21/05/2024
عدالت میں کیا ہوا؟شاعر احمد فرہاد کی جبری گمشدگی پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت کی مکمل تفصیلات
اسلام آباد ہائیکورٹ نے مغوی شاعر احمد فرہاد کی بازیابی درخواست پر وزارت دفاع سے تین بجے تک رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا عدالت میں جھوٹ بول کر پٹیشن واپسی کی درخواست دائر کرنے پر احمد فرہاد کو چھوڑنے کے پیشکش ہوئی۔ کہا گیا کہ اغوا کے بجائے پٹیشنر کے خود اپنی مرضی سے جانے کا بتائیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے یہ انصاف کی راہ میں مداخلت ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کو بتا دیں بندہ ہر صورت چاہیے۔ اپنے اوپر سے اغوا کار کا کیبل ہٹوائیں۔ تفتیشی افسر ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکٹر کمانڈر کا بیان قلمبند کرے
جسٹس محسن اختر کیانی نے عروج زینب کی اپنے مغوی شوہر احمد فرہاد کی بازیابی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے پوچھا ایک متفرق درخواست آئی ہے اس میں کیا ہے؟ سترہ مئی یعنی جمعہ کی رات کو پٹیشنر کو شوہر کے وٹس ایپ نمبر سے کال آتی ہے۔ ان کے پیچھے سے دو مزید افراد کی آوازیں آ رہی تھیں جو دباؤ ڈال رہے تھے۔ کہا گیا کہ پٹیشن واپس لیں تو بندہ ہفتے کے روز واپس آ جائے گا لیکن کورٹ کو جھوٹ بولنا ہے کہ احمد فرہاد کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنی مرضی سے گئے تھے۔ بارہا رابطے کیے جا رہے ہیں اور بہت زیادہ پریشر ڈالا جا رہا ہے۔ تین ڈرافٹس ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان شیئر ہوئے۔ احمد فرہاد واپس نہیں آئے اس لئے ہم درخواست واپس نہیں لے رہے۔ اگر یہ اغوا برائے تاوان ہوتا تو وہ پیسے مانگتے۔ یہ واضح طور پر جبری گمشدگی کا کیس ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے ایک آدمی کو اغوا کر کے رکھا ہوا ہے، اپنے اوپر سے اغوا کا لیبل ہٹوائیں، مجھے اب آئی ایس آئی سے بندہ چاہئے۔ سیکرٹری دفاع ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ میں وارنٹ گرفتاری جاری کروں گا۔ تفتیشی افسر آج ہی ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکٹر کمانڈ کا بیان لکھیں۔ احمد فرہاد دہشت گرد ہے؟ کیا بھارت سے آیا ہے یا اغوا برائے تاوان میں ملوث ہے۔ ایس ایس پی آپریشنز نے کہا نہیں، سر ایسا نہیں ہے۔ عدالت نے کہا آج ہی گیارہ بجے جواب جمع کرائیں۔ وزارت دفاع کے نمائندے نے کہا ایک دو دن کا وقت دے دیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا اتنا وقت کیوں چاہئے؟ آپ نے کیا پوچھنا ہے کہ باجوڑ والے سیف ہاؤس میں ہے یا کشمیر والے؟ عدالت نے استفسار کیا کیا آپ کبھی اغوا ہوئے ہیں؟ وزارت دفاع کے نمائندے نے جواب دیا نہیں۔ جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا جو اغوا ہوئے ان پر کیا گزرتی ہے، ان کو ہی پتہ ہوتا ہے۔ آپ کے پاس گیارہ بجے تک کا وقت ہے۔ وزارت دفاع کے افسر نے کہا رابطہ کرنے کے لیے وقت چاہئے۔ عدالت نے کہا کیا ان کے دفاتر چاند پر ہیں جو رابطے میں وقت لگے گا۔ لوگوں کو اس نہج پر نا لے کر آئیں کہ اداروں کا جینا مشکل ہو جائے۔ میں اس کیس کو ڈی بی کے بعد تین بجے دوبارہ سنوں گا۔ تین بجے تک جواب لائیں، ورنہ آرڈر پاس کروں گا۔ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن نے کہا پورے ادارے پر الزام عائد نہیں ہو سکتا۔ عدالت نے کہا پھر بتائیں کہ کیا کوئی ان کا ترجمان ہے جس کا نام لیں؟ آپ لوگوں نے اپنے ادارے سے متعلق رائے تبدیل کرنی ہے۔ اسٹیٹ کا فرنٹ فیس نامعلوم افراد نہیں پولیس ہے۔ مزید سماعت تین بجے ہو گی