Master TV

Master TV Hello! Welcome to the official page of Master TV.

”پروفیسر سرفراز مسیح: خدمت سے علم کی سرفرازی کا مسافر“ (ایاز مورس)زندگی میں اگر ہدف واضح ہو، مقصد بڑا اور نیک ہو، محنت ک...
16/10/2025

”پروفیسر سرفراز مسیح: خدمت سے علم کی سرفرازی کا مسافر“
(ایاز مورس)

زندگی میں اگر ہدف واضح ہو، مقصد بڑا اور نیک ہو، محنت کا جذبہ اور لگن کی عادت ہو تو انسان وہ مقام حاصل کر لیتا ہے جس کی اسے خواہش اور چاہت ہوتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے اب تک کے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ جس انسان کو اپنی منزل کا علم ہو، وہ اُس تک پہنچنے کے راستے ڈھونڈ لیتا ہے۔ پروفیسر سرفراز مسیح سے مل کر بھی یہی احساس ہوتا ہے۔ ان سے چند سال قبل سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ ہوا، مگر اس دوران وہ کراچی سے لاہور تشریف لے آئے۔ کراچی میں ملاقات نہ ہو سکی، تاہم پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی جب وہ مجھے ملنے آئے۔

کہتے ہیں کہ آپ کسی انسان کے ساتھ وقت گزاریں، کھانا کھائیں اور سفر کریں تو اس کی شخصیت کے مختلف پہلو آپ پر آشکار ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ماہ ان کے ساتھ خصوصی وقت گزارنے کا موقع ملا۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوئی۔ اسی ملاقات میں مجھے پروفیسر سرفراز مسیح کی زندگی اور اُن کی کہانی کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔
اُن کی اس شاندار کامیابی کی کہانی کا سفر کئی نشیب و فراز سے گزرا، جہاں کامیابیاں اور اعزازات بھی اُن کا حصہ رہیں۔ تاہم اس کہانی میں سیکھنے کے لیے کئی اہم اسباق بھی پوشیدہ ہیں۔ نہ جانے کیوں مجھے ان سے مل کر یہ احساس ہوتا تھا کہ شاید ہمارا کہیں نہ کہیں کوئی رشتہ ہے، جو ہمارے خیالات میں یکسوئی، اور برادرانہ محبت کے ساتھ رفاقت اور خلوص کو نمایاں رکھتا ہے۔ یہ خاصہ کراچی میں رہنے والوں میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ جناب کا تعلق سیالکوٹ سے ہے، یعنی وہی شہر جہاں سے میرے اجداد کا تعلق ہے۔ شاید یہی مٹی کی وہ خوشبو تھی جو ہمارے رویوں اور جذبوں سے جھلکتی ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم:

پروفیسر سرفراز مسیح 20 اکتوبر 1976 کو گاؤں ڈنگراں والی، تحصیل پسرور، ضلع سیالکوٹ میں یوسف مسیح اور ایلِس بی بی کے ہاں پیدا ہوئے، جبکہ اُن کی پرورش قصبہ بڈیانہ میں ہوئی۔ اُن کے 6 بہن بھائی ہیں اور وہ پانچویں نمبر پر ہیں۔اُنہوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول بڈیانہ سے میٹرک، ایف ایس سی (پری میڈیکل) گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ سے، اور بعدازاں پرائیویٹ طور پر بی اے کراچی یونیورسٹی سے مکمل کیا۔

پیشہ ورانہ تعلیم:

پروفیسر سرفراز مسیح نے لیاقت نیشنل اسپتال کراچی، اسکول آف نرسنگ سے جنرل نرسنگ اور کرٹیکل کیئر نرسنگ کا ڈپلومہ کیا۔ بعد ازاں بیچلر آف نرسنگ، اور ایم ایس نرسنگ آغا خان یونیورسٹی، اسکول آف نرسنگ اینڈ مڈوائفری، کراچی سے مکمل کیا۔علاوہ ازیں، انہوں نے 2020 میں ہیلتھ کیئر کوالٹی پروفیشنلز سرٹیفکیٹ (CHQP)، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے اور 2011 میں پبلک ریلیشن مینجمنٹ (PRM) سرٹیفکیٹ، انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ پروفیشنل ایکسیلنس سے حاصل کیا۔

کیریئر کا سفر:

پروفیسر سرفراز مسیح نے نرسنگ کے شعبے میں 1997 میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ مختلف ادوار میں انہوں نے نرس، انسٹرکٹر، وائس پرنسپل، سینئرلیکچرر، اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ایم ایس نرسنگ پروگرام لیڈ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

اہم ذمہ داریاں:

1997 تا 2013:لیاقت نیشنل اسپتال، کراچی (اسٹوڈنٹ نرس، انسٹرکٹر، سینئر لیکچرر اور وائس پرنسپل)
2013 تا 2021: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کراچی ، اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر، پروگرام لیڈ، ایم ایس نرسنگ)
2021 تا حال: پرنسپل و پروفیسر، لاہور اسکول آف نرسنگ، یونیورسٹی آف لاہور
ایڈجنکٹ ایسوسی ایٹ پروفیسر، اسکول آف نرسنگ اینڈ مڈوائفری، تہران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز، ایران
قومی و بین الاقوامی خدمات:
پروفیسر سرفراز مسیح پاکستان نرسنگ اینڈ مڈوائفری کونسل (PNMC) کے بطور ممبر اور انسپکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔وہ نیشنل کریکولم ریویژن کمیٹی (NCRC) برائے نرسنگ، ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) پاکستان کے بھی ممبر رہ چکے ہیں (2015 تا 2020)۔
علاوہ ازیں، وہ ساؤتھ ایشیا مڈل ایسٹ ریجن نرسز کرسچن فیلوشپ انٹرنیشنل (NCFI) کے صدر اور 2016 تا 2024 انٹرنیشنل بورڈ ممبر بھی رہے۔وہ انٹرنیشنل اکیڈمک نرسنگ الائنس (IANA) اور سگما تھیٹا ٹاؤ انٹرنیشنل (STTI) کے2015 سے2017تک ایڈوائزری بورڈ ممبر بھی رہے، جو دنیا کی دوسری بڑی نرسنگ باڈی ہے۔

تحقیقی اور تعلیمی خدمات:

پروفیسر سرفراز مسیح 50 سے زائد ایم ایس نرسنگ ریسرچ مقالوں کی نگرانی کر چکے ہیں۔ وہ پاکستان کی پانچ جامعات کے لیے ریسرچ ریویو اور نگرانی کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔وہ کئی قومی و بین الاقوامی جرائد کے لیے ریویوئر کے طور پر کام کر چکے ہیں اور مختلف کانفرنسوں، سیمینارز اور ورکشاپش میں بطور اسپیکر مدعو ہو چکے ہیں۔ان کے تحقیقی موضوعات میں دائمی بیماریاں (ذیابیطس، قلبی امراض، ذہنی صحت)، ایویڈنس بیسڈ پریکٹس، اسپرچوئل کیئر نرسنگ، نرسنگ ایجوکیشن، لیڈرشپ اور پیلی ایٹو کیئر شامل ہیں۔

اعزازات و ایوارڈز:

پروفیسر سرفراز مسیح کو اُن کی نمایاں کارکردگی کے اعتراف میں متعدد اعزازات و ایوارڈز ملے، جن میں چند نمایاں درج ذیل ہیں۔اُن کے کئی انٹرویوز بھی ہو چکے ہیں۔
2003تا2005: میرٹ ایوارڈ برائے تحقیق، آغا خان یونیورسٹی
2012: پیپر پریزنٹیشن انٹرنیشنل ایوارڈ، لیاقت نیشنل اسپتال سمپوزیم
2012: گولڈن پیپل ایوارڈ، گریجویٹ کرسچن فیلوشپ پاکستان
2016: بہترین کارکردگی ایوارڈ، ینگ نرسز ایسوسی ایشن سندھ
2017: ریسرچ سیمینار ایوارڈ، سینٹ جیمز انسٹیٹیوٹ آف نرسنگ اینڈ ہیلتھ سائنسز
2017تا2018: ٹیچنگ ایکسیلنس ایوارڈ، ڈاؤ یونیورسٹی
2018: آؤٹ اسٹینڈنگ اچیومنٹ ایوارڈ، انٹرنیشنل نرسز ڈے
2019: لیڈرشپ اسکلز ایوارڈ، ڈاؤ انسٹیٹیوٹ آف نرسنگ اینڈ مڈوائفری
2021: ریسرچ پوسٹر پریزنٹیشن، سیمینار ایوارڈ، نیو لائف کالج آف نرسنگ

چیلنجز:

اپنی زندگی کے سفر کے بارے میں بتاتے ہوئے پروفیسر سرفراز مسیح نے کہا کہ انہوں نے ابتدا میں کئی مالی مشکلات کا سامنا کیا۔ اس کے علاوہ مناسب اور بروقت رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے کیریئر کے انتخاب میں بھی دشواریاں پیش آئیں، تاہم انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔
اُن کے نزدیک کامیابی کے حصول کے لیے ڈسپلن بنیادی اکائی ہے۔ مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنا، وژن کو واضح رکھنا اور اہداف کو بڑا رکھنا کامیابی کی کنجی ہے۔چند سال قبل اُنہیں کئی دفعہ فیملی سمیت امریکہ اور کینیڈ ا میں امیگریشن کا موقع ملا لیکن اُنہوں نے پاکستان میں رہنے اور خدمت کا انتخاب کیا۔

نوجوانوں کے نام پیغام:

انہوں نے نوجوانوں کے لیے پیغام میں کہا کہ اپنے ذاتی اہداف ضرور مقرر کریں، اور اپنے ایمان و عقیدے کو عملی زندگی میں سلیقے اور وفاداری کے ساتھ اپنائیں۔ کسی بھی پوزیشن کا مطالبہ کرنے سے پہلے اُس کے معیار پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریں۔ آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق اسکلز پر مبنی تعلیم حاصل کریں، اپنی پرسنل برانڈنگ پر توجہ دیں۔ سادہ زندگی گزاریں مگر اپنی منفرد پہچان ضرور بنائیں۔
پروفیسر سرفراز مسیح اپنے سفر میں والدین، بھائیوں قمر مسیح، اشکنا ز، بیگم مسز ڈولی سرفراز اور اساتذہ، بالخصوص سر ولسن جان کی رہنمائی کو اہم قرار دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں، لیاقت نیشنل اسپتال کی انتظامیہ کے بھی مشکور ہیں جنہوں نے بی ایس اور ایم ایس نرسنگ کے دوران اسپانسرشپ فراہم کی۔

پروفیسر سرفراز مسیح کے ساتھ رات کا کھانا کھا کر جب میں نے اُن سے اجازت چاہی تو انہوں نے بڑے خلوص سے کہا”بھیّا! آج رات میرے پاس ہی رک جائیں۔“میں نے عاجزی سے شکریہ ادا کیا اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ راستے میں لاہور کی ٹریفک اپنے زور و شور سے رواں دواں تھی اور میں اپنے خیالوں میں گم، پروفیسر سرفراز مسیح کے ساتھ گزرے لمحوں کی تازگی، اُن کی محبت، عزت اور خلوص کی مٹھاس کو محسوس کر رہا تھا۔یوں خیال آیا کہ جو دوسروں کو عزت دیتے ہیں، درحقیقت وہی اصل عزت کماتے ہیں۔دھیما لہجہ، شائستہ طبیعت، خدمت کا جذبہ اور علم سے محبت،پروفیسر سرفراز مسیح واقعی خدمت سے علم کی سرفرازی کے مسافر ہیں، جو دُنیا کا نور بن کر علم کی روشنی بانٹ رہے ہیں۔ اُن کی زندگی کی کہانی، کامیابی کا سفر، مسلسل محنت، خوداعتمادی اور ہمت کی خوبصورت داستان ہے، جس پر اُن کے خاندان، کمیونٹی، یونیورسٹی اور معاشرے کو فخر ہونا چاہیے۔

Master TV | Ayaz Morris | Sarfraz Masih |

Inspiring journey and success story of Prof. Sarfraz Masih , Principal, School of Nursing, University of Lahore,  Articl...
11/10/2025

Inspiring journey and success story of Prof. Sarfraz Masih , Principal, School of Nursing, University of Lahore, Article by Ayaz Morris for Master TV — highlighting his personal, professional, and academic achievements, along with his valuable cntribution.
His story is a true reflection of dedication, leadership, and passion to uplift nursing education in Pakistan.

📖 Read and share your thoughts — I’d love to hear your view.



ذہنی صحت؛ سب سے بڑی نعمت  (ایاز مورس)ذہنی صحت کی نعمت کتنی بڑی دولت ہے، اس کا اندازہ اُنہی لوگوں کو ہوتا ہے جو اس سے محر...
10/10/2025

ذہنی صحت؛ سب سے بڑی نعمت
(ایاز مورس)

ذہنی صحت کی نعمت کتنی بڑی دولت ہے، اس کا اندازہ اُنہی لوگوں کو ہوتا ہے جو اس سے محروم ہوتے ہیں یا اس سے دوچار ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ابھی تک ذہنی صحت ایک معمہ بنی ہوئی ہے، جس کے متعلق بے شمار غیر ضروری اور منفی چہ میگوئیاں گردش کرتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے سوشل میڈیا انفلوئنسرز، ادیب، اور سماجی رہنما اپنے قاریوں تک مثبت پیغام پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے بین الاقوامی سطح پر شعور کو اجاگر کرنے کا عالمی دن ہے، جس کا مقصد ذہنی صحت کے موضوع پر عوامی آگہی پیدا کرنا، مکالمے کو فروغ دینا، غلط معلومات کو کم کرنا، اور بہتر ذہنی صحت کی خدمات تک رسائی کو بڑھانا ہے۔
تاریخی پسِ منظر
یہ دن ہر سال 10 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ اس کا آغاز 1992 میں ورلڈ فیڈریشن فار مینٹل ہیلتھ (WFMH)نے کیا تاکہ دُنیا بھر میں ذہنی صحت کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ابتداء میں اس دن کا کوئی خاص موضوع نہیں ہوتا تھا، مگر 1994 سے ہر سال ایک مرکزی موضوع مقرر کیا جانے لگا جو کسی خاص ذہنی صحت کے چیلنج یا نقطہ توجہ کو اُجاگر کرتا ہے۔
مقاصد اور اہمیت
اس دن کا مقصد ذہنی بیماریوں اور ذہنی صحت کے مسائل کے بارے میں عوامی آگہی کو بڑھانا، ذہنی صحت سے متعلق خدشات (stigma) اور غلط فہمیوں کو کم کرنا ہے تاکہ لوگ مدد لینے سے ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ذہنی صحت کی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانا، پالیسی سازوں، حکومتوں، تنظیموں اور عوامی شعبے کو اس اہم موضوع پر توجہ دلانا، اور ذہنی صحت کو عمومی صحت کا لازمی حصہ تسلیم کرنا بھی اس دن کے اہم اہداف میں شامل ہے۔جیسا کہ کہا گیا ہےThere is no health without mental health.
سال 2025 کا موضوع
اس سال کا موضوع ”آفات اور ہنگامی حالات میں ذہنی صحت؛ سہولیات اور خدمات تک رسائی“ہے۔
(Access to Services: Mental Health in Catastrophes and Emergencies)
اس موضوع کا مقصد یہ ہے کہ بحران، جنگ، قدرتی آفات، وبائی امراض یا دیگر ہنگامی صورتِ حال میں ذہنی صحت اور نفسیاتی معاونت کی ضرورت کو تسلیم کیا جائے، اور اس بات کی نشاندہی ہو کہ جب حالات خراب ہوں تو صرف جسمانی ضروریات نہیں بلکہ ذہنی معاونت بھی ناگزیر ہوتی ہے۔یہ موضوع اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ہنگامی حالات میں ذہنی دباؤ، صدمہ، خوف، بے یقینی، اور غم شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں لوگوں کو مؤثر اور پائیدار خدمات کی ضرورت ہوتی ہے جو اُنہیں سنبھال سکیں، بحالی میں مدد دیں، اور معاشرے کو دوبارہ معمول پر لانے کی صلاحیت پیدا کریں۔اگر ذہنی صحت کے شعبے کو ایمرجنسی تیاری اور ردِعمل کا حصہ بنایا جائے تو اس سے انسانی نقصان، معاشی بوجھ اور سماجی انتشار کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ذہنی صحت کے لیے عملی اقدامات
ذہنی صحت کے حوالے سے صرف آگاہی مہم چلانا کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے ذاتی، خاندانی، تعلیمی اداروں، کام کی جگہوں اور معاشرتی سطح پر عملی اقدامات اور سہولتوں کی فراہمی ضروری ہے۔مشہور مارکیٹنگ ایکسپرٹ مارٹن لنڈسٹروم کا کہنا ہے۔”اگر مدد مانگنا آپ کو کمزوری لگتی ہے تو یاد رکھیں، ایپل کمپنی کو بھی ایک ووزنیاک کی ضرورت تھی۔“
ذہنی صحت کی خرابی کے نقصانات
ذہنی صحت کی خرابی کے نقصانات کسی بھی جسمانی، مالی، روحانی یا تعلیمی نقصان سے کم نہیں، اس لیے اسے ہمیشہ اہمیت اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جسمانی ورزش اور لائف اسٹائل
ذہنی صحت کے حوالے سے ایک اہم پہلو زندگی کے طرزِ عمل (Lifestyle) کا بہتر ہونا بھی ہے۔ موجودہ دور میں جہاں ٹیکنالوجی اور مصنوعی آسائشوں نے زندگی کو آسان بنانے کے بجائے پیچیدہ کر دیا ہے، وہاں انسان کے سکون، ٹھہراؤ، اور اطمینان میں نمایاں کمی آئی ہے۔ایسے بچے یا افراد جو جسمانی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں، وہ ذہنی طور پر بھی زیادہ توانا اور متوازن رہتے ہیں۔
سوشل میڈیا کا استعمال
مختلف تحقیقی مطالعات اور بگ ڈیٹاسے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سوشل میڈیا کا بے دریغ اور منفی استعمال ذہنی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔یہ نہ صرف ہمارا وقت، سرمایہ اور توانائی ضائع کرتا ہے بلکہ ذہنی سکون کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ لہٰذا سوشل میڈیا کا بامقصد اور محدود استعمال ناگزیر ہے۔
وقت کا مثبت استعمال
اپنے وقت اور توانائی کا مثبت سرگرمیوں میں استعمال ہمیں بہت سی ذہنی پریشانیوں، بیماریوں، اور مشکلات سے محفوظ رکھتا ہے۔جو لوگ اپنے وقت اور صلاحیتوں کو بامقصد اور مفید کاموں میں صرف کرتے ہیں، وہ ذہنی طور پر زیادہ صحت مند اور متوازن رہتے ہیں۔
اپنی ذات اور قدرت سے تعلق
ذہنی صحت کے حوالے سے خود کو جاننا، اپنے ساتھ بہتر تعلق قائم کرنا، اور قدرتی مناظر کے قریب رہنا انتہائی ضروری ہے۔
اور معروف لیڈرشپ ایکسپرٹ سائمن سینک کے مطابق”ہم کام اور زندگی میں اُس وقت ہی ورک لائف بیلنس رکھ پائیں گے جب ہم گھر میں اور کام کی جگہ پر خود کو محفوظ محسوس کریں۔“
ذہنی صحت ایک نعمت:
ذہنی طور پر صحت مند اور مضبوط رہنے کے لیے نفرت، حسد، اور انا جیسے خطرناک جراثیم سے 24/7 حفاظت کے لیے ذہنی پختگی بہت ضروری ہے۔جس طرح جسمانی طور پر صحت مند رہنے کے لیے اچھی غذا اور عادات ضروری ہیں، بالکل اسی طرح ذہنی طور پر توانا رہنے کے لیے مثبت سوچ اور اچھی عادات نہایت اہم ہیں۔
جسمانی اور روحانی تندرستی کے لیے اتنی کوششیں کی جاتی ہیں، تو ذہنی صحت کے لیے بھی کوئی عملی قدم کیوں نہیں؟جب ہم اپنے دماغ اور قدرتی صلاحیتوں کا استعمال اجتماعی بہتری اور دوسروں کی بھلائی کے لیے نہیں کرتے، تو ہمارا دماغ موقوف ہو جاتا ہے۔یہ مسائل کے حل کی بجائے مزید مسائل پیدا کرتا ہے، وسائل کی تلاش کے بجائے بہانے تلاش کرتا ہے، اور اپنی ذمہ داری لینے کی بجائے دوسروں پر الزام لگاتا ہے۔یاد رکھیں! اگر آپ کا دماغ آپ کا سب سے بہترین دوست نہیں، تو وہ آپ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔اس کی حفاظت اور استعمال بڑی احتیاط سے کریں۔

کاتھولک ویمن آرگنائزیشن،آرچ ڈایوسیس کراچی کے زیرِ اہتمام یومِ امن کا پروگرام کراچی (ماسٹر نیوز)کاتھولک ویمن آرگنائزیشن،آ...
09/10/2025

کاتھولک ویمن آرگنائزیشن،آرچ ڈایوسیس کراچی کے زیرِ اہتمام یومِ امن کا پروگرام

کراچی (ماسٹر نیوز)کاتھولک ویمن آرگنائزیشن،آرچ ڈایوسیس کی جانب سے یومِ امن کے حوالے سے ایک خوبصورت پروگرام کا انعقاد گُڈ شیپرڈ پیرش کے علاقے سینٹ جان میری ویانی کاتھولک چرچ، کورنگی نمبر ساڑھے تین میں کیا گیا۔تقریب میں چرچ گروپس، گھریلو خواتین اور نوجوان لڑکیوں نے بھرپور شرکت کی۔پروگرام کے مہمانِ خصوصی اور مقرر معروف اسپیکر و ٹرینر ایاز مورس تھے۔پروگرام کا آغاز علاقائی انچارج ماسٹر سیموئل سردار کے استقبالیہ کلمات سے ہوا، جنہوں نے مہمانِ مقرر اور منتظمین کو خوش آمدید کہا اور پھولوں کے ہار پیش کیے۔کاتھولک ویمن آرگنائزیشن کی کوآرڈینیٹر سسٹر کیتھرین قیصر نے تنظیم کے مقاصد اور پروگرام کے اغراض بیان کرتے ہوئے کہا کہ کاتھولک ویمن آرگنائزیشن کا مقصد خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنا، سماجی شعور اجاگر کرنا اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے آگاہی فراہم کرنا ہے۔
اپنے خطاب میں ایاز مورس نے عالمی سطح پر امن کی موجودہ صورتحال، اس کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ امن ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ جب ہم خود امن میں ہوں گے تو دوسروں کے لیے بھی امن کا سبب بنیں گے۔ امن پسندانسان، خاندان اور کمیونٹی ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ایاز مورس نے مزید کہا کہ امن ایک الٰہی صفت ہے جو پوری انسانیت کی ضرورت ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اسے کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کی کامیابی میں امن کا مرکزی کردار ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یومِ امن منانے کا مقصد ہمیں اس ذمہ داری کی یاد دہانی کرانا ہے کہ دُنیا میں امن قائم رکھنے اور فروغ دینے کے لیے ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔اور ہمیں اس کا آغاز اپنے گھروں سے کرنا چاہئے۔پروگرام کے اختتام پر سسٹر کیتھرین قیصرنے پیرش پریسٹ فادر آصف جون، ماسٹرسیموئل سردار، مقرر ایاز مورس سمیت تمام منتظمین اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
Master TV Ayaz Morris Catherine Qasier

06/10/2025

Caritas Pakistan’s Flood-Relief Efforts & Impact | Amjad Gulzar | Ayaz Morris | Master TV | Caritas Pakistan |


03/10/2025

Pakistan's First Christian AI Biography Film “Imam” Review | Haroon Shad | Ayaz Morris |
Master TV | |

Coming up next only on Master TV | Ayaz Morris | Haroon Shad |
24/09/2025

Coming up next only on Master TV | Ayaz Morris | Haroon Shad |

Coming up next only on Master TV
23/09/2025

Coming up next only on Master TV

"جنریشن زی کے چیلینجز"(ایازمورس)نوجوان نسل اپنی ذہن سازی اور رویے میں بہتری لا کر ذاتی وپیشہ روانہ زندگی نئی منزلوں کو چ...
22/09/2025

"جنریشن زی کے چیلینجز"
(ایازمورس)

نوجوان نسل اپنی ذہن سازی اور رویے میں بہتری لا کر ذاتی
وپیشہ روانہ زندگی نئی منزلوں کو چھو سکتی ہے

ہر دُور اور نسل کے اپنے تقاضے اور چیلنجز ہوتے ہیں، ہر گزری نسل کو اپنے بعد آنے والی نسل سے شکوہ ہوتا ہے کہ وہ روایت سے ہٹ کر اپنے انداز سے زندگی بسر کر رہی ہے، جو اُن کے نقطہ نظر کے مطابق درست نہیں ہے۔ حسب روایت آج کل میری نسل کے لوگوں کو یوں لگتا ہے، کہ نئی نسل بالخصوص جنریشن زی زندگی کے حقیقی مقصد سے آگاہ نہیں۔

انہوں نے زندگی کا وہ تجربہ نہیں کیا جو ہم نے کیا تھا، اس لیے یہ زندگی کی حقیقتوں سے ناواقف رہیں گے اور زندگی کے اس نقطۂ نظر کو نہیں دیکھ پائیں گے جو کام یابی کے لیے ضروری ہے۔ میں نوجوانوں کے ساتھ ٹریننگ سیشن اور ورکشاپ میں براہ راست گفتگو کرتا ہوں، جس سے اُن کا نقطہ نظر سمجھنے اور اپنی بات کہنے کا موقع ملتا ہے۔

ایک ٹرینر اور لکھاری ہوتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر نسل کو اپنے بعد آنے والی نسل کے ساتھ اپنے تجربات، مشاہدات اور روایات کو ضرور شیئر کرنا چاہیے تاہم کسی بھی طرح سے نئی نسل کو پابند اور قید نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ان رسومات کی پیروی کریں۔ میں نے جو محسوس کیا اورتجربہ کیا، اُن بنیادوں پر نوجوان نسل بالخصوص جنریشن زی کے چند چیلینجز کو پیش کر رہا ہوں تاکہ والدین، اساتذہ اور تربیت کار اس نسل کی تربیت اور رہنمائی میں بہتر انداز میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

میں اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہ نوجوان، قوموں کی قوت، طاقت اور چہرہ ہوتے ہیں۔ یہ شان دار ماضی کے محافظ اور درخشاں مستقبل کی ضمانت ہوتے ہیں، لیکن ان کے حال کو بہتر بنائے بغیر ان سے یہ توقع حماقت ہے۔ نوجوان اگر واقعی ہمارا فخر اور سرمایہ ہیں تو ان کی پرسنل اور پروفیشنل ڈوپلیمنٹ پر بھرپور وقت صرف کرنا، توجہ، مالی اور جذباتی سرمایہ کاری بہت ضرور ی ہے۔

پاکستان نوجوانوں کی بڑی تعداد پر مشتمل ملک ہے، لیکن ہمارے ہاں نہ ہی نوجوانوں کو مناسب تعلیم وتربیت دے کر تیار کیا جارہا ہے اور نہ مستقبل کے حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے بھرپور مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔ اگر نوجوان ملک وقوم کا سرمایہ ہیں تو اُن پر صحیح وقت، سمت اور صلاحیتوں کے لیے سرمایہ کاری کریں، ورنہ یہ تعلیمی، تخلیقی اور ٹیکنکل اسکلز کے لیے بے کاری اور بیماری ثابت ہوں گے، جسے انگریزی میں brain drain کہتے ہیں، اور ہمارا معاشرہ تخلیقی اور تعلیمی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہوجائے گا۔ میں نے چند مسائل کی نشان دہی کی ہے جن پر قابو پاکر نئی نسل نئی منزلوں کو چھو سکتی ہے۔

مقصدِحیات سے زیادہ پروفیشن کو ترجیح

میری دانست میں آج کی نوجوان نسل کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اصل مقصد کو تلاش کرنے کے بجائے موجودہ رجحانات اور حالات کے مطابق پروفیشن اور کیریئر کا انتخاب کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور جدید تقاضوں کے اعتبار سے یہ طرزِعمل کسی حد تک درست ضرور ہے، لیکن انسانی زندگی کی اصل تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے مقصدِحیات کو سمجھ کر اپنی ترجیحات کا تعین کرے۔

میری نظر میں اگر جنریشن زی اپنے زندگی کے مقصد کو اپنے پروفیشن اور دیگر ترجیحات کے ساتھ ہم آہنگ کر لے تو وہ نہ صرف کام یابی کی نئی منزلیں طے کرسکتی ہے بلکہ ایک متوازن اور بامقصد زندگی بھی گزار سکتی ہے۔

ہر چیز کا حل؛ آج نہیں کل

یوں تو ہمارے معاشرے میں ہر دُور کی نسل کا یہ المیہ رہا ہے، مگر آج کی نسل میں یہ رجحان زیادہ نمایاں ہے کہ وہ ہر مسئلے کا حل کل پر ڈال دیتی ہے۔ کام یاب اور متحرک قوموں کی زندگی میں ’’آج‘‘ کی بے پناہ اہمیت ہوتی ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’جو کام آپ آج کر سکتے ہیں، اسے کل پر ہرگز مت ڈالیں۔‘‘ عام مشاہدے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ جنریشن زی اکثر آج کے کاموں کو کل پر چھوڑ دیتی ہے، جس کے نتیجے میں زندگی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے، بے پرواہی پیدا ہوتی ہے، اور انسان دیرپا کام یابی حاصل نہیں کر پاتا ہے۔ لہٰذا، جنریشن زی کو یہ اصول اپنانا چاہیے کہ آج کے کام آج ہی مکمل کریں اور کل کے کام کل پر چھوڑیں۔ یہی عادت انہیں ایک کامیاب، منظم اور فعال زندگی کی طرف لے جا سکتی ہے۔

دِل نہیں؛ نمبر چاہیے

مجھے جنریشن زی کا سب سے حیران کن اور نہ سمجھ میں آنے والا مسئلہ یہ لگتا ہے کہ یہ دِل کی بات کے بجائے اعدادوشماریعنی نمبرز کی بنیاد پر اپنی زندگی کے فیصلے کرتے ہیں۔ چاہے وہ تعلیمی کیریئر ہو، ازدواجی زندگی ہو یا پیشہ ورانہ سفر، یہ ہمیشہ دِل کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں اور بگ ڈیٹا کو اصل اہمیت دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی ایپس ہوں، یوٹیوب کے ویوز ہوں، لائکس یا کمنٹس، ان کے لیے سب کچھ نمبرز کا گیم ہے۔ دِل مطمئن ہو یا نہ ہو، ان کے لیے نمبرز کا حصول ضروری ہے، کیوںکہ ان نمبرز سے انہیں برتری اور کام یابی کا احساس ملتا ہے۔

مصنوعی دُنیا میں حقیقی خوشی کے متلاشی

کبھی کبھی مجھے جنریشن زی پر ہنسی بھی آتی ہے اور ترس بھی، کیوںکہ یہ مصنوعی دُنیا میں حقیقی خوشی کے متلاشی ہیں۔ ڈیجیٹل گیجٹس، سوشل میڈیا ایپس اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا یہ دور ان کے لیے کھلونوں کی طرح ہے۔ اسی لیے یہ زندگی کے نشیب و فراز کو پوری طرح سمجھ ہی نہیں پاتے اور مشکل حالات کا سامنا کرنے کا حوصلہ کم رکھتے ہیں۔ یہ نسل اپنی احساسات اور توقعات کو اس مصنوعی دُنیا سے اس قدر جوڑ لیتی ہے کہ انہیں لگتا ہے یہی حقیقی دُنیا ہے۔ ان کے مزاج کا اندازہ نوجوان کے خون خراب ہونے سے نہیں بلکہ فون خراب ہونے سے لگایا جا سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جنریشن زی اپنی مصنوعی کام یابی کو حقیقی خوشی سمجھ بیٹھتی ہے، اور اسی وابستگی کے نتیجے میں ذہنی صحت کے مسائل اور رویوں کی بے ترتیبی عام ہوتی جا رہی ہے۔

صبر نہیں بلکہ ابھی

چوں کہ جنریشن زی ہر چیز کو فاسٹ اور تیزرفتار دُنیا میں حاصل کرنے کی عادی ہو چکی ہے، ان کے لیے فاسٹ فوڈ، فاسٹ انٹرنیٹ، فاسٹ سروس اور فاسٹ نتائج ہی سب کچھ بن گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر کام یابی اور کام کی تکمیل کے لیے تیزرفتاری کو ہی اصل معیار سمجھتے ہیں۔ یہ طرززندگی ان کے اندر صبر کی صلاحیت اور انتظار کی اہمیت کو کم زور کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ زندگی کی اس خوب صورت حقیقت اور سچائی سے ناواقف رہتے ہیں کہ بڑی کام یابیاں وقت اور استقامت مانگتی ہیں۔ اکثر یہی بے صبری انہیں جلدبازی کا شکار بنا دیتی ہے، اور وہ کئی غلط فیصلے اور راستوں کا انتخاب کر بیٹھتے ہیں۔ میں اس حوالے سے کئی فلموں کے نام پہلے بھی بتا چکا ہوں، لیکن میری نظر میں ’ The Intern‘ نوجوان نسل کے لیے خاص طور پر ایک اہم فلم ہے۔ یہ فلم سکھاتی ہے کہ صبر اور برداشت انسان کی زندگی میں دیرپا اور حقیقی کام یابی کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اور یہ خوبی ہے، کم زوری نہیں ہے۔

دُوراندیشی پر وقتی کام یابی کو فوقیت

مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنریشن زی دُوراندیشی کے بجائے وقتی کام یابی کو ترجیح دیتی ہے۔ ان کے نزدیک اصل کام یابی وہی ہے جو فی الحال اور بروقت نتائج دے سکے۔ زندگی کے طویل المدتی فیصلوں اور دیرپا نتائج کے حوالے سے ان کی نگاہ عموماً کوتاہ رہتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ اکثر ایسے فیصلے کر بیٹھتے ہیں جو بظاہر موجودہ وقت کے لیے کارگر ہوتے ہیں، مگر مستقبل کے لیے نہ دیرپا ثابت ہوتے ہیں اور نہ ہی پائے دار۔

کتاب کا خوب

اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ آج کی نوجوان نسل کو میں کون سا تحفہ دینا چاہوں گا، تو میرا جواب ہوگا: کتاب اور بزرگوں کے ساتھ مضبوط رشتے۔ بے شک آج کی نسل ڈیجیٹل ایپس اور آن لائن ذرائع سے کتاب کا مطالعہ کرتی ہے، لیکن اصل کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے کا لطف اور اثر کچھ اور ہی ہے۔ کتاب کا باقاعدہ مطالعہ نہ صرف انسان کی روحانی اور نفسیاتی صحت کے لیے مفید ہے بلکہ سائنسی اور ذہنی نشوونما کے لیے بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طرح بزرگوں کے ساتھ جڑے رشتے زندگی کے انمول تجربات، حکمت اور صبر کی وہ دولت عطا کرتے ہیں جو کسی ڈیجیٹل دُنیا میں نہیں مل سکتی ہے۔ کتاب، نوجوان اور مطالعہ صحت مند معاشرے کی بنیاد میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاسی اور سماجی طور پر متحرک نوجوانوں کے لیے مطالعہ انتہائی اہم ہے۔کاش پاکستانی معاشرے میں سیاسی جماعتوں میں سرگرم نوجوان اور کارکنوں کو مطالعے کی لت لگ جائے تو اس معاشرے میں اک نئی رُوح پھونکی جاسکتی ہے۔ اس اُمید اور سوچ کے ساتھ میں نوجوانوں کو کتاب کا تحفَہ دیتا ہوں۔

کام یابی سفر ہے منزل نہیں

کیریئر کونسلنگ کے سیشنز اور ٹریننگ کے درمیان اکثر نوجوان بچے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ سر! ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمارے والدین نہیں مانتے ہیں۔ میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ہمارے والدین بتانے سے نہیں، بلکہ دکھانے سے مانتے ہیں! کیوںکہ ہر والدین اپنے بچوں کو کام یاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں خود ایک باپ ہوں اور اس حقیقت سے اب اچھی طرح واقف ہوا ہوں۔

اس لیے میں اکثر اور نوجوانوں کو، خاص طور پر ایسے بچوں کو جو مشکل حالات، کم وسائل والے گھرانوں سے آتے ہیں، یہ مشورہ دیتا ہوں، کہ اپنے والدین کو اپنی کام یابی کے معیار اور معراج کا انتظار کرنے کی بجائے، اپنے سفر کے بارے میں ضرور دکھائیں۔ اکثر لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ انتظار کرتے ہیں کہ جب تک وہ کسی بڑے مقام، بڑے عہدے اور کام یابی کے اعلیٰ معیار کو حاصل نہیں کرلیں گے، اس وقت تک وہ اپنے والدین کے لیے فخر کا باعث نہیں بن سکتے! میری زندگی کا تجربہ ہے، میں نے بہت سارے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ جب وہ کام یابی کے مطلوبہ نتائج کو حاصل کرتے ہیں یا اپنی منزل کی معراج پر پہنچتے ہیں، تو اس کام یابی کے محرک اور سب سے زیادہ انتظار کرنے والے والدین اس وقت ان کے ساتھ نہیں ہوتے، اور پھر وہ کمروں میں چھپ چھپ کر اپنی کام یابی پر روتے ہیں کہ کاش ان کے والدین ان کو کام یاب ہوتا ہوا دیکھ پاتے۔ اس لیے میری درخواست ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہیں، جس مقام، جس سفر اور منزل کی جانب گام زن ہیں، اپنے والدین کو دکھائیں اور اس سفر میں انہیں شامل کرلیں۔ اپنے والدین کو اپنی محنت کا ثمر اپنی آنکھوں سے دیکھنے دیں۔

خُدا ہمارے والدین کو صحت، اچھے دن دیکھنے کی نعمت اور اپنے بچوں کی کام یابی کو دیکھنے اور براہ راست تجربے کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)

یاد رکھیں ہمیں اپنی نئی نسل کو وقت کے تضاضوں کے مطابق تیار کرنا ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنی ذات، بلکہ اپنے خاندان، شہر اور ملک کی نمائندگی اور بہتر قیادت کر سکیں ۔ آج کے نوجوان کے پاس وہ ذرائع اور سوچ بھی ہے، ضرورت ہے تو سمت اور مقصد کے حصول کے لیے ڈسپلن کی طاقت کی جسے علامہ اقبال نے بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔

خِرد کو غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

20/09/2025

"How to Develop Dressing Sense in Children?"

In this video, I, Ayaz Morris —CEO of Master TV —have the opportunity to speak with Hamid Saeed Image Consultant and wardrobe consultant Hamid Saeed about developing a good dressing sense in children.

Hamid Saeed highlights the importance of parents serving as role models for their kids. He especially encourages mothers to learn proper dressing etiquette so they can guide their children. He also emphasises the significance of colours, clothing fit, and overall presentation in shaping a child’s confidence and personality.

Fathers, he advises, should also be role models and teach their children how to care for their clothes. According to Hamid Saeed, cultivating a strong dressing sense not only boosts children’s confidence and personality but also prepares them for future success.

✨ Watch the full conversation to learn more about dressing and style tips for children.
🔗 https://youtu.be/x7TzncPkrQk?si=9Lvky1J3_Hag3ir7

👉 Subscribe to
https://www.youtube.com/
for more insightful content!


Coming up next only on Master TV | Ayaz Morris | Hamid Saeed |
19/09/2025

Coming up next only on Master TV | Ayaz Morris | Hamid Saeed |

Address

DHA Phase II Ext
Karachi
75500

Telephone

+923422739678

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Master TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Master TV:

Share