26/05/2023
پانچ سال پہلے بچپن کی ایک یاد ختم ہُوئی ، اُسی وقت کی ایک پوسٹ ۔۔۔۔۔
پتہ چلا مظہر کلیم ایم اے بھی اللہ کو پیارے ہوگئے ، آج بعد دوپہر مُلتان نزد پاک گیٹ جنازہ ہوگا ۔تقریباً پچاسی سال کے قریب عُمر عزیز تھی ۔
بچپن کا ایک اور عہد اپنے اختتام کو پُہنچا ۔ بچپن کا ایک اور ہیرو چلا گیا ۔
اللہ پاک مرحُوم کی مغفرت کرے ۔
آمین ۔
ابنِ صفی کی وفات کے بعد پچاس سال سے بھی زائدعرصے سے ابنِ صفی کے کرداروں ، عمران سیریز کو لکھتے آرہے تھے ۔کئی دفعہ مرحوم کو خط لکِھے کہ جُولیا اور عمران کی شادی کروا دیں ، اماں بی اور سر عبدالرحمان کو بتا دیں کہ اُن کا بیٹا نِکما نہیں ہے ۔ لیکن وُہ نہ مانے اور کردار ایسے ہی رہنے دیے ۔ قلمی نام میں “ تصویر کائناتی “ استعمال کرتا تھا ۔
اب اُن کے چلے جانے کے بعد یہ کردار بھی جیسے بکھر جائیں گے جیسے چند سال قبل فوت ہُوئے کاشف زُبیر کے کردار جلیل اور شنو بھی کبھی ایک نہ ہوپائے ، مُجھے آج بھی یہی لگتا ہے کہ وُہ دونوں چھت پر ماں سے چُھپ کر مِل رہے ہوں گے ۔ لیکن کبھی ایک نہیں ہو پائیں گے ۔ خالہ لاؤڈ سپیکر یعنی شنو کی اماں اب خاموشی سے بیٹھی وقت گُزارتی ہوگی ۔
مظہر کلیم ایم اے نے ابنِ صفی کی وفات کے بعد عمران سیریز لکھنی شروع کی تھی اور بُہت سارے قارئین بشمول ناچِیز کے اصرار کے باوجود کرداروں کو ایک خاص طرح کے سانچے میں قید رکھا ۔ بس ۔۔۔۔۔
تب بھی یہی سوچتا تھا کہ مظہر صاحب کے جانے کے بعد اورکوئی یا چلیں مشہور کہہ لیں بڑا نام نہیں جو اِن کرداروں کو اپنا رنگ دے سکے ۔ اور اب تو ایسا کوئی بھی نہیں جِس کو ہم پڑھیں اور لگے کہ ہاں تحریر میں کُچھ دم ہے ۔ کردار بعض اوقات قد میں اپنے ادیب سے بڑے ہوجاتے ہیں اور اُن کو قابُو کرنا بُہت مُشکل بھی ہوجاتا ہے ، شایدمظہر صاحب کے ساتھ بھی یہی ہُوا تھا وُہ اپنے کرداروں کے اسیر ہوگئے تھے ۔
چند سال پہلے جب سے اُن کے جوان سال بیٹے کی وفات ہُوئی تھی تب سے بُہت بُجھے بُجھے رہنے لگ گئےتھے لیکن پھر بھی ہر مہینے ایک ناول آ ہی رہا تھا ۔ لیکن اب کوئی نیا پاکیشیا کا مِشن نہیں آئے گا ، دانش منزل کا راستہ کہیں کھو گیا ہے ، کنگ روڈ کے فلیٹ پر کبھی فون کی گھنٹی نہیں بجے گی ، جُولیا کی شادی کبھی عمران سے نہیں ہوگی اور تنویر ہمیشہ رقابت کی آگ میں جلتا رہے گا ۔
صفدر خُطبہ نکاح بھی یاد نہیں کر پائے گا ،آغا سلمان بھاری بھرکم ناشتہ نہیں بنائے گا ۔ ایکسٹو کا راز ایسے ہی دفن رہے گا ۔۔۔۔۔
سب بکھر گیا۔ بُہت دُکھ ہُوا جو بیان نہیں کر پا رہا ۔دُنیا کی بے ثباتی ، ایک اور بڑا ادیب چلا گیا بلکہ نہیں ہماری یادوں میں امر ہوگیا۔ اللہ پاک آپ کو جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔ آپ کا قلم ہمارے بچپن اور نوجوانی کا اچھا ساتھی رہا ۔
کیٹس کی یہ اوڈ آن آ گریشیئن ارن کی یہ مشہور لائینز ایسے کرداروں کے لئے ہی لکھی گئی ہیں ۔۔۔۔
Heard melodies are sweet, but those unheard
Are sweeter; therefore, ye soft pipes, play on;
Not to the sensual ear, but, more endear'd,
Pipe to the spirit ditties of no tone: “
پسِ تحریر :
چند دوست ابنِ صفی کا حوالہ دینا شُروع ہوگئے ہیں کہ وُہ بڑے عُمدہ اور اچھا لکھتے تھے ۔ تو عرض یہ ہے کہ آپ بالکل بجا فرما رہے ہیں ؛ مظہر کلیم صاحب واقعی ابنِ صفی کے مقابلے پر آ ہی نہیں سکتے کیونکہ وُہ بہرحال اُردو جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ تھے لیکن میری اِس پوسٹ کا مقصد مظہر کلیم ایم اے صاحب کی وفات پر اُن کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا نہ کہ دونوں میں موازنہ کرنا ۔ آج کا دِن ویسے بھی اِس طرح کے موازنے کے لئے بہتر نہیں ۔ اور جِن چند حضرات کو یہ لگتا ہے کہ عمران سیریز میں سستی جذباتیت بیچی جاتی تھی تو اُن کو خبر ہو کہ ہر جاسُوسی ناول سیریز کم وبیش ایسی ہی ہوتی ہیں کیونکہ اپنے ہاں بہرحال پاپولر فِکشن کُچھ ایسے ہی لِکھی جاتی ہے ۔ پاکستانیت کا خیال بھی رکھنا ہے ، سیکس سے بھی بچنا ہے تو مارجن کیا رہ جاتا ہے ۔ ویسے میری ناقص رائے میں زیادہ تر جاسُوسی ادب کُچھ سالوں سے زیادہ عرصہ کے بعد دلچسپ نہیں رہتا یا شاید ہم میچور ہو جاتے ہیں ۔ ( میں خُود دو ہزار ایک دو یا ایک دو سال اُوپر نیچے کے بعد کے بعد کبھی عِمران سیریز نہیں پڑھ سکا ، کوشش کے باوجود ۔ )
تو بس یہ خراجِ تحسین کی پوسٹ ہے باقی موازنے کبھی پھر سہی !