16/07/2025
پنجاب کا سرکاری استاد: جو اب صرف خواب وخیال میں پایا جاتا ہے!
✍️تحریر: خرم آزاد
پہلے وقتوں میں استاد کو دیکھ کر بچے سیدھے ہو جاتے تھے۔
اب استاد کو ڈھونڈنے کے لیے بچے، پرنسپل، اور محکمہ تعلیم کی تین سروے ٹیمیں نکلتی ہیں — تب جا کے پتا چلتا ہے:
"اوہ، وہ تو پچھلے دو ہفتوں سے مردم شماری مہم پر ہے!"
جی ہاں، پنجاب کا استاد اب کوئی جیتا جاگتا انسان نہیں، بلکہ ایک تعلیمی دیومالائی کردار ہے —
جو اب صرف احتجاجی تحریک میں، سوشل میڈیا کی ریلز میں،
اور وزیر تعلیم کی تقریر میں پایا جاتا ہے-
پنجاب کے سرکاری سکولوں کو اب استاد سے پاک کیا جا رہا ہے-
نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری، نہ ہو گا استاد نہ ہوں گے طلباء،
سرکاری اسکول میں استاد ایسا بندہ ہوتا ہے جو:
پڑھانے کے لیے بھرتی ہوتا ہے،
سروے کے لیے نکالا جاتا ہے،
اور تنخواہ لینے کے لیے فائلوں میں فٹ ہوتا ہے۔
اساتذہ کو کبھی بچوں کو پڑھانے کا موقع نہیں ملتا، کیونکہ پہلے انھیں اینٹی ڈینگی بھیجنی ہوتی ہیں پھر MEA کے لیے صفائی، پھر B-form کی تصدیق، پھر داخلہ مہم کے لیے سروے، پھر امتحانی ڈیوٹی اور Head تو سارا دن موبائل کے ساتھ کھیلتا رہتا ہے -
علم؟ علم وہ کب پڑھائیں؟ یہ تو ان کا ضمنی ہنر رہ گیا ہے۔
ادھر پرائیویٹ اسکول میں استاد نظر بھی آتا ہے، چلتا بھی ہے، پڑھاتا بھی ہے، ہنستا بھی ہے —
بس تنخواہ سنتے ہی رونے لگتا ہے۔
یہاں استاد Full Package ہوتا ہے:
صبح گیٹ پر سلامی دے گا
پھر اسمبلی کروائے گا
دوپہر کو لنچ بھی کروائے گا
شام کو بچوں کے TikTok دیکھ کر دماغ کا علاج کرے گا
اور رات کو والدین کے میسجز کے جواب میں خود سے سوال کرے گا:
"کیا واقعی میں استاد ہوں؟ یا کسی کال سنٹر میں کام کر رہا ہوں؟"
پہلے استاد کو "روحانی باپ" کہا جاتا تھا،
اب استاد کو "بچہ سنبھالنے والا" یا "ویلا ماسٹر" سمجھا جاتا ہے۔
ویسے آج کل کے بچے استاد سے زیادہ Google اور AI کو مانتے ہیں،
بچے پوچھتے ہیں:
"استاد ہوتا کیسا ہے؟"
ماں کہتی ہے:
"بیٹا، ہمارے وقتوں میں وہ کلاس میں بڑی محبت اور محنت سے پڑھاتا تھا۔"
بچہ حیران ہو کر کہتا ہے:
"واہ امی! تب تو یقیناً سرکاری اسکولوں میں بھی پایا جاتا ہو گا!"
ماں آہ بھرتی ہے:
"ہاں بیٹا، تب پنجاب کا استاد صرف استاد نہیں، شان ہوتا تھا۔
مگر اب وہ صرف خواب وخیال میں پایا جاتا ہے!"