03/05/2023
آئی ایم ایف کا کردار اور پاکستان کی معیشت
آئی ایم ایف کی کہانی 1972 ء سے شروع ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی معاشی بربادیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ 1980ء کے عشرے میں وزیر خزانہ غلام اسحاق نے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق جب بجٹ کی تدوین کی تو انہوں نے ترقی کی شرح کو بڑھانے کے لئے قرضہ لینے اور خسارے کو کم کرنے کے لئے ریونیو بڑھانے کے نسخے پر عمل درآمد شروع کیا، یہ وہ دور تھا جب پاکستان کے بجٹ میں پہلی بار خسارے کے نام کو متعارف کرایا گیا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ آئی ایم ایف کی شرائط نے ایک طرف روپے کی قدر میں کمی میں تیزی پیدا کی ، دوسری طرف قرضوں میں اضافہ ہوا اور تیسری جانب ٹیرف اور محاصل میں اضافے کی وجہ سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا اور یوں بین الاقوامی تجارت میں خسارے میں فرق نمایاں ہونے لگا۔ جتنی تیزی سے قرضوں میں اضافہ ہونے لگا اس تناسب سے غیر پیداواری اخراجات میں اضافہ ہونے لگا۔ اس کی بنیادی وجہ کرپشن کا سیاست میں گھناؤنی صورت اختیار کرنا تھا۔ اس بیماری نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے دور میں خوب ترقی کی اور پاکستان دیوالیہ ہونے کے مرحلے تک پہنچ گیا لیکن حکومتیں آتی جاتی رہیں اور کرپشن نئی حکومت کے ساتھ نئی نئی شکلوں میں ظاہر ہونے لگی۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک یہ نظارہ خاموشی سے دیکھتے رہے۔ چنانچہ پاکستان کو آئی ایم ایف نے اپنی شرائط میں ایسا جکڑ دیا کہ پاکستان کے عوام کا مہنگائی کی وجہ سے سانس رکنے لگا۔ ایک طرف بیروزگاری بڑھتی رہی دوسری طرف عالمی بینک کے کہنے پر ڈاؤن سائزنگ کے ذریعے برسر روزگار لوگوں کو پیروز گار کر دیا گیا۔ تمام ادارے اور بینگ تباہی کے کنارے پر پہنچا دئیے گئے ۔ ریونیوکم اور اخراجات حد سے زیادہ بڑھ گئے ۔ آئی ایم ایف نے 1988ء میں زیادہ زور دار طریقے سے سیلز ٹیکس کے نفاذ کا نسخہ شدید مخالفت کے باوجود پیش کیا، کاروباری حلقوں کا مارک اپ 22 فیصد ہونے کی وجہ سے قرضوں سے زیادہ سود جمع ہو گیا، کساد بازاری معیشت کی جڑوں میں بیٹھ گئی ۔ حکومتوں کی عارضی پالیسیوں اور اسمگلنگ کے فروغ سے مقامی صنعت زوال پذیر ہونے لگی لیکن آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ٹیرف میں اضافہ ہوا جس سے بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا جس کی وجہ سے مینوفیکچرنگ لاگت اس قدر بڑھ گئی کہ پاکستان بین الاقوامی منڈی میں سستی لیبر ہونے کے باوجود مقابلے کے قابل نہ رہا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف کبھی دھیان نہیں دیا گیا لہذا پاکستان عالمی مسابقتی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا۔ برآمدات میں آگے بڑھنے کے لئے روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی گئی لیکن حکومتوں کے آنے جانے ، عارضی پالیسیوں اور آئی ایم ایف کی شرائط نے برآمدات میں اضافہ نہیں ہونے دیا۔
تحریر: نجم الحسن عطا