Mufti Sufyan Buland Official

Mufti Sufyan Buland Official Mufti, Trainer, Counselor, Consultant, Motivational Speaker & Shariah Advisor for Commerce & Halal.
(5)

Big shout out to my newest top fans! 💎 Haya Bint Hijab, Fauzia Javed, Bint E Ishaq, Farhana Nasir, Muzzammil Yousuf, بال...
23/07/2025

Big shout out to my newest top fans! 💎 Haya Bint Hijab, Fauzia Javed, Bint E Ishaq, Farhana Nasir, Muzzammil Yousuf, بالا سلیمان, Aarib Khan

Drop a comment to welcome them to our community, fans

8 جولائی 2025ء کو پاکستان ڈیٹا مینجمنٹ سروسز کے زیر اہتمام منعقد کئے جانے سیمنار میں ڈاکٹر بلال فلپس (قطر) سے ملاقات ہوئ...
15/07/2025

8 جولائی 2025ء کو پاکستان ڈیٹا مینجمنٹ سروسز کے زیر اہتمام منعقد کئے جانے سیمنار میں ڈاکٹر بلال فلپس (قطر) سے ملاقات ہوئی جنہوں نے آن لائن کی دنیا میں سنہ 2010 سے ایجوکیشن کا آغاز کیا، آج ان کا کام پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، انہوں نے پروگرام میں اپنے کام کا بہترین انداز میں تعارف پیش کیا، پروگرام کے میزبان PDMS کے حضرات اور مفتی وصی بٹ تھے جنہوں نے ایک اچھے پروگرام کا انعقاد کیا، بارك الله في جهودھم و نفع اللہ بهم الأمة

05/07/2025

مجھے اس پر رونا آتا کہ اب سب کچھ رسم و رواج بن گیا ہے، محمد ﷺ کی نعتیں تو پڑھتے ہیں، محمدی نہیں بنتے، حسین رضی اللہ عنہ کا ماتم تو کرتے ہیں، حسینی نہیں بنتے !

مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم

29/06/2025

*🎯 گھریلو معاشرتی معاملات اور ساس بہو کا کردار*

کچھ عرصہ قبل اسی گروپ پر اس موضوع پر گفتگو ہوئی اور مختلف اہل علم حضرات نے کچھ امور کی طرف رہنمائی فرمائی :

*① بہو رانی کے نام*
دو باتیں ان عالمہ کو ذہن میں رکھنا چاہئیں...
1) خالق الناس بخلق حسن.
اور
تخلّقوا بأخلاق اللہ.
اور
لاتحقرن من المعروف شیئا...الخ.
جہاں بھی بات حقوق اور اخلاق کی آئے گی تو وہاں ہمارے اخلاق اور حقوق کے زیادہ حق دار وہ ہوں گے جو جس قدر رشتہ میں نزدیک ہیں پھر درجہ بدرجہ.
اسلام میں ہر جگہ کوئی فرض واجب کی نہیں لیکن کریمانہ اخلاق کا اسلام میں ضرور تقاضہ کیاجاتا ہے ورنہ راستہ میں کانٹے پھینکنے والی بدبخت خاتون کی عیادت کا حق رسول اللہ ﷺ کے ذمہ فرض یا واجب ہرگز نہیں تھا چنانچہ آج ساس و بہو اور شوہر و بیوی کے درمیان کمزور رشتوں کی سب سے بڑی وجہ اخلاق کو شرعی کوئ مقام دینا ہی نہیں ہے.

2) دوسری چیز عرف ہے اور فقہاء کرام نے تو "العرف قاض" فرما کر عرف کی اہمیت بھی بتلادی جب کہ اشارہ النص بھی نہ ہو اور یہاں تو اخلاق کی بنیاد پر خدمت خلق میں سب اعلی خلق بیوی کے لئے ساس وسسر اور شوہر ہے، لہذا کم از کم اس گہرائی میں جاکر ہمیں اشارہ تو مل ہی جاتا ہے.
فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمہ اللہ نے تنبیہ الغافلین میں ایک عورت کی وفات کے بعد کا ذکر کیا ہے کہ اس کسی نے خواب میں دیکھا اور اس کی مغفرت کی وجہ پوچھی تو اس نے اپنے دواخلاق بتائے جن کا تعلق خدمت خلق سے ہی ہے...
1) اطعام الفقراء والمساکین.
2) اماطة الاذی عن الطریق.
اب اگر یہ بہو اپنی ساس کے ساتھ یہی برتاؤ کرے تو کیا اس کا یہ عمل ذریعہ نجات نہیں بن سکتا ؟
کیا آج کی بہو باوجود عالمہ ہوکر "خیرالناس من ینفع الناس" پڑھ کر بھی بھول گئی ... وہ یاد رکھے کہ اس قسم کی تمام احادیث کا تعلق سب سے پہلے اپنے گھر اور سسرال اور درجہ بدرجہ قرابت داروں اور پھر باہر سے ہے لیکن افسوس ہم "خیرکم خیرکم لاھلکم وانا خیرکم لاھلی" بھلا کر دنیا جہاں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے پھرتے ہیں کیونکہ ہمیں ثواب سے زیادہ واہ واہ کی فکر ہے بس نفس خوش ہوجائے ہر ایک نفس کی پیروی کو دین سمجھ بیٹھا ہے ایسے اساتذہ اور ماں باپ کی تربیت کی ضرورت ہے جو ان طالبات کی تربیت اخلاقی تعلیمات سے ہٹ کر کرتے ہیں جو کہ دینداروں کے درمیان معاشرتی بگاڑ کا بڑا سبب بن رہاہے کیونکہ عوامی معاشرتی بگاڑ ذرا مختلف ہے.
امید ہے کہ ہماری مسلمان عالمہ بہن غور و فکر کریں گی۔

*② ساس امی کے نام*
ساس کو بھی انہی احادیث میں غور کرنا چاہیئے لیکن آج کی بعض ساسیں بہو سے دس قدم آگے اور ظلم کی حدوں کو چھو رہی ہیں لہذا ایسی ساسوں کو "الظلم ظلمات یوم القیامة"
جیسی روایات سنا کر وجادلهم بالتی ھی احسن پر عمل کرنا ہوگا۔

ایسی ظالمہ ساسیں معاشرے میں ہیں جو بہو کو صرف اس لئے لائی ہیں کہ وہ مردوں کے بھی کپڑے دھوئے، پونچا لگائے، کھانا پکائے، کیا ساس اور شوہر کا کام یہی رہ گیا ہے ؟ کیا ظلم کی چکی صرف بہو کے لئے ہے ؟
"لایؤمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعالما جئت به" سے اعراض کا نتیجہ ہے۔

*③ عاجزانہ گزارش !!!*
اگر علمائے کرام ایک منظم ترتیب بنائیں کہ جس میں ایک مناسب تعداد ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ہو جن کی شادی میں مہینہ بھر ہو، ہم ان کو کسی مناسب جگہ جمع کرکے ایک اچھے عالم کو بلا کر دین کی وسعت اور گہرائی اور گیرائی ان تک پہنچوائیں تاکہ رشتہ سے لے کر رخصتی اور رخصتی سے لے کر معاشرتی حقوق کی وضاحت ان کے سامنے آئے اور ان مجالس میں ساسیں بھی ہوں اور سسر بھی ہوں تاکہ ہم جانوروں کی معاشرت سے نکال کر ان کو رسول اکرم ﷺ کی معاشرت سے آگاہ کرسکیں۔
اور اس کام کو ہمارے مفتی سفیان بلند صاحب بہتر طریقہ سے مرتب کوسکتے ہیں۔
اپنی رائے اور ساتھ اپنی ہمت سے بھی آگاہ کریں اور اس سلسلہ میں مشاورت بھی رکھ لی جائے۔

*④ مستقل تربیتی سلسلہ*
یہ ایک تربیتی سلسلہ ہے جس پر مستقل مزاجی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، اس کے ذریعہ بہت سی خرافات و ہندوانہ رسوم کی بھی روک تھام ممکن بنائی جاسکتی ہے۔

*⑤ تربیت الأمهات*
ایک عرصہ قبل کچھ علماء کے توجہ دلانے پر تربیت الامهات کے عنوان سے ماں، ساس، بیٹی اور بہو (جو کہ مستقبل میں ماں اور ساس ہونگی) کی تربیت کے عنوان سے نشست کا طے کیا تھا جو پورے دن پر مشتمل ہو مگر وہ معاملہ ادھورا رہ گیا۔

*⑥ اس استحبابی امر میں اعتدال ضروری ہے*
خلاصہ یہ ہے کہ ساس ماں کا کردار ادا کرے اور بہو بیٹی کا کردار ادا کرے، دونوں ایک دوسرے کو اسی طرح کا رتبہ دیں تو معاملات حل ہوسکتے ہیں :
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمه الله تعالی اپنی مسجد میں درس دے رهے تھے، درس کے بعد ایک پرچی آئی جس پر یہ سوال درج تھا کہ کیا عورت کے ذمہ شوہر کے ماں باپ کی خدمت بھی ہے؟

حضرت نے بہت مختصر اور پُرحکمت جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ "بھائی! جو اچھی بہو ہوتی ہیں نا، انہیں تو ہم نے خدمت کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے"۔

(9 مارچ 2016ء)

❤️ ✍🏻ㅤ 📩 📤
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ
*🌧️ شعارنا : کُن مِفتـَــاحاً للخَیـــــرِ*
*🤲 دُعاؤُنا : دُمتُم بهِدَايةٍ و عَافِيـةٍ*

*🌏 دارالریان اکادمی آن لائن*
(علوم نبوت کی فکری درســگاہ)

29/06/2025

صلاحیت اور ذہانت یقیناً اہم ہوتی ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کر آپ کی ہر دلعزیزی بھی آپ کو دیگر افراد کے ساتھ جڑنے اور تعلق بنانے میں مدگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ جان لیں کہ ایک کرشماتی شخصیت کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ تو ایسی ہی عادات کے بارے میں جانیں جو آپ کو زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
(01) مثبت رویہ جو دیگر کو محسوس ہو:
چڑچڑاپن یا بدمزاج ہونا تو اکثر آسان ہوتا ہے، مگر جو لوگ مثبت ذہنی رویے کو اپنی شخصیت کا حصہ بنالیتے ہیں، وہ کامیابی کی سیڑھی پر بھی قدم رکھ دیتے ہیں اور ان کی ساکھ بھی لوگوں کی نظر میں بہتر ہوجاتی ہے۔
(02) محتاط گفتگو دوستانہ انداز سے:
بہتر شخص وہ ہوتا ہے جو اپنے الفاظ کا محتاط انتخاب کرتے ہوئے پراعتماد انداز سے گفتگو کرتا ہے، جس سے اس کی آواز کو بھی خوش کن ساؤنڈ ملتا ہے۔ اگر کسی ہجوم کے سامنے بات کرنے کا خیال آپ کو ڈرا دیتا ہے تو اس کی مشق اس وقت تک کریں جب تک ہجوم کے سامنے بولنے کا تجربہ آپ کو خوفزدہ نہ کرسکے۔
(03) بولنے والے کی گفتگو پر پوری توجہ دینا:
کسی سے بات چیت کے دوران بولنے والے کی بات کو پوری توجہ سے سننا دوسروں کی نظر میں آپ کی اہمیت بڑھاتا ہے، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کی باتیں ہوا میں نہیں جارہیں، جبکہ بار بار لقمہ دینے کی عادت انا کو تو تسکین پہنچاسکتی ہے، مگر دوست بنانے میں کبھی مددگار ثابت نہیں ہوتی۔
(04) ہر قسم کے حالات میں پرسکون رہنا:
کسی خبر یا کام کے دوران میں حد سے زیادہ ردِعمل چاہے مثبت ہو یا منفی، لوگوں کے سامنے شخصیت کا برا تاثر پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہا جاتا ہے کہ غصے کی حالت میں یاد رکھیں کہ خاموشی آپ کے آگ بھرے الفاظ کے مقابلے میں زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے۔
(05) اپنا ذہن کھلا رکھنا:
جو لوگ خود کو مخصوص خیالات اور اپنے جیسے مزاج کے حامل لوگوں تک محدود رکھتے ہیں، وہ نہ صرف ذاتی ترقی سے محروم ہورہے ہوتے ہیں بلکہ وہ ایسے مواقع کو بھی گنوا دیتے ہیں جو ان کے کیرئیر کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
(06) دوسروں سے بات کرتے ہوئے مسکرانا:
جیسا کہا جاتا ہے کہ کسی کو دیکھ کر مسکرا دینا بھی صدقہ ہے اور یہ حقیقت بھی ہے۔ کسی شخص کا سب سے بڑا اثاثہ اس کی ملین ڈالر مسکراہٹ ہوسکتی ہے جس کو دورانِ گفتگو چہرے پر پھیلانے سے دیگر افراد کے اندر آپ کے لیے حسد یا کینہ پیدا ہونے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔
(07) بہانے نہ کرنا:
کسی کام کے لیے ٹال مٹول یا بہانے کرنے سے لوگوں تک آپ کی شخصیت کا بہت خراب تاثر جاتا ہے اور وہ ایسی شخصیت پر اعتماد کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے، انہیں یہ لگتا ہے کہ آپ کسی کام کو کرنے سے خوفزدہ ہیں اور وہ آپ کو نااہل تصور کرتے ہیں۔
(08) روزانہ کم از کم ایک اچھا کام کرنا:
اچھا انسان وہ ہوتا ہے جو دیگر افراد کی مدد کے بغیر کسی غرض یا توقع کے کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ بہت زیادہ پیسہ خرچ کریں یا بھاگ دوڑ کریں۔ کسی کو سڑک پار کروا دینا یا ایسے ہی چھوٹی موٹی مدد بھی ساتھی ورکر سے بہترین تعلق کی بنیاد بن جاتی ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع بھی بڑھ جاتے ہیں۔
(09) ناکامیوں سے سبق سیکھنا:
لوگ اس فرد سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو ناکامیوں کی دلدل سے ابھر کر سامنے آتا ہے اور وہ ہر وقت جلنے کڑھنے والے افراد کسی صورت پسند نہیں کرتے۔ دنیا میں کسی بھی میدان میں بھی کامیابی کی راہ میں ناکامی کا سامنا ہوتا ہے، مگر اس سے سبق سیکھ کر اپنی خامیوں کو دور کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔
(10) پورے دل سے دوسروں کو سراہنا:
دوسروں کی اچھی عادت کو سراہنا ان کا دل جیت لینے کے برابر ہوتا ہے، مگر کبھی بھی اتنی بڑھا چڑھاکر تعریف نہ کریں جس کا مستحق وہ شخص نہ ہو یا کبھی بھی ایسے تعریف نہ کریں جس سے لگے کہ آپ خوش نہیں۔

منقول

29/06/2025

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ شرافت اور انسانیت کے چھ کام ہیں : تین حضر کے اور تین سفر کے

حضر کے تین کام :
① قرآن کی تلاوت
② مسجد کو آباد کرنا
③ ایسے دوستوں کی ساتھ رہنا جو دین کے کاموں میں معاون ہوں !

سفر کے تین کام :
④ غریب پر توشہ خرچ کرنا
⑤ حسن خلق سے پیش آنا
⑥ ساتھیوں کے ساتھ مہذب خوش طبعی و مزاح رکھنا۔

(سفر کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا 363/1 بحوالہ تفسیر قرطبی ، سورہ نساء 36)

29/06/2025

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم کی مطالعہ کے سلسلہ کی کچھ یادیں

تحریر کی تلخیص :

جب سے آنکھ کھولی تو گھر کے ایک حصہ کو کتابوں کی الماریوں سے بھرا ہوا دیکھا ، والد صاحب کتابوں کو اپنی سب سے بڑی پونجی سمجھا کرتے اور قلیل آمدنی کے باوجود اچھا خاصہ حصہ کتابوں پر صرف کرتے ، اسی بناء پر کتابوں سے ان جانی سی محبت ہوگئی ، حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ کا درس سے ان کا وسعت مطالعہ جھلکتا تھا اور وہ کتابوں کے مطالعہ کی طرف ترغیب دیتے تھے ، اسی ابتدائی دور میں مطالعہ سیرت طیبہ اور سیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک رہا اور پھر رفتہ رفتہ اس نے دوسری کتابوں کو دیکھنے کا شوق پیدا کیا پھر چھٹی کے دنوں میں محبوب مشغلہ مطالعہ بن گیا ، کتابوں کے مطالعہ میں مصنف ، موضوع کتاب اور فہرست پر نظر ڈال لیتا اور اپنی دلچسپی کے موضوع کو پڑھنے کی کوشش کرتا ، اس سے بنیادی معلومات حاصل ہوگئیں، ادب و انشاء کے شوق پر مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا سید مناظر احسن گیلانی اور مولانا سید ابوالحسن علی میاں کی کتابیں پڑھیں اور مولانا ابوالکلام آزاد کی "غبار خاطر "شوق سے پڑھی ، ادب و انشاء کا شوق بلا لحاظ مسلک و مشرب ہر قسم کے اہل علم کی تحریریں پڑھنے کی طرف لے گیا، مولانا مودودی کی بیشتر کتابیں بھی مطالعہ کیں اور مسائل کے اختلاف کے باوجود ان کا اسلوب تحریر اچھا لگا ، یہ تو زمانہ طالبعلمی کا مطالعہ تھا ۔
زمانہ تدریس میں زیادہ تر کتابیں اسی سے متعلق رہیں، عربی نحو کی کتب پڑھاتے وقت "الاقتراح فی اصول النحو" کا مطالعہ از اول تا آخر کیا ، عربی ادب کی کتب پڑھاتے وقت ادب کی وہ چار کتابیں جنہیں ارکان اربعہ کہا جاتا ہے ، ان میں سے تین سے بھرپور استفادہ کیا ، أدب الکاتب لابن قتیبہ، البیان و التبیان للجاحظ ، الکامل للمبرد ، البتہ الأمالی لابی علی القالی میسر نہ آئی ۔
بیرونی اسفار میں کتب خانوں کی تلاش بھی سیر کا حصہ ہوتا ہے ، خاص ایسے کتب خانوں کی تلاش میں جن کو عرف میں کباڑی کہا جاتا ہے ۔
کسی پر بھی موضوع پر تردید و تنقید لکھتے وقت اس بات کے اہتمام کی کوشش کی کہ خود اس کی تحریر و تقریر کو پورے سیاق و سباق سے سمجھ کر کی بات کی جائے اور کسی بھی ایسی بات کو ان کی طرف منسوب نہ کیا جائے جو ان کے اعتراف کے بغیر ہو ۔
میری محسن کتابوں میں حکیم الامت حضرت تھانوی کے مواعظ کا ذخیرہ ہے ، ان مواعظ میں علوم و معارف کا ایسا دریا موجزن ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ، خاص کر دین کی سمجھ ، اسکی حدود کی پہچان، نفس انسانی کی معرفت اور اس کو اصلاح کے راستے پر لگانے کی تدبیریں اپنی نظیر آپ ہیں ۔
مغربی افکار کے غلبہ کی وجہ سے پیدا ہونے والی گمراہیوں پر جتنا جامع تبصرہ حضرت تھانوی کی کتاب "الانتباھات المفیدة" اور اس کی شرح "حل الانتباھات"میں موجود ہے ، شاید اس کا کوئی ثانی نہیں !
لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ نرا مطالعہ انسان کی زندگی پر اتنا اثر انداز نہیں ہوتا جتنا اثر کسی شخصیت کی صحبت اور اس کے مطالعے سے ہوتا ہے ، نرے مطالعہ سے معلومات میں اضافہ تو ہوجاتا ہے لیکن صحیح فہم ، اعتدال مزاج اور اصلاح نفس شخصیات کی صحبت سے حاصل ہوتی ہے ۔
نہ کتابوں سے نہ کالج سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
(البلاغ ، صفر 1437ھ)

29/06/2025

*دسترخوان جھاڑنا بھی ایک فن ہے*

حضرت مولانا سید اصغر حسین رحمہ اللہ جو "حضرت میاں صاحب" کے نام سے مشہور تھے، بڑے عجیب و غریب بزرگ تھے، ان کی باتیں سن کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے زمانے کی یاد تازہ ہوجاتی، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ان کی خدمت میں گیا.. انہوں نے فرمایا "کھانے کا وقت ھے آؤ کھانا کھالو"
میں ان کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھ گیا، جب کھانے سے فارغ ھوئے تو میں نے دسترخوان کو لپیٹنا شروع کیا تاکہ میں جاکر دسترخوان جھاڑوں تو حضرت میاں صاحب نے میرا ھاتھ پکڑ لیا اور فرمایا "کیا کر رہے ہو؟ "
میں نے کہا "حضرت دسترخوان جھاڑنے جارہا ہوں.."
حضرت میاں صاحب نے پوچھا "دسترخوان جھاڑنا آتا ھے..؟"
میں نے کہا.. "حضرت ! دسترخوان جھاڑنا کون سا فن یا علم ہے جس کے لئے باقاعدہ تعلیم کی ضرورت ہو.. باہر جا کر جھاڑ دوں گا.."
حضرت میاں صاحب نے فرمایا.. "اسی لئے تو میں نے تم سے پوچھا تھا کہ دسترخوان جھاڑنا آتا ہے یا نہیں..؟ معلوم ہوا کہ تمہیں دسترخوان جھاڑنا نہیں آتا..!"
میں نے کہا.. "پھر آپ سکھا دیں.. "
فرمایا.. "ہاں..! دسترخوان جھاڑنا بھی ایک فن ہے.. "
پھر آپ نے اس دسترخوان کو دوبارہ کھولا اور اس پر جو بوٹیاں یا بوٹیوں کے ذرات تھے، ان کو ایک طرف کیا.. اور ہڈیوں کو جن پر کچھ گوشت وغیرہ لگا ہوا تھا اُن کو ایک طرف کیا اور روٹی کے جو چھوٹے چھوٹے ذرّات تھے اُنکو ایک طرف جمع کیا.. پھر مجھ سے فرمایا..
"دیکھو ! یہ چار چیزیں ہیں.. اور میرے یہاں ان چاروں کی علیحدہ علیحدہ جگہ مقرر ہے.. یہ جو بوٹیاں ہیں، ان کی فلاں جگہ ہے.. بلی کو معلوم ہے کھانے کے بعد اس جگہ بوٹیاں رکھی جاتی ہیں وہ آکر ان کو کھالیتی ہے..
اور ان ہڈیوں کےلئے فلاں جگہ مقرر ہے.. محلے کے کتوں کو وہ جگہ معلوم ہے وہ آکر ان کو کھالیتے ہیں..
اور جو روٹیوں کے ٹکڑے ہیں.. اُن کو میں اس دیوار پر رکھتا ہوں.. یہاں پرندے، چیل کوّے آتے ہیں اور وہ اِن کو اٹھا کر کھا لیتے ہیں..
اور یہ جو روٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں.. تو میرے گھر میں چیونٹیوں کا بَل ھے اِن کو اُس بل میں رکھ دیتا ہوں.. وہ چیونٹیاں اس کو کھا لیتی ہیں.. "
پھر فرمایا.. "یہ سب اللہ جل شانہ کا رزق ہے.. اس کا کوئی حصہ ضائع نہیں جانا چاہیئے.. "

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ اس دن ہمیں معلوم ہوا کہ دسترخوان جھاڑنا بھی ایک فن ہے اور اُس کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔

راقم نے عارف باللہ حضرت مرشدی واصف منظور صاحب رحمہ اللہ سے سنا کہ حضرت مولانا سعید احمد خان صاحب مہاجرمدنی رحمہ اللہ کے ہاں بھی اسی طرح دسترخوان کو صاف کیا جاتا تھا۔

29/06/2025

*اکیسویں صدی میں پاکستان کے تعلیمی تقاضے*

میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ درس نظامی کی بیش تر کتابوں کو جوں کا توں رہنا چاہیئے، لیکن آغاز قرآن وحدیث اور عربی زبان وادب سے کرنا چاہیے، البتہ عربی قواعد آسان انداز میں ہوں، پھر اس کے پختہ ہونے کے بعد بہ تدریج فقہ اور اصول فقہ کی تعلیم دی جائے، درمیان میں کہیں منطق، فلسفہ اور علم کلام بھی ہو، لیکن اختتام فقہ، اصول فقہ اور قرآن وحدیث کے خصوصی مطالعے پر ہو، میں یہ نہیں کہتا کہ حنفیت کو چھوڑ دیں یا شافعیت کو نظر انداز کر دیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر چیزقرآن و حدیث کے تابع ہو، اللہ کی کتاب تو ہر چیز کو منسوخ کرنے کے لیے ہے، لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ (۱٦) اس کے فیصلے کے بعد تو ہر کسی کی رائے اور اجتہاد کا دائرہ ختم ہو جاتا ہے، اس خاص رجحان نے جو خطرناک ذہنیت اور سوچ پیدا کی ہے، اسے بہر حال بدلنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور اہم پہلو درس نظامی میں بعض نئے علوم وفنون اور مضامین شامل کرنے کا ہے، آج ان علوم وفنون کی دین کی نشر و اشاعت کے لیے ایسے ہی ضرورت ہے جیسے کبھی یونانی علوم وفنون کی ضرورت تھی۔

(اقتباس: محاضرات تعلیم از ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ)

29/06/2025

*مدارس کا نصاب تعلیم اور مولانا ندویؒ*

خودآپ کا نصاب تعلیم اس حقیقت کا گواہ ہے کہ علماء اسلام نے کسی ضرورت کے تسلیم کرنے اور کسی مفید و ناگزیر چیز کو قبول کرنے میں کبھی پس وپیش نہیں کیا، یہ نصاب عہد بہ عہد تبدیلیوں اور مختلف علمی وعقلی رجحانات کا نمائندہ ہے، اس میں ہردورمیں اضافہ وترمیم ہوتی رہی ہے، صرف یہ سوبرس کا زمانہ ایسا ہے جس میں اس نصاب میں کم سے کم تبدیلی ہوئی ہے حالانکہ یہی زمانہ اپنی سیاسی وذہنی تبدیلیوں کی بنا پر جائز اور ضروری تبدیلیوں کا سب سے زیادہ مستحق ومتقاضی تھا۔"

(خطبات علی میاں جلداول صفحہ65)

Address

Karachi

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mufti Sufyan Buland Official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Mufti Sufyan Buland Official:

Share