
08/09/2025
سود سے بچنے کی خواہش کی اتنی بڑی قیمت؟
اگر یہ کم نہیں کر سکتے تو اتنا زیادہ کیوں؟
علماء کرام کے فتووں کی بدولت بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلامی بینکوں سے قرض (گاڑی، گھر وغیرہ کی صورت میں) لینے سے وہ سود سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن ایک جتنی رقم پر اسلامی بینکوں کے ریٹس بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اسلامی بینک مانتے ہیں کہ ان کے ریٹس زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اسلامی فنانسنگ میں اضافی کاغذی اور شرعی تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں، جس کے ساتھ لیگل اور آپریشنل اخراجات بڑھ جاتے ہیں جیسا کہ شریعہ بورڈ کے مفتیوں کی تنخواہیں، اور مؤقف یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص سود سے بچنے کے لیے تھوڑا زیادہ ادا کرے تو یہ دنیاوی نقصان نہیں بلکہ دینی فائدہ ہے۔
سکرین شاٹس میں دیکھیں کہ آٓپ اگر ایک گاڑی لیتے جس کی مالیت پچاسی لاکھ کے قریب ہے، آدھی رقم آپ شروع میں ادا کر دیتے اور آدھی رقم بینک دیتا جو پانچ سال میں لوٹانی ہوتی تو سودی بینک میں آپ کی ماہانہ قسط 89711ہوگی جبکہ اسلامی بینک میں 118834، جی ہاں آپ کو تقریباً 29123 روپے ہر ماہ اضافی دینے ہونگے۔ یعنی سودی بینک پانچ سال کے لیے ساڑھے بیالیس لاکھ کی رقم پر ساڑھے دس لاکھ لے رہا اور اسلامی بینک اتنی ہی رقم پر اسی مدت کے لیے انتیس لاکھ روپے۔ پانچ سال میں ساڑھے سترہ لاکھ روپے اضافی۔
اتنا زیادہ فرق کیا صرف اس لیے جائز ہو سکتا ہے کہ ایک شخص سود سے بچنا چاہ رہا؟ (ابھی اس پر میں کچھ نہیں کہہ رہا کہ کیا واقعی یہ سود سے پاک بھی ہے یا نہیں)۔
آٓپ اسے ان بینکوں کی ویب سائٹس پر خود بھی چیک کر سکتے ہیں۔
کیا کہتے ہیں ان اسلامی بینکوں کے حامی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرعدنان نیازی
#نیازیات
میری باقی پوسٹس کے لیے وال کا چکر لگا لیں۔ فیس بک کے نئے آپشن کے مطابق کچھ دن تک کمینٹس صرف فرینڈز اور پرانے فالورز کے لیے ہونگے اس لیے فالو ابھی سے کر لیں۔