urdu hon

urdu hon Telling stories through my lense

20/08/2023
02/08/2023

پاگل آنکھوں والی لڑکی
اشنال سید
قسط نمبر 21
لاسٹ ایپیسوڈ ✨

رخصتی کا دن آپہنچا....
کوئی اسے بیڈ روم کے دروازے تک چھوڑ گیا تھا جس کا مطلب تھا آگے اسے خود جانا تھا۔ ایک ہاتھ سے لہنگا تھامے دوسرے ہاتھ سے ہینڈل گھما کر وہ اندر داخل ہوئی۔

خوشبوؤں کا تیز جھونکا اسکے نتھنوں سے ٹکرایا،اس نے آنکھیں بند کیں،سانس کھینچ کر خوشبوؤں کو محسوس کیا، گیٹ لاک کرکے اس نےروم لائیٹس جلائیں تو اسکی آنکھیں پلکیں جھپکنے کا ہنر بھول گئیں۔

جہازی سائز بیڈ کے چاروں اطراف سفید کرٹنز کو ایک ایک کرکے باندھا گیا تھا،بیڈ کی پشت کوسفید، پنک گلابوں،پنک للی،وائیٹ للی کے پھولوں سے بینچ بنایا گیا تھا، جن کے بیچ جھالروں کی صورت کرسٹل کے شائنی اسٹارز اسے مسکراتے ہوئے ویلکم کر رہے تھے۔

بیڈ کے چاروں طرف لٹکتے سفید کرٹنز پر ڈیری ملک چاکلیٹس کو پنز کی مدد سے چپکایا گیا تھا، کمرے میں تازہ پھولوں کی خوشبو کا ایک طوفان تھا۔

بیڈ کے اوپر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پنک اور وائٹ للی فلاوربنچ رکھے تھے، جن کے اوپر بھی ڈیری ملک چاکلیٹس رکھی تھیں۔ وہ بیڈ روم کم چاکلیٹ لینڈ زیادہ لگ رہا تھا۔

بیڈ کے آگے منسلک لمبے سے کشن پر انگلیش حروف میں لکھا" جان شاہ" لائٹس کی مدد سے چمکیں مار رہا تھا۔
"ہائے اللہ میں صدقے۔"
وہ اپنے ہاتھ گالوں پر رکھے حیرت سے اپنے اس خوبصورت سے" ویڈنگ سرپرائز" کو دیکھ رہی تھی۔

کمرے میں فریش فلاورز کی خوشبو نے اننی مچائی ہوئی تھی۔
وہ دونوں ہاتھوں سے لہنگا سنبھالے بیڈ کے اوپر چڑھی، اور اپنے چاکلیٹ لینڈ کو ندیدوں کی طرح تکتی گول گول گھومنے لگی۔

پھر وہ اپنا لہنگا بیڈ پر پھیلا کر بیٹھی، ڈیری ملک اس کے سامنے ہو اور وہ صبر کر جائے، ناممکن۔ اس نے کرٹن کے ساتھ چپکے ڈیری ملک کی ایک کٹ علحیدہ کی اور اس کا ریپر اتارنے لگی۔

وہ ڈیری ملک کو اس قدر ندیدوں کی طرح کھاتی تھی کہ کچھ عرصے سے ڈیری ملک بھی اس سے چھپتی پھرتی تھی۔ ریپر اترتے ہی اس کے منہ میں ڈھیروں پانی بھر آیا، جسے اس نے بمشکل حلق سے اتارا اور اب بڑے مزے سے اسکوائر شیپ چاکلیٹ کے بائیٹ لینے لگی۔

شرم؟ نہیں بلکل نہیں۔
اسے ذرا شرم نہیں آئی۔ وہ جانتی تھی وہ عام لڑکی تھوڑی تھی، وہ اشنال سید تھی، چاکلیٹ کی دشمن، بلاشبہ ایک ندیدی دلہن۔
ایک پیکٹ سے اس کا دل کہاں بھرتا تھا، ابھی وہ ہاتھ دوسرے پیکٹ کو اتارنے کیلئے بڑھانے ہی لگی تھی کہ گھڑی نے ایک بجے کا الارم دیا۔

چاکلیٹ ملنے کی خوشی میں وہ یہ بھول ہی گئی تھی کہ وہ کہاں،کس کے روم میں کس کیلئے بیٹھی ہے۔
"شاہ!" وہ یاد آتے ہی اشنال نے اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ دئیے۔
"کیا ہی اچھا ہو کہ تم نا آؤ، کیا ہی اچھا ہو کہ میں ساری چاکلیٹس کھا سکوں۔"

اس نے نہایت افسردگی سے ڈیری ملک کو دیکھا۔
بیڈ کے وسط میں دلہن بنی بیٹھی اشنے کا دل جیٹ طیارے کی طرح شور کر رہا تھا، اضطراب میں آدھی سے زیادہ لپ اسٹک وہ ہونٹوں کو دانتوں تلے کتر کتر چکی تھی۔

اسے بس یہی خوف کھائے جارہا تھا کہ نیلی آنکھیں اس کے سامنے ہوں گی اور وہ کیسے چھپے گی؟
اففففف........... اس نے جھرجھری لی.....
آہستہ آہستہ اسکا دماغ کام کرنے لگا اور پھر اس نے خود کو داد دی واقعی اشنال سید ایک جینیئس لڑکی تھی۔

یہاں گھڑی نے ڈیڈھ بجایا، وہاں دروازے کاہینڈل گھوما۔
اشنال کی جان ہوا ہوگئی، دل پتے کی طرح لرزنے لگا مگر اسے دماغ کو کام میں لانا تھا، اسکیم پر عمل پیرا ہونے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔

اس نے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر گھٹنوں پر رکھ دیا... اب اس کا چہرہ چھپ گیا تھا۔ کسی حد تک وہ نیلی آنکھوں سے محفوظ تھی۔
اندر داخل ہوتے شاہ کا استقبال بھی خوشبوؤں نے کیا، اس نے پکارا مگر وہ ٹس سے مس ناہوئی۔

"اشنے۔"وہ پھر بھی نہیں ہلی۔
شاہ نے اس کے کاندھے کو چھوا تو وہ کرنٹ کھا کر اوپر کوہوئی، اور آنکھیں بند کئے سر کو مسلتی رہی۔
آر یو اوکے؟" وہ اس سچویشن کیلئے ہرگز تیار نا تھا، گھبرا گیا۔
میرے سر میں درد ہے۔"

میڈیسن لی...؟
جی لے لی ہے۔" اس نے ابھی بھی نیلی آنکھوں میں نہیں دیکھا تھا۔
شاہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا،وہ کیا کرے، یہ سب اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا اشنال نے ریکوئسٹ کی۔

"شاہ میں چینج کر آؤں؟"
"چینج؟"
"اس کے سارے سامان نے میرے سر میں درد کر رکھا ہے۔" اس نے اپنی جیولری کی طرف اشارہ کیا۔
اس نے ایک نظر نیلی آنکھوں میں دیکھا جن میں ارمان ہی ارمان تھے، جن پر ابھی وہ پانی پھیرنے والی تھی، پھر فوراً ہی نظریں جھکا کر بولی۔

"آپ کہتے ہیں تو میں نہیں کرتی چینج۔"
پھر آنکھیں میچے درد کی شدت کو سہنے کے ڈرامے کرنے لگی.....
شاہ نے بےحد پیار سے اپنی معصوم سی دلہن کو دیکھا جسے درد کی شدت میں بھی اس کا کتنا خیال تھا۔ سرخ رنگ کے بھاری کامدار لہنگے پر بالوں کا خوبصورت سا ہئیر اسٹائل بنائے، ماتھے کو کور کی گئی چین والی بندیا، ناک میں گول سی نتھنی ، ہر قسم کے زیورات سے لدھی، وہ اس کے خوبصورت سے کمرے میں روشن سا جگنو بنی بیٹھی.....

گوکہ دل نہیں مان رہا تھا، وہ اسے فرصت سے دیکھنا چاہتا تھا،خواب کو حقیقت کے روپ میں روبرو پاکر تادیر اس میں زندہ رہنا چاہتا تھا۔
مگر یہ بھی سچ تھا کہ اسے خود سے زیادہ اس کی فکر تھی.....
" تم چینج کر آؤ۔"

بس یہ سننے کی دیر تھی وہ لہنگا اٹھا کر واش روم میں گھس گئی۔ اس کی واپسی ایک گھنٹے تک جب نہیں ہوئی تو شاہ پریشان ہو گیا اور واش روم کا گیٹ ناک کرکے پوچھا۔
"اشنے آر یو اوکے؟"
اندر سے مری مری سی جی جی آواز آئی، کچھ بھی تھا اسے باہر تو نکلنا تھا۔

لہنگا بازو پر رکھے وہ واش روم سے نکلی تو وہ نیلی آنکھیں تیزی سے اسکی طرف بڑھیں، شاہ نے اس کے ہاتھ سے لہنگا لے کر صوفے پر رکھا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ اس کی نیلی آنکھوں کے ہوتے سو کیسے سکتی تھی؟

وہ تذبذب کے عالم میں بیڈ کے قریب کھڑی رہی جب اسے واش روم کا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ اس نے شکر کے کلمے پڑھے،اور بیڈ کنارے لیٹ کر کمبل میں چھپ گئی۔
شاہ واش روم سے نکل کر اب اس کے پاس آرہا تھا۔

پھر وہ اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھا اور اس کے سر کو اپنے مضبوط ہاتھوں سے دبانے لگا۔
"میں کچھ سناتا ہوں تمہیں اس سے ضرور آرام آئے گا...."
پھر وہ اپنی آواز میں سورۃ یسین سنانے لگا۔
ایک بار اس نے سوچا کہ وہ شاہ کے ساتھ غلط کر رہی ہے،مگر وہ پھر ریلکس ہو گئی.....
بلاشبہ اسکی آواز بہت خوبصورت تھی....
اس کی آواز میں قرات سنتے سنتے اس کی آنکھ لگ گئی...

________________________

ولیمے کی تقریب کے بعد ہوٹل سے گھر پہنچتے رات کافی گہری ہو گئی تھی۔ وہ دونوں ساتھ ہی روم میں انٹر ہوئے تھے، اشنال مصنوعی ہتھیار سے خود کو آزاد کران ڈریسنگ ٹیبل کی طرف جانے لگی تھی کہ پیچھے سے شاہ کی آواز نے اس کا تراہ نکال دیا۔

"اشنے چھپکلی۔"
ایک زور دار چیخ کے ساتھ اس نے بیڈ پر چھلانگ لگائی۔ اب وہ بیڈ پر چڑھی خوفزدہ آنکھوں سے منہ پر ہاتھ رکھے چھپکلی کو ڈھونڈ رہی تھی۔ شاہ کی ہنسی کا پھوارا قہقہ کی صورت نکلا۔

وہ سلور کلر کے بھاری سیلور کام دار لہنگے میں ولیمے کی برائیڈ بیڈ پر خوفزدہ سی کھڑی تھی۔
"کہاں ہے چھپکلی؟"
اس کا سانس پھول چکا تھا، وہ چھپکلی سے اتنا ہی ڈرتی تھی کہ جتنا شاہ سے.....
"آئینے میں، نظر نہیں آئی...."

بلیو رنگ کے تھری پیس سوٹ میں،ہئیر اسٹائل کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود یوں لگتا جیسے ابھی بنایا گیا ہو، ولیمے کا گروم قہقہے لگاتے ہوئے۔

یہ مذاق تھا؟" اشنال نے کھڑے کھڑے کمر پر ہاتھ رکھ کر گھوری دی۔
آپ نے سنا میں نے کہا ہوکہ چھپکلی ہے؟ میں نے اشنے چھپکلی کہا تھا..."
شااااااااہ......" اس نے دانت پیسے۔
"جی جان شاہ۔"
شاہ محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے، وہ اسے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کمر پر ہاتھ رکھے گھوری رہی تھی اورشاہ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہنستے دہرا ہورہا تھا۔

" بہت خراب ہیں آپ۔" اشنے نے کلائی پر بندھا گجرا اتار کر شاہ کو دے مارا۔ جو شاہ نے انتہائی آسان سا باونڈری کیچ سمجھ کر کیچ کر لیا۔

پچھلے ایک سال سے کوئی لاکھ کروڑ بار سن چکا ہو کہ بہت خراب ہوں میں لیکن آج میں تمہیں بتاؤں گا کہ واقعی میں کس حد تک خراب ہوں۔" وہ معنی خیزی میں کہتا ہوا بیڈ کی جانب بڑھا۔ اشنے کی چھٹی حس حرکت میں آئی اور وہ فوراً لہنگا دونوں ہاتھوں میں تھامے بیڈ کے دوسری طرف اتر گئی۔

دیکھیں شاہ اگر آپ نے مجھے تنگ کیا تو..."
"تو۔۔۔؟"
"تو میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔" وہ بیڈ پر بیٹھی دونوں ہاتھوں سے سر کو تھام کر کرا ہنے لگی۔
"ڈرامے باز لڑکی۔" وہ بیڈ کے دوسری سائیڈ سے اس تک پہنچا مگر وہ چھلانگ لگا کر دوبارہ بیڈ پر چڑھ گئی۔

"شاہ میں بابا کو آواز دے رہی ہوں، انسان بن جائیں۔"
اشنے نے اسے ڈرانا چاہا...
"کل بھی میرے ساتھ ڈرامہ کیا تھا نا تم نے؟ کس قدر معصوم ہوں میں تمہارے ڈراموں میں آجاتا ہوں۔ اور یہ بابا کی تڑیاں دینے کا کوئی فائدہ نہیں، وہ میرے بابا ہیں، ایک بار سوگئے تو ڈھول لیکر سر پر کھڑی ہوجاؤ نہیں اٹھنے والے۔

شاہ کو چکر دے رہی ہو میسنی...."
"ہااااااو آپ نے مجھے میسنی کہا۔"
وہ دونوں گالوں پر ہاتھ رکھے ڈرامائی انداز میں آنکھیں پھاڑنے لگی.....
ذرا ترس نہیں آیا مجھ پر، ہائے شاہ بیچارہ جان شاہ کے ہاتھوں الو بن گیا......
مگر اب اور نہیں....."
وہ جارحانہ انداز میں آگے بڑھا اور اس کا لمبا دوپٹہ تھام کر اس کی جائے فرار مسدود کر دی۔

اب وہ مکمل طور پر شاہ کے رحم و کرم پر تھی.....
"شاہ-"
"جی جان شاہ۔"
"میرے سر میں واقع درد ہے۔" اب وہ بیڈ سے اتر کر کارپٹ پر بیٹھ گئی تھی.....
یہ تو طے تھا کہ فرار اب ممکن نا تھی....
"اشنے۔"
"شاہ آپ بھی میرا یقین نہیں کریں گے نا تو کسی دن سچ مچ مجھے کھو بیٹھیں گے...."
آنکھوں میں آنسو کی ہلکی سی لکیر نے شاہ کے دل کو سہما دیا تھا....

"اشنے چپ۔"
وہ اس کے پاس فرش پر بیٹھا، اور اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر اپنے گالوں پر رکھے....
پاگل آنکھوں والی لڑکی کے آنسوؤں کے آگے شاہ پھر ہار گیا.....
اور اگر اس کے بس میں ہوتا تو وہ سید سکندر شاہ کو اشنال سید کے صدقے وار کر پھینک دیتا.....

_____________________

رات کے کسی پہر جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خور کو کسی پہاڑ تلے دبا محسوس کیا....
شاہ کیپٹن ہونے کے ساتھ ساتھ باڈی بلڈر بھی تھا، جس کا اندازہ اسے آج ہوا تھا، شاہ کا سر اسکے کاندھے کو ٹچ کر رہا تھا وہ کسی جن کے قبضے میں ہے، نیلی آنکھوں والے جن کے۔

اس جن کا ایک بازو اٹھانا اشنال جیسی نازک تتلی کیلئے ناممکن تھا۔
وہ مسکرائی..... کیسا جن تھا جس کی قید میں رہ کر بھی نازک تتلی مسکرا رہی تھی۔
اس نے اپنی انگلیوں سے شاہ کے بالوں کو چھیڑا، جنہیں اس نے کبھی بےترتیب نہیں دیکھا تھا۔
وہ کہہ سکتی تھی بلاشبہ الجھے بالوں کے ساتھ بھی اس کی خوبصورتی کم نہیں ہوئی تھی، وہ واقعی بلا کا حسین تھا۔

اسکی پلکیں بہت لمبی تھیں وہ آج پہلی بار نوٹ کر رہی تھی، اسے کسی مصنوعی لیشز کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ پہلی بار شاہ کو غور سے دیکھ رہی تھی، اور ایسا وہ صرف شاہ کے سوتے میں ہی کر سکتی تھی۔

اس نے سراٹھا کر شاہ کو دیکھنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے وہ ذرا سا کسمسایا اور اپنا چہرا اس کی نیک بون پر رکھ دیا..... اس کا سانس کچھ دیر کو بند ہوا مگر پھر اس نے شاہ کے بالوں سے اٹھتی خوشبو کو سانسوں میں محسوس کیا۔ اور گنگنائی....

تو ملا ہے تو احساس ہوا مجھ کو
یہ میری عمر محبت کیلئے تھوڑی ہے..!

_______________________

یہ سالار زئی کی حویلی کا منظر تھا جہاں سے ابھی ایک چھوٹی سی ننھی روتی نکلی تھی، گھر کے اندر ایک پانچ سال کا بچہ فٹ بال سے کھیل رہا تھا، اور اس کی ماما اس سے پوچھ رہی تھیں.......

"بیٹا عنایا بیبی کیوں روئی ہیں، کیا کہا ہے آپ نے ان سے؟"
اور وہ پانچ سال کا بچہ لہجے میں بے پناہ بیزاریت لئے بولا۔
"ماما میں نے عنایا سے دوستی ختم کر دی ہے۔"
"مگر کیوں بیٹا؟"

" ماما عنایا گندی بچی ہیں، میں نے فریشے سے دوستی کر لی ہے۔" اب وہ فخر سے اپنا خیال بتا رہا تھا۔
گھر میں داخل ہوتے زئی نے اپنے بیٹے کا آخری جملہ سنا اور بیوی کو مسکراہٹ پاس کی۔ اس کی بیوی اسے دیکھتے ہوئے بولی۔
" بیٹا کس کا ہے۔"
وہ سالہ بچہ گردن اکڑائے بولا۔

"سالار زئی کا۔ اور اپنے بابا کے بازوؤں میں چھپ گیا۔
پورے گھر میں سالار زئی کا قہقہہ گونجا.....
شاید ٹھیک کہتے ہیں کچھ فیصلے زمین پر نہیں ہوپاتے، انہیں آخری دن کیلئے دکھ دیا جاتا ہے......
یا اولاد کے ذریعے اس کا مکافات عمل ہوتا ہے، اور شاید زئی کا مکافات عمل اس کے بیٹے کے زریعے ہونے والا تھا۔

_______________________

ایبٹ آباد شہر ختم ہوتے ہی ایک قبرستان آتا تھا، جس کے داخلی دروازے پر، آخری آرام گاہ کا بورڈ چسپاں تھا۔
عموماً قبرستان میں خاموشی ہوتی ہے مگر آج شب قدر کی شام تھی، شاید اسلئے بہت سارے لوگ اپنے پیاروں کی قبر پر پھول چڑھانے اور فاتحہ پڑھنے آئے تھے۔

پھولوں، اگر بتیوں کی خوشبو سارے قبرستان میں پھیلی تھی....
بہت ساری پکی، ماربل لگی قبروں کے بیچ ایک چھوٹی سے قبر تھی، دیکھنے والوں کو اس قبر پر لگی ننھی تتلی کا گمان ہوتا تھا....

ننھی قبریں تو اور بھی تھیں مگر اس قبر پر لگی تختی پر لکھا نام"پاگل آنکھوں والی لڑکی" لوگوں کو رک کراپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔ اس نام کی قبر شاید آج سے پہلے کبھی نہیں بنی تھی....

ابھی ابھی ایک کپل جاتے ہوئے اس قبر کے پاس ٹھہرا، قبر کی تختی پر لگی گرد جھاڑی..... قبر پر پڑے مرجھائے ہوئے پھولوں کو سمیٹ کر ان کی جگہ تازہ گلابوں کی سیج بچھا گیا۔

آج ہی نہیں یہاں سے گزرنے والے اکثر لوگ اس ننھی تتلی کی قبر پر پھول چڑھاتے اور فاتحہ خوانی کر جاتے تھے...
گورکن کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس قبر میں کسی مردہ انسان کا بیجان جسم نہیں بلکہ کسی زندہ انسان کی محبت کی باقیات دفنائی گئی تھی ....

وہ آج بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اگر ہر انسان اپنی محبت کی باقیات اسی طرح دفن کرتا رہے تو دنیا کی زمین باقیات محبت کے قبرستانوں کیلئے کم پڑ جائے.....

قبرستان کے بیچوں بیچ بنی ننھی قبر پر لگی "پاگل آنکھوں والی تختی" مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی.....
اور اچھی لڑکیاں اپنی قدر نہیں کرتیں، یہاں تک کہ وہ گلنے سڑنے لگتیں ہیں۔"

کچھ اشنال کی طرح گلنے سڑنے کے بعد شاہ جیسی محفوظ پناہ گاہوں میں آجاتی ہیں تو کچھ "پاگل آنکھوں والی لڑکی" طرح ایسی زندہ قبروں میں دفن ہوجاتی ہے....
کسی کو راستے مل جاتے ہیں تو کوئی دیر کردیتا ہے...
قبر کی تختی بول رہی تھی دیکھو۔
"میں پاگل آنکھوں والی لڑکی۔"

_______________________

"جان شاہ۔"
"جی کراں شاہ۔"
" یار میں مس کر رہا ہوں ان ٹیکسٹ میسجز کو، ریسور سے اٹھتی ان روٹھی روٹھی کالز کو اور خاص کر اس ٹوں ٹوں کال ڈسکنیکٹڈ کو...."

شاہ بیڈ پر آڑھا ترچھا لیٹا ہاتھ میں سیل فون گھماتے اشنے سے مخاطب تھا، جبکہ وہ خود ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی بالوں پر برش کر رہی تھی۔

" آئینے میں نظر آتے شاہ کے عکس کو دیکھ کر اس نے کچھ سوچا اور پلٹی۔
"شاہ آپ نے ڈریس چینج نہیں کرنا؟"
"کرتا ہوں۔" وہ اٹھا اور باتھروم میں بند ہوگیا۔ اشنے نے سیل اٹھایا اور چپکے سے روم سے باہر نکل گئی۔

کچھ دیر میں وہ شاور لیکر نکلا تو اسے غائب پاکر پریشان ہو اٹھا، بستر پر پڑا سیل پر شاہ کالنگ پر پہلے وہ مسکرائی، پھر گرین سرکل کو اوپر کی جانب پش کیا۔
"کہا ہو تم؟"
"گیسٹ روم میں۔" (بڑےمزے سے جواب دیا گیا)
"وااااٹ، گیسٹ روم میں، مگر کیوں؟ وہ چیخا۔

میں نے سوچا آپ میری ہر خواہش بن کہے پوری کر دیتے ہیں، تو مجھے بھی آپ کی اس خواہش کو پورا کرنا چاہیے نا۔"
"ہاں تو اس کیلئے گیسٹ روم میں جانے کی کیا تک؟"
وہ روم سے نکل کر ساڑھیوں تک پہنچا۔
" تک ہے ناں، ابھی آپ کو یاد آ رہی تھی ناں ٹیکسٹ میسجز اور خاص کر ٹوں ٹوں کال ڈسکنیکٹڈ کی، تو بس یہ آئیڈیا میرے ذہںن میں آیا، اب خوش ہے ناں آپ؟"

" کوئی ضرورت نہیں ہے ایسے فضول آئیڈیاز کی، واپس آؤ فوراً۔"
نا بابا ناں۔"
وہ سیڑھیاں اتر کر گیسٹ روم تک آیا، ہینڈل گھمانے پر لاک اسکا منہ چڑانے لگا.....
" گیٹ کھولو۔"
" آپ ہی نے کہا تھا ناں شاہ کہ اشنال سید ایک بار جو دروازہ بند کر لیں اسے کھولنا نہیں چاہیے، سو اب یہ دروازہ صبح سے پہلے نہیں کھلے گا۔"

"باہر کھڑاشاہ اپنا سر پیٹ کر رہ گیا۔
"جان شاہ۔"
" میں نے تم کو سر پر چڑھا کر برا کیا ہے۔"
"چچچچ، خیر اب کچھ نہیں ہوسکتا، اب مجھے نیند آرہی ہے۔
گڈ نائٹ سویٹ ڈریمز۔"
"اشنے........ اشنے....... جان شاااااہ...... جان۔"
ٹوں ٹوں کال ڈسکنیکٹڈ......

یہ آواز اور الفاظ اب اسے زہر لگ رہے تھے.... اس نے دانت پیسے...
اور بند دروازے کو گھورکر بیڈ روم کی طرف بڑھنے لگا، ساتھ ساتھ واٹس ایپ پر ٹیکسٹ ٹائپ کیا۔
" کل پوچھتا ہوں تمہیں باندری، میسنی ،چھپکلی۔"
دوسری طرف سے رپلائے فوراً آیا۔
" کل نہیں ایک مہینے بعد، لمبے دانتوں والے خرگوش۔"
ساتھ میں زبان نکالتا ایموجی۔ اسے یاد آیا، کل تو اس نے ائیر بیس واپس جانا تھا۔

اسکا دل کیا اپنی زبان کاٹ لے، یا گیسٹ روم کا دروازہ توڑ دے۔
وہاں وہ مزے سے بستر پر لیٹی سیل فون پر شاہ کی آئی ڈی پر ہنسی سے آنسو نکل آنے والا ایمو جی دس بار بھیج چکی تھی....
اب آنکھیں بند کر کے اسکی موجودگی کو محسوس کرنے کے سوا شاہ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا....

____________________

ہر کسی کو زندگی میں شاہ جیسا چاہنے والا نہیں ملتا، ہر کسی کی زندگی میں خوشیاں ایسی دستک نہیں دیتی کچھ لوگ اس اذیت میں زندگی گزار دیتے ہیں، کچھ لوگ کسی کی زندگی میں داخل ہو کر بھی اپنی پرانی محبت کو نہیں بھول پاتے۔ اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی بھی تباہ کردیتے ہیں۔

میں نے یہ ناول ان لوگوں کے لیے لکھا ہے۔ خاص کر ان لڑکیوں کے لئے جو کسی غیر شخص پر اس قدر یقین کرلیتی ہے کہ اپنی محبت میں اندھی ہوجاتی ہے ، پھر اپنی تباہی پر ساری زندگی آنسو بہاتی ہیں۔

جانتی ہوں محبت کی نہیں جاتی، یہ خود ہی ہو جاتی ہے، مگر محبت کہ بھی کچھ تقاضے ہے، محبت وہ ہی سچی، جو پاک ہو، جو آپ کے محرم سے ہو، اور اگر محرم نا ہو تو جلد سے جلد اس رشتے کو نکاح جیسے پاک رشتے میں باند ھ دیا جائے۔ ناکہ محبت میں اتنا آگے بڑھ جانا کے صیح اور غلط کی پہچان بھول جانا۔

اس شخص کی ہر جائز ناجائز خواہش پر مرمٹنا محبت نہیں، بلکہ سراسر پاگل پن ہے، پھر اس حوس پرست شخص سے جب دھوکا ملتا ہے تو ہم روتے ہیں، چیختے ہے، خود کو اذیت دیتے ہے، کہ ہمارے ساتھ کیوں ہوا، غیر محرم سے محبت بھی تو ہم ہی کرتے ہیں نا، کسی پر اندھا یقین بھی تو ہم ہی کرتے ہیں نا..... اپنے ماں باپ کو دھوکا دے کر پورا پورا دن پوری پوری رات غیر شخص سے باتیں بھی تو ہم کرتے ہیں ناں...... اپنے اللہ کی بنائی گئی حدود بھی تو ہم توڑتے ہیں نا ں........ محبت جیسے پاک رشتے کے تقاضوں کو روند کر اندھے ہو کر آگے بھی تو ہم ہی نکلتے ہیں ناں...... اپنے محرم کی امانت میں خیانت بھی تو ہم کرتے ہیں ناں۔
تو پھر ان گناہوں کی سزا بھی تو ہمیں ملتی ہیں ناں، ہم اس کے حق دار ہوتے ہیں کس بات پر اللہ سے شکوہ کرتے ہیں کیا اس نے تمہیں روکا نہیں۔
کیا اس نے نامحرم سے رشتا بنانے سے منا نہیں کیا....
تو پھر کس بات کا شکوہ.... جانتی ہو اس اذیت کو برداشت کر پانا بہت مشکل ہو جاتا ہیں، بھٹک جاتا ہیں انسان مگر اتنا بھی نا بھٹکے کہ اپنی زندگی اپنے ہاتھوں تباہ کر دے۔

جب اللہ پاک نے ہمارے لئے ہمسفر چن رکھا ہے تو ہمیں کیا ضروت اس کی کی بنائی گئی حدود توڑنے کی۔
جو ہمارا ہے وہ ہمارے ماں باپ تک پہنچا دیا جائے گا ، اور عزت سے لے جائے گا.....

_______________________

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے تو سچی محبت کی پھر ہم کیوں نہیں ایک ہوئے...؟
وہ اس لئے کیونکہ تم اپنی سچی محبت میں اس قدر ڈوب گئے تھے کہ اللہ پاک کو ہی بھول گئے، تو خدا نے تمہیں اسی کے ہاتھوں توڑ ا ،اور پھر تمہیں دو راستے دئیے ایک اچھا، جو اس کی طرف جاتا ہے۔ اور دوسرا برا جو تم کسی اور غیر محرم پر بھروسہ کر کے اس کا یقین کرکے اس کا ہاتھ تھام لیتے ہو۔ اور پھر ساری عمر سکون کی تلاش میں رہتے ہو۔

اور جو اللہ کا راستہ چن لیتا ہے اس کے دل میں اللہ اپنی محبت ڈال دیتا ہے، دراصل وہ خود نہیں چنتا، جس کی محبت سچی ہو نا تو اللہ پاک اس کو اپنی محبت کے لئے چن لیتا ہے اور پھر عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اور اس وقت انسان کے دل پر اللہ کی سچی محبت اتر کرتی ہے وہ اس سے پہلے نہیں کرتی۔

________

سکون صرف محرم کی محبت میں ہے، غیر سے محبت کر کے خدارا اپنی زندگی کو وہ داغ مت لگاؤ، جو بعد میں اتر پانا مشکل ہو، ساری زندگی اس بات کا ڈر رہے کہ اگر میرے شریکِ حیات کو پتا چلا تو کیا ہو گا....

تم یقین تو لیتی ہو مگر تم کیا جانوں کہ وہ شخص انسان کے روپ میں بھیڑیا ہے۔
اشنال کو شاہ جیسا ہمسفر ملا جو اس کے درد کو مٹا گیا، مگر ضروری نہیں ہر ایک کا نصیب اشنال جیسا ہو۔
✨✨
ختم شدہ۔
خوش رہیں پیارے لوگوں ❤️✨
اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں ۔

01/08/2023

پاگل آنکھوں والی لڑکی
اشنال سیید
قسط نمبر 20
سیکنڈ لاسٹ

آج گھر میں کافی چہل پہل تھی، شاہ کے گھر والے رخصتی کا دن مقرر کرنے آرے تھے، آپی اور عشیہ کے بچوں نے اس س سنسان حویلی کو چڑیا گھر بنا رکھا تھا...

شاید آج صبح وہ منہ بھی نہیں دھو پائی تھی....
اور صبح سے بھانجیوں میں پھنسی ہوئی تھی....
ابھی ابھی آپی کے آخر سپوت کو شوز پہنانے کے بعد وہ سوچنے لگی تھی کہ شادی شدہ بہنیں میکے آکر نہایت ہی کوئی کام چور ہوجاتی ہیں۔

ان کے بچوں کو نہلاؤ، تیار شیار کراؤ، کھانے کھلاؤ، انکو انٹرٹین کرو، ان کو سلاؤ بھی ۔
میرے بعد تو اور کوئی بہن بھی نہیں ہے جو میرے بچوں کے پیمپر چینج کرے گی، اس نے دہائی دی....

پہلے تو اسے اپنی سوچ پر خوب ہنسی آئی،پھر شرما کر ہاتھ آنکھوں پر رکھ دئیے....
محبت مرتی نہیں ہے مگر اس نے محبت کو محبت سے بدل دیا تھا۔
______________________

ادھر شاہ کا حال بھی برا تھا، شاہ ولا میں سب اسکی شادی کی تیاریوں میں لگے تھے، دادو کی کالز پہ کالز آرہی تھی، جبکہ وہ خود رات دن کی تھکا دینے والی آپریشنل ٹریننگ میں پھنسا تھا.....

ابھی اسے اپنے اور اشنے کے ڈریسز بھی خود سلیکٹ کر کے آرڈر دے دیا تھا، وہ اشنے کیلئے بھی سب خود ہی پسند کرنا چاہتا تھا۔
دہائیاں اپنی جگہ مگر بہر حال وہ ایک فوجی تھا، ہر سچویشن پر قابو پا لینے والا....

______________________
ہم اپنا ایک ہنی مون سوئیٹزرلینڈ میں منائیں گے۔"
رات نو بجے وہ دونوں کال پر تھے.....

شاہ، جیسے یہاں مری میں بندر ہوتے ہیں، کیا سوئیٹزر لینڈ میں بھی بندر ہوتے ہونگے؟"
اشنے نے اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہا....

اگر پہلے نا بھی ہوں تو اب سوئیٹزر لینڈ والے باندری دیکھ لیں گے۔"
ہیں؟' وہ کیسے؟" اشنے ایکسائیٹڈ ہوتے ہوئے۔
"میں اپنے ساتھ ایک باندری کو لے کر جا رہا ہوں نا۔" وہ ہنسا تھا.....

"شاہ!"وہ چیخی تھی کہ وہ جانتی تھی باندری کسے کہا گیا تھا....
" جی باندری ۔ اوہ سوری جی، جان شاہ۔"
" بہت خراب ہیں آپ۔ مجھ سے بات مت کریں۔"
وہ ہنسا اور ہنستا چلا گیا۔

اشنال نے کال کٹ کر دی....
اسکا فون پھر رنگ کرنے لگا، کچھ دیر روٹھنے کی ایکٹنگ کے بعد خود ہی اٹھا لیا۔
"جان شاہ" آپ سے بات نہیں کرنا چاہتیں۔" اس نے روٹھے لہجے میں کہا..."

"اچھا ٹھیک ہے اشنال سید سے بات کروا دیں۔"
وہ آگر اشنال سید تھی تو اسے بھی کیپٹن شاہ کہتے تھے۔
تمہاری تصویریں دیکھ رہا ہوں، ابھی ابھی ملیں ہے۔

ہائے اوے صدقے جاواں.....نوزرنگ۔"
وہ بھابھی کی طرف سے واٹس ایپ کی گئی پکچرز دیکھنے لگا....
"سچ سچ بتاؤ، میرے لئے پہنی ہے نا؟"
" بلکل نہیں۔ آپ کیلئے نہیں، آپ کی وجہ سے۔" اس نے تصیح کی،

"ایک ای مطلب ہویا ناں۔"
"نہیں جی۔"
" تے فر کی مطلب ہے گا؟"
وہ پنجابی میں بولتا ہوا اچھا لگ رہا تھا.....
"اممممممممم....... اس سے پہلے کہ آپ کا دل کسی نوزرنگ والی پر آجائے، میں ہی نوزرنگ پہن لیتی ہوں....."

"ہاہاہاہاہا..... دل تو آچکا باندری پر..... " ایک زور دار قہقہہ ریسور میں ابھرا۔ اشنال نے کان فون سے ہٹایا
"میرا سپیکر پھٹ جائے گا شاہ۔"
وہ ہنسا۔

"سوٹ نہیں کر رہی ؟" اس نے پوچھا۔
"کر رہی ہے اور اتنی کر رہی ہے کہ باندری تو نہیں بس باندری کی چھوٹی بہن لگ رہی ہو...."
اس نے پھر اسے غصہ دلایا۔

"شاہ!"
"جی میری شیرنی...؟"
"آپ کو کسی نے بتایا ہے ہنستے ہوئے آپ خرگوش لگتے ہیں لمبے لمبے دانتوں والا ؟"
ہاہاہاہاہا...... چلو خرگوش تو پھر بھی اچھا ہوتا ہے، گاجر کھاتا ہے، باندریاں تو اپنی جوئیں نکال کر خود ہی کھا جاتی ہیں۔"

آآآآخ تھوووووو........" اسے سچ میں الٹی آگئی۔
شااااااااہ....."
جی جان شاااااہ؟"
"میں آپکا جون پی آجاؤں گی۔"

"باندریاں خون بھی پیتی ہیں ہااااااو...."
"بہت خراب ہیں آپ شاہ۔ میرا سر درد کر رہا ہے میں سونے لگی ہوں۔"
سولو، سولو، شاہ ولا پہنچو پھر دیکھتا تمہیں شیرنی۔"

مجھے تڑیاں نا دیو کریں۔"
" ہاں تو کیا کرو گی؟"
"میں میں زہر کھا لو نگی۔"
" خیراے، باندریاں زہر سے نہیں مرتیں، جوئیں بھی تو زہر جیسی ہوتی ناں۔"

"شااااااہ!"
انسان بن جائے، اچھا۔
تو ابھی کیا ہوں، جان شاہ!
ابھی آپ خرگوش.......... ہاہاہاہاہاہا
وہ بھی کہا پیچھے رہنے والی تھی۔"

____________________

اچھا شاہ سنیے!
"جی جان شاہ۔"
" میں ایک تصویر بھیج رہی ہوں، میری بری میں ایک ڈریس ایسا بھی ہو"

(شاہ تصویر دیکھنے کے بعد)
"چپ کر کے بیٹھو، تمہارے سارے ڈریسز میری مرضی کے ہونگے۔"

میں خبردار کر رہی ہوں شاہ۔! میں نہیں پہنوں گی۔
استغفرُللہ خود اتنی گندی ڈریسنگ کرتے ہو، میرے لئے بھی ویسی ہی کرو گے"
(اشنے روہانسا ہوتے ہوئے)

جیب کس کی خالی ہوگی؟
"شاہ کی"
"تو پھر ڈریسز بھی شاہ کی پسند کے"
شاہ نے آبرو اچکائے۔

" جی نہیں! پہنے گا کون میں یا آپ؟"
(اشنے نے ڈیلے گھمائے)
"جان شاہ"
"پھر مرضی بھی جان شاہ کی چلے گی۔"

"میری شادی میں ایسا نہیں ہونے والا جان شاہ"
(شاہ نے سکون سے دوٹوک کہا)
شاہ میں مایوں سے ولیمے تک عید پر جو سیاہ ڈریس بنایا تھا، وہی پہنے رکھوں گی بتا رہی ہوں سن لیں۔"
اشنے نے دھمکی دی....

سن لیا، چلو میرے والے ولیمے کے بعد پہن لینا۔"
یہ بندہ مجال ہے کبھی اریٹیٹ ہوا ہو، اشنے نے سوچا،
میں اپنے ساتھ بیگ بھر کر لاؤں گی، اپنی پسند کے ڈریسز کا"

" میں وہ بیگ اسٹور روم میں رکھوا دونگا"
"میں اسٹور سے لے آؤنگی،
"ہیں؟ سچ بتاؤ وہ بیگ اٹھا سکو گی؟
میرا خیال ہے تم نہیں اٹھا سکو گی جان شاہ، اس کام کے لئے بھی تم مجھے بلاؤ گی ، اور تمہیں پتا ہے نا اس بار میں وہ بیگ روم میں لا کر الماری کے اوپر رکھ دونگا۔"

"شاہ اب تم حد کر رہے ہو۔"
پھر سیدھی طرح مان جاؤ،جان شاہ،"
نہیں...... کیوں ہو گا تو وہی جو جان شاہ کہے گی۔
ہائے ےےےے.......... میری باندری۔ میرا مطلب میری جان۔

شااااااااہ........ وہ چلائی تھی۔
"جی کرا جان شاہ۔"
"آئی ہیٹ یو۔
اور ڈریسز کو تو چھوڑو، اب تم مجھے دوبارہ سے شادی کے لیے مناؤ شاہ، اور اب میں مانوں تو کہنا"

ٹوں ٹوں ٹوں......
کال ڈسکنیکٹڈ........
اور یہاں شاہ کی جان کع لالے پڑے تھے کیونکہ یہ صرف وہی جانتا تھا،اس نے کسطرح جان شاہ کو خود سے شادی کے لیے راضی کیا تھا۔!!!!

پھر وہ اس کی باتیں سوچ کر مسکرایا تھا۔ وہ جانتا تھا اس کو کوئی بھی اب اشنے سے دور نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اب اس کی محرم نہیں۔

ہاہاہاہاہا باندری جئی نا ہوے تے۔"
دونوں اپنے اپنے بستر پر پڑے اپنے اپنے سیل دل پر رکھے ہنس رہے تھے....
اشنال سید نے کسی کو جان شاہ کا مکمل اختیار دے دیا تھا،
اور بیشک اللہ کے بنائے گئے جائز رشتوں میں ہی سکون ہے، اگر ہم دل سے مان لے تو....

________________________

آج انکی مایوں کی رات تھی،وہ صبح ہی گھر پہنچا تھا اور اس وقت مہندی کے سارے فنکشنز ہو جانے کے بعد سب سے بچ بچا کر گاڑی نکالے سنسان سڑک کے بیچوں بیچ کھڑاا تھا.....

اس نے جیب سے سیل فون نکالا اور نمبر ڈائل کیا..... دوسری جانب سے فون اٹھالیا گیا......
"کیا کر رہی ہو؟"
مہندی لگوا رہی ہوں۔"

مایوں کے سمپل سے جوڑے کے ساتھ دوپٹہ سر پہ اوڑھے بالوں کی ڈھیلی ڈھالی چوٹی بنائے، لٹیں ادھر ادھر بکھریں، آنکھوں میں مسکارا لگائے ہلکی سی لپ اسٹک کے ساتھ گجرے بالیاں کانوں میں پہنے، ماتھے پر گلاب اور موتیوں سے بنا ٹیکا لگائے وہ شدید کوفت کے عالم میں مہندی لگوانے بیٹھی تھی....

"آہاں تو مجھے قتل کرنے کے انتظامات ہورہے ہیں۔"
"کیا آپ کو اب بھی لگتا ہے کہ آپ قتل نہیں ہو چکے؟"
ہاں میں تو سال پہلے ہی پیپرز سائن کر کے قتل ہوگیا تھا۔

اچھا اب کام کی بات کریں؟ اشنے ہتھیلی پر مہندی سے میرا نام مت لکھوانا۔"
کیوں...؟"
کیونکہ جب مہندی مٹے گی تو میرا نام بھی مٹنے لگے گا، میں نہیں چاہتا کہ میرا نام آپ سے کسی بھی صورت جدا ہو۔"
وہ دونوں ہی عجیب سرپھرے تھے...

اچھا اب میرے دوسرے ہاتھ پر مہندی لگ رہی ہے، میں آف کرنے لگی ہوں۔"تھوڑی دیر رک جاؤ ناں...!!!
"بلکل نہیں، میں سردی میں اکڑ رہی ہوں.."
میرے لئے اتنا نہیں کر سکتی؟"
آپ کے لئے ہی مہندی لگا رہی ہوں، ورنہ آپ جانتے ہیں مہندی کتنی بری لگتی ہے مجھے۔"

اشنے پلیز تھوڑی دیر اور۔"
تھوڑی سی بھی نہیں، ٹیک کئیر۔"
ابھی اس کی دوسری ہتھیلی پر مہندی کے نقش بننے ہی لگے تھے کہ سیل روشن ہوا....!!!
زینی چیک کرو کون ہے...." وہ کزن سے مخاطب ہوئی۔

"آپ کے اتاولے شہزادے سے انتظار نہیں ہورہا۔"
"کیا لکھا ہے....؟"
لکھا ہے کہ میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں ابھی۔"
اسے کہوں کل تک انتظار کرے۔"
وہ کہہ رہا ہے کہ میری کتنی بڑی خواہش تھی کہ مہندی کے سوٹ میں تمہیں دیکھوں ۔"

"اسے کہو تصویروں پہ گزرا کرے۔"
"وہ کہہ رہا ہے." شادی پہلی اور آخری بار ہو رہی ہے، اسلئے میں تمہاری حویلی کے گیٹ پر کھڑا ہوں۔"
ہائے او ربا...."وہ اچھلی اور کھڑی سے نیچے جھانکا۔
اففف....... اسے کہو چلا جائے یہاں سے، کسی نے دیکھ لیا تو کہیں گے میں نے بلایا تھا۔"

وہ رو دینے کوتھی...."
"کیا ہے یار،تم دونوں کا نکاح ہوچکا ہے، اگر وہ ایسی کوئی خواہش کرتا ہے تو تمہیں مان لینی چاہیے...!!
میں اس کی ایسی کوئی فضول بات نہیں مان سکتی، اسے کہوں جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جائے۔"

وہ ناراض ہو گیا تو....؟"
"تو ہو جائے...."
وہ کہہ رہا ہے سیدھی طرح مان جاؤ ورنہ دیوار پھلانگ کر آجاؤنگا۔"
"اسے کہو ہم نے ڈوگی کو ٹانگیں توڑنے کا آرڈر دے رکھا ہے۔"
کتنی ظالم ہو اشنے۔" زینی نے اسے گھورا اور میسج ٹائپ کرنے لگی۔

تھوڑی دیر سیل خاموش ہوگیا....!!
اچانک دروازے پر دستک ہوئی..!!
وہ منہ پھیر کر دوسری طرف کھڑی ہوگئی، دل تھاکہ پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو بےتاب....!!
دیکھوں اسے کہوچلاجائے ورنہ میں کل تک زہر کھالو گی...."

ڈونٹ وری"جان شاہ" کل میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے زہر کھلا دونگا۔"
" دیکھوں خبردار اگر میرے قریب آئے تو۔"
توکیا کروگی؟" وہ آہستہ آہستہ قریب آنے لگا...!!
میں...... میں یہ ساری مہندی تمہارے منہ پر مل دوں گی۔"
وہ منہ پھیرے ہی اسے اپنے ہاتھ دکھانے لگی...!!
پھر...؟" وہ مزید قریب ہوا...!!
پھر صبح دلہے بنے ہوئے کتنے برے لگو گے۔"

ہاہاہاہاہاہا..... میں یہاں صرف یہ دیکھنے آیا تھا کہ میری شیرنی مایوں کے دن چپ چاپ شرمائی شرمائی سی کیسی لگتی ہے۔"
"اب دیکھ لیا نا، اب جاؤ یہاں سے۔"

جب تک تم چہرہ نہیں موڑ لیتی میری طرف میں نہیں جانے والا۔"
وہ بھی ضدی تھا اپنے نام کا ایک...!!!
وہ یکدم پلٹی...!!
"بس دیکھ لیا چہرہ، ہو گئی حسرت پوری، اب جائیں یہاں سے۔"

پیلے دوپٹے سے جانکتی لٹیں اسے مزید خوبصورت بنا رہی تھیں...
بلکل ایسا ہی ایکسپکٹ کر رہا تھا میں کہ میری شیرنی دلہن بنے ہوئے بھی غصے میں پھاڑ کھانے والے لہجے میں دھمکیاں دے رہی ہوگی۔
ایک بات کہوں، آج سے پہلے کسی شیرنی کو اتنے خوبصورت روپ میں نہیں دیکھا۔"

آپ.....اپ...... آپ بہت فضول ہیں۔"
یاد رکھنا، گن گن کے بدلے لو گا، بے رحم لڑکی۔"
"کل کی کل دیکھی جائے گی، ابھی جائیں۔"
وہ اس کے مزید قریب ہواکہ اسے لگا اس کا دل کام کرنا چھوڑ گیا ہو۔ نیلی آنکھوں سے بچنے کیلئے اشنال نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کی پلکیں ہلکے ہلکے لرزنے رہی تھیں۔

دیکھیں شاہ میں واقعی میں مہندی آپ کے کرتے پر مل دوں گی..."
وہ مزید قریب ہوا تھا اور انگلیوں سے اسکی ٹھوڑی کو چھوا....
پتا ہے جان شاہ، میرا دل آنکھوں سے ہوتا ہوا تمہاری ٹھوڑی پہ اٹک گیا ہے...

یار، پہلے آنکھیں نہیں سونے دیتی تھیں،اب ٹھوڑی جگائے رکھتی ہے۔
آپ........ آپ، پتا نہیں نہیں کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ چلیں بس اب جائیں یہاں سے۔"
اس نے اٹک اٹک کر بمشکل بات پوری کی۔

ایسے کیسے چلا جاؤں، مطلب ایسے کیسے؟ "شاہ کا دھیما لہجہ اسے نظریں جھکائے رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ویسے بھی وہ نیلی آنکھوں میں جھانکنے کا گناہ نہیں کرسکتی تھی، اسے لگا اس کیلئے آکسیجن مک گئی ہو جیسے......

وہ جھکا اور اس بار اپنے لب اس کی ٹھوڑی پر رکھ دئیے....
وہ ہر بار کی طرح اس بار بھی اسے سرپرائز کر گیا تھا۔
اور پھر اشنال کے مہندی والے ہاتھوں نے شاہ کا کرتا سختی سے بھینچ لیا، ہتھیلی کے نقش تو خراب ہونے سو ہوئے، شاہ کا سفید کرتا بھی مہندی میں رنگ گیا....

میں نے خواب میں دیکھا،سوچا، ڈھونڈا، چاہا، اور پالیا۔
"اشنے تم نے کیپٹن شاہ کو بے حال کر رکھا ہے، کل لیتا ہوں خبر تمہاری۔ اور اب تو میرا وائٹ کرتا بھی میلا کردیا تم نے۔" شاہ نے اپنے کرتے کو دیکھا۔

میری مہندی...." اشنے اپنے ہاتھوں کی خراب ہوئی مہندی کو افسوس سے دیکھ رہی تھی اور شاہ اپنے مہندی لگے کرتے کو.....

"شاہ۔"
"جی جان شاہ۔"
" بہت خراب ہیں آپ۔"
"کل بتاؤں گا،پکا...."

جاتے جاتے وہ دو قدم ٹھہرا دونوں ہاتھوں سے اس کے چہرے کے صدقے لے کر ماتھے پر رکھے،
اور اس کا چہرہ آنکھوں میں بھر کر چلا گیا تھا....
اور اسے ایک بار پھر سکتے میں چھوڑ گیا....

وہ محبت کا شکرانہ نہیں دے سکتی تھی...
آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر نکل آئے تھے....
اس نے آنکھیں کھولیں تو زینب کو کھڑے پایا...
شرمانے کیلئے اس نے دونوں ہاتھ منہ پہ رکھنے چاہے مگر ان پہ مہندی لگی تھی، وہ منہ بسور کر رہ گئی۔ اسے زینی کی ہنسی سنائی دی، سامنے کھڑی زینی اس کی حالت پر ہنس رہی تھی، پہلے اس نے زینی کو گھورا پھر خود بھی ہنسنے لگی.....

_________________________
جاری ہے۔
خوش رہیں پیارے لوگوں ❤️✨

01/08/2023

پاگل آنکھوں والی لڑکی
اشنال سید
قسط نمبر 19
تھرڈ لاسٹ

ہاسپٹل سے وہ کل ڈسچارج ہوئی تھی،اور آج پہلی بار اشنے نے اسے کال کی تھی....
پہلے تھوڑی جھجھک ہوئی۔ پھر یہ سوچ کر کے حق رکھتی ہوں اب میں اسے کال ملائی.....

"شاہ۔"
"جی جان شاہ۔"آج کیسے یاد آگئی، لگتا ہے سورج مغرب سے نکلا ہے۔

"شاہ....."
اگر آپ ایسے تنگ کریں گے تو میں بند کردوں گی کال۔
اچھا اچھا سوری......

اچھا بات سنے۔؟
جی حکم کریں...؟
شاہ، امی سے کہیں آپ مجھے کہیں لے کر جانا چاہتے ہیں۔"
وہ حیران ہوا۔
"کیوں بھئی، کہیں جانا ہے آپ نے؟"
"جی جانا ہے۔"

"کہا جانا ہے؟"
پہلے آپ امی سے پرمیشن لیں، پھر بتاؤں گی۔"
"اچھا ٹھیک ہے۔"
پھر وہ اور شاہ امی سے پرمیشن لے کر گھر سے نکلے، شاہ کی مرسیڈیز جب اشنال کے ایریا سے نکلی تو شاہ نے خانوشی کوتوڑا۔

"جی تو بتائیے کہاں جانا ہے؟"
"قبرستان!"
"وہ چونکا۔

"جی قبرستان؟"
اشنال نے پھر دہرایا....

فرسٹ ڈیٹ ایٹ قبرستان، واؤ، انٹرسٹنگ پہلی بار سنا ہے۔"
وہ گھوری۔
ہم ڈیٹ پر نہیں جارہے۔"
اللہ خیرابھی تو میری شادی بھی ٹھیک سے نہیں ہوئی۔"
وہ پھر سے شرارت کر گیا۔

"شاہ۔"
"جی جان شاہ۔"
"آپ تھوڑی دیر خاموشی سے گاڑی چلائیں، قبرستان چل کر بتائی ہوں کہ کیا کرنا ہے۔"

"اوکے، جو حکم جان شاہ۔"
پھر قبرستان پہنچ کر انہوں نے گاڑی کچے میں پارک کی، اشنال اتر کر بہت ساری بنی ہوئی قبروں کی طرف جانے لگی، شاہ بھی اسکے پیچھے ہولیا۔

ایک جگہ رک کر وہ شاہ سے۔مخاطب ہوئی۔
"آپ وہ لے آئے تھے شاہ،جو میں نے منگوایا تھا؟"
"لے آیا ہوں، مگر.....؟

ایک بیلچہ مل جائے گا؟" وہ اس کی بات کاٹ کر بولی۔
"شاہ ایک لمحے کو ساکت ہو گیا۔ اس کی سانس رک گئی تھی۔

شاہ کو لگا یقیناً وہ پاگل ہوچکی ہے۔
کیا..... کیا کرنا ہے بیلچہ۔
اس نے بوکھلائے ہوئے انداز میں پوچھا۔
کیونکہ وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اشنے کر کیا رہی ہے۔

آپ پہلے بیلچہ لے کر آئے...... شاہ اسے رک کر دیکھنے لگا۔
"شاہ۔" آپ سے ہوں بیلچہ لے کر آئے۔

کیا کرنا کیا چاہ رہی ہو؟"
وہ عبایا میں تھی اور شاہ نقاب سے اسکی آنکھیں دیکھ سکتا تھا، وہ جھکی ہوئی تھی.....

"پاگل آنکھوں والی لڑکی کو دفن کرنا ہے۔"
شاہ دو قدم پیچھے ہوا تھا اور لب بھینچ لئے تھے.....

_______________________

آپ نے سنا ہوگا ناں شاہ، جنہیں بے دردی سے قتل کرکے لاوارثوں کی طرح پھینک دیا جاتا ہے۔
ان روحوں کے جنازے نہیں پڑھے جاتے وہ زمین پر بھٹکتی رہتی ہیں، پھر وہ اپنے ساتھ دوسروں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن جاتی ہیں۔

نہ خود ان کو سکون ملتا ہے اور وہ دوسروں کو لینے دیتے ہیں۔
مجھے پاگل آنکھوں والی لڑکی کی تدفین کرنی ہے، تاکہ اس کے ساتھ سب سکون میں آسکیں۔"

شاہ آنکھیں سختی سے بند کر کے سانس کھینچا، اورپاس سے جاتے گورکن کو آواز دے کر بیلچہ منگوا لیا....
اشنال نے بیلچہ اس کے ہاتھ سے لے کر خود کھدائی شروع کر دی۔

خواب میرے تھے، چاہتیں میری تھی، خواہشیں میری تھی، بے پنا محبت میری تھی، قبر بھی مجھے کھودنے دیں۔"

اشنے پلیز ایسا مت کرو، "تم نہیں جانتی پاگل آنکھوں والی لڑکی" میرے لئے کیا تھی۔
ایسا مت کرو، مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو رہا، پلیز مت کرو۔
شاہ کے دل میں ایک درد سا ہوا تھا یہ سب دیکھ کر۔
ایسے لگا جیسے کسی نے اس کے دل پر پیر رکھ دیا ہو.....

آپ کی" پاگل آنکھوں والی لڑکی" آپ کے سامنے کھڑی ہے، میں تو زئی کی"پاگل آنکھوں والی لڑکی"کو دفنا رہی ہوں۔"

کچھ دیر کمر پر ہاتھ رکھے اسے گھورتا رہا، پھر تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر گاؤں سے پشت لگا کر کھڑا ہوگیا.... وہ بےبس اسے قبر کھودتے دیکھے گیا۔

______________________

جب ایک سا سوراخ ہوگیا تو اشنال نے اپنے بیگ میں سے کاغذوں کا ایک ڈھیر نکالا،اور شاہ سے بولی۔

یہ وہ کاغذ ہیں شاہ، جن پر پاگل آنکھوں والی لڑکی نے کچھ کراچی کے اور کچھ ایبٹ آباد کے کئی ایک سال تک میں ایک ہی نام لکھا تھا، زئی۔"

وہ ساتھ ساتھ کاغذوں کو پھاڑتی اور قبر میں بھرتی جارہی تھی۔
جانتے ہو شاہ۔"
ہم مشرقی لڑکیوں کی زندگی ایک چار دیواری تک محدود ہوتی ہے۔ جہاں ماں باپ بہن بھائیوں کی محبت ہوتی ہے، اور وہ اپنی چھوٹی سی دنیا میں خوش ہوتی ہیں، مگر کہیں نا کہیں ایک اور محبت بھی ان کے دل میں پلتی ہے ، اور وہ محبت کسی کے چاہے جانے کی ہوتی ہے۔

کسی کی محرم بن کر اس پر دل سے یقین کرکے ،اسے اپنا مان سمجھ کر، اس پردل سے یقین کرکے، اسے اپنا مان سمجھ کر اس پر ساری محبت،ساری زندگی لٹانے کی ہوتی ہے، یہ چھوٹے چھوٹے سپنے اس چار دیواری تک محدود رہتے ہیں۔

اس چار دیواری میں رہنے والی لڑکیوں کی دنیا بہت پاک ، صاف، اور سچی ہوتی ہے، اور جب کوئی اس چار دیواری کی دنیا میں باہر کا شخص آکر، خوبصورت خوبصورت لفظوں کے جال بنتا ہے، تو وہ لڑکی ان لفظوں کو سچ سمجھ کر اس کی محبت کے جال میں پھنس جاتی ہے۔ وہ شخص اس کو جھوٹی آس امید دلاتا ہے،اور وہ اندھی ہو کر یقین کرنے لگتی ہے.......

اور اس کے لفظوں کو سچ سمجھ کر اس کی محبت کے جال میں پھنس جاتی ہے۔ اس کے ساتھ کچھ وقت گزار کر وہ دنیا بھر کے خوبصورت سپنے سجانے لگتی ہیں۔
اپنے آنے والی زندگی کے خوابوں کو اس کے ساتھ جوڑ لیتی ہیں،وہ سمجھ لیتی ہے کہ یہ ہی میرے لئے سب کچھ ہے، میری زندگی کا ساتھی، میرا ہمسفر،.....

اس کی آنکھوں پر مکمل پٹی بند جاتی ہیں، وہ سچی ہوتے ہوئے بھی اچھی ہوتے بھی ایک بری اور جھوٹی لڑکی بن جاتی ہے، کیونکہ وہ اپنی جرم دار خود ہوتی ہے۔
اپنی دنیا سے وہ خود قدم باہر نکالتی ہے، وہ اپنی محبت کے سمندر میں اس قدر ڈوب جاتی ہیں کہ وہ سمجھ ہی نہیں پاتی کہ مقابل شخص اس کے ساتھ کھیل رہا ہے، اس کے جذبات کو صرف ایک کھلونا سمجھ کر توڑنے والا ہے.....

شاہ اکثر اوقات وہ ان کی سچائی جان بھی جاتی ہیں نا تو وہ انجان بن جاتی ہے، جانتے ہو کیوں؟
کیونکہ وہ اس قدر محبت میں ڈوب جاتی ہے کہ اس کے لیے اس فریبی شخص کے بنا جینا مشکل ہوجاتا ہے، وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے، کیونکہ جس کو کسی کے لفظوں کی عادت ہو جائے ،یا کانوں کو سماعتوں کی عادت ہو جائے تو ان کے لئے اس کے بغیر رہ پانا مشکل ہوجاتا ہے.وہ نہیں رہ پاتی اس کے بنا... دو پل بھی وہ دور ہو تو ان کی جان پر بن جاتی ہے......وہ رہ ی نہیں پاتی اس کے بنا، اس قدر پاگل ہو جاتی ہے،بہک جاتی ہیں کہ اس کی سچائی جان کر بھی اسے موقع دیتی ہے.... مگر درحقیقت وہ خود کو ایک ٹھوکر کےلئے راہ میں رکھ دیتی ہے۔

جب وہ شخص یہ جان لیتا ہے کہ اب یہ میرے نہیں رہ سکتی، تو وہ خوش ہوتا ہے جیسے شکاری جال میں پھنسے ہوئے شکار کودیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنی تمام تر حوس پرست خواہش کو مکمل ہوتے دیکھتا ہے۔ اور وہ اپنی ہر بات منوا لیتا ہے۔

شاہ کچھ لڑکیاں اپنی اندھی محبت میں اس قدر بہک جاتی ہیں کہ اپنی عزت تک کی بازی لگا دیتی ہے، اس محبت نام کےدھوکے فریب میں۔

یہ محبت تو نہیں بس محبت کا ماسک پہن کر ہوا کی بیٹی کی عزت کو تارتار کیا جاتا ہے، اس کے سپنوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے، اس کو زندہ لاش بنایا جاتا ہے، اور پھر اس لاش جو لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔

شاہ اس چھوٹی سی دنیا میں رہنے والی لڑکیوں کی زندگی تو اس محبت سے شروع ہوکر محبت پر ختم ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی تمام تر خواہشات اس شخص کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔
مگر بدلے میں اسے کیا ملتا ہے.....؟
دھوکا،
فریب،
وجود کے ٹکڑے،
خواہشات کی کرچیاں،
عزت نفس کا جنازہ۔

_____________________

وہ کاغذوں کے ٹکڑے کرنے کے ساتھ ایک نظر ان کو دیکھ بھی رہی تھی۔
ان میں کچھ کاغذوں پر لکھا تھا.....

"زئی کین آئی کال یو مائن.؟"
کچھ پر لکھا تھا۔
"Eshnaal, i am All yours.

کچھ پر "اشنال زئی" لکھا تھا....
ان میں سے کچھ کاغذوں پر یہ بھی لکھا تھا کہ ایشے تم میری زندگی ہو۔
کچھ پر لکھا تھا.....

"All night, i' ve waited for you, Eshy!"

کچھ پر لکھا تھا....
تم جیسی لڑکیاں میری زندگی میں اگزسٹ ہی نہیں کرتیں..."

کچھ پر لکھا تھا......
"تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا میں دفع ہو جاؤ۔"

______________________

شاہ اس کے چہرے کو دیکھے جا رہا تھا اور اس کے ادا کئے گئے الفاظوں کو سن رہا تھا۔

"شاہ" جب وہ محبت میں انتہا کرنے والی لڑکی اس شخص کی خواہشات پر پوری نہیں اترتی۔
نااس کی بےجا خواہشات کو پوراکرسکتی ہے تو وہ اس کو لمحے میں زمین پر لاپٹکتا ہے۔ وہ جو اس کی عزت کی دہائیاں دیتا ہے وہ اس کے کردار پر انگلی اٹھانے لگتا ہے، اس کو بد کردار کہنے لگتا ہے، حالانکہ وہ ایسی نہیں ہوتی وہ تو اس کی محبت میں اندھی ہو کر اس پر یقین کر لیتی ہے جو س کے یقین کی دھجیاں اڑا دیتا ہے....

اور جب وہ ہی لڑکی اس کی بات مان لیتی ہے تو اس کو آسمان پر بیٹھا دیتا ہے... اسی طرح وہ سالوں، کتنے مہینوں کسی کے جذبات کے ساتھ فریب کرتے ہیں، وقت گزارتے ہیں، اس کو اس اس قدر حسین خواب دیکھاتے ہیں کہ وہ کسی اور دنیا میں جینے لگتی ہیں۔وہ اس شخص کے سوا کسی کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔

مگر شاہ جب ان کا دل ٹوٹتا ہے نا تو ان کا مان، ان کا یقین کرچیاں کرچیاں ہوجاتاہے..... وہ جیتے جی مر جاتی ہیں۔

سپنے جب ٹوٹتے ہے نا شاہ تو انسان کے اندر وجود کے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ جیسے کسی نے شیشے کو توڑ کر چکنا چور کر دیا ہو، نا وہ جوڑنے کے قابل رہے اور نا رکھنے کے۔

کیسے کوئی کیسی کے ساتھ اتنے سال گزارنے کے بعد اس کو چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ زندگی گزارنے کا سوچ سکتا ہے۔ وہ شخص جس کے سپنے جس کا وجود جس کی ہر سانس اس کے پیار کے ساتھ زندگی گزارنے کی مالا جپتا ہو۔ بہت مشکل اور ازیت بھرا وقت ہوتا ہے، وہ تو اپنے وقت کو گزار کر چلا جاتا ہے، اپنے لمحے خوبصورت بنا لیتا ہے،مگر اس کا کیا شاہ....... جس کو وہ پل پل مرتا چھوڑ جاتا ہے.... آخر قصور کیا ہوتا ہے اس کا کے وہ اس کی محبت کو سچ مان لیتی ہے اس کے ساتھ جینے کا سوچنے لگتی ہے۔ہاں اس کا ایک قصور ہوتا ہے کہ وہ اپنی حدود کو پار کرتی ہیں ، وہ اپنی دنیا سے باہر قدم نکالتی ہے... اور اس دنیا میں کچھ بھیڑئیے جو مرد کا خ*ل چڑھا کے بیٹھے ہیں اسے لوٹ لیتے ہیں.....

وہ اذیت میں جینے والے صرف موت کی ہی تمنا کرتے ہیں کیونکہ ان کی ساری خوشیاں ختم ہو جاتی ہیں ان کے لیے... راتوں کو روتے ہیں..... سسکتے ہیں..... خود کو اذیت دیتے ہیں....

اکثر لوگ اس اذیت میں اس قدر ہار جاتے ہیں کہ وہ خودکشی کر لیتے ہے۔ اور کچھ جو موت کی تمنا کرتے رہتے ہیں انھیں موت تو نہیں آتی... مگر وہ زندہ لاش بن جاتے ہیں۔اور کتنی ہی ایسی لاشیں لال جوڑوں میں رخصت ہوتی ہیں۔
کتنے ہی ارمان روز مرتے ہیں،
کتنے ہی لوگ گھسیٹتے ہے کہ وہ اس دنیا کے ساتھ آگے بڑھ جائے۔
بہت سے لوگ تو بظاھر خوش ہوتے ہیں،لوگوں کے سامنے ہنستے کھیلتے ہیں مگر اندر سے وہ مر چکے ہوتے ہیں۔

___________________

ایسی ہی وہ لڑکیاں ہوتی ہے جو اس چار دیواری کی دنیا میں اپنی حدودسے باہر نکل کر غیر پر بھروسہ کر کے تباہ ہو جاتی۔ پھر وہ سسک سسک، کر تڑپ تڑپ کر جیتی ہے۔

اور ان کے ساتھ فریب کرنے والا اپنی زندگی میں آگے بڑھ جاتا ہے، اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ اس نے کسی کی زندگی تباہ کی ہے، کسی کے ارمانوں کا قتل کیا ہے۔کسی کے دل کو توڑا ہے۔ انھیں مردہ بنا کر لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیا ہے۔

اور ان ہاری ہوئی، تباہ ہوئی لڑکیوں کو لاوارثوں کی طرح جینا پڑتا ہے کیونکہ وہ اپنی تباہی کے خود ذمہ دار ہوتی ہیں۔ اپنی حدود سے نکلنے کا انجام ملتا ہے۔
اپنے ماں باپ کو دھوکا دینے کا انجام ملتا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر اللہ کو ناراض کرنے کا گناہ جو وہ کرتی ہے اس کا بدلہ انھیں ملتا ہے، کیونکہ اللہ اپنی نافرمانی کرنے والے کو معاف نہیں کرتا سزا ضرور دیتا ہے۔

اور شاید میں بھی ان میں سے ایک تھی۔
میں نےبھی محبت کی تھی، محبت کرنا گناہ نہیں، محبت میں حدو کو توڑ کر آگے نکل جانا گناہ ہے۔
اور میں ان حدو کو توڑ کر بہت آگے نکل گئی تھی، جس کی مجھے سزا ملی۔

________________________

اب وہ زمین پر بیٹھی ایک ایک کرکے کاغذوں کے ٹکڑے پھاڑ پھاڑ کر اس کھودے گئے گڑھے میں پھینک رہی تھی۔

جب سارے کاغذ اس نے گڑھے میں رکھ دئیے تھے، پھر اس نے پرس میں سے ٹشو پیپر نکالا، اسے کھولنے لگی، اس میں سرخ رنگ کی چوڑیوں کی کرچیاں تھیں جو اس نے گھڑے میں پھینکیں....

وہ کچھ لمحے خاموشی سے ان کوتکتی رہی... پھر بولی۔
میں نے اس سے پوچھا، زئی سرخ رنگ ہی کیوں؟ اس نے کہا.....
سرخ رنگ محبت کی علامت ہے۔
اس نے غلط کہا تھا شاہ۔

سرخ رنگ تو اس خون کی پیشنگوئی تھی، جو میری آنکھوں سے بہتا تھا۔"

پھر اس نے دوسرے ٹشو پیپر کو کھولا اور اس میں رکھی مٹی گڑھے میں گرانے لگی....
یہ وہ مٹی ہے شاہ جسے اس کے پیروں نے چھوا تھا، اس مٹی کو سمبھالتے سمبھالتے میں آپ مٹی ہو گئی ہوں.....

وہ اٹھ کھڑی ہوئی...... اور بیلچہ لے کر آس پاس کی مٹی کاغذوں پر ڈالنے لگی۔
ہر بیلچہ کے ساتھ مٹی جب کاغذوں پر پڑتی تو کچھ آواز پیدا ہوتی۔
وہ بولی،
"آپ نے کبھی کاغذوں کو روتے دیکھا ہے؟
پتا ہے شاہ یہ کاغذ رو رہے ہیں، انہیں عادت ہوگئی تھی، اشنال کے آنسوؤں کی۔

مگر شاہ یہ کاغذ بھی زئی کی طرح خود بھی غرض ہیں۔یہ محبت پر نہیں رو رہے، یہ اسلئے رو رہے ہیں کہ اب کبھی پاگل آنکھوں والی لڑکی ان پر اپنی اذیت تحریر کرکے روئے گی نہیں۔

انہیں شاید معلوم ہو چکا ہے کہ اشنال زئی، اشنال سید بن چکی ہے۔"
اسے حق تھا وہ اسے روک سکتا تھا، مگر اس نے نہیں روکا، وہ اسے ہر وہ کام کرنے دینا چاہتا تھا جسے کرنے کے بعد وہ سکون محسوس کرے.....

_________________________

اب مٹی کے ساتھ اشنال کے آنسو بھی قبر کی مٹی میں جذب ہو رہے تھے۔

اشنے تم نے رونا ہے تو میں جارہا ہوں۔"
بالآخر اسکا ضبط جواب دے گیا....
وہ پیچھے پلٹی،اوربے یقینی سے اسے دیکھا۔

نیلی جینز پر، پنک ڈارک بلیو شرٹ، فولڈڈکف، کلائی پر چمکتی سلور گھڑی، فوجی کٹ، ہئیر اسٹائل، اسٹائلش سی بئیرڈ، دھوپ کی تمازت سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ خفگی سے اسے دیکھتا روٹھا روٹھا ساوہ پہلی بار اسے پیارا لگا تھا.....

وہ کیپٹن شاہ کو پہلی بار غور سے دیکھ رہی تھی،وہ اسکا دیکھنا محسوس کر رہا تھا.....
پھر وہ لہجے میں چیلنج کر کے بولی....

چلے جائیں گے، مجھے چھوڑ کر؟"
کتنی مشکل میں پڑھ گیا تھا وہ....
اب وہ منہ موڑ کر گاڑی کے چھت پر دونوں بازو رکھے کھڑا ہو گیا۔
شاید شاہ کی ناراضگی کا اظہار تھا، وہ مسکرائی....

اچھی طرح سے قبر بنا کر اس نے شاہ سے منگوائی تختی اٹھائی،جوکہ سیاہ رنگ کی تھی اور سفید رنگ سے"پاگل آنکھوں والی لڑکی" لکھا ہوا تھا....

اور اسے قبر کے سر کی جانب مٹی میں دبانے لگی۔ پھر اس نے آخری کام مرجھایا ہوا گلاب مٹی میں لگا دیا،اور اٹھ کھڑی ہوئی۔

آنسوؤں سے تر آنکھوں،اور چہرے کے ساتھ کانپتی ہوئی آواز میں بولی۔
جاؤ زئی، میں نے تمہیں آزاد کیا،ساری قسموں سے، سارے وعدوں سے، اپنے ہر آنسو سے، اپنی ہر اذیت سے رہا کیا۔

اپنی ذہنی بربادی بھی بخش دی تم کو۔ اپنے وجود کے ہوئے ٹکڑوں پر کیاہوا ماتم بھی تم کو بخش دیا۔ جاؤ میں نے تم کو خدا کی رضا کے لیے معاف کیا۔"

اب روتے روتے اس کا وجود لرزنے لگا تھا.....
شاہ آگے بڑھا اور اسے خود سے لگالیا....
کافی دیر وہ اس کے ساتھ لگی ہچکیاں لیتی رہی،
شاہ کی شرٹ اس کے آنسوؤں سے بھیگتی رہی۔
مگر آج اسے یہ سب کرکے سکون ملا تھا،اس کے دل کا بوجھ اترا تھا۔

آج اللہ پاک نے ایک اذیت سے پوری طرح آزاد کیا تھا،اور شاہ جیسے محرم کا ساتھ دیا تھا۔یہ سب محسوس کر کے اسے سکون ملا تھا۔

پھر اشنال نے ایک الوداعی نظر پاگل آنکھوں والی لڑکی کی قبر پر ڈالی اور شاہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر اس کے ساتھ گاڑی کی طرف بڑھ گئی.....

پھر اس کی تدفین کرنے کو
ٹوٹے ہوئے خوابوں کے قافلے آئے...!!!

______________________
جاری ہے۔
خوش رہیں پیارے لوگوں ❤️✨

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when urdu hon posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share