دراوڑوں کی اکثریت ہے ۔ان کی زبانیں ہندی آریائی زبانوں سے مختلف ہیں۔ شمالی ہندوستان میں دراوڑ شہری تمدن کے مدارج تک پہنچ چکے تھے۔ ان کا تمدن سومیری تمدن سے ملتا جلتا تھا۔ ہڑپہ اور موہنجو داڑو کی کھدائیوں نے ان کے تمدن کی عظمت کو ہمارے سامنے دکھا دیا ہے۔ ان شہروں کا تمدن صدیوں کی آغوش میں پلاہو گا۔ مصر ، عراق اور ایران کی تہذیبوں کے پہلو بہ پہلو دراوڑی تہذیب بھی اپنی قدامت اور عظمت کی داستان کھنڈرات کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔ موہنجوداڑواور ہڑپہ آریاؤں کے آنے سے صدیوں پہلے شہرت حاصل کر چکے تھے ۔ سندھ اور پنجاب کا تمدن مصر اور عراق کے ہم عصر تمدن سے کسی طرح پیچھے نہیں تھا۔ ان شہروں کے لوگ سوتی کپڑا بننا جانتے تھے۔ گھروں میں غسل خانے تھے۔ شہریوں کے مکان بہت بلند اور صاف ہوتے تھے۔ ان کا مذہب مصریوں اور سومیریوں سے ملتا جلتا تھا۔
آریا تقریبا 1500 قبل از مسیح یعنی حضرت عیس علیہ السلام سے 1500 سال پہلے شمالی ہند کی راہ سے ہندوستان میں داخل ہوے۔ سوم رس پینے والے جو ایک قسم کی شراب تھی جس کے پینے سے آنکھیں چمکدار ہو جاتی تھیں۔ آریا وسط اایشیا سے ہندوستان میں پیدل ننگے پاوں چل کر آئے ۔ گورا رنگ ساتواں ناک دراز قد جو وسط ایشیا سے ہندوستان کی زرخیزی دیکھ کر وارد ہوے۔ گھوڑے کا گوشت کھانے والے اور گھوڑی کا دودھ پینے والے آریا جفا کش دلیر اور بہادر تھے۔
قدیم ہند( بر صغیر)کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے قدیم باشندے چھوٹے قد کے اور سیاہی مائل رنگت کے تھے۔ وسطی ایشیا سے آریا اور راجپوت قبائل ان پر حملہ آور ہوئے اور ان کے مقابلے میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔
اس کے بعد انہوں نے تمام مقامی باشندوں کو مذہبی جبر و تشدد کے ذریعے اپنے مذہب کو اپنانے پر مجبو رکیا اور اس کے ساتھ ہی ذات پات کا نظام رائج کیا۔
آریاؤں کی آمد کے ساتھ ساتھ یا ان سے پہلے شمالی مشرقی ہندوستان برما بنگال آسام کے درّوں سے منگولی قومیں بھی ہندوستان میں دا۔خل ہوتی رہیں۔ آریا شمال مغربی ہندوستان کی راہ سے داخل ہوئے۔ شمالی ہندوستان میں وہ صدیوں تک دراوڑوں سے لڑنے کے بعد پنجاب پر قابض ہوئے۔ پنجاب سے وہ گنگا کی وادی میں پہنچے۔ جہاں آریاؤں کی سیاست اور تہذیب اپنے عروج پر پہنچی۔ مگدھ میں ایک عظیم الشان آریہ سلطنت کی بنیاد پڑی۔ مگدھ کی سلطنت کے زمانہ میں گوتم بدھ کا ظہور ہوا۔ گوتم بدھ ہمالیائی ریاست کپل وستو میں پیدا ہوے ۔بدھ نے اپنے زمانہ کی تمام مجلسی برائیوں کے خلاف بغاوت کی۔ اس کا مذہب عوام کی زبان میں عوام کے لئے تھا۔
گوتم بدھ کی تعلیمات میں سے ایک بات میٹرک 1965 کی تاریخ میں لکھی ایک بات یاد ہے۔
🌹دنیا دکھوں کا گھر ہے ۔ دکھ خواہشات سے پیدا ہوتے ہیں🌹
ایران کے بادشاہ سارا نے سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ سکندر نے بھی 336 قبل از مسیح میں ہندوستان کا رخ کیا۔ پورس نے اس کا مقابلہ کیا۔ سکندر دل چھوڑ کر یونانی فوجیں جہلم اور بیاس کے کناروں سے واپس ہوئیں۔ پاٹلی پترافتح کرنے کی ہوس لے کر سکندر کو واپس جانا پڑا۔ یونانی تہذیب نے شمالی ہندوستان کو متاثر کیا۔ سکندر کے جانے کے بعد پنجاب سے چند رگپت موریا اُٹھا۔ اس کے وزیر چانکیہ کی ’’ارتھ شاستر‘‘ نظم ونسق حکومت پر غالباً پہلی کتاب ہے۔ موریا خاندان کے شہنشاہ اشوک کا عہد حکومت رفاہ عامہ کے کاموں سے بھرا پڑا ہے۔ موریا سلطنت کی تباہی کے بعد پانچ سوسال تک ہندوستان میں کوئی مرکزی حکومت دکھائی نہیں دیتی۔ اس زمانہ میں ساکا او یوچی قوموں نے ہندوستان پردھاوا بولا۔ساکا قوم کا سب سے مشہور بادشاہ کنشک تھا۔ اسی زمانہ میں بدھ مت اور برہمن مت میں کشمکش ہوئی۔ پُران بھی اسی زمانہ کی یادگار ہے۔چوتھی صدی عیسوی میں گپت سلطنت قائم ہوئی۔ اب پاٹلی پترا کی جگہ اجین کو ہندوستان کی مرکزیت حاصل ہوئی۔ یہ زمانہ برہمن مت کے انتہائی عروج کا زمانہ ہے۔ بکر ما جیت اسی خاندان کا ایک حکمران تھا۔ گپت خاندان کے عہد حکومت میں ہندوستانی علوم وفنون اور صنعت وحرفت نے خوب ترقی کی ۔ ہندوستان اور روم میں تجارتی تعلقات قائم ہوئے۔ جنوبی ہندوستان کے لوگوں نے جاوا اور سماٹرا میں اپنی نوآبادیاں قائم کیں۔ گپت خاندان کے زوال کے بعد ہندوستان پھر بیرونی حملہ آوروں کا شکار ہوا۔ اب کےسفید ہن قوم نے شمالی ہندوستان کو تخت وتاراج کیا ٹیکسلا کو تبای برباد کیا آج بھی کھنڈرات موجود ہیں ۔ جاٹ اور گوجر اسی قوم کے مشہور قبائل تھے۔ مہر گل ہن قوم کا مشہور بادشاہ تھا۔ وہ ہاتھیوں کوپہاڑوں سے گرا کر ان کے مرنے کا تماشا کرتا اور خوش ہوتا۔ ساتویں صدی میں ہرش وردھن نے ہندوستان کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نظم ونسق کو ہیون سانگ ہم تک پہنچاتا ہے۔ ہرش وردھن اگر چہ بدھ مت کا پیرو کار تھا لیکن اس کے عہد میں شمالی ہندوستان میں برہمن مت نے زور پکڑ لیا تھا۔ لگ بھگ 600 عیسوی ہرش وردھن کی موت کے بعد ہندوستان کی مرکزیت ختم ہو گئی۔۔ اسلام اس وقت عرب کے صحراؤں میں پھل پھول رہا تھا۔
712 عیسوی میں محمد بن قاسم دیبل کے راستے غالبا کراچی کی طرف سے سندھ میں داخل ہوا ۔ راجہ داہر کو شکست دی اور ملتان تک پہنچا ۔ لیکن کوئی اسلامی ریاست نہیں بنائی لیکن سندھ کے لوگوں پر کافی اثر چھوڑا۔ سندھ کے لوگوں نے محمد بن قاسم کی مورتیاں بنا لیں۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام کو اختیار کیا۔
اسکے بعد افغان اور غزنی سے محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے۔
اسکے بعد محمد غوری نے لاہور کے راجہ جے پال کو شکست دے کر نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور اپنے ایک غلام قطب الدین ایبک کو اس کا سربراہ بنایا۔ یہ پہلی اسلامی ریاست تھی جو خاندان غلاماں کے نام سے مشہور ہوئی ۔ التمش۔ رضیہ سلطانہ اور غیاث الدین بلبن ۔مشہور باد شاہ تھے۔
التمش اور رضیہ سلطانہ کو خلجیوں نے فتح کیا۔ علاؤالدین خلیجی مشہور بادشاہ تھا۔ خلجیوں کو خاندان تغلق نے فتح کیا جونا خان محمد بن تغلق اور فیروز شاہ تغلق مشہور بادشاہ تھے۔
۔ جونا خان محمد بن تغلق کے زمانے میں مشہور سیاح ابن بطوطہ ہندوستان آیا۔ اور بہت معلومات اپنے سفر نامے میں لکھیں۔ فیروز تغلق اور غیاث الدین تغلو مشہور بادشاہ تھے
محمود شاہ تغلق کمزور بادشاہ تھا۔ امیر تیمور کے حملے نے تغلق خاندان کے وقت کو خاک میں ملا دیا دہلی کو تیمور لنگ نے تہس نہس کیا۔ اور دہلی میں خون کی ندیاں بہادیں۔ کھوپڑیوں کے مینار بنائے۔ امیر تیمور نے کوئی مستقل حکومت نہیں بنائی لوٹ مار کر کے چلا گیا۔ اور خضر خان نے خاندان سادات کی بنیاد ڈالی۔ سید خاندان کی کمزوری دیکھ کر بہلول لودھی نے دلی پر قبضہ کیا اور لودھی خاندان کی بنیاد ڈالی۔ سکندر لودھی اس خاندان کا مشہور بادشاہ تھا۔ سکندر لودھی نے آگرہ شہر آباد کیا اور آگرہ کو دارلحکومت بنایا ۔ سکندر لودھی کے بعد ایک کمزور حکمران ابراہیم لودھی بادشاہ بنا۔ جس کو بابر نے پانی پت کے میدان میں شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی۔
بابر وسط ایشیا کی ریاست فرغانہ کے امیر عمر شیخ میرزا کا بیٹا تھا۔ والد کی وفات کے وقت بابر کی عمر بارہ سال تھی۔ بھائیوں اور چچا کی مخالفت کی وجہ سے فرغانہ کو چھوڑ کر در بدر پھرتا رہا۔ پتھریلے پہاڑوں پر ننگے پاوں چلتے ہوے اس کے پاوں اتنے سخت ہو گئے کہ کانٹا چبھتے کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔ اس نے بارہ ہزار فوج اکٹھی کی اور کابل پر قبضہ کیا ۔ ہندوستان کی زرخیزی اور دولت دیکھ کر اس نے بارہ ہزار فوج سے ہندوستان پر حملہ کر دیا ۔1526 عیسوی میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی اور مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ رانا سانگا کو شکست دی اور اپنی سلطنت کو مظبوط کیا۔ بابر اتنا جفاکش تھا کہ دو آدمیوں کو اٹھا کر قلعے کی دیوار پر دوڑ لگاتا تھا۔

بابر بڑا مردم شناس تھا۔ ایک دفعہ بابر نے تمام حکومتی امرا؞ کو دعوت دی ۔ دعوت میں شیرشاہ سوری بھی امرا؞ میں شامل تھا ۔ شیرشاہ سوری نے بابر کے سامنے پڑا گوشت کا ٹکڑا اپنا خنجر نکال کر کاٹ کر کھانے لگا۔ دعوت ختم ہونے پر بابر نے اپنے ولی عہد ہمایوں کو تنبیہ کی کہ اس شخص شیرشاہ سوری سے بچ کر رہنا۔
پھر ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے شکست دی۔ ہمایوں ایران بھاگ گیا۔ جب شیر شاہ کے جانشین کمزور ہوے تو ایرانی بادشاہ کی مدد سے دوبارہ سوری حکمران پر حملہ کیا اور اسکو شکست دے کر بادشاہ بنا۔ لیکن پانچ سال کے بعد فوت ہوا۔
ہمایوں کے بیٹے اکبر کی عمر بارہ سال تھی۔ اس کے استاد بیرم خان نے جلال الدین اکبر کے نام سے اکبر کو تخت پر بٹھایا اور خود اس کا سرپرست بن گیا۔
اکبر نے پچاس سال حکومت کی دیں الہی کے نام سے ایک نیا دین جاری کیا۔ ہندو عورتوں سے شادی کی جہانگیر ایک ہندو عورت کے بطن سے پیدا ہوا۔
اکبر کے بعد جہانگیر تخت پر بیٹھا ۔ تزک جہانگیری میں زنجیر عدل کا ذکر ملتا ہے۔ اسکے بعد شاہ جہاں بادشاہ بنا ۔ شاہ جہاں کو عمارتیں بنانے کا شوق تھا اس کو انجینیر بادشاہ بھی کہتے ہیں ۔ تاج محل۔ شالیمار باغ اور ٹھٹھہ کی مسجد شاہ جہاں قابل ذکر ہیں۔ شاہ جہان بیمار ہوا تو اس نے بڑے بیٹے داعا شکوہ کو ولی عہد بنایا۔ اورنگزیب عالمگیر دکن میں مرہٹوں سے لڑ رہا ٹھا ۔ اس کو پتہ چلا تو تخت نشیمی کی جنگ چھڑی۔ جس میں اورنگ زیب فتح یاب ہوا۔ شاہجہاں کو قید کرکے بھائیوں کو شکست دی اور تخت پر بیٹھ گیا ۔ اس نے بھی پچاس سال حکومت کی ۔ لاہور کی بادشاہی مسجد اورنگزیب عالمگیر نے بنائی۔ اس کی وفات کے بیڈ جانشین کمزور ہوتے گئے تیمور اور مغل خون میں ملاوٹ کی وجہ سے سست ہو گئے۔ جس نی محمد شاہ رنگیلا جیسے بادشاہ پیدا کیے۔ نادر شاہ نے بھی دلی پر حملہ کیا خوب دولت لوٹی ۔ مشہور کوہ نور ہیرا اور تخت طاؤس بھی ساتھ لے گیا۔

ہنوستان جس کی دولت کے افسانے سکندر کے زمانے سے یورپ جا رہے تھے۔
واسکوڈے گاما ایک عرب ملاح کی مدد سے راس امید جنوبی افریقہ کا چکر کاٹتا ہوا ہندوستان (برصغیر)کے ساحلی مقام کالی کٹ پر پہنچا۔ ہندوستان کے لوگوںنے اپنی روایتی مہمان نوازی کے پیش نظر اس نوو ار د کا استقبال کیا۔کالی کٹ کے راجہ زیمورن کو کیا خبر تھی کہ بدو کے افسانوی اُشتر کی طرح پرتگیز بھی اسے خیمہ سے باہر نکالنے کی فکر میں ہیں۔ پرتگیزوں نے کالی کٹ میں ایک فیکٹری قائم کی۔ تین سال بعد کالی کٹ کے سینہ پر ایک پرتگیزی قلعہ نظر آیا۔ تھوڑی مدت بعد پرتگیزی عَلم گواکی دیواروں پر لہرایا۔ کالی کٹ کے لزبنی مہمانوں نے زیمورن کے شاہی محلات کو نذر آتش کرنے سے گریز نہ کیا۔ میز بان کی خدمت میں مہمان کا ہدیہ تشکر! پرتگیزی آخر اس ملک کے ساحل پر پہنچ گئے۔
1492 عیسوی میں کولنبس ہندوستان ڈھونڈتا ہوا امریکہ جا نکلا اور نیا بر اعظم امریکہ دریافت ہوا۔
اسٹریلیا بھی ایک جہاز ڈان جیمز کک نے دنیا کے گرد چکر پورا کرتے ہوے ڈھونڈ نکالا۔
انگریز بھی تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے ۔ مغل بادشاہ جہانگیر کو کچھ تحفے تحائف دیے اور تجارت کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے کے کچھ عرصے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کلکتہ میں قائم کی ۔ اور بڑھتے بڑھتے اسی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغلیہ سلطنت کو کھوکھلی کرنا شروع کر دیا۔ بالآخر 1858 کی جنگ آزادی میں مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے رنگوں بھیج دیا۔ اور وہاں ہی وہ فوت ہو گیا۔ اور انگریز پورے ہندوستان کے مالک بن گئے۔ 14اگست 1947 کو آزادی ملی۔ 🌹
🌹تاریخ میں بہت سے حملہ آور آتے رہے اور کچھ لاتے رہے۔ اور کچھ لے کر جاتے رہے ۔
آج سے تین ہزار سال پہلے جو لوگ موجود تھے اب ان کی نسلوں میں بہت ملاوٹ ہو گئی ہے۔ جو بھی آیا اپنا نشان چھوڑ گیا۔ خالص کوئی نہیں ۔ اسی طرح راجپوت بھی خالص نہیں رہے ۔ سارے حملہ آور اپنا حصہ ڈالتے رہے۔
مغل بھی خالص نہیں رہے۔ بابر چنگیز اور تیمور کا مکسچر تھا۔ اسکے بعد اکبر اعظم نے ہندووں سے شادی کی تو جہانگیر تو مکسچر تھا۔ آگے والے اسے بھی زیادہ مکسچر تھے۔ انگریزوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اور اینگلو انڈین کے نام سے نئی قوم وجود میں آئی۔
آج کے بر صغیر میں دیکھیں تو شمال مغرب کے لوگ گورے چٹے اور ساتواں ناک والے ہیں۔ شائد ہی کوئی پٹھان کالے رنگ کا ہو جو کراس نسل ہے۔ جوں جوں آپ جنوب کی طرف جائیں تو لوگ سانولی رنگت کے نظر آئیں گے ۔ گورے چٹے بھی ہیں۔ اور جنوبی ہندوستان میں کالے اور چپٹی ناک والے زیادہ ںظر آئیں گے۔ شائد ہی کوئی گوڑا اور گندمی ہو ۔ جو کراس نسل سے ہو گا۔ بنگال میں زیادہ تر لوگ کالے چپٹی ناک والے ہونگے۔ لیکن کچھ خوبصورت اور گندمی رنگت والے بھی نظر آئیں گے۔ فلمسٹار شبنم اس کی ایک مثال ہے۔
کراچی میں بھی کچھ لوگ حبشی نسل کے گھنگریالے بالوں والے ملیں گے جن کو مکرانی کہتے ہیں۔ یوں بر صغیر میں تمام حملہ آوروں اور باہر سے آنے والوں نے اپنا اثر ڈالا۔
حملہ آور دورہ خیبر کے ذریعے آتے رہے۔ آریا آئے۔ سکندر آیا منگول آئے۔ افغان۔ لودھی سوری۔ مغل جس راستے سے گزرتے گئے اپنا بیج بوتے گئے۔ کون خالص ہے؟۔ جو آدمی جرمنی سے شادی کرے اور بچے پیدا کرے۔ کیا وہ خالص ہے ؟
اگر کوئی ناروے یا انگلینڈ سے شادی کرے ۔ بچے پیدا کرے۔ کیا وہ خالص ہیں۔؟۔ نہیں مکس ہیں۔ بچے یہاں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتے ۔ہم سب کراس ہو کر نئی نئی نسلیں نکل رہی ہیں۔ اصلی کوئی نہیں

صدیاں گزر گئیں ۔ اسلام تو چودہ سو سال پہلے آیا تھا۔
لیکن 3000 سال پہلے آریا آئے اور سکندر بھی اسلام سے پہلے آیا بلکہ حضرت عیس علیہ السلام سے پہلے بھی کافی حملہ آور آئے۔ اس وقت نکاح کا کوئی concept نہیں تھا۔ سب رل مل گئے۔ گڈ مڈ ہو گیا۔ کیا خیال ہے۔ 😪
کراس ہو کر کیا سے کیا چیز بن رہی ہے ۔ خچر۔ گائے دیسی سے ولائیتی ۔
🌹لال سیب ۔ پیلے سیب۔ کالے سیب ۔۔سفید سیب۔
اب شملہ ۔مرچ کو ہی دیکھ لیں۔ سرخ۔ پیلی سبز۔ نیلی۔ جامنوں۔ اسی طرح کراس ہو کر نئی نسلیں نکل رہی ہیں۔ امریکہ میں دیکھیں کالے اور گورے کراس ہو رہے ہیں ہمارے برصغیر شروع سے حملوں کی زد میں رہا۔ سب مکسچر ہیں مغل بابر تو دو قوموں سے تعلق تھا۔ چنگیز اور تیمور اسے آگے چل کر اکبر نے ہندووں سے شادی کی جہانگیر ہندو عورت سے تھا۔ اور آگے جا کر مغل خالص نہیں رہے ۔ اور بادشاہ سست ہو گئے
محمد شاہ رنگیلا ۔ بہادر شاہ ظفر بابر کی طرح نہیں تھے ۔ ارتقاء اور کیا ہوتا ہے یہی عمل ارتقاء ہے۔ ❤
😪ہمارے آباؤ اجداد کوئی سعودی عرب سے نہیں آئیے تھے۔ اسلام تو آیا 610 عیسوی میں۔ اور ہمارے پاس دو تین سو سال بعد آیا اسے پہلے لوگ یا بدھ ازم یا ہندو ازم مانتے تھے۔ ابھی بھی ٹیکسلا ۔سوات۔ افغانستان میں مہاتما بدھ کی مورتیاں اور کھنڈرات موجود ہیں۔ ہم ہندوں سے مسلمان ہوے ہیں 🤔
مغل بادشاہ تاج محل قلعے بنواتے۔ اور دال رو ٹی پکتی ۔ اسی روٹی پر گزارا ہوتا۔ فوج میں جو سپاہی لڑتے وہ بھی روٹی دال کی خاطر۔ تنخواہ کا کوئی concept نہیں تھا۔ اور نہ ہی اتوار کی چھٹی۔
یہ انگریز دور میں ملزمین کو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ ملتی تھی اور ہفتے میں ملازمین کو ایک اتوار کی چھٹی ہوتی۔
یہ سب میرے والد صاحب بتاتے تھے۔ کہ پہلے انگریزوں کے دور میں بھی کما کر کھاتے ہیں اور آزادی کے بعد بھی کما کر کھاتے ہیں ۔ اور بزرگوں سے بھی یہی سنا۔🌹
🌹تحریر و تحقیق راجہ قدیر🌹

15/06/2023

. جاپان اور جاپانی لوگ

ٹوکیو شہر کے درمیان 16مرلے کا ایک عام سا گھر ہے‘ یہ گھر کسی بھی طرح قابل توجہ یا پرکشش نہیں‘ آپ اگر پاکستانی ہیں تو آپ اس پر توجہ دیے بغیر چپ چاپ گزر جائیں گے لیکن میں اگر آپ کو یہ بتا دوں یہ دنیا کی ساتویںبڑی کار ساز کمپنی ہونڈا کے سی ای اوکا گھر ہے تو کیا آپ پھر بھی اس پر توجہ نہیں دیں گے؟ آپ یقینا اس کی طرف متوجہ ہو جائیں گے‘

ہونڈا نے 2022ء میں چار ملین گاڑیاں اور17ملین موٹر سائیکل بیچے تھے‘ کمپنی کی برینڈ ویلیو 22بلین ڈالر ہے لیکن اس کا سی ای او 16 مرلے کی عام سی عمارت میں رہتا ہے‘ کیا یہ اچنبھے کی بات نہیں؟ یہ یقینا ہے مگر یہ اچنبھا صرف ہم جیسے چھوٹے دماغ اور بڑی انا کے لوگوں کے لیے ہے جب کہ جاپان میں یہ عام سی بات ہے‘ جاپانی لوگ چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں‘ ان کا گھر کسی بھی طرح دو تین مرلے سے بڑا نہیں ہوتا‘ ایک جدید مگر کامن باتھ روم‘ ایک ٹی وی لائونج کم ڈرائنگ روم اور زیادہ سے زیادہ دو بیڈرومز اور گھر ختم۔ اب سوال یہ ہے جاپانی چھوٹے گھروں میں کیوں رہتے ہیں؟ اس کی چار وجوہات ہیں‘ یہ لوگ صفائی کے خبط میں مبتلا ہیں‘ عام جاپانی سے لے کر وزیراعظم تک پورا ملک اپنا گھر خود صاف کرتا ہے اور یہ صفائی ہاتھ کے ساتھ مل مل کر کی جاتی ہے‘ پورا گھرانہ دن میں تین چار مرتبہ گھر کی صفائی کرتا ہے‘ باتھ رومز اور کچن تک خود صاف کیا جاتا ہے‘ شہروں میں ڈسٹ بین اور کچرا گھر نہیں ہیں‘ آپ خالی بوتل لے کر سارا دن پھرتے رہیں آپ کو پھینکنے کی جگہ نہیں ملے گی‘ کیوں؟ کیوں کہ جاپانی باہر کچرا نہیں پھینکتے‘ یہ اپنا گند بیگ میں ڈال کر گھر لے جاتے ہیں‘ تھیلے میں ڈالتے ہیں اور میونسپل کمیٹی کا عملہ یہ تھیلے گھروں سے لے کر جاتا ہے‘ سکول میں چھوٹے بچوں کو بھی صفائی کی ٹریننگ دی جاتی ہے‘sطالب علم صبح سکول آ کر پہلے اساتذہ کے ساتھ سکول کی صفائی کرتے ہیں‘ باتھ روم اور شیشے چمکاتے ہیں اور پھر کلاسز شروع ہوتی ہیں‘ وزیراعظم بھی اپنی میز چمکا کر گھر جاتا ہے اور صبح آ کر دوبارہ اپنا دفتر صاف کرتا ہے‘ بچے سکول جاتے اور واپس آتے وقت بھی سڑکوں سے سگریٹ کے ٹوٹے اور کاغذ چنتے رہتے ہیں‘ واش روم ہر شخص استعمال کے بعد چمکا کر باہر آتا ہے‘

مجھے نو دنوں میں کسی بھی جگہ کوئی واش روم گندایا گیلا نہیں ملا اور میں نے کسی واش روم میں صفائی کرنے والا ملازم بھی نہیں دیکھا‘ ٹرین سٹیشن کے واش روم تک بے بو‘ خشک اور صاف تھے لہٰذا جاپانی لوگ صفائی کی وجہ سے بھی چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں بڑے گھروں کا مطلب زیادہ صفائی ہے اگر گھر بڑا ہو جائے گا تو ہمیں زیادہ صفائی کرنا پڑے گی چناں چہ چھوٹے گھروں میں رہ کر وقت بچائیں‘ دوسری وجہ چھوٹے گھروں میں بجلی‘ گیس اورپانی کے اخراجات کم ہوتے ہیں‘

یہ لوگ من حیث القوم بچت کے عادی ہیں‘ آپ کو کوئی جاپانی فضول خرچی کرتا نظر نہیں آئے گا‘ یہ لوگ پیسہ پیسہ بچاتے ہیں چناں چہ حکومت اکانومی چلانے کے لیے بینکوں میں رقم جمع کرانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے‘ بینک کھاتے داروں کو سود دینے کی بجائے سروسز چارجز کاٹ لیتے ہیں‘ اس لحاظ سے جاپان شاید دنیا کا واحد ملک ہو گا جس میں بینک میں پڑی رقم زیادہ ہونے کی بجائے کم ہوتی چلی جاتی ہے‘

بڑے گھر بچت کے فارمولے میں بھی ایڈجسٹ نہیں ہوتے لہٰذا یہ چھوٹے گھروں کو پسند کرتے ہیں‘ تیسری وجہ یہ مہمانوں کو گھر نہیں بلاتے‘ والدین بھی اگر بچوں سے ملنے آتے ہیں تو یہ ہوٹل میں رہتے ہیں ‘ ریستوران میں بیٹوں اور بیٹیوں کو ملتے ہیں اور مل کر واپس چلے جاتے ہیں چناں چہ ان کی نظر میں بڑے گھر بے کار ہوتے ہیں اور چار جاپان دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جہاں وقت کے ساتھ گھروں کی قیمت بڑھنے کی بجائے کم ہوتی ہے‘

دنیا بھر میں ہر سال پراپرٹی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ جاپان میں گھر کی ویلیو میں کمی ہوتی ہے لہٰذا لوگ بڑے گھر کو نقصان دہ سودا سمجھتے ہیں اور جاپان اس لحاظ سے ایک مختلف ملک ہے۔جاپان صرف گھروں کے معاملے میں مختلف ملک نہیں بلکہ یہاں زندگی کا ہر رنگ باقی دنیا سے مختلف ہے‘ یہ لوگ انتہائی سادہ ہیں‘ کم پر گزارہ کرتے ہیں‘ بچے پیدل اور سائیکل پر سکول آتے ہیں‘
کوئی والد کسی بچے کو گاڑی پر سکول نہیں چھوڑتا‘ اس کی وجہ بچوں کو احساس کمتری سے محفوظ رکھنا ہے اگر ایک بچہ گاڑی اور دوسرا پیدل یا سائیکل پر آئے گا تو دونوں کے درمیان غربت یا امارت کی دیوار کھڑی ہو جائے گی اور جاپان بچوں کے درمیان یہ دیوار نہیں بننے دیتا چناں چہ بچے پیدل سکول جائیں گے خواہ وہ وزیراعظم یا ٹویوٹا کے سی ای او کے بچے ہی کیوں نہ ہوں‘

بچوں کو سکول پہنچانے کا سسٹم بھی انتہائی دل چسپ ہے‘رہائشی بلاک کا کوئی ایک شخص یا خاتون ریٹائرمنٹ کے بعد بچوں کو سکول چھوڑنے اور واپس لینے کی ذمہ داری اٹھا لیتی ہے‘ یہ مستقل ذمہ دار ہوتی یا ہوتا ہے جب کہ اس کے علاوہ باقی بچوں کے والدین میں سے کوئی ایک روزانہ کی بنیاد پر ڈیوٹی دیتا ہے‘ ایک دن ایک والد یا والدہ ہو گی اور دوسرے دن دوسری والدہ یا والد یہ ذمہ داری اٹھا ئے گا‘ بلاک کے تمام بچے وقت مقررہ پر اپنے گھر سے باہر آ جاتے ہیں‘ مستقل اور عارضی ذمہ دار جھنڈا اٹھا کر باہر کھڑا ہو گا‘

بچے ان کے گرد جمع ہوں گے‘ ایک ذمہ دار بچوں کے آگے چلے گا اور دوسرا قطار کے آخری سرے پر‘ تمام بچوں نے سر پر ہیلمٹ پہنا ہوگا‘ ان کے ہاتھ میں چھتری ہوگی اور یہ قطار میں سکول پہنچیں گے اور چھٹی کے وقت قطار میں واپس آئیں گے اور اپنے اپنے گھر میں داخل ہوتے چلے جائیں گے‘ بچوں کو لنچ سکول میں دیا جاتا ہے اور ٹیچر اپنی نگرانی میں وہ ختم کراتی ہے اور لنچ میں دودھ لازم ہے‘

چھوٹے بچوں کو سکول میں سلایا بھی جاتا ہے تاکہ ان کی نیند پوری ہو سکے‘ بچے 16 سال کی عمر تک اس طرح سکول آتے اور جاتے ہیں‘ 16 سال بعد یہ انڈی پینڈنٹ ہو جاتے ہیں‘ بچوں کی سکول فیس والدین کی سالانہ آمدنی کے مطابق ہوتی ہے‘ والدین زیادہ کما رہے ہیں تو بچوں کی فیس زیادہ ہو گی‘ آمدنی کم ہے تو فیس کم ہو گی اور والدین اگر بے روزگار ہیں تو بچے کی فیس معاف ہو جائے گی تاہم بچے کو فیس کے بارے میں ہرگز نہیں بتایا جاتا‘ یہ خودکار نظام ہے‘ کوئی کسی کو اطلاع نہیں دیتا‘ بچوں کا میڈیکل بھی فری ہوتا ہے‘

انشورنس لازمی ہے تاہم انشورنس کی 70فیصد رقم حکومت اور 30 فیصد لوگ دیتے ہیں‘ گھروں اور ریستورانوں میں فریش فوڈ تیار ہوتا ہے‘ تیار خوراک فریج میں نہیں رکھی جاتی چناں چہ یہ صرف اتنا پکاتے اور آرڈر کرتے ہیں جتنا یہ کھا سکتے ہیں‘ اضافی خوراک ضائع کر دی جاتی ہے‘ پورے ملک میں پرندوں کو دانا نہیں ڈالا جاتا‘ یہ لوگ سمجھتے ہیں پرندوں کو دانا ڈالنے سے ان کی پرواز بھی محدود ہو جاتی ہے اور ان کی خودمختاری اور آزادی بھی کم ہو جاتی ہے‘
پرندوں کو اپنی خوراک کا خود بندوبست کرنا چاہیے‘ جاپان میں بھکاری نہیں ہیں‘ اس کی وجہ جاپانیوں کی سیلف ریسپکٹ ہے‘ یہ لوگ کسی کو فری چیز دیتے ہیں اور نہ لیتے ہیں‘ آپ اگر انہیں کوئی چیز آفر کریں تو یہ مائینڈ کر جاتے ہیں‘ میں نے فیوجی کے ایک پارک میںمچھلیوں کو دانا ڈالنے کے لیے دانے کا پیکٹ خریدا‘ میرے ساتھ ایک بچہ بھی کھڑا تھا‘ میں نے چند دانے اسے بھی پکڑا دیے اور وہ بھی میرے ساتھ مچھلیوں کو دانا ڈالنے لگا‘

اس کی ماں نے دیکھا تو وہ دوڑتی ہوئی آئی اور بچے کے ہاتھ سے دانے چھین کر مجھے واپس کر دیے اور میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا‘ یہ لوگ دوسروں کو جھک کر ملتے ہیں‘ آپ کسی سے راستہ پوچھ لیں وہ اپنا کام چھوڑ کر آپ کے ساتھ چل پڑے گا اور آپ کو پہنچا کر آئے گا یا پھر راستے پر چھوڑ کر آئے گا‘ نہایت عاجزی کے ساتھ جھک کر شکریہ ادا کرتے ہیں‘ آپ کسی دکان میں چلے جائیں‘

سیلزمین یا گرل سروس کی انتہا کر دے گی‘ وہ فرش پر بیٹھ کر آپ کے جوتے تک اتروائے گا‘ یہ لوگ گھروں اور دفتروں میں جوتے لے کر نہیں آتے‘ جوتے مین دروازے کے ساتھ اتارے جاتے ہیں اور گھر کے سلیپر پہن کر اندر داخل ہوتے ہیں‘ یہ اہتمام پرائیویٹ دفتروں میں بھی ہوتا ہے‘ گھروں میں زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں‘ پانی برفیلا اور ٹھنڈا پیتے ہیں‘ پورا ملک گرین ٹی پیتا ہے‘

یہ ٹی اوچا کہلاتی ہے اور بوتلوں اور کین میں بھی ملتی ہے‘ یہ لوگ ٹپ نہیں لیتے‘ آپ اگر دیں تو یہ برا منا جاتے ہیں‘ سٹورز سے فالتو چیزیں نہیں خریدتے‘ مجھے عرفان صدیقی نے بتایا 2011ء کے سونامی میں کروڑ سے زیادہ لوگ میٹرو سٹیشنز اور سڑکوں پر پھنس گئے تھے‘ یہ لوگ اس بحران میں بھی سٹور سے پانی کی صرف ایک بوتل اور دو بسکٹ خریدتے تھے تاکہ خوراک کی قلت نہ ہو اور لوگوں کو تکلیف نہ ہو‘

یہ قطار بنانے کے خبط میں بھی مبتلا ہیں‘ ایک شخص بھی ہو گا تو وہ قطار بنا لے گا اور جب تک کائونٹر بوائے فارغ نہیں ہوگا یہ اس سے مخاطب نہیں ہوگا اور کائونٹر بوائے بھی جب تک سامنے کھڑے شخص کا کام مکمل نہیں کرے گا یہ دوسرے شخص کی طرف متوجہ نہیں ہوگا خواہ اس میں کتنے ہی گھنٹے کیوں نہ لگ جائیں‘ سچ بولتے ہیں اور یہ سچ خواہ ان کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ کر دے یہ باز نہیں آتے‘

مجھے عرفان صدیقی نے بتایا‘ میں نے ایک بار پولیس اہلکار کو دیکھ کر سیٹ بیلٹ باندھ لی‘ میری بیٹی نے فوراً کانسٹیبل کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اسے بتایا میرے بابا سیٹ بیلٹ کے بغیر آ رہے تھے‘ انہوں نے آپ کو دیکھ کر بیلٹ باندھی اور کانسٹیبل نے ہنس کر مجھے وارننگ دے دی اور یہ ہے جاپانی کریکٹر‘ سچ‘ عاجزی اور صفائی۔

جاوید چوہدری کالم

15/06/2023

🇵🇰 Pakistan Needs Your Help! 🙌

As an overseas Pakistani, can you hire a virtual assistant on WhatsApp in Pakistan to create a job in Pakistan and pay $100 a month? 💼💸

This will provide the following benefits to the person you hire:
1️⃣ They will earn $100 or 32,000 PKR a month with the dignity of a job. 💰💼
2️⃣ Gain international work experience! 🌍✨
3️⃣ Understand the international market better. 🌐📈
4️⃣ Become more valuable than just $100 in 6 months by learning and growing with you. Then, you can offer that assistant to someone else for $500 a month and hire another one for yourself. 💪💼💡
5️⃣ Help generate foreign exchange for Pakistan! 🌍💱 If we employ 10 million people like this, we could potentially send $12 billion a year to Pakistan. 🇵🇰💼💸
6️⃣ Benefit from mentorship, ensuring they don't make the same mistakes as you did. 🙏💡

Value to you:
1️⃣ Accomplish more work as your assistant can handle all your online tasks, helping you grow yourself and your business. 💼🚀
2️⃣ Have more family time as your assistant takes care of the workload. 👪⌛

Why overseas Pakistanis? 🌍🇵🇰
1️⃣ Every overseas Pakistani wants to contribute to Pakistan, but they often don't know how. With this initiative, we can empower and uplift Pakistan while building self-confidence among Pakistanis. This goes beyond charity. 🤝💪
2️⃣ Westerners may not be comfortable hiring someone in Pakistan for $100 a month, but Pakistanis understand the language, culture, problems, and benefits. 🤝🌍🇵🇰
3️⃣ You get the opportunity to mentor one or more Pakistanis, making a lasting impact. 🧑‍🏫🇵🇰💡

This way, we can truly train, empower, and create 10 million+ jobs for Pakistan while being outside the country! 🌍🇵🇰

You can hire them openly on 100 Dollar Intern directly and open a instant bank account on NayaPay or SadaPay and pay them instantly for free via easypaisa or JazzCash

السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہاگر خدانخواستہ آپکا انڈرائیڈ فون گم یا چوری ہو جائے تو فون کو ٹریس کرنے یا واپس حاصل ک...
13/06/2023

السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ
اگر خدانخواستہ آپکا انڈرائیڈ فون گم یا چوری ہو جائے تو فون کو ٹریس کرنے یا واپس حاصل کرنے کے یہ پانچ ممکنہ طریقے ہو سکتے ہیں۔ کوشش لازمی کرنی چاہیے۔ 100 فیصد تو نہیں لیکن کافی حد تک چانس ہیں فون واپس ملنے کے۔ میں نے اپنے ایک دوست کا چوری ہوا فون 8 ماہ بعد واپس ملتے دیکھا۔ اور فیس بک فرینڈ نے بھی کنفرم کیا کہ اسے چوری ہوا فون واپس مل گیا تھا۔

تحریر محمد رضوان کمبوہ

✅ Find my phone.
ہر انڈرائیڈ فون میں جی میل آئی ڈی لاگ ان ہوتی ہے۔ اگر آپکا فون گم ہو جائے تو اس کے آف یا ری سیٹ ہونے سے پہلے پہلے آپ کسی اور موبائل یا لیپ ٹاپ میں گم ہوئے فون والی جی میل آئی ڈی لاگ ان کر کہ گوگل میں Find my phone لکھیں گے تو پہلی ویب سائٹ پر کلک کرنے پر آپ کے سامنے فون کی لوکیشن شو ہو جائے گی فون کا Imei نمبر فون کی بیٹری پرسنٹیج اور موبائل کس انٹرنٹ سے کنیکٹ ہے شو ہو جائے گا۔ لیکن اگر فون چوری ہو جائے تو چور سب سے پہلے فون آف کرے گا تو چور فون آف نہ کر سکے اور آپ خود فون ٹریس کر سکیں اس کے لیے اگلے طریقے کی طرف بڑھتے ہیں۔
✅ Phone Tracking App.
فون میں پہلے سے ایک ایپ انسٹال کر کہ رکھیں جس کا نام Hammer Security ہے یہ ایپ فون کی لوکیشن کیمرہ کی تصویریں اور مائک کی ریکارڈنگ حاصل کر سکتی ہے اور چور موبائل آف نہ کر سکے اس کے لیے اس ایپ میں یہ سسٹم موجود ہے کہ یہ ایپ فون کو آف نہیں ہونے دیتی پاور آف بٹن دبانے پر ایک فیک پاور آف بٹن شو ہوگا اسے دبانے پر فون فیک آف ہوگا یعنی سکرین آف ہو جائے گی لیکن فون اصل میں آن ہی ہوگا اور آپ اس ایپ کی ویب سائٹ سے فون کی تمام معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور ٹریس کر سکتے ہیں۔ سکرین شاٹس کی مدد سے اس ایپ کے مکمل استعمال پر میری ایک پوسٹ موجود ہے۔ پوسٹ کا لنک 👇 https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=136597732478296&id=100083842096935&mibextid=Nif5oz
✅ Sim Change SMS
اس سے پہلے جو دو طریقہ کار کا اوپر زکر کیا ان دونوں کے لیے موبائل میں انٹرنیٹ ہونا ضروری ہے لیکن اب جو طریقہ بتانے لگا ہوں اس میں انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں ہے اس طریقہ کار میں آپ نے موبائل میں ایک ایپ انسٹال کرنی ہے جس میں آپ نے کوئی بیک اپ نمبر یا گھر کا نمبر دے دینا ہے۔ جب آپ کے چوری شدہ موبائل میں جب کوئی سم ڈالی جائے گی تو اس سم سے آپ کے اس نمبر پر ایک SMS آجائے گا جس سے آپکو موبائل میں چلنے والے نمبر کا معلوم ہو جائے گا۔ لیکن اس کے شرط یہ ہے کہ سم میں ایک SMS کا بیلنس ہو اور موبائل کو ری سیٹ نہ کیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے LEO Security نامی ایپ پلے سٹور ہر موجود تھی جس میں یہ فنگشن موجود تھا لیکن اب پلے سٹور پر موجود نہیں ہے۔

ایک نارمل انسان یہ اوپر بتائے گئے تین طریقے ہی استعمال کر سکتا ہے اور ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ یہ موبائل گم ہونے اور چوری ہونے کے فوراً بعد کیے جائے اور اگر موبائل کو ری سیٹ کر دیا جائے تو پھر اوپر بتایا کوئی بھی طریقہ کام نہیں کرے گا۔ موبائل کے IMEI نمبر سے ٹریکنگ ایک نارمل انسان کے لیے ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ایسی چیزیں عام عوام کے لیے موجود ہوتی ہیں.

✅ Police Report
اپنے چوری ہوے یا گم ہوے موبائل کی پولیس میں رپورٹ لازمی درج کروانی چاہیے ایک تو موبائل کے ملنے کے چانس ہوتے ہیں دوسرا اگر آپ کا موبائل کسی واردات میں استعمال ہوتا ہے تو اگر آپ نے رپورٹ کروائی ہو تو آپ کی بچت ہو جائے گی ورنہ آپ پھنس بھی سکتے ہیں۔ پولیس سے لازمی اپنے موبائل کا imei نمبر ان کے سسٹم میں ڈلوائیں۔ جتنے بھی دوکان دار ہیں ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ e gadtes نامی ایپ میں کوئی بھی موبائل خریدنے سے پہلے چیک کریں۔ اگر آپکا موبائل کسی دوکان پر بکنے کے لیے آتا ہے تو پولیس کو فورآ اطلاع کی جائے گی اور موبائل لانے والے کو پکڑ لیا جائے گا اور پولیس آپکو کال کرے گی کہ آپکا موبائل مل گیا ہے آ کر لے جائیں۔ موبائل ملنے میں ٹائم لگ سکتا ہے لیکن موبائل ملنے کے چانس ہیں میں خود اس طرح موبائل ملنے کا چشم دید گواہ ہوں۔
✅ Private Tracking
اس طریقہ کار میں پیسے دے کر اپنے موبائل کا imei نمبر ٹریس کروایا جاتا ہے۔ ٹریکنگ تو موبائل کمپنی اور کسی ادارے کے ذریعے ہی ہوتی ہے لیکن اس میں لوگ مڈل مین کا کردار ادا کرتے ہیں یعنی آپ سے پیسے لے کر آپکو ٹریس کروا کر دیتے ہیں۔ موبائل میں چلنے والی سم کا نمبر اور جس کے نام پر سم ہے اسکا نام ایڈریس شناختی کارڈ نمبر اور لوکیشن مل جاتی ہے۔

اوہ اچھا.... اب سمجھ آئ🤣
12/06/2023

اوہ اچھا.... اب سمجھ آئ🤣

12/06/2023

🌹🌹چائے اور تاریخ🌹🌹

ترتیب و انتخاب: ایم عمر روشان

چائے کی ابتدا کے متعلق تاریخ میں کئی کہانیاں درج ہے جن میں سے دو تین کہانیاں زیر قلم لایا ہے.
* تین ہزار قبل مسیح چین کا شہنشاہ شنانگ ہمیشہ ابلا ہوا پانی پیا کرتا تھا۔ ایک سفر میں خادم کیتلی میں پانی ابال رہے تھے۔ سوکھی ٹہنیوں کی آگ جلائی جا رہی تھی کہ سوکھی ٹہنی کے چند خشک پتے کیتلی میں گر گئے۔ پتوں کی وجہ سے پانی قدرے رنگدار ہوگیا۔ جلدی میں یہی پانی شہنشاہ شنانگ نے پی لیا۔ شنانگ کو پانی کا ذائقہ پسند آیا اور ان جھاڑیوں کے بیج جمع کرلئے گئے۔ یہ دنیا میں چائے کا پہلا گھونٹ تھا جو کسی انسان نے بھرا۔

* جاپان میں یہ واقعہ زبان زد عام ہے کہ پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں ایک ممتاز بدھ راہب ہر وقت گیان دھیان میں مصروف رہتا تھا۔ اس کا نام کیمپفر تھا۔ اس نے ہر طرح کا آرام اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا۔ وہ مسلسل کئی کئی راتیں جاگ کر گزارتا تھا، مگر ایک دفعہ وہ فطری نیند کے ہاتھوں ایسا مجبور ہوا کہ نفس کشی کا ماہر ہونے کے باوجود، وہ نیند پر قابو نہ پا سکا اور خود بخود اس کی پلکیں بند ہوتی چلی گئیں۔ جب آنکھ کھلی تو اپنے نفس کی اس عیاشی پر بہت جھنجھلایا اور اسے سزا دینے کے لیے اپنی دونوں پلکیں اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیں۔ پلکوں کا زمین پر پھینکنا تھا کہ وہاں ایک پودا پھوٹ پڑا۔ بدھ راہب نے اس کے پتے توڑے اور چبانے کےلیے منہ میں رکھ لیے۔ اس کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب اسے ان کے چباتے ہی اپنے جسم میں ایک نئی قسم کی توانائی محسوس ہوئی اور ’’نیند بی بی‘‘ اس سے کوسوں دور چلی گئی۔ بعد میں اس بدھ راہب نے نیند بھگانے کا یہ نسخہ اپنے شاگردوں کو بھی بتا دیا۔
* ایک اور واقعہ درج ہے کہ زمانۂ قدیم میں چین کا ایک شہنشاہ اپنے ایک مصاحب سے ناراض ہو گیا اور اسے دیس نکالا دے دیا۔ وہ غریب مدتوں جنگلوں، ویرانوں اور پہاڑوں میں در بدر ٹھوکریں کھاتا رہا۔ کھانے پینے کی کوئی چیز اس کے پاس باقی نہ رہی۔ ایک دن بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر وہ ایک پہاڑ کے دامن میں ہمت ہار کر گر گیا۔ کچھ دیر بعد ہوش آئی تو بھوک نے پھر تڑپا کر رکھ دیا۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے وہاں پر اُگی ہوئی ایک گھاس کے پتے توڑ توڑ کر کھانا شروع کر دیئے، مگر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے محسوس کیا کہ صرف اس کی بھوک کی تسکین ہی نہیں ہوئی بلکہ اس کے جسم میں نئی قوت بھی آ گئی ہے۔ کئی روز تک وہ دامن کوہ میں مقیم رہا اور اس گھاس کو بطور غذا استعمال کرتا رہا۔ جس سے اس کی صحت قابل رشک ہو گئی۔ وہ وہاں سے شہر لوٹ آیا اور بادشاہ کے مصاحبین اس سے عجیب و غریب گھاس کا زکر کیا جو اس کی حیات نو کا سبب بنی۔ مصاحبین سے یہ بات بادشاہ تک پہنچی۔ اس معتوب درباری کو طلب کیا گیا اور بادشاہ اس کی قابل رشک صحت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شاہی طبیبوں کو اس کے ساتھ بھیجا گیا اور پہاڑوں سے وہ گھاس منگوا کر تجربہ کیا گیا تو وہی فوائد ظاہر ہوئے جو اس مصاحب نے بیان کیے تھے۔
چنانچہ اس وقت سے اس گھاس، یعنی چائے کا استعمال شروع ہو گیا۔ عرصہ دراز تک وہ بطور ٹانک شاہی خاندان اور امرائے حکومت تک محدود رہی۔ پھر عام لوگ بھی اسے استعمال کرنے لگے اور آہستہ آہستہ چین کے لوگوں کا قومی مشروب بن گئی۔

چائے کا پودا چین سے دوسرے تمام ملکوں میں مسلمان سیاحوں کے ذریعے پہنچا۔ اب دنیا کے تقریباً46 ملکوں میں چائے کاشت کی جارہی ہے.دنیا میں سب سے زیادہ چائے ہندوستان میں دوسرے نمبر پر چین میں پیدا ہوتی ہے.

جہاں تک برصغیر میں چائے کے تعارف کاتعلق ہے وہ انگریز بہادر کے ذریعہ ہوا، جو تجارت کی آڑ میں ہندوستان میں قابض ہو گئے۔ جہاں جہاں ان کے قدم پہنچے وہاںوہاں چاہے بھی پہنچی۔1857ء میں جنگ آزادی کے بعد فرنگیوں نے جب پورے ملک پر قبضہ کر لیا تو چائے نے بھی اپنا تسلط جما لیا۔ انگریز تو1947ء میں رخصت ہو گیا لیکن چائے کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی۔ برصغیر والوں نے چائے نوشی میں یورپ اور چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کے بغیر اب نہ کوئی تقریب مکمل ہوتی ہے، نہ مہمان نوازی کے تقاضے پورے ہوتے.
شروع شروع میں چائے کمپنیوں نے گاؤں گاؤں جا کر مفت چائے پلا کر اس کا ایسا چسکہ ڈالا کہ وہ غیر رسمی طور پر یہاں کا قومی مشروب بن کر رہ گئی۔

لفظ چائے، دراصل چینی زبان کا لفظ ہے، جو دو لفظوں سے مرکب ہے ’چا‘ اور ’ئے‘۔ چاء اس مشروب کو کہتے ہیں جس میں یہ بوٹی ڈال کر گرم کر کے اس کا عرق نکالا جاتا ہے اور ’ئے‘ پتی کو کہتے ہیں، جو پینے کے لیے نہیں بلکہ پھینکنے کےلیے ہوتی ہے۔ لغوی معنوں میں سبز گھاس کو کہا جاتا ہے لیکن اصطلاحاً اس پودے کے لیے استعمال ہونے لگا جس سے ’’چاء‘‘ بنائی جاتی ہے۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں اس کے لیے بولا جانے والا لفظ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ چینی زبان ہی سے اخذ کیا گیا ہے۔

چائے، ایک جھاڑی نما پودے کی پتیاں ہیں، اس کا پودا بڑی حفاظت اور احتیاط کے ساتھ پرورش پاتا ہے۔ اس کے پودوں کو پہلے گملوں میں بویا جاتا ہے. شروع میں ان کا رنگ بھورا ہوتا ہے جو پختہ ہونے پر سبز ہو جاتا ہے۔ اس کا پھول سفید رنگ کا ہوتا ہے اور اتنا خوشبودار کہ میلوں تک اس کی مہک جاتی ہے۔ اس کے پتوں میں تلخی ہوتی ہے لیکن ابالنے سے زائل ہو جاتی ہے۔ چائے کی پتیاں تین سال بعد چننا شروع کی جاتی ہیں اور سال میں تین بار توڑی جاتی ہیں۔

اقسام

چائے کی ایک ہزار سے زیادہ اقسام ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر خود رو ہیں، لیکن بلحاظ رنگت تین قسمیں زیادہ مشہور ہیں۔ سفید، سبز اور سیاہ۔ سب سے بہتر وہ سفید چائے ہے جو خوشبودار ہو اور جن کی پتیاں ادھ کھلی ہوں لیکن یہ قسم کم یاب ہے۔اس کے بعد سبز چائے کا نمبر آتا ہے مگر اس میں خشکی زیادہ ہوتی ہے۔ سب سے گھٹیا قسم سیاہ رنگت والی ہے جو ہمارے ہاں زیادہ تر استعمال کی جاتی ہے۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور گھٹیا سے گھٹیا چائے ایک ہی پودے سے تیار کی جاتی ہے۔ سبز چائے ان پتیوں پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں تھوڑی دیر سکھا کر فوراً ہی اکٹھا کر لیا جاتا ہے۔ اس میں چائے کی تمام خصوصیات موجود رہتی ہیں۔ کالی چائے زیادہ دیر تک پڑے رہنے والے سوکھے پتوں سے تیار ہوتی ہے۔ زیادہ دیر تک پڑے رہنے سے ان کا قدرتی سبز رنگ سیاہی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔کالی چائے کے جن برانڈوں نے عالمی شہرت حاصل کی ہے ان میں ہائی سن، ہائی سن سکن، ینگ ہائی سن، ٹوانکی، امپیریل اور گن پاؤڈر شامل ہیں۔ بہت سے برانڈوں میں مختلف پھولوں اور پھلوں کی خوشبو شامل کر دی جاتی ہے۔ مثلاً گلاب،چنبیلی، زیتون، سنگترہ وغیرہ۔ بعض چائے کمپنیاں اپنی برانڈ کو کسی ایسے نشے کی پٹھ دے دیتی ہیں جس سے پینے والا اسی کا عادی بن جاتا ہے۔ بازاروں میں بکنے والی سبز چائے کا بیشتر حصہ عموماً مصنوعی طور پر رنگا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے جپسم، نیل اور ہلدی وغیرہ استعمال کی جاتی ہے۔
امریکہ میں کیمیا دانوں نے چائے کی اڑھائی ہزار کے مختلف برانڈوں کا تجزیہ کر کے جو رپورٹ دی ہے اس کے مطابق اس کے اجزاء کی تفصیل درج ذیل ہے.

تھی این کیفین سے ملتا جلتا ایک مرکب ہے، جسے1837ء میں دریافت کیا گیا تھا۔ کیفین کافی میں ہوتی ہے اور تھی این چائے میں۔ جس طرح کیفین کی وجہ سے کافی نے مقبولیت حاصل کی اسی طرح تھی این چائے کو مقبول بنانے کا سبب بنی۔ اس کی موجودگی اعصابی تھکن کو دور کرنے کا کام کرتی ہے۔ ٹے نین چائے کا انتہائی ضرر رساں جزو ہے۔جس کی وجہ سے عادی چائے نوش دائمی قبض، خشکی، بے خوابی اور فم معدہ کے درد میں مبتلا ہو جاتےہیں۔ چائے کی پتی کو جتنا زیادہ جوش دیا جائے ٹے نین اتنی ہی زیادہ مقدار میں نکل کر نقصان پہنچاتا ہے.

* فوائد

طبیعت میں فرحت و انبساط پیدا کرتی ہے۔ مقوی اعصاب ہے۔ پیاس کو بجھاتی ہے۔ درد سر کو دور کرتی ہے۔ پسینہ آور ہے، اس لیے بخار کو بھی اتارتی ہے۔ جسم اور رخساروں کی رنگت نکھارتی ہے۔ چائے کی پتی کو گرم کر کے سخت پھوڑوں پر باندھیں تو انہیں نرم کرتی اور پھوڑتی ہے۔ بواسیر کا درد رفع کرتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد استعمال کرنا اکثر حالتوں میں ہاضم اثر رکھتی ہے۔ ایسی خواتین جنہیں ایام کی بندش ہو مفید ہے۔ اعصاب رحم کو تحریک دے کر اس شکایت کا ازالہ کرتی ہے۔ زکام کے مریض کے لیے نافع ہے۔ ضعفِ قلب کی وجہ سے ہونے والی حالت نزع میں اگر چائے کی ایک پیالی میں لونگ اور تھوڑی سی دار چینی ڈال کر دیں تو آب حیات کا کام کرتی ہے۔ دم کشی کی ایسی صورت میں جب بلغم پتلی ہو گئی ہو چائے کا قہوہ پینے سے خارج ہو جاتی ہے۔ آنکھیں دکھتی ہوں تو چائے کی پتی گرم کر کے پوٹلی بنا کر آنکھوں پر باندھنے سے درد دور ہو جاتاہے اور تڑپتا ہوا مریض سکون سے سو جاتاہے۔ سرد بلغمی مزاج والے افراد کے لیے ہر موسم میں اور گرم مزاج والوں کے لیے کسی حد تک موسم سرما میں مفید ہے۔

* نقصانات

چائے کا بکثرت استعمال جدید طبی تحقیقات کی رُو سے بے شمار نقصانات کا باعث بھی بنتا ہے۔ یہ طبیعت میں گرمی پیدا کر کے گرم امراض پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ بہت گرم چائے پینا یا چائے نوشوں کی لغت میں لب سوز چائے، پینا یا نہار منہ استعمال کرنا مضر صحت ہے۔ اس کی زیادتی سے بعض افراد کو رعشہ کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ بلڈ پریشر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ نیند اُڑ جاتی ہے۔ پیشاب زیادہ لاتی ہے۔ دانت کمزور ہو جاتے ہیں۔ معدہ میں خراش پیدا کرتی اور بعض حالتوں میں ہاضمہ کو خراب کر دیتی ہے۔ قبض کی شکایت کا سبب بھی بنتی ہے۔ جگر خراب ہونے سے خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یہ خون کو فاسد کرتی ہے۔ بعض مردانہ امراض بھی اس کے کثرت استعمال سے لاحق ہو جاتے ہیں۔ خونی بواسیر کے مریضوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ دیر تک استعمال کرنے سے نظر کو کمزور دیتی ہے۔ اس لیے چائے کو صرف ضرورت کے وقت استعمال کیا جائے،کیونکہ اس میں غذائیت بالکل نہیں ہوتی۔ صرف تازیانے کا کام کر کے وقتی طور پر چاق و چوبند کرتی ہے۔

Address

Islamabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when TechnoVerse posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share