جبری نظام کا ریمانڈ Jabri Nizam Ka Remand

جبری نظام کا ریمانڈ Jabri Nizam Ka Remand Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from جبری نظام کا ریمانڈ Jabri Nizam Ka Remand, Social Media Agency, lyari, Karachi.

23/01/2025
23/01/2025

*اگر میں17سال پہلے ایک عورت کا نام لیتا ،توپھرکتنی عورتوں اور مردوں کو اٹھالیا جاتا اورکیا نقصان ہوتا؟*

دہشتگردوں نے حملہ میں13افراد کو شہید کیا تو یوسف شاہ کی بہن ماموں کے گھر میں کہہ رہی تھی کہ ''اگرعتیق الرحمن کو چھپایا ہے تو اس کو نکالو، ورنہ طالبان گھرمیں گھس جائیں گے''۔
17سال سے خاتون کے کردار پر پردہ ڈالا تاکہ اس کی وجہ سے بے گناہوں پر ہاتھ نہ پڑے، اب اسکے پیچھے یوسف شاہ کا کردار نظر آتا ہے۔ نامعلوم افراد کے خلافFIRدرج ہے مگر منصوبہ ساز وں کا چہرہ بے نقاب کرنا مشکل تھا۔یوسف شاہ کے بھائی حاجی یونس شاہ نے سب سے اچھا کردار ہماری طرف سے ادا کیا تھا۔ اگر ہم اس کی بہن کا نام لیتے تو اسکے بھائیوں، بھتیجوں اور بھانجوں کے خلاف اقدام ہوتا۔ گھروں اور ان کی زمینوں پر کچھ عزیز بڑی بے شرمی سے قبضہ کرتے۔ شہر یار نے بتایا تھا کہ'' طالبان کی باقاعدہ منظم ذہن سازی کی گئی تھی کہ ان ظالموں نے لوگوں سے بیوی، بچے چھین لئے ''۔ اگر شہر یار کو موقع دیتا تو اس نے فوراً کہنا تھا کہ حاجی یونس لوگ اور کوڑ والے رشتہ دار ہیں۔ میں نے موقع نہیں دیا بلکہ اسکے چچازاد طاہر کا نام لیکر کہا کہ یہ لوگ سہولت کار ہیں۔
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ماموں لوگوں پر غلط الزام تراشی کی گنجائش ہو۔ بڑی بڑی باتوں کو نظر انداز کرنا انسانی فطرت اور ماحول کا تقاضہ تھا ۔اپنائیت کے بجائے دوری ہوتی ہے تو ماحول کی چھوٹی سی چھوٹی غلطی بھی پہاڑ جیسی لگتی ہے۔
پشتون بیٹی پر لاکھوں روپیہ کھائے تو بے غیرتی نہیں لگتی، بیٹا مسجد اور بے گناہ لوگوں پر خود کش کرے تو بے غیرتی نہیں لگتی مگر پنجابی جب اپنی ہواخارج کردے تو پہاڑ سے بڑی بے غیرتی لگتی ہے۔ یہ ماحول اور قریب ودور کا بہت واضح فرق ہے۔
ماموں کے گھر میں واقعہ سے پہلے اور واقعہ کے بعد میرے خلاف استعمال ہونے والے دہشت گرد وں کی سہولت کاری جاری تھی ۔ اگریہی کام یوسف شاہ کرتا تو کیا حال کردیا جاتا؟۔ ایک ماموں کی گھر والی اوربیٹیاںمیری محرم ہیں جن سے پردہ اس وقت بھی نہیں تھا جب میں اپنے بھائی کے گھر والیوں سے پردہ کرتا تھا۔ گویا تمام رشتہ داروں میں قریب کا تعلق اسی گھر سے تھا اور اسکے دو بیٹوں کی شادی میری بھتیجیوں سے ہوئی تھی اور ایک بیٹی کی شادی پھر میرے بھتیجے سے ہوئی۔ تیسرے بیٹے کیلئے میری بھتیجی مانگی تھی مگر نہیں دی گئی۔ میری غرض یہی تھی کہ ''تیسرے بیٹے کی شادی ماموں اپنے بھتیجی سے کرے تاکہ ماموں کے گھر میں آپس کی ناچاقی ختم ہو''۔ ماموں نے نہیں مانا تھا اور میں یہی منوانے کیلئے ہی اس دن اسکے گھر میں رکا تھا۔
میرا یقین تھا کہ اس ماموں اور اسکے بچوں کا اس واقعہ میں ملوث ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا لیکن اسکے باوجود میں نے سب سے زیادہ انہی کو نشانہ بنایا اور یہ بات شاید کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ ماموں کے بارے میں کیوں حقائق لکھے؟۔
میں پرائمری سکول پڑھتا تھا تو نثار بھائی نے گورنمنٹ ہائی سکول گومل بازار سے چھپ کر کوٹ حکیم سکول میں ایک بچے کا سر پھوڑ دیا۔ نثار کو استاذ نے کچھ نہیں کہااسکے جانے کے بعد یہ بدلہ پیر لڑکوں سے لیا ۔ فیاض ،خورشید، اکبر علی، اشرف علی ، ارشداورعبدالوہاب سب کو بہت بری طرح مارا مگر مجھے چھوڑ دیا اور متأثرہ بچے کے عزیز بچوں نے سفارش کی کہ'' یہ بادشاہ ہے اس کو کچھ مت کہو'' حالانکہ میں تو نثار کا بھائی تھا ۔
میں بھی مجرم نہیں تھا اور اچھا ہوا تھا کہ میں چھوٹ گیا تھا مگر جن کو سخت سزا دی گئی تھی تو وہ بھی مجرم نہیں تھے لیکن ناکردہ گناہ کی سزا انہوں نے کھالی۔ پھر میرے بھائی اورنگزیب نے نثار کو قمیص اتارواکر شہتوت کے ڈنڈے اس کی پیٹھ پر توڑے تھے۔ جس بچے کو مارا تھا اس کا باپ میرے باپ کا احترام کرتا تھا اس لئے انہوں نے خود بدلہ نہیں لیا بلکہ خوش دلی سے معاف کیا۔
پشتون خود کو بہ حیثیت قوم سب سے اچھے مسلمان سمجھتے ہیں لیکن کنواری لڑکی کو الزام میں ماردیتے ہیں اور لڑکا مفعول بنتا ہے تو بعض لوگ کچھ نہیں کہتے اور شادی شدہ مرد بھی بدکاری کی علت میں مبتلاء ہوتا ہے تو اس کو سزا نہیں دی جاتی۔ غیر متوازن معاشرے کو سدھارنے کا واحد حل اسلامی سزاؤں کا نفاذ ہے۔
جب کہا گیا کہ یوسف شاہ کی بہن کہتی ہے کہ عتیق الرحمن کو اگر چھپایا ہے تو اس کو گھر سے نکالو۔ تو مجھے اندازہ لگ گیا کہ ''اپنے بھتیجے اور بھتیجوں کا انتقام لے رہی ہے''۔ پھر شہریار نے کہاکہ ''طالبان کو ورغلایا گیا تھا کہ ان ظالموں نے لوگوں سے ان کی بیوی بچے چھین لئے ہیں'' تو مہر تصدیق ثبت ہوگئی۔
اگر یوسف شاہ اور اس کی بہن کا نام لیا جاتا اور13افراد کے قتل کا الزام ان پر لگ جاتا تو یونس شاہ، نواز شاہ،فاروق شاہ اور سب بھائیوں اور ان کی اولاد کو مار بھگادیا جاتا اور ان کے مکان پر بھی ماموں لوگ قبضہ کرلیتے۔ اسی طرح کریم اوردیگر ملوث لوگوں میں سے کوئی حکومت سے بچتا اور نہ ہم چھوڑتے۔
ہمارا واقعہ ایک نیاکربلا تھا۔ سنی علماء نے لکھا کہ'' مہدی امام حسن کی اولاد سے ہوگا اسلئے کہ حسن نے خلافت کیلئے قربانی دی اور حسین نے خلافت کیلئے حرص کیا ''۔ حالانکہ امام حسین کی قربانی زیادہ تھی اسلئے کہ کنبہ سمیت شہید کیا گیا اور اگر خلافت چھوڑنا بھی زیادہ بڑی قربانی تھی تو یزید کے بیٹے کی پھر قربانی بہت بڑی تھی جس نے باپ کی مسند خلافت کو ٹھکرادیا تھا؟۔
ہمارے معاشرے کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بے گناہ نشانہ بنتے ہیں ۔ اگر میں حکمت سے کام نہ لیتا تو عبدالرزاق اور میرمحمد شاہ کی اولاد عتاب کا شکار بنتی ۔ ہمارے ساتھ تو ظلم ہوا تھا لیکن انکے ساتھ ہم سے زیادہ ظلم ہوجاتا تو یہ بڑی بدقسمتی ہوتی۔
یوسف شاہ نے کہا کہ ''آپ اچھے ہو مگر آپ کے بھائیوں نے ہمارے ساتھ زیادتی کی تھی'' تو میں نے نہیں کہاکہ طالبان کے پیچھے تمہارا ہاتھ تھا بلکہ یہی سمجھایاتھا کہ' 'تمہارے بھانجے بھانجیاں تمہارے گھر میں پلے اورتمہارا بھتیجا بھتیجی انکے ماموں کے گھر میں پلے ۔ ہماری بھابی کو ماموں نے پالا تھا۔ ہم کونسے عورتوں کو حق مہر کے نام پر بیچتے ہیں۔ بہن اور بیٹی باپ کے گھر بیٹھ جائے تو بڑی مشکل ہے''۔ ہمارے کلچر میں نومولود نواسے ، بھانجے یا بھانجی کو ہاتھ لگانا معیوب تھا۔ یونس شاہ مدینہ میں تھا اور اس کی آخری بچی پیدا ہوئی تو اسکے کان میں آذان اور نام تک کسی نے نہیں رکھا تھا۔جب ہمارے گھر میں لائی گئی تو مجھے کہا گیا کہ ہم گناہگار ہوں گے اس کی کان میں آذان دو اور اس کا نام رکھو۔ چنانچہ میں نے ہی آذان دی اور نام رکھا تھا۔
حاجی یونس شاہ مدینہ میں تھا اور یوسف شاہ نے یہاں اپنی سالی سے اس کی دوسری شادی کرائی تھی۔ ہماری بہن اور اس کے بچوں کو بھگانا مقصد تھا۔ ہماری روایات نہیں کہ رشتوں کے مسئلے کا رونا روئیں۔ دہشت گردوں کے حملہ کے بعدسب سے زیادہ بہترین کردار حاجی یونس شاہ نے ادا کیا۔ اس پر شک کرنا حرام تھا ۔جب اس کا اپنے بچوں کیلئے کردار ادا نہ تھا تو پھر کوئی اورکیوں اس بنیاد پر ہمارے خلاف کرداراداکرسکتا تھا؟۔
اگر خاتون کا طالبان سے براہِ راست تعلق ظاہر کرتا تو بہت بڑی بے عزتی تھی۔ لوگ دو خواتین کا نام لیتے ہیں کہ وہ طالبان کو خود کش جیکٹس سپلائی کرتی تھیں۔ میرا دل اتنا صاف تھا کہ جب مجھے یہ پتہ چلا کہ کمیٹی والے طالبان گھروں میں گھس کر قبضے کرتے ہیں اور عبدالرزاق کے چھوٹے بچوں کے گھر میں گھس گئے تو میں نے کہا کہ ''شکر ہے کہ ماموں کے گھر میں نہیں گھسے اوراس کیلئے ہمارا واقعہ ڈھال بن گیا۔ ہمیں شہداء کی وجہ سے بہت بڑا جانی اور دنیاوی نقصان ہوا لیکن ہماری عزت پر حرف نہیں آیا۔ اگر ماموں لوگوں کے گھر میں گڈ طالبان گھس جاتے تو یہ بہت بڑی بے عزتی ہوتی ''۔
ایک طرف میری نیت اور کردار کا معاملہ تھا تو دوسری طرف ماموں کے بیٹے شہریار ، اسفندیار ہماری بھتیجیوں اور اپنی بیویوں کو طعنہ دیتے تھے کہ طالبان نے تمہارے ساتھ یہ کیا،وہ کیا۔ حالانکہ طالبان کیلئے میرے دل میں اس وجہ سے بڑا احترام ہے کہ انہوں نے ہماری جانیں لیں، مال لوٹ لیا لیکن عزت کا احترام باقی رکھا اور اپنے سے زیادہ ان کو اچھا سمجھتا ہوں اسلئے کہ میں ان کی جگہ ہوتا تو میرا سلوک مزید بدتر ہوتا۔
شہریار تو اتنا بے غیرت، دلا اور بے ضمیر انسان ہے کہ جب فوج گھر میں گھس گئی تو ہاتھ اور آنکھیں باندھ دیں اور فوج نکل گئی تو اس کے ہاتھ کھول دئیے۔ پھر فوج نے دھماکہ سے جب دہشتگردوں کی پک اپ کو اڑادیا تو شہریار نے کہا کہ میرے ہاتھ دوبارہ باندھ دو، ضیاء الدین کو قتل نہ کردیں۔ پھر جب اس مرحلے سے سکون میں آگئے تو اپنی بیوی سے کہا کہ بتاؤ کہ فوجی نے تمہارا ساتھ کیا کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ کچھ نہیں کیا ہے تو اس کو ریمانڈ دیتا تھا اور خوب مار پیٹ کرتا تھا کہ بتاؤگی۔ آخر جب اس نے تنگ آکر کہا کہ جب فوجی آگئے تو ڈر کے مارے چپ چاپ بیٹھ گئے اور پھر مجھ سے پوچھتے ہو کہ کیا کیا ہے؟۔ اگر اتنی غیرت ہوتی تو جان پر کھیل کر بھی نہیں نکلتے۔ اسکے بعد شہریار نے اس کی جان چھوڑی تھی۔ پھر جب وہ اپنے گھر میں بیٹھ گئی تھی اور میں نے اصرار کیا کہ جاؤ،بچوں کی خاطر لیکن اس نے کہا کہ مجھے یہاں تک مجبور کرتا ہے کہ فلاں کا نام لو کہ تو میں اس کو قتل کردوں گا اور تجھے کچھ نہیں بولوں گا۔ جس کی وجہ سے میں نے سوچاکہ اب زور ڈالنا مناسب نہیں ہے ،جب حالات سازگار ہوجائیں تو بھلے پھر چلی جائے۔ پاگل کی بہت اقسام ہوتی ہیں مگر غیرت کا معیار سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔
شہر یار شاہ جہان کو طعنہ دیتا تھا کہ تیرے باپ کا قاتل مظہر ہے ۔شاہجہان کہتاتھا کہ مظہر نے اپنے کردار کا انکار کیا ہے۔ فوج تمہارے گھر میں گھس گئی تو تمہارا رویہ اورکردار کیا تھا؟۔
مجھے معلوم تھاکہ شہریار کو گھر سے بھی ہوسکتا ہے معلومات ملی ہوں لیکن اگر اس پر بحث کا آغاز ہوگیا کہ کس نے طالبان کو یہ ٹاسک دیا ہے تو یوسف شاہ کی بہن کے علاوہ پورے خاندان کی خیر نہیں ہے۔ پہلے ان کی زمین پر قبضہ کرلیا تھا اور اب ان کے گھروں اور بقیہ زمینیں بھی قبضہ میں لے لیں گے ۔ جب ایک دفعہ ان کے لکڑ دادا صنوبر شاہ اور سیداکبر شاہ نے ڈبل گیم کھیل کر انگریز سے پیسہ لیکر اپنی قوم ، اپنا وطن اور مسلمان بھائیوں کو دھوکہ سے قتل کیا تھا تو جنکے ساتھ بالکل نہیں بنتی تھی اور معمولی معمولی بات پر ان کے خلاف اقدام اٹھانے پر سرعام دوسروں کو ترغیب دیتے تھے تو اگر ہمارے واقعہ کا بہانہ مل جاتا توپتہ نہیں کیا کرتے؟۔ ڈاکٹر ظفر علی اور میرے سامنے منہاج، ضیاء الدین اور ماموں سعدالدین نے کہا کہ''ہم پیرغفارکو مجبور کریں کہ الیکشن جیتنے کیلئے اپنی زمینیں اور گھر بیچنے ہوں گے''۔ منہاج اورضیاء الدین کم عقل نہیں بے غیرت بہنوئی الیاس مرحوم کا انتقام لینے کے چکر میں تھے۔ماموں سعدالدین تو یہ چال سمجھنے سے قاصر تھے ، میں نے موقع پر منصوبہ ناکام بنادیا۔
حقائق کو سمجھانے کیلئے انکے نیچر کا تاریخی پس منظر بتانا بھی ضروری تھا تاکہ عوام کو حقائق سمجھ میں آجائیں۔ پیر عبدالغفار ایڈوکیٹ پر نثار بھائی کو اتنا اعتماد تھا کہ کانیگرم پہنچنے کیلئے طالبان سے بات کرتے وقت اسی کو اپنا رازدار بناکر لے گیا تھا۔ لیکن اس وقت بھائی خیبر پولیٹیکل ایجنٹ تھا اور عبدالغفار کی قربت پر ماموں لوگوں کو غصہ آرہاتھا۔ماموں نے اپنے باپ کا بتایا کہ اس نے انگریز پولیٹیکل ایجنٹ سے کہا کہ جو تمہیں مارتے ہیں تو ان کو زمینیں دی ہیں اور ہم نہیں مارتے تو کچھ نہیں دیا؟۔ جس پر انگریز نے دائرہ دین پناہ کی زمین لکھ کر دے دی اورپھرماموں نے اپنا ہاتھ بڑھایا کہ میں اپنا ہاتھ مار کر اس کو داد دوں۔ میں نے بھی داد دے دی لیکن تعجب بھی ہوا کہ کمائی کا یہ طریقہ غلط تھا اور مجھے معلوم تھا کہ قبائلی عمائدین ایسی کمائی کو بے غیرتی نہیں سمجھتے بلکہ بہت بڑا اعزاز اورتبرک سمجھتے ہیں، جیسا کوئی پیر اپنے مرید کو ہدیہ دے اسلئے کہ انگریز ہی ان کا پیرومرشد ہوتا تھا۔
انشاء اللہ جب اچھا وقت آئے گا تو لوگ حیران ہوں گے کہ جن لوگوں نے ہمارے ساتھ دشمنی کی تھی کہ ان کو کتنی مہلت میری وجہ سے مل گئی ہے؟۔کمزور ظالم اوربے گناہ لوگوں کو بچانا ہمارا ہدف تھا اور اس میں ہم کامیاب ہوگئے ہیں۔
اب شہر یاراور منہاج کا مظہر کے بھائی سعود،یوسف شاہ اور پیرکریم کی صف میں شامل ہونا اچھی بات ہے۔ گناہگار اوربے گناہ لوگوں کی تصویر نہ صرف ہمارے بلکہ دنیا بھر کے سامنے واضح ہوتی جارہی ہے۔ اتنے بڑے واقعہ کے بعد یہ لوگ کبھی اکٹھے نہیں ہوئے کہ دہشت گردوں میں شامل اور ان کے سہولت کار وں کا کیا کردار ہے؟ لیکن جائز رشتوں کا ذکر ہوا تو ایک بار پھر دہشت گردوں سے رابطہ کرکے ہمیں قتل کروانے کی کوئی سازش تیار کرنے کی سرِ عام تیاری ہورہی ہے؟۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
داؤد اور اکبر علی کی بہن کو تو ہم نے شہید نہیں کیا تھا اور داؤد نے بتایا تھا کہ کریم اور عبدالرزاق کے بیٹے ملوث ہیں؟۔ جبکہ منہاج کہتا تھا کہ میرا بھی ایک بھائی مرا ہے تو اب قاتلوں کے ساتھ بیٹھ گیا ہے؟۔ شہریار نے میٹنگ کی خبر دینی تھی اور اب تو ان کے ساتھ دوبارہ میٹنگ ہورہی ہے؟۔ اللہ تعالیٰ انسان کی فطرت بتاتا ہے کہ اس میں کتنی غیرت اور کتنی بے غیرتی ہے۔
وہ کونسی بات ہے جو نئی ہے ؟۔ جب بے بنیاد پروپیگنڈے شروع کردئیے گئے جس کاجواب مناسب نہیں کیونکہ عزت دار انسان اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا ہے۔ ریاض لالا نے بہت ساری بے بنیاد باتیں کی تھیں لیکن میرے دل میں ان کی عزت مزید بڑھ گئی کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ دو دفعہ زمین کے پیسے دئیے تو یہ اس کا کمال ہے کہ اتنی غلط فہمیاں رکھنے کے باوجود بھی ہماری عزت وتکریم کرتا ہے لیکن غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ضروری تھا۔
مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ منہاج اور ضیاء الدین کو بھی میرے بھائیوں اور بھتیجوں نے اچھی طرح سے پہچان لیا ہوگا۔ اگر نہیں پہچانا ہے تو مزید کچھ دن صبر کرلیں تو ان کی پہچان ہوگی اور ساتھ ساتھ اکبر علی اور داؤد شاہ کا بھی اندازہ لگا ہوگا کہ کس طرح استعمال ہونے والے بھانجے ہیں؟۔ اکبر علی میرا سکول چلاتا تھا اور داؤد نے ان کے خلاف گواہی دی تھی۔ میں پھر بھی ان سے ویسا ہی تعلق برقرار رکھنے کے حق میں ہوں جیسے روٹین کا معاملہ تھا لیکن بندوں کی فطرت کو دیکھ کر اپنا تعلق رکھیں۔
قاتل اور سازشی لوگوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے بے تابی سے انتظار ہورہاہے اسلئے کہ مہمانوں کے لواحقین کو بھی اطمینان دلانا ہے کہ تمہارے میزبان بے غیرت نہیں ہیں۔ اگرISIکو فہرست دیدی تو سبھی سے حقائق اگلوانے میں دیرنہیں لگے گی۔
حقائق کی نشاندہی کا اچھانتیجہ نکلے گا انشاء اللہ بقیہ ہذا نیچے

بقیہ صفحہ ہذاگذشتہ سے پیوستہ
عبدالرزاق کی بڑی بیوی کے بچے ہمارے ساتھ دل وجان کیساتھ کھڑے تھے۔ اگر ہم ان کے بھائیوں کو بھی قتل کرتے تو ہمارے سامنے نہ آتے لیکن دوسری طرف ماموں لوگوں کا رویہ پولیٹیکل ایجنٹ کے قریب جانے کے خوف سے بالکل جدا تھا۔ حالانکہ انہوں نے کبھی بھی ہم سے کوئی تعاون لیا اور نہ توقع تھی مگر بس ان کے ساتھ خوامخواہ اپنے عزیزوں کی بنتی نہیں تھی۔ دوسروں کے مقابلے میں ان کی چھوٹی ماں کے بیٹے بھی اصیل ہیں۔طالبان کیساتھ بھی انہوں نے قربانیاں دی ہیں اور صفائی دینے کیلئے بھی تیار تھے۔ انکے کزن حاجی زمان نے کہا کہ ''جس ضیاء الحق کا نام لیا جارہا تھا تو وہ کوئی دوسرا تھا''۔ ایک تویہ لوگ قتل اور غائب ہوگئے۔پھر ان کے گھر پر کچھ مہینوں کیلئے گڈ طالبان نے قبضہ کیا اور چھوٹے چھوٹے بے گناہ بچوں کو حکومت بھی کچھ نہیں کہتی تھی مگر ظالموں کا نظریہ الگ تھا۔ جب حکومتی سروے کا موقع آیا تو بھی جہانزیب نے حکومت کی طرف انکے ساتھ مکمل رحم دلی والا معاملہ رکھا تھا۔ حالانکہ ان کے اپنے عزیزوں کی خواہش اس سے یکسر مختلف تھی۔
میں نے متعدد مرتبہ یہ ذکر کیا ہے کہ پیرعبدالغفار ایڈوکیٹ کی بہن نے اپنے بیٹے کو دہشتگردی میں ملوث ہونے کے خدشہ پر قتل کیا۔ یہی پختون قوم میں دہشتگردی کو ختم اور گھر کی چادر اور چاردیواری کے تحفظ کیلئے بنیادی کرداربنتا تھا۔ اگر پشتون اس پر عمل کرتے تو پھر ان کی عزتوں، جانوں اور مالوں کاتحفظ بھی مل جاتا۔ اب تو بے غیرت طبقہ سے یہ ممکن ہے کہ ''اپنی تحریک میں جان پیدا کرنے کیلئے عورتوں کی شلواریں اترواکر نچوائیں اور پنجابی ، پشتو اور مختلف زبانوں میں گانا گانے شروع کردیں کہ '' ہماری عزتیں سربازار لٹ گئی ہیں'' جیسے پہلے لڑکی کو نچاتے تھے کہ '' اے میرے دلبر آجاؤ، ظالم مجھے رلارہے ہیں اور برسرمیدان نچوارہے ہیں''۔
پیر داؤد شاہ نے بتایا تھا کہ '' کریم اور عبدالرزاق کے بیٹے گاڑیاں چیک کررہے تھے۔ ان کا واقعہ سے پہلے ہمارے گھر پر آنا بھی مشکوک تھا''۔ کریم کے بیٹے نے عبدالرزاق کے بیٹوں کے خلاف گواہی دی ۔اتنا پوچھ لیا کہ واقعہ سے بھی علم تھا یا نہیں ؟۔ یہ کریم کے بیٹے عثمان کو ایسا لگا تھا کہ جیسے کریم کو خاور مانیکا بنادیاہو۔ پوچھنا میرا حق تھا۔ ان کے خلاف گواہ ہو توخود اپنے آپ کو کیوں بچا رہے ہو؟۔ یہ انصاف کا تقاضا ہے؟۔ عبدالرزاق کے بیٹوں پر کوئی تو فخر کرے گااور کوئی رحم کرے گا کہ اپنی جانوں کی قربانی دی، بہنوں کی شادیاں کرائیں اور چھوٹے بھائیوں کو قابلِ رحم حالت میں چھوڑا ۔ برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟۔ کریم کے بیٹے سارا بوجھ ان پر ڈالیں۔ حالانکہ جب ان کی طرف انگلیاں اٹھیں تو وہ قرآن کی قسم اور ہر طرح کی صفائی کیلئے تیار تھے۔ جبکہ کریم کابیٹا عثمان فوراً اقرار اور دھمکی پر بھی اترا اور یہ پوسٹ بھی لگارہاہے کہ ''جس پر احسان کرو تو اس کے شر سے بچو''۔ حالانکہ احسان کی کوئی بات اس میں نہیں تھی ۔ یہ تو وعدہ معاف گواہ بھی نہیں بن رہا تھا اور اپنے جیسے مجرم کو سزا دلانے کے چکر میں اپنی جان چھڑا رہا تھا۔ ایک ایک بات انشاء اللہ دنیا کے سامنے آئے گی۔
کریم نے کہا کہ اوپر جگہ کیلئے میں قرآن کی بھی اٹھاؤں گا کہ ''یہ تمہاری ہے''۔ میں نے حماد سے کہا کہ یہ قسم بھی منافقت کی بنیاد پر کھارہاہے تاکہ ہم آپس میںلڑیں۔ کریم اور اسکے بیٹے کی منافقت کا ایک ایک انداز بہت عجیب ہے ۔
یوسف شاہ کا معاملہ کھل گیا تو میں نے یہ جسارت کی کہ اس کی بہن کا نام لیا۔ اس کو غصہ ہوگا کہ بھتیجے اور بھتیجیوں کو چھین لیا گیا۔ اس کا بھائی سادہ اور اچھا تھا اسلئے کچھ نہیں کیا لیکن جب طالبان کا وقت آیا تو ان کو جب یوسف شاہ استعمال کررہا ہے تو اس کا ساتھ دیا۔ یوسف شاہ میدان میں آیا تو دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ دال یوسف شاہ کے چہرے کی طرح پوری کالی ہے۔ اب شہر یار میٹنگوں کا بتائے تاکہ مسائل کا حل نکل آئے۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ کریم اور عبدالرزاق کے بچے ماحول کی وجہ سے استعمال ہوگئے۔ حالانکہ عبدالرزاق کے بچے نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں جو انکے عمل سے ثابت ہے اور کریم کے بچے کمائی کے چکر میں ہیں جو سب کو معلوم ہے۔ اسلحہ کی سمگلنگ کو مجاہدین اورPTMکا نام دینا بڑے درجہ کی منافقت ہے۔ یہ کاروباری ہیں۔ مولانا نور محمد کو مسجد میں قرآن کا درس دیتے ہوئے شہید کیا گیا، مولانا معراج الدین شہید، مولانا قاری احمد حسن شکوی وزیر شہید، شیخ الطریقت مولانا شیخ محمد شفیع شہید، پیزو کے جامعہ کے مہتمم مولانا محسن شاہ شہید، مولانا حسن جان شہید اور بہت سارے علماء اور مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد شہید کئے گئے۔ میرے خلاف کسی نے قدم اٹھایا ہوگا۔ لیکن ٹانک کے اکابر علماء سے لیکر پختونخواہ اور پاکستان کے اکابر علماء تک ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے ہماری تائید کی ہے۔
مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ منہاج کا شروع سے ہماری تحریک سے واسطہ رہاہے اور مولوی محمد زمان کانیگرم سے لیکر مقامی علماء کی تائیدات کے جلسوں اور جنرل ظہیرالاسلام عباسی تک کی محفلوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا تھا۔ پھر بھی اس نے اور اس کے بھائی طاہرنے میرے خلاف خفیہ اور کھلا محاذ کیوں سنبھالا ہے؟۔ شپیزمائی خان کو میں نے اسلئے کوریج دی کہ وہPTMکے کارکنوں اور رہنماؤں کی کچھ اچھی تربیت کررہاتھا۔ پھر جب مجھ سے پنگا لڑادیا تو اسکرین سے بھی غائب ہوگیا۔ ہمارے نزدیک تو سرکاری خان کی اتنی حیثیت بھی نہیں جتنی درگاہوں پر بھیک مانگنے والے ملنگوں کی ہوتی ہے۔ یہ بے چارے خود کورائل فیملی سمجھتے ہیں۔
ہمارے واقعہ سے پہلے تو چلو کوئی بات نہیں ہے لیکن واقعہ کے بعد دہشت گردوں کو اپنے ہاں پال پوس رہے تھے اور اس کی وجہ کوئی مذہبی لگاؤ، ذاتی دوستی اور کوئی بھی سمجھ میں آنے والی وجہ ہوتی تو مسئلہ نہیں تھا۔ شرم، حیائ، غیرت اور ضمیر ہوتا تو واقعہ کے بعد کم ازکم طالبان سے معذرت کرتے کہ نہیں رکھ سکتے۔
واقعہ سے پہلے مشکوک نقل وحرکت دیکھ لی تو ضیاء الدین نے اطمینان دلادیا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے میں نے پوچھ لیا ہے۔ جب اٹیک ہوگیا تو جس بندے کی بنیاد پر کہہ رہا تھا کہ اس نے اطمینان دلایا ہے ،اس سے پوچھ لیا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی؟۔ نہیں دوستی بھی برقرار رہی ۔ بلکہ الٹا میرے خلاف پروپیگنڈہ بھی طاہر نے تیز کردیا کہ ''یہ جھوٹا، غلط اور گمراہ ہے''۔
ضیاء الدین کا میں کہہ سکتا ہوں کہ جھوٹ نہیں بولا ہوگا بلکہ توکل سے بات کی ہوگی ۔ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بعض کتوں کی طرح بلاوجہ بھی بھونکتے ہیں لیکن اس کے نتائج کا محاسبہ بھی نہیں کیا؟۔ چلویہ بھی لاابالی پن ہے۔ اس طالب کو پکڑ لیا کہ کیوں جھوٹ بول کر مجھے شرمندہ کیا اور غفلت میں ڈال کر ان کا قتل عام کروایا ہے؟۔ یا اسی طرح دوستی برقرار رکھی ہے؟۔
تمہاری دوستی کا تو ہمیں فائدہ پہنچنا چاہیے تھا؟۔ طالبان کو میرے خلاف اکسانے کا سلسلہ کہاں تک اور کیسے چلتا رہا؟۔ اورنگزیب بھائی کے پیچھے طالبان کیوں لگے تھے؟۔ ان کا بھی معلوم کیا کہ نہیں کہ کون تھے؟۔ ہمارے مرشد حاجی عثمان نے کہا تھا کہ ''موجودہ دور میں کسی سے بدظن مت رہو اور اعتماد بھی مت کرو''۔ ہم نہیں کہتے کہ کون سازش کا حصہ تھا اور کون نہیں تھا لیکن جو سوالات اُٹھ رہے ہیں ان کے جوابات چاہیے۔
منہاج نے بتایا کہ'' قاری حسین کو آپ گھر کے سامنے اکیلا کھڑا دیکھا تو میں نے چائے روٹی کا پوچھا لیکن اس نے خود کو انجان بنایا۔ حالانکہ کوڑ میں کتنی بار ملاقاتیں ہوچکی تھیں۔ پھر میں نے کہا کہ میرا نام پیر منہاج ہے۔ سامنے میرا گھر ہے اور اگر کبھی چائے روٹی کی ضرورت ہو تو ہم حاضر ہیں''۔
منہاج نے کہا کہ کانیگرم میں طالبان کی فوتگی پر تعزیت کیلئے جارہاتھا توسب حیران تھے کہ تم کہاں جارہے ہو؟ ۔ میں نے کہا کہ میں تو جاتا ہوں۔ پھر جب طالبان نے کوئی لفٹ نہیں دی بلکہ چہروں پر ناگواری کے اثرات آئے تو میں بھی واپس آگیا۔ یہ منہاج کی سادگی تھی یا کچھ اور تھا؟۔ منہاج نے کہا کہ میں نے نثار سے کہا تھا کہ ''اگر کوئی خطرہ ہے تو چھت پر بیٹھ جاتے ہیںتاکہ ان کا مل کر مقابلہ کریں''۔لیکن نثار نے کہا یہ اس نے جھوٹ بولا ہے ، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
اگر ہمارے دوست اور منہاج کے دشمن منہاج کے گھر پر اس طرح حملہ کردیں اور پھر میں ان کو اسی طرح رکھ لوں تو اس کا منہاج پر کیا اثر پڑے گا؟۔ بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کو اپنی ماں سے زیادہ محبت اسلئے ہوتی ہے کہ جب بیٹی بچہ جنتی ہے تو اس کو تکلیف کا پتہ چلتا ہے۔ منہاج اس کرب سے گزرتا تو پتہ چلتا کہ دشمنوں کو پالنے کی کیا تکلیف ہے؟۔ شہریار لوگوں کے گھر کا ماحول کیساہے؟۔ باپ نے خود کو کیوں گولی ماری؟۔ یہ نفسیاتی مریض ہیں۔ ان کا علاج بھی میرے پاس اور میرے بچوں کے پاس ہے اسلئے کہ ایک ذہنی کونسلنگ کی ضرورت ہے اور دوسرا انہوں نے کبھی کماحقہ مار نہیں کھائی۔ جس دن یہ کرب سے گزریں گے تو دماغ بھی ٹھکانے پر آجائے گا اور پھر گھر کا ماحول بھی ٹھیک ہوگا۔ کسی پر بہتان لگانے کی سزا80کوڑے ہیں اورحنفی مسلک نے حرمت مصاہرت کے غلط مسئلے گھڑ لئے ہیں کہ ہاتھ لگنے سے بھی حلال بیوی مستقل حرام بنتی ہے۔
عبدالرؤف ابھی کھل رہاہے ورنہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ فوج کو کیوں بدعائیں دیتا تھا؟۔ اب پتہ چلا کہ ''کریم کا بیٹا اس کا داماد ہے'' ۔ بیٹے اعجاز کی شادی منہاج کی بہن سے ہوئی۔ یہ سب باتیں جاسوسی کے گڑھ کی طرف جارہی ہیں۔ شفیق کی ماں بھی کریم کی بہن ہے لیکن حاجی رفیق شاہ اوراس کے بیٹوں کا کوئی کردار اس واقعہ میں نظر نہیں آتا ۔ اسی طرح جلیل شاہ کے بیٹوں کا بھی کوئی کردار دکھائی نہیں دیتا ہے۔ لیکن معلومات ان کو بھی ضرور ہیں۔ یہ وقت بدلنے کیساتھ بتائیں گے۔ منہاج اور کریم کی درمیانی کڑی کی وجہ سے عبدالرؤف کے گھر پر کوئی بات آئے تو اس سے یہ خوفزدہ لگتے ہیں۔
ہمیں جس ماحول کا سامنا ہے تو فوجی ادارے کو معلوم افراد کے نام دینے کی دیر ہے۔CTDپولیس مردوں اور خواتین کو اٹھا لے جائے گی۔ اب تو کانیگرم سے بھی گرفتاری ممکن ہے۔ میرا مدعا یہ ہے کہ کہانی کو صحیح رُخ پر پہنچانے کیلئے درست باتوں کی نشاندہی کی جائے۔ اللہ کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے۔
مجرموں تک پہنچنامشکل نہیں ۔جب معاملہ سر پر پڑا ہے تو یوسف شاہ اورعبدالرؤف کہاں سے ٹپک گئے؟۔ آپس میں مشاورت کرکے ذمہ داروں کی نشاندہی کریں۔ ہمارے مہمان شہید ہوگئے۔ ان کو یہ رپورٹ دینی ہے کہ معاملہ کہاں تک پہنچ گیا ہے؟۔ جس دن واقعہ ہوا تھا تو شاہجہان ضیاء الدین کے گھر میں تھا۔ بیٹھک کا دروازہ بند تھا کہ خصوصی مہمان ہیں۔ گھر میں حسام الدین شہید سے کہا گیا کہ تمہاری جگہ ہے لیکن شاہجہان کی جگہ نہیں ہے۔ شاہ جہان کیساتھ حسام نے دیوار پھلانگ لی اور جائے شہادت پر پہنچ گیا۔ جہاں فوتگی ہو تو وہاں جگہ نہیں ہوتی ،قریبی رشتہ داروں کے ہاں لوگ ٹھہرتے ہیں۔ گھر میں کون کون اور کتنے مہمان تھے؟۔ ایک تو شاہد آفریدی خاصہ دار تھا جو وزیرستان سے تبلیغ کرکے آیا تھا، اور کون کون تھے؟۔ یا حسب معمول طالبان کیلئے بیٹھک چھوڑدی گئی تھی کہ کوئی آئے گا تو اس کو ٹھکانہ بھی مل جائے گا؟۔
منہاج اور ماموں سعدالدین کی طرف سے عبدالرحیم نے پیغام دیا کہ ہمارا کوئی تذکرہ نہ کریں ۔ہمیں ڈر لگتا ہے۔ لیکن میں نے جواب دیا کہ اسکے بغیر کہانی کسی کو سمجھ نہیں آئے گی۔ مختلف انداز میں ان کے تذکرے کئے ہیں۔منہاج کا یہ بہت بڑا انکشاف تھا کہ قاری حسین سے کوڑ میں ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ یہ بھی بتایا جائے کہ یوسف شاہ کا قاری حسین سے تعلق تھا ؟۔ کوڑ کی ملاقاتوں میںغیرت اور بدلے کے نام پربات ہوئی؟ اور شہر یار نے جن لوگوں کی میٹنگ کا بتایا تو اس میں کون کون ملوث تھے؟۔ اب شہریار کی پوزیشن ایسی نہیں کہ کسی کو بھی نقصان پہنچانے کیلئے الزام تراشی کرے۔ ہمارا مقصد ہرقسم کی تعصبات اور مفادات سے بالاتر ہوکر حقائق تک پہنچنا ہے۔
اتنے بڑے واقعہ کیلئے17سال انتظار کی مدت بہت بڑی بات ہے۔ ایک خاتون یوسف شاہ کی بہن پہلے دن سے مجھے معلوم تھی۔ کریم کا بیٹا بھی پشاور عبدالرزاق کے بیٹوں کیخلاف گواہی دینے آیا تھا۔ داؤد شاہ نے کریم اور عبدالرزاق کے بیٹوں کا بتایا تھا۔ شہریار نے میٹنگوں کی بات کی تھی۔ اب سبھی ہم سے جواب طلب کررہے ہیں؟۔ عبدالرؤف اور یوسف شاہ بھی سامنے آگئے۔ یہ اپنے غم میں ہیں؟۔ یاکسی کیلئے استعمال ہورہے ہیں؟۔ منہاج اور ضیاء الدین کا کردار بالکل نمایاں ہے۔ حکومت، پشتو اور شریعت کسی بھی قانون کے اندر ہماری جان کے دشمنوں کو مسلسل پناہ دینے کا مقصد کیا تھا؟۔
یہ سرکاری ڈیوٹی تھی؟۔ مذہبی فریضہ تھا؟۔ پشتورسم ورواج کی مجبوری تھی؟۔ آج اس پر خاموشی ہے اور آنے والی نسلوں کا کوئی پتہ نہیں چلتا کہ یہ کہیں گے کہ'' ہم نے قتل کروادئیے اور یہ لوگ پھر بھی ہماری خوشامد اور خدمت کررہے تھے؟''۔
وزیروں کو مارا تو جرگہ میں وزیروں نے پہلے کانیگرم کے خان سید دل بند میانجی خیل کو قتل کیا۔ پھر منور شاہ ، مظفرہ شاہ اور حسین شاہ وہاں پہنچے تو دوکو قتل کیا اور تیسرے کا کان کاٹ دیا۔ پھر یہ مشہور کردیا کہ دل بند کو ہم نے مارا اور ہمارے والوں کو دل بند نے مارا۔ حالانکہ پیرمبارک شاہ کو اس کا باپ اس مقام پر لے گیا تھا اور بتایا تھا کہ اس طرح یہ قتل ہوئے تھے۔ مبارک شاہ کے بڑے پیر اللہ داد شاہ کی بیوی سیداکبر شاہ کی بیٹی تھی۔
کہیں یہ نہ ہو کہ محسود عورت سے جاسوسی کا خطرہ ہو یا صنوبر شاہ کے بدلے میں قتل کیا ہو؟۔ جھوٹ کے توآج بھی ماہر ہیں اور کل کی تاریخ بھی مسخ کردی ۔ میری والدہ نے بتایا تھا کہ عورت اور مرد کو قتل کیا تو میری عمر4سال اور مشتاق کی والدہ کی عمر 5سال تھی۔ ہم دو بچیوں کو چھوڑ کر گرنی کی راہ سے سب کانیگرم فرار ہوگئے تھے۔ طاقتور کو مارنے سے سب گریز کرتے ہیں لیکن کمزور پر سب کا بس چلتا ہے۔ قاتل دہشت گردوں کو اپنی خدمات پیش کرنے والے مجھے کمزور سمجھ کر دھمکی دیتے ہیں کہ تم آنہیں سکتے ۔حسین شاہ کا میں نے یہ لکھا تھا کہ مزدور کمزور تھا اسلئے قتل کیا گیا۔ دوسری طرف ممتاز کو پولیس کے حوالے کیا گیا جس سے ڈر تھا کہ قتل نہ کردے۔ دونوں باتوں کا غلط نتیجہ نکالنا غلط ہے۔ کانیگرم کے ایک سید کے بارے میں سب کو یہ معلوم ہے کہ اس کا بیٹا دوبئی میں تھا اور اس نے اپنی بہو کو حاملہ کردیا تھا اور پھر اپنے دوسرے بیٹے سے کہا تھا کہ تم یہ دعویٰ کرو کہ میں نے غلط کام کیا ہے۔ پھر میں تمہیں بچالوں گا۔
بہت سارے معاملات سے دنیا آگاہ ہے لیکن میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ غیرت کا معیار سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب عرب جاہل تھے تو باپ کی بیوی سے شادی کرنا بھی اپنی غیرت کا تقاضا سمجھتے تھے لیکن قرآن نے غیرت کا معیار درست کیا۔
ہم سے یہ پوچھنے کی زحمت کرنے کے بجائے کہ ''میں کیوں لکھ رہا ہوں'' تو اپنی صفائی پیش کریں یا گندے لوگوں کی نشاندہی کرکے دنیا کے سامنے لائیں۔ فیس بک اخبار سے بڑا پلیٹ فارم ہے ،اگر حقائق کے خلاف کوئی بات لکھ دی تو گالی گلوچ کی جگہ دلیل سے تردید کریں۔ فیس بک پر جوجواب لکھا یہ انتہائی گھٹیا ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ فون پر جو گندی گالیاں دیں اور اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔وہ گھر بطور سہولت کار استعمال کیا جس سے ماضی کی تاریخ دہرائی جارہی ہے ،جس پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر بھی ادا کرتا ہوں۔ہم نے تو ان طاقتوروں کو بھی نہیں چھوڑا ہے جن کا ہم سے تعلق نہیں۔یہاں سے شروعات کے بعد ہی وہ انقلاب آئے گا جس کی دنیا منتظر ہے۔ انشاء اللہ
جب آرمی چیف عاصم منیرDGISIتھے تو مجھے ہرقسم کے تعاون کیISIکے آفس میں بلاکر پیشکش کی تھی لیکن صرف یہ کہا تھا کہ ہمارے خلاف مت لکھو۔ میں نے انکار کیا۔ اب تو واقعہ کے پیچھے افراد کو معلوم کرنا مشکل نہیں۔ ہم پر دہشگردوں کا یلغار کروایالیکن دہشتگردی کی جاسوسی میں ملوث عورتوں کے حلال رشتوں کا نام لینا غیرت کیخلاف ہے؟۔ اپنے ملوث افراد لائن حاضر کریں ورنہ پھر میرے لئے کوئی بات مشکل نہیں ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، غیر مطبوعہ اشاعت ، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

23/01/2025
23/01/2025

*اللہ کے نور کی مثال*

*جیسے طاق ہو جس میں چراغ ہو، چراغ شیشہ کے فانوس میں ہو،فانوس گویا چمکتا ہوا ستارہ ہے جو روشن ہے زیتون کے مبارک درخت سے جو نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی۔قریب ہے کہ اس کا تیل روشن ہو،اگرچہ اس کوآگ نہ چھوئے،نور پر نور ہے،اللہ اپنا نور دکھاتا ہے جس کو چاہتا ہے۔*

*اور ہم نے نہیں بھیجا آپ (ۖ) کومگر تمام جہانوں کیلئے رحمت (القرآن)*
*کیادنیا کوقرآن کا پیغام صحیح پہنچ سکا؟*

*آگ لگے بغیرمشرق ومغرب میںانقلاب کا یہ نسخۂ کیمیا*

مولانا فضل الرحمن نے سپین مسجد ٹانک جمعہ کے خطاب میں کہاتھاکہ ''لوگ ہمیں ووٹ اسلئے نہیں دیتے کہ اسلام سخت نظام ہے۔ ایک آدمی دوافراد کو ننگے زنا کرتے ہوئے دیکھ لے تواگر اس کے خلاف گواہی دی تو گواہ کو80کوڑے لگیں گے۔ اگر دو افراد دیکھ لیں تو بھی گواہی پر دونوں افراد کو سزاہوگی اور تین گواہ ہوں تو بھی گواہوں کو سزا ہوگی۔ کیا اس سے زیادہ نرم مذہب اور نظام ہوسکتا ہے۔ چار گواہ ہوں گے تب زانیوں کو سزا ملے گی۔ اس حدتک کوئی بڑھ جائے تو یہ اس کا قصور ہے کہ نہیں؟''۔
بصرہ کے گورنر مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف ایک نے گواہی دی تو عمر پریشان ہوگئے، دوسرے نے گواہی دی تو عمر کے چہرے کا رنگ زرد ہوگیا اور تیسرے نے گواہی دی تو عمر کی پریشانی کی انتہاء نہ رہی۔چوتھا آیا تو فرمایا کہ اللہ اس کی وجہ سے صحابی رسول ۖ کو ذلت سے بچائے گا اور اتنی زور کی چیخ ماری کہ قریب تھا کہ میں(راوی) بیہوش ہوجاتا۔ چوتھا گواہ زیاد : میں نے چوتڑ دیکھ لی اور عورت کے پیر اسکے کاندھے پر پڑے تھے جیسے گدھے کے کان اوریہ چادر میں تھے، ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں سنیں۔ حضرت عمر نے کہا کہ گواہی نامکمل ہے اور تین گواہ کو80،80کوڑے کا حکم دیا۔پھر یہ پیشکش کی کہ اگر تم یہ کہو کہ جھوٹی گواہی دی تو تمہاری گواہی آئندہ قبول ہوگی۔ دو گواہ نے کہاکہ جھوٹ بولاتھالیکن واحد صحابی گواہ ابوبکرہ نے کہا کہ آئندہ گواہی قبول نہ کرو مگر میں نے جھوٹی گواہی نہیں دی۔یہ واقعہ بخاری میں ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک قرآن میں اللہ نے جھوٹے گواہ کی شہادت ہمیشہ کیلئے قبول نہ کرنے کا فرمایا اسلئے توبہ کے بعد گواہی قبول نہیں۔ جمہور فقہاء نے حضرت عمر کی پیشکش کو دلیل بنادیا۔
بیوی کو کھلی فحاشی میں دیکھنے پر لعان اور عورت نے اگر جھٹلادیا تو سزا سے بچت ہوگی۔زانی اور زانیہ کو100،100کوڑے لگائے جائیں گے ۔ جس پرکچھ لوگوں کو کھڑا کرکے دکھایا جائے گا۔
امریکہ، روس اور دنیا میں قرآنی احکام عام ہوں تو آگ لگے بغیر انقلاب ہوگا۔ مگر عورت کو حلالہ پر مجبور اورغیرت پر قتل کیا جائے ۔ خلع کا قرآنی حق چھین لیا۔ دورِ جاہلیت سے زیادہ مسائل ہیں ۔امیر جماعت اسلامی منور حسن نے کہا کہ عورت سے جنسی جبری زیادتی ہواور تین گواہ پیش کرے تو اسی کو سزا ملے گی۔پروفیسر ابراہیم نے کہا '' ہمارامولانا فضل الرحمن سے حدود آرڈنینس پر اختلاف ہواتھا''۔
مولانا فضل الرحمن کو پتہ چلا تھا کہ عورت کیساتھ جبری زیادتی ہو تو قرآن وسنت میں سزا قتل ہے اور نبیۖ نے عورت سے گواہ کا مطالبہ نہیں کیاتھا۔
جنرل ضیاء دور میں نابینا عورت جبری جنسی تشدد کا نشانہ بنی ۔آواز اٹھائی تو چار گواہ نہ ہونے پر جیل میں قید کی گئی۔ امریکی خاتون نے کہا کہ یہ ظلم ہے۔ افغان جہاد کیلئے فنڈز میں اضافہ اس شرط پر کیا گیا کہ جنرل ضیاء اس نابینا عورت کو رہائی دلا دے ۔
اسلام نہیں مذہبی طبقہ ناکام ہے ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ قرآن پر مشرق ومغرب کا ذرہ برابر اثر ہے۔
رسول ۖ کی زوجہ اماں عائشہ پر بہتان عظیم لگا تو عام غریب عورت پر بہتان کو جو سزا ہے وہ سزا دی گئی۔80کوڑے غریب و امیر کو یکساں سزا ہے مگر ہتک عزت پر اربوں کادعویٰ اور غریب کی کوڑی کی عزت نہیں؟۔ غریب کیلئے تھوڑی رقم بڑی سزااور امیر کیلئے بڑی رقم بھی سزا نہیں۔عزت انمول ہے۔ زنا پر100کوڑے بہتان پر80کوڑے۔
اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کا دھرناتھا تو محمود خان اچکزئی کو سمجھایا کہ حد قذف کا مسئلہ بیان کرو، عوام کا ذہن بدلے تو انقلاب آئے۔ بہتان میں یکساں سزا بڑا انقلاب ہے، جس پر دنیا حیران ہو گی اور نبیۖ کی تعریف کا ذکربہت بلند ہوگا۔
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

23/01/2025

*خطرناک ترین شرک علماء کے خود ساختہ حلال وحرام؟*

اتخذوا احبارھم ورھبانہم اربابًا من دون اللہ والمسیح ابن مریم وما امروا الا لیعبدوا اِ لہًا واحدًا لاالہ الا ھو سبحانہ عما یشرکونOترجمہ :'' اور انہوں نے اپنے علماء اور اپنے پیروں کو اللہ کے علاوہ اپنا رب بنایا ہے اور مسیح ابن مریم کو ۔حالانکہ ان کو یہی حکم ہوا تھا کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔ اسکے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ پاک ہے اس سے جو اس کیساتھ کسی چیزکو وہ شریک ٹھہراتے ہیں''۔ (سورہ التوبہ:آیت:31)
کرسچن نے ڈاکٹر ذاکر نائیک سے پوچھا کہ
''عدی بن حاتم نے کہا کہ نصاریٰ علماء ومشائخ کو نہیں پوجتے تھے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ کیا تم ان کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے؟۔ عدی نے کہا کہ یہ توہم کرتے ہیں۔ نبیۖ نے فرمایا کہ یہی تو رب بنانا ہے''۔
جن لوگوں کا خدا کی توحید پر درست ایمان نہیں تو وہ مظلوم عیسیٰ اور علی سے کیا عقیدہ رکھیںگے؟۔ نمازاور عبادت میں شرک نہ ہونے کے برابر ہے۔ خطرناک شرک اللہ کے احکام میں حلال وحرام ہے اور مسلمان اورتمام مذاہب والے منع ہوں گے توپھرلادینیت اور فرقہ واریت کا خاتمہ ہوسکے گا۔
قل یاایھا الکتٰب تعالوا الی کلمةٍ سوائٍ بیننا وابینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئًا ولا یتخذ بعضنا بعضًا اربابًا من دون اللہ فان تولوافقولوا اشھدوا بانا مسلمونO''کہہ دو کہ اے اہل کتاب! آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور آپ میں برابر ہے کہ ہم عبادت نہ کریں مگر اللہ کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم بعض بعض کو اللہ کے علاوہ اپنا رب بنائیں اور اگر وہ منہ موڑلیں تو کہو کہ تم گواہ رہو کہ بیشک ہم مسلمان ہیں(سورۂ ال عمران:آیت64)
مفتی محمود نے بینک کی زکوٰة کیخلاف فتویٰ دیا تو مولانا فضل الرحمن کہتا تھا کہ '' یہ شراب کی بوتل پر آب زمزم کا لیبل ہے''۔ علماء نے اسلامی سودی بینکاری کو فراڈ کہا ۔''تویہ گدھے کے پیشاب پر گنے کے رس کا لیبل نہیں''۔ علماء ومشائخ کو رب بنالیا؟۔ اللہ اور اسکے رسولۖ کیساتھ سودکی جنگ جائز ہے توپھر یہ کونسا اسلامی نظام ہے؟۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ کیا۔ اسلامی بینکاری کی بنیاد پر یہود مسلمانوں کی رگِ جان کو بھی فرنگ کی طرح سودکے پنجہ استبداد میں لے رہاہے اور مفتی ومولانا استعمال ہورہے ہیں۔
ولاتقولوا لما تصف السنتکم الکذب ھٰذا حلال وھٰذا حرام لتفتروا علی اللہ الکذب... ''اور اپنی زبانوں سے جھوٹ نہیں بولو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ کا بہتان باندھو...''۔(سورہ النحل: آیت116)
امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی، فرانس، بھارت اور ہم سودی نظام سے تباہ ہیں۔ بینک10کروڑ پر70لاکھ سود کی رقم دیتا تھا۔دیندار طبقہ اس کو مستحق افراد میں تقسیم کرتا تھا۔ کہیں مسجد،مدرسہ کے لیٹرین اور کہیں کسی کا قرض ادا کردیا جاتا تھا۔25لاکھ زکوٰة غرباء میں بانٹ دیتا تھااور5لاکھ صدقات بھی۔
10کروڑ میں 30لاکھ امیر کی جیب سے نکلتے اور ایک کروڑ غریبوں کو جاتاتھا۔ حکومت نے زکوٰة لینی شروع کردی تو 25 لاکھ زکوٰة کٹ جاتی اور10کروڑ محفوظ اور سود45لاکھ مل جاتا۔ مفتی محمود نے کہا کہ سود کی رقم سے زکوٰة ادا نہیں ہوتی ۔
پہلے سود کو جواز بخش دیا۔ پھر فتویٰ آیا کہ سود دینا جائز ہے لینا جائز نہیں۔ بینکوں نے اعلان کیا کہ5ارب رکھنے پر سود نہیں ۔ میزان بینک نے کہا کہ ایک ارب پر بھی سود نہیں اور رکھنے پربھی چارج کیا جائے گا۔ اسلامی بینکاری میں علماء ومفتیان کا بھی2فیصد حصہ رکھا گیا ہے۔ مولوی سرمایہ دار بن گیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

Address

Lyari
Karachi
75660

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when جبری نظام کا ریمانڈ Jabri Nizam Ka Remand posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to جبری نظام کا ریمانڈ Jabri Nizam Ka Remand:

Share