Hamara Chitral ہمارا چترال

Hamara Chitral ہمارا چترال This is a Platform where we Publish and Gather News and Views in the interest of ChiTral.

اپر چترال یارخون: اوناوچ بالا اور اوناوچ پائن کے درمیان راستہ بند، طلبہ شدید مشکلات کا شکاراپر چترال یارخون میں اوناوچ ب...
15/08/2025

اپر چترال یارخون: اوناوچ بالا اور اوناوچ پائن کے درمیان راستہ بند، طلبہ شدید مشکلات کا شکار

اپر چترال یارخون میں اوناوچ بالا اور اوناوچ پائن کے درمیان مرکزی راستہ بند ہونے سے علاقے کے عوام، بالخصوص اسکول جانے والے بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ راستہ بند ہونے کے باعث طلبہ کو طویل فاصلہ طے کرنا پڑ رہا ہے، جس سے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ مقامی مکینوں نے متعلقہ حکام سے فوری نوٹس لینے اور راستہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

گوپس خلتی: سیلاب سے جاں بحق چار افراد کی تدفین، دو لاپتہ افراد کی تلاش جاریگوپس خلتی میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ گھر کے چا...
15/08/2025

گوپس خلتی: سیلاب سے جاں بحق چار افراد کی تدفین، دو لاپتہ افراد کی تلاش جاری

گوپس خلتی میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ گھر کے چار افراد کی تدفین کا عمل جاری ہے، جب کہ دو افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق ریسکیو ٹیمیں لاپتہ افراد کی تلاش میں مصروف ہیں۔ علاقے میں غم و اندوہ کی فضا قائم ہے۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ — اللہ تعالیٰ باقی خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

مارکس دنیا کا واحد شخص تھا ، جس پر یورپ کے تمام چرچوں اور پادریوں نے کفر کا فتویٰ ٹھوکا۔ مارکس کو یورپ کے تمام یہودی مذہ...
15/08/2025

مارکس دنیا کا واحد شخص تھا ، جس پر یورپ کے تمام چرچوں اور پادریوں نے کفر کا فتویٰ ٹھوکا۔ مارکس کو یورپ کے تمام یہودی مذہبی پیشواؤں نے خارج المذہب قرار دیا۔ پیسوں کے عوض جنت کے ٹکٹ فروخت کرنے والے استحصالی پادریوں نے فتوی دیا کہ جو بھی مارکس کو قتل کرے گا، وہ جنت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا۔

اٹھارویں صدی کے انتہائی قدامت پسند یورپین معاشرے میں اپنے نظریات کی وجہ سے مارکس نے 15 سال ایک چھوٹے سے کمرے میں بند ہو کر گزارے تھے۔

مارکس دنیا کا واحد سٹیٹ لیس شخص تھا کہ جب اسکا انتقال ھوا تو دنیا کا کوئی بھی ملک اس کو اپنانے یا اپنے ہاں دفنانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔

مارکس ایک حقیقت پرست، مادیت پسند، سچا اور عظیم انسان و دنیا کی 1000 سالہ تاریخ کا بااثر ترین فلسفی تھا۔

مارکس دنیا کا واحد فلسفی ہے جس نے سرمایہ دار و جاگیردار طبقے کے ساتھ ساتھ اس پرولتاریہ طبقے پر بھی تنقید کی، جس کے لئے اس نے ساری دنیا کی دشمنی مول لی تھی۔

مارکس کے دو بچے پیسے نہ ہونے اور علاج کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے اس دار فانی سے کوچ فرما گٸے۔ بالآخر ممتا سے مجبور کارل مارکس کی بیوی جینی بھوک سے بلکتے سسکتے بچوں کو دیکھ کر تڑپ اٹھی اور چِلاتے ہوۓ بولی کہ "چھوڑ دو یہ کتابیں، آپ کے بچے مر رھے ھیں۔" جواب میں مارکس نے کہا کہ کوئی بات نہیں، اج اگر میرے دو بچے مرگئے، لیکن میرے لکھنے سے مستقبل میں کروڑوں بچے بھوک اور بیماریوں سے محفوظ رہینگے۔" وقت نے ثابت کیا کہ آنے والے وقتوں میں مارکس کا فلسفہ سوشلزم انسانوں کے لیے واحد امید کی کرن ثابت ہوا۔

مارکس کی شہرہ آفاق کتاب داس کیپیٹل کو بے اثر کرنے کے لئے گزشتہ سو دو سو سالوں میں سامراج نے ریاستوں کے ذریعے دو ہزار سے زائد کتابیں تحریر کروائیں لیکن وہ ساری کتابیں داس کیپیٹل کے سامنے بے روح ھوکر دفن ہوگئی۔

کارل مارکس اور اس کی لکھی گئی کتاب داس کیپیٹل 2020 میں بی بی سی کی طرف سے ہونے والے بین الاقوامی سروے میں پوری دنیا میں اول نمبر پر رہی.

اپر چترال، یارخون — زیر تعمیر پل دریا برد، ناقص انجینئرنگ بے نقابمیراگرام نمبر دو، وادی یارخون میں زیر تعمیر پل کا ایک ح...
15/08/2025

اپر چترال، یارخون — زیر تعمیر پل دریا برد، ناقص انجینئرنگ بے نقاب

میراگرام نمبر دو، وادی یارخون میں زیر تعمیر پل کا ایک حصہ دریا میں گر گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، دریا کی سطح میں اضافے کے ساتھ ہی یہ حصہ زمین بوس ہوگیا۔ مقامی عوام کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ ناقص انجینئرنگ، غیر معیاری تعمیراتی کام اور فنڈز کی مبینہ خرد برد کا نتیجہ ہے۔

عوامی حلقوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپر چترال میں بیشتر ترقیاتی منصوبے اسی طرز پر مکمل کیے جاتے ہیں، جہاں عجلت، کم معیار کے مٹیریل اور غیر شفاف طریقۂ کار کی وجہ سے قیمتی وسائل ضائع ہو رہے ہیں۔ مقامی باشندوں نے متعلقہ حکام سے فوری تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
Suriya Bibi Official
Ali Amin Khan Gandapur

15/08/2025

گزین اور نیچاغ پل کے ٹھیکداران کے لیے سافٹ ریمائینڈر رواں ھفتے متاثرہ پل پر کام کا آغاز ہو جانا چاہیے۔۔۔۔عوام انتہائی مشکل اور ذہنی ازیت سے دوچار ہے۔۔

⚠️ یارخون کا ایمت گاؤں خطرے کی زد میں — دریائی کٹاؤ سے زیرین حصہ دریا برد ہونے کا خدشہیارخون (اسٹاف رپورٹر) — دریائے یار...
14/08/2025

⚠️ یارخون کا ایمت گاؤں خطرے کی زد میں — دریائی کٹاؤ سے زیرین حصہ دریا برد ہونے کا خدشہ

یارخون (اسٹاف رپورٹر) — دریائے یارخون میں طغیانی انتہا کو پہنچ گئی، ایمت گاؤں کے زیرین حصے میں زمینوں کا کٹاؤ تیز ہو گیا۔ مقامی آبادی کو خدشہ ہے کہ اگر یہی رفتار برقرار رہی تو وہ علاقہ، جسے دو سے ڈھائی دہائیاں قبل شجرکاری سے آباد کیا گیا تھا، مکمل طور پر دریا میں بہہ سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق، دس سے بارہ سال قبل ایل ایس او پونار کی نگرانی میں غربت مکاؤ پروگرام کے تحت اے کے آر ایس پی کے تعاون سے دو مضبوط حفاظتی بند تعمیر کیے گئے تھے، مگر اب دریا دو سے تین سو گز اوپر کٹائی کرتے ہوئے ان بندوں کو بائی پاس کر کے گاؤں پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔

ادھر دیوسیر ندی میں شدید سیلاب نے دونیچ گاؤں کے کئی گھروں کو نقصان پہنچایا، خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ گرور گول اور اوھرکن گول میں بھی شدید طغیانی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جبکہ گاؤں پھݰک، ݰیچ، لشدن اور میراگرام نمبر دو دیگر علاقوں سے مکمل طور پر کٹ گئے ہیں

اسلام آباد: صدر پاکستان نے بلاول بھٹو زرداری کو نشانِ امتیاز سے نوازااسلام آباد (نامہ نگار) – صدرِ پاکستان آصف علی زردار...
14/08/2025

اسلام آباد: صدر پاکستان نے بلاول بھٹو زرداری کو نشانِ امتیاز سے نوازا

اسلام آباد (نامہ نگار) – صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور اپنے فرزند، بلاول بھٹو زرداری کو اعلیٰ سول اعزاز نشانِ امتیاز سے نوازا۔

ایوانِ صدر اسلام آباد میں منعقدہ خصوصی تقریب کے دوران بلاول بھٹو زرداری کو یہ اعزاز صدر مملکت آصف علی زرداری کے ہاتھوں دیا گیا۔ اس موقع پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔

بلاول بھٹو زرداری کو یہ اعزاز قومی سطح پر ان کی سیاسی خدمات اور سفارتی کردار کے اعتراف میں دیا گیا۔ وہ ملک کے کم عمر ترین وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں اور قومی و بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مؤقف بھرپور انداز میں پیش کرتے رہے ہیں۔

نشانِ امتیاز پاکستان کا تیسرا بڑا سول ایوارڈ ہے، جو ملک و قوم کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دینے والے افراد کو دیا جاتا ہے۔

یوم آزادی پاکستان کے موقع پر ہمیں اُن عظیم رہنماؤں کو یاد کرنا چاہیے جنہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں اہم کردار ادا ک...
14/08/2025

یوم آزادی پاکستان کے موقع پر ہمیں اُن عظیم رہنماؤں کو یاد کرنا چاہیے جنہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ ان شخصیات میں امام سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کا نام نمایاں مقام رکھتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مذہبی رہنما تھے بلکہ ایک مدبر، مصلح، سیاستدان اور تعلیمی ترقی کے داعی بھی تھے۔ ان کی بصیرت، دانشمندی اور قائدانہ صلاحیتوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی سمت دی اور اُنہیں اپنی جداگانہ شناخت کے لیے منظم ہونے کی راہ دکھائی۔

آغا خان سوم آل انڈیا مسلم لیگ کے اولین سرپرستوں میں شامل تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی۔ 1906 میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو آغا خان اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اُن کی قیادت میں مسلم لیگ نے برطانوی حکومت کے سامنے مسلمانوں کے لیے علیحدہ شناخت اور جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا، جو آگے چل کر پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ ان کا یہ سیاسی فہم اور دور اندیشی آنے والے وقتوں میں مسلمانوں کے لیے ایک مستقل ریاست کی راہ ہموار کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوا۔

آغا خان کا ایک بڑا کارنامہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنا تھا۔ انہیں اس بات کا گہرا احساس تھا کہ برصغیر کے مسلمان تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے علی گڑھ تحریک کی پرزور حمایت کی اور سر سید احمد خان کے مشن کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آغا خان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مستقل سرپرست رہے اور انہوں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف مائل کرنے کے لیے نہ صرف مالی امداد دی بلکہ ذاتی طور پر بھی وقت، علم اور وسائل وقف کیے۔

انہوں نے نہ صرف فنڈز فراہم کیے بلکہ مسلمانوں کو اس ادارے کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا۔ وہ علی گڑھ کو مسلمانوں کا آکسفورڈ بنانا چاہتے تھے۔ ان کا خواب تھا کہ یہاں سے تعلیم یافتہ نوجوان اٹھیں جو مستقبل میں قوم کی رہنمائی کریں۔ ان کی کوششوں سے علی گڑھ کالج نے یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا، جو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی۔ اس ادارے نے بعد میں تحریک پاکستان کے کئی عظیم رہنما پیدا کیے جنہوں نے ملک کے قیام میں فعال کردار ادا کیا۔

امام سلطان محمد شاہ کی تعلیمی خدمات کا دائرہ کار صرف علی گڑھ تک محدود نہیں رہا۔ انہوں نے دیگر تعلیمی اداروں کے قیام اور ترقی میں بھی بھرپور دلچسپی لی۔ ان کے وژن کے مطابق تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ تھا جس کے ذریعے مسلمان اپنے حقوق کا شعور حاصل کر سکتے تھے اور ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکتے تھے۔ انہوں نے اس پیغام کو عام کرنے کے لیے تقریبات، جلسوں اور کانفرنسوں کا سہارا لیا۔

ان کی فلاحی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔ آغا خان نے صحت، تعلیم اور سماجی بہبود کے شعبوں میں بے شمار ادارے قائم کیے۔ ان کی بنیاد رکھی گئی "آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک" آج بھی دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مصروفِ عمل ہے۔ ان کے قائم کردہ اسپتال، اسکول، اور یونیورسٹیاں آج بھی ان کی دور اندیشی اور انسان دوستی کی گواہی دیتے ہیں۔

یومِ آزادی کے موقع پر ہمیں آغا خان سوم کی خدمات کو نہ صرف یاد کرنا چاہیے بلکہ ان سے سبق بھی لینا چاہیے۔ انہوں نے سیاست اور تعلیم دونوں میدانوں میں جس توازن سے کام کیا، وہ آج کے رہنماؤں کے لیے ایک مثال ہے۔ ان کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر نیت خالص ہو اور وژن واضح ہو تو کوئی بھی قوم ترقی کی منازل طے کر سکتی ہے۔

آغا خان سوم نے نہ صرف پاکستان کی نظریاتی بنیاد رکھنے میں کردار ادا کیا بلکہ عملی طور پر مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی اور سیاسی ترقی کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ ان کی یہ خدمات قیامت تک یاد رکھی جائیں گی اور ہر یومِ آزادی پر ہمیں اُن کی قربانیوں اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے رہنا چاہیے۔

پریشان آنکھیں اور گہری سوچ کو دیکھ کر اس تصویر کو عنوان دینا میرے لیے تو مشکل ہو گیااگر آپ کے ذہن میں کوئی عنوان آ رہا ت...
14/08/2025

پریشان آنکھیں اور گہری سوچ کو دیکھ کر اس تصویر کو عنوان دینا میرے لیے تو مشکل ہو گیا
اگر آپ کے ذہن میں کوئی عنوان آ رہا تو آپ عنوان دے سکتے ہیں

یوم آزادی، گلگت بلتستان اور عوام کے مسائلآج 14 اگست کا دن ہے، پاکستان کے قیام کی یاد دلانے والا دن جسے ہم یوم آزادی کے ط...
14/08/2025

یوم آزادی، گلگت بلتستان اور عوام کے مسائل

آج 14 اگست کا دن ہے، پاکستان کے قیام کی یاد دلانے والا دن جسے ہم یوم آزادی کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ دن ہر پاکستانی کے لیے خوشیوں، جشن اور قومی اتحاد کا پیغام لاتا ہے۔ یوم آزادی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ آزادی صرف سرحدوں کی حفاظت نہیں بلکہ ہر شہری کے بنیادی حقوق، انصاف اور مساوات کے تحفظ کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ دن ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہر فرد کی قربانی، جدوجہد اور وطن سے محبت ہی ملک کو زندہ اور پائندہ رکھتی ہے۔ لیکن گلگت بلتستان کے حالات اس دن کی خوشیوں کو دھندلا کر رہے ہیں۔ یہاں عوام نہ صرف قدرتی آفات بلکہ سماجی، معاشی اور انتظامی چیلنجز کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں سامنے آنے والے تین بڑے احتجاجات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ عوام اپنے بنیادی حقوق کے لیے کس قدر آواز بلند کر رہے ہیں اور کس طرح ہر شہری اپنی زندگی کے تحفظ اور انصاف کے حصول کے لیے میدان میں اتر آیا ہے۔ یہ احتجاج محض احتجاج نہیں بلکہ ایک لمبی جدوجہد کی علامت ہیں جو سالوں سے نظرانداز کیے جانے والے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے پولیس اہلکار اپنی یومیہ الاؤنس میں اضافے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، وکلا برادری عدالتی نظام میں انصاف کے حصول کے لیے سڑکوں پر اتر آئی ہے، اور سوست میں پچھلے کئی دنوں سے تاجر برادری ٹیکس پالیسیوں اور سوست ڈرائی پورٹ پر کسٹمز کلیئرنس کے مسئلے کے خلاف احتجاج میں مصروف ہے۔ یہ مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام کی صبر کی حد ختم ہو چکی ہے اور وہ اپنے جائز حقوق کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔ مظاہروں کے پیچھے صرف مالی یا معاشرتی مطالبات نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے نظرانداز کیے جانے کا احساس اور بنیادی حقوق کی فراہمی کی ضرورت چھپی ہوئی ہے۔ عوام یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جب تک ان کے حقوق تسلیم نہیں کیے جاتے وہ خاموش نہیں رہیں گے۔

اسی دوران گلگت بلتستان شدید سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے۔ پانی کے قدرتی راستے تباہ، فصلیں اور درخت برباد، اور پینے کے پانی کی شدید قلت نے مقامی آبادی کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ گوجال میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے جس میں کئی گھر سیلاب کی نظر ہو چکے ہیں اور پورے علاقے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ گوجال اور ہنزہ کے مقامی لوگ اس تباہی کے بعد شدید متاثر ہیں اور بنیادی سہولیات تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔ دنیور میں اس تباہی نے سب سے زیادہ دل دہلا دینے والا واقعہ رقم کیا ہے جہاں اٹھ نوجوان ملبے تلے دب کر شہید ہو گئے۔ یہ نوجوان نہ صرف اپنے علاقے کو بچانے کے لیے سرگرم تھے بلکہ انہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اپنی بستی کی زندگی کی حفاظت کی۔ ان کی قربانی صرف انسانی جذبے کی اعلی مثال نہیں بلکہ حقیقی شہادت کا رتبہ رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے شہداء کے اہل خانہ کے لیے جو فنڈ کباعلان کیا ہے وہ محض فی خاندان صرف آٹھ لاکھ روپے ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ یہ رقم نہ تو ان کی قربانی کے عوض کافی ہے اور نہ ہی عوامی احساسات کی ترجمانی کرتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ شہداء پیکج کے نام پر ہر خاندان کو ایک کروڑ روپے دیا جائے تاکہ ان کی قربانیوں کو مناسب عزت اور مالی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ دنیور کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت علاقے کو بچانے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں، لیکن ان قربانیوں کے باوجود حکومت کی طرف سے مناسب توجہ اور فوری امداد فراہم نہیں کی گئی۔ یہ صورتحال ایک نہایت دردناک منظر پیش کرتی ہے، جو یہ واضح کرتی ہے کہ حقیقی آزادی اور تحفظ کی ضرورت کتنی اہم ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام نے ہمیشہ ملک کی خدمت اور تحفظ کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں، لیکن بدقسمتی سے اکثر ان قربانیوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرے اور گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ مساوی سلوک کرے۔ ان کی قربانیوں کو نظرانداز کرنا نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ عوام کے جذبات اور وطن سے محبت کو بھی کمزور کرتا ہے۔

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے گلگت بلتستان کے لوگ کس طرح یوم آزادی منائیں گے جب ان کے جائز حقوق مسلسل نظرانداز کیے جا رہے ہیں اور ان کے نوجوان شہید ہو چکے ہیں؟ آزادی کا حقیقی مطلب صرف جغرافیائی سرحدوں میں آزادی نہیں بلکہ عوام کے بنیادی حقوق کی ضمانت، انصاف، اور تحفظ بھی ہے۔ اگر حکومت اپنی ذمہ داری بروقت ادا کرے، عوام کے مطالبات کو تسلیم کرے، سیلاب زدگان اور شہداء کے خاندانوں کی فوری مدد کرے تو عوام دل سے آزادی کے دن کو منا سکیں گے۔ حقیقی آزادی وہ ہے جو دلوں میں محسوس کی جائے نہ کہ صرف رسم و رواج میں۔

گلگت بلتستان کہ لوگوں کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے اور یہاں کے لوگ ہر شعبہ ہائے زندگی میں پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں وادی غذر کے شہداء، جنہوں نے اپنی جانیں اس سرزمین کی حفاظت کے لیے قربان کیں کو کیسے بھولا جا سکتا ہے؟ آج کے یوم آزادی کے موقع پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی خدمات، قربانیاں اور وطن سے محبت ہی وہ ستون ہیں جو پاکستان کو مضبوط اور قائم رکھتے ہیں۔ ان شہداء کی قربانیوں کے جذبے کو سلام پیش کرنا اور ان کے نام پر حقیقی آزادی کے تقاضوں کو پورا کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔

یوم آزادی صرف جھنڈے لہرانے یا تقریریں دینے کا دن نہیں، بلکہ یہ ایک عہد بھی ہے کہ ہر شہری کو اس ملک میں زندگی کے بنیادی حقوق ملیں۔ گلگت بلتستان کے حالات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ حقیقی آزادی کے لیے انصاف، تحفظ، اور سماجی انصاف کے تقاضے پورے ہونا ضروری ہیں۔ آج جب ملک بھر میں جشن آزادی منایا جا رہا ہے، گلگت بلتستان کے لوگ بھی دل سے آزادی محسوس کر سکیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ بروقت اقدامات کرے اور عوام کے جائز مطالبات، قربانیوں اور احتجاجات کو تسلیم کرے۔ تب ہی یہ دن صرف رسمی طور پر نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے منایا جا سکے گا۔

چودہ اگست 1947طبقاتی انقلاب کا سائنسی سوشلسٹ تجزیہتحریر برکت حسین شاد ۔۔مارکسی فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ تاریخ کا بنیادی مح...
14/08/2025

چودہ اگست 1947
طبقاتی انقلاب کا سائنسی سوشلسٹ تجزیہ
تحریر برکت حسین شاد
۔
۔

مارکسی فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ تاریخ کا بنیادی محرک پیداواری قوتوں (Forces of Production) اور پیداواری رشتوں (Relations of Production) کے درمیان تضاد ہے۔ یہی تضاد جدلیاتی عمل (Dialectical Process) کے ذریعے سماجی تبدیلی کو جنم دیتا ہے۔ لینن نے لکھا تھا

"انقلابات وہ وقت ہوتے ہیں جب نیچے والے پہلے کی طرح جینا نہیں چاہتے، اور اوپر والے پہلے کی طرح حکومت نہیں کر سکتے۔"

برصغیر میں 1947 کا لمحہ بھی ایسا ہی تھا۔ محنت کش عوام ،، کسان، مزدور، دلت، غریب مسلمان، سامراجی اور مقامی بورژوا جبر سے تنگ آ چکے تھے۔ دوسری طرف برطانوی سامراج اور اس کے مقامی ایجنٹ طبقے پرانے نظام کو برقرار نہیں رکھ پا رہے تھے۔ یہی انقلابی صورتحال (Revolutionary Situation) تھی جس نے 14 اگست کو جنم دیا۔

برطانوی نوآبادیاتی ریاست نے برصغیر میں کالونیل موڈ آف پروڈکشن نافذ کیا، جس میں پیداوار کا کنٹرول مقامی جاگیردار، ہندو بنیے اور سامراجی سرمایہ داروں سے منسلک مسلمان اشرافیہ کے ہاتھ میں تھا۔ یہ سب کمیپرادور بورژوازی تھے، یعنی ایسے مقامی حکمران جو اپنی معاشی طاقت سامراجی نظام سے حاصل کرتے ہیں اور اسے بچانے میں شریک ہوتے ہیں۔

یہ بورژوا طبقہ ہندو ذات پات کے نظام سے بھی فیضیاب ہوتا تھا ، برطانوی سرمایہ داری سے بھی اور مسلمان راجگی اور جاگیرداری سے بھی۔ اس کے مقابلے میں محنت کش طبقہ مذہب سے قطع نظر ایک ہی حالتِ استحصال میں جکڑا ہوا تھا۔ یہی وہ معروضی تضاد (Objective Contradiction) تھا جس نے عوام کو متحد کیا۔

مارکس نے کہا تھا

"مزدور کی کوئی قوم نہیں ہوتی۔"

اسی اصول کے تحت دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اپنی برادری کو ہندو اکثریتی بھارت میں رہنے کے بجائے پاکستان کی طرف جھکانے کی کوشش کی۔ یہ فیصلہ مذہبی نہیں بلکہ طبقاتی شعور (Class Consciousness) کا مظہر تھا، وہ سمجھتے تھے کہ ہندو بورژوا نظام میں رہنا مستقل غلامی کے مترادف ہوگا۔
چنانچہ وہ گاندھی اور نہرو کے بجائے جناح کے زیادہ اریب تھے ۔

پنجاب میں بھی سکھ اور مسلمان کسان ثقافت اور معاشی طرزِ پیداوار میں قریب تر تھے، لیکن دونوں ریاستوں کے بورژوا سیاسی مفادات نے پنجاب کی تقسیم کو لازم بنا دیا۔ یہ تقسیم بورژوا سیاسی اکنامکس کا نتیجہ تھی، نہ کہ دو قومی نظریے کی "آخری فتح"۔

اگر 1947 کا عمل واقعی دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوتا تو مذہبی قیادت اس کی سرکردہ ہوتی۔ مگر تاریخ اس کے برعکس ہے، جمعیت علمائے ہند، مولانا مودودی، اور دیگر بڑے علما تقسیم کے مخالف تھے۔ ان کی مخالفت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تحریک مذہبی ریاست کی نہیں بلکہ بورژوا اقتدار کی منتقلی کی تھی۔

پاکستان بننے کے بعد جاگیردار، سرمایہ دار اور یہی مذہبی قوتیں آپس میں گٹھ جوڑ کر کے انقلاب پر قابض ہو گئیں۔ ماؤ زے تنگ نے کہا تھا

"ہر انقلاب کی فطرت یہ ہے کہ اگر پرولتاریہ اسے مکمل نہ کرے تو بورژوازی اسے چرا لے گی۔"
یہی پاکستان میں ہوا۔

بنگلہ دیش کی علیحدگی 1947 کے طبقاتی تجزیے کو ثابت کرتی ہے۔ اگر تقسیم صرف مذہب پر مبنی ہوتی تو مشرقی بنگال مذہبی شناخت کے تحت پاکستان میں رہتا۔ مگر وہاں کے کسان، مزدور اور متوسط طبقے نے دیکھا کہ طاقت مغربی پاکستان کے جاگیردار و سرمایہ دار اشرافیہ کے قبضے میں ہے، اور ان کا استحصال جاری ہے۔ نتیجہ میں دوسرا پرولتاریہ انقلاب، جو قومی آزادی اور طبقاتی بغاوت کا امتزاج تھا، واقع ہوا ۔

مولانا بھاشانی کی تحریک، جی ایم سید کا سندھ، باچا خان کا پختونخوا، سب ترقی پسند، سیکولر اور مارکسی رجحان رکھتے تھے، اور یہی اصل انقلابی قوت تھی۔

پاکستان کو 1947 میں وہ علاقے ملے جہاں کمیونسٹ اور ترقی پسند تحریکیں پہلے سے موجود تھیں، سندھ، سرحد، بلوچستان اور پنجاب کے کچھ حصے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف 15 سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی جس پر ماؤ نواز اور سوشلسٹ اثرات تھے، سب سے بڑی قوت بنی، جبکہ مذہبی جماعتوں کی عوامی شراکت صفر اعشاریہ فیصد سے بھی کم رہی۔

جدلیاتی اور تاریخی مادیت کی روشنی میں 14 اگست 1947 کوئی "مذہبی تقسیم" نہیں تھی۔ یہ ایک طبقاتی بغاوت تھی، پرولتاریہ کا سامراجی اور مقامی بورژوازی کے اتحاد کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا۔ مگر چونکہ اس کی قیادت حقیقی انقلابی پرولتاری پارٹی کے ہاتھ میں نہیں تھی، یہ انقلاب ادھورا رہا اور جلد ہی کاؤنٹر ریولوشن کی نذر ہو گیا۔

لینن کے الفاظ میں

"انقلاب بغیر انقلابی پارٹی کے جیت نہیں سکتا، اور بغیر اس کے برقرار بھی نہیں رہ سکتا۔"

تمام اہل وطن کو یوم آزادی کی خوشیاں بہت بہت مبارک ہو۔۔۔۔۔۔آمین
14/08/2025

تمام اہل وطن کو یوم آزادی کی خوشیاں بہت بہت مبارک ہو۔۔۔۔۔۔آمین

Address

Islamabad
44000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hamara Chitral ہمارا چترال posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Hamara Chitral ہمارا چترال:

Share