Tahir Chughtai

Tahir Chughtai Director at PBC Rawalpindi II Producer, Broadcaster, Writer, Singer, Naat Khawan, Drama Artist , (Working With China Radio International .Beijing )

10/08/2025

جھگیوں سے چوری کا سامان برآمد

ہیجن سٹی قلعہ ایک پراسرار اور قدیم قلعہ ہے جو چین کے شہر ہیجن میں واقع ہے۔یہ اپنے محفوظ شدہ دفاعی ڈھانچوں، جیسے کہ مٹی ا...
10/08/2025

ہیجن سٹی قلعہ ایک پراسرار اور قدیم قلعہ ہے جو چین کے شہر ہیجن میں واقع ہے۔

یہ اپنے محفوظ شدہ دفاعی ڈھانچوں، جیسے کہ مٹی اور اینٹوں سے بنی دیواروں اور شاندار دروازوں کے لیے مشہور ہے۔

اپنی قدامت اور بڑے رقبے کے باوجود، قلعے کی اصل اور اس کے معمار کے بارے میں نہ مقامی لوگوں کو علم ہے اور نہ ہی تاریخ میں کوئی واضح ذکر ملتا ہے۔

یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ قلعہ جنگوں کے دوران پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا، ممکنہ طور پر جاپانی قزاقوں کے حملوں اور دوسری چین-جاپان جنگ کے دوران بھی۔

قلعے کی تاریخ تانگ سلطنت (618ء تا 907ء) تک جاتی ہے، جب اسے ابتدائی طور پر ایک فوجی چوکی کے طور پر قائم کیا گیا۔
مینگ (1368ء تا 1644ء) اور چنگ (1644ء تا 1912ء) سلطنتوں کے دوران اس میں نمایاں توسیع کی گئی۔ یہ "ہیجن قدیم شہر" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

مقامی آبادی میں اسے اکثر "بھوت قلعہ" یا "چھپا ہوا قلعہ" کہا جاتا ہے۔

نسل در نسل چلتی کہانیوں میں ایک طاقتور سردار یا بادشاہ کا ذکر ملتا ہے جس نے قلعہ ایک کھوئے ہوئے خزانے یا مقدس نشانی کی حفاظت کے لیے تعمیر کیا تھا۔

کچھ کہانیاں ایک قدیم قبیلے کا ذکر کرتی ہیں جو پراسرار طور پر غائب ہوگیا، اور اپنے پیچھے صرف یہ قلعہ چھوڑ گیا جو ان کی عظیم طاقت کی خاموش علامت ہے۔

یہ روایات، اگرچہ وقت کے ساتھ شاید بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی ہوں، لیکن آج بھی مقامی لوگوں اور آنے والے مہمانوں کو اپنی پراسراریت سے مسحور کرتی ہیں۔

موجودہ دور میں جہاں ہزاروں پرانی چیزیں ناپید ہو چکی ہیں وہیں گھریلو استعمال کی آسانی سے دستیاب ہونے والی چیزیں بھی اب وق...
10/08/2025

موجودہ دور میں جہاں ہزاروں پرانی چیزیں ناپید ہو چکی ہیں وہیں گھریلو استعمال کی آسانی سے دستیاب ہونے والی چیزیں بھی اب وقت کے ساتھ ساتھ ناپید ہو رہی ہیں ۔مگر اب بھی ہمیں بس سٹاپ پر جب گرمی کے ان دنوں میں لمبے سفر پر جانا ہو اور ہم بس یا ہائی ایس کے لیے رکیں یا ان میں بیٹھے ہوں اور پسینے سے شرابور ہوں تو اچانک ایک ہاتھ ہمیں ٹھنڈی ہوا پہنچانا شروع کرتا ہے اور وہ اپنے ہاتھ میں تھامے ہینڈ فین یا ہاتھ والے پنکھے سے ہوا جھلنا شروع کرتا ہے جب آپ کو احساس ہو جاتا ہے کے یہ اسوقت میری ضرورت ہے تو وہ آپ کو قائل کرتا ہے کے اسے خرید لیں ۔اور کبھی کبھار نہ چاہتے ہوئے بھی آپ ہتھ پکھا یا ہاتھ والا پنکھا خرید لیتے ہیں ۔یہ وہ ایجاد ہے جو سستی بھی ہے اور آپ کی اپنی دسترس میں بھی ہے کہیں پلاسٹک کے سستے پنکھے اور کہیں تنکوں سے بنے اور اوپر کپڑا اور لیس لگے مہنگے پنکھے بھی فروخت ہوتے ہیں
مردان کی تحصیل تخت بائی کا بازار جھنڈی
سادہ ہاتھ کے بنے پنکھوں کے لیے مشہور ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مردان کی رہائشی خواتین صبح صبح اسی بازار کا رخ کرتی ہیں۔
اس بازار کا رخ کرنے والی یہ وہ خواتین ہیں جو ہاتھ سے سادہ پنکھوں کی تزئین و آرائش کا کام کرتی ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں اب بھی بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ ایک عام سی بات ہے۔ چونکہ دیہاتوں کے لوگ سولر پینلز اور یو پی ایس تو لگانے سے رہے، لہٰذا یہاں آج بھی ہاتھ سے بنے ہوئے پنکھے استعمال ہوتے ہیں
جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے جہاں اس فن کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، وہیں ان خواتین نے اپنے علاقے میں اس پرانی رسم کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
ہاتھ سے بنے پنکھے اس خطے کی روایت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اس علاقے کی خواتین کو ماضی میں ہاتھ سے بنے پنکھے جہیز میں بھی دیے جاتے تھے یہی رواج آزاد کشمیر میں بھی عام تھا، ۔‘
اور یہ روایت آج بھی دیہات میں قائم ہے۔ ’زیادہ تر خواتین اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے ہاتھ کے پنکھے بنواتی تھیں۔ ان پر طرح طرح کے ڈیزائن ہوتے ہیں۔ کچھ پر موتی لگانے کا آرڈر دیا جاتا تھا جھنڈی بازار کی خواتین کے مطابق، تو کچھ خریدار اون کے دھاگے کی کڑاہی کا کہتی ہیں۔‘
ان کے مطابق وہ سادہ پنکھے خرید کر رکھ لیتی ہیں اور جب آس پاس کی عورتیں کچھ بنوانے آتی ہیں تو وہ آرڈر کے حساب سے ان پر سجاوٹ کا کام شروع کر دیتی ہیں۔
ہر ایک پنکھے کی سجاوٹ کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، اور ہر نمونہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔
ایک پنکھے کی سجاوٹ کا کام مکمل کرنے میں چار سے پانچ دن لگ سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی کرنے ہوتے ہیں اور ان پنکھوں پر کڑھائی کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔‘
یہ ایسی چیز ہے جو گرمیوں میں سب سے کارآمد ثابت ہوتی ہے
پرانے زمانے میں سجاوٹ کے لیے 'لیس' کا اتنا رواج نہیں تھا اور لوگ صرف کڑھائی کرواتے تھے۔ ’لیکن آج کل لڑکیاں لیس لے آتی ہیں اور کہتی ہیں اس پر یہ لیس بھی لگا دو تاکہ یہ پنکھا میرے کمرے کے پردوں کے ساتھ میچ ہوجائے۔‘
ہاتھ کے بنے ہوئے یہ پنکھے 250 روپے سے لے کر 500 روپے تک کے فروخت ہوتے ہیں۔
تحریر ۔طاہر چغتائی ۔

کلام کرتا تھا قوسِ قزح کے رنگوں میںوہ اِک خیال تھا اور شاعری میں رہتا تھاگُلوں پہ ڈولتا پھرتا تھا اوس کی صُورتصدا کی لہر...
10/08/2025

کلام کرتا تھا قوسِ قزح کے رنگوں میں
وہ اِک خیال تھا اور شاعری میں رہتا تھا

گُلوں پہ ڈولتا پھرتا تھا اوس کی صُورت
صدا کی لہر تھا اور نغمگی میں رہتا تھا

نہیں تھی حُسنِ نظر کی بھی کُچھ اُسے پروا
وہ ایک ایسی عجب دلکشی میں رہتا تھا

وہاں پہ اب بھی ستارے طواف کرتے ہیں
وہ جس مکان میں جِس بھی گلی میں رہتا تھا

امجد اسلام امجد

مینا کماری یکم اگست 1933 کو علی بخش اور اقبال بیگم کے ہاں مہجبین کے نام سے پیدا ہوئیں۔ یہ علی بخش کے لیے بہت مایوسی کا ب...
10/08/2025

مینا کماری یکم اگست 1933 کو علی بخش اور اقبال بیگم کے ہاں مہجبین کے نام سے پیدا ہوئیں۔ یہ علی بخش کے لیے بہت مایوسی کا باعث تھا کیونکہ وہ ایک بیٹا چاہتے تھے۔ وہ دوسری بیٹی تھی اور اس کی دو بہنیں تھیں۔ بڑے کا نام خورشید جونیئر اور چھوٹی کا نام ماہلیقہ (مادھو کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک سابق چائلڈ آرٹسٹ اداکار محمود سے شادی شدہ)

بچپن میں، کماری فلمی کیرئیر کی خواہشمند نہیں تھی، بلکہ وہ اسکول جانا چاہتی تھی۔ اس کے باوجود اس کے والدین اسے کام کے مواقع کے لیے فلم اسٹوڈیوز لے جانے لگے۔ ہدایت کار وجے بھٹ نے ماہ جبین کو فلم لیدرفیس میں کاسٹ کیا اور کام کے پہلے دن انہیں 1000 روپے ادا کیے گئے۔ 25۔

لیدرفیس 1939 میں جاری کیا گیا تھا۔ وہ بہت چھوٹی عمر میں بخش خاندان میں کمانے والی بن گئی۔ 1962 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں، کماری نے وضاحت کی کہ اس حقیقت سے کہ اس نے چار سال کی عمر سے ہی اپنے والدین کا ساتھ دیا تھا، اس نے اسے بے حد اطمینان بخشا۔ اسے ایک باقاعدہ اسکول میں داخل کرایا گیا تھا، لیکن کام کے مطالبات اکثر اس کے نصاب میں خلل ڈالتے تھے۔ وہ کسی معنوی لحاظ سے اسکول نہیں گئی تھی، اس لیے اس کی تعلیم پرائیویٹ ٹیوشن اور خود تعلیم کا نتیجہ تھی۔

کماری کے والد ماسٹر علی بخش نامی ایک سنی مسلمان تھے جنہوں نے بھیرہ (اب مغربی پنجاب، پاکستان) سے ہجرت کی تھی۔[13] وہ پارسی تھیٹر کے تجربہ کار تھے، ہارمونیم بجاتے تھے، اردو شاعری لکھتے تھے، موسیقی بناتے تھے اور چند فلموں میں چھوٹے کردار بھی ادا کرتے تھے۔ کماری کی والدہ اقبال بیگم، جن کا اصل نام پربھاوتی دیوی تھا، ایک عیسائی تھیں، جنہوں نے اپنی شادی کے بعد اسلام قبول کر لیا۔ اقبال بیگم کی پیدائش میرٹھ، اتر پردیش کے ایک والد اور بنگالی ماں کے ہاں ہوئی۔ وہ علی بخش کی دوسری بیوی تھیں۔[13] علی بخش سے ملنے اور شادی کرنے سے پہلے، وہ ایک اسٹیج اداکارہ تھیں اور کہا جاتا تھا کہ ان کا تعلق بنگال کے ٹیگور خاندان سے تھا۔

ٹیگور خاندان سے تعلق
کماری کی دادی، ہیم سندری ٹیگور، یا تو بیٹی تھیں یا رابندر ناتھ ٹیگور کے دور کی کزن کی بیوہ تھیں۔[14][15] اپنے شوہر کی موت کے بعد، اسے اس کے خاندان نے میرٹھ چھوڑنے پر مجبور کیا، جہاں وہ ایک نرس بنی، پیارے لال شاکر میروتی (1880-1956) نامی ایک عیسائی سے شادی کی جو ایک اردو صحافی تھا اور عیسائیت قبول کر لی۔[16] اس کی دو بیٹیاں تھیں۔ جن میں سے ایک کماری کی ماں پربھاوتی تھی۔[8]
مینا کماری کی ذاتی زندگی میں بہت مسائل رہے جس کی وجہ سے وہ 1960 میں شراب نوشی کرنے لگیں اور 1972 کثرت شراب کی وجہ سے جگر کے عارضہ میں مبتلا ھوکر وفات پا گئی

وفاداری اور بہادری کی ایک ناقابلِ فراموش مثال ، جب نکول گراہم نے اپنے گھوڑے Astro’s کو مشکل میں تنہا چھوڑنے سے انکار کر ...
10/08/2025

وفاداری اور بہادری کی ایک ناقابلِ فراموش مثال ، جب نکول گراہم نے اپنے گھوڑے Astro’s کو مشکل میں تنہا چھوڑنے سے انکار کر دیا، جب وہ اُبھرتے ہوئے کیچڑ کے جوار میں پھنس گیا۔ تقریباً تین گھنٹوں تک وہ گھوڑے کا سر بھاری اور کھینچتی ہوئی کیچڑ سے اوپر تھامے کھڑی رہی—تھکن اور خوف کے باوجود، بڑھتی ہوئی سمندری لہر کا مقابلہ کرتی رہی۔
اُس دوران، اُس کی بیٹی مدد لینے کے لیے دوڑی ، اور نکول اپنے ساتھی کے پاس ڈٹی رہی، اُسے تسلی دیتی اور امید کا دامن تھامے ہوئے۔ بالآخر، امدادی ٹیم بھاری مشینری کے ساتھ بروقت پہنچی اور گھوڑے کو محفوظ نکال لیا۔
یہ واقعہ انسان اور جانور کے درمیان قائم محبت اور اعتماد کے اُس رشتے کی روشن مثال ہے، جو ہر آزمائش کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہتا ہے۔🐎 🎀 🐴

 # # # # #پاکستانی کلاسک سنیما # # # # #رانی۔وحید مراد۔ نثار بزمی ۔رونا لیلیٰ اور حسن طارق کی یادگار فلم ((((((( انجمن )...
10/08/2025

# # # # #پاکستانی کلاسک سنیما # # # # #
رانی۔وحید مراد۔ نثار بزمی ۔رونا لیلیٰ اور حسن طارق کی یادگار فلم ((((((( انجمن ))))))

آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آگئے
اک نشہ سا چھا گیا ! ہم بن پیے لہرا گئے

آج کے دن یعنی 31 جولائی 1970 کو پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور اور ہمارے پسندیدہ ہدایتکار حسن طارق کی کامیاب اور یادگار فلم »»انجمن«« پیراڈائز کراچی۔ کوہِ نور حیدرآباد کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے سنیماؤں میں ریلیز ہوئی تھی۔
حسن طارق کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے بلاشبہ ان کو معاشرے کے چبھتے ہوئے اور حساس کرداروں کو فلمانے پر مہارت حاصل تھی۔ فلم چاہے کامیاب ہو یا نہ ہو وہ جب بھی کسی سبجیکٹ پر فلم بناتے تو دل سے بناتے تھے۔
فلم کی کہانی ایک بازاری طوائف کے گرد گھومتی ہے جو ایک شریف اور عزت دار خاندان کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیتی ہے۔
اس خوبصورت اور لاجواب کہانی کو آغا حسن امتثال نے 1940 کی کسی انگریزی (متحدہ ہندستان کی بنائی ہوئی) فلم سے متاثر ہوکر لکھا تھا اور ان کرداروں کو کس مہارت سے نوابوں کے اسٹائل میں ڈھالا اور حسن طارق نے بھی انہیں اس خوبصورتی سے پیش کیا کہ ایک لازوال فلم تخلیق ہوگئی۔
آغا حسن امتثال کے مکالمے بھی غضب کے تھے۔رانی کا تکیہ کلام۔ اُف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ آغا صاحب نے خوب لکھا تھا اور یہ بہت مشہور بھی ہوا تھا۔
فلم کی کاسٹ میں۔ رانی۔ وحید مراد۔ صبیحہ خانم۔ لہری۔ سنتوش۔ تمنا۔ الیاس کاشمیری۔ مینا داؤد۔ گوتم۔ یاسمین خان اور دیبا شامل تھیں۔
شعبہ اداکاری اس فلم کا اہم اور یادگار ثابت ہوا جس میں رانی۔ وحید مراد۔صبیحہ خانم اور لہری نے بھرپور کردار نگاری سے سب کو متاثر کیا تھا رانی صبیحہ اور وحید مراد کے مکالمے فلم کی جان تھے۔
یہ فلم رانی کی ناقابل فراموش اور یادگار فلموں میں شمار ہوتی ہے۔
وحید مراد مرحوم کی بھی یہ پسندیدہ فلم تھی اور وہ ہر جگہ اس فلم کی تعریف کرتے تھے۔
موسیقی کے حوالے سے بھی انجمن سپر کلاس فلم تھی جس کے کئی گیتوں نے دھوم مچائی تھی۔ اس کے گیت فیاض ہاشمی۔ سرور بارہ بنکوی۔ سیف الدین سیف اور مسرور انور نے لکھے تھے جبکہ ان سب شعراء کے کلام کو عظیم موسیقار نثار بزمی نے سحر انگیز موسیقی کا جادو بخشا ۔کچھ گیت تو آج بھی مقبول ہیں۔
اس کے گیت یہ ہیں۔
1- آپ دل کی انجمن میں۔ رونا لیلیٰ۔ شاعر مسرور انور
2- اظہار بھی مشکل ہے۔ نورجہاں۔ شاعر۔ سیف الدین سیف۔
3- بھابھی میری بھابھی تم جیو ہزاروں سال۔احمد رشدی۔ شاعر فیاض ہاشمی
4۔ دل دھڑکے میں تم سے یہ کیسے کہوں۔ رونا لیلیٰ۔ شاعر مسرور انور۔
5- جام میں انڈیلا ہے آج اپنا غم میں نے۔ احمد رشدی۔ شاعر۔ مسرور انور
6- بھابھی میری بھابھی (ٹریجڈی) احمد رشدی۔شاعر۔ فیاض ہاشمی
7- نینوا چلائیں بان کس کو پہچانے نہ۔ نورجہاں۔شاعر۔ سرور بارہ بنکوی
8- یادش بخیر بچپن میں کھیلے تھے گھر آنگن میں۔ احمد رشدی۔ شاعر۔ مسرور انور
اس فلم میں رانی کے رقص بھی لاجواب تھے جن کی تعریف کے لیے الفاظ کا ملنا مشکل ہے۔
عکاسی کا معیار بھی شاندار تھا اس دور میں اتنی لاجواب عکاسی ! بلاشبہ اس کے لۓ اس فلم کے کیمرہ مین ایم اے احمد صاحب تعریف کے حقدار ہیں۔
اس فلم کو سات نگار ایوارڈز بھی ملے تھے
1-بہترین ہدایتکار۔حسن طارق
2-بہترین مزاحیہ اداکار۔لہری
3-بہترین موسیقار۔نثار بزمی
4-بہترین نغمہ نگار۔مسرور انور (آپ دل کی انجمن)
5- بہترین گلوکارہ۔ رونا لیلیٰ۔ (آپ دل کی انجمن)
6- بہترین ایڈیٹنگ۔الحامد
7- بہترین آرٹ ڈائریکٹر۔حبیب شاہ
کچھ دوست اس فلم کےلئے رانی کو بہترین اداکارہ کا ایوارڈ نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہیں مگر اس کے مقابلے میں زیبا نے انسان اور آدمی میں بہترین اداکاری کی تھی اس لئے اس سال بہترین اداکارہ کا ایوارڈ زیبا کے حصے میں آیا ہاں رانی کو اس فلم پر خصوصی ایوارڈ دیا جاسکتا تھا مگر اس دور میں یہ رواج بھی نہ تھا یہاں تک کہ اس سال کسی اردو فلم کو بہترین فلم کا ایوارڈ بھی نہیں ملا تھا۔ ہیر رانجھا اس سال بہترین پنجابی فلم کا ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
فلم انجمن کو بلاشبہ پاکستان کی کلاسک فلموں میں شمار کیا جاسکتا ہے جس نے باکس آفس پر بھی کامیابی حاصل کی تھی اور پاکستان سے باہر کئی ممالک میں بھی پسند کی گئی تھی۔
جب ضیاء کے دور میں بھارتی ہدایتکار شیخ مختار کی فلم نورجہاں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت ملی تھی تو اس فلم کو دیکھنے کے بعد حسن طارق نے یہ کہا تھا کہ اس فلم پر جتنا سرمایہ لگا ہے اگر اس کا آدھا بھی مجھے فراہم کردیں تو اس سے کہیں گناہ بہتر نورجہاں بناکر دونگا۔
دوستوں آج ہی کے دن یعنی 31 جولائی 1955 کو کراچی کے ایک خوبصورت سنیما قیصر کا افتتاح ہدایتکار حیدر شاہ کی اردو فلم طوفان سے ہوا تھا اس فلم کے مرکزی کردار صبیحہ اور سدھیر نے ادا کئے تھے۔
دوستوں آپ نے یہ فلم کب اور کہاں دیکھی تھی اور اس فلم کے بارے میں اپنی راۓ ضرور بتائیں شکریہ۔
مشتاق احمد شیری۔

Address

Aljumaira Street
Islamabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Tahir Chughtai posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Tahir Chughtai:

Share