Lets Educate Pakistan

Lets Educate Pakistan This page is design to educate live pakistan's needy people who are unable to go school or unable to

01/04/2024

المیہ یہ ہے کہ ٪99 موجودہ مسلمان نسل جانتی ہی نہیں کہ بنی اسرائیل کی سرخ گائے کی قربانی، مسجد الاقصیٰ کا شہید ہونا، تابوتِ سکینہ، ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور دجال کے آنے میں کیا تعلق ہے؟
اور اکثریت تو اس بات کو محض افواہ سمجھ رہی ہے تو سب سے پہلے عوام کو چاہیئے کہ درج ذیل باتیں جان لیں، تاکہ مکمل بات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

#ہیکلِ_سلیمانی


مختصر یہ کہ ہیکلِ سلیمانی درحقیقت ایک مسجد یا عبادت گاہ تھی، جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللّٰہ کے حکم سے جنات سے تعمیر کروائی تھی۔ تاکہ لوگ اس کی طرف مُنہ کر کے یا اس کے اندر عبادت کریں۔
حضرت سلیمان کی وفات کے بعد اس کے تین حصّے کر دیئے گئے۔ بیرونی حصّے میں عام لوگ عبادت کرتے، دوسرے میں علماء، جو کہ انبیاء کی اولادوں میں سے ہوتے اور تیسرے حصّہ جسے سب سے مقدس سمجھا جاتا تھا، وہاں تابوتِ سکینہ کو رکھا گیا۔ جہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی، سوائے سب سے بڑے عالم پیش امام کے۔
پھر وقت گزرتا رہا، اس دوران بنی اسرائیل میں پیغمبر معبوث ہوتے رہے۔ یہ قوم بد سے بدتر ہوتی رہی، اور یہ کسی بھی طرح اپنے گناہوں سے توبہ تائب ہونے یا ان کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔
یہ ایک جانب عبادتیں کِیا کرتے، دوسری جانب اللّٰہ کے احکام کی صریح خلاف ورزی بھی کرتے رہے۔ ان کی اس دوغلی روش سے اللّٰہ پاک ناراض ہو گئے۔ ان کے پاس ایک بہت بڑی تعداد میں انبیاء بھی بھیجے گئے، لیکن یہ قوم سدھرنے کو تیار نہ تھی۔ حتٰی کہ ان کی شکلیں تبدیل کر کے بندر اور سؤر تک بنائی گئیں۔ لیکن یہ گناہوں سے باز نہ آئے، تب اللّٰہ نے ان پر لعنت کر دی۔
ہیکلِ سلیمانی کو دو مرتبہ مختلف بادشاہوں کے ہاتھوں منہدم کیا گیا۔ جس کی اب ایک دیوار بچی ہے، جسے “دیوارِ گریہ” کہتے ہیں۔ جہاں یہ یہودی جا کر آہ و زاری (عبادت) کرتے ہیں۔

#تابوتِ_سکینہ
روایات کے مطابق یہ تابوت جس لکڑی سے تیار کیا گیا تھا، اسے “شمشاد” کہتے ہیں۔ جسے جنت سے حضرت آدم علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا تھا۔ یہ تابوت نسل در نسل انبیاء سے ہوتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تھا۔ اس مقدس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصاء، من و سلویٰ، اور دیگر انبیاء کی یادگاریں تھیں۔ یہودی اس تابوت کی برکت سے ہر مصیبت پریشانی کا حل لیا کرتے تھے۔ مختلف اقوام کے ساتھ جنگوں کے دوران اس صندوق کو لشکر کے آگے رکھا کرتے، اس کی برکت سے دشمن پر فتح پایا کرتے۔

۵٨٦ ق۔ م میں بخت نصر نے ہیکل تباہ کر کے تابوتِ سکینہ کی شدید بے حرمتی کی اور اسی کہیں پھینک دیا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس مقدس صندوق کی مزید توہین سے بچانے کے لئے اسے اللّٰہ پاک کے حکم سے کسی محفوظ مقام پر معجزانہ طور پر چھپا دیا گیا۔ جس کا کسی انسان کو علم نہیں، (لیکن اب یہودی اس کی تلاش میں پورے کرۂِ اَرض کو کھود ڈالنا چاہتے ہیں)۔

کچھ عرصہ بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوا، اللّٰہ کے اس رسول پر ایک بار پھر یہودیوں نے حسبِ معمول مظالم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیئے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ آپ کے مصلوب ہونے کے ۷٠ سال بعد ایک بار پھر یہودیوں پر اللّٰہ کا عذاب نازل ہوا۔ اس بار اس عذاب کا نام ٹائٹس تھا۔
یہ رومی جرنیل، بابل کے بادشاہ بخت نصر سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوا۔ اس نے ایک دن میں لاکھوں یہودیوں کو تہہ تیغ کر دیا۔ اس نے ہیروڈس کے بنائے ہوئے عظیم الشان ہیکل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
جس کے بعد یہودی پوری دُنیا میں رُسوا و ذلیل ہو کر رہ گئے۔ لیکن اپنی ازلی فطرت سے باز نہ آنے کی وجہ سے اب یہ مزید گِری ہوئی حرکتوں پر اْتر آئے ہیں، جو جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔


اسرائیلیوں کی جانب سے ریڈ ہیفر کی قربانی کی خبریں انٹرنیٹ پر ٹرینڈ کر رہی ہیں، اس معاملے پر سوشل میڈیا کا کیا موقف ہے۔

غالباً 29 مارچ کو اسرائیلی دجال (جھوٹے مسیحا) کو بلانے کے لیے ایک سرخ گائے کی قربانی دیں گے، اس کے کچھ وقت کے بعد وہاں تھرڈ ٹیمپل (ہیکلِ سلیمانی) کو تیسری مرتبہ مسجد اقصٰی کو شہید کر کے تعمیر کیا جائے گا اور اسی طرح 8 اپریل کو مکمل سورج گرہن کی خبریں بھی سُننے میں آئی ہیں۔

“صدیوں پر محیط سرخ ہیفر کی قربانی”

سرخ گائے کی قربانی یہودی روایت میں ایک اہم رسم ہے۔ یہودی قانون کے مطابق موسیٰ کے زمانے سے لے کر اب تک صرف نو سرخ گائے کی قربانی دی گئی ہے۔ سرخ گائے کی راکھ کو پاک کرنے کی رسم میں استعمال کیا جاتا تھا۔
یہ قربانیاں صدیوں پر محیط ہوئیں، ان کے درمیان اہم فرق تھا۔ دسویں سرخ گائے کا یہودی روایت کے مطابق انتظار کیا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ یروشلم میں تیسرے ہیکل کی دوبارہ تعمیر سے منسلک پاکیزگی کی رسومات کے لیے ضروری ہے۔

وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟
یہ قربانی 2000 سال کے بعد ہو رہی ہے۔ بنیادی طور پر جب یہودی مقدس ہیکل کی تعمیر کرتے ہیں تو وہ تعمیر کے آلات کو پاک کرنے کے لیے سرخ گائے کی راکھ کا استعمال کرتے ہیں۔

یہ کیا سبب بن سکتا ہے؟
یہ مقدس تورات کے مطابق اختتامی اوقات کا آغاز ہے۔ سلسلہ ایسے چلتا ہے۔۔۔
1۔ سرخ گائے کی قربانی
2۔ اوزار کو صاف کریں
3۔ الاقصٰی کو مسمار کرنا
4۔ تیسرے مندر کی تعمیر
5۔ جھوٹے مسیحا کی آمد
6۔ امام مہدی کی آمد
7۔ عیسٰی کی آمد
8۔ قیام

سرخ گائے کی قربانی اس سال کے وسط تک ہو گی (مارچ کے آخر تک جون تک) اس کی جلد، گوشت، خون اور ہڈی سمیت تمام سامان کو جلا کر پاک پانی میں ملا دیا جائے گا اور پھر وہ پانی جسم کو پاک کر دے گا۔ پادری قربانی کر رہا ہے، جس کے بعد اسے تیسرے ہیکل کی بنیاد کے اِرد گِرد سات بار چھڑکایا جائے گا۔ یہ مسیح کے دور (دجال کے دور) کا استقبال کرے گا۔
یہ قربانی زیتون کے پہاڑ پر کی جانی ہے، جو کیدور وادی کے راستے مندر میں شامل ہوتی ہے۔

جیسے ہی یہ ہو گا تو اس کے کچھ وقت کے بعد الاقصٰی کو شہید کر دیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں امام مہدی کا ظہور ہو گا۔

#دجال مشرق سے اپنے آپ کو ظاہر کرے گا، اس کا تعلق یہودی خاندان سے ہو گا۔ اسے عام طور پر ایک آنکھ کا اندھا بتایا جاتا ہے اور اس کی پیشانی پر لفظ “کافر” لکھا جائے گا۔ وہ یروشلم کو فتح کر کے پوری دنیا کا سفر کرے گا، مکہ اور مدینہ کے علاوہ ہر شہر۔

ایک جھوٹے مسیحا کے طور پر، بہت سے لوگ اس کے فریب میں آ کر اس کی صفوں میں شامل ہو جائیں گے۔ اس کی مدد شیاطین کی فوج کرے گی۔ اس کی مرضی کے سب سے زیادہ قابل اعتماد حمایتی یہودی ہوں گے، جن کے لیے وہ خدا کی مانند ہو گا۔ اس کی واپسی پر بہت سے کمزور ایمان والے لوگ اس کی زد میں آئیں گے۔

کی پہلی 10 اور آخری 10 آیات ہمیں دجال کے فتنے سے بچا سکتی ہیں۔ سورہ کہف کی پہلی دس آیات حفظ کرنے کی کوشش کریں۔ اسے روزانہ پڑھنے کی کوشش کریں۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ برائے مہربانی اس حوالے سے آگاہی بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہ ہماری اُمت کا سب سے بڑا، سخت اور مشکل فتنہ ہے اور بہت سے لوگ اس سے ناواقف ہیں۔ براہِ کرم اس کے بارے میں جانیں اور اپنا ایمان بنانے کی کوشش کریں، کیونکہ دجال ہمارے ایمان سے کھیلنے والا ہے۔

اللّٰہ مسجد اقصٰی اور فلسطین کے مسلمانوں کی مدد فرمائے۔ اللّٰہ ہم سب مسلمانوں میں اتحاد قائم کرے اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
(آمین یارب العالمین بجاہ)

30/03/2024

اصل جنگ کیا ہے؟
بیت المقدس تین مذاہب کی مقدس جگہ۔۔۔۔
مسلمانوں کا قبلہ اول
عیسائیوں کے لئے یسوع کی جائے ولادت
یہودیوں کے لئے ہیکل سلیمان

شروع کرتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے۔ جن کے دو بیٹے تھے اسماعیل اور اسحاق۔
اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے حضرت یعقوب۔
یہیں سے کہانی شروع ہوتی ہے اسرائیل کی۔ اسرائیل یعنی اللہ کا بندہ۔ اور یہ لقب حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیا گیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جب کفیل مصر بنے تو آپ کو حکم ہوا کہ اپنے تمام خاندان یعنی آل یعقوب کو مصر بلایا جائے۔ اور مصر کی سرزمین کا ایک مخصوص حصہ ان کے لئے مختص کیا گیا۔ اور اللہ کی طرف سے کہا گیا کہ اے آل یعقوب اس سرزمین میں تمھارے لئے برکتیں ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام بارہ بھائی تھے اسی لئے اللہ تعالی نے ان کے لئے بارہ چشمے جاری کیے۔ اور یوں اس سرزمین کا نام حضرت یعقوب کے لقب سے اسرائیل پڑگیا۔ جسے آج یروشلم بھی کہا جاتا ہے۔
آپ کی نسل سے کم و بیش ستر ہزار انبیائے کرام آئے۔
حضرت یوسف کے بھائی یہودا کی نسل آگے بڑھی تو اس میں سے آنے والے تمام بنی اسرائیلی یہودی کہلائے۔
وقت گزرتا گیا اور حضرت موسی علیہ السلام کا دور آیا۔ جب فرعون نے مصر کی آپ پر تنگ کی تو بنو اسرائیل کے ساتھ آپکو مصر سے نکلنا پڑا۔
اس دوران بنی اسرائیل پر اللہ تعالی کی بہت سے کرم نوازیاں بھی ہوئیں، جس میں من و سلوی، چشموں کی بہتات، مچھلیوں کے شکار کا ذکر قرآن پاک سے بھی ملتا ہے۔ اور وہیں ہمیں ایک گائے کا ذکر بھی ملتا ہے، جس کے لوتھڑے سے مردے نے اللہ کے حکم سے زندہ ہوکر اپنے قاتل کا بتایا۔ اس گائے کی نشانیاں اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بیان فرمائیں۔ جوکہ ایک سرخ مائل رنگت کی گائے تھی اور ایسی گائے آج بھی یہودیوں کے نزدیک مقدس مانی جاتی ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام کے بعد دیگر نبی آئے۔ اس دوران میں حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے دور کی کچھ باقیات، تورات، من و سلوی کا کچھ حصہ بنی اسرائیل نے ایک صندوق میں محفوظ کرلیا۔ یہ اللہ کی طرف حضرت آدم کو دیا گیا ایک خاص صندوق تھا جو نسل در نسل نبیوں کے پاس رہا۔ جسے قرآن میں تابوت سکینہ کے نام پکارا گیا ہے۔ اور یہ یہودیوں کو اپنی جان سے ذیادہ عزیز ہے۔
حضرت داؤد نے جب جالوت کو ہرا کر اس سے تابوت سکینہ حاصل کیا تو یوں بنی اسرائیل نے انہیں نبی تسلیم کرلیا۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام نے اس صندوق کی حفاظت کے لئے ایک ہیکل تعمیر کروانا شروع کیا جو کہ انکی زندگی میں مکمل نہ ہوسکا۔ ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنوں کی مدد سے اس کو مکمل کروایا اور اسی دوران میں آپکی بھی وفات ہوگئی۔
اسی وجہ سے اسے ہیکل سلیمانی کہا جاتا ہے۔
بعد ازاں بابل کے باشاہ بخت نصر نے اسرائیل پر حملہ کیا اور ہیکل سلیمانی کو بھی گرا دیا۔ اور تابوت سکینہ بھی اپنے ساتھ لے گیا۔
سیپرس دی گریٹ نے دوبارہ یہ شہر حاصل کیا۔ یہودیوں کو دوبارہ یہاں آباد کیا اور تابوت سکینہ کو بھی واپس لایا گیا۔ ہیکل سلیمانی ایک دفعہ پھر تعمیر کیا گیا۔
پھر وقت گزرا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ہوئی۔ جنہیں نعوذبااللہ یہودیوں نے دجال، ناجائز اور کیا کیا لقب دیئے۔ یہاں سے یہودیوں میں سے دو الگ قومیں ہوگئیں ایک یہودی اور دوسرے عیسائی۔
یہودیوں نے سازش کرکے حصرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانا چاہا اور اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس اٹھالیا۔
اس کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں میں کئی چھوٹی موٹی جنگیں ہوئیں۔ پھر عیسائی رومی بادشاہ ٹائیٹس نے اس شدت سے یروشلم پر حملہ کیا کہ اس پورے علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہیکل سلیمانی کو گرادیا۔ جس کی صرف ایک دیوار اس وقت اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جسے دیوار گریہ کہاجاتا ہے۔ جہاں یہودی جاکر تورات کی تلاوت کرتے ہیں اور گریہ و زارہ کرتے ہیں۔ تابوت سکینہ بھی نہ جانے کہاں غائب ہوگیا۔
ٹائٹس کے حملے کے بعد یہودی آخری نبی کے انتظار میں تھے۔ کیونکہ اللہ پاک کا ان سے وعدہ تھا کہ انہیں پھر عروج بخشا جائے گا۔
اس وعدہ کا ذکر سورہ البقرہ میں بھی موجود ہے کہ

"اے بنی اسرائیل، ان نعمتوں کو یاد کرو جو تم پر کی گئیں، اور اپنا وعدہ پورا کرو (ایمان لاو) تاکہ ہم بھی اپنا وعدہ پورا کریں۔"

قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہیکل سلیمانی کی تین دفعہ تعمیر ہوگی۔ جوکہ دو دفعہ ہوچکی ہے۔
یہودی اپنے مسیحا اور آخری نبی کے انتظار میں تھے کہ ٹائیٹس کے حملے کے پانچ سو سال بعد نبی آخرالزمان کی ولادت ہوئی۔ یہاں یہودیوں کو یہ جھٹکا لگا کہ سارے نبی حضرت اسحاق کی نسل سے ہیں تو آخری نبی حضرت اسماعیل کی نسل سے کیونکر آگئے۔۔۔ اور انہوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا۔
مسلمانوں کے لئے بھی وہ انبیاء کی ہی نشانی تھی اسی لئے ہیکل سلیمانی کو بیت المقدس کا نام دیا گیا۔
اسلام کے آغاز میں یہودیوں کو قائل کروانے کی خاطر ہی بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز ادا کرنے کا حکم ہوا۔ کیونکہ یہودی اسی طرف منہ کرکے عبادت کیا کرتے تھے۔
سترہ ماہ بعد ہماری عبادت کا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی جانب موڑ دیا گیا۔ کیونکہ مسلمانوں کا شروع سے قبلہ اول وہی رہا۔ جسے پہلے حضرت آدم اور پھر حضرت ابراہیم نے تعمیر کیا۔
حضرت عمر رض کے دور حکومت میں اسرائیل یعنی یروشلم پر عیسائیوں کا قبضہ تھا۔ بیت المقدس کے ہی احاطے میں انہوں نے گرجا گھر تعمیر کیا ہوا تھا۔ اور عین تابوت سکینہ والی جگہ وہ گند پھینکا کرتے تھے یہودیوں کی نفرت میں۔ یروشلم کی فتح کے وقت جب حضرت عمر وہاں گئے تو عیسائیوں پر برہم ہوئے۔ وہاں صفائی کروا کر مسجد تعمیر کروائی، اور قرآن میں موجود معراج والے واقعے کی نسبت سے اس مسجد کو اقصی کا نام دیا۔
یہودیوں کی دیوار گریہ بھی اسی احاطے میں موجود تھی تو زائرین کی حثیت سے انہیں بھی وہاں آنے کی اجازت دے دی گئی۔
خلافت عباسیہ تک یروشلم ایک مسلم شہر رہا۔
اس کے بعد عسائیوں نے دوبارہ یروشلم پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کے خلاف پچاس سے زائد جنگیں کرکے بیت المقدس دوبارہ حاصل کیا۔ اور پھر سات سو سالوں تک یہ خلافت عثمانیہ کے زیر سلطنت رہا۔ یہودیوں کو بھی دیوار گریہ تک اپنے مذہبی اقدامات کی آزادی رہی۔ اور یہودی آہستہ آہستہ پھر یروشلم میں آباد ہونا شروع ہوگئے۔ اس دوران میں کئی بار انہوں نے خلافت عثمانیہ کے سلطان کو پیسوں کے عوض یروشلم انہیں سونپنے کا لالچ دیا لیکن ناکام رہے۔
اور پھر دوسری جنگ عظیم میں عیسائی سپاہی ہٹلر نے چن چن کر یہودیوں مارا۔ قریبا ساٹھ لاکھ کے قریب یہودیوں کا قتل عام کیا گیا اور یہ دربدر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ اس دوران میں انہیں یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ انہیں اب خود اپنی پہچان بنانی ہے۔ اور بائبل میں موجود یہودیوں کے آخری عروج سے قبل والی کئی نشانیاں بھی ظاہر ہوچکی تھیں۔ اور وہ یہ تسلیم کرچکے تھے کہ انکا آخری مسیحا اب دجال ہوگا جس کی بدولت پوری دنیا میں انکا دوبارہ بول بالا ہوگا۔
انہوں نے برطانیہ سے ساز باز کرکے خود کو الگ ریاست تسلیم کروالیا۔ یوں اسرائیل باقاعدہ ایک ملک کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے فلسطین اور دیگر مصری علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ عرب ممالک اسرائیل کے خلاف جنگ پر آئے لیکن اس وقت تک یہ خود کو اتنا مضبوط کرچکے تھے عرب ممالک کو اس ایک چھوٹے سے ملک سے منہ کی کھانی پڑی۔ عسائیوں نے بھی دیکھ لیا کہ اب ان سے لڑ کر کچھ وصول نہیں ہونا تو باقاعدہ گرجا گھروں میں پادریوں نے تقریبات منعقد کیں اور یہودیوں کے لئے معافی کا اعلان کیا گیا۔ یوں سیاسی اور اقتصادی مفاد پرستی نے دو ہزار سالوں سے ایک دوسرے کے ازلی و جانی دشمنوں کو ایک صف پر لا کھڑا کیا۔ اور قرآن کی بات بھی سچ ہوگئی کہ
یہود و نصری ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
یہودیوں کے عقائد کے مطابق وہ ہیکل سلیمانی کی حفاظت نہیں کرپائے تو خود کو قصوروار کہتے ہیں۔ خود کو سزا دینے کے لئے زنجیروں اور چمڑے سے پیٹتے ہیں۔ اور دیوار گریہ کے پاس آہ و زاری کرتے ہیں۔
وہ ایمان رکھتے ہیں تیسری بار انہیں پوری دنیا پر حکمرانی حاصل ہوگی۔ اس کے لئے انہیں مسجد اقصی کو گرانا ہوگا۔ جس کی تیارہ وہ کرچکے ہیں۔ کب سے مسجد اقصی کے نیچے بارودی سرنگیں بچھا دی گئی ہیں۔ اس کے بعد ہیکل سلیمانی تعمیر کرکے تابوت سکینہ وہاں رکھنا ہے۔ تابوت سکینہ بھی وہ دوبارہ حاصل کرچکے ہیں۔
لیکن مسئلہ تھا سرخ گائے۔۔۔ کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق وہ ناپاک ہیں اور جب تک پاک نہیں ہوجاتے ہیکل سلیمانی تعمیر نہیں کرسکتے۔ اور پاک ہونے کے لئے سرخ گائے کی قربانی دینا ہوگی۔
وہ گائے جس کی نشانیاں قرآن پاک میں بیان کی گئیں۔ جو اسوقت بھی انہیں ڈھونڈنے میں مشکل ہوئی تھی۔ اب بھی ایک سو سال تک وہ ویسی گائے کی تلاش کرتے رہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بچے پیدا کرنے کا کامیاب تجربہ کیا انہوں نے۔ پھر اس تجربے کی بدولت ویسی نشانیوں والی گائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکام رہے۔ دوہزار انیس میں ایک امریکی ریاست سے پانچ عدد ویسی گائیں انہیں مل گئیں۔ جن کے جسم پر سرخ رنگ کے علاوہ اور کوئی بال نہیں تھا۔ انہیں کبھی کام کے لئے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اگلی نشانی کہ ان پر کسی بیماری کا اثر نہیں ہونا چاہیے، پوری دنیا میں کووڈ پھیلا کر مختلف جانوروں کے ساتھ انہیں بھی ٹیسٹ کیا گیا اور ان پر اس بیماری کا کوئی اثر نہ ہوا۔

Red heifer found
Mastery of Red heifer

یہ گوگل میں سرچ کرکے آپ اس متعلق تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔
الغرض قرب قیامت اور دجال کے ظہور والی تمام تر تیاریاں وہ مکمل کرچکے ہیں۔
اپنی مرضی کے ڈاکٹر، انجینئر بچے پیدا کرنا، نائن ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک جگہ ہوتے ہوئے کئی جگہ موجود رہنا، اپنی مرضی کے موسم بنانا، جب چاہو بارش برسا دینا، چند دنوں میں پوری دنیا گھوم لینا یہ سب دجالی نشانیاں ہیں جو آج کے دور میں کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ہمارے اسلام میں بتائی گئی قیامت کی نشانیوں کی انہوں نے اتنے اچھے سے تیاری کرلی ہے کہ غرقد کے درخت لگا دیے۔ جو انہیں پناہ دیں گے۔ باب لد جس جگہ احادیث کے مطابق دجال کا حضرت عیسی ع کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر موجود ہے اس جگہ وہ دجال کے فرار کے لئے ایئر پورٹ بنا چکے ہیں۔
یہ سب تو قربت قیامت کی نشانیاں ہیں اور ہیکل سلیمانی نے بھی بن کر رہنا ہے۔ پھر اصل جنگ کیا ہے؟
اصل جنگ عقائد کی ہے۔ ہم اپنے عقائد میں اس قدر کمزور ہوچکے ہیں کہ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ اپنے بہن بھائیوں کا حق کھا کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور فرقوں کے خرافات میں الجھے ہوئے ہیں۔
فلسطینوں کے لئے سوائے دعا اور احتجاج کے ہم کیا کرسکتے ہیں؟
کیا ہم اپنے عقائد کے اتنے مضبوط ہیں کہ ڈالر کہ بہکاوے میں نہ آئیں؟
کیا ہم یہودیوں کے مقابلے میں نکلنے والے خراسان مجاہدین کی لسٹ میں آتے ہیں یا بس سوشل میڈیا کے تماشائی ہیں؟
اگر آج دجال ظاہر ہوجائے اور توبہ کا دروازہ بند ہوجائے تو ہماری آخرت کے لئے کیا تیاری ہے؟
سوچ کر جواب ضرور دیجئے گا۔

20/02/2024

مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت احتجاج کروا کر
ایس پی ایس سی کے پیپر کو کینسل کروایا گیا۔

26/12/2023

I STAND WITH BALOCHISTAN AS WELL AS PALESTINE. AS A MUSLIM IT IS OUR DUTY

The online shopping  service provide you the best way to shop online  .Online shopping On yOur fingertips   HOme deliver...
18/12/2023

The online shopping service provide you the best way to shop online .
Online shopping On yOur fingertips
HOme delivery avalible across all over the pakistan ❤️
We have quality garanted item like dressess , gorgeous jewellerys , bags , kids dresses and more more more ....
Dont waste yOur time cOme anD jOin group

07/12/2023
01/12/2022

Subscribe this page INFORAMTION CENTRE

Address

Karachi

Telephone

+923343782840

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Lets Educate Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Lets Educate Pakistan:

Share