Urdu Ghar

Urdu Ghar UrduGhar.com has been a premier platform offering Urdu content. literature, articles, and more birds and pets

امریکی ماہرِ نفسیات لیونی فیسٹنگر (Leon Festinger) نے 1954 میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسان اپنی صلاحیتوں اور حیثیت کا ...
05/09/2025

امریکی ماہرِ نفسیات لیونی فیسٹنگر (Leon Festinger) نے 1954 میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسان اپنی صلاحیتوں اور حیثیت کا اندازہ دوسروں سے موازنہ کر کے لگاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس موازنے کو ایک نئی اور خطرناک سطح پر پہنچا دیا ہے۔
لوگ سوشل میڈیا پر اکثر ایسے لوگوں سے اپنا موازنہ کرتے ہیں جو ان سے زیادہ کامیاب، امیر یا خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ یہ "اوپری موازنہ" انہیں اپنی زندگی سے ناخوش اور غیر مطمئن کرتا ہے۔
اس عدم اطمینان کا مقابلہ کرنے کے لیے، وہ خود بھی دکھاوا کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ وہ بھی دوسروں کی نظر میں "کامیاب" نظر آئیں۔ وہ اپنی زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی کامیابیوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
یہ ایک ایسا چکر ہے جس میں ہر کوئی بہتر نظر آنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ انفلونسرز دوسروں سے زیادہ لگژری اشیاء اور تجربات دکھاتے ہیں، اور ان کے فالورز ان سے متاثر ہو کر ایسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان فطرتاً ایک سماجی مخلوق ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں قبولیت اور اہمیت کا احساس چاہیے۔ سوشل میڈیا پر دکھاوا اسی "سماجی تصدیق" (Social Validation) کی بھوک کو پورا کرتا ہے۔
لوگ سوشل میڈیا پر اپنی اصل زندگی نہیں، بلکہ اپنی ایک "مثالی" (Idealized) تصویر پیش کرتے ہیں۔ وہ وہ چیزیں دکھاتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں سوچیں۔ ایک پرتعیش گاڑی، ایک خوبصورت چھٹی، یا ایک خوشگوار فیملی کی تصویر — یہ سب ایک ایسے تصورِ ذات کی تعمیر کے لیے ہیں جو معاشرے میں زیادہ قابلِ احترام اور قابلِ رشک ہو۔
جب لوگ ان کے اس مثالی تصور کو لائک کرتے ہیں یا سراہتے ہیں، تو اس سے انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ معاشرتی طور پر مقبول اور کامیاب ہیں۔ یہ احساس ان کی خود اعتمادی (Self-esteem) کو بڑھاتا ہے۔
جعلی خودی کی تشکیل (Creating a 'Fake' Identity):
یہ رجحان اس وقت خطرناک ہو جاتا ہے جب لوگ اپنی حقیقی پہچان سے دور ہو کر ایک جھوٹی پہچان کی تشکیل کر لیتے ہیں۔ وہ دکھاوے کی دنیا میں جینے لگتے ہیں، اور جب ان کا دکھاوا ناکام ہوتا ہے تو شدید اضطراب کا شکار ہو
بہت سے معاملات میں، دکھاوا ایک قسم کا نفسیاتی بچاؤ کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ یہ حقیقت سے فرار کا ایک راستہ ہے۔
جو لوگ اندر سے تنہائی، بے سکونی یا کسی قسم کے عدم تحفظ (Insecurity) کا شکار ہوتے ہیں، وہ بیرونی توجہ کے ذریعے اس اندرونی خالی پن کو بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
" سوشل میڈیا پر ایک غیر اعلانیہ دباؤ ہے کہ ہر کوئی خوش اور کامیاب نظر آئے۔ دکھاوا اس دباؤ کا جواب ہے، چاہے اندر سے وہ کتنے ہی ناخوش کیوں نہ ہوں۔
انفلونسرز کے لیے دکھاوا صرف نفسیاتی نہیں، بلکہ ایک کاروباری مجبوری بھی ہے۔
سرویلنس کیپیٹلزم (Surveillance Capitalism):
سوشل میڈیا کمپنیاں آپ کی توجہ کو برانڈز کو بیچتی ہیں۔ انفلونسرز زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لیے پرتعیش زندگی، مہنگی اشیاء اور غیر معمولی تجربات دکھاتے ہیں۔
برانڈز ان انفلونسرز کے ساتھ کام کرتے ہیں جو زیادہ "اثر و رسوخ" (Influence) رکھتے ہیں، اور یہ اثر و رسوخ ان کے دکھاوے سے پیدا ہوتا ہے۔ انفلونسر جتنا زیادہ پرکشش اور کامیاب نظر آئے گا، اتنے ہی زیادہ برانڈز اس سے رابطہ کریں گے۔
اس دکھاوے سے ملنے والی مالی اور شہرت کی صورت میں واپسی انفلونسر کو اسے جاری رکھنے کی ترغیب دیتی ہے، چاہے اس کا بہت بڑا حصہ جعلی ہی کیوں نہ ہو۔
سوشل میڈیا پر دکھاوا بظاہر ایک بے ضرر عمل لگتا ہے، لیکن نفسیاتی اور سماجی طور پر اس کے گہرے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ یہ خود اعتمادی کو کھوکھلا کر دیتا ہے، کیونکہ جب انسان اپنی قدر کا انحصار دوسروں کی تصدیق پر کرتا ہے تو وہ اندرونی اطمینان سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں حسد، اضطراب اور تنہائی جیسے جذبات جنم لیتے ہیں۔
دکھاوے کا متبادل ایک ایسی ذہنیت ہے جو دوسروں سے موازنہ کرنے کی بجائے ذاتی نمو اور حقیقی تعلقات پر زور دے۔ انسان کو اپنی قدر کا تعین دوسروں کی آرا کی بجائے اپنی صلاحیتوں، اخلاقیات اور اندرونی خوبیوں کی بنیاد پر کرنا چاہیے۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں برابری اور انصاف ہو، وہاں دکھاوے کی ضرورت کم ہو جاتی ہے کیونکہ افراد کو اپنی شناخت اور قدر کے لیے بیرونی تصدیق پر انحصار نہیں کرنا پڑتا۔ اس طرح کے معاشرے میں درج ذیل متبادل طریقے اپنائے جا سکتے ہیں:
دکھاوے کی بجائے، ایسا کام کیا جائے جو ذاتی اور معاشرتی دونوں سطح پر بامعنی ہو۔ جب انسان اپنے کام میں مقصد تلاش کر لیتا ہے، تو اسے دکھاوے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس کی عزت اس کے کردار، محنت اور شراکت سے بنتی ہے۔
دکھاوا اس اندرونی بے چینی کی علامت ہے جو انسان کو حقیقی خوشی سے دور رکھتی ہے۔ اس کے برعکس، غور و فکر، قدرتی ماحول میں وقت گزارنے، اور مذہبی/روحانی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والا سکون انسان کو ایک مضبوط اور خود مختار شخصیت بناتا ہے۔
دکھاوے کے بجائے، اپنے تعلقات کو سچائی اور ایمانداری پر مبنی بنائیں۔ ایسے دوست بنائیں جو آپ کو اس لیے پسند کریں کہ آپ کون ہیں، نہ کہ اس لیے کہ آپ کے پاس کیا ہے۔ یہ ایک مضبوط سماجی ڈھانچہ بناتا ہے، جہاں لوگ ایک دوسرے کو جج کرنے کے بجائے سپورٹ کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا کو دکھاوے کے بجائے علم، ہنر اور تعمیری کاموں کے لیے استعمال کریں۔ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، دوسروں سے سیکھنے، اور مثبت پیغامات پھیلانے پر توجہ دی جائے۔ مثال کے طور پر، وہ انفلونسرز جو اپنی تعلیم یا فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ معاشرے کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ اصلاحات صرف انفرادی سطح پر نہیں، بلکہ سماجی اور ثقافتی تبدیلی کے ذریعے ممکن ہیں۔ ہمیں ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں ہر انسان کو اپنی حیثیت کا احساس دلانے کے لیے مادی اشیاء کا سہارا نہ لینا پڑے، بلکہ اس کی قدر اس کے کردار، علم اور اخلاق سے ہو۔
پروفیسر اسامہ رضا

دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی شخص خوشحال نہیں ہو سکتا، انسان کی معاشی زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے کام کا آغاز ک...
03/09/2025

دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی شخص خوشحال نہیں ہو سکتا،
انسان کی معاشی زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے کام کا آغاز کرتا ہے‘‘
تعلیم شعور دیتی ہے لیکن’’کامیابی اور ترقی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں،
’’اگر تعلیم سے روٹی کمائی جا سکتی تو آج دنیا کے تمام پروفیسر ارب پتی ہوتے‘‘
اس وقت دنیا میں ساڑھے نو سو ارب پتی ہیں لیکن ان میں ایک بھی پروفیسر ، ڈاکٹر یا ماہر تعلیم شامل نہیں‘‘
’’دنیا میں ہمیشہ درمیانے پڑھے لکھے لوگوں نے ترقی کی،
یہ لوگ وقت کی قدر و قیمت سمجھتے ہیں
چنانچہ یہ لوگ ڈگری ہاتھ میں لیکر نوکری ڈھونڈنے کی بجائے طالب علمی کے دور ہی میں کاروبار شروع کر دیتے ہیں
چنانچہ ان کی کامیابی انھیں کالج یا یونیورسٹی سے اسٹور، کارخانے یا منڈی میں لے جاتی ہے‘‘ یہاں وہ محنت سے مقام پاتے ہیں ۔
دنیا میں ہر چیز کا متبادل موجود ہے لیکن محنت کا کوئی شارٹ کٹ نہیں‘‘
’’ دنیا کا کوئی کیمیائی عمل لوہے کو سونا نہیں بنا سکتا
لیکن انسانی ہاتھ وہ طاقت ہیں جو دنیا کی کسی بھی دھات کو سونے میں بدل سکتے ہیں‘‘۔
یاد رکھیے دنیا میں ان نکمے لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں
جو یہ سمجھتے ہیں کہ محض تعلیمی قابلیت بتانے والے ڈگری نام کے کاغزی ٹکڑے سے دنیا ان کے قدموں میں ہوگی
تعلیم کے ساتھ ہنر لازم ہے ہنرمندوں کے لیے پوری دنیا کھلی پڑی ہے
’’ہنر مند شخص کا ہنر اس کا پاسپورٹ ہوتا ہے
ہنر سیکھیے حالات پر رونے کی بجائے کمائی کے اسباب پیدا کیجیے...!!!

سم کارڈز روزمرہ کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ آپ انہیں خریدتے وقت احتیاط سے کام لیں۔ خاص طور پر سڑک...
01/09/2025

سم کارڈز روزمرہ کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ آپ انہیں خریدتے وقت احتیاط سے کام لیں۔ خاص طور پر سڑکوں یا غیر سرکاری جگہوں پر سم کارڈ خریدنے سے گریز کریں۔
یہاں کچھ اہم وجوہات ہیں:
فنگر پرنٹ کا غلط استعمال:
غیر قانونی طور پر سم کارڈ فروخت کرنے والے افراد آپ کے فنگر پرنٹ کا غلط استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ معلومات غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال ہو سکتی ہیں، جس کا الزام بعد میں آپ پر آ سکتا ہے۔
جعلی شناخت:
سڑکوں پر سم کارڈ خریدتے وقت آپ کی شناخت کے دستاویزات کا غلط استعمال بھی کیا جا سکتا ہے، جو مستقبل میں آپ کے لئے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
قانونی مسائل:
غیر قانونی طور پر سم کارڈ خریدنا یا فروخت کرنا قانونی جرم ہے، جس کے نتیجے میں آپ کو جرمانہ یا قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
مشورہ:
ہمیشہ سرکاری مراکز یا معروف کمپنیوں کے دفاتر سے ہی سم کارڈ خریدیں۔ یہ نہ صرف قانونی طریقہ ہے بلکہ آپ کے ذاتی ڈیٹا اور فنگر پرنٹس کی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہے۔
اس احتیاط سے آپ اپنی ذاتی معلومات کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور ممکنہ مسائل سے بچ سکتے ہیں۔

کبھی تھک کے سو گئے ہم کبھی رات بھر نہ سوئےکبھی ہنس کے غم چھپایا کبھی منہ چھپا کے روئےمیری داستان_ حسرت وہ سنا سنا کے روئ...
31/08/2025

کبھی تھک کے سو گئے ہم کبھی رات بھر نہ سوئے
کبھی ہنس کے غم چھپایا کبھی منہ چھپا کے روئے
میری داستان_ حسرت وہ سنا سنا کے روئے
میرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
شب_ غم کی آپ بیتی جو سنائی انجمن میں
کوئی سن کے مسکرائے کوئی مسکرا کے روئے
میں ھوں بے وطن مسافر میرا نام بے وفا ہے
میرا کوئی بھی نہیں ہے جو گلے لگا کے روئے
میرے پاس سے گزر کر میرا حال تک نہ پوچھا
میں یہ کیسے مان جاؤں کہ وہ دور جا کے روئے
وہ ملے جو راستے میں تو بس اتنا کہنا اس سے
میں اداس ھوں, اکیلا میرے پاس آ کے روئے
سیف الدین سیف~

ملک میں سیلابی صورتحال کے بعد بہت سے لوگ ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ڈیم بنائے ہوتے تو سیلاب نہ آتا  نہریں بنائی ہوتی تو...
29/08/2025

ملک میں سیلابی صورتحال کے بعد بہت سے لوگ ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ڈیم بنائے ہوتے تو سیلاب نہ آتا نہریں بنائی ہوتی تو سیلاب نہ تا یا پھر کچھ لوگ طنزیہ کہہ رہے تھے کہ دنیا کا بہترین نہری نظام پاکستان میں ہے تو پھر کیوں سیلاب آتا ہے وہ لوگ جان لیں کہ پنجاب میں جو دریا بہتے ہیں ان میں جہلم کو چھوڑ کر باقی تین چناب راوی اور ستلج میدانی دریا ہیں اور اس وقت دنیا میں کوئی ایسی ٹیکنالوجی نہیں جو میدانی دریاؤں پر ڈیم بنا سکے جہلم پر ممکن تھا وہاں بنایا گیا ہے دوسرا نہریں سیلاب کے دوران مجبوراً بند کرنی پڑتی ہیں کیونکہ سیلابی پانی میں بہت زیادہ مٹی کیچڑ ہوتا ہے جو نہروں کو بند کر دیتا ہے جس سے پانی نہروں کے بند توڑ کر آبادیوں میں گھس سکتا ہے اب فرض کریں کالاباغ ڈیم ایک ایشو ہے اور اس مسئلے کو حل کر کے کالاباغ ڈیم بنا لیتے ہیں تو اس کا فائدہ پنجاب کو تو بالکل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ تو اوپر میانوالی کے قریب بنے گا اس میں پنجابی دریاؤں کا پانی تو نہیں جا سکتا تو پھر سوال ہے ہم اس سیلاب سے کیسے بچ سکتے ہیں تو اس کا جواب ہے دریاؤں کے قدرتی راستوں پر تعمیرات اور ہاؤسنگ سوسائٹی نہ بنائیں ورنہ دریاؤں کے قانون سے تو آپ واقف ہی ہے کہ کوئی ڈوبے پار لگے دریا کو اپنے رستے بہنا
سونی چوہدری

مال، مویشی، ڈنگر رُڑ گئے‏ کُھرلی، کھونٹے، چھپر رُڑ گئے‏ ٹُٹ گئے کاواں، چڑیاں دے گھر‏ٹاہلی، بیری، کِکر رُڑ گئے‏پنڈ دی وڈی...
29/08/2025

مال، مویشی، ڈنگر رُڑ گئے
‏ کُھرلی، کھونٹے، چھپر رُڑ گئے
‏ ٹُٹ گئے کاواں، چڑیاں دے گھر
‏ٹاہلی، بیری، کِکر رُڑ گئے
‏پنڈ دی وڈی مسجد ڈیہہ گئی
‏دریاں، پارے، منبر رُڑ گئے
‏دھی رانی دے ویاہ لئی سانبھے
‏بالن، بکسے، بستر رُڑ گئے
‏کی دساں نقصان دی قیمت
‏ہیریاں ورگے پُتر رُڑ گئے

اے عقل مند انسانوں ڈیمز کا کام سیلابی ریلوں کو روکنا نہیں ہوتا بلکہ ایک مخصوص حد تک پانی اسٹور کرنے کا ہوتا ہے، اس کے بع...
28/08/2025

اے عقل مند انسانوں ڈیمز کا کام سیلابی ریلوں کو روکنا نہیں ہوتا بلکہ ایک مخصوص حد تک پانی اسٹور کرنے کا ہوتا ہے، اس کے بعد سیلاب ہو یا نہ ہو ان کے اسپل ویز کھولنے ہوتے ہیں اور عموماً تمام ڈیمز نارمل حالات میں بھی تقریبا بھرے رہتے ہیں ایسے میں سیلابی ریلا آتا ہے تو انہیں ڈیمز کے ذریعے روکنا خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ڈیمز بنانے کی اشد ضرورت ہے اور ڈیمز بلکل بننے چاہئیے لیکن اس کا مقصد یہاں بھی اور دنیا میں کہیں بھی سیلاب کنٹرول کرنا نہیں ہوتا کیونکہ ہر ڈیم یا بند کی ایک کیپیسٹی ہوتی ہے اور سیلاب اور بارشوں کی کوئی کیسپیٹی نہیں ہوتی وگرنہ آج پاکستان میں مختلف بیراجوں کو بچانے کے لئیے ان کے قریب روڈز اور پلوں کو بارودی مواد سے نہ اڑایا جارہا ہوتا پانی کی مقدار کو منتشر کرنے کے لئیے۔
سیلاب سے بچاو کا واحد اور دیرپا حل صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے جو دنیا بھر کے ماہر ماحولیات بتاتے آئے ہیں کہ آبی گزرگاہوں کے اریب قریب آبادیاں بنانے کی بجائے گھنے جنگلات اگائے جائے تا کہ اس سے وہاں دلدلی زمینیں بن جائے اور یہ دلدلی زمینیں پھر سیلابی ریلے کو کنٹرول کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ سیلابی ریلے کے رفتار کو کم کرتی ہے۔
اس کے علاوہ پورے ملک میں بالعموم اور جو علاقے ان دریاوں اور آبی گزرگاہوں کے اوپر موجود ہے ان علاقوں میں بالخصوص جدید نہری نظام کا ایک مربوط نیٹ ورک قائم کئیے بغیر ایسے حادثات کو روکنا کسی ڈیم یا بند کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
منقول.

اداکار محمد علی نے مصیبت زدہ شخص کو پچاس ہزار روپے قرض تو دے دیالیکن پہلے اس سے تین روپے مانگ لئے۔کوٹھی کے خوبصورت لان م...
26/08/2025

اداکار محمد علی نے مصیبت زدہ شخص کو پچاس ہزار روپے قرض تو دے دیا
لیکن پہلے اس سے تین روپے مانگ لئے۔
کوٹھی کے خوبصورت لان میں سردی کی ایک دوپہر، میں اور علی بھائی بیٹھے گفتگو کر رہے تھے
ملازم نے علی بھائی سے آ کر کہا کہ باہر کوئی آدمی آپ سے ملنے آیا ہے۔ یہ اس کا چوتھا چکر ہے۔ علی بھائی نے اسے بلوا لیا۔ کاروباری سا آدمی تھا۔
لباس صاف ستھرا مگر چہرے پر پریشانی سے جھلک رہی تھی۔ شیو بڑھی ہوئی ، سرخ آنکھیں اور بال قدرے سفید لیکن پریشان۔ وہ سلام کرکے کرسی پر بیٹھہ گیا تو علی بھائی نے کہا۔ ’’ جی فرمایئے ‘‘
’’ فرمانے کے قابل کہاں ہوں صاحب جی ! کچھہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
اس آدمی نے بڑی گھمبیر آواز میں کہا اور میری طرف دیکھا جیسے وہ علی بھائی سے کچھہ تنہائی میں کہنا چاہتا تھا۔ علی بھائی نے اس سے کہا:
’’آپ ان کی فکر نہ کیجئے جو کہنا ہے کہیے‘‘
اس آدمی نے کہا ’’ چوبرجی میں میری برف فیکٹری ہے علی صاحب !‘‘
’’جی‘‘
’’لیکن کاروباری حماقتوں کے سبب وہ اب میرے ہاتھ سے جا رہی ہے‘‘
’’کیوں‘ کیسے جا رہی ہے؟ ‘‘ علی بھائی نے تفصیل جاننے کے لئے پوچھا
’’ایک آدمی سے میں نے 70ہزار روپے قرض لئے تھے لیکن میں لوٹا نہیں سکا۔‘‘ وہ آدمی بولا ’’میں نے کچھہ پیسے سنبھال کر رکھے تھے لیکن چور لے گئے۔ اب وہ آدمی اس فیکٹری کی قرقی لے کر آ رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آدمی رونے لگا اور علی بھائی اسے غور سے دیکھتے رہے اور اس سے کہنے لگے۔
’’آپ کا برف خانہ میانی صاحب والی سڑک سے ملحقہ تو نہیں؟ ‘‘
’’جی جی وہی‘‘ وہ آدمی بولا ۔۔۔۔۔۔ ’’علی بھائی میں صاحب اولاد ہوں اگر یہ فیکٹری چلی گئی تو میرا گھر برباد ہو جائے گا ، میں مجبور ہو کر آپ کے پاس آیا ہوں۔‘‘
اور اس آدمی سے کہنے لگے:
’’پہلے تو آپ کی داڑھی ہوتی تھی۔‘‘
وہ آدمی حیران رہ گیا اور چونک کر کہنے لگا ’’جی! یہ بہت پرانی بات ہے‘‘
’’جی میں پرانی بات ہی کر رہا ہوں‘‘ علی بھائی اچانک کہیں کھو گئے۔ سگریٹ کا دھواں چھوڑ کر کچھہ تلاش کرتے رہے۔ پھر اس آدمی سے کہنے لگے:
’’آپ کے پاس تین روپے ٹوٹے ہوئے ہیں؟ ‘‘
’’جی جی ، ہیں‘‘ اس آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھہ نوٹ نکالے اور ان میں سے تین روپے نکال کر علی بھائی کی طرف بڑھا دیئے۔ علی بھائی نے وہ پکڑ لئے اور نوٹوں کا بنڈل اٹھا کر اس آدمی کی طرف بڑھایا۔
’’یہ پچاس ہزار روپے ہیں
‘ لے جایئے‘‘
اس آدمی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور نوٹ پکڑتے ہوئے اس کے ہاتھہ کپکپا رہے تھے۔ اس آدمی نے جذبات کی گرفت سے نکل کر پوچھا:
’’علی بھائی مگر یہ تین روپے آپ نے کس لئے ۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
علی بھائی نے اس کی بات کاٹ کر کہا ’’ یہ میں نے آپ سے اپنی تین دن کی مزدوری لی ہے۔‘‘
’’مزدوری …مجھہ سے! میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔‘‘ اس آدمی نے یہ بات پوچھی تو ایک حیرت اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی۔
’’1952ء میں جب میں لاہور آیا تھا تو میں نے آپ کے برف خانے میں برف کی سلیں اٹھا کر قبرستان لے جانے کی مزدوری کی تھی۔‘‘
علی بھائی نے مسکرا کر جواب دیا۔ یہ جواب میرے اور اس آدمی کے لئے دنیا کا سب سے بڑا انکشاف تھا۔ علی بھائی نے مزید بات آگے بڑھائی۔
’’مگر آپ نے جب مجھے
کام سے نکالا تو میری تین دن کی مزدوری رکھہ لی تھی۔ وہ آج میں نے وصول کر لی ہے۔‘‘ علی بھائی نے مسکرا کر وہ تین روپے جیب میں ڈال لئے۔
’’آپ یہ پچاس ہزار لے جائیں‘ جب آپ سہولت محسوس کریں دے دیجئے گا۔‘‘
علی بھائی نے یہ بات کہہ کر مزے سے سگریٹ پینے لگے۔ میں اور وہ آدمی کرسیوں پر یوں بیٹھے تھے جیسے ہم زندہ آدمی نہ ہوں بلکہ فرعون کے عہد کی دو حنوط شدہ ممیاں کرسی پر رکھی ہوں۔

انیس احمد عقیل روبی کی کتاب ’’ کھرے کھوٹے‘‘ سے )

چائے کے ایک کپ کا یہی ہے معاوضہیاروں کو عہدِ رفتہ کے قصے سنائیے
26/08/2025

چائے کے ایک کپ کا یہی ہے معاوضہ
یاروں کو عہدِ رفتہ کے قصے سنائیے

22/08/2025

بیٹھ جاتا ہے وُہ جب محفل میں آ کے سامنے
مَیں ہی بس ہوتا ہُوں اُس کی اِس ادا کے سامنے
تیز تھی اِتنی کہ سارا شہر سُونا کر گئی
دیر تک بیٹھا رہا مَیں اُس ہَوا کے سامنے
رات اِک اُجڑے مکاں پر جا کے جب آواز دی
گُونج اُٹھے بام و در ، میری صدا کے سامنے
وُہ رنگیلا ہاتھ میرے دِل پہ‘ اور اُس کی مہک
شمعِ دِل بُجھ سی گئی ، رنگِ حِنا کے سامنے
مَیں تو اُس کو دیکھتے ہی جیسے پتّھر ہوگیا
بات تک مُنہ سے نہ نِکلی ، بے وفا کے سامنے
یاد بھی ہیں اے مُنیرؔ ، اُس شام کی تنہائیاں
ایک میداں، اِک درخت، اور تُو خُدا کے سامنے
شاعر : مُنیرؔ نیازی ²⁰⁰⁶-¹⁹²⁷
مجموعۂ کلام :
(جنگل میں دھنک)

جنازے میں صرف پچاس ساٹھ لوگ تھے، سلام پھیرا گیا، مولوی صاحب نے دعا کرائی اور لوگوں نے تعزیت کے لیے لواحقین کی تلاش میں د...
22/08/2025

جنازے میں صرف پچاس ساٹھ لوگ تھے، سلام پھیرا گیا، مولوی صاحب نے دعا کرائی اور لوگوں نے تعزیت کے لیے لواحقین کی تلاش میں دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا، مرحوم کا ایک ہی بیٹا تھا، وہ لندن میں تھا، وہ وقت پر پاکستان نہ پہنچ سکا چنانچہ وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس سے پرسا کیا جا سکتا، لوگوں نے چند لمحے انتظار کیا اور پھر گرمی کی وجہ سے ایک ایک کر کے چھٹنے لگے، تدفین کا وقت آیا تو قبرستان میں صرف چھ لوگ تھے، مستنصر حسین تارڑ، یہ مرحوم کے عزیز ترین دوست تھے۔یہ وہاں موجود تھے، دوسرا شخص مرحوم کا پبلشر تھا، یہ پچھلی دو دہائیوں سے ان کی کتابیں چھاپ رہا تھا لہٰذا یہ بھی وہاں رک گیا اور باقی چار لوگ گھریلو ملازم تھے، یہ آخری وقت تک صاحب کا ساتھ دینا چاہتے تھے، میت اٹھائی گئی، قبر میں رکھی گئی، مٹی ڈالی گئی، تازہ مٹی میں درخت کی سبز شاخ بھی ٹھونک دی گئی، گورکن نے قبر پر چھڑکاؤ کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، تدفین میں مصروف لوگوں نے بھی ہاتھ جھاڑے اور دعا میں شامل ہو گئے اور یوں ملک کے سب سے بڑے ادیب، بڑے ناول نگار کا سفر حیات اختتام پذیر ہو گیا، ایک کہانی تھی جو4 جولائی 2015ء کو ڈی ایچ اے لاہور کے قبرستان میں دفن ہو گئی۔
جاوید چوہدری 2 اگست 2015
یہ کون تھا؟ یہ عبداللہ حسین تھے.

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے لوگ اپنے دیئے جلانے لگے کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے یہی رستہ ہے اب...
22/08/2025

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ آئے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقیؔ
بستیوں سے شرار آنے لگے

Address

Islamabad
Islamabad
44000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Ghar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share