29/10/2025
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے حافظ ابن حجر عسقلانی کی " الاصابة في تمييز الصحابة " کے حوالے سے رتن الھندی کا واقعہ سنا کر یہ تاثر دیا کہ حافظ عسقلانی اس واقعہ کی صحت اور رتن الھندی کی صحابیت کو مانتے ہیں ، جبکہ یہ تاثر غلط اور سراسر تلبیس ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے نہ صرف یہ کہ رتن الھندی کی تمام مرویات کو موضوع قرار دیا ہے بلکہ " ميزان الاعتدال للذهبي " کی عبارت " شيخ دجال كذاب " کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی صحابیت کا انکار کیا ہے ۔
اسی " الاصابة " میں حافظ عسقلانی رحمہ اللہ نے صحابیت کے لیئے معاصرت یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم عصر ہونا شرط قرار دیا ہے ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ۔
" اما الشرط الثاني وهو : المعاصرة , فيعتبر بمضي مائة سنة و عشر سنين من هجرة النبي صلى الله عليه وسلم ،
ولهذه النكتة لم يصدق الايمة احدا ادعى الصحبة بعد الغاية المذكورة . وقد ادعاها جماعة فكذبوا ، و كان أخرهم رتن الهندي ، لان الظاهر كذبهم في دعواهم على ما قررته . "
( الاصابة جلد اول ص 9 المكتبة المعروفية )
ترجمہ : صحابیت کی دوسری شرط ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم عصر ہونا ہے اور وہ معاصرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے 110 سال تک معتبر ہے ( صحیح بخاری کی حدیث صحیح کی وجہ سے) ۔
اسی وجہ سے ائمہ نے ہر اس بندے کی تصدیق نہیں کی کہ جس نے 110 ہجری کے بعد صحابیت کا دعویٰ کیا ، اور تحقیق بہت سے لوگوں نے دعویٰ کیا بھی ہے لیکن ان کی تکذیب کی گئی جن میں آخری رتن الھندی ہے ۔ اور ظاہر بھی یہی ہے کہ یہ سب جھوٹے ہیں جس طرح میں دلائل سے ثابت کیا ہے ۔
اللہ تعالٰی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کرنے سے محفوظ فرمائے آمین ۔
محمد عاطف رمضان سیالوی
مرکزی جامع مسجد پرانی عید گاہ جھنگ صدر