Muslim World - العالم الإسلامي

Muslim World - العالم الإسلامي ہمیں واٹس ایپ پر جوائن کرنے کیلئے نیچے دی گئی
learn more
کے آپشن پر کلک کریں تمام مذاہب میں سب سے سچا اور برحق مذہب اسلام ہے

میرا آج کا کالمشام میں مسلمانوں کی فتح یا غیروں کی چال سوریا / سیریا ( شام ) میں اس وقت مسلمانوں کی فتح یقیناً تمام عالم...
10/12/2024

میرا آج کا کالم
شام میں مسلمانوں کی فتح یا غیروں کی چال

سوریا / سیریا ( شام ) میں اس وقت مسلمانوں کی فتح یقیناً تمام عالم اسلام کے مسلمانوں کیلئے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے، جس پر خوشی کا اظہار کرنا ہم سب کا ایمانی تقاضا ہے، لیکن اگر دوسری جانب آپ عمیق نظری سے دیکھیں تو اصل معاملہ یو نہیں جو بظاہر دیکھ رہا ہے، شاید آپ میں سے اکثر لوگ اس بات سے ناواقف ہونگے، کہ شام میں مسلمانوں کی فتح درحقیقت فتح نہیں اہل فلس-طین کے جنازے کی تیاری ہے، کیونکہ اس فتح کے پیچھے اہل مغرب کے کالے سانپوں کی آپس کی گڈجوڑ اور انکے ناپاک عزائم کارفرما تھے، مطلب یہ کہ شام میں فتح کی نوید بظاہر تو خوشخبری لگ رہی ہے لیکن دراصل یہ مستقبل کیلئے ایک بہت بڑی ماتمی خبر کا پیش خیمہ ہے، موجودہ فتح غیروں کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا، سن کر آپ کو حیرانگی ہوگی کہ شا-م کی حالیہ فتح میں امر-یکہ اور اسرا-ئیل کی کرم نوازی براہ راست کار فرما تھی، اس وقت شا-م میں جو حالات رونما ہوئی ہے، یہی سب یہودیوں کے ان دونوں آباؤ اجداد چاہتے تھے کہ ایسا ہی ہو، جی ہاں یقین نہیں آرہا تو جاکر اسرا-ئیلی اور امر-یکی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہی دیکھ لیں.... اس وقت شا-م کی موجودہ فتح پر شامیوں سے زیادہ خوشی اسرا-ئیلی اور امر-یکی حکومت منارہی ہے، یہ سب سن کر آپکے ذہن میں اس سوال نے ضرور جنم لیا ہوگا کہ آخر اسرا-ئیل اور امر-یکہ دونوں درندے ملکر شا-م کے مسلمانوں کی مدد کیوں کررہے ہیں...؟ تو اس سوال کو سمجھنے سے پہلے ایک اور سوال جس کی بدولت آپکی فہم میں مزید اضافہ ہوسکے وہ یہ کہ موجودہ فتح کو دیکھ کر کیا آپ کے دماغ میں یہ سوال پیدا نہیں ہوا کہ شام میں کچھ ہی دنوں کے اندر حالات کا اتنی تیزی سے بدلنا، چند ہی لمحوں میں اتنے بڑے انقلاب کا وجود میں آنا، سنی شامیوں کا ایسے اچانک اور کم وقت میں صاحب اقتدار قوت کی اوپر فتح یاب ہونا.... کیا یہ سب معجزاتی طور پر ہوا..؟ جواب: جی نہیں...!! میرا نفی میں جواب نصرت خداوندی کا انکار نہیں بلکہ آپ کو ان حقائق سے روشناس کرانا مقصود ہے، جو بظاہر تو نظر نہیں آرہے لیکن اسکے سننے سے آپکے ہوش ضرور اڑ جائیں گے، اگر آپ میں سے کچھ لوگ شا-م کی حالیہ فتح کا موازنہ افغا-نستان سے کررہے ہیں تو آپ ایک واضح غلطی پر ہیں، اس لیے کہ شا-م کے موجودہ انقلاب افغا-نستان کے انقلاب سے بلکل مختلف ہیں، یہ بات عیاں ہے کہ افغا-نستان میں انقلاب آنے سے پہلے افغانیوں کی 21 سالہ انتھک کوششیں اور انکے کئی مالی جانی قربانیاں کارفرما تھیں، بلکل اسی طرح شا-م میں بھی حالیہ انقلاب سے پہلے شامیوں کی بیش بہا قربانیوں کا دخل ہیں، مگر دونوں میں جو چیز مختلف ہے وہ یہ کہ افغا-نستان اور امر-یکہ کے بیچ لڑائی اسلام اور کفر اور دونوں کے آپس کے مفادات اور تحفظات پر مبنی تھی، رہی بات شا-م کی تو یہاں کی لڑائی جانبین میں مسلکی عصبیت کی بنا پر ہے شیعہ و سنی کے درمیان، جس میں سے ہر ایک دوسرے کو کافر ٹہرا کر مار رہے ہیں، اب آتے ہیں پہلے سوال کیطرف اور وہ یہ کہ امر-یکہ اور اسرا-ئیل نے کیونکر شامی سنی مسلمانوں کی مدد کی..؟ اس سوال کا جواب بلکل واضح ہے اور وہ یہ کہ وہی خبیث یہی سب چاہتے تھے، جو اس وقت ہوا عین انکے ناپاک سوچ کیمطابق اور وہ ہے ارض فلسطین پر مکمل طور پر ناجائز قبضہ کرنا، جس میں وہ پچھلے 40 سالوں سے ناکام ہوتے جارہے تھے، میرے کہنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ شیعوں کی شکست سے اہل فلس-طین کی شکست یا شیعوں کی فتح سے اہل فلس-طین کی فتح وابستہ ہے ہر گز نہیں، لیکن یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ اگر حالیہ اسرا-ئیل اور فلس-طین کی جنگ میں اب تک فلس-طینیوں کے علاوہ اسرا-ئیل کے مدمقابل اگر کسی نے عملی طور پر مزاحمت کی تو وہ ہے ایرا-نی انقلا-بی یا لبنا-نی حز-ب الله یا یم-نی حو-ثی وغیرہ اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، انکے علاوہ کوئی مجھے ایک بھی سنی ریاست مثال میں پیش کرے جو اس وقت اسرا-ئیل کیساتھ عملی طور پر میدان میں برسربیکار ہو، میں کسی سے متاثر ہوکر آپ کو یہ سب باتیں نہیں بتارہا، اور نہ یہ کہ مجھے شا-م میں سنی مسلمانوں کی فتح پر خوشی نہیں، میں نے باقاعدہ انکے ساتھ یک جہتی اور انکی مبارکباد کی ایک لمبا چوڑا نوٹ لکھ کر پوسٹ کی تھی، جو آپ میں سے بیشتر احباب نے دیکھی اور پڑھی بھی ہوگی، الحمد للّٰه میں خود سنی ہوں، میں بس آپ سب کو آنے والے طوفان سے خبردار کرکے یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں، کہ شام میں سنیوں کی فتح یاب ہونے کے بعد اب اہل فلس-طین پہلے کی بنسبت اور بھی غیر محفوظ ہوگئے، مجھے شیعوں کی کوئی فکر یا ہمدردی لاحق نہیں بس مجھے شا-م میں رہنے والے سنیوں سمیت فلس-طین میں رہنے والے سنیوں کی آزادی کا غم کھائے جارہا ہے، امر-یکہ اور اسرا-ئیل ہمیں ہر اس جگہ سے کمزور کررہے ہیں، جہاں سے انکو لگتا ہے کہ یہاں سے ہمارے عزائم میں دشواری پڑ سکتی ہے یا یہاں سے ہمارے راستے میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے، تو پہلے انکا صفایا کیا جائے اور اس راستے سے رکاوٹ کو ہٹایا جائے، تاکہ ہمارے لیے کوئی دشواری باقی نہ رہے، بش-ار الا-سد بذات خود ایک ظالم قاتل شخص ضرور تھا، مگر ساتھ میں وہ اسرا-ئیل کے گلے کی ہڈی بھی تھی، شا-م کے موجودہ حالات پر امر-یکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی صدر نیتن یاہو کی آج ہونے والی گفتگو پر آپ خود ایک نظر ڈالیں، جو یقیناً انتہائی اہم اور حیران کن ہے جسے سن کر شاید آپ کو مزید واقعہ کی پیچیدگی سمجھ آ جائے: آج جو بائیڈن نے اپنے کانفرنس میں شا-م کے موجودہ حالات کے پیش نظر ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ " "آیئے ذرا یاد کریں کہ یہ سب کیسے ہوا اور کیوں ہوا...؟ جب فلس-طین نے اسرا-ئیل پر 7 اکتوبر کا حملہ کیا تو دنیا کی اکثریت نے اسے دہشت گردی سے تعبیر کیا، اور اس کیساتھ ساتھ "فارسیوں" (ایرا-نی انقلا-بی) اور ان کی پشت پناہ ہمراہیوں حز-ب الله یمن-ی حوث-یوں نے ملکر "اسرا-ئیل" پر مزید کئی محاذوں سے حملوں کا آغاز کردیا، اور یہی "فارسیوں" کی تاریخی غلطی تھی، آج اسکی پشت پناہی کرنے والا حز-ب الله بھی پسپائی پر ہے، صرف 12 دن قبل میں نے "روز گارڈن" سے خطاب کرتے ہوئے لبنان میں سیز فائر ڈیل سے متعلق بات کی تھی، وہ ڈیل اسی لئے ممکن ہوئی تھی کہ وہاں پر انکی پشت پناہی کرنے والے بری طرح ڈی گریڈ ہوچکے تھے، اور یہی حال عنقریب "غزہ والوں" کا بھی ہے، وہ بھی بری طرح ڈی گریڈ ہوچکے ہیں، "فارسیوں" کی اپنی ملٹری صلاحیت بھی کمزور ہے، مگر اسکے باوجود اس نے دو بار اسرا-ئیل پر حملے کی کوشش کی، جسکی بنا پر امر-یکہ نے کئی ممالک پر مشتمل ایک اتحاد تنظیم ترتیب دیا تاکہ ان حملوں کا دفاع کیا جاسکے، انہی کوششوں کے نتیجے میں آج فارسی اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے لئے یہ بھی ناممکن ہوگیا کہ وہ شا-م میں اپنے ہمراہیوں کی مدد کرسکیں، اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخ میں پہلی بار رو-س، فار-سی، اور حز-ب الله ملکر بھی اپنے ہمراہیوں کو سپورٹ کرنے میں ناکام ہوگئے، یہ وہ مکا ہے جو یوکر-ین اور اسرا-ئیل نے ملکر امر-یکہ کی غیر متزلزل مدد سے اپنے دفاع میں فار-سیوں اور انکے ہمراہیوں کو رسید کیا" اب ذرا آج کی کی گئی اسرائیلی صدر نیتن یاہو کی گفتگو بھی ملاحظہ کیجئے جو انہوں مضبوضہ فلس-طین کی گو-لان پہاڑیوں پر اپنے ملٹری جوانوں کے سامنے میڈیا سے کی، انہوں نے کہا کہ: "شا-م میں بش-ار الا-سد کی حکومت کا زوال اور شکست ان ضربوں میں سے ایک ہے جو ہم ایر-ان، حز-ب الله، یم-نی حو-ثی اور انکے پشت پناہی کرنے والوں کو دینا چاہتے ہیں، بش-ار الا-سد کا زوال درحقیقت مشرق وسطی کیلئے ایک تاریخی فتح ہے، اور ہم سب کیلئے خوش آئند بات ہے جس پر میں سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایر-ان اور انکے ہمراہیوں کی مزاحمت کے محور کی مرکزی کڑی توڑ دی" اب تو آپ جان گئے ہونگے کہ یہ دونوں خبیث چاہتے کیا ہیں..؟ انکا مقصد اور کچھ نہیں بس ارض فلس-طین پر پوری طرح ناجائز قبضہ جمانے کیلئے سامنے سے ہر رکاوٹ کا خاتمہ کرنا ہے، جن سے اب انکو بظاہر روکنے والا کوئی بھی نظر نہیں آرہا، آخر میں آپکی آسانی کیلئے ایک آسان سا فارمولا پیش کروں، اور وہ یہ کہ: آپ کو اس بات کا بخوبی پتہ ہونا چاہیے کہ جہاں بھی امر-یکہ اور انکے حواری اور ناجائز اولاد اسرا-ئیل انویسٹمنٹ (پیسہ خرچ) کرتے ہیں، تو اپنے طے کردہ اہداف اور مفاد کیلئے ہی کرتے ہیں، نہ کہ ہماری ہمدردی کیلئے کیونکہ مسلم دنیا کے اندر امر-یکہ کے اہداف تباہی و بربادی اور اندرونی خانہ جنگی اور ایک دوسرے کیساتھ آپس میں دست و گریباں کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں، آپ کو لگتا ہے، کہ شا-م میں سنیوں کی فتح یاب ہونے سے اب سب ٹھیک ہوگیا، تو میری طرف سے ایک پھیکا سا "جی ہاں" قبول کر لیجئے، پھیکا اس لیے کہ اسکے نتائج بہت جلد ہمیں ہی بھگتنا پڑیں گے، چلو خیر اب خوب لڈو بانٹوں کہ ہم سنیوں نے فتح حاصل کیا، جس طرح 30 سال قبل بھی ہم سب نے شا-م کی فتح پر لڈو بانٹے تھے بلکل اسی طرح، اگر یاد ہو تو اس کے بعد عر-اق کی باری آئی تھی تو اس وقت لڈو بانٹنے کی باری شیعوں کی تھی،اور پھر وہ لڈو ان کے لئے کیا نتائج لائے، یہ کوئی پوشیدہ راز نہیں، بلکہ بعد میں اسکا تماشا ساری دنیا نے دیکھ لیا، ہر طرف خون کی ندیاں بہہ پڑیں، کیونکہ انویسٹر وہاں بھی امر-یکہ تھا، جب امر-یکی انویسٹمنٹ لیب-یا پہنچی، تو ایک بار پھر لڈو بٹے، مبارکبادیں دی گئیں، اور پھر لیب-یا کا حشر کیا ہوا یہ نہ ہمارا سنی جانتا ہے اور نہ ہی شیعہ، میں یہ نہیں کہتا لڈو مت بانٹو آپ سب ضرور ایک دوسرے کو دمش-ق کی مبارکباد دے کر اپنا شوق پورا کیجئے، آپ سب کہہ رہے ہیں کہ دمش-ق کی فتح ہونے سے "صبح" ہوگئی، کیا آپ کوئی ایک مثال دے سکتے ہیں صرف اور صرف ایک ہی مثال کہ جہاں امر-یکہ کی عسکری انویسٹمنٹ نے خون کی ندیاں رنگیں کرنے کے بجائے صبح لائی ہو...؟ میں طنزیہ نہیں بلکہ افسوس کیساتھ اپنا درد دل آپ سب کے سامنے رکھ کر آپ سب سے بس اتنی سی التجاء کرتا ہوں کہ: کہ اب دعاء کیجئے کہ غز-ہ اور وہاں کے مظلوم بچ جائے، کیونکہ جس فتح میں آپکو دمش-ق کی صبح دکھتی ہے، اس میں مجھے غز-ہ کی ماتمی شام نظر آرہی ہے.......!!
✍️: نظام الدین محسن

23/10/2024

یہ اس وقت کا منظر ہے کہ جب ایک فلس--طینی گھر کو اسرا--ئیلی درندوں نے ڈرون حملے سے اڑادیا، جس کے بعد بچاؤ کیخاطر آس پاس کے لوگوں نے افراتفری کا سماں بنایا تو وہی پر اسی گھر کے ایک کونے میں چھت کے گرنے سے شدید زخمی حالت میں بیٹھی ہوئی بچی کو کیمرے کے انکھ نے محفوظ کیا، آپ بھی ذرا اس دل خراش منظر کو ایک لمحے کیلئے اپنی حقیقی آنکھوں سے دیکھ کر دل و دماغ کے سہارے محسوس کرنے کی کوشش کریں کہ اس سہمی ہوئی بچی کے ناتواں بدن پر اس قدر غم درد کے بھاری پہاڑ ٹوٹ چکے ہیں، کہ پلک جھپکتے ایک ہی لمحے میں اسکے سارے پیارے گھر بار سپنے طفولیت جوانی سب کچھ چور چور ہوکر خاک آلود ہوگیا، درد کی وحشت سے اتنی سہمی ہے کہ بدن دل دماغ زبان حتیٰ کہ سارا بدن مفلوج ہوکر زندہ لاش بنکر اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے کیلئے اپنے خون آلود آنکھوں کو حرکت دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے، ایسے مناظر پر کچھ لوگ یہ لکھ کر کہتے ہیں کہ تصور کیجئے کہ یہ ہماری بیٹی ہے ارے خدا کے بندوں یہ ہماری ہی بیٹی ہےاس میں تصور کرنے والی کیا بات... بس افسوس کہ ہم اتنے بے ضمیر اور سنگ دل ہوچکے ہیں کہ ہم آئے روز ایسے دل خراش مناظر دیکھ تو رہے ہیں پر محسوس نہیں کر پارہے

میرا آج کا کالم"ڈاکٹر ذاکر نائیک اور اسلام"جب سے ملک پاکستان میں ڈاکٹر "ذاکر نائیک" کے آنے کی خبر چل پڑی، تب سے عوام و خ...
30/09/2024

میرا آج کا کالم
"ڈاکٹر ذاکر نائیک اور اسلام"
جب سے ملک پاکستان میں ڈاکٹر "ذاکر نائیک" کے آنے کی خبر چل پڑی، تب سے عوام و خواص میں عموماً دو قسم کے آراء سامنے آرہے ہیں، ایک انکے خلاف تو دوسرے انکی تائید میں، اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے صحیح کون اور غلط کون ہے..؟ میرے ذاتی مشاہدے کی بات ہے کہ اگر ان دو مختلف قسم رائے قائم کرنے والے گروہوں پر سرسری نظر دوڑائی جائے، تو ان میں سے آپکو اکثر وہی لوگ ملیں گے، جو کہیں گے کہ میں نے اپنے فلاں پسندیدہ عالم، سکالر، موٹیویشنل سپیکر، سلیبرٹی یا سیاستدان سے سنا تھا کہ ڈاکٹر "ذاکر نائیک" صحیح بندہ نہیں انکے عقائد غلط ہیں، یہ اسلام کے دشمن ہیں، اس لیے میں انکو نہیں مانتا، بالکل اسیطرح دوسرے گروہ میں بھی اکثر ایسے لوگ ہیں، کہ میں نے اپنی فلاں شخصیت سے سنا تھا کہ ڈاکٹر "ذاکر نائیک" صحیح بندہ ہے اس کہ یہ یہ خدمات ہیں، اس نے اسلام کیلئے یہ کچھ کیا، اس لیے میں انکو مانتا ہوں، ان دونوں قسم کے لوگوں سے بس یہی عرض ہے، کہ ارے الو دے پٹوں تمہیں کس پاگل کتے نے کاٹا ہے، کہ اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ خود جاکر انکو سن لو، خود انکی زبانی انکے عقائد سن لو، خود انکے نظریات انہیں سے سن لو، تاکہ سنی سنائی کے بجائے خود انکو سن پڑھ کر انکے بارے میں درست رائے قائم کرسکو، اب اگر اس میں اتنی بھی ہمت نہیں تو پھر کم از کم یہ تحقیق تو کرلیں کہ اسکا یہ پسندیدہ شخص جو کچھ بھی کہہ رہا ہے کیا وہ یہ درست بھی ہے یا بس محض بہتان اور افترا، لیکن یہ کام یقیناً وہ نہیں کر پائیں گے، کیونکہ اس نے اپنی پسندیدہ شخصیت کو اپنا مجازی خدا جو بنا رکھا ہے، اسکا کہا گیا ہر لفظ جو اسکے لیے نص صریح کیطرح لفظ آخر ہوا کرتا ہے، اسی بنا پر عقل سے خالی دماغ اسکا ساتھ نہیں دے گا، البتہ کسے دوسرے کے بارے میں بِنا کسی تحقیق کے اسکے کافر کہلانے کا قائل ہونے میں اسے کوئی مضائقہ و دشواری نہیں، اس کالم میں اپنی اصل اور مقصودی بات کہنے سے پہلے ڈاکٹر "ذاکر نائیک" کا تھوڑا سا مختصر تعارف کرتے ہیں، تاکہ پتہ چلے کہ یہ بندہ اصل میں ہے کون..؟ ڈاکٹر "ذاکر عبدالکریم نائیک" 18 اکتوبر 1965 کو ہندوستان کے شہر بمبئی میں پیدا ہوئے، ایم بی بی ایس کی ڈگری یونیورسٹی آف بمبئی سے حاصل کی، ڈاکٹر "ذاکر نائیک" باقاعدہ طور پر عالم یا مفتی نہیں ہیں، مگر آپ نے "تقابل ادیان" میں مہارت حاصل کرنے کیلئے شیخ "احمد دیدات" صاحب کی شاگردی کی، جن کے ساتھ ان کی پہلی ملاقات 1987 میں ہوئی، ان کے مطابق 2006 میں انہیں "احمد دیدات" صاحب نے انکی بے مثال قابلیت پر انہیں "دیدات پلس" کا لقب دیا، آپ نے 1991 میں بمبئی میں اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی، جس کے تحت تعلیمی ادارے اور مشہور سیٹلائٹ ٹیلی ویژن "Peace TV" بھی آن ایئر رہا، اس وقت دنیا میں "پیس ٹی وی" کے ناظرین کی تعداد 10 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، 2006 میں "پیس ٹی وی" انگلش سروس کا آغاز کیا جو ابتک پوری دنیا کے طول وعرض میں 200 سے زائد ملکوں میں دیکھا جا رہا ہے، جسمیں سے 35 فیصد ناظرین غیر مسلم ہیں، انہوں نے 2011 میں بنگلہ دیشی جبکہ 2015 میں چینی زبان میں بھی نشریات کا باقاعدہ آغاز کیا، 62 سے زیادہ انکی گوگل ویبسائٹ ہیں، آپ ابتک دنیا کے تمام براعظم وزٹ کرچکے ہیں، امریکہ سمیت دنیا کے بے شمار ملکوں میں بڑے عوامی اجتماعات سے خطابات کر چکے ہیں، جن میں آپ قرآن مجید اور تمام صحاح ستہ کے فی البدیع حوالہ جات صفحہ، پارہ، سورۃ، آیت، کتاب، باب، راوی، سند، حدیث نمبر، زبانی بتلا دیتے ہیں، اس کے ساتھ بائیبل، تورات اور ہندوؤں کی گیتا و مہا بھارت سے بھی حوالے دے کر لوگوں کو انکی غلطیاں سمجھا کر اسلام کیطرف بلانے کا کام کرتے ہیں، 2000 میں امریکہ میں ان کا عیسائیوں کے نامی گرامی سائنٹسٹ پادری ڈاکٹر "ولیم کیمبل" کے ساتھ کئی گھنٹے کا طویل مناظرہ ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا، اس مناظرہ کا عنوان "قرآن اور بائیبل، سائنس کی روشنی میں" تھا، جن میں عیسائی پادری سائنٹسٹ کا دعویٰ تھا کہ قرآن مجید میں 31 جگہ غلطیاں ہے، جس پر ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف انکو قرآن کو ہر غلطی سے پاک ثابت کردیا بلکہ خود انکے ہی اپنے نظریے میں اسکو 40 سے زائد غلطیاں بتلا کر خاموش کرادیا، یہ مناظرہ اس وقت ایک امریکی ٹی وی چینل پر براہ راست دکھایا جارہا تھا، جس کے فوراً بعد تقریباً 37 ہزار لوگوں نے بیک وقت اسلام قبول کیا، اس مناظرے کے بعد ہر جگہ انہیں "تقابل ادیان" کا سب سے بڑا ماہر سمجھا جانے لگا اور ہر جگہ انہیں دعوت دین کے لئے بلایا جانے لگا، آپ کی زبان میں پیدائشی لکنت ہے، آپ اپنی ہر تقریر کے شروع میں اکثر دعائے موسوی، رب اشرح لی صدری الخ.....!! "اے میرے رب..! میرا سینہ کھول دے اور میرے کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے (تاکہ لوگ) میری بات کو سمجھ سکے" ہر نشست میں پڑھتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کی لکنت زدہ زبان میں ایسی تاثیر ہے کہ اس نے سارے عالم کفر کو متاثر کیا، اور اس وقت دنیا کے ہر کفر کیساتھ اسلام کی حقانیت کا مقدمہ لڑرہے ہیں، غرض یہ کہ دنیا کے کونے کونے چپے چپے پر لوگوں کو اسلام سے روشناس کراکر دین حنیف کیطرف بلانے میں مصروف عمل ہیں، تعداد مختلف بتائی جارہی ہے لیکن درست بات یہ کہ آج تک انکے ہاتھوں 3 سے لیکر ساڑھے 5 لاکھ کے قریب غیر مسلم اسلام قبول کرچکے ہیں، آج تک انہوں نے مغربی دنیا اور یورپ کے ہر باشندے کے سامنے اسلام کا ایک انتہائی روشن، پرامن اور خوبصورت چہرہ پیش کیا، جو آج تک کوئی بھی نہ کرسکا، جہاں نائن الیون کے بعد مسلمانوں کو دہشت گرد کہا گیا، اسلاموفوبیا کا آفت آمیز فتنہ برپا ہوا، دنیا والے مسلمان کو وہشی اور درندہ سمجھنے لگے، غیر مسلم ہمارے مقدس مذہب سے نفرت کرنے لگے، تو یہی بندہ تھا جس نے اس زہریلے اور نفرت آمیز ماحول میں مسلمانوں اور اسلام کی پرامن، محبت، آشتی، بھائی چارگی اور انسان دوست تعلیم کو نہ صرف منطقی اور سائنسی دلائل کے ذریعے حکمت کے ساتھ مغربی دنیا کے سامنے پیش کیا بلکہ ہزاروں غیر مسلم اسلام کو اپنے لیے راہ نجات سمجھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے، اس وقت دنیا میں وہ اسلام کے سب سے بڑے بااثر مبلغ ہیں، یہ تھی ڈاکٹر صاحب کی مختصر تعارف کہ وہ کیا کرتے ہیں، اب اصل اور مقصودی بات کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو دنیا کے طول و عرض میں اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے، تمام عالم کفر کی نظر ہماری اس دھرتی پر جمی ہوئی ہے، ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہوکر اسلام کے اس عظیم داعی کو خوشامد کہنے کے بجائے ان کی ذات کے اندر نکتہ چینی میں مصروف عمل ہیں، جو باہر جاکر عالم کفر کے ہر محاذ پر اسلام کا مقدمہ لڑرہے ہیں، جو کام وہ کررہے ہیں، اس کام کا کرنا ہم میں سے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا، ہماری تو خود یہ حالت ہے کہ اگر سو لوگوں کے سامنے بھی کسی نے اسلام سے متعلق کوئی پیچیدہ سوال پوچھا جواب تو کیا پتہ نہیں اس وقت کیا ذلالت مقدر ہوگی، اور وہ لاکھوں غیر مسلوں کے بیچ میں کھڑے ہوکر ببانگِ دہل انکے اسلام پر کئے گئے ہر اعتراض کا جواب دلیل سے دیتے ہیں، ہم نے اگر آج انکی لاکھوں خوبیوں کو پس پشت ڈالا ہے تو صرف اس لیے کہ میری فلاں پسندیدہ شخصیت اسکو نہیں مانتا بسسس....!!! تو پھر ذرا اپنے اس علامہ سے یہ پوچھ لیں کہ ہے ہمت تم میں وہ کام کرنے کی جو ڈاکٹر "ذاکر نائیک" کررہے ہیں، کبھی بھی نہیں....!!! وہ شخصیت تو روز مسلمانوں کو فرقوں میں بانٹ رہا ہیں اس کنویں کے مینڈک کو تو یہ تک نہیں پتہ کہ آج عالمی سطح پر اسلام کو کونسے چیلنجر درپیش ہیں، جو ڈاکٹر صاحب اس کے ماہر ہیں وہ مسلمانوں کو فرقوں میں بانٹتا نہیں بلکہ دنیا کفر کو بھی اسلام کیطرف بلاتا ہیں، انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج ہم اخلاقی طور پر اتنے گر چکے ہیں، کہ ہمیں اپنا نظریہ، مسلک، پارٹی، فرقہ اور گروہ کا بندہ اپنے مذہب اسلام سے زیادہ معزز و محترم ہے، اور اسکی ہر بات ہمارے لیے مسلّم ہے اگر چہ وہ عین اسلام کے صریح خلاف کیوں نہ ہو، پھر الٹا ہم انکی گندگی کو صاف کرنے کیلئے جوازیں بھی پیش کرتے رہتے ہیں، کیونکہ کچھ بھی ہو پر ہمارا نام سب سے اونچا ہونا چاہیے ہم ظاہری طور پر دودھ سے دھلے ہونے چاہییں چاہے، اندر سے گند ہی کیوں نہ ہو، میری عزت صدا قائم رہنی چاہیے میرے واہ واہ کرنے والے ہر دن بڑھتے رہنے چاہئے، بھلے دین جائے بھاڑ میں، افسوس ہم آج اتنے فرقوں، پارٹیوں، جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہوچکے ہیں، کہ بحیثیت مسلمان ہم اپنے اصل مقصد حیات تک کو بھول بیٹھے ہیں، فرقہ واریت اور گروہ بندی کی بنا پر آج کل ہمارے دل و دماغ میں ایک دوسرے کیلئے نفرت انگیزی اور تشدد پسندی اتنی انتہا پر پہنچ چکی ہے، کہ بیٹا باپ کو اور بھائی بھائی تک کو برداشت نہیں کرپاتا، ہم اخلاقی طور پر اتنے گر چکے ہیں کہ آج ہم ایک دوسرے سے اس لیے ہاتھ نہیں ملاتے کہ یہ میرے نظریے، عقیدے، گروہ اور جماعت کا بندہ نہیں ہے بسسس....!!! ذرا نہیں پورا سوچیے گا کہ بحیثیت مسلمان کیا اسلام مجھے اس چیز کا درس دیتا ہے..؟ بحیثیت رسول اللّٰه کی امتی کیا یہ میرا مقصد حیات ہے..؟ کیا اسلام مجھے اس رویے کو اپنانے کا درس دیتا ہے..؟ جواب مجھے نہیں خود دیجئیے گا..........!!!!!
✍🏻 نظام الدین محسن

Dr Zakir Naik

29/09/2024

وہ لوگ تھوڑا قریب قریب آئیں جو "ایران" کو مسلم ہیرو ریاست کا درجہ دیتے ہیں، انتہائی تعجب والی بات یہ ہے کہ کل ہی لبنانی نژاد سعودی شیعہ عالم "محمد علی الحسینی" نے "العربیہ چینل" کے لائیو ٹاک شو میں "حزب اللّٰه" کے سربراہ کو خبردار کیا تھا کہ "ایران" نے تمہارے سر کی قیمت لگائی ہے، ذرا سنبھل کر رہے گا، انہوں نے "حسن نصر اللّٰه" کو مخاطب کرکے کہا: کہ کیا تمہیں پتہ ہے کہ ایران نے تمہارے بارے میں کیا کہا ہے..؟ اور تمہارے سر کی کیا قیمت لگایا ہے..؟ تم اپنی وصیت لکھ لو، جس نے کل تمہیں خریدا تھا، انہوں نے آج تمہیں بیچ دیا ہے، کل یہ باتیں ہوئی اور بس پھر آج انکی فوتگی کی خبر چل پڑی، یاد رہے "محمد علی الحسینی" کوئی عام بندہ نہیں بلکہ 70 سے زائد کتابوں کے مصنف اور لبنان و سعودی عرب میں شیعہ علماء کے نظر میں ایک محقق کا درجہ رکھتے ہیں، جن کو اعلیٰ سطحی قابلیت پر 15 نومبر 2021 کو جاری ہونے والے شاہی حکم نامے کی بنیاد پر سعودی شہریت دی گئی، وہ لبنان میں عرب اسلامی کونسل کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں، ان کی اس بات پر کل تو کسی نے زیادہ کان نہیں دھرے، بس سن کر ہوا میں اڑا دی، لیکن آج کی حالات کے تناظر میں اسی ویڈیو نے سب کے ہوش اڑادئیے

اور پھر یثرب مدینہ بنامدینہ منورہ عہدِ خداوندی کا وہ منبع ہے جسکے باغِ رحمت کے آفاقی پیڑوں کی ایمان افروز شاخوں پر چار ...
22/08/2024

اور پھر یثرب مدینہ بنا
مدینہ منورہ عہدِ خداوندی کا وہ منبع ہے جسکے باغِ رحمت کے آفاقی پیڑوں کی ایمان افروز شاخوں پر چار سو اسلامی ثقافت کے دلکش پھول کِھلے ہیں، جنکی پُرنور فضا سے مُردہ دلوں کو نفسِ اطہر مہیا ہوتا ہے، جہاں کا ہر پتھر پھول کی کَلی ہونے کی گواہی دے رہا ہے، جنکی خوشبو سے "لا اله الا اللّٰه" کے ترانے گانے والا ہر دل سرشار ہوتا ہے، اسلامی معاشرے کی ابتدائی پرورش و پرداخت اسی شہرِ اقدس میں ہوئی، اور ثقافتِ اسلامی کا چہرہ اسی ایمان پرور پاکیزہ ماحول کی کِرنوں سے با وضو ہوکر اُبھرا، اور پھر اسی شہر کی قلبِ اطہر پر مسجد نبوی کی صورت میں ایک مضبوط قلعہ بے چین اور ناتواں دلوں کیلئے آسرا بنا، ایک ایسا قلعہ جسکی ایک چھت کے سایہ میں عاشق و معشوق نے آپس کے راز و نیاز کیخاطر ساتھ ملکر اپنا ٹھکانہ بنایا، جسکی وجہ سے اسکو بیت الرحمٰن کیساتھ بیت عرفان کہلایا گیا، جو تا صبح قیامت ایک ایسی مسجد کی صورت میں جلوہ گَر ہوا، جسکا وجود اسلامی ثقافت کے نمو کا منبع و مرجع بنا، جسکی ایوانِ ثقافت کی محراب سے ملنے والی بشارتوں نے سسکتی ہوئی انسانیت کے لبوں پر تبسم کی روشنی بکھیری، ورنہ صدیوں سے جاری تمدنِ یثرب نے تو حرمتِ انس و عظمتِ آدم کا امتیاز روندا تھا، اور غم و آلم موسمِ انسانیت کا مقدر بن چکا تھا...! لیکن پھر اس خطے اقدس پر گفتارِ تلوار کے بجائے گفتارِ کردار نے جنم لیا، جس کی بدولت انتقام کے بجائے عفو و درگزر کا اہتمام ہوا، جسکی بدولت پتھروں کی بارش میں پھولوں کو بکھیرنے کی رسم نے جنم لیا، اور حوصلوں کی ایسی کشادہ زمین بن کر نمودار ہوا، جس میں نفرتوں کا ہر صحرا دم توڑ جاتا گیا"
"بخت میرا... جو محبت میں رسا ہو جائے"
"کاش میری تقدیر مدینے کی فضا ہو جائے"
جَزَی اللّٰهُ عَنَّا سَیِّدَنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدًا ﷺ مَا ھُوَ اَھْلُهٗ

18/08/2024

حجاب محض پردہ نہیں بلکہ سکون ہے
دور حاضر میں دنیا کے طول و عرض پر فحاشی و عریانی اپنے عروج پر ہے، دن بدن لوگوں سے حیا ختم ہوتی جارہی ہے، اور اب تو نوبت یہاں تک آئی ہے کہ خود کو سمجھدار ترقی یافتہ سمجھنے والے عقل سے خالی لوگ اسی بے حیائی و عریانی کو اپنے لئے کامیابی اور ترقی کی علامت سمجھنے لگے، ایسی سوچ رکھنے والے بے نسلوں کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ "وار آن ٹیریر" کے دور میں مغربی دنیا کے اندر ریاستی سرپرستی کے دوران اسلام کے خلاف ایک مہم شروع ہوئی، جو کبھی رکی نہیں بلکہ اب بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے، اُس وقت کی جاری مہم میں مساجد اور حجاب پر پابندیاں سب سے نمایاں تھیں، اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عورتوں کیلئے حجاب کو ظلم، سختی اور جہل سے تعبیر کیا گیا، کیونکہ انکا بنیادی مقصد لوگوں کے دلوں سے اسلام کی عظمت کو مٹانا تھا، تو وہ لوگ اپنی اس مہم میں اپنے مقاصد کیمطابق اپنی سوچ کے بر خلاف کافی حد تک ناکام ہوئے، تو انہوں نے ایک نئی چال چلی، کہ اپنی اس گھٹیا مہم کو ترقی، آزادی اور خودمختاری سے تعبیر کیا جائے، اور جو بھی اسکو اپنانے لگا معاشرہ اسی گدھے کو ترقی یافتہ سمجھنے لگا، اور پھر آہستہ آہستہ خود مسلمانوں کے اندر بھی ایسی سوچ کے لوگ پیدا ہوتے گئے، اور وہی گھٹیا طبقہ دوسرے مسلمانوں کیساتھ آپس میں مل جل کر رہنے کی وجہ سے ان پر با آسانی سے اثر انداز ہونے لگا، اور پھر مغرب ہی نہیں بلکہ اس مہم کا تھوک چاٹنے والے شوقین ہمارے ہاں ان مشرقی، خلیجی اور ایشیائی ممالک میں بھی اس مہم کی گندی فکر کا شکار ہوکر اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے لگے، زیر نظر ویڈیو بھی اسی موضوع سے متعلق ہے، یہ ویڈیو امریکی سابق صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" کی حالیہ پریس کانفرنس کا ایک حصہ ہے، جس میں اس نے کھل کر انتہائی مثبت، معقول، اور منطقی انداز میں عورتوں کے حجاب کی حمایت کی، جس سے اس نے صرف مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ مغربی دنیا کے لوگوں کے دلوں کو بھی جیت لیا، ویسے تو "ڈونلڈ ٹرمپ" کردار کے اعتبار سے گدھے سے بدتر ایک انتہائی گھٹیا اور بدنما انسان ہے، حالیہ فلسطینی کاز میں روز اول سے اسرائیل کا حامی رہا ہے، لیکن کیا کریں کبھی کبھار گدھوں میں بھی غلطی سے کچھ خوبیاں پائی جاتی ہیں، حجاب کے مسئلہ پر سابق امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" مسلمانوں کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے، "ڈونلڈ ٹرمپ" نے اپنی اس کانفرنس میں کہا کہ: "میں نام بتا کر اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتا، لیکن ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ: "ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عورتیں پردہ نہ کریں" میں سوچنے لگا کہ اسکی یہ بات تو معقول ہے، پھر میں نے ایک عورت کا انٹرویو دیکھا، جسمیں وہ کہہ رہی تھی کہ: "ہم پردہ کرنا چاہتی ہیں، کیونکہ ہم ہزاروں سال سے پردہ کر کے آرہی ہیں، کسی اور کو کیا حق ہے کہ ہمیں اپنے اس حق سے منع کرے..؟" تو پھر اس معاملے میں ہم (امریکی) خوامخواہ کیوں ملوث ہو رہے ہیں؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میک اَپ کے مقابلے میں پردہ زیادہ آسان اور آرام دہ آپشن ہے، عورت کیلئے پردہ کرنے میں بہت زیادہ سہولت اور آسانی ہے، اگر میں عورت ہوتا تو میک اَپ کے بجائے پردے کو ترجیح دیتا، اور پردہ کرکے اپنے ساتھی سے کہتا کہ: "میں تیار ہوگئی ڈارلنگ آؤ باہر چلیں"

گھر کا چوکیدار ہی گھر کے آنگن کا چور نکلا، آج کی چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ یہ احرام میں لیپٹا شیطان اسلامی جمہوریہ مص...
25/07/2024

گھر کا چوکیدار ہی گھر کے آنگن کا چور نکلا، آج کی چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ یہ احرام میں لیپٹا شیطان اسلامی جمہوریہ مصر کے حکمران جنرل "فرعون عبد الفتاح السیسی" تو یہودی نکلا، سن کر آپ کے آنکھیں چار ہوئی ہوگی ہے نا، بلکل اسی طرح میں بھی سن چونک گیا تھا، چلو خیر کوئی گل نہیں آؤ تفصیل کیلئے نیچے تحریر کیطرف چلتے ہیں:
کیا "جنرل سیسی" واقعی یہودی ہیں..؟ اس سوال کا جواب میں نہیں آپ نے خود دینا ہے، لیکن پوسٹ کے آخر میں...!
غزۃ کی پٹی فلسطینیوں کا مقتل گاہ بن چکی ہے، ریکارڈ کے مطابق شہداء و مفقودین کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، 11 مئی سے غزۃ میں داخل ہونے والے تمام راستے مکمل طور پر بند ہیں، اور پٹی میں ہر طرف بھوک و پیاس کی قیامت برپا ہے، خصوصاً شمال میں اب بچوں کے ساتھ بڑے عمر کے افراد بھی بھوک کے باعث موت کے منہ میں جا رہے ہیں، ہر طرف دہشت و خوف کا سماں ہے، لیکن اہل غزۃ کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں، چونکہ 56 مسلم ممالک میں سے صرف مصر وہ واحد ملک ہے، جس کی طویل بارڈر غزۃ سے ملی ہوئی ہے، لیکن لوگ اس خطے کو بھی یہودی کہنے پر مجبور ہیں، ایک وقت جہاں سے اسلام دنیا کے طول و عرض میں پھیل چکا تھا، تو پھر ایسا کیوں...؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے، کہ اہل غزۃ کے لیے اب تک مصر کا کردار سوتیلی ماں سے بھی زیادہ بدتر رہا، مظلومان قدس کی مدد ونصرت تو دور کی بات، مصری فوجی ان بے خانماں لوگوں کو بھی لوٹنے سے دریغ نہیں کر رہے، چنانچہ کئی معتبر ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے، کہ غزۃ سے اگر کوئی اپنے جاں بہ لب زخمی کو علاج کیلئے مصر لاتا ہے، تو اس سے 10 ہزار ڈالر تک رشوت وصول کی جاتی ہے، دنیا حیران ہے کہ آخر مصر اسلامی دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور ریاست ہونے کے باوجود اس طرح کی سنگدلی کا مظاہرہ کیوں کر رہا..؟ اس کی بنیادی وجہ مصر پر مسلط آمر جنرل "عبد الفتاح السیسی" ہے وہ نہ صرف یہ کہ نسلاً یہودی بلکہ صہیونی بھی ہے، اسرائیلی فوج کے عرب ترجمان "افتخائی ادرعی" کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ "سیسی" مجھ سے بھی بڑا صہیونی ہے، "ماجدہ ہارون" جو یہودیوں کے ایک عرب فرقے کی سربراہ ہیں، انہوں نے ایک ٹی وی شو میں دستاویزی شواہد کیساتھ جنرل "سیسی" کی یہودیت کو ثابت کیا، اور وہی ویڈیو آج کل عرب سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ وائرل ہے، مصر میں اسلام پسندوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہزاروں مسلمانوں کا خون بہانے والے جنرل "سیسی" کی ماں "ملیکہ تیتانی" مراکش کے اعلیٰ یہودی مذہبی خاندان کی عورت تھی، واضح رہے کہ یہودیت ایک غیر تبلیغی مذہب ہے اور اس مذہب میں اسی شخص کو یہودی تسلیم کیا جاتا ہے، جس کی ماں یہودی ہو، اس لئے بہت سے عرب تجزیہ کاروں اور مذاہب عالم کے بعض ماہرین بھی جنرل "سیسی" کو یہودی قرار دیتے ہیں، واضح رہے کہ مصر کے سابق عبوری صدر "عدلی منصور" کا تعلق بھی سبطی فرقے سے ہے، سبطی اپنے آپ کو عیسائیت کی طرف منسوب کرتے ہیں، تاہم عیسائی انہیں یہودیوں کا ایک فرقہ قرار دیتے ہیں، کیونکہ ان کے عقائد و اعمال یہودیوں کے زیادہ قریب ہیں، معروف نیوز ویب سائٹ "المستقبل العربی" نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنرل "سیسی" کی ماں کا تعلق مراکش کے ایک معروف یہودی خاندان سے ہے، جنرل "سیسی" کی ماں "ملیکہ تیتانی" کا خاندان "صباغ" مراکش کا ایک متمول اور انتہائی مذہبی رحجان رکھنے والا خاندان شمار ہوتا ہے، تاہم اسرائیل کے قیام کے بعد اس خاندان کے بیشتر افراد اسرائیل منتقل ہوگئے، صہیونی ریاست میں اس با اثر عرب یہودی خاندان کو شروع ہی سے ایک خاص اہمیت حاصل ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ "ملیکہ تیتانی" کا سگا بھائی یعنی جنرل "سیسی" کا ماموں "عوری صباغ" 1951 میں اسرائیل منتقل ہوا، جس کے بعد 1968 تک وہ مسلسل مختلف اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہا، ابتداء میں اسے وزارت دفاع میں ایک اہم عہدہ دیا گیا، تاہم بعد میں 1963 سے 1981 تک وہ اسرائیل کا رکن پارلیمنٹ (کینسٹ) اور وزیر تعلیم و تربیت بھی رہا، اس کے بعد بھی وہ اپنی موت 1989 تک مذہبی پیشوا کے طور پر اسرائیل میں مقیم رہا، مراکش میں پیدا ہونے والا "عوری صباغ" ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھا، اسے مراکش میں ہی یہودیوں کی عالمی تنظیم "ہاماجین" کا رکن منتخب کیا گیا، یہودیوں کی اتنی بڑی مذہبی اور سیاسی شخصیت کی سگی بہن "ملیکہ تیتانی" مصری آمر اور 10 ہزار سے زائد مسلمانوں کا خون بہانے والے جنرل "سیسی" کی ماں ہے، "ملیکہ تیتانی" کا خاندان 1951 میں اسرائیل منتقل ہوا، تاہم "ملیکہ تیتانی" کسی "مقصد خاص" کے تحت اسرائیل کے بجائے مصر چلی گئی، جہاں اس نے 1953 میں جنرل "عبد الفتاح سیسی" کے باپ سے شادی کی، شادی کے ایک سال بعد 1954 میں "عبد الفتاح سیسی" کی ولادت ہوئی، "سیسی" کی ماں کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا فوجی افسر بنے، اس لیے اس نے اسے فوج میں بھرتی کرانا چاہا، تاہم فوجی قانون کے مطابق "ملیکہ تیتانی" کی مراکشی شہریت رکاوٹ بنی، لیکن"ملیکہ تیتانی" کے سر پر بیٹے کو فوجی افسر بنانے کا جنون سوار تھا، اس لیے وہ مراکش کی شہریت سے دستبردار ہوگئی، اور اس کی ماں کو 1958 میں مصری شہریت دی گئی،۔جس کے بعد 1973 میں "سیسی" فوج میں بھرتی ہوگیا، جنرل "سیسی" کے قریبی ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس کی جڑیں یہودیت سے وابستہ ہیں اور وہ خود بھی یہودیوں سے قربت اور محبت رکھتا ہے، "اوجا سٹی" نیوز نے لکھا ہے کہ باخبر ذرائع سے اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے، کہ جنرل "سیسی" نے ڈاکٹر "مرسی" کی حکومت کا تختہ الٹنے سے تین دن پہلے اسرائیل سے مشاورت کی تھی اور اسے فوجی بغاوت کی تاریخ سے بھی آگاہ کردیا تھا، جبکہ قاہرہ میں تعینات اسرائیل کے سفیر نے بھی فوجی بغاوت کے بعد جنرل "سیسی" کو یہودیوں کا قومی ہیرو قرار دیا تھا، "الوطن" نیوز کے مطابق بہت سے عرب تجزیہ کاروں اور مذاہب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنرل "سیسی" کی ماں کا یہودی ہونا ثابت ہونے کے بعد اس بات میں کوئی شک و شبہ نہ رہا کہ "سیسی" بھی عقیدے کے اعتبار سے یہودی ہے، ماہرین کا استدلال ہے کہ یہودیت ایک غیر تبلیغی مذہب ہے، جس میں بچے کی مذہبی نسبت باپ کے بجائے ماں کی طرف ہوتی ہے، یعنی ہر یہودی عورت کا بچہ یہودی شمار ہوتا ہے، چاہے اس کا باپ یہودی ہو یا کسی اور مذہب کا، واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی "موساد" نے کہا تھا کہ اس نے 1948 کے بعد اپنے سینکڑوں جاسوس مردو عورتوں کو ایک خاص مشن پر عرب دنیا میں پھیلایا تھا، ان افراد کو اس بات پر پابند بنایا گیا تھا کہ وہ با اثر طبقوں سے تعلق رکھنے والے عرب افراد سے شادیاں کریں اور اپنی اولاد کو اعلیٰ سرکاری عہدوں تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریں، موساد کی جانب سے اپنے ان جاسوسوں کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو بطور خاص عرب ممالک کی مسلح افواج میں افسر بھرتی کریں، تاکہ وہ کلیدی عہدوں پر فائز ہوکر اسرائیل کے تحفظ اور استحکام میں اپنا کردار ادا کرسکیں، اب سوال یہ ہے کہ مصر کے پہلے منتخب اور اسلام پسند بلکہ حافظ قرآن صدر ڈاکٹر "محمد مرسی" شہید نے ایک یہودی پس منظر رکھنے والے شخص کو مسلح افواج کا سربراہ کیسے بنایا..؟ انہوں نے پوری چھان بین کئے بغیر جنرل "طنطاوی" کی جگہ جنرل سیسی کو آخر کیوں نامزد کیا..؟ اس سوال کا جواب یہ کہ جنرل سیسی اس وقت فوج کے سرکردہ جنرلوں میں خود کو سب سے زیادہ دیندار اور اسلام پسند ظاہر کرتا تھا، یہاں تک کہ اس کی بیوی کی تصویر تک بھی کسی نے نہیں دیکھی تھی، بس ڈاکٹر "مرسی" اس کے ظاہری اسلام پسندی سے دھوکہ کھا گئے اور اسے دین کے ساتھ مخلص سمجھ کر فوج کا سربراہ بنا دیا، جو بعد میں ایک مصری فرعون بن کر نمودار ہوا، پچھلے 7 ہزار سال مصر کا ایک قانون و قاعدہ رہا کہ ہر برسر اقتدار بادشاہ اپنے نام کیساتھ اعزازی طور پر فرعون لکھا کرتے تھے، جو مصری بادشاہت کی نشاندہی کرتے تھے، جیسا کہ دور حاضر میں بادشاہوں پہچان کیلئے انکے نام کیساتھ وزیراعظم اور صدر لکھا جاتا ہے بلکل اسی طرح، اور جنرل "سیسی" بھی اسی دور کا فرعون ہے، جو بلاشبہ اپنے سابقہ فرعونوں کے غلیظ نطفہ کا ہی پیداوار ہے، تب ہی تو انکے کرتوت ان ہی کیطرح غلیظ ہے، اس بےشرم، بدکردار، غدار اور دین فروش جنرل "سیسی" جس نے مصر میں الیکشن جیتنے والے وزیراعظم "مرسی" کی حکومت کو اس لئے گرایا کہ "مرسی" اسرائیل اور امریکہ کو ہر موقع پر ٹف ٹائم دے رہا تھا، ممکنہ سائفر مصر اسی غلیظ جنرل نے وصول کیا اور "مرسی" کا تختہ پلٹ دیا، یہی بدکردار روپ بدل کر چیف جسٹس بنا اور عدالت میں وزیر اعظم "مرسی" کو ممکنہ زہر دیکر شہید کر دیا گیا، اور خود صدر بن گیا، یہ ملت کا غدار، مسلمانوں اور حملہ آوروں کی ہر جنگ میں مسلمانوں کے خلاف موقف لیتا ہے، مصر میں اس نے سب سے بڑی سیاسی جماعت پر پولیس سے حملہ کروایا، 50 ہزار سے زائد سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا، جس میں سے سینکڑوں کو پھانسی اور ہزاروں کو عمر بھر قید کی سزا سنادی، اس کی جائیداد اس وقت اربوں میں ہے، ہر اس کام کرنے میں دریغ نہیں کرتا جس سے اسکے آباؤ اجداد امریکہ اور اسرائیل خوش ہوتے ہیں، فلسطین میں پچھلے 10 ماہ سے جاری قتل عام میں اسی نیچ انسان نے زخمیوں کے لیے آٹا، پانی، پٹرول، دوائیاں بند کیے، یہاں تک بارڈر پر خاردار تاریں لگا کر اس کو بجلی کی کرنٹ دی، تاکہ کوئی فلسطینی دجال کے قہر سے بچ کر نہ نکلے، 1500 سے زائد امدادی ٹرکوں کو سرحد پر روکے رکھا، تاکہ بچے کچھے فلسطینی بھوک اور پیاس کی قیامت سے بلک بلک کر مر جائے، جنگ لڑتے فلسطینیوں کو اسلحہ دینا تو دور کی بات بلکہ اپنے ناجائز باپ کی خوشی کیخاطر فلسطینوں سے پانی کے پائپ لائن تک کو بند کروایا، اس فرعون کے سینے پر چمکتے تمغے کسی جنگ جیتنے کے نہیں، ہر تمغہ اسلام اور مسلمانوں سے کی گئی ایک ایک غداری کا صلہ ہے، جو انکے ناجائز باپ سے اسکو فراہم ہوتے ہیں

Address

Karachi

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Muslim World - العالم الإسلامي posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share