
05/09/2025
امریکی ماہرِ نفسیات لیونی فیسٹنگر (Leon Festinger) نے 1954 میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسان اپنی صلاحیتوں اور حیثیت کا اندازہ دوسروں سے موازنہ کر کے لگاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس موازنے کو ایک نئی اور خطرناک سطح پر پہنچا دیا ہے۔
لوگ سوشل میڈیا پر اکثر ایسے لوگوں سے اپنا موازنہ کرتے ہیں جو ان سے زیادہ کامیاب، امیر یا خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ یہ "اوپری موازنہ" انہیں اپنی زندگی سے ناخوش اور غیر مطمئن کرتا ہے۔
اس عدم اطمینان کا مقابلہ کرنے کے لیے، وہ خود بھی دکھاوا کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ وہ بھی دوسروں کی نظر میں "کامیاب" نظر آئیں۔ وہ اپنی زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی کامیابیوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
یہ ایک ایسا چکر ہے جس میں ہر کوئی بہتر نظر آنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ انفلونسرز دوسروں سے زیادہ لگژری اشیاء اور تجربات دکھاتے ہیں، اور ان کے فالورز ان سے متاثر ہو کر ایسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان فطرتاً ایک سماجی مخلوق ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں قبولیت اور اہمیت کا احساس چاہیے۔ سوشل میڈیا پر دکھاوا اسی "سماجی تصدیق" (Social Validation) کی بھوک کو پورا کرتا ہے۔
لوگ سوشل میڈیا پر اپنی اصل زندگی نہیں، بلکہ اپنی ایک "مثالی" (Idealized) تصویر پیش کرتے ہیں۔ وہ وہ چیزیں دکھاتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں سوچیں۔ ایک پرتعیش گاڑی، ایک خوبصورت چھٹی، یا ایک خوشگوار فیملی کی تصویر — یہ سب ایک ایسے تصورِ ذات کی تعمیر کے لیے ہیں جو معاشرے میں زیادہ قابلِ احترام اور قابلِ رشک ہو۔
جب لوگ ان کے اس مثالی تصور کو لائک کرتے ہیں یا سراہتے ہیں، تو اس سے انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ معاشرتی طور پر مقبول اور کامیاب ہیں۔ یہ احساس ان کی خود اعتمادی (Self-esteem) کو بڑھاتا ہے۔
جعلی خودی کی تشکیل (Creating a 'Fake' Identity):
یہ رجحان اس وقت خطرناک ہو جاتا ہے جب لوگ اپنی حقیقی پہچان سے دور ہو کر ایک جھوٹی پہچان کی تشکیل کر لیتے ہیں۔ وہ دکھاوے کی دنیا میں جینے لگتے ہیں، اور جب ان کا دکھاوا ناکام ہوتا ہے تو شدید اضطراب کا شکار ہو
بہت سے معاملات میں، دکھاوا ایک قسم کا نفسیاتی بچاؤ کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ یہ حقیقت سے فرار کا ایک راستہ ہے۔
جو لوگ اندر سے تنہائی، بے سکونی یا کسی قسم کے عدم تحفظ (Insecurity) کا شکار ہوتے ہیں، وہ بیرونی توجہ کے ذریعے اس اندرونی خالی پن کو بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
" سوشل میڈیا پر ایک غیر اعلانیہ دباؤ ہے کہ ہر کوئی خوش اور کامیاب نظر آئے۔ دکھاوا اس دباؤ کا جواب ہے، چاہے اندر سے وہ کتنے ہی ناخوش کیوں نہ ہوں۔
انفلونسرز کے لیے دکھاوا صرف نفسیاتی نہیں، بلکہ ایک کاروباری مجبوری بھی ہے۔
سرویلنس کیپیٹلزم (Surveillance Capitalism):
سوشل میڈیا کمپنیاں آپ کی توجہ کو برانڈز کو بیچتی ہیں۔ انفلونسرز زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لیے پرتعیش زندگی، مہنگی اشیاء اور غیر معمولی تجربات دکھاتے ہیں۔
برانڈز ان انفلونسرز کے ساتھ کام کرتے ہیں جو زیادہ "اثر و رسوخ" (Influence) رکھتے ہیں، اور یہ اثر و رسوخ ان کے دکھاوے سے پیدا ہوتا ہے۔ انفلونسر جتنا زیادہ پرکشش اور کامیاب نظر آئے گا، اتنے ہی زیادہ برانڈز اس سے رابطہ کریں گے۔
اس دکھاوے سے ملنے والی مالی اور شہرت کی صورت میں واپسی انفلونسر کو اسے جاری رکھنے کی ترغیب دیتی ہے، چاہے اس کا بہت بڑا حصہ جعلی ہی کیوں نہ ہو۔
سوشل میڈیا پر دکھاوا بظاہر ایک بے ضرر عمل لگتا ہے، لیکن نفسیاتی اور سماجی طور پر اس کے گہرے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ یہ خود اعتمادی کو کھوکھلا کر دیتا ہے، کیونکہ جب انسان اپنی قدر کا انحصار دوسروں کی تصدیق پر کرتا ہے تو وہ اندرونی اطمینان سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں حسد، اضطراب اور تنہائی جیسے جذبات جنم لیتے ہیں۔
دکھاوے کا متبادل ایک ایسی ذہنیت ہے جو دوسروں سے موازنہ کرنے کی بجائے ذاتی نمو اور حقیقی تعلقات پر زور دے۔ انسان کو اپنی قدر کا تعین دوسروں کی آرا کی بجائے اپنی صلاحیتوں، اخلاقیات اور اندرونی خوبیوں کی بنیاد پر کرنا چاہیے۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں برابری اور انصاف ہو، وہاں دکھاوے کی ضرورت کم ہو جاتی ہے کیونکہ افراد کو اپنی شناخت اور قدر کے لیے بیرونی تصدیق پر انحصار نہیں کرنا پڑتا۔ اس طرح کے معاشرے میں درج ذیل متبادل طریقے اپنائے جا سکتے ہیں:
دکھاوے کی بجائے، ایسا کام کیا جائے جو ذاتی اور معاشرتی دونوں سطح پر بامعنی ہو۔ جب انسان اپنے کام میں مقصد تلاش کر لیتا ہے، تو اسے دکھاوے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس کی عزت اس کے کردار، محنت اور شراکت سے بنتی ہے۔
دکھاوا اس اندرونی بے چینی کی علامت ہے جو انسان کو حقیقی خوشی سے دور رکھتی ہے۔ اس کے برعکس، غور و فکر، قدرتی ماحول میں وقت گزارنے، اور مذہبی/روحانی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والا سکون انسان کو ایک مضبوط اور خود مختار شخصیت بناتا ہے۔
دکھاوے کے بجائے، اپنے تعلقات کو سچائی اور ایمانداری پر مبنی بنائیں۔ ایسے دوست بنائیں جو آپ کو اس لیے پسند کریں کہ آپ کون ہیں، نہ کہ اس لیے کہ آپ کے پاس کیا ہے۔ یہ ایک مضبوط سماجی ڈھانچہ بناتا ہے، جہاں لوگ ایک دوسرے کو جج کرنے کے بجائے سپورٹ کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا کو دکھاوے کے بجائے علم، ہنر اور تعمیری کاموں کے لیے استعمال کریں۔ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، دوسروں سے سیکھنے، اور مثبت پیغامات پھیلانے پر توجہ دی جائے۔ مثال کے طور پر، وہ انفلونسرز جو اپنی تعلیم یا فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ معاشرے کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ اصلاحات صرف انفرادی سطح پر نہیں، بلکہ سماجی اور ثقافتی تبدیلی کے ذریعے ممکن ہیں۔ ہمیں ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں ہر انسان کو اپنی حیثیت کا احساس دلانے کے لیے مادی اشیاء کا سہارا نہ لینا پڑے، بلکہ اس کی قدر اس کے کردار، علم اور اخلاق سے ہو۔
پروفیسر اسامہ رضا