
30/08/2025
ایسے حضرات جو سب جانتے ہیں انھیں اپنی علمی فضیلت مبارک ہو آپ اپنے مکمل علم کے ساتھ جیو اور ہمیں جینے دو۔۔۔باقی بچنے والوں سے التماس ہے کہ سننے اور سمجھنے کی نیت سے قریب ہو جائیں اور اگر صبر ٹوٹ جائے تو دوسروں کے لیے زحمت بنے بغیر خاموشی سے نکل لیں۔ تو موضوع ہے "کبوتر کی نفسیات"
"بڑیاں عقلاں دا مالک اے!"
"غصے کردا اے۔۔۔تلخی مناندا اے!"
"اینوں ویکھو تے انڈیاں توں بھج جاندا اے"
"اینوں جدوں سودا لایا اے، رات ورس جاندا اے!"
"آج پہلی دفعہ ای بچہ بار کڈیا سی۔۔۔جال توں اٹھیا تے سدھا ای لگا گیا!"
یہ وہ جملے ہیں جو ہم اپنی کبوتر بازی میں اکثر سنتے اور بولتے ہیں مگر ان کی گہرائی اور سچائی سے واقف ہونے پر توجہ نہیں دیتے۔ کیا کبوتر کی پرواز کی صلاحیت اور واپسی کی قابلیت کا تعلق اس کی ہڈی جوڑ کی ساخت اور پر پرزے کی ترتیب پر ہے؟ کیا کبوتر کی نفسیات اور زہنی کارکردگی کا اس کی پرواز پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں؟ کیا کبوتر کی کوئی نفسیات ہوتی بھی ہے یا نہیں؟
اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے ہمارے دادا استاد جناب رفیع الدین مرحوم کے جن کے بارے کئی جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ اکثر پرندہ ہاتھ میں پکڑ کر اس سے باتیں کیا کرتے تھے۔۔۔تو کیا کبوتر بولتا بھی ہے؟ کیا کبوتر بازی کی طرح خود کبوتر کی بھی کوئی زبان language ہوتی ہے؟ کبوتر بازی اگر ایک سائنس ہے تو یاد رکھیں کہ ہر سائنسی دعویٰ کی ابتدا مشاہدے سے ہوتی ہے۔ اگر یہ ایک فن ہے تو پھر میرا ایک خود ساختہ فارمولا آپ کے بھی کام آ سکتا ہے "سوال، جواب کا باپ ہوتا ہے!" سو از راہِ کرم سوال پوچھئیے اور ایک صابر اور متحمل طالب علم کی طرح غور سے جواب سنیں اور پھر اس جواب پر بار بار غور کریں۔اگر اللہ نے آپ کی ذہانت کے درجات بڑھا دیئے ہیں تو یقیناً آپ اس قابل بھی ہو جائیں گے کہ خود سے سوال سوچ بھی سکیں۔ جسمانی، دماغی اور نفسیاتی طور پر ارتقاء کی منازل طے کرنے والے جانوروں اور پرندوں کی طرح کبوتر میں پرواز کرنے کی صلاحیت نہ صرف جسمانی ساخت کے اعتبار سے بڑھتی یا کم ہوتی ہے بلکہ اس کا تعلق بڑی حد تک نفسیاتی عوامل جیسے محبت، غصے ،ضد،حسد اور خوف جیسے مثبت اور منفی جذبات سے بھی ہے۔
محبت۔۔۔آزاد بلندیوں سے اور نسیمِ صبح کی خنکی سے۔ غصہ۔۔۔مالک کی دی ہوئی "7 اِن 1" گولی پہ یا 5سی سی 10 سی سی کی سرنج سے جامِ شہادت پلانے پہ۔ حسد۔۔۔اپنے پہلو میں اڑتی ہم جنس، ہم پرواز سے۔ خوف۔۔۔ایسے ڈربے میں مقید ہونے کا جہاں ڈاکٹر ٹمکنے کی شحصیت کا حامل اس کا مالک خود اپنی ذہنی حالت کو سنوارنے کی بجائے کبوتروں کی ذاتی اور ازدواجی زندگی میں ہر وقت مداخلت کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح کبوتر کو پانی میں ڈبو کر جال پر بٹھانا، پنجری کو کھڈے میں رسی سے لٹکا کر اس میں (باغی) کبوتر ڈال کر اسے گھر اور کھڈے کا راستہ یاد کروانا (یہ مارکیٹ میں نیا ہے)، ہڈی جوڑ چیک کرتے کرتے اس معصوم اور حیا دار پرندے کو انجانے میں شرمسار کر دینا۔ نیا جوڑا لگانے کی غرض سے ایک غصیل نر کے ساتھ انتہائی تنگ جگہ پر ایک مادہ بند کر دینا جو رات کا اندھیرا چھا جانے کے بعد تک بھی مار کھاتی رہتی ہے۔ ایسی بہت سی اور استادیاں ہیں جو ہم اپنے کبوتروں کے ساتھ کرتے ہیں جس کا اثر ان کی نفسیات اور کارکردگی پر عموماً برا ہی ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہمارے اکثر بزرگ استاد جلدی کہیں انجان اور اناڑی بندے کو اپنے پرندوں کا شوق نہیں کرواتے تھے اور ہم ان کی اس حکمت کو اپنی دانست کے مطابق منفی پیرائے میں سمجھتے رہے۔ ہمارا دور آتے آتے شوق بلحاظ مقدار بڑھا تو ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اس قدیم ثقافتی کھیل اور مشغلے کی اقدار، آداب، اس سے منسوب روایات اور اس سے متعلق حکمت میں تنزلی بھی آئی ہے۔