BAAM News

BAAM News Baam News is the famous and one of the most credible Facebook and YouTube News channels of Pakistan.

:یوسف مستی خان: جدوجہد اور مزاحمت کی علامت ۔۔۔خاصخیلی لطیف راولاڻي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کے فریم ورک میں سیاست کرنے والے سن...
27/09/2025

:
یوسف مستی خان: جدوجہد اور مزاحمت کی علامت
۔۔۔خاصخیلی لطیف راولاڻي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے فریم ورک میں سیاست کرنے والے سندھ اور بلوچستان کے رہنماؤں میں سے، جنہوں نے پوری زندگی وفاق میں رہ کر اپنی مظلوم عوام کے لیے جدوجہد کی اور آخری دم تک اپنے موقف اور نظریے پر سچے رہے، ان جدوجہد اور مزاحمتی کرداروں میں کامریڈ یوسف مستی خان بھی شامل تھے۔ انہوں نے ملکی سیاست کے دوران ملکی پارٹیوں میں رہتے ہوئے بھی اپنی مظلوم عوام کے حقوق کی بات کی۔
انہوں نے اپنے طالب علمی کے دور میں سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) سے کیا، اور بعد میں کمیونسٹ رہنماؤں کے ساتھ مل کر "دنیا کے مزدور ایک ہو جاؤ" کے نعرے اور جدوجہد کے تحت اپنا سفر جاری رکھا، جو ان کی وفات تک قائم رہا۔ سندھ میں کوئی بھی تحریک چلتی تھی تو وہ اس کا حصہ بن جاتے تھے۔ وہ ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کی تحریک میں پیش پیش تھے اور انہوں نے گرفتاری بھی دی تھی۔
حالانکہ وہ ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن انہوں نے سیاست نچلے طبقے کے مظلوم لوگوں کے ساتھ مل کر کی۔ جب لاہور میں مختلف نظریات کی پارٹیوں نے ایک پلیٹ فارم اور ایک جھنڈے کے تحت سیاست کرنے کا فیصلہ کیا، تو انہوں نے اس فیصلے کو درست سمجھتے ہوئے اس میں شمولیت اختیار کر لی، اور ملک میں بائیں بازو کی نئی پارٹی عوامی ورکرز پارٹی (AWP) وجود میں آئی، جس کے سربراہ فانوس گجر منتخب ہوئے۔ کچھ عرصے بعد مرکزی صدر فانوس گجر کی وفات ہوئی تو اکثریتی رائے سے یوسف مستی خان کو عوامی ورکرز پارٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
سندھ میں بحریہ ٹاؤن اور دیگر زیادتیوں اور غیر مقامی لوگوں کی آبادکاری کے خلاف ملیر میں انڈیجنس رائٹس الائنس تشکیل دیا گیا تو انہوں نے اس کی قیادت کی۔ ملیر میں خاص طور پر سید خداداد شاہ اور ان کی پارٹی کے ملیر کے رہنما جمال ناصر بلوچ ایڈووکیٹ کے گھر پر ان کی باقاعدہ بیٹھکیں ہوتی تھیں، جس میں وہ شریک ہوتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بلوچ قوم پرست تحریک کی جدوجہد کا ایک مزاحمتی کردار بھی تھے۔
وہ بیماری کی حالت میں بھی جلسے جلوسوں کی قیادت کرتے تھے۔ جب ملیر میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف جام گوٹھ سے ملیر سٹی تک ایک شاندار ریلی نکلی تو وہ بیمار ہونے کے باوجود اس تاریخی ریلی میں شریک ہوئے۔ ان کی خدمات اور کارنامے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ جب بھی جدوجہد اور مزاحمت کی تاریخ لکھی جائے گی تو ان کا نام سرفہرست ہوگا۔ ایسی نہ بھولنے والی شخصیات ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتی ہیں۔
حال ہی میں ملیر کے اہم مسئلے ملیر ایکسپریس وے کے خلاف، جس کا منصوبہ ڈیفنس سے ملیر ندی کے دونوں کناروں سے بحریہ ٹاؤن تک منظور ہوا تھا، اور جس سے سینکڑوں گاؤں متاثر ہوتے، انہوں نے اس کے خلاف اٹھ کر جدوجہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے بلوچ متحدہ محاذ بنا کر اس کی قیادت کی، جس کے کئی مظاہرے کیے گئے۔ آخرکار حکومت کو جھکنا پڑا اور گاؤں کو بچانے کے لیے ملیر ایکسپریس وے کا نقشہ تبدیل کیا گیا، جس سے کافی گاؤں ٹوٹنے سے بچ گئے۔ وہ مسلسل جدوجہد کی علامت تھے۔ ان کے کارناموں اور جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
سیاسی لوگوں کے لیے یہ سب سے بڑا اعزاز ہوتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوں، انہیں خراج تحسین پیش کریں اور ان کے چھوڑے ہوئے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اب مختلف مکاتبِ فکر کے لوگوں، سیاسی، سماجی رہنماؤں، صحافیوں اور لکھاریوں نے ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم کیا ہے۔ ملیر کے رہائشی، لکھاری اور صحافی ریاض بلوچ نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ ان کی وفات کے دن کو یاد کیا جائے اور اس دن ہر سال تقاریب منعقد کی جائیں تاکہ ان کی زندگی اور جدوجہد کا باب بند ہونے سے بچایا جا سکے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ سیاست میں کچھ شخصیات باقاعدہ تحریک ہوتی ہیں، اور وہ چلتی پھرتی تنظیم ہوتی ہیں۔ دوسری خاص بات جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے کہ زندہ آدمی کی اہمیت کم ہوتی ہے، جبکہ مرنے کے بعد اسے باقاعدگی سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کے دن بھی منائے جاتے ہیں۔
کہیں ہوتی حیات، موت اس کی
کوئی موت حیات ہوتی ہے۔
[email protected]

معروف بلوچ ترقی پسند سیاسی رہنماء مرحوم یوسفمستی خان کی یاد میں عوامی ورکز پارٹی کراچی کے زیراہتمام کل 28 ستمبر بروز اتو...
27/09/2025

معروف بلوچ ترقی پسند سیاسی رہنماء مرحوم یوسفمستی خان کی یاد میں عوامی ورکز پارٹی کراچی کے زیراہتمام کل 28 ستمبر بروز اتوار شام چار بجے جلسہ منعقد کیا گیا ہے ۔ جسمیں ان زندگی اور جدوجہد پر اظہار خیال کیا جائے گا ۔جگہ حاجی مراد گوٹٹھ ۔

21/09/2025

سابق ہونین کونسل تھانو میں واقع اولڈ تھانہ، ملیر پیراڈائز، بتوگوٹھ ،حاجی شمبے گوٹھ، سمو گوٹھ شفیع گوٹھ حاجی مراد جعفر اور حاجی میانداس گوٹھ گذشتہ چارروز اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں کے الیکٹک نے پورے گاوں کی بجلی سپلائی معطل کردی۔ پانی کی فراہمی بند ۔ کوئیپرسان حال نہیں ۔

21/09/2025

کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام کراچی کے قدرتی آبی گذرگاہوں پر رکاوٹیں اور اس کے اثرات کے موضوع پر مکامہ

14/09/2025

بہت بہت شکریہ تمام کرم فرماوں کا جو بام نیوز پر اعتماد کرتے ہیں اور فالو کرکے اپنا رد عمل دیتے ہیں !

سندہ فٹبال ایسوسی ایشن کےصدر محمد اعظم خان اے ایف سی کی مارکیٹنگ کمیٹی کے رکن نامزدکوالالمپور (اسپورٹس ڈیسک) : ایشین فٹب...
12/09/2025

سندہ فٹبال ایسوسی ایشن کےصدر محمد اعظم خان اے ایف سی کی مارکیٹنگ کمیٹی کے رکن نامزد

کوالالمپور (اسپورٹس ڈیسک) : ایشین فٹبال کنفیڈریشن (AFC) کی ایگزیکٹو کمیٹی نے پاکستان فٹبال فیڈریشن (PFF) سے تعلق رکھنے والے محمد اعظم خان کو اے ایف سی کی مارکیٹنگ کمیٹی کا رکن نامزد کر دیا ہے۔ یہ تقرری 2023 سے 2027 کی باقی مدت کے لیے ہوگی۔

اے ایف سی کے جنرل سیکریٹری داتوک سری ونڈسر جان کی جانب سے 12 ستمبر 2025 کو جاری کیے گئے خط میں بتایا گیا ہے کہ کمیٹی، ایگزیکٹو کمیٹی کو مارکیٹنگ پالیسیوں اور حکمتِ عملیوں پر مشاورت فراہم کرے گی۔ خط میں مزید کہا گیا کہ محمد اعظم خان کا تجربہ اور مہارت کمیٹی کے چیئرمین اور دیگر اراکین کے لیے انتہائی معاون ثابت ہوگا۔

اے ایف سی نے اعظم خان سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی نامزدگی کی باضابطہ تصدیق 19 ستمبر 2025 تک جمع کرائیں۔

11/09/2025

کراچی ۔ حالیہ بارشیں حقیقیت اور معلومات کی کمی
تحریر : ابو شہداد
کراچی میں حالیہ بارشوں کے بعد حسب روایت میڈیا اور حکومت نے ایک ہنگامی صورتحال کا نقشہ کھینچا، مگر زمینی حقائق اس سے خاصے مختلف تھے۔ کراچی میں تقریباً 38 بڑے اور 500 سے زائد چھوٹے نالے ہیں جو برساتی پانی کو سمندر تک لے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑے دو قدرتی گزرگاہیں لیاری ندی اور ملیر ندی ہیں۔ لیاری ندی کا کیچمنٹ ایریا 700 مربع کلومیٹر جبکہ ملیر ندی کا کیچمنٹ ایریا 2000 مربع کلومیٹر سے زائد ہے۔ اسی تناظر میں مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ “اب بھی بارش زوروں سے جاری ہے اور لیاری ندی کی صورتحال تشویشناک ہے۔ یہ اس وقت بالکل دریا کی طرح بہہ رہی ہے۔” ان کے اس بیان پر شہریوں نے طنزیہ ردعمل دیا اور سوال اٹھایا کہ آخر ندی ندی کی طرح ہی بہے گی تو اسے غیرمعمولی کیوں سمجھا جا رہا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ ان بارشوں میں شہر کے ندی نالوں میں کسی اونچے یا درمیانی درجے کے سیلابی ریلے نہیں آئے۔ زیادہ تر جگہوں پر پانی معمول کے مطابق ہی رہا۔ ہاں، لیاری ندی ضرور ایک طویل عرصے بعد بھر کر بہی، مگر یہ بھی فطری بہاؤ کا حصہ ہے۔ دوسری جانب ملیر ندی میں پانی کا بہاؤ 2020 جیسی سطح تک بھی نہیں پہنچا۔ اگر اتنا بڑا ریلا آجاتا تو صورتحال یقیناً خطرناک ہوتی اور زیر تعمیر ملیر ایکسپریس وے اس دباؤ کو برداشت نہ کر پاتا۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پانی کے راستے میں جب تجاوزات ہوں گی تو نقصان بھی ہوگا اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث مزید بارشوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ موقف کسی حد تک درست ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملیر ندی کے اندر شاہراہ بھٹو کی تعمیر تجاوزات اور ماحولیاتی نظام کی تباہی کی کھلی مثال نہیں؟ حکومت ایک طرف ماحولیاتی تبدیلی کا رونا روتی ہے تو دوسری طرف اپنے ہی منصوبوں سے ماحول کو مزید نقصان پہنچا رہی ہے۔
میڈیا کی حالت تو یہ ہے کہ کراچی کے ایک کثیرالاشاعت اخبار کی ایک رپورٹ میں تو یہ بھی لکھا گیا کہ تھدو ڈیم بھرنے سے لیاری اور ملیر ندی بپھر گئیں ۔اور اسی معنوں کے ساتھ وزیر اعلی کا بیان بھی سامنے آیا تھا یہ دعویٰ جغرافیائی طور پر غلط ہے کیونکہ تھدو ڈیم براہ راست ان دونوں ندیوں کے بہاؤ میں شامل نہیں۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ قائدآباد پل کے قریب تھدو ندی ملیر ندی سے جاملتی ہے اور وہ پانی کے بہاؤ کو بڑھا دیتی ہے۔ اس طرح کے جغرافیائی ابہام اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ نہ حکومت اور نہ ہی میڈیا کو شہر کے جغرافیہ کا درست ادراک حاصل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی بارشوں میں غیرمعمولی کیفیت کم اور بیانیاتی سیاست زیادہ ہے۔ اصل مسئلہ ندی نالوں پر قائم تجاوزات، حکومتی منصوبہ بندی میں ماحولیاتی اصولوں کی خلاف ورزی اور میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ ہے۔ اگر واقعی شہر کو مستقبل میں بچانا ہے تو قدرتی بہاؤ کو تسلیم کرتے ہوئے ندی نالوں کے راستے بحال کرنے ہوں گے، ماحولیاتی تباہی سے گریز کرنا ہوگا اور ندی نالوں پر قائم آبادیوں کے لیے منظم اور محفوظ متبادل فراہم کرنے ہوں گے۔

لٹھ ڈیم اور تھدھو ڈیم کے اوور فلو سے پانی موٹر وے سے ہوتا ہوا سعدی ٹاؤن میں داخل ہوا، وزیراعلی سندہ یک نشد دو شد یہ حال ...
10/09/2025

لٹھ ڈیم اور تھدھو ڈیم کے اوور فلو سے پانی موٹر وے سے ہوتا ہوا سعدی ٹاؤن میں داخل ہوا، وزیراعلی سندہ
یک نشد دو شد یہ حال کراچی کے تمام دعویداران کی ۔ وزیر اعلی کو بھی نہیں معلوم کہ تھدو ڈیم کا پانی کس ندی میں جاتا ہے ۔ اتنا تو معلوم ہو ان کو تھڈو ڈیم تھدو ندی پر بنا ہے تو اس کا پانی تھدو ندی میں جا تا ہے اس کا لٹھ ندی میں کیاکام ۔

10/09/2025

جام گوٹھ کے مقام پر شاہراہ بھٹو کس طرح خش و خاشاک بن کر بہہ رہا ہے، ذرا ملاحظہ کیجئے۔"

10/09/2025

دس ستمبر کی درمیانی شب کو تھدو ندی کا پانی پرانا شفیع گوٹھ کے گھروں کے سامنے ۔

کراچی کے دعویدار اور جغرافیے کی لاعلمیت تحریر : ابو شہداد کراچی کو پاکستان کا دل اور سب سے بڑا شہر کہا جاتا ہے۔ ۔ یہ شہر...
10/09/2025

کراچی کے دعویدار اور جغرافیے کی لاعلمیت
تحریر : ابو شہداد
کراچی کو پاکستان کا دل اور سب سے بڑا شہر کہا جاتا ہے۔ ۔ یہ شہر سیاست، معیشت، میڈیا اور طاقت کے ہر بڑے دعوے دار کا مرکز ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو حلقے کراچی پر دعویٰ کرتے ہیں اور روزانہ اس کے مسائل پر بولتے یا لکھتے ہیں، انہیں کراچی کے بنیادی جغرافیے کی بھی درست معلومات نہیں۔ اس کی تازہ مثال ایک کثیرالاشاعت اخبار میں شائع ہونے والی خبر ہے جس میں لکھا گیا کہ "تھدو ڈیم بھرنے کے بعد ملیر اور لیاری ندیان بیھرج گئیں۔"
یہ خبر سننے میں سنسنی خیز لگتی ہے لیکن جغرافیائی اعتبار سے ایک سنگین غلطی ہے۔ تھدو ندی دراصل ملیر ندی میں شامل ہوتی ہے، خاص طور پر قائدآباد کے پل کے قریب۔ تھدو ڈیم کے بھرنے کے بعد پانی براہِ راست ملیر ندی میں اور نہ کہ لیاری ندی میں داخل ہوتا ہے بلکہ تھدو ڈیم کا پانی تھدو ندی میں ہی آتا ہے۔ لیاری ندی کا اپنا علیحدہ کیچمنٹ ایریا ہے جو بالکل مختلف پہاڑی سلسلوں سے نکلتا ہے۔ دونوں ندیوں کو ایک ساتھ ملا دینا یا ان کے بہاؤ کو آپس میں جوڑ دینا لاعلمی اور غفلت کی نشانی ہے۔
یہ صرف ایک مثال ہے، ورنہ کراچی کی جغرافیائی حقیقتوں سے لاعلمی کا یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔ اکثر میڈیا رپورٹس میں بارشوں کے بعد یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ گویا پورا شہر ایک ہی ندی یا نالے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حالانکہ کراچی کے ندی نالے الگ الگ کیچمنٹ ایریاز اور بہاؤ کے نظام رکھتے ہیں۔ ملیر ندی، لیاری ندی، حب ڈیم، ٹھڈو ڈیم اور دیگر برساتی نالے، سب کا اپنا اپنا نظام ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جب میڈیا کے نمائندے، تجزیہ نگار اور حتیٰ کہ سیاست دان بھی کراچی کے جغرافیے سے نابلد ہوں تو پھر شہری مسائل کا درست تجزیہ اور ان کا حل کیسے پیش کریں گے؟ یہی لاعلمی عوام میں کنفیوژن پیدا کرتی ہے، غلط فیصلوں کو جنم دیتی ہے اور انتظامیہ کو جواب دہ بنانے کے بجائے اصل حقائق کو دھندلا دیتی ہے۔
کراچی کے دعویدار اگر واقعی اس شہر کے خیرخواہ ہیں تو انہیں سب سے پہلے اس شہر کے جغرافیے، آبی گزرگاہوں، ندی نالوں اور قدرتی نظام کو سمجھنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، ان کے بیانات اور خبروں کی حیثیت محض دعووں اور سنسنی خیزی سے زیادہ نہیں ہوگی۔

Address

Karachi Lines
75050

Telephone

+923212625537

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when BAAM News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share