Employees Info

Employees Info Reels that trend, content that connects. Follow for daily creativity! | Digital Creator |

17/06/2025

آذربایجان ٹی وی کے مطابق سابق ایرانی صدر احمدی نژاد کو تہران میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا

09/06/2025

یوکرین کی تباہی: پاکستان کے لیے عبرت کا سبق

دنیا کی تاریخ ہمیں بارہا یہ سبق سکھاتی ہے کہ جو ریاست طاقت سے محروم ہو، وہ بین الاقوامی معاہدوں اور امن کی ضمانتوں پر ہرگز بھروسہ نہیں کر سکتی۔ اس کی تازہ اور تلخ مثال "یوکرین" ہے، جو سوویت یونین کے زوال کے بعد ایک بڑی ایٹمی طاقت بن کر ابھرا، لیکن آج دشمن کے سامنے جس بے بسی کا منظر پیش کر رہا ہے، وہ خاص طور پر "پاکستان" کے لیے "عبرت کا سبق" ہے۔

آئیے بات کو تفصیل سے سمجھتے ہیں۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرین کو وسیع و عریض سٹریٹیجک اثاثے ورثے میں ملے تھے۔ ان میں 19 عدد Tu-160 بمبار، 25 عدد Tu-95MS بمبار، 60 عدد Tu-22M3 بمبار، اور 1700 نیوکلیئر وار ہیڈز شامل تھے۔ اس کے علاوہ، بین البراعظمی میزائل سائلوز، جنگی بحری جہاز اور ایک ادھورا طیارہ بردار جہاز بھی اس کے حصے میں آیا تھا۔ اس وقت یوکرین روس اور امریکہ کے بعد دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی طاقت "بن کر ابھرا" تھا۔

سوویت یونین کے زوال کے بعد، یوکرین "کو مغرب کی طرف سے گہری توجہ ملی"۔ مغربی مالیاتی اداروں کے مشیروں کی زیر نگرانی سوویت طرز کی مرکزی منصوبہ بندی سے مارکیٹ اکانومی میں منتقلی کا عمل شروع ہوا۔ اس دوران ریاستی ملکیت کے بڑے اداروں کی نجکاری کا عمل غیر منظم اور بدعنوانی کا شکار رہا، جس کے نتیجے میں اثاثوں کی بڑے پیمانے پر "لوٹ مار ہوئی"۔ غیر ملکی سرمایہ کاری سے ملک کو کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ ایک پیچیدہ "معاشی بحران کا شکار ہو گیا"۔

معاشی بحران کے دوران امریکہ نے "امن" کے نام پر یوکرینی قیادت کو Nunn–Lugar پروگرام کے تحت صرف 500 ملین ڈالر کے عوض ایٹمی اثاثے ختم کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس پروگرام کے تحت 10 عدد Tu-160، 25 عدد Tu-95MS، اور 60 عدد Tu-22M3 بمبار تباہ کر دیے گئے، جبکہ 575 کروز میزائل گیس کی قیمت کے طور پر روس کے حوالے کر دیے گئے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انتہائی جدید طیارے، جنہوں نے صرف چند سو گھنٹے پرواز کی تھی، امریکی ماہرین کی نگرانی میں کاٹ کر تباہ کر دیے گئے۔

پھر یوکرین 1994 کے بوداپیسٹ معاہدے کے تحت اپنی سلامتی کی عالمی ضمانت کے بدلے نیوکلیئر ہتھیاروں سے بھی دستبردار ہو گیا۔ لیکن جب روس نے 2014 میں کریمیا پر قبضہ کیا اور 2022 میں مکمل جنگ چھیڑ دی، تو ان معاہدوں نے یوکرین کو کوئی تحفظ فراہم نہ کیا۔ امریکہ اور نیٹو ممالک نے صرف اپنے پرانے ہتھیار دیے اور بدلے میں یوکرین کے انتہائی قیمتی معدنی ذخائر ہتھیا لیے۔

اب آتے ہیں پاکستان کی طرف، جس کے ایٹمی ہتھیار اس کی خودمختاری، دفاع، اور خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ ورنہ بھارت جیسا پڑوسی دشمن ہر لمحے اس کے وجود کے خاتمے کے لیے ہر حد پار کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اندرونِ ملک ایک مخصوص لابی برسوں سے ایٹمی ہتھیاروں کی شدید مخالفت کرتی آئی ہے۔ مرحوم عمر اصغر خان، عاصمہ جہانگیر، اور ڈاکٹر پرویز ہودبائی جیسے نمایاں چہروں کا موقف رہا ہے کہ پاکستان کو اپنے ایٹمی اثاثے ترک کر کے ’’امن‘‘ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ یہ کہتے ہیں کہ ایٹمی اثاثے اور "جوہری پروگرام" ملک کے لیے "بوجھ" ہیں۔
لیکن حقیقت میں یہ سوچ پاکستان کو نہتا کر کے بھارت کے سامنے جھکانے کی ایک خطرناک کوشش ہے — بالکل ویسی ہی جیسے یوکرین کو نہتا کر کے روس کے سامنے ڈال دیا گیا ہے۔

پاکستان کو ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنے کے لیے اسے معاشی طور پر مضبوط نہیں ہونے دیا جا رہا۔ 2018 کے بعد بطور خاص پاکستان کے معاشی بحران کو اس قدر گہرا کیا گیا کہ "دفاعی اخراجات" واقعی ملک اور قوم پر بوجھ دکھائی دینے لگے تھے۔ اسی دوران سول سوسائٹی کے نام پر سٹریٹیجک پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کی گئیں، سوشل میڈیا، این جی اوز، اور لبرل طبقے نے ایٹمی پروگرام کو ’’بوجھ‘‘ قرار دینا کوئی معصوم سوچ کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ جس کا واحد مقصد پاکستان کو دفاعی طور پر غیر مؤثر بنانا ہے۔

یوکرین کا انجام چیخ چیخ کر پاکستان کو خبردار کر رہا ہے: "اگر تم نے اپنی عسکری طاقت کو کمزور ہونے دیا، تو کوئی "بوداپیسٹ جیسا معاہدہ تمہارے تحفظ کا ضامن نہیں ہو سکے گا — بھارت تمہارے سروں پر میزائل برسائے گا!" اور تم عالمی برادری سے اپیلیں کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکو گے۔
یوکرین کا زوال اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ جو قوم اپنی طاقت چھوڑتی ہے، وہ اپنی زمین، نسل اور عزت سب کچھ کھو دیتی ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کوئی فخر یا نمائشی کارنامہ نہیں، بلکہ ایک زندہ قوم کی بقاء کی ضمانت ہے۔ امن صرف طاقت سے ممکن ہے۔ کمزور کا کوئی دوست نہیں ہوتا — صرف وعدے ہوتے ہیں، وہ بھی جھوٹے۔

البتہ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ معاشی استحکام کے بغیر ایٹمی اور **اسٹریٹیجک** اثاثے بھی سلامتی کی ضمانت نہیں بن سکتے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سوویت یونین ہے۔

پاکستان کی سلامتی کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ ہم معاشی بحران سے نکلنے کے لیے "خود انحصاری" کو فروغ دیں۔ اس کے لیے، اشرافیہ اور بیوروکریسی کے تمام غیر ضروری اخراجات ختم کیے جائیں، جبکہ حکومت کے نان-ڈیویلپمنٹ اخراجات اور ملٹری کے غیر عسکری اخراجات میں 50 فیصد تک کمی لائی جائے۔ بنیادی یوٹیلیٹیز جیسے بجلی، گیس، ڈیزل/پیٹرول اور اشیائے خود نوش کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی لا کر عوام کو فوری اور حقیقی ریلیف فراہم کیا جائے۔ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (R&D) کے لیے جی ڈی پی کا ایک فیصد مخصوص کیا جائے تاکہ جدت اور خود کفالت کی بنیاد رکھی جا سکے۔ اس کے علاوہ، کاروبار اور چھوٹی و درمیانی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹھوس پالیسیاں اپنائی جائیں، اور ٹیکس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے شرح کو کم کیا جائے۔

دوسری جانب، پاکستان کی "ایٹمی پالیسی کو ایک ناقابلِ واپسی قومی اثاثہ" قرار دیا جائے۔ لبرل این جی اوز اور بیرونی ایجنڈے پر چلنے والی لابیوں کی ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کی مہم کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔ دفاعی صنعت اور سٹریٹیجک اداروں کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے تاکہ ہماری دفاعی صلاحیتیں ہمیشہ مضبوط رہیں۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ معاشی عدم استحکام اور سٹریٹیجک اثاثوں سے محرومی دونوں ہی ریاست پاکستان کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوں گے۔ جس طرح یوکرین نے اپنی ایٹمی طاقت کھو کر بے بسی کا سامنا کیا، اسی طرح پاکستان بھی اگر معاشی طور پر کمزور اور دفاعی طور پر نہتا ہوا تو اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مضبوط معیشت کے بغیر دفاعی صلاحیتوں کو برقرار رکھنا ممکن نہیں، اور دفاعی قوت کے بغیر ملکی سالمیت کو یقینی بنانا ایک خواب ہے۔

لہٰذا، "خود انحصاری، معاشی استحکام، اور ایٹمی دفاع کو قومی ترجیح بنانا ہی پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے۔"
اللہ تعالی ہمارے ملک پاکستان کی ہمیشہ حفاظت فرمائے- آمین

10/05/2025

پشاور کے حالات بالکل نارمل ہے ائیر ڈیفنس سسٹم کو ایکٹیویٹ کیا گیا تھا۔ فیس بک پر آگ کی ویڈیو پرانی ہے۔ گودام میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے فروری کے مہینے کی ہے۔

28/04/2025
یہ تصویر محترم پرویز صاحب پرائمری سکول ہیڈ ٹیچر ہشت نگری پشاور کا ہے جنہوں نے عمر بھر میں کبھی بھی بورڈ امتحانات میں نگر...
25/04/2025

یہ تصویر محترم پرویز صاحب پرائمری سکول ہیڈ ٹیچر ہشت نگری پشاور کا ہے جنہوں نے عمر بھر میں کبھی بھی بورڈ امتحانات میں نگرانی کے فرائض اد نہیں کئے۔
محترم استاد صاحب یاغی بند شبقدر حال رنگ روڈ پشاور میں رہائش پذیر تھے اور آج صبح سنیچرز نے انکو افغان کالونی کے قریب شہید کردیا ہے۔اللہ تعالیٰ انکو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے


آج کی بات
20/04/2025

آج کی بات

20/04/2025

بلوچستان کے حالات کیوں تھم گئے؟

کوڈ نام: آریہ-13B — اشوک چتر ویدی کی گرفتاری کی اندرونی کہانی بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا ایک سینئر ایجنٹ، اشوک چتر ویدی، کوڈ نام ’’آریہ-13B‘‘، ایران سے آپریٹ کر رہا تھا جب وہ پاک-ایران سرحد کے قریب پاکستانی کاؤنٹر انٹیلیجنس کے ہتھے چڑھ گیا۔ ’’را‘‘ میں اُس کا تعارف ایک ’’فیلڈ کوآرڈی نیٹر‘‘ کے طور پر کیا جاتا تھا، مگر اصل میں وہ ’’ویسٹ ایشیا ڈیسک‘‘ پر تعینات ایک سینئر ایسٹ ہینڈلر تھا۔

تہران میں اُس نے ’’کرافٹس آف سلک روٹ‘‘ کے نام سے ایک درآمدی کمپنی قائم کر رکھی تھی؛ ظاہر میں یہ کمپنی بلوچ زیورات، ایرانی قالین اور زعفران کی تجارت کرتی تھی، مگر درپردہ یہ دفتر دہشت گرد گروہوں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کا مرکز تھا۔ یہی جگہ بی ایل اے کے چھاپہ ماروں کو SAT فونز، نائٹ ویژن گوگلز اور M-16 A4 رائفلز کی ترسیل کا خفیہ گودام بنی ہوئی تھی۔

سال 2023 کے اواخر میں نئی دہلی کے ’’ڈیجیٹل وارفیئر سیل‘‘ سے اشوک کو ایک نیا مشن سونپا گیا: بلوچ ڈیجیٹل اسپیس میں اینٹی پاکستان بیانیے کا سیلاب لانا۔

500 سے زائد جعلی ’’ایکس‘‘، فیس بک اور ٹیلیگرام اکاؤنٹس بنائے گئے؛ ہر اکاؤنٹ ایک الگ بلوچ نام، ایک مختلف المیہ، لیکن ایک ہی مقصد: پاکستان دشمن پروپیگنڈا۔

دہلی کے ’’سائبر پارک کلکجی‘‘ میں واقع ٹرول فارم کے 25 آپریٹرز روزانہ 8000 سے زائد پوسٹس اور 1500 گرافکس اپ لوڈ کرتے۔

ظاہری طور پر بلوچ لہجے میں لکھے گئے یہ پروفائلز دراصل دہلی یونیورسٹی کے تاریخ کے طلبہ، چند جز وقتی ملازمین، اور ریٹائرڈ آرمڈ فورسز کے سائبر شوقین افراد کے ہاتھوں میں تھے۔

اسی دوران اشوک نے بی وائی سی (بلوچ یکجہتی کمیٹی) کے کچھ ناراض ارکان تک رسائی حاصل کی۔ اُنہیں خفیہ ’’گیٹ وے فنڈ‘‘ سے چھوٹے کرپٹو والٹس بھیجے گئے، جن کا تبادلہ ایرانی ’’تبادلہ بازار‘‘ کے ذریعے ہوتا۔ شرط صرف اتنی تھی: لانگ مارچ، دھرنے یا ہیش ٹیگ ٹرینڈ میں ’’FreeBalochistan‘‘ کے ساتھ ’’Pakistan Army Out‘‘ لکھا جائے۔

21 فروری 2025، رات 2 بجے: پاک-ایران سرحد کے قریب ایک بند پیک اپ ٹرک نے کچے راستے پر بریک لگائی۔ سرحدی پوسٹ ’’چاہ بہار-پنجگور لنک ٹریل‘‘ پر پاکستانی کاؤنٹر انٹیلیجنس یونٹ نے خفیہ اطلاع پر Thermals آن کر رکھے تھے۔ ٹرک سے اترنے والے 3 افراد میں سے جو درمیانے قد کا، سیاہ چشمہ اور زیتونی جیکٹ پہنے تھا، اُسے ’’Red-Nine‘‘ کا طے شدہ اشارہ ملتے ہی چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔

دستگیر خان، جسے مقامی بروکر سمجھا جاتا تھا، نے پکڑے جانے پر کہا:
’’صاحب! یہ تو مترجم ہے...‘‘

مگر Retina-ID اسکینر نے پلک جھپکتے میں جھوٹ ننگا کر دیا—فوٹو میچنگ سے ظاہر ہوا:
Ashok Chaturvedi s/o Mohan Lal Chaturvedi, DoB: 11-07-1974
بین الاقوامی وارنٹ تو نہ تھا، مگر انٹرپول کی ’’Ops-Grey List‘‘ میں اس شناخت کے روابط متعدد سائبر حملوں سے جُڑے تھے۔

ابتدائی تفتیش کا خلاصہ:

ڈیجیٹل سیل: کل 532 جعلی اکاؤنٹس — 118 بلوچی، 263 انگریزی، باقی فارسی و عربی۔ روزانہ اوسطاً 9 Million امپریشنز۔

لاجسٹک روٹ: بندر عباس → چاہ بہار → پنجگور / سبی کے پہاڑی راستے۔

مالی معاونت: UAE کی شیل کمپنی ’’Z-Horizon FZE‘‘ → ایرانی کرپٹو OTC ڈیسک → مقامی حوالہ آپریٹرز۔

بی وائی سی روابط: 2 مڈ لیول آرگنائزرز — ’’DJ-Nazar‘‘ اور ’’Dr-Madiha Baloch‘‘۔ دونوں اب تحویل میں۔

اشوک نے 72 گھنٹوں کی Begin-High-Control انٹروگیشن میں جزوی اعتراف کیا کہ اُس نے BLA کو کم از کم 7 بار خودکش ویسٹس، 20 تھرڈ جنریشن نائٹ ویژن یونٹس، اور 1 پورٹیبل ڈرون جَمر فراہم کیا۔

چتر ویدی کے 10 TB ڈیجیٹل فورینزک امیجز سے ایسے ’’ڈیڈ ڈراپس‘‘ سامنے آئے جن کے IP لاگز اسلام آباد اور کراچی کے حساس مراکز تک جاتے تھے، جس سے یہ واضح ہوا کہ بھارتی نیٹ ورک صرف بلوچستان ہی نہیں، پاکستان کے شہری مراکز میں بھی ’’Bots and Proxies‘‘ چھوڑ چکا ہے۔

کراچی میں ایک سوشل میڈیا ایجنسی کے 2 ملازمین زیر حراست ہیں؛ ان کی ذمہ داری ’’برانڈ مینجمنٹ‘‘ تھی، لیکن وہ BLA کے لیے انفلوئنسرز ہائر کر رہے تھے۔

دہلی میں واقع ’’سائبر پارک‘‘ پر خفیہ چھاپے کے بعد وہاں کا ڈیٹا سینٹر اچانک ’’Server Maintenance‘‘ کے بورڈ تلے بند کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بھارتی سائبر یونٹ نے اپنے ہی سرورز کو ’’Blueprint Dump‘‘ کر کے شواہد مٹانے کی کوشش کی۔

تہران میں ایک کاروباری انجمن کے ذریعے 2 سابق سفارتکار خاموشی سے بلائے گئے—ایرانی تحقیقاتی ادارے اب اُن تک پہنچ چکے ہیں۔

پاکستانی حکام نے اشوک کی گرفتاری تاحال ظاہر نہیں کی؛ بظاہر دنیا کے لیے وہ ایک گم نام اسمگلر ہے۔ لیکن اندرونِ خانہ معاملات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ اسی گرفتاری کے بعد سے BLA کے کئی کمانڈر بھاری ہتھیاروں کے بغیر پکڑے گئے، اور سوشل میڈیا پر ’’Fake Link‘‘ کرنے والے متعدد ہینڈلز اچانک خاموش ہو گئے۔

جب اشوک چتر ویدی سے آخری بار پوچھا گیا کہ اُس نے یہ مہم کیوں شروع کی، تو اُس نے رک کر بس اتنا کہا:

“Narratives win wars; bullets only finish them.”

مگر اب وہی Narrative اُس کے گرد قید ہے۔
سرحد کے اُس پار، جہاں بلوچستان کی ٹوٹی سڑکیں نئی روشنی کی منتظر ہیں، یہ کہانی آہستہ آہستہ پھیل رہی ہے کہ ایک بڑا ’’شکار‘‘ محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اُس کے 500 سائے ایک ایک کر کے بجھائے جا رہے ہیں۔

16/04/2025

مفتی تقی عثمانی صاحب پر حملے کی خبر جھوٹ ہے۔

14/04/2025

بورڈ کے مطابق بچوں کے تاریخ پیدائش کا کم از کم حد۔2025





1. اشوگندا ذہنی دباؤ کو کم کرنے اور اعصابی سکون دینے میں مفید ہے.2. چمومیلا (Chamomile) کی چائے پرسکون نیند اور سکونِ قل...
08/04/2025

1. اشوگندا ذہنی دباؤ کو کم کرنے اور اعصابی سکون دینے میں مفید ہے.
2. چمومیلا (Chamomile) کی چائے پرسکون نیند اور سکونِ قلب میں مدد دیتی ہے۔
3. تلسی (Holy Basil) ذہنی دباؤ اور بے چینی کو کم کرتی ہے۔
4. گینسینگ(Geniseng) دماغی طاقت بڑھاتا ہے اور تھکن و پریشانی دور کرتا ہے۔
5. پودینہ (Peppermint) کی چائے ذہنی تناؤ کو ہلکا کرتی ہے۔
6. ہلدی (Turmeric) میں موجود کرکیومن دماغی صحت بہتر بناتا ہے اور تناؤ کم کرتا ہے۔


29/03/2025

فاریکس ٹریڈنگ کے حوالے سے دلچسپ ویڈیو




Address

Islamabad
25000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Employees Info posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share