HAQ SUCH حق سچ

HAQ SUCH حق سچ Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from HAQ SUCH حق سچ, Video Creator, Kamalia.

رسول الله ﷺ نے فرمایا:

شَرُّ مَا فِي رَجُلٍ شُحٌّ هَالِعٌ وَجُبْنٌ خَالِعٌ
آدمی میں پائی جانے والی بدترین صفات میں، شدید حرص اور شدید بزدلی شامل ہیں.
ابوداؤد 2511
(مسند احمد 7997، 8246؛ مشکوٰۃ 1874)

17/09/2025

*سیرت النبی ﷺ*🌴

*قسط نمبر 26*

*عنوان: کڑی آزمائش*

ایک روز حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھےکہ ابوجہل آپ کے پاس آیا اور بولا:
" کیا میں نے آپ کو اس سے منع نہیں کیا تھا، آپ جانتے نہیں ، میں سب سے بڑے گروہ والا ہوں ۔"
اس پر سورۃ العلق کی آیت ۱۷، ۱۸ نازل ہوئیں ۔
ترجمہ: سو یہ اپنے گروہ کے لوگوں کو بلالے، اگر اس نے ایسا کیا تو ہم بھی دوزخ کے پیادوں کو بلالیں گے۔
حضرت ابن عباس رضی الله عنہہ فرماتے ہیں ۔
" اگر ابوجہل اپنے گروہ کو بلاتا تو الله تعالٰی کے عذاب کے فرشتے اسے پکڑ کر تہس نہس کردیتے۔"
ایک روز ابوجہل حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور آپ سے مخاطب ہوا:
" آپ کو معلوم ہے میں بطحا والوں کا محافظ ہوں اور میں یہاں ایک شریف ترین شخص ہوں ۔ "
اس وقت اللہ تعالٰی نے سورہ دخان کی آیت 49 نازل فرمائی:
" ترجمہ: چکھ تو بڑا معزز مکرم ہے۔"
آیت کا یہ جملہ دوزخ کے فرشتے ابوجہل کو ڈالتے وقت پھٹکارتے ہوئے کہیں گے۔
ابولہب بھی حضور اکرم ﷺ کی ایذارسانی میں آگے آگے تھا۔ نبی کریم ﷺ کی تبلیغ میں رکاوٹیں ڈالتا تھا،آپ ﷺ کو برا بھلا کہتا تھا۔ اس کی بیوی ام جمیل بھی اس کے ساتھ شامل تھی، وہ جنگل سے کانٹے دار لکڑیاں کاٹ کر لاتی اور نبی کریم ﷺ کے راستے میں بچھاتی، اس پر الله تعالٰی نے سورۃ اللھب نازل فرمائی ۔ اس میں ابولہب کے ساتھ اس کی بیوی کوبھی عذاب کی خبر دی گئ۔وہ غصے میں آگ بگولہ ہوگئ، پتھر ہاتھ میں لیئے آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف بڑھی۔اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ تھے۔ انہوں نے ابولہب کی بیوی کو آتے دیکھا تو فرمایا:
" الله کے رسول! یہ عورت بہت زبان دراز ہے، اگر آپ یہاں ٹھرے تو اس کی بدزبانی سے آپ کو تکلیف پہنچے گی۔"
ان کی بات سن کر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" ابوبکر! فکر نہ کرو، وہ مجھے نہ دیکھ سکے گی۔"
اتنے میں ام جمیل نزدیک پہنچ گئ۔ اسے وہاں صرف ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ نظر آئے۔ وہ آتے ہی بولی:
" ابوبکر! تمہارے دوست نے مجھے ذلیل کیا ہیں ، کہاں ہے تمہارا دوست جو شعر پڑتا ہے۔"
ابوبکر بولے:
" کیا تمہیں میرے ساتھ کوئی نظر آرہا ہے۔"
"کیوں کیا بات ہے، مجھے تو تمہارے ساتھ کوئی نظر نہیں آرہا۔"
انہوں نے پوچھا:
"تم ان کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہو؟"
جواب میں اس نے کہا:
"میں یہ پتھر اس کے منہ پر مارنا چاہتی ہوں ،اس نے میری شان میں نازیبا شعر کہے ہیں ۔" وہ سورة اللہب کی آیات کو شعر سمجھ رہی تھی۔
اس پر انہوں نے کہا:
" نہیں ! اللہ کی قسم! وہ شاعر نہیں ہیں ۔ وہ تو شعر کہنا جانتے ہی نہیں ، نہ انہوں نے تمہیں ذلیل کیا ہے۔"
یہ سن کر وہ وآپس لوٹ گئی۔ بعد میں ابو بکر صدیق ؓ نے آپ ﷺ سے پوچھا:
" اے اللہ کے رسول! وہ آپ کو دیکھ کیوں نہیں سکی۔"
آپ نے ارشاد فرمایا:
"ایک فرشتے نے مجھے اپنے پروں میں چھپالیا تھا۔"
ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ جواب ارشاد فرمایا تھا:
"میرے اور اس کے درمیان ایک آڑ پیدا کردی گئی تھی۔"
ابو لہب کے ایک بیٹے کا نام عتبہ تھا اور دوسرے کا نام عتیبہ تھا۔ اعلانِ نبوّت سے پہلے رسول کریم ﷺ نے اپنی دو بیٹیوں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح ابو لہب کے ان دونوں بیٹوں سے کردیا تھا۔ یہ صرف نکاح ہوا تھا، ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ اسلام کا آغاز ہوا اور سورۂ لہب نازل ہوئی تو ابو لہب نے غصے میں آکر اپنے بیٹوں سے کہا:
" اگر تم محمد کی بیٹیوں کو طلاق نہیں دوگے تو میں تمہارا چہرہ نہیں دیکھوں گا۔"
چنانچہ ان دونوں نے انہیں طلاق دے دی۔( دیکھا جائے تو آپ ﷺ کی بیٹیوں کے لئے اس میں حکمت تھی گویا اللہ تعالٰی نے چاہا کہ یہ پاک صاحب زادیاں عتبہ اور عتیبہ کے ہاں نہ جاسکیں ۔) یہ رشتہ اسلام دشمنی کی بنیاد پر ختم کیا گیا، یعنی آپ دونوں چونکہ نبی کریم ﷺ کی صاحب زادیاں تھیں ، اس لئے یہ قدم اٹھایا گیا۔
اس موقع پر عتیبہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کی شان میں گستاخی کی۔ آپ صاحب زادیوں کی وجہ سے پہلے ہی غمگین تھے، ان حالات میں آپ نے اس کے حق میں بد دعا فرمائی:
" اے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط فرمادے۔"
عتیبہ یہ بد دعا سن کر وہاں سے لوٹ آیا، اس نے اپنے باپ ابو لہب کو سارا حال سنایا۔ اس کے بعد دونوں باپ بیٹا ایک قافلے کے ساتھ ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں یہ لوگ ایک جگہ ٹھہرے۔ وہاں قریب ہی ایک راہب کی عبادت گاہ تھی۔ راہب ان کے پاس آیا۔ اس نے انہیں بتایا:
"اس علاقے میں جنگلی درندے رہتے ہیں ۔"
ابو لہب یہ سن کر خوف زدہ ہوگیا، نبی کریم ﷺ کی بد دعا یاد آگئی۔اس نے قافلے والوں سے کہا:
"تم لوگ میری حیثیت سے باخبر ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ میرا تم پر کیا حق ہے۔"
انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:
"بےشک ہمیں معلوم ہے۔"
ابو لہب یہ سن کر بولا:
"تب پھر تم ہماری مدد کرو، میں محمد کی بد دعا کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا ہوں ، اس لئے تم لوگ اپنا سامان اس عبادت گاہ کی طرف رکھ کر اس پر میرے بیٹے کا بستر لگا دو اور اس کے چاروں طرف تم لوگ اپنے بستر لگالو۔"

*( پوسٹ پڑھ کر رئیکٹ ضرور کیا کریں تاکہ ہم اگلی پوسٹ آپ کی خدمت میں جلدی پیش کرسکیں )*❤️

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہی نہیں ، انہوں نے اپنے چاروں طرف اپنے اونٹوں کو بھی بٹھادیا۔ اس طرح عتیبہ ان سب کے عین درمیان میں آگیا۔ اب وہ سب اس کی پاسبانی کرنے لگے۔ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود حضور نبی کریم ﷺ کی پیش گوئی پوری ہوگئی۔نصف رات کے قریب ایک شیر وہاں آیا اور سوئے ہوئے لوگوں کو سونگھنے لگا۔ ایک ایک کو سونگھتے ہوئے وہ آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ لمبی چھلانگ لگا کر عتیبہ تک پہنچ گیا۔ بس پھر کیا تھا، اس نے اسے چیر پھاڑ کر ہلاک کرڈالا۔
تکالیف پہنچانے کا ایک اور واقعہ اس طرح پیش آیا کہ ایک روز آپ ﷺ مسجد الحرام میں نماز پڑھ رہے تھے۔ قریب ہی کچھ جانور ذبح کئے گئے تھے۔ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے۔ ان جانوروں کی ایک اوجھڑی ابھی تک وہیں پڑی تھی۔ ایسے میں ابو جہل نے کہا:
"کیا کوئی شخص ایسا ہے جو اس اوجھڑی کو محمد کے اوپر ڈال دے۔"
ایک روایت کے مطابق کسی نے کہا:
"کیا تم یہ منظر نہیں دیکھ رہے ہو تم میں سے کون ہے جو وہاں جائے جہاں فلاں قبیلے نے جانور ذبح کئے ہیں ، ان کا گوبر، لید، خون اور اوجھڑی وہاں پڑے ہیں ۔ کوئی شخص وہاں جاکر گندگی اٹھالائے اور محمد کے سجدے میں جانے کا انتظار کرے۔ پھر جونہی وہ سجدے میں جائیں ، وہ شخص گندگی ان کے کندھوں کے درمیان رکھ دے۔"
تب مشرکوں میں سے ایک شخص اٹھا۔ اس کا نام عقبہ بن ابی معیط تھا۔ یہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ بدبخت تھا۔ یہ گیا اور اوجھڑی اٹھالایا، جب آپ ﷺ سجدے میں گئے تو اوجھڑی آپ پر رکھ دی۔
اس پر مشرکین زور زور سے ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ ہنسی سے بے حال ہوگئے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ ایسے میں کسی نے حضرت فاطمة الزهراء رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتادی۔ وہ روتی ہوئی حرم میں آئیں ۔ نبی کریم ﷺ اسی طرح سجدے میں تھے اور اوجھڑی آپ کے کندھوں پر تھی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اوجھڑی کو آپ پر سے ہٹایا۔ اس کے بعد آپ سجدے سے اٹھے اور نماز کی حالت میں کھڑے ہوگئے۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ ﷺ نے ان لوگوں کے حق میں بد دعا فرمائی:
"اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے، اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے، اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے۔"
قریش جو مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہورہے تھے، یہ بد دعا سنتے ہی ان کی ہنسی کافور ہوگئی۔ اس بد دعا کی وجہ سے وہ دہشت زدہ ہوگئے۔ اس کے بعد آپ نے نام لے لے کر بھی بد دعا فرمائی:
"اے اللہ! تو عمرو بن ہشام کو سزا دے۔(یعنی ابو جہل کو)، عقبہ بن ابی معیط اور امیہ بن خلف کو سزا دے۔"
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں :
"اللہ کی قسم! آپ ﷺ نے جن جن قریشیوں کا نام لیا تھا، میں نے انہیں غزوۂ بدر میں خاک و خون میں لتھڑا ہوا دیکھا، اور پھر ان کی لاشوں کو ایک گڑھے میں پھینک دیا گیا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عثمان غنی ؓ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
"ایک روز نبی کریم ﷺ طواف فرمارہے تھے، اس وقت آپ کا ہاتھ حضرت ابو بکر ؓ کے ہاتھ میں تھا۔ حجر اسود کے پاس تین آدمی بیٹھے تھے۔ جب آپ حجر اسود کے پاس سے گزرے اور ان کے قریب پہنچے تو ان تینوں نے آپ کی ذات با برکات پر چند جملے کسے۔ ان جملوں کو سن کر آپ کو تکلیف پہنچی۔ تکلیف کے آثار آپ کے چہرے سے ظاہر ہوئے۔دوسرے پھیرے میں ابو جہل نے کہا:
" تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت کرنے سے روکتے ہو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ، لیکن ہم تم سے صلح نہیں کر سکتے۔" جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا:
"میرا بھی یہی حال ہے۔"
پھر آپ آگے بڑھ گئے۔ تیسرے پھیرے میں بھی انہوں نے ایسا ہی کہا۔ پھر چوتھے پھیرے میں یہ تینوں یک دم آپ کی طرف جھپٹے۔

☆☆☆
جاری ہے ۔۔۔۔۔!

*مصنف : عبداللہ فارانی*
*کتاب : سیرت النبی ﷺ قدم بہ قدم*
*( سبق آموز کہانیاں گروپ)*

17/09/2025

*سیرت النبی ﷺ*🌴

*قسط نمبر 25*

*عنوان: قتل کی کوشش*

قریش تو یہ کہہ کر چلے گئے، ابوطالب پریشان ہوگئے - وہ اپنی قوم کے غصے سے اچھی طرح واقف تھے - دوسری طرف وہ اس بات کو پسند نہیں کرسکتے تھے کہ کوئی بھی شخص حضور نبی کریم ﷺ کو رسوا کرنے کی کوشش کرے، اس لیے انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے کہا:
"بھتیجے! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے، انہوں نے مجھ سے یہ، یہ کہا ہے، اس لیے اپنے اوپر اور مجھ پر رحم کرو اور مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جس کو میں اٹھا نہ سکوں -"
ابوطالب کی اس گفتگو سے نبی اکرم ﷺ نے خیال کیا کہ اب چچا ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں ، وہ بھی اب آپ کی مدد نہیں کرنا چاہتے، آپ کی حفاظت سے ہاتھ اٹھارہے ہیں ، اس لیے آپ نے فرمایا:
"چچا جان! اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں اور یہ کہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں ، تو بھی میں ہرگز اسے نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ خود اللہ تعالٰی اس کو ظاہر فرمادیں -"
یہ کہتے ہوئے آپ کی آواز بھرا گئی - آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے - پھر آپ اٹھ کر جانے لگے، لیکن اسی وقت ابوطالب نے آپ کو پکارا:
"بھتیجے! ادھر آؤ -"
آپ ان کی طرف مڑے تو انہوں نے کہا:
"جاؤ بھتیجے! جو دل چاہے کہو، اللہ کی قسم میں تمہیں کسی حال میں نہیں چھوڑوں گا -"
جب قریش کو اندازہ ہوگیا کہ ابوطالب آپ کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں تو وہ عمارہ بن ولید کو ساتھ لےکر ابوطالب کے پاس آئے اور بولے:
"ابوطالب! یہ عمارہ بن ولید ہے - قریش کا سب سے زیادہ بہادر، طاقت ور اور سب سے زیادہ حسین نوجوان ہے - تم اسے لےکر اپنا بیٹا بنالو اور اس کے بدلے میں اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کردو، اس لیے کہ وہ تمہارے اور تمہارے باپ دادا کے دین کے خلاف جارہا ہے، اس نے تمہاری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ان کی عقلیں خراب کردی ہیں - تم اسے ہمارے حوالے کردو تاکہ ہم اسے قتل کردیں ... انسان کے بدلے میں ہم تمہیں انسان دے رہے ہیں -"
قریش کی یہ بےہودہ تجویز سن کر ابوطالب نے کہا:
"اللہ کی قسم! یہ ہرگز نہیں ہوسکتا - کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ کوئی اونٹنی اپنے بچے کو چھوڑ کر کسی دوسرے بچے کی آرزومند ہوسکتی ہے -"
ان کا جواب سن کر مطعم بن عدی نے کہا:
"ابوطالب! تمہاری قوم نے تمہارے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا ہے اور جو بات تمہیں ناپسند ہے اس سے چھٹکارے کے لیے کوشش کی ہے - اب میں نہیں سمجھتا کہ اس کے بعد تم ان کی کوئی اور پیش کش قبول کرو گے -"
جواب میں ابوطالب بولے:
"اللہ کے قسم! انہوں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا - بلکہ تم سب نے مل کر مجھے رسوا کرنے اور میرے خلاف گٹھ جوڑ کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے، اس لیے اب جو تمھارے دل میں آئے کرلو -"
بعد میں یہ شخص یعنی عمارہ بن ولید حبشہ میں کفر کی حالت میں مرا۔ اس پر جادو کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ وحشت زدہ ہوکر جنگلوں اور گھاٹیوں میں مارا مارا پھرا کرتا تھا۔ اسی طرح دوسرا شخص مطعم بن عدی بھی کفر کی حالت میں مرا۔
غرض جب ابو طالب نے قریش کی یہ پیش کش بھی ٹھکرادی تو معاملہ حد درجے سنگین ہوگیا۔ دوسری طرف ابو طالب نے قریش کے خطرناک ارادوں کو بھانپ لیا، انہوں نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کو بلایا، ان سے درخواست کی کہ سب مل کر آپ کی حفاظت کریں ، آپ کا بچاؤ کریں ۔ ان کی بات سن کر سوائے ابو لہب کے سب تیار ہوگئے۔ ابو لہب نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ یہ بدبخت سختی کرنے اور آپ کے خلاف آواز اٹھانے سے باز نہ آیا۔ اسی طرح جو لوگ آپ پر ایمان لےآئے تھے ان کی مخالفت میں بھی ابو لہب ہی سب سے پیش پیش تھا۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو تکالیف پہنچانے میں بھی یہ قریش سے بڑھ چڑھ کر تھا۔
آپ کو تکالیف پہنچانے کے سلسلے میں حضرت عباس ؓ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں ، ایک روز میں مسجد حرام میں تھا کہ ابو جہل وہاں آیا اور بولا:
"میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں ، اگر میں محمد کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھ لوں ، تو میں ان کی گردن ماردوں ۔"
حضرت عباس ؓ فرماتے ہیں ، یہ سن کر میں فوراً نبی کریم ﷺ کی طرف گیا اور آپ کو بتایا کہ ابو جہل کیا کہہ رہا ہے۔
نبی اکرم ﷺ یہ سن کر غصے کی حالت میں باہر نکلے اور تیز تیز چلتے مسجد الحرام میں داخل ہوگئے، یہاں تک کہ گزرتے وقت آپ کو دیوار کی رگڑ لگ گئی۔ اس وقت آپ سورة العلق کی آیت 1،2 پڑھ رہے تھے:
"ترجمہ: اے پیغمبر! آپ اپنے رب کا نام لے کر (قرآن) پڑھا کیجئے! وہ جس نے مخلوقات کو پیدا کیا۔ جس نے انہیں خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔"
تلاوت کرتے ہوئے آپ اس سورت کی آیت 6 تک پہنچ گئے:
"ترجمہ: سچ مچ بے شک کافر آدمی حد سے نکل جاتا ہے۔"
یہاں تک کہ آپ نے سورة کا آخری حصہ پڑھا جہاں سجدے کی آیت ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ سجدے میں گرگئے۔ اسی وقت کسی نے ابو جہل سے کہا:
"ابو الحکم! یہ محمد سجدے میں پڑے ہیں ۔"

*( پوسٹ پڑھ کر رئیکٹ ضرور کیا کریں تاکہ ہم اگلی پوسٹ آپ کی خدمت میں جلدی پیش کرسکیں )*❤️

یہ سنتے ہی ابو جہل فوراً آپ کی طرف بڑھا، آپ کے نزدیک پہنچا، لیکن پھر اچانک وآپس آگیا۔ لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا:
"ابو الحکم! کیا ہوا؟"
جواب میں اس نے اور زیادہ حیران ہوکر کہا:
"جو میں دیکھ رہا ہوں ، کیا تمہیں وہ نظر نہیں آرہا؟"
اس کی بات سن کر لوگ اور زیادہ حیران ہوئے اور بولے:
"تمہیں کیا نظر آرہا ہے ابو الحکم؟"
اس پر ابو جہل نے کہا:
"مجھے اپنے اور ان کے درمیان آگ کی ایک خندق نظر آرہی ہے۔"
اسی طرح ایک دن ابو جہل نے کہا:
"اے گروہ قریش! جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، محمد تمہارے دین میں عیب ڈال رہا ہے، تمہارے معبودوں کو برا کہہ رہا ہے، تمہاری عقلوں کو خراب بتا رہا ہے اور تمہارے باپ داداؤں کو گالیاں دے رہا ہے، اس لئے میں خدا کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ کل میں محمد کے لئے اتنا بڑا پتھر لے کر بیٹھوں گا جس کا بوجھ وہ برداشت نہیں کر سکیں گے، جونہی وہ سجدے میں جائیں گے، میں وہ پتھر ان کے سر پر دے ماروں گا، اس کے بعد تم لوگوں کو اختیار ہے، چاہو تو اس معاملے میں میری مدد کرنا اور مجھے پناہ دینا، چاہو تو مجھے دشمنوں کے حوالے کر دینا، پھر بنی عبد مناف میرا جو بھی حشر کریں ۔"
یہ سن کر قریش نے کہا:
"اللہ کی قسم! ہم تمہیں کسی قیمت پر دغا نہیں دیں گے، اس لئے جو تم کرنا چاہتے ہو، اطمینان سے کرو۔"
دوسرے دن ابو جہل اپنے پروگرام کے مطابق ایک بہت بھاری پتھر اٹھا لایا اور لگا نبی اکرم ﷺ کا انتظار کرنے۔ ادھر نبی اکرم ﷺ بھی عادت کے مطابق صبح کی نماز کے بعد وہاں تشریف لے آئے۔ اس وقت آپ کا قبلہ بیت المقدس کی طرف تھا۔ آپ نماز کے لئے رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان کھڑے ہوا کرتے تھے، کعبے کو اپنے اور بیت المقدس کے درمیان کر لیا کرتے تھے۔ آپ نے آتے ہی نماز کی نیت باندھ لی۔ ادھر قریش کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے انتظار کررہے تھے کہ دیکھیں آج کیا ہوتا ہے؟ ابو جہل اپنے پروگرام میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں ؟
پھر جونہی آپ سجدے میں گئے، ابو جہل نے پتھر اٹھایا اور آپ کی طرف بڑھا۔ جیسے ہی وہ آپ کے نزدیک ہوا، ایک دم اس پر لرزہ طاری ہوگیا۔ چہرے کا رنگ اڑگیا۔ گھبراہٹ کے عالم میں وہاں سے پیچھے ہٹ آیا۔ ادھر پتھر پر اس کے ہاتھ اس طرح جم گئے کہ اس نے چاہا، ہاتھ اس پر سے ہٹالے، لیکن ہٹا نہ سکا۔ قریش کے لوگ فوراً اس کے گرد جمع ہوگئے اور بولے:
"ابو الحکم! کیا ہوا؟ "
اس نے جواب دیا:
"میں نے رات کو تم سے جو کہا تھا، اس کو پورا کرنے کے لئے میں محمد کی طرف بڑھا مگر جیسے ہی ان کے قریب پہنچا، ایک جوان اونٹ میرے راستے میں آگیا۔ میں نے اس جیسا زبردست اونٹ آج تک نہیں دیکھا۔ وہ ایک دم میری طرف بڑھا جیسے مجھے کھالے گا۔"
جب اس واقعے کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
"وہ جبرئیل علیہ السلام تھے اگر وہ میرے نزدیک آتا تو وہ ضرور اسے پکڑ لیتے۔"

☆☆☆
جاری ہے ۔۔۔۔۔!

*مصنف : عبداللہ فارانی*
*کتاب : سیرت النبی ﷺ قدم بہ قدم*

17/09/2025

*سیرت النبی ﷺ*🌴

*قسط نمبر 24*

*عنوان: اسلام کی تبلیغ*

اس کے بعد کچھ دن تک آپ ﷺ خاموش رہے۔ پھر آپ ﷺ کے پاس جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے۔ انہوں نے آپ کو اللہ کی جانب سے اللہ تعالٰی کے پیغام کو ہر طرف پھیلا دینے کا حکم سنایا۔
آپ ﷺ نے دوبارہ لوگوں کو جمع فرمایا۔ان کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:
اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں خاص طور پر تمہاری طرف اور عام طور پر سارے انسانوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، اللہ کی قسم! تم جس طرح جاگتے ہو، اسی طرح ایک دن حساب کتاب کے لئے دوبارہ جگائے جاؤ گے۔ پھر تم جو کچھ کررہے ہو، اس کا حساب تم سے لیا جائے گا۔ اچھائیوں اور نیک اعمال کے بدلے میں تمہیں اچھا بدلہ ملے گا اور برائی کا بدلہ برا ملے گا، وہاں بلاشبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت ہے یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہے۔اللہ کی قسم! اے بنی عبد المطلب! میرے علم میں ایسا کوئی نوجوان نہیں جو اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر اور اعلی کوئی چیز لے کر آیا ہو۔ میں تمہارے واسطے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں ۔ "
آپ ﷺ کے اس خطبے کو سن کر ابو لہب نے سخت ترین انداز میں کہا:
"اے بنی عبد المطلب! اللہ کی قسم! یہ ایک فتنہ ہے اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا اس پر ہاتھ ڈالے، بہتر یہ ہے کہ تم ہی اس پر قابو پالو، یہ معاملہ ایسا ہے کہ اگر تم اس کی بات سن کر مسلمان ہوجاتے ہو، تو یہ تمہارے لئے ذلت و رسوائی کے بات ہوگی - اگر تم اسے دوسرے دشمنوں سے بچانے کی کرو گے تو تم خود قتل ہوجاؤگے -"
اس کے جواب میں اس کی بہن یعنی نبی اکرم ﷺ کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
"بھائی! کیا اپنے بھتیجے کو اس طرح رسوا کرنا تمہارے لیے مناسب ہے اور پھر اللہ کے قسم! بڑے بڑے عالم یہ خبر دیتے آرہے ہیں کہ عبدالمطلب کے خاندان میں سے ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں ، لہٰذا میں تو کہتی ہوں ، یہی وہ نبی ہیں -"
ابولہب کو یہ سن کر غصہ آیا، وہ بولا:
"اللہ کی قسم یہ بالکل بکواس اور گھروں میں بیٹھنے والی عورتوں کی باتیں ہیں - جب قریش کے خاندان ہم پر چڑھائی کرنے آئیں گے اور سارے عرب ان کا ساتھ دیں گے تو ان کے مقابلے میں ہماری کیا چلے گی - خدا کی قسم ان کے لیے ہم ایک تر نوالے کی حیثیت ہوں گے -"
اس پر ابوطالب بول اٹھے:
"اللہ کی قسم! جب تک ہماری جان میں جان ہے ہم ان کے حفاظت کریں گے -"
اب نبی کریم ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور تمام قریش کو اسلام کی دعوت دی - ان سب سے فرمایا:
"اے قریش! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آرہا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم مجھے جھوٹا خیال کرو گے -"
سب نے ایک زبان ہوکر کہا:
"نہیں ! اس لیے کہ ہم نے آپ کو آج تک جھوٹ بولتے ہوئے نہیں سنا -"
اب آپ نے فرمایا:
"اے گروہِ قریش! اپنی جانوں کو جہنم سے بچاؤ، اس لئے کہ میں اللہ تعالی کے ہاں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکوں گا، میں تمہیں اس زبردست عذاب سے صاف ڈرا رہا ہوں جو تمہارے سامنے ہے، میں تم لوگوں کو دو کلمے کہنے کی دعوت دیتا ہوں ، جو زبان سے کہنے میں بہت ہلکے ہیں ، لیکن ترازو میں بے حد وزن والے ہیں ، ایک اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، دوسرے یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، اب تم میں سے کون ہے جو میری اس بات کو قبول کرتا ہے -"
آپ کے خاموش ہونے پر ان میں سے کوئی نہ بولا تو آپ نے اپنی بات پھر دہرائی، پھر آپ نے تیسری بار اپنی بات دہرائی مگر اس بار بھی سب خاموش کھڑے رہے - اتنا ہوا کہ سب نے آپ کی بات خاموشی سے سن لی اور واپس چلے گئے -

*( پوسٹ پڑھ کر رئیکٹ ضرور کیا کریں تاکہ ہم اگلی پوسٹ آپ کی خدمت میں جلدی پیش کرسکیں )*❤️

ایک دن قریش کے لوگ مسجد حرام میں جمع تھے، بتوں کو سجدے کررہے تھے، آپ نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا:
"اے گروہ قریش! اللہ کی قسم! تم اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے راستے سے ہٹ گئے ہو -"
آپ کی بات کے جواب میں قریش بولے:
"ہم اللہ تعالٰی کی محبت ہی میں بتوں کو پوجتے ہیں تاکہ اس طرح ہم اللہ تعالٰی کے قریب ہوسکیں -"
(افسوس! آج کل ان گنت لوگ بھی قبروں کو سجدہ بالکل اسی خیال سے کرتے ہیں اور خود کو مسلمان کہتے ہیں )
اس موقع پر اللہ تعالٰی نے ان کی بات کے جواب میں وحی نازل فرمائی:
ترجمہ: آپ فرمادیجیے! اگر تم اللہ تعالٰی سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالٰی تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے - (سورۃ آل عمران:آیت 31)
قریش کو یہ بات بہت ناگوار گزری - انہوں نے ابوطالب سے شکایت کی:
"ابوطالب! تمہارے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا کہا ہے، ہمارے دین میں عیب نکالے ہیں ، ہمیں بےعقل ٹھہرایا ہے، اس نے ہمارے باپ دادا تک کو گمراہ کہا ہے، اس لیے یا تو ہماری طرف سے آپ نپٹیے یا ہمارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جایئے، کیونکہ خود آپ بھی اسی دین پر چلتے ہیں جو ہمارا ہے اور اس کے دین کے آپ بھی خلاف ہیں -"
ابو طالب نے انہیں نرم الفاظ میں یہ جواب دے کر واپس بھیج دیا کہ
اچھا میں انہیں سمجھاؤں گا -
ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ کی خدمت میں بھیجا - حضرت جبرئیل نہایت حسین شکل و صورت میں بہترین خوشبو لگائے ظاہر ہوئے اور بولے:
"اے محمد! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتے ہیں ، اور فرماتے ہیں کہ آپ تمام جنوں اور انسانوں کی طرف سے اللہ تعالی کے رسول ہیں ، اس لیے انہیں کلمہ لا الہ الا اللہ کی طرف بلایئے -"
یہ حکم ملتے ہی آپ نے قریش کو براہ راست تبلیغ شروع کردی اور حالت اس وقت یہ تھی کہ کافروں کے پاس پوری طاقت تھی اور وہ آپ کی پیروی کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، کفر اور شرک ان کے دلوں میں بسا ہوا تھا - بتوں کی محبت ان کے اندر سرایت کرچکی تھی - ان کے دل اس شرک اور گمراہی کے سوا کوئی چیز بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے - شرک کی یہ بیماری لوگوں میں پوری طرح سماچکی تھی -
آپ ﷺ کی تبلیغ کا یہ سلسلہ جب بہت بڑھ گیا تو قریش کے درمیان ہر وقت آپ ہی کا ذکر ہونے لگا - وہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر آپ سے دشمنی پر اتر آئے - آپ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے - یہاں تک سوچنے لگے کہ آپ کا معاشرتی بائیکاٹ کردیا جائے، لیکن یہ لوگ پہلے ایک بار پھر ابوطالب کے پاس گئے اور ان سے بولے:
"ابوطالب! ہمارے درمیان آپ بڑے قابل، عزت دار اور بلند مرتبہ آدمی ہیں ، ہم نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ اپنے بھتیجے کو روکیے، مگر آپ نے کچھ نہیں کیا، ہم لوگ یہ بات برداشت نہیں کرسکتے کہ ہمارے معبودوں کو اور باپ داداؤں کو برا کہا جائے - ہمیں بےعقل کہا جائے - آپ انہیں سمجھا لیں ورنہ ہم آپ سے اور ان سے اس وقت تک مقابلہ کریں گے جب تک کہ دونوں فریقوں میں سے ایک ختم نہ ہوجائے -

☆☆☆
جاری ہے ۔۔۔۔۔!

*مصنف : عبداللہ فارانی*
*کتاب : سیرت النبی ﷺ قدم بہ قدم*

13/09/2025
13/09/2025

میں جو دکھتا ہوں وہ نہیں ہوں میں ہوں آدم زاد مگر انساں نہیں ہوں میں سو گرد و غبار سا پھیلا ہوں چار سو جو ہے جگہ میری وہاں نہیں ہوں میں
💞🌹🪻🤍

13/09/2025

جب تک تم اپنے دل سے دنیا کو ختم کر کے اس کی آلائشوں کا جنازہ نہیں نکالتے تب تک عشق اپنی بستی آباد نہیں کرتا
💞🌹🪻🤍

13/09/2025

جہاں میں ہوں وہاں اللہ ہی اللہ ہے
اور جہاں اللہ ہے وہاں میں نہیں ہوں
💞🌹🪻🤍

13/09/2025

فقیر کی محفل میں سکون وہی پاتیں ہیں جو اپنی دنیا کو اپنے جوتوں کے ساتھ باہر اتار کراتے ہیں
💞🌹🪻🤍

13/09/2025

شربت عشق بھی عجیب نعمت ہے جو پیتا ہے گونگا ہو جاتا ہے
💞🌹🪻🤍

اس وقت اسرائیل اور مسلمان ملکوں کی بالکل یہی حالت ھے ۔
11/09/2025

اس وقت اسرائیل اور مسلمان ملکوں کی بالکل یہی حالت ھے ۔

11/09/2025

*سیرت النبی ﷺ*🌴

*قسط نمبر 23*

عنوان: اسلام کا پہلا مرکز

حضرت صہیب اور حضرت عمار رضی اللہ عنہما دونوں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے. آپ نے دونوں کو اپنے پاس بٹھایا. جب یہ بیٹھ گئے تو آپ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کریم کی جو آیات آپ پر اس وقت تک نازل ہو چکی تھیں ، وہ پڑھ کر سنائیں . ان دونوں نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا. اسی روز شام تک یہ دونوں نبی کریم ﷺ کے پاس رہے. شام کو دونوں چپکے سے چلے آئے، حضرت عمار ؓ سیدھے اپنے گھر پہنچے تو ان کے ماں باپ نے ان سے پوچھا کہ دن بھر کہاں تھے. انہوں نے فوراً ہی بتا دیا کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں . ساتھ ہی انہوں نے ان کے سامنے بھی اسلام پیش کیا اور اس دن انہوں نے قرآن پاک کا جو حصہ یاد کیا تھا وہ ان کے سامنے تلاوت کیا. ان دنوں کو یہ کلام بے حد پسند آیا. دونوں فورا ہی بیٹے کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے. اسی بنیاد پر نبی کریم ﷺ حضرت عمار بن یاسر ؓ کو الطیب المطیب کہا کرتے تھے یعنی پاک باز اور پاک کرنے والے.
اسی طرح حضرت عمران ؓ اسلام لائے تو کچھ عرصے بعد ان کے والد حضرت حصین ؓ بھی مسلمان ہو گئے. ان کے اسلام لانے کی تفصیل یوں ہے.
ایک مرتبہ قریش کے لوگ نبی کریم ﷺ سے ملاقات کے لئے آئے. ان میں حضرت حصین ؓ بھی تھے. قریش کے لوگ تو باہر رہ گئے. حصین ؓ اندر چلے گئے، نبی کریم ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا.
ان بزرگ کو جگہ دو.
جب وہ بیٹھ گئے تب حضرت حصین ؓ نے کہا.
یہ آپ کے بارے میں ہمیں کیسی باتیں معلوم ہو رہی ہیں ، آپ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں ؟
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا.
اے حصین آپ کتنے معبودوں کو پوجتے ہیں ؟
حضرت حصین ؓ نے جواب دیا.
ہم سات معبودوں کی عبادت کرتے ہیں . ان میں سے چھ تو زمین میں ہیں ، ایک آسمان پر
اس پر آپ نے فرمایا.
اور اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچ جائے تو پھر آپ کس سے مدد مانگتے ہیں
حضرت حصین ؓ بولے.
اس صورت میں ہم اس سے دعا مانگتے ہیں جو آسمان میں ہے.
یہ جواب سن کر آپ نے فرمایا.
وہ تو تنہا تمہاری دعائیں سن کر پوری کرتا ہے اور تم اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے ہو. اے حصین کیا تم اپنے اس شرک سے خوش ہو. اسلام قبول کرو، اللہ تعالٰی تمہیں سلامتی دے گا.
حضرت حصین ؓ یہ سنتے ہی مسلمان ہو گئے. اسی وقت ان کے بیٹے حضرت عمران ؓ اٹھ کر باپ کی طرف بڑھے اور ان سے لپٹ گئے.
اس کے بعد حضرت حصین ؓ نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا.
انہیں ان کے گھر تک پہنچا کر آئیں .
حضرت حصین ؓ جب دروازے سے باہر نکلے تو وہاں قریش کے لوگ موجود تھے. انہیں دیکھتے ہی بولے.
لو یہ بھی بے دین ہو گیا.
اس کے بعد وہ سب لوگ اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور صحابہ کرام نے حضرت حصین ؓ کو ان کے گھر تک پہنچایا.

*( پوسٹ پڑھ کر رئیکٹ ضرور کیا کریں تاکہ ہم اگلی پوسٹ آپ کی خدمت میں جلدی پیش کرسکیں )*❤️

اسی طرح تین سال تک نبی کریم ﷺ خفیہ طور پر تبلیغ کرتے رہے. اس دوران جو شخص بھی مسلمان ہوتا تھا. وہ مکہ کی گھاٹیوں میں چھپ کر نمازیں ادا کرتا تھا. پھر ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کچھ دوسرے صحابہ کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی میں تھے کہ اچانک وہاں قریش کی ایک جماعت پہنچ گئی. اس وقت صحابہ نماز پڑھ رہے تھے. مشرکوں کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا، وہ ان پر چڑھ دوڑے، ساتھ میں برا بھلا بھی کہہ رہے تھے، ایسے میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے ان میں سے ایک کو پکڑ لیا اور اس کو ایک ضرب لگائی. اس سے اس کی کھال پھٹ گئی، خون بہہ نکلا. یہ پہلا خون ہے جو اسلام کے نام پر بہایا گیا.
اب قریشی دشمنی پر اتر آئے. اس بنا پر نبی کریم ﷺ حضرت ارقم ؓ کے مکان پر تشریف لے آئے تاکہ دشمنوں سے بچاؤ رہے. اس طرح حضرت ارقم ؓ کا یہ مکان اسلام کا پہلا مرکز بنا. اس مکان کو دار ارقم کہا جاتا ہے. نبی کریم ﷺ کے دار ارقم میں تشریف لانے سے پہلے لوگوں کی ایک جماعت مسلمان ہو چکی تھی. اب نماز دار ارقم میں ادا ہونے لگی، نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وہیں پر نماز پڑھاتے، وہیں بیٹھ کر عبادت کرتے اور مسلمانوں کو دین کی تعلیم دیتے. اس طرح تین سال گزر گئے. پھر اللہ تعالٰی نے آپ کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم فرمایا. اعلانیہ تبلیغ کی ابتدا بھی دار ارقم سے ہوئی، پہلے آپ یہاں خفیہ طور پر دعوت دیتے رہے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے سورہ الشعراء میں آپ کو حکم فرمایا.
اور آپ اپنے نزدیک کے اہل خاندان کو ڈرائیے.
یہ حکم ملتے ہی آپ کافی پریشان ہوئے. یہاں تک کہ آپ کی پھوپھیوں نے خیال کیا کہ آپ کچھ بیمار ہیں چنانچہ وہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آپ کے پاس آئیں . تب آپ نے ان سے فرمایا.
میں بیمار نہیں ہوں بلکہ مجھے اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو آخرت کے عذاب سے ڈراؤں . اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمام بنی عبد المطلب کو جمع کروں اور انہیں اللہ کی طرف آنے کی دعوت دوں .
یہ سن کر آپ کی پھوپھیوں نے کہا.
ضرور جمع کریں مگر ابو لہب کو نہ بلائیے گا کیونکہ وہ ہرگز آپ کی بات نہیں مانے گا.
ابو لہب کا دوسرا نام عبد العزی تھا. یہ آپ کا چچا تھا اور بہت خوبصورت تھا مگر بہت سنگدل اور مغرور تھا.
دوسرے دن نبی کریم ﷺ نے بنی عبد المطلب کے پاس دعوت بھیجی. اس پر وہ سب آپ کے ہاں جمع ہو گئے. ان میں ابو لہب بھی تھا. اس نے کہا.
یہ تمہارے چچا اور ان کی اولادیں جمع ہیں تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو ، اور اپنی بے دینی کو چھوڑ دو، ساتھ ہی تم یہ بھی سمجھ لو کہ تمہاری قوم میں یعنی ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ تمہاری خاطر سارے عربوں سے دشمنی لے سکیں ، لہذا اگر تم اپنے معاملے پر اڑے رہے تو خود تمہارے خاندان والوں ہی کا سب سے زیادہ فرض ہو گا کہ تمہیں پکڑ کر قید کر دیں ، کیونکہ قریش کے تمام خاندان اور قبیلے تم پر چڑھ دوڑیں ، اس سے تو یہی بہتر ہو گا کہ ہم ہی تمہیں قید کر دیں . اور میرے بھتیجے حقیقت یہ ہے کہ تم نے جو چیز اپنے رشتے داروں کے سامنے پیش کی ہے اس سے بد تر چیز کسی اور شخص نے آج تک پیش نہیں کی ہوگی. آپ نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی اور حاضرین کو اللہ کا پیغام سنایا. آپ نے فرمایا.
اے قریش. کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں .
آپ نے ان سے یہ بھی فرمایا.
اے قریش، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ.
وہاں صرف آپ کے رشتے دار ہی جمع نہیں تھے بلکہ قریش کے دوسرے قبیلے بھی موجود تھے، اس لیے آپ نے ان کے قبیلوں کے نام لے لے کر انہیں مخاطب فرمایا یعنی آپ نے یہ الفاظ ادا فرمائے.
اے بنی ہاشم، اپنی جانوں کو جہنم کے عذاب سے بچاؤ.... اے بنی عبد شمس، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاو، اے بنی عبد مناف، اے بنی زہرہ، اے کعب بن لوی، اے بنی مرو بن کعب، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اے صفیہ، محمد کی پھوپھی، اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ.
ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ الفاظ بھی فرمائے.
نہ میں دنیا میں تمہیں فائدہ پہنچا سکتا ہوں نہ آخرت میں کوئی فائدہ پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں . سوائے اس صورت کے کہ تم کہو لا الہ الا اللہ. چونکہ تمہاری مجھ سے رشتہ داری ہے اس لیے اس کے بھروسے پر کفر اور شرک کے اندھیروں میں گم نہ رہنا.
اس پر ابو لہب آگ بگولہ ہو گیا. اس نے تلملا کر کہا.
تو ہلاک ہو جائے. کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا.
پھر سب لوگ چلے گئے

☆☆☆
جاری ہے ۔۔۔۔۔!

*مصنف : عبداللہ فارانی*
*کتاب : سیرت النبی ﷺ قدم بہ قدم*

Address

Kamalia

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when HAQ SUCH حق سچ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category