11/07/2024
ہمارے ملک کے با صلاحیت نوجوان ملک چھوڑ کے جارہے ہیں 😔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا
ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے کہا:
کس قدر ویران گاؤں ہے؟
طوطے نے کہا:
لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ہے
جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے
عین اسی وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا
اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہو کر بولا:
تم لوگ اس گاؤں میں مسافر لگتے ہو
آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ
میرے ساتھ کھانا کھاؤ
اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کر سکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی
کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی تو اُلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا:
تم کہاں جا رہی ہو؟
طوطی پریشان ھو کر بولی:
یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے؟
میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں
الو یہ سن کر ہنسا اور کہا
یہ تم کیا کہہ رہی ہو جبکہ تم تو میری بیوی ہو
اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی
دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تو اُلو نے طوطے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا:
ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں
قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ھو گا
اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے
قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کر دی
طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی:
بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہو؟
اپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ!
طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا:
اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو؟
یہ اب میری بیوی کہاں ہے؟
عدالت نے تو اسےتمہاری بیوی قرار دے دیا ہے
اُلو طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا:
نہیں دوست یہ طوطی میری نہیں بلکہ تمہاری ہی بیوی ہے
میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے
بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان پر کرپٹ حکمران اشرافیہ اور استعماری غلاموں کا راج ہو جس شریف پر چاہے مقدمات بنا دئے جائیں اور طوائفوں کے کہنے پر ماؤں کی چادریں کھینچی جائیں اور چھوٹے لوگ بڑی کرسیوں پر فائز ہو جائیں اس ملک سے انصاف اٹھ جاتا ہے۔۔
اور یوں ملک اور بستیاں ویران پڑجاتی ہیں ۔