18/10/2025
"نائی کا بیٹا"
تحریر : Mr. Saim
کہتے ہیں، خواب دیکھنے کے لیے پس منظر نہیں حوصلہ چاہیے۔
یہ کہانی ہے ایک ایسے شخص کی،
جس کا خاندانی پیشہ بال کاٹنا اور شادیوں میں دیگیں پکانا تھا۔
جس کے والد کو سال کے آخر میں اجرت کے طور پر صرف گندم کی بوریاں ملا کرتی تھیں۔
ایک دن تعلیم کے چند روپے درکار تھے۔
والد ہمت کر کے گاؤں کے چوہدری کے پاس جا پہنچے۔
جھکی ہوئی کمر، امید بھری آنکھوں کے ساتھ۔
لیکن جواب آیا:
“ایس نوں پڑھان دی کی لوڑ اے؟ ایہہ کیرا ڈی سی لگ جانا اے؟”
(اسے پڑھانے کی کیا ضرورت ہے، یہ کونسا ڈی سی لگ جائے گا!)
یہ جملہ اُس لڑکے کے دل پر نقش ہوگیا۔
شاید اسی دن اُس نے فیصلہ کرلیا
کہ اب وہ نائی کا نہیں، حوصلے کا بیٹا بن کر دکھائے گا۔
وقت گزرا، محنت رنگ لائی۔
اور ایک دن، وہی بچہ…
ملک کا وزیرِ داخلہ بن گیا۔
جی ہاں رحمان ملک۔
وہ شخص جس کے ماتحت وہ تمام ڈی سی تھے،
جن کے عہدے پر کبھی چوہدری کے جملے نے ہنسی اڑائی تھی۔
یہ وہ پاکستان تھا جہاں ابھی ابھی لال مسجد کا سانحہ ہوا تھا۔
جہاں فضا میں خوف اور بارود کی بو بسی ہوئی تھی۔
رحمان ملک کے دور میں شدت پسندی عروج پر تھی۔
روزانہ کہیں نہ کہیں “ٹھاہ” کی آواز گونجتی تھی۔
لوگ کہتے تھے —
“رحمان بابا کو تو ٹھاہ ہونے سے پہلے جگہ کا پتہ ہوتا ہے!”
طنز بھی، تنقید بھی، مگر خدمت کا سفر جاری رہا۔
ایک عام پس منظر سے آیا شخص،
ملک کے سب سے نازک دور میں قوم کی باگ سنبھالے بیٹھا تھا۔
نہ وہ اشرافیہ کا حصہ تھا،
نہ کسی جرنیل کا بیٹا۔
لیکن پھر بھی وہ بی بی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہوا۔
اسے سیاست کے اعلیٰ ترین درجے تک پہنچنے سے
کوئی نہ روک سکا۔
کہتے ہیں، ایک دن اعتزاز احسن صاحب نے اس کی فائل میں
اس کے نام کے ساتھ طنزاً لکھ دیا:
“رحمان ملک نائی”
www.youtube.com/