
16/06/2024
نامہ بر اپنا ، ہَواؤں کو بنانے والے
اب نہ آئیں گے پلٹ کر کبھی جانے والے
کیا مِلے گا تُجھے بِکھرے ہُوئے خُوابوں کے سِوا
ریت پر ، چاند کی تصویر بنانے والے
میکدے بند ہُوئے ، ڈُھونڈ رہا ہوں تُجھکو
تُو کہاں ہے مجھے آنکھوں سے پِلانے والے
کاش لے جاتے کبھی مانگ کے آنکھیں میری
یہ مصور ، تِری تصویر بنانے والے
تُو اِس انداز میں کُچھ اور حَسیں لگتا ہے
مُجھ سے مُنہ پھیر کے ، غزلیں میری گانے والے
سب نے پہنا تھا بڑے شوق سے کاغذ کا لباس
جس قدر لوگ تھے ، بارش میں نہانے والے
چھت بنا دیتے ہیں اب ریت کی دِیواروں پر
کِتنے غافِل ہیں ، نئے شہر بسانے والے
عدل کی تم نہ ہمیں آس دِلاؤ کہ یہاں
قتل ہو جاتے ہیں ، زنجیر ہِلانے والے
کِس کو ہو گی یہاں ، توفیقِ انا میرے بعد
کچھ تو سوچیں مجھے سُولی پہ چڑھانے والے
مر گئے ہم تو یہ کتبے پہ لِکھا جائے گا
سو گئے آپ ، زمانے کو جگانے والے
در و دِیوار پہ حسرت سی برستی ہے قتیلؔ
جانے کِس دیس گئے ، پیار نِبھانے والے
شاعر : قتیلؔ شفائی
مجموعۂ کلام : (پیراہن)