
19/07/2025
(افسردہ)
تحریر: عمران احمد بلوچ
پہلا حصہ: بچپن کی منگنی -- ایک رشتہ جو تقدیر نے لکھا تھا
یہ کہانی اُن دنوں کی ہے جب محبت کو زبان کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، جب ایک نظر، ایک مسکراہٹ، ایک خاموشی ہی کافی ہوا کرتی تھی دل کے حال کہنے کو ۔
ایک چھوٹے سے گاؤں میں، ایک ہی چھت کے نیچے، دو کزن ایک ساتھ پلے بڑھے۔ اُن کے درمیان کوئی جھجک نہ تھی، نہ فاصلے، نہ کوئی پردہ۔ محبت اُن کے درمیان کب اُتری، یہ کسی کو خبر نہ ہوئی۔ کیونکہ وہ محبت وہ نہیں تھی جو بڑے ہو کر جوان دلوں میں آتی ہے… یہ وہ محبت تھی جو ماں کی گود، اور باپ کی گود میں کھیلتے کھیلتے خود بخود پروان چڑھ گئی تھی۔
خاندان کی روایت کچھ یوں تھی کہ بچپن میں ہی رشتے طے ہو جاتے۔ جب لڑکا بمشکل سات سال کا تھا، اور لڑکی پانچ برس کی، تو بزرگوں نے دونوں کو ایک دوسرے کا نام دے دیا۔ محض ایک سادہ سی بات — "یہ تمہاری منگیتر ہے، اور یہ تمہارا منگیتر ہے۔"
لیکن اُس سادہ سے جملے میں، ایک پوری زندگی بند تھی۔
گھرمیں جب کبھی کوئی تقریب ہوتی، تو دونوں کو ساتھ بٹھایا جاتا۔ محلے کی عورتیں ہنستی تھیں، "ارے دیکھو، کیسا جوڑا ہے، اللہ نظرِ بد سے بچائے!"
لڑکی کی چھوٹی سی چُٹیا، اور اُس کی آنکھوں میں شرم کی جھلک، لڑکے کا ناز سے کہنا، "یہ میری ہے!" یہ سب کچھ اتنا معصوم اور سچا تھا کہ وقت بھی مسکرا دیا کرتا تھا۔
راتوں کو جب پورے گھر میں خاموشی ہوتی، دونوں کھڑکیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے۔ کبھی آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکراہٹوں کا تبادلہ، کبھی چھت پر چُپ چاپ بیٹھ کر تاروں کو گنتے، اور خوابوں کی دنیا بُنتے۔
محبت کی خوشبو عمر سے پہلے ہی اُن کے رشتے کو مہکا چکی تھی۔
"بچپن کی محبت، بارش جیسی ہوتی ہے خاموش، پاک، اور ہر قطرہ دل میں اترتا ہے…"
جس وقت باقی بچے کھلونوں سے کھیلتے تھے، یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جینے مرنے کے خواب دیکھتے تھے۔ لڑکی جب روٹھ جاتی، تو لڑکا چپ چاپ اُسے منانے کے لیے اُس کی پسندیدہ چاکلیٹ لے آتا۔ اور لڑکی اُس چاکلیٹ سے زیادہ اُس کی خاموش محبت پر خوش ہو جاتی۔
ماں باپ جب اُنہیں ساتھ بیٹھا کر تصویریں کھینچتے، تو وہ دونوں نظریں چرا کر مسکرا دیا کرتے، جیسے کہہ رہے ہوں: "ایک دن یہ تصویر حقیقت بن جائے گی…"
یہ رشتہ محض منگنی کا نہیں تھا — یہ تقدیر کی لکھی ہوئی تحریر تھی، جو وقت کی کتاب پر سادہ الفاظ میں رقم تھی۔ لیکن اُسی وقت، تقدیر کی انگلی میں بھی کچھ زخم تھے، جو ابھی دکھنے باقی تھے۔