
10/05/2025
بھارت اور پاکستان ایک بار پھر کشیدگی کی لپیٹ میں ہیں۔ ایک بار پھر سرحدوں پر گولہ باری، فضائی جھڑپیں، اور عالمی برادری کی تشویش — یہ ایک بار نہیں، بلکہ گزشتہ 10 برسوں میں تیسری بار ہو رہا ہے۔
ان حالیہ حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کی جارحانہ حکمت عملی — جو اس نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر اپنائی ہے — کیا واقعی مؤثر رہی ہے، یا یہ صرف سیاسی مفادات حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے؟
بھارت کا مؤقف اور پاکستان کا ردعمل
بھارت کا دعویٰ رہا ہے کہ کشمیر میں دہشت گردی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان نے بارہا ان الزامات کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے، اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی قرار دینا ناانصافی ہے۔
پاکستان بین الاقوامی سطح پر کئی بار یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ کسی بھی غیر ریاستی عناصر کی حمایت نہیں کرتا، اور خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہے۔
بھارت کی جانب سے کارروائیاں — حقیقت یا پروپیگنڈا؟
2016 کی مبینہ "سرجیکل اسٹرائکس"
بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے کنٹرول لائن کے پار دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ پاکستان نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی دراندازی نہیں ہوئی اور صرف روایتی فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔
آزاد ذرائع اور عالمی میڈیا نے بھی بھارتی دعوؤں پر سوال اٹھائے، اور کہا کہ ان حملوں کے ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔
2019 کا بالاکوٹ حملہ
بھارت نے پلوامہ حملے کے بعد بالاکوٹ میں فضائی حملہ کیا، اور دعویٰ کیا کہ درجنوں شدت پسند مارے گئے۔ لیکن نہ کوئی لاش دکھائی گئی، نہ کوئی قابلِ اعتبار شواہد۔
دوسری طرف، پاکستان نے نہ صرف بھارتی طیارہ مار گرایا بلکہ اس کے پائلٹ کو زندہ گرفتار کر کے واپس بھی کیا، جسے دنیا بھر میں پاکستان کی سفارتی اور اخلاقی برتری کے طور پر دیکھا گیا۔
2025: میزائل حملے اور مبالغہ آمیز دعوے
پاہلگام میں حملے کے بعد بھارت نے پاکستانی حدود کے اندر مبینہ "دہشت گردی کے مراکز" پر میزائل حملے کیے۔ پاکستان نے ان حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ ان میں عام شہری نشانہ بنے، جن میں بچے بھی شامل تھے۔
پاکستانی ایئر ڈیفنس نے بھارت کے پانچ طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا، جس کی بعض عالمی اداروں نے بھی جزوی تصدیق کی۔ بھارت نے ان دعوؤں پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کیا۔
میڈیا جنگ اور افواہوں کا سیلاب
بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر پرانی ویڈیوز، جھوٹے دعوے اور قوم پرستی پر مبنی پروپیگنڈا تیزی سے پھیلایا گیا۔ پاکستانی میڈیا نے بھی اپنی سرزمین پر ہونے والی اموات اور نقصانات کو اجاگر کیا۔
اس دوران جھوٹے دعوؤں کو روکنے کے لیے حقائق جانچنے والے اداروں کو بار بار مداخلت کرنی پڑی، مگر نقصان ہو چکا تھا: دونوں طرف خوف اور اشتعال انگیزی پھیل چکی تھی۔
کیا بھارت کی پالیسی مؤثر رہی؟
دہشت گردی سے متعلق اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 2001 میں جہاں کشمیر میں 4,000 کے قریب اموات ہوئیں، وہیں 2012 تک یہ تعداد 121 تک آ گئی تھی — یہ اس وقت کی بات ہے جب نریندر مودی کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ 9/11 کے بعد عالمی حالات نے دہشت گرد گروہوں پر دباؤ بڑھایا، اور امریکہ کی ڈرون کارروائیوں نے شدت پسندی کو کم کرنے میں مدد کی۔
2023 اور 2024 میں اموات کی تعداد پھر کم ہو کر 127 پر آ گئی — مگر اس کا کریڈٹ بھارتی فضائی حملوں کو نہیں بلکہ پاکستان میں سخت قوانین، گرفتاریوں، اور شدت پسند نیٹ ورکس کی مالی معاونت روکنے کے اقدامات کو جاتا ہے۔
نتیجہ: فوجی طاقت یا سفارت کاری؟
بھارت کی بار بار کی جانے والی فوجی کارروائیاں بظاہر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ نہ تو دہشت گردی ختم ہوئی، نہ ہی پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کیا جا سکا۔ دوسری طرف، پاکستان نے سفارتی سطح پر اپنی پوزیشن کو بہتر بنایا، اور اقوامِ متحدہ سمیت متعدد فورمز پر کشمیر کی صورتحال کو اجاگر کیا۔
کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی دراصل اندرونی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا ذریعہ بنی، جس کا مقصد صرف عوامی جذبات کو بھڑکانا اور انتخابی فائدہ اٹھانا تھا۔
INN News