30/11/2025
ایک گاؤں میں ایک نہایت خوبصورت سفید گھوڑا 🎠 رہتا تھا۔ اس کی طاقت، اس کی دوڑ، اس کی خوبیوں کے چرچے دور دور تک تھے۔ مگر ایک عجیب بات تھی
اس گھوڑے کو ہمیشہ ایک پتلی سی رسی سے باندھ کر رکھا جاتا تھا۔
لوگ حیران تھے:
“اتنا طاقتور گھوڑا… اور اتنی باریک رسی؟ یہ تو ایک جھٹکے میں اسے توڑ سکتا ہے!”
مگر گھوڑا کبھی کوشش ہی نہیں کرتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ وہ بندھا ہوا ہے۔ کیونکہ بچپن میں جب وہ چھوٹا تھا، اسی رسی سے اسے باندھا جاتا… تب وہ واقعی نہیں توڑ سکتا تھا۔ وہ جدوجہد کرتا… تھک جاتا… اور اس کے دل میں یہ یقین بیٹھ گیا تھا
“میں اس رسی کو نہیں توڑ سکتا۔
میں آزاد نہیں ہوں۔”
اب وہ بڑا ہو چکا تھا، طاقتور ہو چکا تھا، ایک جھٹکے میں رسی کو توڑ سکتا تھا, مگر اس کے ذہن میں بچپن کی ہار ابھی بھی بندھی ہوئی تھی۔
ایک چڑیا، 🐧 جو اسی اصطبل میں رہتی تھی، روز گھوڑے کو دیکھتی اور حیران ہوتی رہتی۔
ایک دن وہ گھوڑے کے پاس آ کر بولی: “تم اتنے مضبوط ہو… پھر بندھے کیوں کھڑے ہو؟”
گھوڑے نے افسردگی سے جواب دیا:
“کیونکہ میں بندھا ہوا ہوں۔
میں یہ رسی نہیں توڑ سکتا۔”
چڑیا نے ہنس کر کہا:
“یہ رسی نہیں، تمہارا یقین کمزور ہے۔ زنجیر تمہارے پاؤں میں نہیں…
تمہارے ذہن میں ہے!”
اس نے ہمت دلائی: “صرف ایک بار کوشش کرو… بس ایک بار!”
گھوڑا تھوڑی دیر خاموش رہا۔
پھر اس نے گہرا سانس لیا،
زور لگایا… اور رسی ایک لمحے میں ٹوٹ گئی۔
گھوڑا حیران رہ گیا۔
وہ دوڑتا رہا… کھلے میدان میں…
اور اسے پہلی بار احساس ہوا کہ
وہ برسوں سے قید نہیں تھا…
وہ صرف یقین کا قیدی تھا۔
ہم میں سے اکثر لوگوں کو زندگی نہیں روک کر رکھتی… ہماری پچھلی ناکامیاں روک کر رکھتی ہیں۔ اصل زنجیریں باہر نہیں ہوتیں انسان کے ذہن میں بندھی ہوتی ہیں۔ جب تک انسان خود پر یقین نہیں کرتا، کوئی آزادی اس کے کام نہیں آتی۔ ایک چھوٹا سا قدم… ایک چھوٹی سی کوشش…
زندگی بدل سکتی ہے۔