KPK AWAZ

KPK AWAZ Pakistan zindabad

: تخت بھائی بینا طارق ہسپتال کے قریب موٹر سائیکل حادثے کے نتیجے میں ایک شخص جانبحق جبکہ دوسرا شدید زخمی۔ ریسکیو1122مردان...
16/09/2025

: تخت بھائی بینا طارق ہسپتال کے قریب موٹر سائیکل حادثے کے نتیجے میں ایک شخص جانبحق جبکہ دوسرا شدید زخمی۔ ریسکیو1122

مردان:ریسکیو1122 میڈیکل ٹیم نے زخمی حالت میں بروقت ابتدائی طبی امداد فراہم کرتے ہوۓ ایم ایم سی منتقل کر دیا۔@

: ہسپتال میں ایک زخمی نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔

ردان: جانبحق کی شناخت 28 سالہ زید ساکن قندہاروں کلے سے ہوئی 26 سالہ سہیل زخمی ہے۔

08/06/2025

جنہوں نے پی ٹی آئی ترک کرنے کا اعلان کیا، خاص طور پر 9 مئی 2023 کے واقعے کے بعد:

🔻 وفاقی و مرکزی سطح

فواد چوہدری (سابق وفاقی وزیر)

شیریں مزاری (سابق وزیر برائے انسانی حقوق)

عامر محمود کیانی (سابق ایم این اے)

خسرو بختیار

جمشید چیمہ، مسرت جمشید چیمہ

ملکہ بخاری

عون ڈوگر

علی زیدی

عمران اسماعیل (سابق گورنر سندھ)

فیاض الحسن چوہان

اسد عمر (سابق سیکریٹری جنرل)

پرویز خٹک

🏞️ پنجاب

ایاز خان نیازی

عبدالرزاق خان نیازی

مخدوم افتخار الحسن گیلانی

سید سعید الحسن

سلیم اختر لابر

ظہیرالدین علی زئی

عبدالحئی دستی

ملک مجتبیٰ نیاز گشکوری

علمدار حسین قریشی

سجاد حسین چنہ

سردار قیصر عباس خان مگسی

اشرف رند

فیاض الحسن چوہان (سابق وزیر پنجاب)

---

⚖️ خیبرپختونخوا

عثمان ترکئی (سابق ایم این اے)

ملک جواد حسین

ڈاکٹر ہشام انعام اللہ ملک (سابق صوبائی وزیر)

محمد اقبال وزیر

نادیہ شیر (سابق ایم پی اے)

اجمل وزیر (سابق ترجمان حکومت پنجاب)

ملک قیوم

---

🏙️ سندھ

جئے پرکاش (سابق رکن قومی اسمبلی)

بلال غفار، عمر عمیری (سابق رکن سندھ اسمبلی)

محمود مولوی (سابق نائب صدر PTI سندھ)

آفتاب صدیقی (سابق صدر PTI کراچی)

سید ذوالفقار علی شاہ (سابق رکن صوبائی اسمبلی)

سنجے گنگوانی

ڈاکٹر عمران (PTI سندھ رہنما)

سید غلام شاہ (سابق ضلعی صدر خیرپور)

---

🏞️ بلوچستان

مبین خلجی (سابق صوبائی وزیر)

---

🆕 مزید تنوع

کنیز فاطمہ (سینئر وائس پریزیڈنٹ ویمن ونگ پنجاب)

مالک خرم علی، طارق محمود الحسن، نادیہ عزیز — سابق ایم پی اے

---

📊 کل ڈیٹا پوائنٹس

9 مئی کے بعد تقریباً 220 سینئر رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں، جن میں:

31 سابق وفاقی وزراء یا معاونین خصوصی

48 موجودہ یا سابق اراکین قومی اسمبلی

مختلف صوبائی اراکین بھی شامل

Speen Khan la hum Yao pride of Pakistan award pakar oSanga mo khwaha da .
18/05/2025

Speen Khan la hum Yao pride of Pakistan award pakar o
Sanga mo khwaha da .

سولر پلانٹ لگانے کے مزید اصول اور احتیاطی تدابیر درج ذیل ہیں:سولر پلانٹ لگانے کے چند اہم اصول درج ذیل ہیں:1. مقام کا انت...
06/05/2025

سولر پلانٹ لگانے کے مزید اصول اور احتیاطی تدابیر درج ذیل ہیں:سولر پلانٹ لگانے کے چند اہم اصول درج ذیل ہیں:

1. مقام کا انتخاب:
سولر پلانٹ کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں پورا دن دھوپ آتی ہو، یعنی سایہ نہ ہو (درخت، عمارت یا دیگر رکاوٹیں نہ ہوں)۔

2. زاویہ اور رخ:
سولر پینلز کو اس زاویے پر نصب کریں جہاں سورج کی شعاعیں زیادہ سے زیادہ وقت پڑیں۔ پاکستان میں عام طور پر جنوب کی طرف زاویہ 25 سے 35 ڈگری مؤثر ہوتا ہے۔

3. معیار:
اچھے معیار کے سولر پینلز، انورٹر اور بیٹری استعمال کریں تاکہ نظام طویل عرصہ چلے اور مؤثر کارکردگی دے۔

4. صفائی اور دیکھ بھال:
سولر پینلز کو باقاعدگی سے صاف کریں تاکہ دھول یا گندگی روشنی کو روک نہ سکے۔ ہر 15 دن یا مہینے میں صفائی مفید ہوتی ہے۔

5. بجلی کی طلب کا تعین:
اپنی روزانہ کی بجلی کی ضرورت معلوم کریں تاکہ اسی حساب سے سسٹم کا سائز طے کیا جا سکے (جیسے 3 کلو واٹ، 5 کلو واٹ وغیرہ)۔

6. محفوظ تنصیب:
سولر پلانٹ کی تنصیب تجربہ کار مستری یا کمپنی سے کروائیں تاکہ شارٹ سرکٹ یا حادثات سے بچا جا سکے۔

7. نیٹ میٹرنگ (اختیاری):
اگر آپ بجلی کمپنی کے ساتھ نیٹ میٹرنگ کروانا چاہتے ہیں تو متعلقہ ادارے سے رجوع کریں تاکہ اضافی بجلی واپس گرڈ کو دی جا سکے

8. سولر پینل کی اقسام کا انتخاب:
مارکیٹ میں مختلف اقسام کے سولر پینلز دستیاب ہوتے ہیں جیسے:

مونوکریسٹالائن (Monocrystalline): زیادہ مؤثر اور مہنگے۔

پولی کریسٹالائن (Polycrystalline): کم مہنگے مگر کارکردگی تھوڑی کم۔

Thin-film: کم قیمت لیکن کارکردگی بھی کم۔
اپنے بجٹ اور ضرورت کے مطابق پینل منتخب کریں۔

9. انورٹر کا معیار:
انورٹر سولر سسٹم کا دماغ ہوتا ہے۔ اچھے برانڈ کا انورٹر منتخب کریں جو لوڈ کو برداشت کر سکے اور طویل مدت تک چلے۔

10. بیٹری کی اقسام اور چارجنگ:
اگر آپ آف-گرڈ (Off-grid) سسٹم لگا رہے ہیں تو بیٹری کا انتخاب اہم ہے۔ لیڈ ایسڈ یا لیتھیم آئن بیٹریاں عام ہیں۔
بیٹریوں کو اوور چارجنگ یا ڈیپ ڈسچارج سے بچائیں۔

11. وائرنگ اور سیکیورٹی:
وائرنگ محفوظ، پائیدار اور معیاری ہونی چاہیے۔ شارٹ سرکٹ یا آگ لگنے کے خطرے سے بچنے کے لیے مناسب سرکٹ بریکر اور ارتھنگ (Earthing) لازمی ہے۔

12. حکومتی قوانین اور اجازتیں:
کچھ علاقوں میں سولر پلانٹ لگانے کے لیے مقامی حکومت یا بجلی کمپنی سے اجازت درکار ہوتی ہے، خاص طور پر اگر نیٹ میٹرنگ کروانی ہو۔

13. ماحولیاتی اثرات:
سولر سسٹم ماحول دوست ہے، مگر بیٹریوں کا محفوظ طریقے سے تلف ہونا ضروری ہے تاکہ ماحولیاتی آلودگی نہ ہو۔

14. مستقبل میں توسیع کا خیال:
سسٹم ایسا بنوائیں کہ اگر بعد میں لوڈ یا بجلی کی ضرورت بڑھے تو آسانی سے مزید پینلز یا بیٹریاں شامل کی جا سکیں۔

15. لاگت کا تخمینہ اور واپسی:
ابتدائی لاگت زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن یہ 3 سے 5 سال میں اپنی قیمت نکال دیتا ہے۔ مکمل واپسی کا اندازہ لگائیں۔

16. موسم اور درجہ حرارت کا جائزہ:
سولر پینلز دھوپ میں تو اچھا کام کرتے ہیں، لیکن بہت زیادہ گرمی (مثلاً 45°C سے زیادہ) کارکردگی کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس لیے پینلز کے نیچے ہوا کے گزرنے کی جگہ رکھنا ضروری ہے۔

17. بجلی کی پیداوار کی نگرانی (Monitoring):
ایسے انورٹر یا سسٹم کا انتخاب کریں جو موبائل ایپ یا ویب پورٹل کے ذریعے پیداوار کی نگرانی کی سہولت دے تاکہ مسئلہ جلدی معلوم ہو جائے۔

18. بیمہ (Insurance):
کئی کمپنیاں سولر سسٹمز کا بیمہ بھی کر رہی ہیں، جو قدرتی آفات یا چوری وغیرہ کی صورت میں تحفظ فراہم کرتا ہے۔

19. گراؤنڈ ماونٹنگ یا روف ماونٹنگ:
اگر چھت کمزور یا سایہ دار ہو تو زمین پر (گراؤنڈ ماونٹڈ) سولر پلانٹ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ہر جگہ کے لحاظ سے مناسب انتخاب کریں۔

20. سسٹم کی جانچ اور تجربہ (Testing):
سسٹم کی تنصیب کے بعد تمام کنیکشن، وولٹیج اور آؤٹ پٹ کی مکمل جانچ کروائیں تاکہ کوئی نقص نہ رہ جائے۔

21. وارنٹی اور خدمات:
خریداری کے وقت پینلز، انورٹر اور بیٹری کی وارنٹی چیک کریں۔ اچھے برانڈز 10 سے 25 سال تک کی وارنٹی دیتے ہیں۔

22. مستند کمپنی یا ماہر سے خریداری:
ہمیشہ رجسٹرڈ یا تجربہ کار کمپنی سے سسٹم لگوائیں، اور ان سے مکمل تخمینہ، معاہدہ اور بل ضرور لیں۔

23. تحفظاتی نظام:
سسٹم میں سرج پروٹیکشن ڈیوائس (SPD)، فیوز اور منی سرکٹ بریکر (MCB) شامل کریں تاکہ شارٹ سرکٹ یا وولٹیج کے جھٹکوں سے بچا جا سکے۔

24. لوڈ مینجمنٹ:
سسٹم کے ساتھ اسمارٹ لوڈ کنٹرولر استعمال کریں تاکہ بجلی کا ضیاع نہ ہو اور صرف ضروری آلات ہی سولر سے چلیں۔

25. ریگولر معائنہ (Maintenance Schedule):
سال میں کم از کم دو بار مکمل سسٹم کی جانچ، صفائی اور مرمت کا شیڈول بنائیں۔

26. پرندوں اور گردوغبار سے بچاؤ:
پینلز کے اوپر پرندوں کا بیٹھنا یا گھونسلے بنانا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ مخصوص نیٹ یا اسپائکس لگائے جا سکتے ہیں تاکہ پرندے دور رہیں۔

27. دھوپ کے زاویے کا سالانہ حساب:
سال کے مختلف مہینوں میں سورج کا زاویہ بدلتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو پینل کو سیزن کے حساب سے ایڈجسٹ کرنے والی اسٹرکچر پر لگائیں تاکہ ہر موسم میں بہترین کارکردگی ملے۔

28. سولر سسٹم کے اقسام کا انتخاب:

آن گرڈ سسٹم: بجلی کمپنی کے ساتھ منسلک، نیٹ میٹرنگ ممکن۔

آف گرڈ سسٹم: مکمل طور پر خود کفیل، بیٹریوں پر انحصار۔

ہائبرڈ سسٹم: دونوں کا مجموعہ، لوڈشیڈنگ میں بھی فائدہ اور نیٹ میٹرنگ بھی ممکن۔

29. واپسی سرمایہ کاری (ROI) کا اندازہ:
سولر پلانٹ ایک سرمایہ کاری ہے، اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ کتنے عرصے میں اپنی لاگت واپس دلائے گا۔ عام طور پر 3 سے 6 سال میں لاگت واپس آ جاتی ہے۔

30. ٹیکس اور سبسڈی:
بعض علاقوں میں حکومت کی طرف سے سولر پر ٹیکس چھوٹ یا سبسڈی دی جاتی ہے۔ مقامی اداروں سے معلومات حاصل کریں تاکہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔

31. رات کے وقت لوڈ پلاننگ:
رات کو صرف بیٹری سے بجلی آتی ہے، اس لیے صرف ضروری آلات جیسے لائٹس یا پنکھے وغیرہ بیٹری سے چلائیں تاکہ بیٹری زیادہ دیر چلے۔

32. UPS اور سولر کا فرق:
بعض لوگ UPS اور سولر کو ایک ہی سمجھتے ہیں، حالانکہ سولر بجلی بناتا ہے اور UPS صرف ذخیرہ شدہ بجلی دیتا ہے۔ دونوں کا الگ استعمال اور مقصد ہوتا ہے۔

33. اضافی پینلز کی گنجائش:
سسٹم لگاتے وقت اتنی گنجائش رکھیں کہ بعد میں اضافی پینلز یا بیٹریاں آسانی سے لگ سکیں۔

34. توانائی کی بچت کے اصول اپنائیں:
جہاں ممکن ہو، سولر کے ساتھ ساتھ LED بلب، انرجی ایفیشینٹ پنکھے اور کم واٹ والے آلات استعمال کریں تاکہ لوڈ کم ہو۔

35. مقامی ماہرین سے رہنمائی:
اپنے علاقے کے ماحول، سورج کی دستیابی اور بجلی کی ضروریات کے مطابق کسی مقامی سولر ماہر سے مشورہ لینا بہتر ہوتا ہے۔

اگر ہم معاشی (economic) لحاظ سے دیکھیں کہ ایران پاکستان یا بھارت میں سے کس کے زیادہ قریب ہے، تو درج ذیل موازنہ پیش کیا ج...
05/05/2025

اگر ہم معاشی (economic) لحاظ سے دیکھیں کہ ایران پاکستان یا بھارت میں سے کس کے زیادہ قریب ہے، تو درج ذیل موازنہ پیش کیا جا سکتا ہے:

1. ایران اور بھارت کے معاشی تعلقات:

تجارت کا حجم: بھارت اور ایران کے درمیان تجارت پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

اہم درآمدات: بھارت، ایران سے تیل اور گیس درآمد کرتا رہا ہے (پابندیوں کے باوجود کچھ وقتوں میں جاری رہا)۔

چاہ بہار بندرگاہ: بھارت نے ایران میں چاہ بہار پورٹ کی ترقی میں سرمایہ کاری کی ہے، تاکہ وسط ایشیا اور افغانستان تک تجارتی رسائی حاصل ہو سکے۔

بھارت ایران کے لیے ایک بڑی منڈی ہے۔یہ رہا ایک سادہ موازنہ جدول (Comparison Table) معاشی تعلقات کے حوالے سے:

ایران اور بھارت کے درمیان زیادہ وسیع اور مضبوط معاشی تعلقات ہیں، جبکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات دوستانہ مگر محدود معاشی سرگرمیوں پر مشتمل ہیں۔

2. ایران اور پاکستان کے معاشی تعلقات:

تجارت کا حجم کم ہے، تقریباً 2-3 ارب ڈالر سالانہ۔

دونوں ممالک میں گیس پائپ لائن منصوبہ (Iran-Pakistan Gas Pipeline) موجود ہے، لیکن سیاسی دباؤ اور مالی مشکلات کی وجہ سے مکمل نہیں ہو سکا۔

سرحدی تجارت (بلوچستان کے ذریعے) تو ہوتی ہے، مگر زیادہ تر محدود اور غیر رسمی ہوتی ہے۔

معاشی طور پر ایران، بھارت کے زیادہ قریب ہے — کیونکہ:

بھارت کا تجارتی حجم زیادہ ہے۔

چاہ بہار بندرگاہ جیسے بڑے منصوبے میں بھارت کی شمولیت ہے۔
بھارت ایک بڑی منڈی اور زیادہ معاشی طاقت رکھتا ہے۔
ایران اور بھارت کے درمیان زیادہ وسیع اور مضبوط معاشی تعلقات ہیں، جبکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات دوستانہ مگر محدود معاشی سرگرمیوں پر مشتمل ہیں۔

چین پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ زیادہ معاشی طور پر جُڑا ہوا ہے۔تفصیل درج ذیل ہے:1. تجارت (Trade)چین اور بھارت کے...
05/05/2025

چین پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ زیادہ معاشی طور پر جُڑا ہوا ہے۔

تفصیل درج ذیل ہے:

1. تجارت (Trade)

چین اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر سے زائد ہے۔

چین اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً 20 ارب ڈالر کے قریب ہے۔

2. سرمایہ کاری (Investment)

چین نے پاکستان میں CPEC کے تحت بڑی سرمایہ کاری کی ہے، جو اہم ہے، لیکن یہ زیادہ تر انفراسٹرکچر اور توانائی پر مرکوز ہے۔

بھارت میں چین کی سرمایہ کاری ٹیکنالوجی، صنعت، اور کنزیومر مارکیٹ میں بھی ہے، اور بھارت کی بڑی مارکیٹ چین کے لیے پرکشش ہے۔

3. مارکیٹ کی وسعت (Market Size)

بھارت کی آبادی اور مارکیٹ بہت بڑی ہے، اس لیے چین کے لیے زیادہ فائدہ مند تجارتی پارٹنر سمجھا جاتا ہے۔

نتیجہ:اگر آپ معاشی (economic) نزدیکی کی بات کر رہے ہیں، تو:

چین پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ زیادہ معاشی طور پر جُڑا ہوا ہے۔

تفصیل درج ذیل ہے:

1. تجارت (Trade)

چین اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر سے زائد ہے۔

چین اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً 20 ارب ڈالر کے قریب ہے۔

2. سرمایہ کاری (Investment)

چین نے پاکستان میں CPEC کے تحت بڑی سرمایہ کاری کی ہے، جو اہم ہے، لیکن یہ زیادہ تر انفراسٹرکچر اور توانائی پر مرکوز ہے۔

بھارت میں چین کی سرمایہ کاری ٹیکنالوجی، صنعت، اور کنزیومر مارکیٹ میں بھی ہے، اور بھارت کی بڑی مارکیٹ چین کے لیے پرکشش ہے۔

3. مارکیٹ کی وسعت (Market Size)

بھارت کی آبادی اور مارکیٹ بہت بڑی ہے، اس لیے چین کے لیے زیادہ فائدہ مند تجارتی پارٹنر سمجھا جاتا ہے۔

معاشی لحاظ سے چین بھارت کے زیادہ قریب ہے، جبکہ سیاسی و جغرافیائی طور پر پاکستان چین کے قریب ہے۔

معاشی لحاظ سے چین بھارت کے زیادہ قریب ہے، جبکہ سیاسی و جغرافیائی طور پر پاکستان چ

02/05/2025

Address

Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when KPK AWAZ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share