میری نثری تحاریر

میری نثری تحاریر غلام مصطفیٰ دائم اعوان کے قلم سے

24/03/2022

لوحِ ثنا ؛ عقیدہ و عقیدت کا امتزاج
[مقدمہ]
از : غلام مصطفیٰ دائؔم

نعت وہ مقدس منصب ہے جس میں مخلوقات سمیت خود خالق بھی شریک ہے اور ہمہ وقت نبی کریم ﷺ کے مقامِ رفیع میں مزید علوّ اور برگزیدگی میں کثیر عظمت کا پرچار کنندہ رہتا ہے۔
حسی اعتبارات میں نطقِ مطلق نے سب سے پہلے نعت ہی کا الوہی نغمہ الاپا ہے اور تہذیبی وجود کے ضمنی اطلاقات میں انسانوں نے نعتِ رسول مقبول ﷺ سے اپنے قلم و زبان کو اس عظیم سرگرمی سے شروعِ اسلام ہی سے بہرہ یاب کیے رہا ہے۔
تہذیبی سرگرمیاں مخصوص معنویت کی حامل ہونے کے علاوہ اپنے مظہریاتی نسبت میں بھی مجرد صنف یا تشکیلی عنصر کی حیثیت سے متعارف ہوتی ہیں۔ نعت بھی ایک جمالیاتی سرگرمی ہے لیکن اس میں فطرت، تہذیب اور مذہب تینوں کی یکجائی نے فردی اختصاصات کو Actualize کرنے کے تناظرات سے اپنے تشکیلی معتقدے ترتیب دیئے ہیں۔ اسی لیے اس کی قدر و قیمت دیگر اصنافِ جمال یا تہذیبی اعتبارات سے، جن کا تعلق انسانی حس کی کسی سرگرمی سے ہے، افضل و برتر ہے۔ اس کے فنی دائرے اور فکری آفاق بھی غلو اور مصنوعی اغراق سے پراگندہ ہوئے بغیر اپنی ضروری رسومیات (Basic Conventions) سے عہدہ برآ ہوتے ہیں۔ نعت ان حوالوں سے ایک منصب ہی نہیں، ذمہ داری بھی ہے اور متعلقہ افرادی نوع پر ایک فرض بھی!
نعت کی کتابی روایت کا سلسلہ صدیوں سے جنباں ہے۔ کتاب لفظوں کو سینے میں اتار کر معانی کے وجودی اعتبار کی ضامن بن جاتی ہے۔ یہ خوش آیند روایت ہے، اس کا احیا ہر لمحۂ آیندہ میں ہوتے رہنا چاہیے۔
پیشِ نظر مجموعۂ نعت ”لوحِ ثنا“ ہے جو استاذ گرامی پروفیسر بابر حسین بابرؔ کے فکری و قلبی دھرم کا ڈسکورس ہے اور یہ بیانیہ خشک ترسیم کی بجائے جمالیاتی اکتشاف (Aesthetic Detection) کے نئے نئے سانچوں میں ڈھل کر عقیدت، عقیدہ، اصولِ حیات کا استخراج، معیارِ بندگی کی کسوٹی، انسان ہونے کے احوال، تہذیبی غلبے کی اساسیت اور فکری راست روی کے آئین کی ترتیب و تدوین کا عمل طے کرتا ہے۔ یہ بہت بڑا منصب ہے جسے نعت کی رواں فکری روایت کے مہا بیانیوں کی بنیاد سمجھنا چاہیے۔

بابرؔ حسین کی نعت کے مجموعے مطالعے کے بعد یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ درج ذیل ذہنی اہداف کو ضابطۂ فکر میں پرو کر شعر کی صورت ڈھالتے ہیں :
الف) نعت اور ناعت کے مابین تعلق مع الرسول ﷺ کی نوعیت ”نبی اور امتی“ کی ہے۔ بایں معنی مستحقِ نعت ذات سراسر ادب، تعظیم، اکتسابِ فیض، انقلاب آفرینی، ہدایت اور فضل و خواص میں اولیت کی اہل ہے۔ ان اوصافِ شخصی کی تمام مقدم حالتیں (Prerequisite Facts) ذاتِ رسالت کی کلیدی شقیں ہیں، جنھیں ضمنی کہنا بھی بےادبی ہے۔
ب) ذاتِ رسالت سے اپنے تعلق کی انواع میں سے ہر نوع وجود اور شعور دونوں کے لیے ایسی مناسبت (Convenience) رکھتی ہے جس کی حیثیت حتمی ہو۔
ج) جذبہ اور خلوص مل کر ایک فکری بیانیے کے لیے اس راہ کی ہمواری کا عمل شروع کریں جو تعلق مع الرسول ﷺ کی اساسی طرز میں کشادگی اور طبعی میلان کو عملی میزان پر رکھ سکے۔
ان اہدافِ سہ گانہ کی جزوی تکمیل کے لیے ”لوحِ ثنا“ کا شاعر اپنے قلبی معتقدے کو سطروں میں اتار کر اس زریں صف میں شامل ہو جاتا ہے جن کے لیے اقبالؔ نے اسرارِ خودی میں کہا :
ما زِ حکمِ نسبتِ او ملتیم
اہلِ عالم را پیامِ رحمتیم
بابرؔ حسین کی نعت گوئی کا سفر عقیدت کی میزان پر تُل کر تخلیق کے معرض میں پہنچتا ہے۔ حاسۂ فہم میں نعت کے ضابطے تحلیل ہو کر قلبِ شاعر کے لیے ایک مسرت انگیز حال کے ضامن بنتے ہیں جب ناعت اپنی فکر کی مہاریں ذہنی تحویل میں دے کر بارگاہِ رسالت مآب ﷺ کا حضور (Presence) حاصل کر لیتا ہے۔ ایک پرخلوص نعت گو کے لیے یہ ساعت معراج نما ہوتی ہے جب ان کا ذہنی و قلبی دیباچہ ذکرِ رسالت کے لیے سرنامۂ لوحِ وجود (Preamble of Being Place) بن جائے۔ اس حال میں ناعت محض شخصی کردار نہیں رہتا بلکہ خود مجسم نعت بن جاتا ہے۔ اور بابرؔ حسین کی نعت میں وہ لمحے موجود ہیں جب شاعر نعت کاری کا فاعل نہیں، فعل بن جاتا ہے۔
بابرؔ حسین نے اپنی نعت میں ذاتِ رسالت مآب ﷺ کو محض فطرت کا ایک شاہکار تسلیم کرکے صفحات کی نقش آرائی میں انھیں جامد حالت میں پیوست نہیں کر دیا بلکہ ایک زندہ کردار کی حیثیت سے زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کے امین کے طور پر پیش بھی کیا ہے۔ ذاتِ رسول ﷺ سے اپنے تعلق کی ہر نوع کا نہ صرف اظہار ان کے ہاں ہے بلکہ اس نوع پر اعلانِ تفاخر اور اس نسبت کی حفاظت کا فریضہ بھی بخوبی سرانجام دیا ہے۔ کسی بھی ناعت کے لیے یہی آئینِ نعت گوئی ہے اور یہی ضابطۂ محبت!
بابرؔ حسین کے ہاں فنی بےبضاعتی نہیں ہے لیکن وہ یوسف کو خریدنے والوں کی صف میں سوت کی رسی تھامے بڑھیا کا سا جذبہ ضرور رکھتے ہیں۔ لفظوں کا ہیر پھیر ان کا وطیرہ نہیں بلکہ جادۂ ارقام کے سیدھے اور اثر انگیز نشانات کی پیروی میں ان کے قلم و قرطاس کی معجز نمائیاں عشقِ رسول ﷺ کی میراث بانٹتے ہوئے ذاتِ رسول ﷺ سے ربط و ضبط کی مختلف انواع کے حصول پر شکرانہ ادا کرتے ہوئے نیاز مندی کا مظاہرہ بھی کرتی ہیں۔
ان کے قلم میں للکار بھی ہے، جھنکار بھی ہے اور نعرہ بھی۔ لیکن یہ چیزیں تب اظہار میں متشکل ہوتی ہیں جب ذاتِ رسالت ﷺ پر مغرب کی اسلام دشمنیوں کے عملی اظہار فضائے دنیا میں منہ نکالتے ہیں۔ اس نازک وقت میں ان کے ہاں نعت جہاد کا نقارہ بن جاتی ہے۔ یہ رچاؤ اور حساسیت اسی کا قلم سنبھالتا ہے جس کے دل میں عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی چنگاری محض سلگنے کی خاطر نہیں ہوتی بلکہ وہ حفاظتِ ایمان اور تحفظِ عقیدہ کی شعلہ بداماں طاقت رکھتے ہوئے دشمنوں سے زبانی، کلامی اور عملی بیزاری کی جرأت بھی رکھتی ہے۔ وہ حسانی آواز بن کر ”هجوت محمداً فأجبت عنه“ کی تصویر بن جاتی ہے۔ یہ ایمان کی معراج ہے اور ”لوحِ ثنا“ کا شاعر اس ثروتِ عالیہ سے خوب بہرہ یاب ہے۔
بابرؔ حسین کی نعت میں وہ سب فنی اعتبارات موجود ہیں جو کسی بھی تخلیقی شعری صنف کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ بیان کی سلاست، عقیدے کی صلابت، فکری استواری، لہجے کی متانت اور فنی انضباط ازحد ان کی تخلیق کا حصہ ہیں۔ اپنے سادہ پیکروں میں ان کے مصرعے چست، پُرخیال اور جذبوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
”لوحِ ثنا“ میں مناقب کا حصہ خاصا ہے۔ شخصی اختصاصات کا اقرار اور ان کی عظمتوں کا اعتراف کسی بھی تخلیق کار کا حسنِ ظرف ہوتا ہے۔ تہذیب کے نمائندوں کی حیثیت سے انبیا، اولیا اور علما نے ہر دور میں اپنے کردار و افعال سے معاشرے اور سماج میں فکری تربیت کے خد و خال وضع کیے ہیں۔ ان کی ان گوناگوں جہتوں کی تحسین (Appreciation) کرنا بجائے خود حسن افزا عمل ہے۔ ”لوحِ ثنا“ میں یہ حسن افزائی بیسیوں صفحات میں جلوہ افروزی کے مرحلے طے کرتی دکھائی دیتی ہے۔ نعت اور منقبت ہر دو اصنافِ تقدیس میں معیاری فکر پاروں کی تخلیق پر شاعر کے لیے تبریک آمیز جذبات اور نیک خواہشات!
بلاشبہ ”لوحِ ثنا“ نعت کی رواں روایت میں ایک اچھا اور پرخلوص اضافہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت سے متعلق میری تنقیدی مباحث اور متعلقہ چیزوں کے لیے یہ پیج ضرور فالو کریں:
https://www.facebook.com/Natiyaat/

Address

Islamabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when میری نثری تحاریر posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category