
15/05/2025
غزہ کا نوحہ، عالمی ضمیر کی خاموشی اور مسلم قیادت کی بے حسی
آج جب ہم دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں، اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور مہذب دنیا کے دعویدار اداروں پر نظر ڈالتے ہیں، تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انسانیت کا ضمیر کہیں گہری نیند سو چکا ہے۔ غزہ کی سرزمین — جو کسی دور میں انبیاء کی گزرگاہ تھی — آج خون سے تر ہے۔ بچوں کی لاشیں، ماؤں کی آہیں، اور بہنوں کی سسکیاں اس دھرتی کی ہواؤں میں گونج رہی ہیں۔ روزانہ نہتے فلسطینی شہریوں پر بمباری ہو رہی ہے، اسپتالوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسکولوں کو ملبے میں تبدیل کیا جا رہا ہے، اور دنیا خاموش ہے۔
انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں — جنہیں ایک جان کی قیمت پر پوری دنیا کو ہلا دینا چاہیے حیران کن حد تک خاموش ہیں۔ World Organization for Human Rights، Amnesty International، Human Rights Watch — سب کی زبانیں گنگ ہیں، آنکھیں بند، اور ضمیر مردہ۔
اس عالم میں، ایک اور افسوسناک اور قابلِ مذمت منظر نامہ سامنے آتا ہے: سلویت روم کا دورہ سعودی عرب اور شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات۔ ایک ایسا شخص جو اسرائیلی ریاست کے ظاہری چہرے کا نمائندہ ہے، مسلمانوں کے "قبلۂ اول" پر قابض قوت کا حامی۔ وہ سعودی قیادت سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی کوشش کرتا ہے، اور اس کے بدلے میں وہ شام کی سرزمین سے اپنی افواج ہٹانے کی نوید دیتا ہے — گویا کوئی احسان کر رہا ہو۔
اگر واقعی وہ انسانی ہمدردی کا علمبردار ہے، تو کیا اسے غزہ میں بہتے ہوئے معصوم بچوں کے خون کی بو نہیں آتی؟ کیا وہ شہیدوں کی مائیں نہیں دیکھتا جو اپنے جگر گوشوں کو ملبے تلے دفن ہوتے دیکھ رہی ہیں؟
اور سب سے اہم سوال: کیا مسلم قیادت بھی اتنی بے بس ہو چکی ہے؟ کیا تیل کی دولت اور عالمی تسلیم شدگی اتنی قیمتی ہے کہ اس کے بدلے قبلۂ اول، مظلوم فلسطینی، اور اسلامی غیرت کو فروخت کر دیا جائے؟
آج کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ اسرائیل ظلم کر رہا ہے — بلکہ یہ ہے کہ عالمِ اسلام خاموش ہے، تقسیم ہے، اور شاید دل سے اس ظلم کو ظلم بھی نہیں سمجھتا۔ محمد بن سلمان جیسے حکمران، جنہیں امتِ مسلمہ کا رہنما سمجھا جاتا ہے، اگر غاصبوں سے ہاتھ ملا کر مظلوموں کی لاشوں پر سودے بازی کریں گے، تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
غزہ کی مائیں، بچے، بوڑھے — سب چیخ رہے ہیں، سوال کر رہے ہیں: "کہاں ہے اُمت؟ کہاں ہے غیرت؟ کہاں ہیں وہ آوازیں جو یتیم بچوں کے حق میں بلند ہوتی تھیں؟"
آج اگر ہم نے خاموشی اختیار کی، تو کل ہمیں بھی کوئی یاد نہ رکھے گا — سوائے تاریخ کے، جو ظالموں کے ساتھ ساتھ خاموش تماشائیوں کو بھی قلم بند کرتی ہے۔