Global Pulse

Global Pulse Stay updated with the latest news, upcoming events, and sharp opinions on global politics, sports, and entertainment.

Join the Global Pulse for what's happening.

وادی تیراہ میں پاک فوج کے آپریشن نے دہشتگرد نہیں، معصوم عوام کو نشانہ بنایا ہے۔ بچوں کی لاشیں، ماؤں کی سسکیاں اور اجڑے ہ...
22/09/2025

وادی تیراہ میں پاک فوج کے آپریشن نے دہشتگرد نہیں، معصوم عوام کو نشانہ بنایا ہے۔ بچوں کی لاشیں، ماؤں کی سسکیاں اور اجڑے ہوئے گھر یہ بتا رہے ہیں کہ "دہشتگردی" کے نام پر اصل وار عوام پر ہو رہا ہے۔
فوجی قیادت کو جواب دینا ہوگا کہ یہ ظلم کس کے حکم پر ہو رہا ہے؟ کیا عوام ہی دشمن ہیں؟ کیا قبائل کی وفاداری ہمیشہ شک کے ترازو میں تولی جائے گی؟
وزیراعلیٰ کے پی صاحب! آپ کی خاموشی اس قتلِ عام میں شراکت داری ہے۔ آپ نے اپنی کرسی بچا لی، مگر عوام کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا۔
یہ سوال تاریخ پوچھے گی
یہ جنگ دہشتگردوں کے خلاف تھی یا اپنی ہی عوام کے خلاف؟





پاکستان کرکٹ کی حالت آج سب کے سامنے ہے۔ شکست پر شکست، اور ذلت پر ذلت۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ذمہ دار کون ہے؟ کیا صرف کھل...
21/09/2025

پاکستان کرکٹ کی حالت آج سب کے سامنے ہے۔ شکست پر شکست، اور ذلت پر ذلت۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ذمہ دار کون ہے؟ کیا صرف کھلاڑی؟ ہرگز نہیں۔ کھلاڑی میدان میں اپنی جان مار رہے ہیں، لیکن اوپر بیٹھے نااہل منتظمین اور سیاسی چیئرمین اپنی کرپشن، اقرباء پروری اور ذاتی پسند ناپسند سے پاکستان کرکٹ کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔
پی سی بی میں میرٹ کا کوئی تصور نہیں۔ چیئرمین کس میرٹ پر لگا ہے؟ کیا کبھی عوام کو بتایا گیا کہ اس کے پاس کرکٹ کا کون سا تجربہ ہے؟ یا یہ صرف سیاسی تعلقات اور طاقت کی بنیاد پر کرسی پر بٹھایا گیا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب پوری قوم مانگتی ہے۔
سب سے بڑی ناانصافی یہ ہے کہ پاکستان کا نمبر ون بیٹسمین، پوری دنیا میں ریکارڈز بنانے والا بابر اعظم، آج اسکواڈ میں نہیں ہے۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ بورڈ کے چند "چہیتوں" کو خوش نہیں کرتا، اور نہ ہی وہ اقرباء پروری کے کھیل کا حصہ ہے۔ اس کی کارکردگی اور کلاس پر کوئی شک نہیں، لیکن اس کو ٹیم سے باہر رکھ کر ایک پیغام دیا جا رہا ہے کہ یہاں اصل کرکٹ نہیں، بلکہ ذاتی پسند ناپسند ہی سب کچھ ہے۔
بابر اعظم کو اسکواڈ سے باہر رکھنا پاکستان کرکٹ کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی ہے۔ یہ صرف ایک کھلاڑی کو نہیں، بلکہ پوری قوم کو سزا دینے کے مترادف ہے۔ دنیا بھر میں ہماری ساکھ تباہ ہو رہی ہے اور ہم خود اپنے بہترین ہتھیار کو باہر کر کے دشمنوں کو خوش کر رہے ہیں۔
پی سی بی میں اقرباء پروری، دوست نوازی اور کرپشن نے اس کھیل کو برباد کر دیا ہے۔ کوچز اور منیجرز میرٹ پر نہیں بلکہ تعلقات پر لگائے جا رہے ہیں۔ جب فیصلے سفارش پر ہوں گے تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ ٹیم ڈوبتی رہے گی اور عوام شرمندگی اٹھاتے رہیں گے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ قوم کھڑی ہو اور ان سے حساب مانگے
چیئرمین بتائے وہ کس میرٹ پر بیٹھا ہے؟
بابر اعظم کو اسکواڈ سے کیوں باہر کیا گیا؟
بورڈ میں بیٹھے نااہل اور کرپٹ لوگوں کو فارغ کر کے، حقیقی پروفیشنلز کو آگے لایا جائے۔
پاکستان کرکٹ کو بچانے کے لیے سب سے پہلے پی سی بی کو صاف کرنا ضروری ہے۔ ورنہ ہر بار قربانی کے بکرے کھلاڑی ہی بنتے رہیں گے، اور اصل مجرم بچ نکلیں گے۔





پاکستان کا اصل المیہ یہی ہے کہ یہاں ہر ادارہ اہل لوگوں کے بجائے سیاسی پنشنرز کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ 😡اب ذرا تماشہ دیکھ...
21/09/2025

پاکستان کا اصل المیہ یہی ہے کہ یہاں ہر ادارہ اہل لوگوں کے بجائے سیاسی پنشنرز کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ 😡
اب ذرا تماشہ دیکھیں: پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن کا چیئرمین بنایا گیا ایک ایسے بڈھے سیاستدان کو، جسے کرسی سے اٹھنے کے لیے بھی شاید کسی کی مدد چاہیے ہو۔

کیا یہ مذاق نہیں؟ جن کے اپنے جسم میں جان باقی نہیں، وہ نوجوان کھلاڑیوں کو "مسلس اور فٹنس" کا کیا درس دیں گے؟ باڈی بلڈنگ تو جوانی، محنت اور پسینے کا کھیل ہے — لیکن یہاں فیصلے بڑھاپے، سفارش اور سیاست کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔

اصل قصوروار صرف یہ بڈھے سیاستدان نہیں، بلکہ وہ حکمران ہیں جو ہر ادارے کو اپنی سیاسی لاٹھی سے ہانکنے لگے ہیں۔ ملک کے سربراہان کے لیے کھیل، تعلیم، صحت سب محض مذاق ہیں۔ کرسی بچانے کے لیے ہر ناکارہ، ہر ریٹائر اور ہر چاپلوس کو عہدے بانٹ دیے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ جس ادارے کو دیکھیں تباہی اور بدنامی کے دہانے پر ہے۔

کیا یہی وجہ نہیں کہ دنیا بھر میں کھیلوں کے میدانوں میں پاکستان کا نام ڈوب چکا ہے؟ کرکٹ ہو یا ہاکی، اولمپکس ہو یا باڈی بلڈنگ — ہم ہمیشہ سفارش زدہ نظام کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ نوجوان پسینہ بہائیں، رات دن محنت کریں، لیکن ان پر حکمرانی کریں گے وہ لوگ جنہیں شاید "ڈمبل" اور "ڈبل روٹی" میں بھی فرق نہ پتا ہو۔

ملک کے سربراہان کو شرم آنی چاہیے کہ وہ پاکستان کے نوجوانوں کا مستقبل ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں جن کے اپنے دن گزر چکے ہیں۔ لیکن افسوس، یہاں سب کچھ صرف سیاسی رشوت اور ذاتی تعلقات کے ذریعے چل رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان ترقی نہیں کرتا، کیونکہ یہاں میرٹ مر جاتا ہے اور میراث دار زندہ باد ہو جاتا ہے۔







ضیاء الحق کے دور میں ہیروئن اسکینڈل – ایک سیاہ باب1977ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ ال...
06/09/2025

ضیاء الحق کے دور میں ہیروئن اسکینڈل – ایک سیاہ باب

1977ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا اور مارشل لا نافذ کیا۔ ضیاء نے وعدہ کیا کہ پاکستان کو کرپشن سے پاک کر کے ’’نظامِ مصطفیٰ‘‘ نافذ کریں گے۔ ان کی شخصیت کو دیندار اور پارسا کے طور پر پیش کیا گیا۔

لیکن 1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد حالات یکسر بدل گئے۔ پاکستان امریکا اور مغرب کا فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا۔ امریکا اور سعودی عرب نے اربوں ڈالر کی امداد، اسلحہ اور خفیہ فنڈز ضیاء کے حوالے کیے تاکہ افغان مجاہدین کی مدد کی جا سکے۔

اسی دوران پاکستان میں ہیروئن کی وبا پھوٹ پڑی۔

ہیروئن کا عروج

افغان کسان صدیوں سے پوست اگاتے رہے تھے، مگر جنگ کے دوران یہ فصل ایک منافع بخش صنعت بن گئی۔ لاکھوں افغان مہاجرین کے ساتھ پوست بھی پاکستان آیا۔ خیبر ایجنسی، باجوڑ اور بلوچستان میں چھوٹے چھوٹے لیب بنے جہاں پوست کو ہیروئن میں بدلا جاتا۔

یہ ہیروئن کراچی کی بندرگاہ، گوادر اور دیگر راستوں سے دنیا بھر میں اسمگل ہونے لگی۔

ضیاء الحق کی حکومت

ضیاء نے کبھی کھل کر اس موضوع پر بات نہیں کی، لیکن غیر ملکی رپورٹس میں ان کی حکومت پر الزام لگتا رہا کہ انہوں نے اس دھندے کو نظر انداز کیا تاکہ افغان جہاد کی فنڈنگ ہو سکے۔

آئی ایس آئی اور فوجی افسران

غیر ملکی صحافیوں اور بعض تحقیقات میں الزام لگایا گیا کہ آئی ایس آئی کے کچھ اہلکار اور فوجی افسران ہیروئن کی اسمگلنگ سے چشم پوشی کرتے تھے۔
بعض رپورٹس میں یہاں تک کہا گیا کہ اسلحہ لے جانے والے ٹرک واپسی پر ہیروئن سے بھرے آتے تھے۔

سی آئی اے (CIA)

امریکی صحافیوں کے مطابق سی آئی اے سب جانتی تھی مگر جان بوجھ کر آنکھیں بند کیں کیونکہ منافع کا بڑا حصہ افغان مجاہدین کی جنگ پر خرچ ہو رہا تھا۔
مقامی وڈیروں اور سیاستدانوں کے نام
80ء کی دہائی میں کئی بڑے وڈیرے اور قبائلی سردار ہیروئن کے نیٹ ورک سے منسلک سمجھے جاتے تھے۔
اجمل خٹک (اُس وقت قومی عوامی پارٹی سے وابستہ) پر غیر ملکی میڈیا نے روابط کا ذکر کیا۔
بلوچستان اور خیبر ایجنسی کے کئی قبائلی سردار جیسے حاجی ایوب آفریدی (جسے بعد میں ’’ہیروئن کنگ‘‘ کہا گیا) پر براہِ راست الزامات لگے کہ وہ اسمگلنگ نیٹ ورک کا حصہ تھا اور ریاستی ادارے اسے تحفظ دیتے تھے۔

بیرونی اخبارات میں ذکر

نیویارک ٹائمز (1980s) نے لکھا کہ پاکستان ہیروئن پروڈکشن کا مرکز بن رہا ہے اور ’’اعلیٰ عہدے داران‘‘ ملوث ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ اور لی موندے نے واضح طور پر لکھا کہ پاکستانی افسران اور افغان کمانڈرز ہیروئن کے منافع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ہیروئن کا پاکستان پر قہر

1979ء سے پہلے پاکستان میں ہیروئن کا نام بھی نہ تھا۔ لیکن 1985ء تک پاکستان میں 15 لاکھ سے زائد افراد ہیروئن کے عادی ہو چکے تھے۔

لاہور میں پارکوں اور اسٹیشنوں پر نوجوان نشے میں پڑے ملتے۔
کراچی میں بس اڈے اور فٹ پاتھ نشئیوں کے اڈے بن گئے۔
پشاور میں افغان مہاجرین چھوٹے پیکٹ بیچتے تاکہ پیٹ پال سکیں۔

ڈاکٹر چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ یہ نسل برباد ہو رہی ہے، مگر حکومت ’’اسلامی سزاؤں‘‘ کے ڈرامے میں لگی رہی۔ بیئر پینے والے کو کوڑوں کی سزا ملتی مگر ہیروئن مافیا کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔

بین الاقوامی دباؤ

امریکی کانگریس میں یہ سوال اٹھنے لگا:
“ہم اربوں ڈالر ایک ایسی حکومت کو کیوں دے رہے ہیں جو دنیا کو ہیروئن سپلائی کر رہی ہے؟”

مگر سوویت یونین کو شکست دینا زیادہ اہم تھا۔ امریکا نے سب کچھ نظر انداز کر دیا۔

ضیاء کا انجام

17 اگست 1988 کو بہاولپور کے قریب سی-130 طیارہ گر کر تباہ ہوا۔ جنرل ضیاء، امریکی سفیر اور کئی جنرل مارے گئے۔ وجہ آج تک راز ہے۔

لیکن ضیاء کے جانے کے بعد بھی ہیروئن کا نیٹ ورک ختم نہ ہوا۔ یہ اتنا مضبوط ہو چکا تھا کہ بعد میں سیاست، کاروبار اور مافیا سب اس سے جڑ گئے۔

پاکستان دنیا کے بڑے ہیروئن صارف ملکوں میں شامل ہو گیا۔
کلاشنکوف کلچر پھیلا، جرائم اور دہشت گردی کو فروغ ملا۔
کئی سیاستدان اور طاقتور شخصیات اس دولت سے سیاست میں داخل ہوئیں۔
آج بھی حاجی ایوب آفریدی جیسے نام پاکستان کی تاریخ میں ہیروئن کنگ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

ضیاء الحق نے ’’اسلامائزیشن‘‘ کا دعویٰ کیا، مگر حقیقت میں پاکستان ’’ہیروئنائزیشن‘‘ کی لپیٹ میں آ گیا۔
ایک صحافی نے برسوں بعد لکھا:
“ضیاء نے قوم سے اسلام کا وعدہ کیا تھا، مگر تحفہ دیا ہیروئن، اسلحہ اور انتہا پسندی کا۔”










13/08/2025

کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ ایک تلخ حقیقت

ہر سال 14 اگست کو سبز جھنڈا بلند ہوتا ہے، قومی ترانے کی گونج سنائی دیتی ہے، اور ہم آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ایمانداری سے اپنے دل سے سوال کریں تو ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟
آزادی کا مطلب صرف ایک الگ ریاست کا حصول نہیں بلکہ ایسا معاشرہ ہے جہاں ہر شہری بلا خوف اپنی رائے دے سکے، انصاف سب کے لیے برابر ہو، اور بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہوں۔ مگر آج، 2025 میں، ہمارے حالات اس تصور سے بہت دور ہیں۔

اظہارِ رائے پر قدغن
ملک میں سچ بولنا خطرناک کھیل بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ یا تنقیدی تبصرہ آپ کو جیل پہنچا سکتا ہے۔ حالیہ ترامیم (PECA قانون) نے "غلط معلومات" کی مبہم تعریف کے تحت 33 ماہ قید اور بھاری جرمانوں کی اجازت دے دی ہے۔ اس قانون کا اصل نشانہ وہ آوازیں ہیں جو طاقتور طبقے سے سوال کرتی ہیں۔

میڈیا کا گلا گھونٹنا
ٹی وی چینلز کو دباؤ کے ذریعے خاموش کرایا جاتا ہے، اور جولائی 2025 میں 27 یوٹیوب چینلز بند کر دیے گئے کیونکہ وہ "ریاست مخالف" بیانیہ پیش کر رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سچ اتنا ہی کمزور ہے کہ ایک یوٹیوب چینل سے ہل جاتا ہے، تو پھر اس سچ کی حفاظت کون کرے گا؟

سیاسی انتقام اور گرفتاریوں کا سلسلہ

اپوزیشن رہنماؤں اور کارکنوں کو احتجاج یا تنقید کی پاداش میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ چند دن پہلے ہی عمران خان کے حامیوں کے احتجاج پر 200 سے زائد کارکن جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ یہ طرزِ عمل کسی جمہوری ملک میں نہیں بلکہ آمرانہ نظام میں نظر آتا ہے۔

انسانی حقوق کی پامالی

بلوچستان میں مظاہروں کے دوران انسانی حقوق کی کارکن مہ‌رنگ بلوچ کو صرف اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کی آواز بنی تھیں۔ سیکیورٹی کے نام پر تین ہفتے تک موبائل ڈیٹا بند رکھا گیا، جس سے لوگوں کی روزمرہ زندگی مفلوج ہو گئی۔

عدلیہ پر سوالیہ نشان

جب انصاف دینے والا ادارہ خود آزاد نہ ہو تو عام آدمی کس سے امید رکھے؟ مخصوص فیصلوں کے لیے عدلیہ پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، اور بڑے مقدمات میں طاقتور طبقہ ہمیشہ محفوظ رہتا ہے۔

اصل آزادی کا مطلب

ہم نے 1947 میں برصغیر کی غلامی سے نجات حاصل کی، مگر آج بھی ہم فکری، قانونی اور نظامی غلامی میں جکڑے ہیں۔ اصل آزادی تب آئے گی جب:

ہر شخص خوف کے بغیر بول سکے۔

انصاف امیر اور غریب کے لیے یکساں ہو۔

میڈیا ریاست کے بجائے عوام کا ترجمان ہو۔

عوام کے حقوق آئین کے مطابق محفوظ ہوں، نہ کہ کسی طاقتور
کے رحم و کرم پر۔
ہمیں 14 اگست صرف جھنڈا لہرانے کا دن نہیں بلکہ ایک یاد دہانی کے طور پر منانا چاہیے کہ ہمارا مقصد ابھی ادھورا ہے۔ جب تک ہر شہری خود کو آزاد محسوس نہ کرے، تب تک یہ جشن صرف ایک رسمی تقریب رہے گا۔



عنوان: "آخری راستہ"دانش پبلک اسکول اینڈ کالج چوکارا کرک کی وہ صبحیں اب بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ وہی سنہری دھوپ جو پہاڑ...
11/08/2025

عنوان: "آخری راستہ"

دانش پبلک اسکول اینڈ کالج چوکارا کرک کی وہ صبحیں اب بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ وہی سنہری دھوپ جو پہاڑوں کے پیچھے سے جھانک کر گلیوں میں اترتی تھی، وہی سرد ہوا جو اسکول کے راستے میں کانوں سے ٹکراتی تھی، اور سب سے بڑھ کر… وہ۔

ہم دونوں کا محلہ ایک ہی تھا۔ میں چھوٹا تھا، وہ مجھ سے دو سال بڑی۔ روزانہ صبح اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلتی تو میں بھی اپنے بستے کو کندھے پر ڈالے اس کے پیچھے نکل پڑتا۔ ہم کبھی بس یا رکشے سے نہیں جاتے تھے، ہمیشہ پیدل چلتے تھے۔ شاید اس لیے کہ اسکول زیادہ دور نہیں تھا، یا شاید اس لیے کہ میں دل ہی دل میں چاہتا تھا کہ یہ راستہ لمبا ہو جائے، تاکہ میں اسے زیادہ دیر دیکھ سکوں۔

وہ چلتے ہوئے ہمیشہ آگے رہتی، میں پیچھے۔ کبھی کبھار وہ رک کر میرا انتظار کر لیتی، اور پھر مسکرا کر کہتی،
“چلو، دیر ہو رہی ہے۔”
بس اس ایک جملے میں میرے دن کی خوشی چھپی ہوتی۔

اسکول میں ہمارے سیکشن الگ تھے۔ میرا کلاس روم گراؤنڈ فلور پر تھا، اور اس کا سیکشن تھرڈ فلور پر۔ اسکول کا گیٹ پار کرتے ہی میں اسے اوپر جانے والے زینے تک چھوڑتا، پھر وہ مڑ کر “اللہ حافظ” کہتی اور میں بس ایک لمحے کو اسے دیکھتا رہتا۔

وقت گزرتا رہا، اور میں اس کے لیے دل ہی دل میں گہرائی سے کھو گیا۔ میں نے اپنی محبت چھپانے کی کوشش کی، مگر جتنا چھپاتا، اتنا ہی وہ آنکھوں سے ظاہر ہو جاتی۔

پہلی بار میں نے ہمت کر کے نوٹ بک کے ایک صفحے پر لکھا:
"مجھے تم اچھی لگتی ہو، بہت زیادہ…"
پھر وہ کاغذ اس کی کتاب کے بیچ رکھ دیا۔ اگلے دن اس نے کاغذ واپس کر دیا، اور ساتھ ایک مختصر سا جملہ لکھا تھا:
“یہ ٹھیک نہیں… ہم دوست بھی نہیں ہیں۔”

اس ایک جملے نے میرا دل توڑ دیا، مگر میں نے ہار نہیں مانی۔ میں نے کئی بار مختلف طریقوں سے اظہار کیا، کبھی اسکول سے واپسی پر، کبھی راستے میں، کبھی کسی بہانے۔ ہر بار اس کا جواب ایک جیسا ہوتا:
“تم چھوٹے ہو، اور یہ سب فضول ہے۔”

میں سمجھتا تھا کہ وہ مجھ سے بڑی ہے، مگر دل کو منطق کب مانتے ہیں؟ اس کی ہر بات، ہر مسکراہٹ، ہر انداز میرے دل میں نقش تھا۔

سال گزرتے گئے۔ میں نے میٹرک مکمل کر لیا، وہ ایف ایس سی کے آخری سال میں تھی۔ ہم اب بھی اکثر ایک ساتھ اسکول جاتے تھے، مگر درمیان میں خاموشی بڑھ گئی تھی۔ میں جانتا تھا کہ وہ میری محبت کو سنجیدگی سے نہیں لیتی، مگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ جانتی ہے کہ میں اس کے لیے کتنا سچا ہوں۔

پھر ایک دن، میں نے آخری بار ہمت جمع کی۔ اسکول سے واپسی پر ہم دونوں گلی کے نکڑ تک پہنچے تو میں نے کہا:
“دیکھو، میں جانتا ہوں تمہارا جواب شاید پھر وہی ہوگا، مگر میں چاہتا ہوں تم ایک بار دل سے سنو… میں تم سے سچ میں محبت کرتا ہوں، اور یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔”

وہ کچھ لمحے رکی، پھر سنجیدگی سے میری طرف دیکھا۔
“تمہیں میری زندگی میں آنے کا کوئی حق نہیں، اور میں یہ چاہتی بھی نہیں۔ تم اپنا راستہ چُنو، میں اپنا۔”

میں نے بس سر ہلا دیا، اور ہم خاموشی سے چلتے رہے۔

اس کے بعد، ہم نے کبھی ساتھ اسکول نہیں جایا۔ وقت بدلتا رہا، زندگی کے کام بڑھتے گئے، اور میں نے خود کو پڑھائی اور کام میں مصروف کر لیا۔ مگر دل میں وہ خلا ہمیشہ موجود رہا۔

پھر کل رات، ایک پرانے دوست نے میسج بھیجا:
"پتا ہے؟ اس کی شادی طے ہو گئی ہے۔"

میں نے میسج پڑھا، اور چند لمحوں تک اسکرین کو دیکھتا رہا۔ جیسے میرے آس پاس کی ہر چیز خاموش ہو گئی ہو۔ ایک عجیب سا درد تھا، ایسا جو چیخ بھی نہیں نکلنے دیتا۔

آج صبح میں نے خود کو اس گلی میں پایا جس سے ہم اسکول جایا کرتے تھے۔ ہوا میں وہی پرانی خوشبو تھی، مگر ساتھ ایک انجانی ویرانی۔ میں نے قدم آہستہ کر لیے، جیسے یادوں کو پکڑنا چاہ رہا ہوں۔

میں سوچتا رہا، کاش اُس دن اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ہوتا،
"میں تمہیں موقع دوں گی"
کاش ایک بار اس نے مان لیا ہوتا کہ میری محبت سچی تھی۔ مگر زندگی کا قانون کچھ اور ہے — کچھ محبتیں صرف ہماری ہوتی ہیں، دوسروں کی نہیں۔

میں نے آسمان کی طرف دیکھا، ہلکی سی بارش شروع ہو گئی تھی۔ شاید یہ بارش میری آنکھوں کی نمی کو چھپانے آئی تھی۔ میں نے ایک لمبی سانس لی اور آہستہ آہستہ واپس مڑ گیا۔

شاید یہ ہمارا آخری راستہ تھا… اور میں جانتا تھا، اب اس کے بعد کوئی اور راستہ اکٹھا نہیں ہوگا۔

27/07/2025

وادی تیراہ، خیبر پختونخوا کا ایک خوبصورت مگر طویل عرصے سے نظر انداز علاقہ ہے، جہاں کے شہری پہلے ہی دہشت گردی، نقل مکانی، غربت اور ریاستی بے حسی کا شکار ہیں۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق، ریاستی فورسز نے وادی تیراہ کے بے گناہ شہریوں پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی یا شہید ہو گئے۔

یہ واقعہ نہ صرف انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ ریاستی طاقت کے ظالمانہ استعمال کی بدترین مثال بھی ہے۔ عوام کی حفاظت کے لیے قائم کی گئی فورسز اگر انہی عوام پر گولیاں برسانے لگیں تو انصاف، امن اور آئین کا کیا مطلب رہ جاتا ہے

ایسے اقدامات عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد کی دیوار کو مزید کمزور کرتے ہیں۔ عوام سوال کرنے میں حق بجانب ہیں:

کیوں فورسز کو عام شہریوں پر گولی چلانے کا اختیار دیا جاتا ہے؟

کیا ریاست کی رٹ صرف مظلوموں پر چلتی ہے؟

کیا ہمارے علاقوں میں قانون نہیں، صرف بندوق کی زبان بولی جاتی ہے؟

یہ عمل نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اس پر فوری عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے۔ ذمہ دار اہلکاروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ آئندہ ایسے ظلم کی کوئی جرات نہ کر سکے۔

ریاست کو چاہیے کہ وہ طاقت کے استعمال کی بجائے سننے، سمجھنے، اور حل تلاش کرنے کے راستے اپنائے۔ وادی تیراہ کے عوام پاکستانی ہیں، اور انہیں برابر کا تحفظ، عزت اور حقوق ملنے چاہییں۔





The Hypocritical Approach of Donald Trump in the Iran–Israel WarThe Iran–Israel war that erupted in June 2025 has reveal...
16/06/2025

The Hypocritical Approach of Donald Trump in the Iran–Israel War

The Iran–Israel war that erupted in June 2025 has revealed not only military and geopolitical tensions but also glaring contradictions in how global powers respond to conflict. One of the most prominent figures whose stance has drawn scrutiny is former U.S. President Donald Trump. His approach to the war has been described by many analysts and observers as hypocritical—marked by contradictions between rhetoric and action, favoritism, and strategic opportunism.

---

Support for Israel — with Limits

Donald Trump has consistently expressed unwavering support for Israel. In the wake of Iranian missile strikes on Israeli cities, he reaffirmed Israel's right to defend itself, describing the attacks as “acts of aggression that must be answered decisively.” His administration's legacy includes the Abraham Accords, recognition of Jerusalem as Israel’s capital, and greenlighting Israeli sovereignty over the Golan Heights.

Yet, Trump recently vetoed a plan by the Israeli government to assassinate Iran’s Supreme Leader, Ayatollah Ali Khamenei. According to reports from *AP News*, Trump advised restraint, warning that such an operation would lead to uncontrollable escalation. While this decision may appear as an effort to de-escalate the conflict, critics argue it highlights a double standard: the former president had previously authorized the assassination of Iran’s top general, Qasem Soleimani, in 2020.

> Critics ask: Why was killing Soleimani “justified” in 2020, but targeting Khamenei—a higher-level architect of Iranian policy—off-limits in 2025?

---

Trump’s Mixed Message on Diplomacy

Trump’s position reveals another contradiction: while promoting strong military action, he simultaneously calls for diplomacy. His messaging suggests a preference for limited, controlled conflict—enough to assert dominance, but not enough to destabilize the global economy or risk a regional war that could tarnish his foreign policy legacy.

This approach fails to recognize that partial or inconsistent engagement often emboldens both sides. Iran interprets hesitation as weakness, while Israeli hardliners may view U.S. caution as a betrayal of their shared strategic interests.

Selective Outrage and Historical Context

Trump’s approach also reflects a broader hypocrisy in U.S. foreign policy: selective outrage. The Trump administration condemned Iranian missile tests and proxy militia actions while turning a blind eye to Israeli airstrikes on Syrian and Iranian targets, including civilian infrastructure. Furthermore, when Israel bombed the Iranian consulate in Syria—a move that contributed directly to Iran’s 2025 retaliatory missile barrage—the Trump camp remained silent.

This double standard feeds into Iran’s narrative of Western hypocrisy, bolstering anti-American sentiment across the region.

Political Opportunism

Observers have noted that Trump’s recent interventions in the conflict seem designed not just for diplomatic impact, but for domestic political gain. By positioning himself as both a staunch defender of Israel and a voice of “strategic caution,” he seeks to appeal to a broad spectrum of American voters—from evangelical conservatives to war-weary moderates.

In short, Trump’s statements reflect a politician navigating re-election calculations more than a statesman pursuing consistent international policy.

---

Conclusion

Donald Trump’s stance on the Iran–Israel war encapsulates the contradictions of modern power politics. While he champions Israel’s security, he also blocks Israel’s most aggressive plans. While calling for peace, he built his foreign policy legacy on confrontation. These inconsistencies don’t merely undermine U.S. credibility—they contribute to the dangerous ambiguity that fuels escalation in the Middle East.

If the world seeks de-escalation and justice, it will require more than performative statements and selective interventions. It demands clarity, consistency, and the courage to apply international law and diplomacy equally to all sides.







12/03/2025

ریاست و لونڈے لفافے سے سوال ہے کہ یہ BLA، TTP جیسے تنظیم پاکستان میں کیوں بنے ؟ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے شہری علیحدہ پسندی کو کیوں ترجیح دے رہی ہیں ؟ شہری کیوں اس تنظیم کے کاروائیوں سے خوش ہو رہے ہیں ؟ ان سوالوں کے جوابات ریاست نے دیں تو اسی میں حل بھی نظر آئے گا ۔







Address

Islamabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Global Pulse posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Global Pulse:

Share