
03/09/2025
جب ہم جیسوں کے دن آتے ہیں تو موت آن پہنچتی ہے۔ فرقان محمد کی شہادت!
صبح کا ناشتہ چل رہا تھا۔اور روزمرہ کی باتیں...
اچانک پاس بیٹھے بیچ میٹ نے دبی آواز میں کہا:
*"فرقان نہیں رہا..."*
یہ تین الفاظ نہیں تھے — یہ بجلی بن کر دل پر گرے۔ ایک لمحے میں جیسے پوری دنیا ٹوٹ کر قدموں میں بکھر گئی۔
فرقان محمد — 51ویں CTP کا وہ ہم سفر جو خاموشی سے جیتا رہا، اور خاموشی ہی دار فنا سے دار بقا کی طرف بہت جلدی چلا گیا۔
**وہ فرقان جسے ہم جانتے تھے...**
وہی فرقان جس کی آنکھوں میں سوال ہوتے تھے اور دل میں خواب۔
جس نے پاکستان ریلوے سے سفر کا آغاز کیا اور برسوں کی ریاضت کے بعد CSS کا امتحان عبور کر کے ریاست کی خدمت کا ارمان دل میں بسایا۔
اس سفر میں CTP کی تھکن بھری صبحیں، STP کی طویل کلاسیں، اور آخرکار پہلی پوسٹنگ — پتوکی، جہاں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے سیلاب زدگان اس کے منتظر تھے۔ پنجاب میں جاری بے رحم سیلاب کی موجوں کو روکنے کے لیے پتوکی کی سر زمین پر پہلی قربانی اسے دینا پڑی۔ خدا جانے پتوکی کے اسٹنٹ کمشنر آفس پر کس آسیب کا سایہ ہے کہ ابھی دو برس قبل تعینات AC راجہ قاسم محبوب نے جان جان آفریں کے سپرد کی اور اب ہمارا فرقان!
دو ماہ کی پوسٹنگ میں اس نے دن رات ایک کر دیے۔
نہ آرام مانگا، نہ شکوہ کیا۔
دھوپ ہو یا پانی، تھکن ہو یا بیماری — وہ اپنے فرض پر ڈٹا رہا۔ بلوکی کے مقام پہ سیلابی پانی ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور فرقان اپنی ٹیم کے ہمراہ پچھلے ایک ہفتے سے وہاں فرائض منصبی کما حقہ نبھا رہا تھا۔
کیوں؟ کیونکہ وہ ریاست کا راہی تھا۔ یہاں تک کہ اس نظام کو چلاتے چلاتے خود چل دیا۔
**اکیاون CTP کی یادیں — جہاں فرقان چمکتا تھا**
یاد ہے وہ دن جب ہم اقبال آڈیٹوریم کے باہر لمبی قطار میں کھڑے ہوتے تھے؟
کیفے 24 کی چائے، جِناح آڈیٹوریم میں سوالوں کی گونج —
اور وہ فرقان، جو ہر موضوع پر سوال کرتا تھا،
جو DG کسٹمز سے "کراس اسٹفنگ" پر وہ سوال کر گیا تھا کہ سارا ہال سُن ہو گیا تھا اور ڈی جی صاحب ششدر۔
فرقان صرف طالبعلم نہیں تھا، وہ ایک فلسفی تھا۔ جس کے سوال آج بھی اقبال آڈیٹوریم میں گونج رہے ہیں۔
وہ آواز تھا — جو اب خاموش ہو گئی ہے۔
**خاندان کا درد — جس کی کوئی تلافی نہیں**
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ فرقان کے والدین اب کیسے جئیں گے؟
اس کی بہنیں، جو اس کی کامیابی پر فخر کرتی تھیں،
اس کی بیوی، جو اس کے خوابوں کا حصہ تھی — اور اس کے بھائی۔۔۔آہ!
ان سب کا کیا ہوگا؟
وہ گھر جو فرقان کے خوابوں سے روشن تھا،
آج اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔
وہ امید، جس نے ابھی اڑان بھری تھی اور اچانک زمیں بوس ہو گئی۔
وہ وعدے جو ابھی نبھانے تھے — سب مٹی میں دفن ہو گئے۔
** ایک خاموش موت**
فرقان کی موت المناک حادثہ ہے،۔
وہ افسر جو فرسودہ نظام کو اپنے خون سے شکست دینے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ ہمہ وقت ہر محاذ پر ہر مشکل کے سامنے ڈٹا ہے۔
کیونکہ فرقان جیسے لوگ فائلوں میں صرف ایک سروس نمبر ہوتے ہیں، اور بس!
12 سے 14 گھنٹے کی ڈیوٹی، تنخواہ جو غربت کی لکیر پر جھولتی ہے،
چھٹی خواب، شکریہ ناپید، اور سراہنے کا مفہوم سرکاری لغت سے غائب۔ ہفتے کی چھٹی تو دہائیوں پہلے بند ہو چکی اور اب اتوار کے روز بھی دفتری امور میں اس قدر گم ہیں کہ گھر تو عید سے عید ہی جایا جاتا ہے۔
فرقان جیسا نوجوان، جسے قوم کا سرمایہ کہا جاتا تھا،
آج گمنامی میں دفن ہو گیا — اور ہم سب چپ ہیں
۔بحر حال ہوائیں مخالف ہوں یا راستے تنہا، ہم تا دمِ مرگ حق و فرض کا پرچم اٹھائے رہیں گے — سر بلند، دل مطمئن!
فرقان محمد — تمہاری قربانی صرف تمہاری نہیں،
یہ ہم سب کی چیخ ہے،
اس نظام کے منہ پر ایک طمانچہ،
جو جینے نہیں دیتا، مرنے پر آنسو بھی نہیں بہاتا۔
إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ!
میرے بھائی اللہ تجھے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔
از قلم
حسن نواز صوفی✨