EMEL Books

EMEL Books Prime publishing house based in Islamabad. Publishing | Designing | Printing Emel Books is an Islamabad based prime Publishing House.

We offer multiple services, to Writers, Companies, Authors, Poets, etc. Our services include Book Writing, Editing, Designing, Printing and Publishing. Do visit our Website or Fb Store.

RED:The angry child sees but Red.----------------------Something’s off in the city tonight. Under the city lights, somet...
12/07/2025

RED:
The angry child sees but Red.
----------------------
Something’s off in the city tonight.
Under the city lights, something waits in the dark. It’s in the alleys where the trash cans rattle and in the backseats of the parked cars. The lads are used to keeping secrets, and it seems so are the birds, but some secrets start to keep you. They pull you in, whispering about the things you thought you’d never do or the things you thought were just in your head. What you see in the shadows might not be just your imagination.
And be careful when you look— it might just stare back.
--------------------
“This book had me on edge from start to finish! The twists were mind-blowing, and the psychological depth of the characters made it impossible to put down. One of the best thrillers I’ve read in a long time!”
— Dr. Saba Javed, Psychiatrist, MBBS, FRANZCP

📕 "Tora Bora kay Us Paar"A love story of two young Hearts: The Pakhtoon Guy's father is a companion of Bin Laden, and th...
08/07/2025

📕 "Tora Bora kay Us Paar"

A love story of two young Hearts: The Pakhtoon Guy's father is a companion of Bin Laden, and the girl's mother is a US Ambassador.

تورا بورا کے اُس پار:
دو نوجوان دلوں کی سنسنی خیز داستانِ محبت۔ پختون لڑکے کا باپ بن لادن کا ساتھی اور لڑکی کی ماں پاکستان میں امریکی سفیر۔

افغانستان کی سرحد پر تورا بورا کے اس پار واقع پاراچنار سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر غیور ایوب کا بچپن ایک ایسے گاؤں میں گزرا جو تیرہ ہزار فٹ بلند برف پوش کوہِ سفید کے دامن میں واقع ہے۔ 1979 سے شروع ہونے والی افغان جنگ میں انہوں نے افغانستان سے مسلسل آنے والے لاتعداد زخمیوں کا علاج کیا۔
یہ کتاب انہی مشاہدات اور تجربات کا عکس ہے، جو انہیں 1990 کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام اور 2001 میں 9/11 کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا سامنا کرتے ہوئے حاصل ہوئے۔
یہ ناول حقائق اور افسانوی واقعات کا حسین امتزاج ہے، جس میں رومانوی، تاریخی، دینی اور سیاسی اتار چڑھاؤ کو پرونے کی کوشش کی گئی ہے۔

🌐 Order Now: https://emel.com.pk/product/torabora-k-is-paar/
📱 WhatsApp: 0342 5548690
Price: Rs. 1500 - FREE Delivery

Iris Leghari - Life & Times in Pre-Partition India and Early Pakistan.📕 A first-hand account of an English woman’s exper...
07/07/2025

Iris Leghari - Life & Times in Pre-Partition India and Early Pakistan.

📕 A first-hand account of an English woman’s experience of living in the Indian sub-continent.

“Epidemics of various diseases broke out in the camps, and hundreds died from them. One could smell the stench of dead bodies seven miles away. People used to ring me up at the house to ask me to get in touch with the authorities and ask for more time to bury their dead. Needless to say, I hardly saw my husband during these terrible days.”

Oxford, England. 1932. Iris Titherley, an English equestrian and horse trainer, meets Ata Mohammad Khan Leghari, an Indian student at Oxford University with a feudal background. They fall in love, marry, and move to India, where Ata joins the prestigious Indian Civil Service.

Iris, a foreigner in a faraway land, struggles to make sense of the culture and traditions in her adopted country.
Part-memoir, part-travelogue, Iris Leghari: Life and Times in Pre-Partition India and Pakistan is an account of an adventurous and fulfilling life, brimming with interesting observations, anecdotes, and pictures of travels through India, the Middle East and Europe. It is a rare and unique memoir, and a story of love, adventure and belonging.

🌐 Order Now: https://emel.com.pk/product/iris-leghari-life-times-in-pre-partition/
📱 or WhatsApp: 0342 5548690
📕 Four Color Coffee Table book
Price: 5000, Discounted Price: 4000 now

05/04/2025

آج کے دور میں کتاب کا مطالعہ۔۔۔

میں نے یونیورسٹی کے زمانے میں کتابیں پڑھنے کا ایک طریقہ وضع کیا تھا۔ تقریباً دس سال سے اس پر عمل پیرا ہوں۔ مجھے اس طریقہ کار کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ مصروفیات کے باوجود کتاب بینی کی عادت نہیں چُھوٹی، نیز میں کتاب سے زیادہ بہتر انداز میں فائدہ اٹھا پاتا ہوں۔ شاید آپ کو بھی اس سے فائدہ ہو۔

ایک وقت میں دو کتابیں میرے مطالعے میں رہتی ہیں، ایک اردو اور ایک انگریزی، ایک فکشن اور ایک نان فکشن، ایک اپنی خریدی ہوئی کتاب اور ایک لائبریری سے ایشو کروائی ہوئی۔ اردو کتاب فکشن ہو تو انگریزی نان فکشن ہوتی ہے اور ناول یا افسانہ لائبریری سے لیا ہو تو تاریخ یا سیاست کی کتاب میری اپنی ملکیت ہوتی ہے۔ اس کلیے سے توازن قائم رہتا ہے۔

میں ایک دن میں ایک کتاب کے لگ بھگ دس سے زیادہ صفحے نہیں پڑھتا۔ بچپن لڑکپن میں نہ زیادہ مصروفیات تھیں، نہ ذہنی دباؤ، ذہن زیادہ تر و تازہ اور قوی تھا، ہم کتاب پر زیادہ غور بھی نہیں کرتے تھے، کتابیں بھی ہلکی پھلکی ہوتی تھیں سو دو چار دن میں ناول پڑھ دیتے تھے۔ اب ایسا ممکن نہیں۔ اب لمبی لمبی نشستوں میں درجنوں صفحات پڑھنا مضر ہے، اس سے کتاب بینی کی عادت کو سسٹین کرنا ایک عام آدمی کے لیے مشکل ہوجاتا ہے اور کتاب سے علم اور حکمت اخذ کرنا بھی کٹھن ہوتا ہے۔

میں جتنا بھی مصروف یا پریشان ہوں، پوری کوشش ہوتی ہے کہ دونوں زیر مطالعہ کتابوں کے دو تین صفحے روزانہ پڑھ لوں۔ کتاب بینی بھی ان عادتوں میں سے ہے جن میں تسلسل ضروری ہے۔ ایک بار وقفہ آجائے تو دوبارہ شروع کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

کوشش کرنی چاہئیے کہ کتاب علیحدہ بیٹھ کر، یعنی ایسی جگہہ بیٹھ کر پڑھی جائے جہاں آپ کے گھر والے یا دوست نہ ہوں، جن لوگوں کو آپ نہیں جانتے اور وہ آپ کو ڈسٹرب نہیں کریں گے، وہ موجود بھی ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یہ بھی کوشش کریں کہ بیگ رکھ لیں اور کام کرنے کی جگہہ پر یا کالج یونیورسٹی جائیں تو کتاب ساتھ لے کر جائیں۔ جب کام یا کلاس یا دوستوں اور کولیگز سے تھوڑی فرصت ملے تو ایک دو صفحے پڑھ لیں۔ اگر آج کی مصروف زندگی میں کامل فراغت کا انتظار کریں گے تو مشکل ہوجائے گا۔

کتابوں میں مختلف حصوں کو ہائی لائٹ کرنا، انڈرلائن کرنا ضروری ہے۔ اس سے کتاب کی ری ویژن میں آسانی رہتی ہے۔ ایسے حصے کو جو ہائی لائٹ کیے جانے کے قابل ہو، تین چار بار یا چاہیں تو زیادہ بار پڑھیں، ان کے بارے میں کچھ ٹھہر کر سوچیں۔ اس کے لیے باقاعدہ ہائی لائٹر کا استعمال کریں، کتاب پر پین یا پینسل چلانا بدتہذیبی ہے جس سے کتاب کا حسن خراب ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اندھا دھند ہائی لائٹ نہ کریں۔ صرف ایسی لائن کو ہائی لائٹ کریں بہت شاندار ہو یا اہم ہو یا متن کا مغز ہو یا اس میں کوئی آفاقی حکمت ہو۔ پورا پیراگراف ہائی لائٹ کرنے سے گریز کریں۔ ایک لائن ہائی لائٹ کرنا بھی پورے پیرا کی طرف توجہ دلا دیتا ہے۔ یاد رہے کہ ہائی لائٹ اپنی ملکیتی کتاب پر کرنا ہوتا ہے، لائبریری کی یا کسی سے مستعار لی ہوئی کتاب پر ہرگز نہیں۔ اسی طرح کتاب کے حاشیوں پر نوٹس بنانے سے سٹکی نوٹس کا استعمال بہتر ہے۔ کتاب کو عزت دیں، کتاب آپ کو عزت دے گی۔

کتاب پڑھتے ہوئے فون نہ اٹھائیں، جب پڑھ چکیں تو مشکل الفاظ کے معنی انٹرنیٹ پر دیکھ لیں اور کتاب میں جو پڑھا ہے اس سے متعلق کوئی تحقیق طلب چیز ہے یا مزید تفصیل کی ضرورت ہے تو وہ دیکھ لیں۔ دوسرا کام یہ کریں، خاص طور پر ایسی کتاب کے ساتھ جو آپ نے واپس کرنی ہے، کہ اس کے اہم حصوں اور پیراگرافس کی تصاویر بنا لیں، اب تو آپ وہ تصویریں چیٹ جی پی ٹی کو دے کر ٹرانسکرائیب بھی کرسکتے ہیں۔

اگر کوئی کتاب پی ڈی ایف میں ہو تو میں اسے پرنٹ کروا کر بائنڈنگ کروالیتا ہوں۔ درجنوں ایسی کتب میرے پاس ہیں جو پی ڈی ایف سے پڑنٹ کروائی ہیں۔ سکرین پر کتاب پڑھنا ٹھیک نہیں۔ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی میں پرنٹنگ کے بہت معقول اور رعایتی نرخ ہیں۔ امید ہے دیگر علاقوں کی بڑی سرکاری جامعات میں بھی ہوں گے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کتاب مہنگی ہوتی ہے لیکن اس کا پی ڈی ایف مل جائے یا اسے سکین کروالیا جائے تو اس کا پڑنٹ سستا پڑ رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں میری کوشش ہوتی ہے کہ پرنٹ نکلوا لیا جائے تاکہ جو پیسے بچیں اس سے کوئی اور کتاب حاصل کی جاسکے۔

کتابوں کا انتخاب بھی ایک معاملہ ہے۔ اس حوالے سے میرے کچھ عمومی اصول ہیں۔

میں معاصر یا جدید کتب بھی پڑھتا ہوں لیکن ترجیح کلاسیک کو دیتا ہوں کیونکہ کلاسیک لٹریچر پڑھ لینے کے بعد ہی سے انسان کی مضبوط ذہنی اساس تعمیر ہوتی ہے۔ کلاسیک لٹریچر اتنا زیادہ ہے کہ انسان اپنا سارا لڑکپن اور جوانی لگا کر ہی اس کا اتنا حصہ پڑھ پاتا ہے کہ جو پڑھنا ضروری ہو۔ ماڈرن اور کنٹمپریری پڑھنے کے لیے ادھیڑ عمری اور بڑھاپا پڑا ہے۔

ایک عام قاری کے لیے، خاص طور پر ٹین ایجرز کے لیے پاپلر لٹریچر میں برائی نہیں، اس کی بدولت کئی لوگ کتاب کی طرف آتے ہیں، میں نے بچپن اور ٹین ایج میں نسیم حجازی اور ہیری پورٹر بہت پڑھے ہیں۔ مسئلہ تب ہے جب آپ پاپلر لٹریچر ہی پڑھتے جائیں اور آگے نہ بڑھیں۔ اٹھارہ بیس سال کی عمر کے بعد یا جب کتاب بینی کی عادت قدرے پختہ ہو جائے، اس کے بعد مقبول اور ٹرینڈی کتابوں کی بجائے اچھی علمی کتابیں پڑھنی چاہئییں۔

جدید کتب میں بھی عام یا لوکل لکھاریوں کی بجائے اچھے، مستند، عالمی یا قومی سطح پر جانے جانے والے مصنفین کی طرف جائیں۔ لوگ ایسے مصنفوں کی کتاب بھی خرید لیتے ہیں اور پڑھ رہے ہوتے ہیں، جن سے زیادہ علم، حکمت اور تجربہ خود ان کے پاس ہوتا ہے، لیکن چونکہ کتاب کے انتخاب کا سلیقہ نہیں ہوتا، اس لیے کتاب کی اہمیت کے نام پر کچھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔

اپنے آپ کو سختی کے ساتھ کسی ایک محدود مضمون یا نظریے میں بند کرلیں گے اور اس کی کتابیں ہی پڑھیں گے تو اپنے ساتھ ناانصافیکریں گے۔ ظاہر ہے کہ ہم سب کے میلان ہوتے ہیں، ہونے بھی چاہئیں۔ سائنس پڑھنے والا شاید تاریخ زیادہ نہ پڑھ پائے اور ادب پڑھنے والے کے لیے سیاست کو پڑھنا مشکل ہو لیکن ہر مضمون کو، خاص طور اپنی دل چسپی کے مضمون سے متعلقہ مضامین پر بھی وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ پڑھتے رہنا چاہئیے، مثلاً جسے اسلامیات سے شغف ہے، اسے تاریخ اور سیاست اور ادب پڑھنا ہی چاہئیے۔ سائنس کا طالب علم فلاسفی اور اکنامکس اور انٹرنیشنل ریلیشنز کو نظر انداز نہیں کرسکتا، وغیرہ۔

یہی معاملہ نظریات کا ہے۔ اپنی فکری میلان سے تھوڑا نکل کر اِدھر اُدھر جھانکتے رہنا چاہئیے۔ ہاں مگر سخت گیر قسم کی نظریاتی اور پروپیگنڈہ والی کتابوں سے پرہیز بہتر ہے، خواہ وہ کسی بھی نظریاتی کیمپ کی ہوں۔

کتابیں مستقل بنیادوں پر خریدتے بھی رہنا چاہئیے۔ خواہ مہینے کی ایک کتاب ہی خریدیں۔ یہ نہ سوچیں کہ پہلے اتنی کتابیں پڑھی ہیں، پہلے وہ پڑھوں پھر مزید خریدوں گا۔ اگر کتاب پڑی ہو گی تو کبھی نہ کبھی پڑھی جائے گی۔ میں اس وقت بھی جو کتاب پڑھ رہا ہوں وہ میں نے تیرہ سال پہلے خریدی تھی۔ میرے والد کی جوانی میں خریدی گئی کچھ کتب جو خود انھوں نے نہیں پڑھی تھیں، میں نے پڑھیں۔ میری کئی کتابیں میں نہیں پڑھ سکوں گا لیکن میرے بچے شاید پڑھیں گے۔ گھر میں کتابوں کی کثرت ہوگی تو ہی کتاب کی طرف میلان ہوگا۔ ساتھ ہی کسی لائبریری کی ممبرشپ ہونا اور وہاں سے کتابیں ایشو کروانا بھی بہت مفید ہے۔ ہر کتاب نہ بازار میں ملتی ہے اور نہ آپ خرید سکتے ہیں۔
احمد الیاس

📕 This extensively researched book brings to light hitherto unknown aspects of the history of Gakkhars. The author has l...
19/02/2025

📕 This extensively researched book brings to light hitherto unknown aspects of the history of Gakkhars. The author has left no stone unturned in verifying facts and the content of the book has been substantiated by authentic historical sources. The credibility of historical events associated with Gakkhars has been evaluated independently of the Kaigoharnama, the official Gakkhar chronicle, for the first time in recent years.

Furthermore, the author has very ably explored the historical setting in which Gakkhars rose to power and became key players at certain defining moments of the history of the Indian subcontinent. The research work presented in the book is an asset for the historian and will help interpret the history of Gakkhars in its correct historical perspective.

🌐 Order Now: https://emel.com.pk/product/sarang-history-of-gakhar/
📱 or WhatsApp: 0342 5548690
#گکھڑ

Dr. Saheeb A. Kayani’s book significantly contributes to the scholarly examination of the history of Gakkhars through its compilation of 20 insightful essays. Each essay provides a thorough exploration of a particular dimension of the history of Gakkhars. His work is notable not only for the depth...

⛰️  #بلوچستان پہ تازہ ترین کتاب —-سیاسی کوہِ تقصیر—- سابق آئی جی بلوچستان کے قلم سے۔یہ کتاب غلطیوں کے پہاڑ، بنجر فیصلوں ...
16/02/2025

⛰️ #بلوچستان پہ تازہ ترین کتاب —-سیاسی کوہِ تقصیر—- سابق آئی جی بلوچستان کے قلم سے۔

یہ کتاب غلطیوں کے پہاڑ، بنجر فیصلوں اور امیدوں کے مقتل کی ایسی داستان ہے جو بلوچستان کے پہاڑوں سے بلند اور گوادر کے سمندر سے گہری ہے۔

🌐 Order Now: https://emel.com.pk/product/siasi-koh-e-taqseer/
or WhatsApp: 0342 5548690
#بلوچستان

Emel commenced as an online book store offering shipping and cash on delivery all over Pakistan and all over the World. Explore our store now.

 #بلوچستان پہ تازہ ترین کتاب، سابق آئی جی کے قلم سے۔۔۔۔۔۔۔۔اس کتاب کا مخاطب بلوچستان کے شہری کے ساتھ ملک کے دیگر صوبوں ک...
15/02/2025

#بلوچستان پہ تازہ ترین کتاب، سابق آئی جی کے قلم سے۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کتاب کا مخاطب بلوچستان کے شہری کے ساتھ ملک کے دیگر صوبوں کا فرد بھی ہے۔ ہر وہ شخص جو بالواسطہ یا بلاواسطہ بلوچستان کے لئے کچھ کرسکتا ہے یا کرنے کی خواہش رکھتا ہے اسے یہ کتاب ایک سے زائد بار پڑھنی چاہیے۔ ہماری لاعلمی ہماری ناکردہ کاری کا جواز نہیں بن سکتی۔

یہ کتاب غلطیوں کے پہاڑ، بنجر فیصلوں اور امیدوں کے مقتل کی ایسی داستان ہے جو بلوچستان کے پہاڑوں سے بلند اور گوادر کے سمندر سے گہری ہے۔ اس بیان میں بلوچستان کی ثروت مند تاریخ، جغرافیہ، خوبصورت روایات اور منفرد کلچر کا تعارف بھی ہے اور سیاسی و سماجی منظر کا تجزیہ بھی۔ عام لوگوں کی زندگی کا دلچسپ اور سنجیدہ بیان بھی ہے اور سیاسی، انتظامی، قبائلی اور مذہبی قائدین کا کردار بھی۔

روزِ عمر کے آخری پہر میں ٹھہرے ہوئے ایک فرزندِ زمین کا یہ بیانِ حلفی اپنے بین السطور میں فردِ جرم بھی ہے اور اعترافِ جرم بھی۔ کیا اپنے اپنے گوشہء عافیت میں مقیم ہم لوگ بھی اس اعتراف میں شریک ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟

🌐 You can now order a copy from https://emel.com.pk/product/siasi-koh-e-taqseer/ or by Whatsapp 0342 5548690
#بلوچستان

الوداع شہرِ کتب الوداع۔ اگلے سال انہی دنوں پھر ملیں گے۔
09/02/2025

الوداع شہرِ کتب الوداع۔ اگلے سال انہی دنوں پھر ملیں گے۔

کتاب دوستوں اور کتابوں کا میلہ۔ کل آخری دن۔ کچھ جھلکیاں۔
08/02/2025

کتاب دوستوں اور کتابوں کا میلہ۔ کل آخری دن۔ کچھ جھلکیاں۔

Address

Sahiwala

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when EMEL Books posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to EMEL Books:

Share

Category

Emel Publications

Over the last decade, Emel Publications has become the most progressive independent publishing house of International standard of the Capital, Islamabad.

With our expanding list of English and Urdu titles and diverse range of authors from Pakistan and abroad, we offer new and published writers the opportunities they need and readers an exciting range of books to read.