
27/09/2025
:
یوسف مستی خان: جدوجہد اور مزاحمت کی علامت
۔۔۔خاصخیلی لطیف راولاڻي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے فریم ورک میں سیاست کرنے والے سندھ اور بلوچستان کے رہنماؤں میں سے، جنہوں نے پوری زندگی وفاق میں رہ کر اپنی مظلوم عوام کے لیے جدوجہد کی اور آخری دم تک اپنے موقف اور نظریے پر سچے رہے، ان جدوجہد اور مزاحمتی کرداروں میں کامریڈ یوسف مستی خان بھی شامل تھے۔ انہوں نے ملکی سیاست کے دوران ملکی پارٹیوں میں رہتے ہوئے بھی اپنی مظلوم عوام کے حقوق کی بات کی۔
انہوں نے اپنے طالب علمی کے دور میں سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) سے کیا، اور بعد میں کمیونسٹ رہنماؤں کے ساتھ مل کر "دنیا کے مزدور ایک ہو جاؤ" کے نعرے اور جدوجہد کے تحت اپنا سفر جاری رکھا، جو ان کی وفات تک قائم رہا۔ سندھ میں کوئی بھی تحریک چلتی تھی تو وہ اس کا حصہ بن جاتے تھے۔ وہ ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کی تحریک میں پیش پیش تھے اور انہوں نے گرفتاری بھی دی تھی۔
حالانکہ وہ ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن انہوں نے سیاست نچلے طبقے کے مظلوم لوگوں کے ساتھ مل کر کی۔ جب لاہور میں مختلف نظریات کی پارٹیوں نے ایک پلیٹ فارم اور ایک جھنڈے کے تحت سیاست کرنے کا فیصلہ کیا، تو انہوں نے اس فیصلے کو درست سمجھتے ہوئے اس میں شمولیت اختیار کر لی، اور ملک میں بائیں بازو کی نئی پارٹی عوامی ورکرز پارٹی (AWP) وجود میں آئی، جس کے سربراہ فانوس گجر منتخب ہوئے۔ کچھ عرصے بعد مرکزی صدر فانوس گجر کی وفات ہوئی تو اکثریتی رائے سے یوسف مستی خان کو عوامی ورکرز پارٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
سندھ میں بحریہ ٹاؤن اور دیگر زیادتیوں اور غیر مقامی لوگوں کی آبادکاری کے خلاف ملیر میں انڈیجنس رائٹس الائنس تشکیل دیا گیا تو انہوں نے اس کی قیادت کی۔ ملیر میں خاص طور پر سید خداداد شاہ اور ان کی پارٹی کے ملیر کے رہنما جمال ناصر بلوچ ایڈووکیٹ کے گھر پر ان کی باقاعدہ بیٹھکیں ہوتی تھیں، جس میں وہ شریک ہوتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بلوچ قوم پرست تحریک کی جدوجہد کا ایک مزاحمتی کردار بھی تھے۔
وہ بیماری کی حالت میں بھی جلسے جلوسوں کی قیادت کرتے تھے۔ جب ملیر میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف جام گوٹھ سے ملیر سٹی تک ایک شاندار ریلی نکلی تو وہ بیمار ہونے کے باوجود اس تاریخی ریلی میں شریک ہوئے۔ ان کی خدمات اور کارنامے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ جب بھی جدوجہد اور مزاحمت کی تاریخ لکھی جائے گی تو ان کا نام سرفہرست ہوگا۔ ایسی نہ بھولنے والی شخصیات ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتی ہیں۔
حال ہی میں ملیر کے اہم مسئلے ملیر ایکسپریس وے کے خلاف، جس کا منصوبہ ڈیفنس سے ملیر ندی کے دونوں کناروں سے بحریہ ٹاؤن تک منظور ہوا تھا، اور جس سے سینکڑوں گاؤں متاثر ہوتے، انہوں نے اس کے خلاف اٹھ کر جدوجہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے بلوچ متحدہ محاذ بنا کر اس کی قیادت کی، جس کے کئی مظاہرے کیے گئے۔ آخرکار حکومت کو جھکنا پڑا اور گاؤں کو بچانے کے لیے ملیر ایکسپریس وے کا نقشہ تبدیل کیا گیا، جس سے کافی گاؤں ٹوٹنے سے بچ گئے۔ وہ مسلسل جدوجہد کی علامت تھے۔ ان کے کارناموں اور جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
سیاسی لوگوں کے لیے یہ سب سے بڑا اعزاز ہوتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوں، انہیں خراج تحسین پیش کریں اور ان کے چھوڑے ہوئے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اب مختلف مکاتبِ فکر کے لوگوں، سیاسی، سماجی رہنماؤں، صحافیوں اور لکھاریوں نے ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم کیا ہے۔ ملیر کے رہائشی، لکھاری اور صحافی ریاض بلوچ نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ ان کی وفات کے دن کو یاد کیا جائے اور اس دن ہر سال تقاریب منعقد کی جائیں تاکہ ان کی زندگی اور جدوجہد کا باب بند ہونے سے بچایا جا سکے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ سیاست میں کچھ شخصیات باقاعدہ تحریک ہوتی ہیں، اور وہ چلتی پھرتی تنظیم ہوتی ہیں۔ دوسری خاص بات جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے کہ زندہ آدمی کی اہمیت کم ہوتی ہے، جبکہ مرنے کے بعد اسے باقاعدگی سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کے دن بھی منائے جاتے ہیں۔
کہیں ہوتی حیات، موت اس کی
کوئی موت حیات ہوتی ہے۔
[email protected]