
18/06/2022
یہ تصویر سن انیس سو کی نہیں بلکہ، دو ہزار بائیس کی سکر کی ہے ۔جہاں دنیا ترقی کے ایک ایسے مکام تک پہنچ چکی جہاں آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور جدید آلات کا استعمال عام ہے جبکہ پاکستان خصوصاً سندھ میں ترقی کا یہ عالم ہے کہ یہاں انسان ا ب بھی انیسویں صدی سے باہر نہیں نکلے اسکی وجہ صرف لاشعوری، کم علمی، بھوک ، مفلسی ہی نہیں بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ سیاست دان بھی ہیں ۔ پاکستان کو کبھی کوئی ایسا سیاستدان نصیب ہی نہیں ہوا جو پاکستان کے حقیقی مسائل کو سمجھ سکے ۔ جو بھی سیاستدان آیہ اس نے اپنے حکومتی عرصہ تک کا ہی سوچا ہے ،یہ جملہ بلکل غلط ہے کہ عمران خان آئے گا تو سب ٹھیک کر دے گا ی کوئی اور سیاستدان آکر سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ اس بات کا ہم اندازہ تب لگا سکتے ہیں جب ہم ترقی یافتہ ممالک کی طرف نظر دوڑاتے ہیں ۔ مثلاً امریکہ میں ایک عام انسان کی زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ صدر ٹرمپ ہے یا بائڈن عرض یہ کہ انکی معیشت دن بدن ترقی کی طرف ہی چلتی چلی جاتی ہے وہاں اگر دو حکومتوں میں فرق ہے تو صرف پالیسیوں کا فرق ہے ۔
ایک قوم تب تک کیسے ترقی کر سکتی جب تک اس اس قوم کو صرف تین وقت کی روٹی کمانے میں پوری زندگی لگا دیا گیا ہو ۔ ایسے ماحول میں کوئی بہی اس ملک کو ٹہیک نہیں کر سکتا اس ملک کی ترقی کی ضامن صرف اس ملک کی معیشت ہے جو کہ پیداوار بڑھانے سے مستحکم ہو سکتی ہے اور پیداوار تب تک نہیں بڑھ سکتی جب تک کہ ایک آدمی اس کشمکش سے باہر نہیں آجاتا کہ تین وقت کی روٹی کہاں سے لاؤں ۔ نیز یہ کہ ہر حکمران پاکستان کے حقیقی مسائل کو سمجھے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرے اور پاکستان کو انیسویں صدی سے باہر نکالے۔ it