Ejaz Hassan official

Ejaz Hassan official everything is possible

02/03/2023

❤️

03/02/2023

🙏

01/02/2023
‏جی یہ ایوارڈ بھی بابر اعظم کا ہواچاہتا ہے...بابر نے ان لوگوں کو بھی تعریف کرنے پر مجبور کردیا جو بابر کو کپتانی سے ہٹان...
26/01/2023

‏جی یہ ایوارڈ بھی بابر اعظم کا ہواچاہتا ہے...
بابر نے ان لوگوں کو بھی تعریف کرنے پر مجبور کردیا جو بابر کو کپتانی سے ہٹانے کا دعوی کرتے پھر رہے تھے 😉🇵🇰🙌😂
Congratulations once again kaptaan ‎

What a year for Babar Azam. He's been named as the ICC Men's Cricketer of the Year and the ICC Men's ODI Cricketer of th...
26/01/2023

What a year for Babar Azam. He's been named as the ICC Men's Cricketer of the Year and the ICC Men's ODI Cricketer of the Year

26/01/2023
15/12/2022

نصیب بے شک اللہ کے ہاتھ میں ہے
مگر دعاؤں کا اختیار اس نے ہمیں دیا ہے
اور دعائیں ہی تو ہیں
جو تقدیر بدلنے کی طاقت رکھتی ہے

15/12/2022

فحاشی کا مسئلہ

ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو۔ جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وه تو فحاشی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا…….سورہ نور 21

…….اور فحاشی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواه علانیہ ہوں خواه پوشیده….. سورہ انعام 151

خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور فحاشی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھ۔ سورہ نحل 90

یہ 3 بنیادی آیات ہیں جس میں اللہ نے واضع الفاظ میں فحاشی سے منع فرمایا ہے۔ اسکے علاوہ البقرہ 169 بھی دیکھ سکتے ہیں۔ غور کریں تو اس میں کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ فحاشی کہتے کس کو ہیں؟؟ کئی احادیث بھی ہیں مگر وہاں بھی کوئی تعریف نہیں بلکہ وعید ہی بیان ہوئی ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ زنا اور لواطت فحش کام ہیں،

اور زنا کے بھی پاس نہ جانا کہ وہ فحاشی اور بری راہ ہے، سورہ اسراء 32 ۔ سورہ نمل 54 میں فرمایا، اور لوط کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم فحاشی (کے کام) کیوں کرتے ہو اور تم دیکھتے ہو۔

ہر پڑھنے والا سمجھ لے گا کہ یہ آیات بھی فحاشی کی تعریف نہیں بیان کر رہیں بلکہ دو اعمال کو فحش قرار دے رہی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ فحاشی ہر ایسا عمل ہے جس سے زنا کا راستہ کھلے، جنسی جذبات ابھریں یا ہر وہ ذریعہ جس سے ان جذبات کی تسکین کا غیر شرعی راستہ ڈھونڈا جائے۔
اس تعریف پر کوئی اعتراض نہیں مگر اسکی عملی شکل کیا ہوگی؟؟ یہ سوال ہے۔

کوئی بھی بلیو فلموں، بوس و کنار، بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کے رشتے، ناچ گانا وغیرہ کو فحش ہی مانے گا۔ مگر عام زندگی، روزمرہ کی میل جول، آفس فیکٹری کھیت کھلیان اور تعلیمی اداروں میں جو زندگی دوڑتی بھاگتی ہے اس میں فحاشی کا معیار کیا ہوگا؟ اسکا ذمہ دار عورت ہے یا مرد؟

عام طور سے اسکا ذمہ دار عورتوں کو اور انکے کپڑوں کو بنایا جاتا ہے۔ مگر یہ درست نہیں ہے کیونکہ مغربی ممالک میں کپڑے نا ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور وہاں پر ریپ بہت کم ہیں۔ہم کو بتایا جاتا ہے کہ ہر 5 منٹ میں امریکہ میں ریپ ہوتا ہے۔ یہ آدھا سچ ہے، “جنسی ہراساں” کیا جاتا ہے ہر 2-4 منٹ میں جس میں چھونا، لپٹنا ، دھکا دینا، چومنا وغیرہ شامل ہیں، امریکہ میں 43.6% خواتین اور 24.8 % مرد کسی طور کی جنسی ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں۔

سب سے زیادہ ریپ کی شرح افریقی ممالک میں ہے، اسکا تعلق غربت اور جہالت سے بہت زیادہ اور عورتوں کے کپڑوں سے بہت کم سامنے آیا ہے۔ غریب ترین اور پسماندہ ترین ملکوں میں جنسی جرائم سب سے زیادہ ہیں۔ امریکہ میں سب سے زیادہ ریپ اسکی اسٹیٹ الاسکا میں ہوتا ہے۔ یہ اسٹیٹ سب سے سرد ہے اور یہاں عریانی نا ہونے کے برابر ہے موسم کی وجہ سے۔

ہمارے اپنے ملک میں دیکھیں تو اسکول اور مدارس جہاں جنسی اشتہا کو بڑھانے کا کوئی سامان نہیں ہوتا بلکہ پاکیزگی کا ماحول ہوتا ہے، وہاں بھی آئے دن جنسی جرائم ہوتے رہتے ہیں۔ عیسائیوں کے راہب بھی صدیوں چرچ میں جنسی استحصال کرتے رہے تمامتر روحانیت کی دعوؤں کے ساتھ۔جبکہ آسڑیلیا اور افریقہ میں جو جنگلی قبائل صدیوں سے آباد ہیں، ان کے ہاں ریپ کا تصور ہی ناپید ہے جبکہ وہ ننگ دھڑنگ رہتے ہیں۔ ثابت ہوا اصل مسئلہ عورتوں کا لباس نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔

یہ مسئلہ ذہنی ہے۔ اصل فحاشی ذہن میں ہوتی ہے۔ یہ ہمارا ذہنی رویہ ہوتا ہے جو ہم کو کسی بھی معمولی سی چیز میں فحاشی دکھاتا ہے، جنسی جذبات کو ابھارتا ہے اور ہمارے خیالوں کو آلودہ کرتا ہے۔ معصوم بچوں تک میں معصومیت کے بجائے جنسیت دکھائی دیتی ہے، پورے کپڑوں میں چھپی خواتین بھی چبھتی نظریں محسوس کرتی ہیں۔

کیونکہ ہمارا معاشرہ مرد کی فوقیت کا معاشرہ ہے اسی لیے فحاشی کا تعلق بھی مرد کی جنسیت کو ابھارنے والی چیزوں سے ہے۔ عورتوں کے لیے فحاشی کیا ہوسکتی ہے، اسکا کبھی خیال بھی نہیں آتا اور نہ اسکے لیے کوئی ضابطے بنائے جاتے ہیں۔ مرد چاہیں نیکر یا لنگی میں گھومیں، کوئی اعتراض نہیں۔ تمام بحث و مباحثہ عورتوں کے لباس، آمدورفت، آواز و انداز اور انکی تربیت کے بارے میں ہوتا ہے۔ یہ اتنا زیادہ بڑھا ہوا ہے کہ جیّد علما عورتوں کے سورہ یوسف پڑھنے کو بھی پسند نہیں کرتے کہ کہیں عورتوں کے اخلاق پر برا اثر نا پڑے۔ حالانکہ غض بصر کا حکم سورہ نور میں دونوں مردوعورت کو دیا گیا ہے۔

دوسری بات یہ کہ سماجی رویہ اور ماحول فحاشی کا دائرہ کار طے کرتا ہے۔ دیہات میں کھیتی باڑی کرنے والی، اینٹیں بنانے والی، پھل سبزی بیچنے والی یا گھریلو کام کاج والی عورتیں کوئی پردہ نہیں کرتیں۔ مگر اس سے ان کے ماحول کے مرد کی جنسی بھوک نہیں بڑھتی جبکہ مذہبی گھرانوں میں تو ہاتھ یا پاؤں دیکھ کر ہی ہیجان پیدا ہوجاتا ہے طبیعت میں۔

جب بھی پردہ کی بات ہوتی ہے تو وائٹ کالر جابز جیسے ڈاکٹر انجینئر پائلٹ کی مثال دی جاتی ہے۔ 60-80% عورتیں جو کام کرتیں ہیں ان کا ذکر نہیں ہوتا۔ کوئی بھی عالم دین نہیں بتاتا کہ پردہ ان خواتین پر کیسے واجب ہوگا؟ عملی صورت کیا ہوگی؟ کیا ہم بھی وہی کریں گے کہ کھاتی پیتی خواتین تو پردہ کریں اور غریب اور جاہل محنت کش خواتین نا کریں؟ شروع کی صدیوں میں لونڈیوں پر پردہ واجب نہیں تھا۔ کیوں نہیں تھا؟ یہ میں نہیں جانتا۔

ہم کیا کریں؟ کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ مردوعورت ننگے ہوجائیں مغرب کی طرح تاکہ سب کو سب کچھ دیکھنے کو ملے؟؟ ہرگز نہیں، یہ تو جانور بننا ہے۔

جنس کو ایک ضرورت سمجھیں، جنسی جذبہ ہو یا عمل یہ کوئی گناہ یا شرمناک فعل نہیں۔ یہ جو ہمارا کلچر ہے یہ اس تہذیب سے بالکل الگ ہے جس میں اسلام نازل ہوا۔ خلفاء راشدین کو ہی دیکھیں، حضرت ابو بکر نے 4 شادیاں کیں، حضرت عمر نے 8 اور حضرت عثمان و علی نے 9، 9 شادیاں کیں۔ اسلام نے اسی کیے نکاح و طلاق کے اتنے آسان احکامات دئیے ہیں کہ جنس، محبت و نفرت بہت ہی بنیادی اور فطری جذبات ہیں۔

فحاشی کبھی بھی عورت کو ملفوف کرنے سے کم نہیں ہوتی۔ لکھنؤ کی تہذیب جس کو مشرقیت کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے، وہاں مردوعورت کا دائرہ کار بالکل الگ تھا۔ اسی لیے اکثر مشاعروں میں مرد زنانہ لباس پہن کر شریک ہوتے تھے، طوائفیں بہت زیادہ عام تھیں، مردوعورت دونوں شدید ہم جنس پرستی میں مبتلا تھے۔ اسکی وجہ یہی تھی کہ جنسی جذبے کو گناہ، اخلاق سے گری ہوئی چیز بنا دیا گیا تھا۔اس جذبے نے اپنی تکمیل کی راہیں نکال لیں۔ ہم سے ہر انسان جو بلوغت سے گذرا ہے ، جانتا ہے کہ جیت بہرحال جنسی جذبے ہی کی ہوتی ہے۔

اگر ہم اپنے جذبات کو اپنی ضرورت سمجھیں نا کہ شیطان یا نفس کا دھوکہ اور اسکو پورا کرنے کے جائز ذرائع آسان بنائیں تو ہمارا جنسی ہیجان خودبخود کم ہوجائے گا۔ صرف عریانی ہی کو ہم فحاشی سمجھیں گے، پردے کے بارے میں شدت پسندی بھی اعتدال پر آجائے گی۔ واقعی اشتعال انگیز مواد ہی ہم کو فحش لگے گا۔ فحاشی معاشرے کے عمومی رویے سے کم ہوتی ہے، فتوؤں کانفرنسوں یا عبادات و وظائف کی کثرت سے یہ کبھی کم نا ہوگی۔

Address

Karachi

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00

Telephone

+923402085427

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ejaz Hassan official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share