20/04/2025
بلوچستان کے حالات کیوں تھم گئے؟
کوڈ نام: آریہ-13B — اشوک چتر ویدی کی گرفتاری کی اندرونی کہانی بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا ایک سینئر ایجنٹ، اشوک چتر ویدی، کوڈ نام ’’آریہ-13B‘‘، ایران سے آپریٹ کر رہا تھا جب وہ پاک-ایران سرحد کے قریب پاکستانی کاؤنٹر انٹیلیجنس کے ہتھے چڑھ گیا۔ ’’را‘‘ میں اُس کا تعارف ایک ’’فیلڈ کوآرڈی نیٹر‘‘ کے طور پر کیا جاتا تھا، مگر اصل میں وہ ’’ویسٹ ایشیا ڈیسک‘‘ پر تعینات ایک سینئر ایسٹ ہینڈلر تھا۔
تہران میں اُس نے ’’کرافٹس آف سلک روٹ‘‘ کے نام سے ایک درآمدی کمپنی قائم کر رکھی تھی؛ ظاہر میں یہ کمپنی بلوچ زیورات، ایرانی قالین اور زعفران کی تجارت کرتی تھی، مگر درپردہ یہ دفتر دہشت گرد گروہوں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کا مرکز تھا۔ یہی جگہ بی ایل اے کے چھاپہ ماروں کو SAT فونز، نائٹ ویژن گوگلز اور M-16 A4 رائفلز کی ترسیل کا خفیہ گودام بنی ہوئی تھی۔
سال 2023 کے اواخر میں نئی دہلی کے ’’ڈیجیٹل وارفیئر سیل‘‘ سے اشوک کو ایک نیا مشن سونپا گیا: بلوچ ڈیجیٹل اسپیس میں اینٹی پاکستان بیانیے کا سیلاب لانا۔
500 سے زائد جعلی ’’ایکس‘‘، فیس بک اور ٹیلیگرام اکاؤنٹس بنائے گئے؛ ہر اکاؤنٹ ایک الگ بلوچ نام، ایک مختلف المیہ، لیکن ایک ہی مقصد: پاکستان دشمن پروپیگنڈا۔
دہلی کے ’’سائبر پارک کلکجی‘‘ میں واقع ٹرول فارم کے 25 آپریٹرز روزانہ 8000 سے زائد پوسٹس اور 1500 گرافکس اپ لوڈ کرتے۔
ظاہری طور پر بلوچ لہجے میں لکھے گئے یہ پروفائلز دراصل دہلی یونیورسٹی کے تاریخ کے طلبہ، چند جز وقتی ملازمین، اور ریٹائرڈ آرمڈ فورسز کے سائبر شوقین افراد کے ہاتھوں میں تھے۔
اسی دوران اشوک نے بی وائی سی (بلوچ یکجہتی کمیٹی) کے کچھ ناراض ارکان تک رسائی حاصل کی۔ اُنہیں خفیہ ’’گیٹ وے فنڈ‘‘ سے چھوٹے کرپٹو والٹس بھیجے گئے، جن کا تبادلہ ایرانی ’’تبادلہ بازار‘‘ کے ذریعے ہوتا۔ شرط صرف اتنی تھی: لانگ مارچ، دھرنے یا ہیش ٹیگ ٹرینڈ میں ’’FreeBalochistan‘‘ کے ساتھ ’’Pakistan Army Out‘‘ لکھا جائے۔
21 فروری 2025، رات 2 بجے: پاک-ایران سرحد کے قریب ایک بند پیک اپ ٹرک نے کچے راستے پر بریک لگائی۔ سرحدی پوسٹ ’’چاہ بہار-پنجگور لنک ٹریل‘‘ پر پاکستانی کاؤنٹر انٹیلیجنس یونٹ نے خفیہ اطلاع پر Thermals آن کر رکھے تھے۔ ٹرک سے اترنے والے 3 افراد میں سے جو درمیانے قد کا، سیاہ چشمہ اور زیتونی جیکٹ پہنے تھا، اُسے ’’Red-Nine‘‘ کا طے شدہ اشارہ ملتے ہی چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔
دستگیر خان، جسے مقامی بروکر سمجھا جاتا تھا، نے پکڑے جانے پر کہا:
’’صاحب! یہ تو مترجم ہے...‘‘
مگر Retina-ID اسکینر نے پلک جھپکتے میں جھوٹ ننگا کر دیا—فوٹو میچنگ سے ظاہر ہوا:
Ashok Chaturvedi s/o Mohan Lal Chaturvedi, DoB: 11-07-1974
بین الاقوامی وارنٹ تو نہ تھا، مگر انٹرپول کی ’’Ops-Grey List‘‘ میں اس شناخت کے روابط متعدد سائبر حملوں سے جُڑے تھے۔
ابتدائی تفتیش کا خلاصہ:
ڈیجیٹل سیل: کل 532 جعلی اکاؤنٹس — 118 بلوچی، 263 انگریزی، باقی فارسی و عربی۔ روزانہ اوسطاً 9 Million امپریشنز۔
لاجسٹک روٹ: بندر عباس → چاہ بہار → پنجگور / سبی کے پہاڑی راستے۔
مالی معاونت: UAE کی شیل کمپنی ’’Z-Horizon FZE‘‘ → ایرانی کرپٹو OTC ڈیسک → مقامی حوالہ آپریٹرز۔
بی وائی سی روابط: 2 مڈ لیول آرگنائزرز — ’’DJ-Nazar‘‘ اور ’’Dr-Madiha Baloch‘‘۔ دونوں اب تحویل میں۔
اشوک نے 72 گھنٹوں کی Begin-High-Control انٹروگیشن میں جزوی اعتراف کیا کہ اُس نے BLA کو کم از کم 7 بار خودکش ویسٹس، 20 تھرڈ جنریشن نائٹ ویژن یونٹس، اور 1 پورٹیبل ڈرون جَمر فراہم کیا۔
چتر ویدی کے 10 TB ڈیجیٹل فورینزک امیجز سے ایسے ’’ڈیڈ ڈراپس‘‘ سامنے آئے جن کے IP لاگز اسلام آباد اور کراچی کے حساس مراکز تک جاتے تھے، جس سے یہ واضح ہوا کہ بھارتی نیٹ ورک صرف بلوچستان ہی نہیں، پاکستان کے شہری مراکز میں بھی ’’Bots and Proxies‘‘ چھوڑ چکا ہے۔
کراچی میں ایک سوشل میڈیا ایجنسی کے 2 ملازمین زیر حراست ہیں؛ ان کی ذمہ داری ’’برانڈ مینجمنٹ‘‘ تھی، لیکن وہ BLA کے لیے انفلوئنسرز ہائر کر رہے تھے۔
دہلی میں واقع ’’سائبر پارک‘‘ پر خفیہ چھاپے کے بعد وہاں کا ڈیٹا سینٹر اچانک ’’Server Maintenance‘‘ کے بورڈ تلے بند کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بھارتی سائبر یونٹ نے اپنے ہی سرورز کو ’’Blueprint Dump‘‘ کر کے شواہد مٹانے کی کوشش کی۔
تہران میں ایک کاروباری انجمن کے ذریعے 2 سابق سفارتکار خاموشی سے بلائے گئے—ایرانی تحقیقاتی ادارے اب اُن تک پہنچ چکے ہیں۔
پاکستانی حکام نے اشوک کی گرفتاری تاحال ظاہر نہیں کی؛ بظاہر دنیا کے لیے وہ ایک گم نام اسمگلر ہے۔ لیکن اندرونِ خانہ معاملات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ اسی گرفتاری کے بعد سے BLA کے کئی کمانڈر بھاری ہتھیاروں کے بغیر پکڑے گئے، اور سوشل میڈیا پر ’’Fake Link‘‘ کرنے والے متعدد ہینڈلز اچانک خاموش ہو گئے۔
جب اشوک چتر ویدی سے آخری بار پوچھا گیا کہ اُس نے یہ مہم کیوں شروع کی، تو اُس نے رک کر بس اتنا کہا:
“Narratives win wars; bullets only finish them.”
مگر اب وہی Narrative اُس کے گرد قید ہے۔
سرحد کے اُس پار، جہاں بلوچستان کی ٹوٹی سڑکیں نئی روشنی کی منتظر ہیں، یہ کہانی آہستہ آہستہ پھیل رہی ہے کہ ایک بڑا ’’شکار‘‘ محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اُس کے 500 سائے ایک ایک کر کے بجھائے جا رہے ہیں۔