General knowledge

General knowledge The main theme of page is to inform everyone about knowledge.

سمندری پانی نمکین کیوں ہے؟‏           سمندروں میں پائے جانے والے تمام نمک کو اگر زمین کی سطح پر برابر پھیلا دیا جائے تو ...
12/03/2023

سمندری پانی نمکین کیوں ہے؟‏

سمندروں میں پائے جانے والے تمام نمک کو اگر زمین کی سطح پر برابر پھیلا دیا جائے تو نمک کی یہ مقدار بہت زیادہ اُونچائی تک پہنچے گی۔۔‏ لیکن یہ تمام نمک سمندر میں کیسے پہنچا ہے جبکہ سمندر میں گِرنے والے دریاؤں کا پانی میٹھا ہوتا ہے؟‏

بارش کا پانی جب مٹی سے گزرتا ہے تو مٹی میں پائی جانے والی معدنیات اس میں گھل جاتی ہیں۔‏ ان معدنیات میں نمک اور ایسے کیمیائی عناصر بھی شامل ہیں جن کے مرکب سے نمک بنتا ہے۔‏ پھر یہ پانی ندیوں اور دریاؤں کے ذریعے سمندر میں بہہ جاتا ہے ‏(‏۱)‏‏۔‏ دریاؤں کے پانی میں نمک کی مقدار نسبتاً کم ہوتی ہے اس لئے یہ ہمیں کڑوا نہیں لگتا۔‏

سمندر کی تہہ کی مٹی میں بھی نمک پایا جاتا ہے۔‏ جب اس مٹی میں گہرے گہرے شگاف پڑتے ہیں تو پانی ان شگافوں میں داخل ہو جاتا ہے۔‏ چونکہ زمین کی تہہ کا درجۂ‌حرارت بہت زیادہ ہے اس لئے یہ پانی بھاپ بن کر مٹی میں سے نمک گھلاتا ہے۔‏ پھر گرم چشموں کے ذریعے یہ بھاپ نمک سمیت دوبارہ سے سمندری پانی میں مل جاتا ہے ‏(‏۲)‏‏۔‏

سمندر کی تہہ میں آتش‌فشاں پہاڑ بھی ہوتے ہیں جو بڑی مقدار میں لاوا اُگلتے ہیں۔‏ اس لاوے میں بہت سی ایسی معدنیات موجود ہیں جو پانی میں گھل جاتی ہیں ‏(‏۳)‏‏۔‏ اس کے علاوہ معدنیات والی گرد اور مٹی،‏ ہوا میں اُڑ کر بھی سمندر تک پہنچتی ہے ‏(‏۴)‏‏۔‏ ان تمام ذرائع سے طرح طرح کی معدنیات سمندر میں پہنچتی ہیں یہاں تک کہ سمندری پانی میں تقریباً ہر کیمیائی عنصر پایا جاتا ہے۔‏ لیکن جو کیمیائی مرکب سب سے بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے یہ سوڈیم کلورائیڈ ہے،‏ یعنی خوردنی نمک۔‏ سمندری پانی میں پائی جانے والی نمکیات میں سے ۸۵ فیصد سوڈیم کلورائیڈ ہی پر مشتمل ہے۔‏ اور اسی وجہ سے سمندری پانی کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔‏

نمک کی مقدار کیوں نہیں بڑھتی؟‏

سمندر کا پانی جب بھاپ بن کر بادلوں میں تبدیل ہو جاتا ہے تو اِس میں کوئی نمک نہیں ہوتا۔‏ اس کا مطلب ہے کہ نمک سمندر ہی میں رہ جاتا ہے۔‏ اس کے ساتھ ساتھ ہر لمحے اَور بھی معدنیات سمندر میں پہنچ جاتی ہیں۔‏ اس کے باوجود سمندری پانی میں نمک کی مقدار کبھی بڑھتی نہیں بلکہ ہمیشہ ۳ اعشاریہ ۵ فیصد رہتی ہے۔‏ نتیجتاً جتنا بھی نمک سمندر میں پہنچتا ہے اُتنا ہی اس سے نکلتا بھی ہے۔‏ لیکن سوال یہ اُٹھتا ہے کہ یہ سارا نمک کہاں غائب ہو جاتا ہے؟‏

اس کی بڑی مقدار جانوروں کے بدنوں کا حصہ بن جاتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ مونگے،‏ سیپیاں اور گھونگے وغیرہ اپنا چھلکا یا ڈھانچا کیلسیم سے بناتے ہیں جو طرح طرح کی نمکیات کا ایک اہم جُزو ہے۔‏ اس کے علاوہ سمندری کائی اور جراثیم جیسی ننھی سی مخلوقات بھی طرح طرح کی معدنیات جذب کر لیتی ہیں۔‏ جب یہ مخلوقات کھائی جاتی یا مر جاتی ہیں تو ان کے بدنوں میں جو نمکیات اور معدنیات ہوتی ہیں یہ سمندر کی تہہ میں جمع ہو جاتی ہیں ‏(‏۵)‏‏۔‏

نمک دوسرے طریقوں سے بھی سمندری پانی میں سے نکل جاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ دریاؤں کے ذریعے چکنی مٹی سمندر میں پہنچتی ہے اور آتش‌فشاں پہاڑوں کی راکھ بھی سمندر میں گِرتی ہے۔‏ نمک چکنی مٹی یا راکھ سے جڑ جاتا ہے اور اس کے ساتھ سمندر کی تہہ میں جمع ہو جاتا ہے۔‏ اس کے علاوہ نمک کئی قسم کی سمندری چٹانوں سے بھی چپٹ جاتا ہے۔‏ ایسے بےشمار طریقوں سے نمکیات اور معدنیات پانی میں سے نکل کر سمندر کی تہہ میں جمع ہوتی ہیں ‏(‏۶)‏‏۔‏

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سمندر کی تہہ میں جو نمک جمع ہوتا ہے وہ وہاں سے بھی غائب ہو جاتا ہے،‏ حالانکہ اس میں کافی عرصہ لگتا ہے۔‏ زمین کی سطح بڑے بڑے ٹکڑوں پر مشتمل ہے جو حرکت میں رہتے ہیں۔‏ کچھ علاقوں میں ایک ٹکڑا دوسرے ٹکڑے سے ٹکرا کر آہستہ سے اِس کے نیچے کھسک جاتا ہے۔‏ ایسے علاقوں میں اکثر زمین کی سطح پر بڑی بڑی دراڑیں،‏ زلزلے اور آتش‌فشاں پہاڑ نمایاں ہوتے ہیں۔‏ عام طور پر ایسے ٹکڑے جو سمندری علاقوں میں واقع ہیں اُن ٹکڑوں سے زیادہ بھاری ہوتے ہیں جو خشکی میں واقع ہیں۔‏ اس لئے سمندری ٹکڑے اکثر خشکی کے ٹکڑوں کے نیچے کھسکتے ہیں۔‏ اس طرح سمندر کی تہہ میں جو نمک جمع ہوتا ہے یہ ان ٹکڑوں کے ساتھ زمین کی تہہ میں غائب ہو جاتا ہے ‏(‏۷)‏‏۔‏

کمال کی چیز

مختلف سمندروں میں نمک فرق مقدار میں پایا جاتا ہے۔‏ مثلاً خلیجِ‌فارس اور بحرِقلزم میں نمک کی مقدار تمام سمندروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہاں بہت زیادہ پانی بھاپ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔‏ اس کے برعکس جن علاقوں میں بڑے بڑے دریا سمندر میں گِرتے ہیں یا بارش بہت زیادہ پڑتی ہے وہاں پانی میں نمک کی مقدار نسبتاً کم ہوتی ہے۔‏ برف میٹھے پانی پر مشتمل ہے۔‏ اس لئے ان سمندروں میں جہاں برف پگلتی ہے وہاں بھی نمک کی مقدار کم ہوتی ہے۔‏ لیکن جب سمندر کا پانی جم کر برف بنتا ہے تو برف کی سطح کے نیچے،‏ پانی میں نمک کی
مقدار بڑھ جاتی ہے۔‏ تاہم،‏ دُنیا کے زیادہ‌تر علاقوں میں سمندری پانی میں نمک کی مقدار تقریباً برابر ہی ہوتی ہے۔‏

سمندر کا پانی مختلف علاقوں میں برابر کھارا بھی ہوتا ہے۔‏ پانی کی کھٹاس یا کھار کا پیمانہ پی‌ایچ (‎pH‎) کہلاتا ہے۔‏ اگر پانی کا پی‌ایچ ۷ سے کم ہے تو یہ کھٹا ہوتا ہے۔‏ اگر پی‌ایچ ۷ سے اُوپر ہے تو پانی کھارا ہوتا ہے۔‏ سمندری پانی کا پی‌ایچ عموماً ۷ اعشاریہ ۴ اور ۸ اعشاریہ ۳ کے درمیان ہوتا ہے۔‏ (‏انسانی خون کا پی‌ایچ تقریباً ۷ اعشاریہ ۴ ہوتا ہے۔‏)‏ اگر سمندری پانی کا پی‌ایچ اس سے زیادہ یا کم ہوتا تو سمندر اور اس میں رہنے والی مخلوق کو خطرہ ہوتا۔‏ اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آج ایسا ہی ہو رہا ہے۔‏ انسانی عمل کی وجہ سے فضا میں کاربن ڈائی‌آکسائیڈ نامی ایک گیس کی مقدار بڑھ رہی ہے۔‏ سمندر اس گیس کو جذب کر لیتا ہے جہاں اس سے کاربونک ایسڈ نامی ایک تیزاب پیدا ہوتا ہے۔‏ اس کا مطلب ہے کہ انسانی عمل کی وجہ سے سمندری پانی آہستہ آہستہ کھٹا ہوتا جا رہا ہے۔‏

سائنسدان بھی سمندر میں ہونے والے کیمیائی عمل کو پوری طرح سے سمجھ نہیں پاتے۔‏ البتہ جو کچھ ہم نے سیکھا ہے اس سے ہمارے خالق کی لاجواب حکمت ظاہر ہوتی ہے۔‏

( یہ معلومات رسالہ،،جاگو،، سے لی گئی ہے۔)

24/09/2022

National MDCAT 2022.

صبح کی مسنون دعائیں ۔
24/09/2022

صبح کی مسنون دعائیں ۔

General knowledge about Pakistan.
23/09/2022

General knowledge about Pakistan.

17/09/2022
  سائنسدانوں نے دو ایسے جینز بھی ڈھونڈے ہیں جن کی موجودگی سے بھی آنکھوں کی اس پتلی کے رنگ میں فرق پڑھتا ھے ان کے نام HER...
17/09/2022





سائنسدانوں نے دو ایسے جینز بھی ڈھونڈے ہیں جن کی موجودگی سے بھی آنکھوں کی اس پتلی کے رنگ میں فرق پڑھتا ھے ان کے نام HERC2 اور OCA2 ھے جن لوگوں میں یہ جینز ہوں ان کی آنکھوں کی پتلی کی رنگت سبز یا نیلی ہوتی ھے ان میں سے بعض رنگ ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں ابھی سائنس اتنا نہیں جانتی کے یہ کیوں اور کیسے تبدیل ہوئے۔ لیکن میجر یہی دو جینز ہیں جن کے تھوڑا بہت اوپر نیچے ہونے سے آنکھوں کی پتلی کی رنگت میں تبدیلی پیدا ہوتی ھے۔

اگر اس حوالے سے سائنسی سٹڈیز پر غور کریں تو پتہ چلتا ھے ہم انسانوں کی آج سے 10 ہزار سال پہلے تقریبا" اکثریت کی آنکھیں ڈارک برون رنگ کی تھی اور آج بھی اکثریت لوگوں کی آنکھوں کا رنگ یہی ھے۔ اس کی بڑی وجہ چونکہ ہم انسان پہلے افریقہ ہی سے باقی دنیا میں ہجرت کر کے پہنچے ہیں۔

(اس میں کچھ سائنسی سٹڈیز یہ بھی کہتی ہیں چونکہ ہم انسانوں کا ملاپ ہوا ھے ماضی میں دوسرے انسان نما مخلوق جیسا کے وغیرہ سے اب نیندر تھل کی جلد ہماری نسبت تھوڑی سی کم براون تھی اور آنکھوں کی رنگت بھی ہماری آنکھوں کی پتلی کی رنگت سے کم گہری تھی چونکہ یہ انسان نما مخلوق زیادہ تر ٹھنڈے علاقوں میں رہتی تھی۔ جس کی وجہ سے انسانی ڈی این اے میں دوسرے ڈی این اے کا ملاپ ہوا تو اس سے کچھ وہ والا ڈی این اے بھی آگے پھیلا انسانی نسلوں کے اندر جس سے کچھ لوگوں کی آنکھیں کا رنگ دوسروں سے زرا کم براون ھے۔۔۔ )

‏بھیڑیا واحد جانور ھے جو اپنے والدین کا انتہائی وفادار ھے۔یہ بڑھاپے میں اپنے والدین کی خدمت کرتا ھے۔یہ ایک غیرت مند جانو...
17/09/2022

‏بھیڑیا واحد جانور ھے جو اپنے والدین کا انتہائی وفادار ھے۔یہ بڑھاپے میں اپنے والدین کی خدمت کرتا ھے۔یہ ایک غیرت مند جانور ھے اسلئے ترک اپنی اولاد کو شیر کی بجائے بھیڑیے سے تشبیہ دیتے ھیں.۔بھیڑیا واحد ایسا جانور ھے جو اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا اور کسی کا غلام نہیں بنتا بلکہ جس دن پکڑا جاتا ہے اس وقت سے خوراک لينا بند کر ديتا ہے اس لئۓ اس کو کبھى بھى آپ چڑيا گھر يا پھر سرکس ميں نہيں ديکھ پاتے اسکے مقابلے ميں شیر ، چيتا ، مگر مچھ اور ھاتھى سمیت ہر جانور کو غلام بنایا جا سکتا ھے۔‏بھیڑیا کبھی ﻣٌﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ کھاتا اور نہ ہی بھیڑیا محرم مؤنث( والدہ، بہن) پر جھانکتا ھے یعنی باقی جانوروں سے بالکل مختلف بھیڑیا اپنی ماں اور بہن کی پہچان رکھتا ہے اور بری نگاہ سے دیکھتا تک نہیں۔‏ بھیڑیا اپنی شریک حیات کا اتنا وفادار ہوتا ھے کہ اسکے علاؤہ کسی اور مؤنث سے تعلق قائم نہیں کرتا۔ اسی طرح مؤنث( یعنی اسکی شریک حیات) بھیڑیا کے ساتھ اسی طرح وفاداری نبھاتی ھے۔ ‏بھیڑیا اپنی اولاد کو پہنچانتا ھے کیونکہ انکے ماں و باپ ایک ہی ہوتے ہیں۔۔۔ جوڑے میں سے اگر کوئی ایک مر جائے تو دوسرا مرنے والی جگہ پر کم از کم تین ماہ کھڑا بطور ماتم افسوس کرتا ھے۔‏ بھیڑئیے کو عربی زبان میں "ابن البار" کہا جاتا ہے، یعنی"نیک بیٹا" کیونکہ جب اسکے والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں تو یہ انکے لئے شکار کرتا ھے اور انکا پورا خیال رکھتا ھے۔‏ اس لئے ترک اپنی اولاد کو شیر کی بجائے بھیڑئیے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ انکا ماننا ھے کہ "شیر جیسا خونخوار بننے سے بہتر ھے بھیڑیے جیسا نسلی ہونا"

Address

Islamabad

Telephone

+923499622426

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when General knowledge posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to General knowledge:

Share

Category