
12/08/2025
یہ واقعہ تاریخ اور سیاست کے طلباء کے لیے ایک اہم اور افسوسناک باب ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں بہت سے لوگ اس سے ناواقف ہیں۔
⸻
بابڑہ قتلِ عام 1948 – پختونخوا، پاکستان
جیسے ہندوستان میں جلیانوالہ باغ قتلِ عام راؤلٹ ایکٹ کے بعد پیش آیا تھا، جس پر جناح صاحب اور گاندھی جی جیسے رہنماؤں نے احتجاج کیا، ویسے ہی پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا ہی بلکہ اس سے زیادہ المناک واقعہ بابڑہ قتلِ عام کے نام سے جانا جاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہ ظلم کسی غیر قوم نے نہیں، بلکہ اپنے ہی مسلمان اور پختون بھائیوں، بہنوں اور ماؤں پر ڈھایا گیا۔
⸻
پس منظر:
یہ سانحہ 12 اگست 1948 کو پیش آیا، جسے اکثر “پختون کربلا” کہا جاتا ہے۔
یہ واقعہ پاکستان کے قیام کے صرف ایک سال بعد، آزادی کی پہلی سالگرہ سے دو دن پہلے رونما ہوا۔
بابڑہ کے مقام پر پرامن اور نہتے لوگوں کو محض اپنے حقِ زندگی کا مطالبہ کرنے پر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ شہادتوں کی صحیح تعداد آج تک متعین نہیں ہو سکی، مگر مقامی چشم دید گواہان، محققین اور تاریخ دانوں کے مطابق یہ سانحہ اپنی شدت اور بربریت میں جلیانوالہ باغ سے کسی طرح کم نہ تھا۔
⸻
وزیرِ اعلیٰ کا بیان:
اس وقت صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے وزیرِ اعلیٰ عبدالقیوم خان نے صوبائی اسمبلی میں اس سانحے پر بیان دیتے ہوئے کہا:
“میں نے بابڑہ میں دفعہ 144 نافذ کی تھی۔ جب لوگ منتشر نہ ہوئے تو ان پر فائرنگ کی گئی۔ وہ خوش قسمت تھے کہ پولیس کا اسلحہ ختم ہو گیا، ورنہ ایک بھی زندہ نہ بچتا۔”
یہ الفاظ بالکل ویسے ہی تھے جیسے جلیانوالہ باغ کے سانحے کے بعد جنرل ڈائر نے کہے تھے۔
⸻
بعد کا ردعمل:
1950 میں عوامی لیگ کے صدر حسین شہید سہروردی نے ڈھاکہ میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
“چارسدہ میں پیش آنے والا واقعہ، 1919 کے جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام سے بھی بڑا تھا۔”
⸻
یہ سانحہ پاکستان کی تاریخ کا ایک کڑوا اور شرمناک باب ہے، جس سے آج بھی بہت سے لوگ ناواقف ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ظلم اور بربریت کسی بھی معاشرے میں اس وقت پنپتی ہے جب طاقتور اپنی ہی عوام کو دشمن سمجھ بیٹھتے ہیں۔