
23/05/2025
سال 1980 کی شادی: جب شادی صرف تقریب نہیں گاؤں کا تہوار ہوتی تھی.بس جناب، بات ہے 1980 کی۔ وہ دور جب شادی صرف دو دلوں کا نہیں، پورے محلے، چچا، پھوپھی، تایا، ہمسایہ، اور "چوٹی کی طرف کے" رشتہ داروں کا میلہ ہوا کرتی تھی۔ دلہا صاحب کو اکثر آخری لمحے تک یہ نہیں پتا ہوتا تھا کہ وہ دلہا ہیں یا کوئی اتفاقاً سوٹ پہن کر ادھر آ گیا ہے۔
یہ کہانی ہے ان دنوں کی، جب شادی فائیو اسٹار ہوٹل میں نہیں بلکہ گھر کے صحن، گلی، اور کبھی کبھار گاؤں کے واحد پرائمری اسکول کے میدان میں ہوتی تھی۔ اور شادی کی تیاریاں دلہن سے زیادہ روٹھے رشتے منانے میں لگتی تھیں۔اور بہت سے جھگڑے کسی شادی کے انتظار میں سالوں سے بیٹھے ہوتے تھے کہ کب شادی ہو اور کب صلاح ہو۔
شادی کا پیغام پہنچتے ہی سب سے پہلا کام ہوتا تھا ناراض رشتے داروں کو منانا۔ پہلا ہفتہ تو "ریکنسیلیئیشن کمیٹی" کا ہوتا تھا۔ دادا جی بولے
چاچا رشید کو منا لیا، کیونکہ پچھلی شادی پہ اسے بوتل نہیں ملی تھی۔ چاچا رشید بھی تب سے ضد لگا کر شادی کا انتظار کر رہا تھا کہ ویاں تے ویکھ لا ں گاں۔
خالہ رضیہ روٹھی ہوئی تھیں کیونکہ پچھلی بار انہیں کرسی نہیں ملی تھی، دری پر بٹھایا گیا تھا۔
ماما شفیع بھی نا