Master TV

Master TV Hello! Welcome to the official page of Master TV.

Dr. Saqlain Sher , an HR professional, is currently on a visit abroad. During this trip, he had the wonderful opportunit...
23/11/2025

Dr. Saqlain Sher , an HR professional, is currently on a visit abroad. During this trip, he had the wonderful opportunity to meet and interview the renowned Pakistani film legend Shabnam in Dhaka, Bangladesh.

In this article, for Master TV he shares his memorable meeting and heartfelt conversation with the iconic actress, highlighting her warmth, grace, and enduring love for Pakistan.
Read and enjoy


Coming up next only on Master TV
23/11/2025

Coming up next only on Master TV

23/11/2025

🎵 Inspiring Journey of Haroon Shad | Ayaz Morris | Master TV

📌
In this inspiring episode of TV, Ayaz Morris (CEO, Master TV), had the privilege of sitting down with Haroon Shad — a renowned musicologist, pianist, and music educator.

Haroon Shad shares his remarkable journey, his deep love for music and piano, and the challenges he faced while rising from a humble background as a member of a religious minority to becoming a respected figure in mainstream music.

From struggling beginnings to achieving milestones like:

🎹 Becoming a faculty member at the National College of Arts (NCA) and LUMS
🎼 Playing national anthems of various countries
📚 Teaching hundreds of music students across Pakistan

— Haroon’s story is a powerful testament to passion, commitment, continuous learning, and contribution.

✨ Dive into his life, his philosophy, and his professional achievements in this full interview.

👉 Watch the complete video, subscribe to Master TV, and share it to support our content!


میرا لکھنے کا سفر کیسے شروع ہوا؟ ایاز مورس  قدرت میرے جیسے لکھاریوں پر یہ کرم کرتی ہے کہ ہمیں چند الفاظ کا تحفہ عطا کر د...
23/11/2025

میرا لکھنے کا سفر کیسے شروع ہوا؟

ایاز مورس


قدرت میرے جیسے لکھاریوں پر یہ کرم کرتی ہے کہ ہمیں
چند الفاظ کا تحفہ عطا کر دیتی ہے، جو شاید ہمارے حالات تو نہیں بدل سکتے، لیکن ہمارے حالات سے جنم لینے والے دِرد اور احساسات و تجربات کو لفظوں میں بیان کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں۔

میرا لکھنے کا سفر کیسے شروع ہوا؟ پہلے میرا صرف یقین تھا لیکن اب میں ایمان کی حد تک اس بات پر قائل ہوں کہ لکھنے کا تحفہ قدرت نے مجھے انعام کے طور پر دیا ہے۔ یہ میری قابلیت، صلاحیت اور محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ میرے بزرگوں کی ریاضت، خلوص اور دُعاؤں کا ثمر ہے۔ کیونکہ میں جس پس منظر سے آیا ہوں وہاں تخلیقی اور تحریری کام بالکل ایک نیا کام تھا۔

جنوبی پنجاب کے گاؤں چک نمبر 270 لوریتو، ٹی ڈی اے، لیہ سے صرف 14 سال کی عمر میں اپنی فیملی کے ساتھ 2002 میں کراچی شفٹ ہونے کے بعد میری زندگی نے ایک بہت اہم موڑ لیا جس نے میرے تخلیقی اور تحریری سفر کو بھی ایک نئی سمت دی۔ میری سوچ، زندگی کا انداز اور معاشرے کے بارے میں اپروچ یکسر تبدیل ہو گئی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے بچپن میں کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا، لیکن نصابی کتاب میں دلچسپی نہیں تھی۔ اُنہی کہانیوں کی تلاش نے لکھنے کی تحریک دی۔ 2004 سے ریاست، اُمت، ایکسپریس نیوز اور دیگر اخبارات میں آرٹیکلز اور مضامین پڑھنے شروع کیے۔ اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد میں اپنی زندگی اور دُنیا کے مستقبل کے حوالے سے بہت مایوس تھا۔ اُس وقت میں کالج میں ایف ایس سی پری میڈیکل کا طالب علم تھا۔ میڈیکل کا اسٹوڈنٹ کا ہونے کا ایک فائدہ، لیکچرز کے نوٹس لکھنے کی عادت تھی، جس نے نوٹس بنانے، تیز لکھنے، ہیڈنگز لکھنے، اور مضمون نگاری میں آسانی فراہم کی۔ لکھنے کا بیج میری رُوح کے اندر موجود تھا، جسے کراچی کے ادبی ماحول، حالات اور شعوری بیداری نے پروان چڑھایا۔

2005 میں ہی معروف سیلف ہیلپ مصنف ڈیل کارنیگی کی کتاب ”پریشان ہونا چھوڑیے، جینا سیکھے“ پڑھنے کے بعد میری زندگی نے ایک نیا رخ لیا۔ تب سے میں نے اپنے خیالات اور تاثرات کو لکھنا شروع کر دیا۔ 2006 میں GCF کے ایک سالہ لیڈرشپ کورس کے دوران مختلف اخباروں کے آرٹیکلز کو زیادہ غور سے پڑھنے کا شوق ہوا، اور وہاں ”روزنامہ آفتاب“ بھی ملتا تھا جس سے پڑھ کر مسیحی لکھاریوں کی تحریریں دیکھنے کا موقع ملا۔ دِل میں خواہش ہوتی کہ میں بھی اپنی تحریریں بھیجوں۔ اس دوران میں کالج میں تھا اور اپنی میڈیکل ایجوکیشن پر فوکس کر رہا تھا، اس لیے گھر والے میری کسی اور سرگرمی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اور ویسے بھی لکھنا اور لکھاری بننا ان کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں تھا، جو آج بھی شاید نہ ہو۔ اس دوران میں نے کچھ آرٹیکل لکھے اور ایک دو اخباروں میں بھیجے جو شاید شائع نہ ہوئے۔

تاہم 2007 کے دسمبر میں ”ہفت روزہ آگاہی“ کا آغاز ہوا تو ہمارے علاقے ضیاء کالونی، کورنگی کے میرے دوست ریاست رضا نے میرا ایک آرٹیکل، جو میں نے ہاتھ سے لکھا تھا، ”آگاہی“ میں پہنچایا اور وہ 2008 کو شائع ہوا۔ اسی سال اکتوبر میں، میں نے کیٹی کیٹیکل سینٹر کو جوائن کیا اور ”آگاہی“ کے ساتھ دسمبر 2016 تک وابستہ رہا۔ اس دوران میں نے بے شمار موضوعات پر مضامین، رپورٹس اور مقالے لکھے۔ میرے زیادہ تر موضوعات مذہبی نوعیت کے تھے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ میرا رجحان سماجی، معاشرتی موضوعات اور انسانی رویوں پر زیادہ ہو گیا۔ آرٹیکلز کی کچھ کٹنگز میرے پاس موجود ہیں لیکن زیادہ محفوظ نہیں رہیں۔ ویب سائٹ بھی اب ایکٹیو نہیں جس کی وجہ سے ڈیٹا محفوظ نہ رہ سکا۔ تاہم 2012 میں فیس بک جوائن کرنے کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے آرٹیکلز محفوظ ہو گئے۔ دسمبر 2016 میں کیٹی کیٹیکل سینٹر چھوڑنے کے بعد بھی میں نے ”آگاہی“ میں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن 2020 تک وقفے وقفے سے ہی لکھتا رہا۔ انتظامیہ کی جانب سے بلاوجہ تعطل اور تاخیر کی وجہ سے میں نے یہ سلسلہ بند کر دیا۔ ویسے بھی 2012 کے بعد فیس بک پر میں نے زیادہ توجہ دی اور اپنی مختصر کہانیاں، واقعات اور اقوال کو شیئر کرنا شروع کیا۔

2019 میں میرے تحریری سفر میں ایک سنہری اور اہم موڑ آیا جب میرا پہلا آرٹیکل 18 ”میں کیوں لکھتا ہوں؟“ ، مئی 2019 کو ”ہم سب“ پر شائع ہوا۔ ہم سب نے میرے تحریری سفر کو ایک نئی شکل دی۔ اس کی وجہ سے میرا بے شمار نئے اور معروف لکھاریوں سے تعارف ہوا اور تعلق قائم ہوا۔ نئے لکھاری بھی میسر آئے اور قاری بھی۔ میرے موضوعات کی نوعیت اور حلقہ احباب وسیع ہوا۔ مئی 2020 میں میرے لکھنے کے سفر کو میں نے صحیح معنوں میں ایکسپریس کیا جب ”ایکسپریس نیوز سنڈے میگزین“ میں میرا پہلا آرٹیکل 2 مئی 2021 کو ”تعلیم کا مستقل اپنے حال سے بے خبر“ شائع ہوا۔ پچھلے پانچ سال میں میں نے ایکسپریس نیوز سنڈے کے لیے بے شمار آرٹیکلز لکھے اور ساتھ ساتھ ”ہم سب“ پر بھی سلسلہ جاری رکھا۔ اس دوران دیگر ویب سائٹس، قومی، کمیونٹی اور بین الاقوامی جریدوں میں بھی میرے مضامین شائع ہوئے جن میں چند قابل ذکر ہیں، نئی بات، جہاں پاکستان، جنگ لندن، اوصاف، The Friday Times، City News۔ ان سب کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اب سارا مواد میرے پاس محفوظ اور ڈیجیٹلائز ہو چکا ہے۔

ٹریننگ، سفر اور دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ لکھنا میری عادت سے بڑھ کر شوق اور پھر زندگی بن چکا ہے۔ زندگی کے سفر میں بے شمار مسائل اور نشیب و فراز آئے لیکن لکھنے کے عمل نے مجھے نئی زندگی دی۔ میں نے اپنے دِرد، حالات، مشکلات اور خیالات کو کاغذ پر اتار دیا جو اب نہ صرف میرا بلکہ میرے قارئین کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ لکھنا اب میرے لیے زندگی کا اہم حصہ ہے بلکہ میری پہچان بن چکا ہے۔ آہستہ آہستہ میں اپنے اس کام کو منظم اور مرتب کر کے ایک باقاعدہ شکل دے رہا ہوں۔

• مختصر کہانیوں کی ایک کتاب
• اقوالِ زرّیں کی کتاب
• میری زندگی کی کہانی (انگریزی)
• Life & Legacy of Legends
• ”باتوں باتوں میں“ انٹرویوز کی کتاب
• بچوں کی نشوونما و تعلیم و تربیت پر ایک کتاب
• چند کتابوں کے تراجم
دادا کی زندگی پر کتاب

یہ سب زیر ترتیب اور تکمیل کے مرحلے میں ہیں جو آنے والے وقت میں پرنٹ اور ڈیجیٹل فارم میں قارئین کے لیے پیش کروں گا۔

لکھنا میرا شوق تھا، پھر ذوق بنا، اور اب زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ میں جس دن کچھ نہ پڑھوں یا نہ لکھوں، ایسا لگتا ہے جیسے میں نے اس دن کوئی کام کیا ہی نہیں ہے۔ میں سفر میں ہوں، ٹریننگ میں ہوں یا کسی اور مشغلے میں، ڈائری، کاغذ، فون، لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا رہتا ہوں۔ ابھی بہت سا مواد قارئین تک نہیں پہنچ سکا۔ مجھے شدت سے احساس ہے کہ یہ میرے لیے قدرت کا تحفہ ہے۔ میں کسی غلط فہمی میں نہیں رہتا کہ میں کوئی غیر معمولی یا دُنیا سے منفرد لکھاری ہوں۔ میں صرف اپنی ذات، اپنی شناخت اور اپنے جذبات، تجربات اور واقعات کو سچائی کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے پر یقین رکھتا ہوں۔ میری اپنے رب سے التجا اور دُعا ہے کہ میں جہاں بھی رہوں، لکھتا ضرور رہوں۔ اس سوچ، ارادے اور یقین کے ساتھ لکھوں، اور ایک دن بہتر سے بہتر لکھنا سیکھ جاؤں۔ ہر دفعہ لکھنے کے بعد تشنگی رہتی ہے کہ اس سے بہتر ہو سکتا تھا۔ اس سفر میں کئی ٹریننگ ورکشاپس، رائٹنگ کورسز اور آن لائن پروگرام سے سیکھا؛ لیکن یہی سفر جاری ہے۔ اور میں اپنے ساتھ جڑے رہنے والے قارئین کا شکر گزار ہوں جنہوں نے حوصلہ افزائی کی، رائے دی، ساتھ دیا، وقت دیا اور زندگی کے حالات کے آگے ڈٹ جانے کا حوصلہ بھی دیا۔ اگر میری تحریریں آپ کو بہتر انسان بننے میں مدد کرتی ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ میرا حق ادا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ میں نے اپنے الفاظ کے ذریعے زندگی بانٹنے، لوگوں کو بہتری کی طرف راغب کرنے اور انسانی وقار کی سربلندی کے لیے لکھنے کا عزم کیا تھا۔ میں اپنے رہنماؤں، محسنوں اور ہم عصر لکھاریوں کا بھی شکر گزار ہوں جن کی تحریر، اصلاح اور مشوروں نے میری تحریر کو نکھارنے میں کردار ادا کیا۔ لکھنے کے سفر میں ٹیکنالوجی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ شروع میں ہاتھ سے کاغذ پر لکھنا، پھر کمپوزنگ، پھر پروف ریڈنگ، یہ سب مشکل اور وقت طلب کام تھا۔ میری خوش قسمتی کہ 2008 میں میں نے ان پیج سیکھ لیا اور خود ٹائپنگ شروع کر دی۔ اب تو ChatGPT اور دیگر ٹولز نے بہت سہولت دے دی ہے۔ آپ چلتے پھرتے موبائل سے بھی ریکارڈ کر سکتے ہیں اور تحریر کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ لیکن میں آج بھی یقین رکھتا ہوں کہ پیپر پر اہم نکات لکھ کر، نقشہ سازی کر کے، پھر اسے کمپیوٹر میں ٹائپ کرنا بہتر اور معیاری کام پیدا کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے اُردو ٹائپنگ میں غلطیاں کم ضرور کی ہیں مگر انسان کا اندازِ بیان اور نقطہ نظر متاثر ہو سکتا ہے، اور میرے خیال میں مستقبل میں یہی ایک لکھاری کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گا کہ وہ اپنے رائٹنگ اسٹائل کو ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ کرے۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے پرنٹ، الیکٹرانک، ڈیجیٹل، ریڈیو اور سوشل میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم پر مسلسل کام کیا ہے۔ بے شمار ویڈیو انٹرویوز، پوڈکاسٹ، ٹی وی چینلز کے مارننگ شوز اور سوشل میڈیا کے مختلف میڈیمز استعمال کرنے کے باوجود میں نے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ ”ہم سب“ سے ”آپ سب“ کا اس تخلیقی سفر میں معاونت کا شکریہ۔

Master TV | | Ayaz Morris

اے نیئر؛ خوب صورت آواز اور خوش اخلاق شخصیت کے مالک اپنی دل کش آواز سے موسیقی کی دُنیا میں منفرد پہچان بنانے والا درخشا...
17/11/2025

اے نیئر؛ خوب صورت آواز اور خوش اخلاق شخصیت کے مالک

اپنی دل کش آواز سے موسیقی کی دُنیا میں منفرد پہچان بنانے والا درخشاں ستارہ

(ایازمورس)

جرمن فلسفی آرتھر شوپنہاور نے کہا تھا کہ ’’موسیقی رُوح کی غذا ہے۔‘‘ اس بات کا تجربہ عام انسانوں کی نسبت فن کار اور گلوکار زیادہ کرتے ہیں۔ بزرگوں کی دُعاؤں کا انجام، قدرت کا اہتمام، فن کار کے ذوق کا انعام جب یکجا ہوکر مل جائیں، تو فن کار اپنے فن کے ساتھ مجسم ہوکر دُنیا میں پیدا ہوتا ہے۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنے فن کی معراج کو چھوتے ہیں، اپنے شعبے میں منفرد اور اعلیٰ مرتبہ حاصل کرتے ہیں، اور اپنی خدمات کے ذریعے دوسروں کے لیے روشن مثال بنتے ہیں۔ ایسے فن کار جن کا فن لازوال، باکمال اور لاجواب ہوتا ہے۔ اگر وہ زندہ معاشروں میں پیدا ہوں، جہاں فن اور فن کار کی قدر گوہرِ نایاب کی طرح کی جاتی ہو، تو وہ فن کار ہیرے بن جاتے ہیں جن کی چمک سے دُنیا کو روشنی ملتی ہے۔

آج کے مضمون میں ہم ایک ایسے درخشاں ستارے اور شان دار فن کار کی زندگی کی داستانِ اور خدمات کو خراجِ تحسین پیش کریں گے، جس نے اپنے فن سے اپنی انڈسٹری میں اپنا لوہا منوایا، اور جس کے گیت آج بھی اس کے چاہنے والوں کے دِلوں میں حرارت، ذہنوں میں خوش گوار یادیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں۔

میں کافی عرصے سے معروف گلوکار آرتھر نیئر المعروف اے نیئر پر لکھنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن ان کے متعلق انٹرنیٹ پر موجود ناکافی اور نامکمل معلومات کے علاوہ خاندان سے رابطے یا کسی مستند ذرائع کی دست یابی ممکن نہیں ہوپارہی تھی۔ دو سے تین سال کی مسلسل تلاش اور ریاضت کے بعد آخرکار انٹرنیٹ پر ان کی فیملی کا نعیم ہیری کے ساتھ ایک انٹرویو ملا۔ میں دِلی طور پر جناب نعیم ہیری کا شکر گزار ہوں جنہوں نے امریکا سے مجھے اے نیئر کی اہلیہ کا رابطہ نمبر فراہم کیا، جس کی بدولت میری ان سے بات ہوئی اور یوں ان کے میڈیا منیجر، تخلیقی سفر کے ساتھی اور منہ بولے بھائی شاہد حُسین سے رابطہ قائم ہوا، جنہوں نے نہ صرف بے شمار معلومات کی تصحیح کی بلکہ کئی نئی اور مستند معلومات بھی فراہم کیں۔

ابتدائی زندگی

اے نیئر 14 اپریل 1950کو ساہیوال کے ایک نواحی گاؤں چک نمبر 148/9 ایل رینسن آباد (Ransonabad) میں پروٹسٹنٹ مسیحی خاندان میں چوہدری منیرالدین ناصر اور مبارک بیگم کے ہاں پیدا ہوئے۔ آرتھر نیئر چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔

ابتدائی تعلیم اور پرورش عارف والا میں پائی، 1962 میں لاہور تشریف لے گئے جہاں تاریخی درس گاہ سینٹ فرانسس اسکول، انارکلی سے میٹرک کیا۔ ابتدا ء میں چرچ کے کوائر میں سرگرم ہوئے جہاں ان کی آواز نے اپنا جادو جگانا شروع کیا۔ پھر انہوں نے ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا، جہاں سے بی اے، بی ایڈ 1974 میں کیا۔ یہاں وہ اپنی موسیقی کی بدولت کافی معروف ہوئے۔

خاندانی زندگی

1980 میں ان کی شادی اپنے رشتے داروں میں روبینہ نیئر سے ہوئی۔ خُدا نے انہیں تین بیٹیاں، کامنی نیئر، کرن نیئر، مشعل نیئر اور ایک بیٹا جوشوا نیئر عطا کیا۔ ان کی شریکِ حیات روبینہ نیئر کا کہنا ہے کہ وہ ایک بہت اچھے شوہر، خوش مزاج اور خیال رکھنے والے انسان تھے۔ وہ اپنی ماں سے بے حد پیار کرتے تھے، اس لیے ان کی والدہ ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے پسندیدہ فن کاروں میں سلیم رضا، مہدی حسن، کشور کمار شامل تھے۔

انہوں نے موسیقی کو اپنی زندگی بنایا اور قوم و ملک کا نام روشن کیا۔ ایک میوزک اکیڈمی بھی بنائی لیکن وہ چل نہ سکی، کچھ عرصہ نوکری بھی کی۔ ان کی بڑی بیٹی کا کہنا ہے کہ ان کے والد بہت شفیق باپ تھے، بہت زیادہ مذاق کرتے تھے، اکثر صبح چار بجے اٹھ کر ریاض کرتے تھے۔ ان کی ایک بیٹی بھی ان کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔ اے نیئر کی بیٹیاں بیرونِ ملک مقیم ہیں جب کہ ان کی بیوی لاہور میں رہتی ہیں۔

تخلیقی سفر کا آغاز

اے نیئرنے ریڈیو، ٹی وی اور فلم کے لیے بطور پلے بیک سنگر یعنی پسِ پردہ گلوکار عمدہ خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے 1973 سے گلوکاری کا باقاعدہ آغاز کیا اور 4200 سے زائد گیت پانچ زبانوں، مقامی و غیرملکی، میں گائے۔ ان کی پہلی ریکارڈنگ 1973 میں ریڈیو پاکستان سے ہوئی، جہاں موسیقار کریم شہاب الدین اور شاعر امجد اسلام امجد تھے۔ اسی سال وہ ریڈیو کے مستقل گلوکار بن گئے اور درجنوں نامور موسیقاروں کے ساتھ ایک ہزار سے زائد گانے ریکارڈ کیے۔ اسی طرح ان کا ٹی وی کا آغاز پی ٹی وی سے ہوا، جب انہوں نے 1971 میں رفیق وڑائچ کے پروگرام میں موسیقار سہیل فضلی کے تحت بطور گلوکار پہلی بار شرکت کی۔

پھر وہ پی ٹی وی کے باقاعدہ گلوکار بن گئے۔ ان کے فلمی سفر کا پہلا فلمی گیت 1973 میں معروف اداکار شان کے والد ریاض شاہد کے لیے موسیقار اے حمید کے ساتھ ریکارڈ ہوا۔ اس وقت کے آٹھ بڑے گلوکاروں کے درمیان جگہ بنانا مشکل تھا، مگر جلد ہی وہ ان میں اپنی منفرد شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے تقریباً تمام معروف موسیقاروں اور اداکاروں کے لیے ہزاروں گیت گائے۔

اسٹیج پروگرامز

انہوں نے دُنیا کے کئی ممالک میں سیکڑوں موسیقی اور ثقافتی شوز میں پرفارم کیا، جن میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا، ناروے، سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک، کینیا، جاپان، متحدہ عرب امارات، قطر اور عمان وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے 20 سے زائد فلاحی و عطیہ شوز بھی ترتیب دیے جن کا مقصد فن کاروں کی امداد اور سیلاب و زلزلہ متاثرین کے لیے مدد کرنا تھا، جن فن کاروں کے ساتھ کام کیا ان میں نمایاں نام محمد علی، شبنم، ندیم، جاوید شیخ، بابرہ شریف، شمیم آراء اور دیگر شامل ہیں۔ میزبانوں میں معین اختر، دلدار پرویز بھٹی، عمر شریف، البیلا، بشریٰ انصاری، طاہرہ واسطی قابلِ ذکر ہیں۔ خواتین گلوکاراؤں میں ملکہ ترنم نورجہاں، ناہید اختر، نیرہ نور، طاہرہ سید، مسرت نذیر، مالا، بینجمن سسٹرز، سلمیٰ آغا، مہناز، عابدہ پروین، فریحہ پرویز، ثریا خانم، افشاں اور ترنم ناز شامل ہیں۔ مرد گلوکاروں میں مہدی حسن، منیر حسین، مسعود رانا، غلام علی، اخلاق احمد، پرویز مہدی، عنایت حسین بھٹی، اسد امانت علی، نصرت فتح علی خان، عارف لوہار، غلام عباس اور دیگر شامل ہیں۔ موسیقاروں میں اے حمید، نثار بزمی، ایم اشرف، رابن گوش، کمال احمد، امجد بوبی، نوشاد، طافو برادران، ذوالفقار علی، کریم شہاب الدین، خالد احمد، واجد عطرے، بخشی وزیر، جی اے چشتی، مجاہد حسین، تصدق حسین اور صفدر حسین کے ساتھ کام کیا۔ شعراء میں جن کا کلام انہوں نے گایا، علامہ اقبال، فیض احمد فیض، صوفی تبسم، منیر نیازی، قتیل شفائی، مسرور انور، ریاض الرحمٰن ساغر، خواجہ پرویز، فیاض ہاشمی، وارث لدھیانوی، حزیں قادری، تسلیم فاضلی، سعید گیلانی، شوکت رضوی، کلیم عثمانی، یونس ہمدم، نصیر علی نصیر، ایوب کھوکھر، شاہد حُسین اور حبیب جالب نمایاں ہیں۔

اعزازات

اُنہیںصدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی بعد از مرگ 2018 میں دیا گیا۔ نیشنل فلم ایوارڈ، 8 مرتبہ نگار ایوارڈ، 8 مرتبہ گریجویٹ اکیڈمی ایوارڈ، بولان اکیڈمی ایوارڈ (بلوچستان)، بہترین کارکردگی ایوارڈ (کینیڈا)، بہترین کارکردگی ایوارڈ (امریکا)، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ (روزنامہ نئی بات، 2012) اور مختلف اداروں و تنظیموں کی جانب سے سیکڑوں شیلڈز اور میڈلز مل چکے تھے۔

قومی جذبہ اور خدمات

انہوں نے درجنوں قومی نغمے ریڈیو، ٹی وی، فلموں اور اسٹیج پر گائے جن سے ان کی پاکستان سے محبت کا اظہار ہوتا ہے، جن میں چند معروف نغمے درج ذیل ہیں۔ میرا پاک وطن میرا دھن لوگو، یہ دیس میرا دیس، ہم پاکستانی ہیں، تو ہے سارے جہاں سے حسین (فلم شعلے)، سب سے پہلے پاکستان (12 گلوکاروں کے ساتھ)، پاکستان زندہ باد۔ انہوں نے 14 اگست کے یومِ آزادی کے پروگرامز امریکا، برطانیہ، کینیڈا، ناروے اور متحدہ عرب امارات میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے منعقد کیے۔ انہوں نے دل دار پرویز بھٹی کے ساتھ دُنیا بھر میں شوکت خانم اسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ پروگرام اور سماجی و فلاحی شوز کیے۔

آواز خاموش ہوئی، مگر میراث زندہ رہی

11 نومبر 2016 کو لاہور میں اے نیئر کا انتقال ہارٹ اٹیک سے ہوا۔ انہیں لاہور کے مسیحی قبرستان، جیل روڈ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ زندگی کے آخری برسوں میں وہ صحت اور مالی مسائل سے دوچار رہے، جیسا کہ ہمارے کئی فن کاروں کا مقدر بن جاتا ہے۔ اے نیئر کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ صلاحیت اور فن مذہب یا پس منظر کی پابند نہیں ہوتے ہیں، کیوںکہ وہ ایک عام اور مسیحی خاندان سے ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے ہر طبقے میں یکساں مقبول رہے۔ ان کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیں اپنے فن کاروں کی قدر ان کے عروج کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی بھر کرنی چاہیے۔ عصرِ حاضر کی تیز رفتار اور ڈیجیٹل دُنیا میں اے نیئر کی آواز آج بھی دِلوں کو چھو لینے والے جذبات اور اُس زمانے کی رُوح کو زندہ رکھتی ہے، جب موسیقی دِل سے بنائی جاتی تھی۔

اے نیئر صرف ایک گلوکار نہیں تھے؛ وہ ایک عہد کی دھڑکن تھے۔ وہ دھنوں کے درویش، گیتوں کی چمک، وہ آواز جس نے وقت کو روک لیا، دِل کی دھڑکن کا نغمہ گایا، یادوں کا سنگیت، ریت پہ نقشِ نغمہ، پاکستان کی سرگم کا نایاب نام ہیں۔ ریشم جیسی آواز جو نسلوں تک گونجتی رہی، پاکستانی فلم اور ٹیلی وژن موسیقی کے سنہری دُور میں ایک ایسی آواز جو ریشم کی نرمی اور فولاد کی مضبوطی رکھتی تھی۔ آرتھر نیئر نہ صرف ایک غیرمعمولی گلوکار تھے بلکہ پاکستان کے متنوع ثقافتی منظرنامے میں مذہبی ہم آہنگی، استقامت اور فنی اعلیٰ درجے کی علامت بھی تھے۔ ایک ستارے کا جنم جس کا سادہ آغاز مگر بلند اُمنگیں تھیں۔ ایک عام پس منظر رکھنے والے اے نیئر، جنہوں نے اس دُور میں شہرت حاصل کی جب مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی بہت محدود تھی۔ ان کی قومی شہرت تک رسائی محنت، لگن اور جنون کی داستان ہے۔ ان کی آواز آج بھی موسیقی کے شائقین کے دِلوں میں تازہ ہے۔

مشہور گانے

اے نیئر نے مہناز کے ساتھ کئی مشہور گانے گائے جن میں آج ہے جمعہ کل (فلم کبھی الوداع نہ کہنا)، او میری جانِ وفا (فلم آبشار)، رشتہ پیار کا (فلم بینظیر قربانی)، مٹ گئیں سب دوریاں (فلم نزدیکیاں)، مانو کہ تم ہو (فلم لیڈر)۔ اسی طرح درج ذیل فلموں کے گیت شامل ہیں۔ زندگی، بارود کی چھاؤں، دیوانے دو، بلندی، ہیرو، آندھی اور طوفان، نزدیکیاں، باغی قیدی، لواسٹوری وغیرہ۔ مشہور نغموں میں یہ جو پھولوں سے خوشبو آتی ہے (باغی قیدی)، موسم کوئی آئے (ہم اور تم)، دُنیا کو ہم نے عشق کی (بیویاں ہائے بیویاں)، آئی لو یو (بلندی)، پیار بھرا یہ جیون (ایک دوجے کے لیے)، پیار تو اک دن ہونا تھا ہونا تھا ہوگیا، ساتھی مجھے مل گیا، مل گیا مل گیا، ملے دو ساتھی، کھلی دو کلیاں، اک بات کہوں دِلدارا، جی رہے ہیں ہم تنہا۔ یہ فہرست 1978 سے 1992 کے درمیان گائے گئے درجنوں گیتوں پر مشتمل ہے جنہوں نے پاکستانی فلمی موسیقی کی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل کیا۔

شہرت کی بلندیوں تک ان کے پہلے فلمی نغمہ ’’یوں ہی دن کٹ جائے، یوں ہی شام ڈھل جائیں‘‘ (فلم بہشت، 1974) نے انہیں فوری شہرت عطا کی۔ یہ ان کے تین دہائیوں پر محیط شان دار کیریئر کا آغاز ثابت ہوا۔ 1975 تا 1990 جب وہ احمد رشدی کے بعد سب سے پسندیدہ آواز بن گئے اور اپنی آواز کی رینج اور تنوع کے باعث اکثر کشور کمار سے تشبیہ دیے جاتے تھے۔ مخصوص انداز، تنوع اور جذبات کی گہرائی کی بدولت اے نیئر کی آواز میں ایک خاص جادو تھا؛ گرم جوشی، پُراثر اور فوراً پہچانی جانے والی آواز تھی۔ وہ رومانوی نغموں، قومی ترانوں، درد بھری غزلوں اور فلمی گیتوں کو یکساں خوبصورتی سے گا سکتے تھے۔

ادیب اور ہمارا سماجی المیہ

ویسے تو ادب اور ادیبوں کے بارے میں یہ رویہ اور وطیرہ ہمارے معاشرے میں عام ہوچکا ہے، مگر اے نیئر کے حوالے سے میں اس بات پر حیران ہوں کہ جنہوں نے قومی سطح پر بے شمار کام کیا، اور ساتھ ہی اپنی کمیونٹی کے لیے بھی کئی گیت اور زبور گائے، ان کا ذکر کہیں خاطر خواہ انداز میں نہیں کیا جاتاہے۔ آج جب بے شمار مسیحی چینلز، اسٹوڈیوز اور ادارے قائم ہوچکے ہیں، تب بھی اے نیئر کی خدمات کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ واقعی مستحق ہیں۔ ان کے نام پر نہ کوئی موسیقی کا مقابلہ، نہ تقریب، نہ ایوارڈ، اور نہ ہی کوئی اسٹوڈیو منسوب کیا گیا۔ حکومتی سطح پر بھی ان کے خاندان یا ان کی فنی خدمات کی وہ پذیرائی نہیں ہوئی جس کے وہ حق دار تھے۔ ان کے نام پر نہ کوئی سڑک رکھی گئی، نہ کسی ادارے یا فن پارے میں ان کی یاد کو زندہ رکھا گیا۔

اس وقت میری انگلیاں لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر چل رہی ہیں، مگر میرا دِل اور میری رُوح اے نیئر کی موسیقی اور آواز کی گونج سے محظوظ ہورہی ہے۔ خوب صورت آواز، خوش شکل اور خوش اخلاق اے نیئر نے جہاں پاکستان کی فلم انڈسٹری کا عروج بھی دیکھا تو زوال بھی کمال دیکھا۔ وہی زندگی نے انہیں خوب آزمایا، ایک طرف جواں سال بیٹے کی بیماری اور موت کا صدمہ، انڈسٹری کے بدلتے حالات، معاشی مسائل، بیگم کا علاج، بیٹیوں کے تعلیمی اخراجات، سب سے بڑھ کر اپنوں اور پرائیوں کی بے رخی اور بے حسی، اے نیئر کو وقت سے پہلے جہاں لے گئی؛ لیکن ان کی خوب صورت آواز کا سحر اور سنہری یادیں ہمیشہ موسیقی کے عاشقوں کے دِلوں میں رہیں گی۔ آئن اسٹائن نے کہا تھا۔

’’اگر میں طبیعیات داں نہ ہوتا تو شاید ایک موسیقار ہوتا، کیوںکہ میں اکثر موسیقی میں سوچتا ہوں۔ میں اپنے خوابوں کو موسیقی میں جیتا ہوں۔ میں اپنی زندگی کو موسیقی کے سروں کی طرح دیکھتا ہوں۔‘‘

*آصف عمران؛ علامتی جمالیات کا معتبر افسانہ نگار*ایاز مورس10 ستمبر 2025 کو لاہور میں معروف افسانہ نگار جناب آصف عمران سے ...
17/11/2025

*آصف عمران؛ علامتی جمالیات کا معتبر افسانہ نگار*
ایاز مورس

10 ستمبر 2025 کو لاہور میں معروف افسانہ نگار جناب آصف عمران سے ملاقات اور انٹرویو کا موقع ملا۔ گفتگو کے دوران انہوں نے نہایت محبت اور خلوص کے ساتھ اپنی نئی کتاب ”روزنِ خواب“ مجھے پیش کی، جو افسانوں کا ایک بھرپور مجموعہ ہے۔ میں نے وعدہ کیا کہ مطالعے کے بعد اس کتاب پر اپنی رائے ضرور دوں گا۔ مصروفیات کی وجہ سے تھوڑی تاخیر ہوئی، مگر جب اس کتاب میں ڈوب کر پڑھنا شروع کیا تو محسوس ہوا کہ یہ صرف ایک افسانوی مجموعہ نہیں بلکہ علامتوں، تجربوں، احساسات اور زندگی کے نشیب و فراز سے کشیدہ ایک مکمل تخلیقی جہان ہے۔

168 صفحات پر مشتمل یہ کتاب 2025 میں بک ہوم لاہور سے شائع ہوئی۔ یہ ان کی افسانوی کاوشوں کی چوتھی کڑی ہے۔ اس سے قبل ”سائے کے ناخن“ ، ”لوحِ تحیر“ ، ”اہرامِ آرزو“ جیسی کتابیں ان کی تخلیقی پہچان کا حصہ رہی ہیں، جو فکری گہرائی اور علامتی بہاؤ کے باعث ادبی حلقوں میں مقبول ہوئیں۔ کتاب معیاری، خوبصورت ٹائٹل، عمدہ کاغذ، متوازن ڈیزائن اور نفیس بائنڈنگ کی بدولت پہلی نظر میں ہی قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ کتاب کا انتساب انہوں نے زبور 121 کی ان مبارک آیات کے نام کیا ہے۔

”میں اپنی آنکھیں پہاڑوں کی طرف اٹھاؤں گا
میری کُمک کہاں سے آئے گی
میری کُمک خُداوند سے ہے
جس نے آسمان اور زمین کو بنایا
خُداوند تیرا محافظ ہے
خُداوند تیرے داہنے ہاتھ پر تیرا سائبان ہے۔
نہ آفتاب دن کو تجھے ضرر پہنچائے گا
نہ ماہتاب رات کو
(زبور 121 )

کتاب میں کل 13 افسانے ہیں۔
1: انتظار
2: بِن بادل برسات
3: بارش میں بھیگی کہانی
4: خواب سے آگے
5: حادثہ
6: ہِجر کا صحرا
7: ٹریکٹر ٹرالی
8: دشتِ تمنا کا اِضطراب
9: یسوع اور یوحنا
10 : نامعلُوم سفر کی منزل
11 : بند گلی کا مُسافر
12 : گوشوارہ
13 : دُکھ اپنا اپنا

ڈاکٹر امجد طفیل لکھتے ہیں ”آصف عمران ایک پختہ کار افسانہ نگار ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں اپنی خوابوں کی دُنیا آباد کرتے ہیں۔ وہ اپنے سامنے کی حقیقت کو اپنے افسانوں میں پیش نہیں کرتے بلکہ اپنے افسانوں میں اپنی حقیقت کی تشکیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کسی تخلیق کار کا اپنی تخلیق کی کاوش ایک مشکل عمل ہے۔ اس میں کہیں کامیابی ہوتی ہے اور کہیں کامیابی نہیں ہوتی۔ آصف عمران بھی اپنے جن افسانوں میں حقیقت کی تشکیل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ اچھے افسانے تخلیق کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم ان کے افسانوں“ بن بادل برسات ”،“ خواب سے آگے ”اور“ بند گلی کے مسافر ”کا حوالہ دے سکتے ہیں۔“

مصنف کی زندگی، شخصیت اور ادبی سفر:

آصف عمران کا اصل نام آصف جارج ہے، مگر ادبی دُنیا میں وہ اپنے قلمی نام ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔ 19 جون 1950 کو سکندر آباد، 58 / 4۔ R تحصیل و ضلع ساہیوال میں پیدا ہونے والے آصف عمران 1963 میں لاہور کے علمی و تہذیبی ماحول میں مقیم ہو گئے۔ انہوں نے میٹرک، ایف ایس سی اور بی ایس سی الیکٹریکل انجینئرنگ (پاور) یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور سے مکمل کرنے کے بعد پیشہ ورانہ زندگی کا واپڈا میں بحیثیت سب ڈویژنل افسر سے آغاز کیا اور 1976 ء سے 2010 ء تک مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔ جنوری 2010 میں واپڈا سے بحیثیت چیف انجینئر ریٹائر ہوئے۔

اُردو ادب سے ان کا لگاؤ بچپن ہی سے تھا۔ انہوں نے پہلا افسانہ 1964 میں زبیدہ خاتون پر لکھا جو روزنامہ ”کوہستان“ میں بچوں کے صفحے پر شائع ہوا۔ پہلا علامتی افسانہ ”بہتا دریا ساکن پانی“ دسمبر 1965 میں ”گلفشاں“ میں شائع ہوا، اور یہ بات اس امر کی گواہ ہے کہ تخلیقی روشنی ان کے اندر ابتدا ہی سے موجود تھی۔ ان کی تخلیقات میں ”شہر ِچراغاں“ 1968 مرتب مسیحی شعراء کا انتخاب، ”سائے کے ناخن“ 1981 افسانے، ”لوحِ تحیر“ 2017 افسانے، ”خاموش ادب کا مقدمہ“ 2017 ترتیب و مکالمہ، ”اہرام آرزو“ 2022 افسانے شامل ہیں۔ ان کے افسانوں پر تحقیقی مقالے بھی ہو چکے ہیں۔ سنیتا جیکب کا تحقیقی مقالہ برائے ایم فل اُردو، انسٹیٹیوٹ آف سدرن پنجاب ملتان، اقصیٰ قاسم تحقیقی مقالہ برائے ایم فل اُردو، ایف سی یونیورسٹی، لاہور، مزمل حسین تحقیقی مقالہ برائے بی ایس اُردو، گورنمنٹ گریجویٹ کالج، سول لائن، خانیوال شامل ہے۔ یہ تمام کاوشیں اس بات کی دلیل ہیں کہ آصف عمران صرف افسانہ نگار نہیں بلکہ ادب کے ایک وسیع فکری نظام سے جڑے ہوئے ادیب ہیں۔

معروف شاعر نذیر قیصر لکھتے ہیں۔ ”آصف عمران کے افسانے علامتی الاؤ اور بہاؤ کے افسانے ہیں۔“ سائے کے ناخن ”سے“ لوحِ تخیر ”،“ اہرام آرزو ”اور“ روزنِ خواب ”تک ایک لہر لیتی ہوئی داستان کے خس و خاشاک مسلسل بہاؤ میں ہیں۔ ادب میں علامتی نظام ہمیشہ بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ علامتیں جامد نہیں ہوتیں۔ یہ آئینوں میں لشکارے کی صورت میں ہوتی ہیں جو جھلملاتی رہتی ہیں اور دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کرتی ہیں۔“

جمیل احمد عدیل لکھتے ہیں۔ ”آصف عمران کا افسانہ ’بن بادل برسات‘ اپنے تاثر اور فنی اوصاف کے باعث ان کے نمائندہ افسانوں میں جگہ پانے کے قابل ہے۔ اس افسانے میں جستجو کی متواتر رفاقت قاری کا دھیان گروی رکھے رکھتی ہے۔ فطرت کے مظاہر اگر فرد کے ارادوں سے ہم آہنگ رہیں تو وہ شاکی ہونے کی بجائے روایتی شکر گزاری کو شعار کرتا ہے۔ اس طرح آسودگی اور طمانیت کے ساتھ جینے کو اپنا طریقہ بنا لیتا ہے، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ایسا شخص کچھ بے فکری کے عالم میں زندگی کے دن پورے کرنے کا خوگر ہو جاتا ہے۔“

روزنِ خواب؛ایک علامتی اور تجرباتی دُنیا:

یہ کتاب ان کے تخلیقی سفر میں ایک اہم اضافہ ہے۔ یہ کتاب خواب، حقیقت، المیے، انتظار، جدائی، روحانی تجربے اور انسانی احساسات کے دھاگوں سے بُنی ہوئی ہے۔ یہ سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آصف عمران زندگی کے عام مناظر کو علامتوں اور داخلی تجربے کی زبان میں بیان کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں کہیں خاموش دِرد ہے، کہیں وقت کا دھارا، کہیں مذہبی اور روحانی علامتیں، اور کہیں انسانی رشتوں کی پیچیدگیاں ؛مگر سب سے بڑھ کر ایک بہتا ہوا علاقائی لہجہ ہے۔

ادب کا قرض:

آصف عمران اپنی موضوعاتی وسعت، علامتی اسلوب، انتخابِ کردار، اور زبان کے بہاؤ کی وجہ سے ایک منفرد شناخت بنا چکے ہیں۔ ادبی دُنیا اور قارئین دونوں ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اسی جذبے اور پختگی کے ساتھ مزید ادب تخلیق کریں۔ زندگی کے نشیب و فراز نے اُن کے تخلیقی سفر میں کچھ وقفہ ضرور ڈالا، مگر اب اُمید ہے کہ وہ ایک بار پھر نئے جذبے، نئی جدت اور نئی توانائی کے ساتھ اپنے ادبی سفر کو جاری رکھیں گے۔ میری دُعا ہے کہ جب تک ان کا سانس رواں ہے، ان کا قلم بھی اسی روانی کے ساتھ قاری کے ذہن و دِل کو روشن کرتا رہے۔

Master TV | Ayaz Morris | Asif George |

🎙️ Master TV pays heartfelt tribute to the legendary singer A. Nayyar on his 10th death anniversary — 11th November 2025...
10/11/2025

🎙️ Master TV pays heartfelt tribute to the legendary singer A. Nayyar on his 10th death anniversary — 11th November 2025.

🌹 Through this article post, Ayaz Morris remembers his inspiring life journey, musical legacy, and timeless contributions to the golden era of Pakistani music.

🎵 His soulful voice continues to live in our hearts, reminding us that true artists never die — they live on through their art.

💬 Share your thoughts, memories, and your favorite A. Nayyar song in the comments below.



اے آئی کا نیا انقلاب۔۔۔ کیا ہے ہمارا انتخاب؟کیا ہم تجربات کی دُنیا سے نکل کر حقیقی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے تیار ہی...
30/10/2025

اے آئی کا نیا انقلاب۔۔۔ کیا ہے ہمارا انتخاب؟

کیا ہم تجربات کی دُنیا سے نکل کر حقیقی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے تیار ہیں؟

ایاز مورس

یہ ڈیجیٹل دُور ہے، اور ہر دُور کی طرح اس ڈیجیٹل دُور میں بھی وہی لوگ کام یاب ہوں گے جو ڈیجیٹل دُنیا اور تبدیلی کو بروقت اور بہتر طریقے سے سمجھ سکیں گے۔ ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن نے ہماری زندگیوں کے انداز، سو، نقطۂ نظر اور کام کرنے کے طریقوں کو یکسر بدل دیا ہے۔

ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن میرے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک ہے۔ اسے پڑھنا، سیکھنا، اس کے بارے میں جاننا، اور اسے عملی طور پر اپنی زندگی میں اپنانا میرا ایک محبوب مشغلہ ہے۔ اس مضمون کی تیاری میں بھی میں نے اے آئی کا بھرپور استعمال کیا ہے، جس نے میرے کام کی رفتار، معیار اور مقدار کو بڑھایا ہے، اور مجھے اپنے کام کو بہترین انداز میں کرنے میں بھرپور معاونت فراہم کی ہے۔

ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان میں اب بھی بہت سی منفی چہ می گوئیاں جاری ہیں، اور اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اے آئی انسانوں کی جگہ لے لے گی اور انہیں کام کی جگہوں سے فارغ کردیا جائے گا؟ کیوںکہ اس سوال میں تجسس سے زیادہ خوف شامل ہے، اس لیے وہ لوگ جو ٹیکنالوجی کے لیے خود کو تیار نہیں کریں گے، اسے سیکھ کر استعمال نہیں کریں گے، اور اس کے فوائد و سہولتوں سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے، وہ واقعی پیچھے رہ جائیں گے۔

اس کے برعکس، وہ لوگ جو ٹیکنالوجی سے خود کو آراستہ کرتے ہیں، سیکھتے ہیں، اور ہر روز آنے والی نئی تبدیلیوں اور جدید ٹیکنالوجی کی اپ ڈیٹس کو اپنی زندگی اور کام میں اپناتے ہیں، وہ کبھی بھی ٹیکنالوجی سے شکست نہیں کھائیں گے۔ البتہ، جو لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں گے اور اس تبدیلی کی مخالفت کریں گے، وہ اس کا خمیازہ ضرور بھگتیں گے۔

2025 تک اے آئی میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں، لیکن 2026 میں اس میں آنے والے رجحانات (Trends) نہایت شاندار، حیران کن اور متاثر کن ہیں۔ ان رجحانات کے بارے میں جاننا، ان سے سیکھنا، اور نئے ٹولز کو اپنی زندگی اور پیشے ما د بلکہ ا داروں اور ملکوں کے لیے بھی نہایت مفید اور چیلنجنگ ہوگا۔ ہی میں معروف بزنس جریدے فوربس (Forbes) نے اپنے ایک آرٹیکل میں سال 2026 کے لیے اے آئی ایجنٹس کے کردار اور اہمیت پر ایک مفصل مضمون شائع کیا ہے، جس کا مفہوم اس مضمون میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اس آرٹیکل میں اے آئی کے روزمرہ اور عام استعمال سے بڑھ کر جو انقلابی اقدامات اور پیش رفت متوقع ہیں، ان کا ایک بہترین پیش خیمہ پیش کیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اب تک مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال زیادہ تر چیٹ جی پی ٹی تک ہی محدود ہے، جب کہ دُنیا اس ٹیکنالوجی کے استعمال میں اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ میرا اس مضمون کو لکھنے کا مقصد عام لوگوں کے لیے مصنوعی ذہانت کے نئے رجحانات کو سادہ اور قابلِ فہم زبان میں بیان کرنا ہے، تاکہ وہ بھی اس تیزی سے بدلتی ہوئی ڈیجیٹل دُنیا کا حصہ بن سکیں۔

برنارڈ مار (Bernard Marr) نے اپنے آرٹیکل’’2026 کے لیے 8اہم AI ایجنٹ رجحانات ؛ جن کے لیے آج سے تیار رہنا ضروری ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ مصنوعی ذہانت (AI) کے ایجنٹس اب تجرباتی مراحل سے نکل کر ایک ایسی طاقت بن رہے ہیں جو نہ صرف پیچیدہ کام انجام دے سکتے ہیں بلکہ روزمرہ کے امور اور اسٹریٹجک فیصلے بھی خود سنبھال سکتے ہیں۔ یہ مضمون اُن آٹھ بڑے رجحانات پر روشنی ڈالتا ہے جو 2026 میں کاروباراور عام افراد کی زندگی میں AI ایجنٹس کے کردار کو تشکیل دیں گے، ساتھ ہی اُن مواقع اور خطرات کو بھی بیان کرتا ہے جو ان کے ساتھ آئیں گے۔

اے آئی ایجنٹس کا نیا دُور

2025 میں ان پر بہت بات ہوچکی ہے، لیکن 2026 میں یہ ٹیکنالوجی بڑی تیزی سے عام استعمال میں داخل ہوگی۔ ایجنٹس مصنوعی ذہانت کی اگلی نسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ صرف سوالوں کے جواب دینے یا مواد تخلیق کرنے تک محدود نہیں (جیسے ChatGPT)، بلکہ عمل کرنے کے قابل ہیں۔

یہ خودکار طور پر کئی مرحلوں پر مشتمل کام انجام دے سکتے ہیں، دیگر نظاموں سے تعامل کرسکتے ہیں اور کم سے کم انسانی مداخلت کے ساتھ طویل مدتی اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔2026 میں یہ دیکھنا ممکن ہوگا کہ کیا یہ پیش رفت واقعی انسانی سطح کی عمومی ذہانت (AGI) کے قریب جا رہی ہے۔ یعنی ایسی اے آئی جو ایک کام سے سیکھ کر دوسرے مختلف کام انجام دے سکے۔ ایک بات تو طے ہے۔ یہ ہماری زندگی کا اہم حصہ بننے جا رہے ہیں ۔ ہمیں زیادہ مؤثر، بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے ساتھ ساتھ اعتماد اور اخلاقیات کے متعلق نئے سوال بھی پیدا کریں گے۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

مشترکہ ایجنٹ ٹیم ورک (Agentic Teamworking)

AI ایجنٹس کی سب سے دل چسپ خصوصیت اُن کی ٹیم کی صورت میں کام کرنے کی صلاحیت ہے۔آئندہ، ایک بڑے ایجنٹ کے بجائے چھوٹے مخصوص ایجنٹس پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی جو مختلف کاموں پر مل کر کام کریں گی۔ مثلاً ای کامرس ادارے ایک ایجنٹ کو مصنوعات کی فہرست بنانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، دوسرا ایجنٹ خریداری اور اسٹاک کی نگرانی کرے گا، تیسرا مارکیٹنگ ایجنٹ گاہکوں کے رجحانات سمجھے گا، اور ایک پروجیکٹ مینجمنٹ ایجنٹ سب کے کام کو مربوط کرے گا۔ یہ عمل ہم انسانوں کے لیے ایک سبق ہوگا کہ ٹیم ورک میں انسانی مسائل سے نجات کیسے ممکن ہے۔

روزمرہ کے کاموں کے لیے ایجنٹس

گھر اور ذاتی زندگی میں بھی AI ایجنٹس عام ہوتے جا رہے ہیں۔ مثلاً ایک ایجنٹ جو آپ کو صرف بتانے پر کہ آپ کیا پکانا چاہتے ہیں، خودبخود خریداری اور ڈیلیوری کا بندوبست کرے ۔ فٹنس ایجنٹس آپ کے ورزش کے شیڈول اور صحت کے ہدف سنبھالیں۔ گھریلو ایجنٹس صفائی، سیکیوریٹی اور اسمارٹ آلات کا نظم سنبھالیں۔

2026 میں AI ایجنٹس روزمرہ زندگی کے نظام میں ضم ہوجائیں گے، اور ہمیں تفصیلات سے آزاد کر کے اہم چیزوں پر توجہ دینے دیں گے۔

AI ایجنٹس کی مارکیٹنگ کرنا

جب خریداری کے فیصلے انسانوں کے بجائے ایجنٹس کرنے لگیں، تو مارکیٹنگ کے روایتی اصول بدل جائیں گے۔ ایجنٹس نہ جذباتی اپیل سے متاثر ہوتے ہیں، نہ اشتہارات یا مشہور ماڈلز سے۔ اس لیے کاروباروں کو اپنی مصنوعات اس انداز میں پیش کرنا ہوگا کہ ایجنٹس اُنہیں آسانی سے سمجھ کر، موازنہ کر کے، اعتماد کے قابل پائیں ، جیسے مصدقہ ریویوز اور ویب اتھارٹی سگنلز وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

صحت کے شعبے میں AI ایجنٹس

2026 میں صحت کا شعبہ اس ٹیکنالوجی کے بڑے انقلاب کا سامنا کرے گا۔ ایجنٹس صرف علامات تجزیہ یا علاج تجویز کرنے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے مریض کے سفر کو منظم کریں گے، جس میںتشخیص، علاج، میڈیکل ہسٹری، فالواپ اور آفٹر کیئر تک وغیرہ نمایاں ہیں۔ مریضوں کے لیے یہ ایجنٹس طرزِزندگی، ادویات اور خطرات کے باہمی تعلق کو سمجھنے میں مدد دیں گے۔ ماہر ڈاکٹروں کی کمی اور بڑھتے اخراجات اس رجحان اور تبدیلی کو مزید تیز کریں گے۔

سائبر سیکیوریٹی میں ایجنٹس

2025 میں سائبر حملے 21 فی صد تک بڑھ چکے ہیں، اور AI ایجنٹس اس میدان میں بھی کردار ادا کر رہے ہیں، جہاں بعض حملہ آور ایجنٹس (جیسے ReaperAI) خودکار حملے کر سکتے ہیں، وہیں دفاعی ایجنٹس ایسے خطرات کی پیشگی شناخت اور مزاحمت کر سکیں گے۔2026 میں سائبر جنگ کا ایک نیا محاذ کھلے گا، جہاں ایجنٹس فِشنگ، رینسم ویئر اور ڈیٹا چوری کے خلاف برسرِپیکار ہوں گے۔

مالیاتی خدمات میں ایجنٹس

بینک اور انشورنس کمپنیاں ایجنٹس کے ذریعے ریئل ٹائم اکاؤنٹ نگرانی، فراڈ کی شناخت، قرض اور سرمایہ کاری کے فیصلے خودکار بنائیں گی۔

یہ ایجنٹس بازار کی تبدیلیوں، عالمی خبروں اور معیشت کے رجحانات کے مطابق فیصلے لیں گے تاکہ خطرات کم اور منافع زیادہ ہو۔2026 میں مالیاتی اداروں کے لیے AI ایجنٹس کاروباری بقاء کا لازمی جز بن جائیں گے۔

بطور ساتھی یا دوست ایجنٹس

AI ایجنٹس صرف کام کے لیے نہیں، بلکہ جذباتی اور سماجی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوں گے۔ تحقیق کے مطابق2025میں جنریٹیو AI کا سب سے عام استعمال تھراپی اور رفاقت کے لیے ہوا ہے۔ یہ ایجنٹس ماضی کی بات چیت یاد رکھ کر سیکھتے ہیں اور وقت کے ساتھ ہمیں بہتر سمجھنے لگتے ہیں۔ اگرچہ اس سے تنہائی یا انسانی تعلقات کی کمی جیسے خطرات ہیں، مگر یہ ذہنی صحت کے مسائل اور اکیلے پن کے خاتمے میں مدد بھی دے سکتے ہیں۔

اعتماد کا مسئلہ

جب AI ہمارے لیے فیصلے کرے گی، یہاں تک کہ ہمارا پیسہ خرچ کرے گی ، تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی محفوظ ہے؟2026 میں یہی موضوع زیربحث اور مرکزی نکتہ ہوگا، جس پر ماہرین بات کریں گے۔ عوامی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ AI ایجنٹس شفاف، جواب دہ اور انسانی اقدار کے مطابق فیصلے کریں۔ لوگ نہ صرف مالی اعتبار سے درست، بلکہ اخلاقی و ماحولیاتی لحاظ سے بھی درست فیصلے چاہتے ہیں۔

ایجنٹ کے زیرِاثر مستقبل کی تیاری

AI ایجنٹس اب محض وعدہ نہیں بلکہ حقیقت بنتے جا رہے ہیں۔ اگلا سال یہ طے کرے گا کہ کاروبار اور افراد ان خودکار نظاموں کے ساتھ کتنی کام یابی سے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔ کام یابی کا انحصار تین چیزوں پر ہوگا۔

1 : اعتماد پیدا کرنا۔

2 : اخلاقی اقدار پر عمل یقینی بنانا۔

3: انسان اور مشین کے درمیان مؤثر تعاون کو فروغ دینا۔

جو لوگ آج سے تیاری شروع کردیں گے، وہ کل کے ایجنٹ پر مبنی دُنیا میں سب سے زیادہ ترقی کریں گے۔ 2026 کے آٹھ بڑے AI ایجنٹ رجحانات، پاکستان میں نوجوان اور ڈیجیٹل انقلاب کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، وہ انٹرنیٹ، موبائل اور مصنوعی ذہانت (AI) سے خاصی واقفیت رکھتے ہیں۔ ان کے پاس توانائی، وقت اور مواقع، تینوں موجود ہیں۔ پاکستان میں فری لانسنگ، ڈیجیٹل کاروبار، اور آن لائن روزگار کے بے شمار امکانات ہیں۔ ایسے نوجوان جو ٹیکنالوجی میں دل چسپی رکھتے ہیں، اگر انہیں راہ نمائی، تربیت اور درست سمت دی جائے تو وہ معاشی استحکام اور قومی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت، تعلیمی ادارے، ٹیکنالوجی تنظیمیں، والدین، اور میڈیا سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہماری نوجوان نسل ٹیکنالوجی کے مثبت، بامقصد اور کارآمد استعمال کو اپنی ذاتی، پیشہ ورانہ اور قومی ترقی کے لیے بروئے کار لا سکے۔

ورنہ یاد رہے کہ انٹرنیٹ، اے آئی، اور ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کا یہ دور آنے والے دنوں میں انقلاب بن کر آئے گا جسے روکا نہیں جا سکتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہمارا انتخاب کیا ہوگا؟ اگر افراد، ادارے، اور قومیں بروقت اور درست سمت میں فیصلے نہ کریں، تو وقت اور دُنیا ان سے بہت آگے نکل جاتی ہے۔ ڈیجیٹل دُنیا میں ایک سال پیچھے رہنے کا مطلب دس سال پیچھے رہ جانا ہے۔ لہٰذا، بروقت فیصلہ کیجیے اور ٹیکنالوجی کے اس انقلاب کو
موقع سمجھ کر اپنائیے۔

Address

DHA Phase II Ext
Karachi
75500

Telephone

+923422739678

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Master TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Master TV:

Share