
05/07/2025
https://www.facebook.com/share/1CiKMm1Ug9/
میں آج اپکو ایسے شاہکار سے ملانے لگا ہوں کہ شاید کسی اتنی شاندار چیز پہ آج تک ریوو نہیں لکھا میں نے ۔۔۔!!!!
ہم نے بے شمار سیزن دیکھے انکی تعریفوں میں بڑے بڑے تجزیے لکھے مگر ہم نے پاکستان ڈراموں کو نہیں پہچانا کہ کبھی پاکستان میں بھی کیا شاندار چیزیں بنائی جاتی تھی۔ جب ڈرامہ انڈسٹری خواتین لکھاریوں کے ہاتھوں ہائی جیک نہیں ہوئی تھی ۔۔
آج پوری دنیا میں مشہور سیزن اور ڈرامے کتابوں سے اٹھائے جاتے ہیں اور وہ مقبولیت پاتے ہیں ۔۔۔
پاکستان کے مایہ ناز لکھاری شوکت صدیقی نے ناول لکھا 1958 میں خدا کی بستی کے نام سے اور یہ ایسا عظیم ناول ہے کہ اس کے اب تک 50 ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور اس پہ ڈرامہ بنایا گیا 1969 کو، لیکن اس وقت ریکارڈ کا نظام اتنا اچھا نہیں تھا تو ایک بار نشر ہونے کے بعد یہ ڈرامہ وقت کی گرد میں گم ہو گیا۔ !!
۔۔
مگر 1974 کو ذولفقار بھٹو نے پی ٹی وی سے خصوصی فرمائش کی کہ اس ڈرامے کو دوبارہ نشر کیا جائے ۔۔۔
1974 میں اس ڈرامے کو بنایا گیا ۔۔۔
اس بار اداکار بھی بدلے گئے ۔۔۔!!
پھر اسکے بعد یہ ڈرامہ پی ٹی وی پہ پانچ بار نشر ہوا۔ ۔۔!!!
اور اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ پی ٹی وی کو بڑا چینل بنانے میں اس ڈرامے کا سب سے بڑا ہاتھ ہے ۔۔۔!!!
۔۔
ناول کی کہانی کا خلاصہ بیان کرنے لگا ہوں اگر آپ نے یہ ناول پڑھنا ہے یا ڈرامہ دیکھنا ہے تو ادھر سے پڑھنا چھوڑ دیں کیونکہ یہاں سے سپائلر الرٹ ہے ۔۔
۔۔۔
ناول یا ڈرامے کی کہانی پندرہ پندرہ سال کے تین نوجوانوں سے شروع ہوتی ہے ۔۔۔!!!!! ۔
اس ناول کے مرکزی کردار راجا اور نوشہ ہیں جن کی عمر چودہ پندرہ برس ہو گی۔
راجا کا کردار قاضی واجد نے نبھایا ہے۔ وہ اس وقت نو عمر لڑکے ہی تھے ۔۔ اور اب شاید وہ بوڑھے ہو کر وفات پا چکے ہیں ۔۔
مگر نوشا کا کردار ادا کرنے والے بہروز سبزواری آج بھی حیات ہیں حالانکہ ڈرامے میں وہ اس وقت نو عمر تھے مگر آج انکا اپنا بیٹا شہروز ڈراموں فلموں میں ہیرو آتا ہے۔ ۔
خیر ڈرامے کی کہانی کی بات کرتے ہیں ۔۔
غربت کی وجہ سے نوشہ تعلیم حاصل نہیں کر پایا جبکہ راجا ماں باپ کے نہ ہو نے پر تنہا ایک کوڑھی گداگر کے ساتھ رہنے لگا ہے اور کچھ روز تک ایک تیسرا کردار شامی ان کے ساتھ رہتا ہے۔ راجا اپنی بے مقصد زندگی سے اور نوشہ اپنی ماں کی تلخ مزاجی سے تنگ آ کر کراچی چلے جاتے ہیں جہاں وہ مجرم بن جاتے ہیں اور پکڑے جانے پر کراچی کے جیل جانے میں سزا کاٹتے ہیں۔
نوشہ کی بیوہ ماں معاشی تنگی کے باعث نیاز کباڑی سے نکاح کر لیتی ہے۔ نیاز کباڑی بنیاد ی طور پر جعل ساز اور دولت کا حریص انسان ہے جو نوشہ کی ماں سے شادی محض اس لیے کرتا ہے اس کی موت کا منصوبہ میں کامیاب ہو نے کے بعد نوشہ کی جوان الھڑ بہن سلطانہ سے شادی کر یگا۔ اس سلسلے میں وہ ڈاکٹر موٹو سے مدد لیتا ہے اور نوشہ کی ماں کو مستقل زہر کا انجکشن دلوا کر موت کی گھاٹ اُتار دیتا ہے اور سلطانہ کو اپنے قبضے میں کر لیتا ہے۔
ادھر نوشہ جیل سے رہا ہونے کے بعد کراچی سے مایوس ہو کر وطن واپس آتا ہے۔ اور اپنی مان کی قتل اور بہن کی بے حرمتی کی خبر سن کر نیاز کا قتل کر کے جیل چلا جاتا ہے۔
ادھر راجا کراچی جیل میں آتشک کا شکار ہو جاتا ہے اور جیل سے چھوٹنے کے بعد سٹرک پر بھیک مانگنے لگتا ہے۔ اس کہانی میں ایک کردار میونسپل کا بورڈ چیئرمین فرزند علی کا ہے جو سلطانہ کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اپنی طاقت کے بل بوتے پر حاصل کرتا ہے۔
اور اسے طوائف بن کر نئے مردوں کی ہوس کا شکار بننے پر مجبور کرتا ہے۔
ایسے خراب معاشر ے کی اصلاح کے کے لیے ایک رضاکارانہ تنظیم "فلک پیما، تشکیل پاتی ہے۔ اس تنظیم کا سربراہ صفدر بشیر ہے جو دولت مند اور تعلیم یافتہ ہے۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے میں پروفیسر علی احمد، ڈاکٹر زیدی اور نوجوان طالب علم سلمان کی کوشش شامل ہیں۔ ان لوگوں کی فلاحی کاموں میں بڑھتی ہو ئی شہرت کو خان بہادر فرزند علی اپنے مجرمانہ اور سازشی کاموں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، غنڈوں کے ذریعہ فلک پیما کی مرکزی عمارت کو جلا دیتا ہے۔ اور فلک پیما کی تحت تعمیر ہونے والے اسپتال کی جگہ پر خان بہادر فرزند علی کے اشارے پر مسجد تعمیر کروا کر عوام کا دل جیت لیتے ہیں، اس معاشرے کے پروردہ سبھی لوگ جائز و ناجائز طریقے پر دولت کما کر راتوں رات، دولت مند اور معزز و معتبر کہلانا چاہتے ہیں۔
شوکت صدیقی کو میں پڑھ کر حیران ہو گیا ہوں انکو کیوں ویسا ادبی مقام نہیں دیا جاتا جیسا قدرت اللہ شہاب اشفاق احمد ممتاز مفتی یا مستنصر حسین کو دیا جاتا ہے ۔۔۔
شوکت صدیقی بہت انڈر ریٹڈڈ ہیں ۔۔۔
مگر انکا لکھا ہوا آج بھی ستر سال بعد ویسے کا ویسا اپلائی محسوس ہوتا ہے جیسے انہوں نے 2025 کے کرداروں کی کہانیاں لکھی ہیں ۔۔۔۔!!!!
یہ سب سے بڑے رائٹر کی خوبی ہوتی ہے۔ !!! کہ اسکا لکھا ہر زمانے میں اپلائی ہو سکے ۔۔!!
۔۔
مستنصر حسین تارڑ کے ناول پیار کے پہلے شہر کو بہت مقبولیت دی جاتی ہے اور تعریفوں کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں لیکن اگر میں آپکو فلمی زبان میں سمجھاؤں ۔۔۔
تو مستنصر حسین کا ناول پیار کا پہلا شہر کرن جوہر کی فلم جیسا ہے اور شوکت صدیقی کے ناول کرسٹوفر نولن کی فلموں کے جیسے ماسٹر پیس ہیں ۔۔
۔۔
اور میں پہلی فرصت میں اب شوکت صدیقی کی باقی کتب منگوانے کی کوشش کروں گا ۔۔۔❤️
ملک اسود / Film Walay فلم والے