𝗹𝗶𝘁𝗲𝗿𝗮𝘁𝘂𝗿𝗲 𝗖𝗶𝗿𝗰𝗹𝗲

𝗹𝗶𝘁𝗲𝗿𝗮𝘁𝘂𝗿𝗲 𝗖𝗶𝗿𝗰𝗹𝗲 ادب سے پیار کرنے والوں کے لیے ایک بہترین صفحہ

15/07/2025

" زندگی ان مخصوص جملوں کے گرد کیوں گھومتی ہے.؟ وہ کون سا "صحیح وقت" ہوتا ہے جس کا ہم ساری زندگی انتظار کرتے ہیں مگر وہ آتا نہیں ہے.؟ جان سے پیارے لوگوں کو ، خونی رشتوں کو، دل سے جڑے تعلق کو ان کی اہمیت بتانے کے لیے ہمیشہ "خاص" موقعے کا انتظار کیوں ہوتا ہے ہمیں؟ کیوں ہم کبھی کھل کر اپنے پیار کا ، دوسروں کی قربانیوں کا ، توجہ کا ،اعتراف نہیں کرتے؟ زندگی بہت چھوٹی ہے ، اگلے لمحے کون، کب، کہاں ، کیسے بچھڑ جائے اندازہ لگانا نا ممکن ہے .ماں، باپ، بھائی ، بہن، استاد، شاگرد، دوست، سماعت سے محروم کوئی شخص ہو یا معصوم سا بچہ ،ہر انسان کو جو دل کے قریب ہو اس کو ایک بار ہی سہی ضرور بتا دینا چاہئے کی وہ کتنے "اہم" اور "خاص" ہیں ہمارے لیے.بعض دفعہ دل کی باتیں دل میں چھپا لینے سے ہم بہت کچھ کھو دیتے ہیں اور بعد میں صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے جو انسان کو اندر ہی اندر ختم کر دیتا ہے۔
خیر ہو,خوش رہیں ,سلامت رہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صبح بخیر
*~*Mehar Jee*~*
آپکی آرا اورتبصرے کی ضرورت ہے ، اگرلکھی ہوئی بات دل کو لگتی ہےتو اسے شیرئ ضرور کریں.
مذید تحایر کیلئے درج ذیل پیج ضرور لائق کریں
✔ Visit our page ✔ Like ✔ Comment ✔ Tag ✔ Share
www.facebook.com/urdumazapoint

15/07/2025

ایک شہنشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گزر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ یہاں کے باشندوں نے جنگ کا نام تک نہ سنا تھا اور وہ فاتح ا
ور مفتوح کے معنی سے ناآشنا تھے‘ بستی کے باشندے شہنشاہ اعظم کو مہمان کی طرح ساتھ لے کر اپنے سردار کی جھونپڑی میں پہنچے۔ سردار نے اس کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے شہنشاہ کی تواضع کی۔
کچھ دیر میں دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا الیہ کی حیثیت سے اندر داخل ہوئے۔ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی تھی۔
مدعی نے کہا۔
”میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں لیتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس سے صرف زمین خریدی تھی۔ اور اسے صرف زمین کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں“
مدعا الیہ نے جواب میں کہا۔
”میرا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں‘ میں نے تو اس کے ہاتھ زمین فروخت کردی تھی۔ اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے اور یہی اس کا مالک ہے ، میرا اب اس زمین اور اس میں موجود اشیاء سے کوئی تعلق نہیں ہے “
سردار نے غور کرنے کے بعد مدعی سے دریافت کیا۔
”تمہارا کوئی لڑکا ہے؟“
”ہاں ہے!“
پھر مدعا الیہ سے پوچھا۔
”اور تمہاری کوئی لڑکی بھی ہے؟“
”جی ہاں....“ مدعا الیہ نے بھی اثبات میں گردن ہلا دی۔
”تو تم ان دونوں کی شادی کرکے یہ خزانہ ان کے حوالے کردو۔“
اس فیصلے نے شہنشاہ کو حیران کردیا ۔ وہ فکر مند ہوکر کچھ سوچنے لگا۔
سردار نے متردد شہنشاہ سے دریافت کیا۔ ”کیوں کیا میرے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟“
”نہیں ایسی بات نہیں ہے۔“ شہنشاہ نے جواب دیا۔ ”لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔“
سردار نے سوال کیا۔ ”اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟“
شہنشاہ نے کہا کہ ۔ ” پہلی تو بات یہ ہے کہ اگر یہ مقدمہ ہمارے ملک میں ہوتا تو زمین خریدنے والے اور بیچنے والے کے درمیان کچھ اس طرح کا جھگڑا ہوتا کہ بیچنے والا کہتا کہ : میں نے اسے زمین بیچی ہے اور اس سے زمین کی قیمت وصول کی ہے ، اب جبکہ خزانہ نکل آیا ہے تو اس کی قیمت تو میں نے وصول ہی نہیں کی ، اس لیے یہ میرا ہے ۔
جبکہ خریدنے والا کہتا کہ:
میں نے اس سے زمین خریدلی ہے ، تو اب اس میں جو کچھ ہے وہ میری ملکیت ہے اور میری قسمت ہے ۔
سردار نے شہنشاہ سے پوچھا کہ ، پھر تم کیا فیصلہ سناتے؟
شہنشاہ نے اس کے ذہن میں موجود سوچ کے مطابق فورا جواب دیا کہ:
ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کردیا جاتا۔“
”بادشاہ کی ملکیت!“ سردار نے حیرت سے پوچھا۔ ”کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے؟“
”جی ہاں کیوں نہیں؟“
”وہاں بارش بھی ہوتی ہے....“
”بالکل!“
”بہت خوب!“ سردار حیران تھا۔ ”لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائے جاتے ہیں جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں؟“
”ہاں ایسے بے شمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔“
”اوہ خوب‘ میں اب سمجھا۔“ سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔ ”تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کررہی ہے۔

خیر ہو,خوش رہیں ,سلامت رہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صبح بخیر
*~*Mehar Jee*~*
آپکی آرا اورتبصرے کی ضرورت ہے ، اگرلکھی ہوئی بات دل کو لگتی ہےتو اسے شیئرضرور کریں
مذید تحایر کیلئے درج ذیل پیج ضرور لائق کریں
✔ Visit our page ✔ Like ✔ Comment ✔ Tag ✔ Share
www.facebook.com/urdumazapoint

15/07/2025

یقین کیجیے کہ آج شاید ہم اتنی برکت سے عاری اس لیے ہیں اور شاید اپنی تمام تر غربت کے باوجود، صحابہؓ اتنے بابرکت اس لیے تھے کیونکہ ان کی ساری کی ساری عقل اور سارے کا سارا علم، دو حدوں پر جا کر ختم ہو جاتا تھا۔
ایک تو اُن کا وہ جملہ جو شروع ہی عشق سے ہوتا تھا کہ اللہ کے رسولؐ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، اور پھر اُن کی بات جس جملے پر ختم ہوتی تھی کہ اللہ اور اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں....
یہی وہ جملہ ہے جس نے صحرا کے ان پڑھ بدؤں کو صحابہ کرامؓ بنا دیا۔
اگر یہ جملہ کہنے کی صلاحیت نہ ہو، انسان کے اندر اتنی تپش نہ ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات کو آدھے گھنٹے کے لیے، ایک گھنٹے کے لیے، دو دن کے لیے، دس دن، دس سال کے لیے اپنے اندر رکھ سکے تو پھر وہی مزاج ہوتا ہے جو ہماری آج کی نسل کا ہو رہا ہے کہ ہمارے پاس معلومات تو اس قدر زیادہ ہیں (گوگل پر اس قدر معلومات ہیں جو ایک طبعی زندگی میں پڑھنا ناممکن ہیں) لیکن اس کے باوجود عقل و دانش زوال پذیر ہے کیونکہ ہم معلومات کو صبر کے ساتھ اپنے اندر رکھ کر اس پر غور و خوض کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں اور اسی صبر کی غیر موجودگی نے ہمیں ناشکرا بنا دیا ہے۔
صحابہؓ کے اندر بھی یہی جذبات تھے جو آج ہم اپنے اندر رکھتے ہیں
آپ تمام لوگ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک بھی کوئی ایسا سوال نہیں کر سکتے، جہاں کسی صحابیؓ کی روایت کو روایت نہ کیا جا سکے۔
کسی صحابیؓ نے پوچھا ’’ یا رسول اللہ ﷺ! اگر تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے مقدر میں لکھ دیں تو پھر ہم گھر سے کیوں نکلیں؟‘‘
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ’’اللہ نے تمھارے مقدر میں کچھ لکھا ہے تو یہ بھی لکھا ہے کہ تمھیں کون کون سی تو فیق دینی ہے، کون کون سے ذرائع دینے ہیں، کن لوگوں کے دل تمھارے لیے نرم، اور کن لوگوں کے دل تمھارے لیے سخت کرنے ہیں، اور یہ بھی کہ تم گھر سے کن اسباب اور وسائل کے ساتھ نکلو گے اور اس مقدر تک کیسے پہنچو گے‘‘
اب اس جواب سے اس صحابیؓ کی تو دلچسپی ختم ہو گئی، لیکن آج کے زمانے میں ہماری دلچسپی کو معاملات نے مزید آگے بڑھا دیا ہے۔
تاریخ میں ایک بہت بڑے استادِ محترم، بایزید بسطامی رحمتہ اﷲ علیہ گزرے ہیں۔ آپؒ ایک جگہ نماز پڑھنے گئے، نماز سے فارغ ہو کر امام صاحب نے ان سے دعا سلام کی اور پوچھا’’بایزید رحمتہ اﷲ علیہ آپ یہاں کہاں رہ رہے ہیں؟ ‘‘
فرمایا’’ یہاں ہوں، ابھی مسجد میں آیا ہوں، پھر سفر کر کے آگے نکل جاؤں گا۔‘‘
امام صاحب نے پوچھا ’’ آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
بایزید رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا’’ ایک منٹ ذرا ٹھہرو، تمھارے پیچھے جو نماز پڑھی ہے، وہ باطل ہے، میں دوبارہ نماز ادا کروں گا‘‘
اب امام صاحب کو بڑی تکلیف ہوئی کہ میرے پیچھے پڑھی جانے والی نماز باطل کیسے ہو گئی؟

بایزید رحمتہ اﷲ علیہ نے کہا ’’ میں اس امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا چاہتا جو یہ نہ جانتا ہو کہ معاش تو اللہ کی ذمہ داری ہے، انسان کی نہیں....‘‘
تو یہ جو نفاست کی بھی نفاست ہے، وہ عقل سے نہیں، تقویٰ سے نکلی ہے۔
پھر شفیق بلخی تھے جو ایک بہت امیر آدمی تھے اور اتنے امیر اور نفیس کہ اپنی خوشبو سے پہچانے جاتے تھے۔ ایک بار قحط کا زمانہ تھا، یہ بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا ایک کالا حبشی غلام بازار میں ناچ رہا ہے۔ آپ کو بڑا بُرا لگا کہ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور یہ شخص اس طرح ناچ گا رہا ہے۔ اسے پاس بلایا اور کہا ’’سارا شہر قحط کی حالت میں ہے اور تو گلیوں میں ناچتا پھر رہا ہے؟‘‘
اس نے کہا’’ بات ہی ایسی ہے، سارا شہر تو بھوک سے مر رہا ہے لیکن مجھے کیا فکر؟ میں تو جس آقا کا غلام ہوں، اُس کے پاس بہت زیادہ اناج پڑا ہوا ہے، وہ مجھے بھوک سے مرنے نہیں دے گا......‘‘
یہ وہ لمحہ تھا جس نے بلخی کو ایک فقیرسے ایک امام بنا دیا۔
اس نے سوچا ایک حبشی غلام کو اپنے آقا پر اس قدر مان، اس قدر یقین ہے کہ اس کا امیرمالک اسے بھوکا نہیں مرنے دے گا میرا مالک تو اس کے مالک سے کہیں زیادہ، سب سے زیادہ بڑا ہے، بلخی! تُو پھر کس لیے آگے کی فکر کے لیے مال جمع کرتا ہے؟‘‘
ایسی سوچ جو اللہ پر ہمارا گمان یقین اعتماد کاملیت بڑھادے ،ہے ہم میں ؟ یہ ہوگا تو انسان سکھی تہنا سیکھ لے گا ۔عقل و دانش زوال پذیرہونے سے رک جائے گی۔

خیر ہو,خوش رہیں ,سلامت رہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صبح بخیر
*~*Mehar Jee*~*
آپکی آرا اورتبصرے کی ضرورت ہے ، اگرلکھی ہوئی بات دل کو لگتی ہےتو اسے شیئرضرور کریں
مذید تحایر کیلئے درج ذیل پیج ضرور لائق کریں
✔ Visit our page ✔ Like ✔ Comment ✔ Tag ✔ Share
www.facebook.com/urdumazapoint

15/07/2025

15/07/2025

ایک محبِ وطن پاکستانی عاشر عظیم بالا آخر پاکستان سے ھجرت کر گیا ھے ۔۔۔

ھجرت مقدر بن گئی ھے ۔۔۔۔ آؤ سب مل کر ھجرت کر جائیں
———————————
اور اس وقت واپس آئیں جب ایک کیپٹن، ایک سول جج، ایک میٹر ریڈر ، ماسٹر اللہ دتہ، حنیف خرادیا، بشیر کریانہ سٹور والے اور امجد علی کلرک کی ھر سڑک، ھر ھسپتال، ھر عدالت، اور ھر سرکاری ادارے میں ایک جیسی عزت اور پروٹوکول ھو ۔۔۔ جب کسی جج، جرنیل کا بھی موٹر وے پر چالان ھو
————————————-
ایک محبِ وطن پاکستانی عاشر عظیم کی پاکستان سے ہجرت۔۔۔۔

بچپن کی حسین یادوں میں اک ناقابل فراموش یاد پی ٹی وی کی شاہکار ڈرامہ سیریل دھواں بھی ہے ۔دھواں ڈرامہ سیریل کے خالق اس وقت کے نوجوان عاشر عظیم تھے ۔عاشر عظیم اس وقت نوجوان آفیسر تھے ۔اور پاکستان کسٹمز کے محکمے میں اچھے عہدے پر فائز تھے۔ڈرامہ سیریل دھواں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے۔نو آموز اداکاروں نے اپنی لاجواب اداکاری سے مبہوت کر کے رکھ دیا۔عاشر عظیم نے اس ڈرامے میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور بطور ڈائریکٹر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔بطور مصنف بھی انہوں نے دھواں ڈرامہ سیریل کو شاہکار بنا دیا۔

اس کے بعد عاشر عظیم طویل عرصہ تک پاکستان کسٹمز میں انتہائی ایمانداری اور حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔عاشر عظیم کے متعلق کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔مگر ان کے اندر پاکستان کی محبت اس قدر رچ بس چکی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنا تعارف پاکستانی کے طور پر کرواتے ہیں۔آج تلک عاشر عظیم نے کسی فورم پر واویلا نہیں مچایا کہ مجھے مذہبی حوالے سے کسی بھی قسم کے امتیاز کا نشانہ بنایا گیا ۔ ۔عاشر عظیم ہمیشہ اک محب وطن پاکستانی کی شناخت کے ساتھ میڈیا پر آتے ہیں۔

عاشر عظیم کی شوبز کے میدان میں 20 سال کے بعد واپسی ہوئی ۔عاشر عظیم اب کی بار فلم کے ذریعے اپنے وطن کی عوام کو شعور دینے کے لیے میدان میں آئے ۔انہوں بطور مصنف و ہدایتکار فلم مالک بنانے کا اعلان کیا۔شوبز کے حلقوں میں بے چینی سے فلم کا انتظار کیا جانے لگا ۔آخرکار فلم نے تکمیل کے مراحل طے کئے۔فلم مالک کے پروموز نے دھوم مچادی۔فلم نگری سے وابستہ نقاد اور تبصرہ نگار پاکستانی فلم انڈسٹری کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی نوید سنا رہے تھے ۔اور خیال تھا کہ فلم مالک ایک بڑی سپرہٹ فلم ہو گی ۔مگر بدقسمتی سے عاشر عظیم کی حب الوطنی کو نئی مشکلات کا سامنا تھا
فلم کا مشہور مکالمہ”میں پاکستان کا عام شہری پاکستان کا مالک ہوں”۔۔فلم کی کامیابی کا اعلان کر رہا تھا ۔ایسے میں سنسر بورڈ کو عاشر عظیم کی اس کاوش میں غداری کی بو آگئی اور ان کی فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی ۔عاشر عظیم نے اپنی ایمانداری سے کمائی ہوئی تمام جمع پونجی فلم کی سرمایا کاری پر لگا رکھی تھی ۔انہوں نے عدالت میں پیش ہو کر کیس لڑا ۔بلآخر فلم مالک ریلیز تو ہوئی مگر سنسر بورڈ کی سنسر شپ کے بعد ۔سنسر بورڈ کی قینچی نے فلم مالک کا بیڑہ غرق کردیا، نتیجے کے طور پر عاشر عظیم کو مالی خسارہ ہوا ۔فلم بزنس نہ کر سکی اور عاشر عظیم اپنی زندگی بھر کی کمائی سے محروم ہو گئے۔

عاشر عظیم نے اقلیت ہونے کے باوجود اپنی صلاحیت اور ایمانداری سے سول سروس میں خدمات سر انجام دیں ۔انہوں نے انتہائی لگن کے ساتھ پاکستان کی معیشت کو بہتر بنا سکنے کے لئے پاکستان کسٹمز میں رہ کر سی بی آر اور دوسرے محکمہ جات کے ساتھ کوآرڈینشن کے ذریعے بہت عمدہ اقدامات کیے۔عاشر عظیم نے اپنے ویڈیو پیغام میں اپنے ہم وطن پاکستانیوں کو ان وجوہات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔جن کی وجہ سے پہلے ان کو پاکستان کسٹمز کے محکمے میں کلیدی عہدے سے استعفی دینا پڑا ۔اور بعد ازاں ان کو انتہائی نامساعد حالات میں اشک بار ہو کر پاکستان سے ہجرت کرنا پڑی۔

عاشر عظیم جیسا انتہائی فعال زیرک اور ایماندار آفیسر آج کینیڈا میں ٹرک چلا رہا ہے ۔مگر عاشر عظیم کے دل میں آج بھی پاکستان کی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے ۔کینیڈا میں رہ کر بھی عاشر عظیم سوچتا ہے تو صرف پاکستان کے لیے ،ان کی ہر بات سے پاکستان کے لئے فکر مندی محبت اور عشق کا اظہار ہوتا ہے ۔

عاشر عظیم نے پاکستان کسٹمز میں سروس کے دوران 27 دن میں کلیئر ہونے والے کنٹینر کو 4 گھنٹے میں کلیئر کرنے والے نظام پر مبنی سافٹ ویئر بنایا ۔تاکہ پاکستان کی انڈسٹری تیزی سے ترقی کرے ۔عاشر عظیم اور اس کے ساتھیوں کا تیار کردہ منصوبہ آسٹریلیا اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ خصوصیات کا حامل تھا ۔اس سافٹ ویئر کی بدولت پاکستان کسٹمز کا محکمہ شفافیت کی جانب گامزن تھا ۔کہ کرپشن زدگان نے اپنے مفادات پر ضرب لگتی دیکھ کر عاشر عظیم پر لغو اور جھوٹ پر مبنی الزامات لگا کر عہدے سے معطل کر دیا۔۔

یہاں پر عاشر عظیم نے حب الوطنی کی عظیم مثال قائم کرتے ہوئے ۔کوئی پریس کانفرنس نہیں کی، کسی پروپیگنڈے کا سہارہ نہ لیا ۔خاموشی کے ساتھ عدالت میں اپنے حق کے لئے 3 سال جدوجہد کی ۔3 سال بعد عدالت نے ان کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے عہدے پر بحال کرنے کا حکم دیا ۔اور تمام الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کیس خارج کیا۔

مگر عاشر عظیم نے اپنی بحالی کے بعد عہدے سے استعفی دیا اور اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان سے ہجرت کر کے کینیڈا میں مقیم ہو گئے ۔عاشر عظیم اب وہاں ٹرک چلاتے ہیں ۔اور پاکستان کی محبت میں اپنے خیالات کا اظہار اپنے ویڈیو پیغام کے ذریعے یو ٹیوب پر کرتے رہتے ہیں ۔عاشر عظیم کی ہر ویڈیو میں پاکستان کی ترقی کے لیے تجاویز اور نوجوانوں کے لیے امید بھرا پیغام موجود ہوتا ہے ۔

کاش عاشر عظیم جیسے محب وطن پاکستانی کو ہجرت کا دکھ نہ اٹھانا پڑتا ۔عاشر عظیم کے چاہنے والے بھی بے شمار ہیں ۔اور دل میں تمنا رکھتے ہیں کہ ایک دن عاشر عظیم ضرور پاکستان واپس آئے گا۔خدا سے دعا ہے کہ پاکستان کو ایسی قیادت میسر آجائے کہ پھر کسی عاشر عظیم کو ہجرت کا دکھ نہ جھیلنا پڑے

15/07/2025

15/07/2025

ہم خوش قسمت ہیں یا بد قسمت؟
ہمارے ایک بزرگ دوست تھے، اب بھی حیات ہیں، خدا انہیں دنیا میں ہی جنت نصیب کرے، بڑی مزے مزے کی باتیں کرتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے کہ خوش قسمتی یا بد قسمتی کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ آپ کے اچھے /برے فیصلے ہوتے ہیں جن کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔اگر فیصلے دانشمندی کی بنیاد پر کرو گے تو نتائج خوشگوار نکلیں گے اور اگر فیصلے حماقت پر مبنی ہوں گے تو نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا۔کوئی بھی شخص زندگی میں کسی ایک فیصلے کی وجہ سے کامیاب یا نامراد نہیں ہوتا، یہ فیصلوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو کسی کو ظفر مند اور کسی کوناکامران بناتا ہے۔کامیاب لوگ بھی زندگی میں غلط فیصلے کرتے ہیں اور ناکام لوگ بھی کوئی نہ کوئی درست فیصلہ کرتے ہیں، مگر کسی بھی شخص کی ناکامی یا کامیابی ایک فیصلے پر نہیں ٹکی ہوتی۔ زندگی کے ہر مرحلے پر کوئی نہ کوئی موڑ ایسا ضرور آتا ہے جب آ پ کو اپنا اختیار استعمال کرکے راہ منتخب کرنی پڑتی ہے، ہو سکتا ہے نادانستہ طور پر آپ غلط راہ کا انتخاب کر لیں مگر کوئی بات نہیں ایسی ایک آدھ غلطی کی گنجایش ہوتی ہے بشرطیکہ آدمی اُس غلطی کا ادراک کرے اور اگلی مرتبہ درست فیصلہ کرے۔ لیکن اگر آپ کسی شاہراہ پر گاڑی چلاتے ہوئے مسلسل غلط راستوں کا انتخاب کرتے رہیں گے تو منزل پر پہنچنا تو دور کی بات،ہو سکتا ہے کہ راستے میں حادثہ کرواکے ٹانگ تڑوا بیٹھیں اور پھر بد قسمتی کا رونا روئیں!میں اِن بزرگوار کی باتوں سے اتفاق تو کرتا ہوں مگر بہرحال مقدر کا بھی قائل ہوں، اِس دنیا میں ایسے ایسے لوگوں کے بھاگ جاگتے ہیں جو سار ا سارا دن سوئے رہتے ہیں اور ایسے ایسے انسان یہاں خوار ہوئے پھرتے ہیں جو محنتی بھی ہیں اور دیانت دار بھی،حالانکہ فی زمانہ یہ دونوں خصوصیات ایک ساتھ ملنی مشکل ہیں۔خیر،یہ ایک علیحدہ بحث ہے اور میرا اِس بحث کو چھیڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔میرا مدعا کچھ اور ہے۔
انسانوں کی طرح قوموں کے پاس بھی یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ درست فیصلے کریں یا پھر جذباتیت کی رو میں بہہ کر حماقت آمیز فیصلوں کا انبار لگاتے رہیں۔ہمارے جیسے ملکوں میں تو خیرعوا م کا اختیار زیادہ تر سلب ہی کیا جاتارہا ہے،لیکن بہرحال جو بھی اختیار عوام کے نام پر آج تک استعمال کیا گیا ہے اُس کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے،دہرانے کی ضرورت نہیں۔کچھ سوالات البتہ خود سے پوچھے جا سکتے ہیں۔مثلاً 1958میں ملک میں پہلا مارشل لا لگا،بزرگوں سے سناہے کہ مزاحمت تو دور کی بات ملک کے طول و عرض میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی تھی، کامل گیارہ برس تک عالی مرتبت ایوب خان اِس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے، ’زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیے‘ مگر خیال رہے کہ رخصت ہوتے وقت آنجناب ملک توڑنے کی بنیاد رکھ گئے۔آج اگر کسی بین الاقوامی آڈٹ فرم کو کہا جائے کہ وہ اِن گیارہ برسوں میں ملک کو پہنچنے والا نقصانات کا تخمینہ ڈالروں کی شکل میں لگائے تو آپ کے خیال میں یہ رقم کتنے ارب ڈالر بنے گی؟
اسی سوال کو دوسرے انداز میں ڈھال کر دیکھتے ہیں۔ اگر آج کی تاریخ میں پوچھا جائے کہ آپ ایوب خان یا فاطمہ جناح میں سے کس کو ووٹ دیں گے یا کیا آپ ایوب خان کی اُن اقتصادی پالیسیوں کی حمایت کریں گے جو بعد ازاں ملک ٹوٹنے کا باعث بنیں، تو آپ کا فیصلہ کیا ہوگا؟ یہ فیصلہ یا انتخاب ہی ملک کی خوش قسمتی یا بد بختی کا تعین کرے گا۔اسی طرح تاریخ کا پہیہ گھما کر اگرآج پوچھا جائے کہ کیا ہم شیخ مجیب الرحمن کے سات نکات مان کر اسے وفاق پاکستان میں شامل رکھنے پر ترجیح دیں گے یا مشرقی پاکستان پر چڑھائی کرنے کی راہ منتخب کرکے ملک تڑوا بیٹھیں گے تو ہمارا جواب واضح ہوگاکہ آج ہم شیخ مجیب کے سات نکات مان کر ملک بچا لیں گے،یاد رہے کہ وہ سات نکات پر مذاکرات کے لیے تیار تھا اور اُس سے دفاع اور کرنسی کے معاملات پر رعایت لی جا سکتی تھی۔اسی سوال کو دوسرے انداز میں دیکھتے ہیں۔اگر جنرل یحییٰ خان کے مختصر دور کا تجزیہ سود و زیاں (Cost-Benefit analysis) کیا جائے تو اُن فیصلوں کا ہرجانہ کتنے ارب ڈالر ہوگا جو اُس مرد آہن نے1969سے 1971درمیان کیے،نیز کیا بڑے سے بڑا جرمانہ بھی ملک توڑنے کے جرم کی تلافی کر سکتا ہے؟
دس روز پہلے 5جولائی گزرا۔تیسرے مارشل لا کی سالگرہ۔اِس مرد زرہ پوش نے بھی حسب روایت قوم کی تقدیر کے فیصلے کیے۔ لکھ لکھ کرقلم گھس چکا ہے سو دہرانے کا فائدہ نہیں۔ آج اگر عوام سے پوچھا جائے کہ وہی جنرل ضیا الحق صاحب ایک مرتبہ پھر ملک میں نظام مصطفی برپا کرنا چاہتے ہیں،ویسے ہی ایک مقبول لیڈر کو پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں،اسی طرح ہمسایہ ملک میں جہاد کے لیے نوجوان نسل کو ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں،کلاشنکوف اور ہیروئین سے ہماری تربیت کرنا چاہتے ہیں،فرقہ واریت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں اور ملک کی سب سے پاپولر جماعت کے کارکنوں کو کوڑے لگاکر قابو میں رکھنا چاہتے ہیں تو کیا آج کوئی با شعور شخص ان کی حمایت کرے گا؟ ظاہر ہے کہ آپ کا چونکہ جمہوریت پسند اور بالغ نظر ہیں تو آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔مگر یہ جواب آج کی تاریخ میں دینا آسان ہے، آج ہمیں تاریخ کو ریوائنڈ کرکے دیکھنے کی سہولت موجود ہے،آج ہم اِن فیصلو ں پر اطمینا ن سے تبرّا بھیج سکتے ہیں۔ لیکن 1977سے 1988تک جب یہ تمام فیصلے لیے جا رہے تھے اُس وقت قوم کے ایک بڑے طبقے کو اِس کی سنگینی کا ادراک نہیں ہوا۔ بالکل اسی طرح جیسے آج ملک کے ایک بڑے طبقے کے دیدے پٹم ہیں اور انہیں اپنے بارے میں یقین ہے کہ وہ ملک سے محبت کا تقاضا نبھاتے ہوئے کرپشن کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔فرض کریں کہ دنیا میں ایک ایسی عالمی عدالت انصاف وجود میں آ جائے جہاں کسی بھی ملک کے عوام اپنے حکمرانوں کے دور حکومت کی پڑتال کر وا سکتے ہوں تو ایسی صورت میں 1977سے 1988کے دور کی پڑتال کا کیا نتیجہ نکلے گااور ایسی عدالت ضیا الحق کو ملک و قوم کا نقصان پہنچانے پر کتنے ارب ڈالر کا جرمانہ کرے گی، ہے کوئی کیلکولیٹر جو اِس کا حساب نکال سکے؟ جی ہاں، اب یہ سوال ضرور کیا جائے گا کہ اِن مثالوں میں جمہوری ادوار کیوں گول کر دیئے، کیا جمہوری حکمران دودھ کے دھلے تھے؟ بالکل نہیں۔ جمہوری حکمران بیچارے جیسے بھی لُنجے تھے، اُن کا بولو رام تو عوام انتخابات میں ہی کردیتے ہیں، مسئلہ تو اُن کا ہے جنہیں گھر بھیجنے کو کوئی طریقہ ہی آئین میں درج نہیں۔
آج ہم جہاں کھڑے اپنی قسمت کو رو رہے ہیں وہاں ایک دن میں نہیں پہنچے،یہ اُن فیصلوں کا نتیجہ ہے جو گزشتہ تہتر برسوں میں ہمارے حکمرانوں نے کیے،عوام نے جن کی مزاحمت نہیں کی اور غلط راستوں کا انتخاب کرکے خود کو منزل سے دورکر لیا۔قومیں اور انسان غلطیاں کرتے ہیں مگر غلطیو ں سے سیکھ کر اپنی اصلاح بھی کرتے ہیں۔ کوئی بھی قوم منحوس یا خوش بخت نہیں ہوتی،قوموں کے فیصلے انہیں ترقی یا تنزلی کی راہ پر ڈالتے ہیں۔جس طرح ایک انسان عقل و دانش کی بنیاد پر درست فیصلوں کے تسلسل کے ساتھ اپنی زندگی میں خوش قسمتی لا سکتا ہے (چاہے اُس کے ہاتھ میں خوش بختی کی لکیر ہی نہ ہو) بالکل اسی طرح قومیں بھی اجتماعی دانش کو بروئے کار لا کر اپنا مقدر بدل سکتی ہیں۔ یہ اجتماعی دانش جمہوریت سے ہی کشید کی جا سکتی ہے،کوئی دوسرا طریقہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا، آج اگر اِس اجتماعی دانش پر ڈاکہ ڈالا جاتاہے تو اِس سے بڑی کرپشن کوئی نہیں، فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ کرپشن کی یہ قسم گوارا کرنی ہے یا اپنے مقدر کو کوستے رہنا ہے!
خیر ہو,خوش رہیں ,سلامت رہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صبح بخیر
*~*Admin *~*
آپکی آرا اورتبصرے کی ضرورت ہے ، اگرلکھی ہوئی بات دل کو لگتی ہےتو اسے شیئرضرور کریں مذید تحایر کیلئے درج ذیل گروپس میں شامل ھو جاہیں اور پیج ضرور لائق کریں
✔ Visit our page ✔ join our Groups✔Like ✔ Comment ✔ Tag ✔ Share
*~*Reader's Club*~*
https://mbasic.facebook.com/groups/457229034358720?refid=27
www.facebook.com/­urdumazapoint

15/07/2025

ازدواجی زندگئ بھی عجیب ہے ۔۔محبت سےگُندھےاس رشتے کی وقت گزرنے کے ساتھ خوبصورتی بتدریج عجیب مدوجزر کا شکار ہو جاتی ہے ۔۔ایک دوسرے سے لڑ لڑ کے بوڑھے ہو جاتے ہیں ۔۔جوانی کا خمار بڑھاپے کے اندھیروں میں جب اترتا ہے تب ایک دوسرے کی قدر کا احساس ہوتا ہے
جب ایک دوسرے کا دکھ سمجھنے والا کوئی دوسرا نھی رہتا پھر جیون ساتھی ہی سہارے کی لاٹھی نظر آتاہے اور جوانی کے وہ گزرے پل پچھتاوے بن کے ڈسنے لگتے ہیں اور سوچیں ہی رہ جاتی ہیں کہ کتنے حسین پل تھے جو ہم نے نفرتوں کی نظر کر دیے۔۔
آنے والے لمحوں پہ پچھتانے سے بھترہے جو وقت پاس ہے ہماری گرفت میں ہے انھیں خوبصورت بنا کے آنے والے وقت کے لیے حسین یادیں بنائیں۔۔
خوش رہے خوشیاں بانٹیں
جئے اور جینے دیں۔۔❤️

15/07/2025

یقین کیجیے کہ آج شاید ہم اتنی برکت سے عاری اس لیے ہیں اور شاید اپنی تمام تر غربت کے باوجود، صحابہؓ اتنے بابرکت اس لیے تھے کیونکہ ان کی ساری کی ساری عقل اور سارے کا سارا علم، دو حدوں پر جا کر ختم ہو جاتا تھا۔
ایک تو اُن کا وہ جملہ جو شروع ہی عشق سے ہوتا تھا کہ اللہ کے رسولؐ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، اور پھر اُن کی بات جس جملے پر ختم ہوتی تھی کہ اللہ اور اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں....
یہی وہ جملہ ہے جس نے صحرا کے ان پڑھ بدؤں کو صحابہ کرامؓ بنا دیا۔
اگر یہ جملہ کہنے کی صلاحیت نہ ہو، انسان کے اندر اتنی تپش نہ ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات کو آدھے گھنٹے کے لیے، ایک گھنٹے کے لیے، دو دن کے لیے، دس دن، دس سال کے لیے اپنے اندر رکھ سکے تو پھر وہی مزاج ہوتا ہے جو ہماری آج کی نسل کا ہو رہا ہے کہ ہمارے پاس معلومات تو اس قدر زیادہ ہیں (گوگل پر اس قدر معلومات ہیں جو ایک طبعی زندگی میں پڑھنا ناممکن ہیں) لیکن اس کے باوجود عقل و دانش زوال پذیر ہے کیونکہ ہم معلومات کو صبر کے ساتھ اپنے اندر رکھ کر اس پر غور و خوض کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں اور اسی صبر کی غیر موجودگی نے ہمیں ناشکرا بنا دیا ہے۔
صحابہؓ کے اندر بھی یہی جذبات تھے جو آج ہم اپنے اندر رکھتے ہیں
آپ تمام لوگ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک بھی کوئی ایسا سوال نہیں کر سکتے، جہاں کسی صحابیؓ کی روایت کو روایت نہ کیا جا سکے۔
کسی صحابیؓ نے پوچھا ’’ یا رسول اللہ ﷺ! اگر تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے مقدر میں لکھ دیں تو پھر ہم گھر سے کیوں نکلیں؟‘‘
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ’’اللہ نے تمھارے مقدر میں کچھ لکھا ہے تو یہ بھی لکھا ہے کہ تمھیں کون کون سی تو فیق دینی ہے، کون کون سے ذرائع دینے ہیں، کن لوگوں کے دل تمھارے لیے نرم، اور کن لوگوں کے دل تمھارے لیے سخت کرنے ہیں، اور یہ بھی کہ تم گھر سے کن اسباب اور وسائل کے ساتھ نکلو گے اور اس مقدر تک کیسے پہنچو گے‘‘
اب اس جواب سے اس صحابیؓ کی تو دلچسپی ختم ہو گئی، لیکن آج کے زمانے میں ہماری دلچسپی کو معاملات نے مزید آگے بڑھا دیا ہے۔
تاریخ میں ایک بہت بڑے استادِ محترم، بایزید بسطامی رحمتہ اﷲ علیہ گزرے ہیں۔ آپؒ ایک جگہ نماز پڑھنے گئے، نماز سے فارغ ہو کر امام صاحب نے ان سے دعا سلام کی اور پوچھا’’بایزید رحمتہ اﷲ علیہ آپ یہاں کہاں رہ رہے ہیں؟ ‘‘
فرمایا’’ یہاں ہوں، ابھی مسجد میں آیا ہوں، پھر سفر کر کے آگے نکل جاؤں گا۔‘‘
امام صاحب نے پوچھا ’’ آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
بایزید رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا’’ ایک منٹ ذرا ٹھہرو، تمھارے پیچھے جو نماز پڑھی ہے، وہ باطل ہے، میں دوبارہ نماز ادا کروں گا‘‘
اب امام صاحب کو بڑی تکلیف ہوئی کہ میرے پیچھے پڑھی جانے والی نماز باطل کیسے ہو گئی؟

بایزید رحمتہ اﷲ علیہ نے کہا ’’ میں اس امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا چاہتا جو یہ نہ جانتا ہو کہ معاش تو اللہ کی ذمہ داری ہے، انسان کی نہیں....‘‘
تو یہ جو نفاست کی بھی نفاست ہے، وہ عقل سے نہیں، تقویٰ سے نکلی ہے۔
پھر شفیق بلخی تھے جو ایک بہت امیر آدمی تھے اور اتنے امیر اور نفیس کہ اپنی خوشبو سے پہچانے جاتے تھے۔ ایک بار قحط کا زمانہ تھا، یہ بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا ایک کالا حبشی غلام بازار میں ناچ رہا ہے۔ آپ کو بڑا بُرا لگا کہ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور یہ شخص اس طرح ناچ گا رہا ہے۔ اسے پاس بلایا اور کہا ’’سارا شہر قحط کی حالت میں ہے اور تو گلیوں میں ناچتا پھر رہا ہے؟‘‘
اس نے کہا’’ بات ہی ایسی ہے، سارا شہر تو بھوک سے مر رہا ہے لیکن مجھے کیا فکر؟ میں تو جس آقا کا غلام ہوں، اُس کے پاس بہت زیادہ اناج پڑا ہوا ہے، وہ مجھے بھوک سے مرنے نہیں دے گا......‘‘
یہ وہ لمحہ تھا جس نے بلخی کو ایک فقیرسے ایک امام بنا دیا۔
اس نے سوچا ایک حبشی غلام کو اپنے آقا پر اس قدر مان، اس قدر یقین ہے کہ اس کا امیرمالک اسے بھوکا نہیں مرنے دے گا میرا مالک تو اس کے مالک سے کہیں زیادہ، سب سے زیادہ بڑا ہے، بلخی! تُو پھر کس لیے آگے کی فکر کے لیے مال جمع کرتا ہے؟‘‘
ایسی سوچ جو اللہ پر ہمارا گمان یقین اعتماد کاملیت بڑھادے ،ہے ہم میں ؟ یہ ہوگا تو انسان سکھی تہنا سیکھ لے گا ۔عقل و دانش زوال پذیرہونے سے رک جائے گی۔

15/07/2025

‏تحفہ صرف چیزوں کی صورت دیدہ زیب ڈبوں یا لفافوں میں پیک کرکے ہی نہیں دیا جاتا بلکہ آپکے وہ الفاظ بھی تحفہ ہوتے ہیں جو دوسروں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں.

15/07/2025

آج سے ٹھیک سو سال پہلے 1922 میں ایک برطانوی رائٹر نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ دوبارہ جب کیلنڈر پر بائیس کا ہندسہ آئے گا تو یقیناً نہ اپ ہونگے نہ میں ہوں گا"
پھر مزید لکھا کاش عمر اتنا لحاظ رکھ لے کہ میں دوبارہ یہ ہندسہ دیکھ سکوں
ان لوگوں کو دیکھ سکوں جو 2022 میں ہونگے اس زمانے کو دیکھ سکوں
جو 2022 میں ہوگا مگر میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں ہے تب ہماری خبریں گمنام ہو چکی ہوں گی "

ساحر لدھیانوی جب بستر مرگ پر تھے ، تو بند آنکھوں اپنے ڈاکٹر سے کہا "ڈاکٹر کپور میں جینا چاہتا ہوں"
زندگی نے بیشک غم دیئے ہیں مگر دنیا خوبصورت جگہ ہے"

یہاں یاروں کی محفلیں ہیں" یہاں زندگی کا شور ہے" میں جینا چاہتا ہوں ڈاکٹر کپور"

22 کا ہندسہ جب سو سال بعد 2122 میں دوبارہ آئیگا " تو دوستوں یقیناً ہم میں سے کوئی بھی نہیں ہوگا"
ہماری قبریں قبرستانوں کے گنجان حصوں میں گم ہوچکی ہونگی، کچھ دھنسی ہوئی، کچھ اٹی ہوئی ، دبی ہوئی،

"لہٰذا کوشش کریں کہ یہ مختصر سا قیام خوشگوار گزر جائے"
کوئی روح کوئی جسم، ایسا نہ ہو جو زخم ساتھ لے کر جائے"

اور ان زخموں کا الزام ہمارے سر ہو"

Address

Islamabad

Website

https://www.youtube.com/@TheLiterature_Circle

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when 𝗹𝗶𝘁𝗲𝗿𝗮𝘁𝘂𝗿𝗲 𝗖𝗶𝗿𝗰𝗹𝗲 posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share